درد لازم ہے کسی سے دل لگانے کے لیے۔۔۔۔۔عبدالعزیز راقم

راقم

محفلین
السلام علیکم، اساتیذ کرام!
ایک اور غزل بغرض ملاحظہ و اصلاح پیش ہے:

درد لازم ہے، کسی سے دل لگانے کے لیے
کچھ تو ہونا چاہیے، گھر کو سجانے کے لیے

آشیانہ ہم جلا ڈالیں گے اپنے ہاتھ سے
کیا ضرورت بجلیوں کی آشیانے کے لیے

مر بھی جائیں تونہ کھولیں گے کبھی اپنی زباں
قتل کر کے دیکھ لو تم، آزمانے کے لیے

ایک مدّت ہو گئی جی بھر کے میں رویا نہیں
آ ذرا اک بار پھر، مجھ کو رلانے کے لیے

بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے

وہ سمجھتے ہیں کہ خوشیاں ہیں سبھی حاصل ہمیں
مسکرا لیتے ہیں جو غم کو بھلانے کے لیے

راز سے پردہ اٹھانا تو کوئی مشکل نہ تھا
ہم کسے الزام دیتے، دل دُکھانے کے لیے

تم اگر مجھ سے خفا تھے، گفتگو لازم نہ تھی
آ تو جاتے تم، زمانے کو دِکھانے کے لیے

کیوں بھلا تم دیکھتے ہو پیچھے مڑ کر بار بار
کون آئے گا تمھیں راقم ،بُلانے کے لیے
 

الف عین

لائبریرین
اوزان کے حساب سے درست غزل ہے، سوائے اس شعر کے
بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے
پہلے مصرع میں ’بھول‘ وزن میں آتا ہے، اور اگر یہ لفظ بھی استعمال کیا جائے تو مفہوم میں شاید کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسرے مصرع میں ’نہ‘ 2 کی شکل میں آ رہا ہے، جب کہ اس کا وزن 1 ہوتا ہے، طویل نہیں۔ حالانکہ وارث اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی نہ بر وزن ’نا‘
 

راقم

محفلین
اگر اس طرح کر لیا جائے تو کیسا رہے گا؟

اوزان کے حساب سے درست غزل ہے، سوائے اس شعر کے
بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے
پہلے مصرع میں ’بھول‘ وزن میں آتا ہے، اور اگر یہ لفظ بھی استعمال کیا جائے تو مفہون میں شاید کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسرے مصرع میں ’نہ‘ 2 کی شکل میں آ رہا ہے، جب کہ اس کا وزن 1 ہوتا ہے، طویل نہیں۔ حالانکہ وارث اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی نہ بر وزن ’نا‘

بھول کر میں روٹھ بھی جاوں مگر معلوم ہے ("و" پر ہمزہ نہیں لکھا جا رہا
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے

( "نہ" اگر چل ہی جائے تو بہتر ہے۔ ایک حرف کی تو اجازت دے دیجیے۔
 

الف عین

لائبریرین
اب تم بھی وارث کا ساتھ دینا چاہو تو مجھے کیا اعتراض ہے؟
’ؤ‘ محفل کے کی بورڈ پر شفٹ ڈبلیو پر ہے، یعنی و، ؤ دونوں وہاں ہی ہیں۔
 

راقم

محفلین
استاذِ محترم، گستاخی معاف۔ اس مصرعے میں آپ ہی درستی فرما دیجیے۔

اب تم بھی وارث کا ساتھ دینا چاہو تو مجھے کیا اعتراض ہے؟
’ؤ‘ محفل کے کی بورڈ پر شفٹ ڈبلیو پر ہے، یونی و، ؤ دونوں وہاں ہی ہیں۔

السلام علیکم، استاذِ محترم!
مجھے پتا نہیں کہ محترم وارث صاحب ہائے مختفی کو نہ گرانے کے حق میں ہیں یا نہیں لیکن میں اس مصرعے کو درست نہیں کر پا رہا ہوں۔اگر آپ ہی مہربانی کر کے مصرعے کو یا پورے شعر کو ہی تبدیل فرما دیجیے۔میں نے کافی مغز کھپائی کی لیکن کچھ پتا نہیں چلتا۔
"ؤ" کے بارے میں رہنمائی کا شکریہ ۔
میں نے اپنی پہلے بھیجی ہوئی غزلوں کو بھی فونٹ سٹائل اور سائز تبدیل کرنے کے بعد دوبارہ پوسٹ کر دیا ہے ان کو بھی ایک نظر دیکھ لیجیے گا۔ اگر کہیں کوئی سقم نظر آیا تو بتا دیجے گا تاکہ اسے درست کر لوں۔
اب شاید آپ کو میری غزلیں اپنے ڈیفالٹ فونٹ میں ہی نظر آ رہی ہوں گی۔ میں نے ڈیفالٹ فونٹ "علوی نستعلیق" رکھا ہوا ہے۔
آپ کی باقاعدگی نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔
والسلام
آپ کی دعاؤں کا طالب
 

الف عین

لائبریرین
میری باقاعدگی؟ ذرا واضح کریں۔
ہاں
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے
کو یوں کیا جا سکتا ہے، اس سے تاثر بھی بڑھ جاتا ہے۔
وہ کبھی کیوں آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب راقم صاحب۔
ویسے کافی نئے شعرا اور عروضی نہ ک بر وزن فع باندھتے ہیں، میں بھی باندھا کرتا تھا مگر استادِ محترم عبید صاحب اسے اچھا نہیں سمجھتے سو پرہیز کرا ہی بہتر ہے۔ شکریہ۔
 

راقم

محفلین
اوزان کے حساب سے درست غزل ہے، سوائے اس شعر کے
بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے
پہلے مصرع میں ’بھول‘ وزن میں آتا ہے، اور اگر یہ لفظ بھی استعمال کیا جائے تو مفہوم میں شاید کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسرے مصرع میں ’نہ‘ 2 کی شکل میں آ رہا ہے، جب کہ اس کا وزن 1 ہوتا ہے، طویل نہیں۔ حالانکہ وارث اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی نہ بر وزن ’نا‘

استاذِ محترم، آپ کا اعتراض سر آنکھوں پر۔

"بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے"


اس شعر کو اگر ایسے کر دیا جائے تو ٹھیک رہے گا؟

"بھول کر میں روٹھ بھی جاؤں،مگر معلوم ہے
وہ بھلا کب آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے"


آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے

دوسرے مصرعے کو ایسے بھی کیا جا سکتا ہے راقم صاحب

بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ نہ آئیں گے کبھی مجھ کو منانے کے لیے

اس سے "آئیں" کی جو یہ گرانی پڑ رہی ہے اس سے بھی نجات مل سکتی ہے۔
 

راقم

محفلین
استاذ محترم کا انٹرویو

میری باقاعدگی؟ ذرا واضح کریں۔
ہاں
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے
کو یوں کیا جا سکتا ہے، اس سے تاثر بھی بڑھ جاتا ہے۔
وہ کبھی کیوں آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے

اُستاذِ محترم، السلام علیکم!
گزشتہ رات میں گھومتے پھرتے انٹر ویو کے سیکشن میں پہنچا۔ وہاں آپ کے انٹر ویو کی تحریر پڑھی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں سمجھ رہا تھا کہ شاید آپ کی زندگی زیادہ مصروف نہ ہو لیکن انٹر ویو پڑھنے کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا کہ اتنی ذمہ داریاں اور ان کو بطریقِ احسن نبھانا ،پھر اردو کی خدمت جیسا عظیم کام، انٹر نیٹ پر اپنے شاگردوں کی رہنمائی اور نہ جانے کیا کیا؟
دوسرا آپ کا محفل میں آکر مختلف پوسٹوں کو باقاعدگی سے چیک کر کے ان کے جواب دینا۔ میرا تو دماغ گھومنے لگا۔ بس یہ ہے اجمالی خاکہ آپ کی باقاعدگی کا۔
"میری تمام دوستوں سے اپیل ہے کہ استاذ محترم کا انٹر ویو ایک دفعہ ضرور پڑھیں۔ اور اس سے سبق حاصل کریں"۔
 

راقم

محفلین
اچھی طرح صحت یاب ہو جانے کے بعد رہنمائی کر دیجیے گا۔

بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ کبھی نہ آئیں گے مجھ کو منانے کے لیے

دوسرے مصرعے کو ایسے بھی کیا جا سکتا ہے راقم صاحب

بھولے سے میں روٹھ بھی جاؤں مگر معلوم ہے
وہ نہ آئیں گے کبھی مجھ کو منانے کے لیے

اس سے "آئیں" کی جو یہ گرانی پڑ رہی ہے اس سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

شروع کے تین اشعار اور ساتواں شعر اچھے ہیں، دیگر اشعار بہتری چاہتے ہیں۔

قابلِ احترام وارث صاحب، السلام علیکم!
پہلی دعا تو یہ ہے کہ اللہ آپ کو صحت دے۔ آپ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے تشریف نہیں لائے۔رو بہ صحت ہونے کے بعد باقی اشعار کے اسقام کے بارے میں بھی بتا دیجیے گا۔
فی الحال متذکرہ بالا شعر کا پہلا مصرع محترم اعجاز صاحب اور دوسرا مصرع آپ کی رہنمائی سے تبدیل کر دیا ہے۔ اب شاید اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں ہو گی۔

بھول کر میں روٹھ بھی جاؤں، مگر معلوم ہے
وہ نہ آئیں گے کبھی، مجھ کو منانے کے لیے
 

محمد وارث

لائبریرین
باقی اشعار، اشعار برائے اشعار ہیں راقم صاحب، نہ کوئی ندرتِ خیال ہے، نہ کوئی زبان کا دلچسپ محاورہ۔

مرزا غالب کے نزدیک شاعری فقط خیال آفرینی ہے لیکن بعضے ایسے نہیں سمجھتے مثلاً داغ کہ زبان کو ایسے چٹخارے اور دلچسپی سے استعمال کیا ہے کہ گھسے گھسائے صدیوں پرانے مضامین بھی لطف دے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے داغ، غالب کی صف میں کھڑے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ کہ یا تو شعر میں یا تو کوئی انوکھا یا اچھوتا خیال ہو، یا کچھ زبان کا مزہ ہو تو بات بنتی ہے!
 

مغزل

محفلین
شکراً سیدی ، وارث صاحب کو تو لگتا ہے اب سیّاں لکوٹ جا کر ہی منا پڑے گا، کہ صاحب بستر کی جان چھوڑ دیں۔ (علالت کی وجہ سے پھر غائب ہیں )
 

مغزل

محفلین
اب تم بھی وارث کا ساتھ دینا چاہو تو مجھے کیا اعتراض ہے؟

نہ کے معاملے میں گرچہ وارث صاحب کی بات اپنی جگہ مسلم ، مگر میں اس معاملے میں آپ کے نقشِ قدم پر ہوں کہ ہمارے ہاں اساتذہ نہ کو نا باندھنے کی بجائے ’’ نے ‘‘ پر زور دیتے ہیں ۔ راقم صاحب اگر وارث صاحب کی طرف ہوئے تب بھی جمہوریت قائم رہے گی ۔:battingeyelashes: :blushing:
 
Top