ابن انشا نظم-فردا

علی فاروقی

محفلین
ہاری ہوئی روحوں میں
اِک وہم سا ہوتاہے
تم خود ہی بتادو نا
سجدوں میں دھرا کیا ہے
امروز حقیقت ہے
فردا کی خدا جانے
کوثر کی نہ رہ دیکھو
ترساو نہ پیمانے
داغوں سے نہ رونق دو
چاندی سی جبینوں کو
اُٹھنے کا نہیں پردا
ہے بھی کہ نہیں فردا
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فاروقی صاحب۔ یہاں دیکھیے گا شاید دھرا ہونا چاہیے۔
سجدوں میں دھر کیا ہے
اور اس مصرع میں شاید پردہ کی بجائے پردا ہونا چاہیے۔
اُٹھنے کا نہیں پردہ
 
ہاری ہوئی روحوں میں
اِک وہم سا ہوتاہے
تم خود ہی بتادو نا
سجدوں میں دھرا کیا ہے
امروز حقیقت ہے
فردا کی خدا جانے
کوثر کی نہ رہ دیکھو
ترساو نہ پیمانے
داغوں سے نہ رونق دو
چاندی سی جبینوں کو
اُٹھنے کا نہیں پردا
ہے بھی کہ نہیں فردا
سبحان اللہ
 
Top