قران کریم طریقہء نماز کیسے تعلیم فرماتا ہے

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
فاروق سرور صاحب ، شکریہ ادا کرنے پر شکریہ قبول فرمایے ،
آپ کی مطلوبہ معلومات کے سلسلے میں بھتیجے عبداللہ حیدر نے کافی کام کیا ہے ، کبھی کبھی اُن کی موجودگی یہاں ظاہر ہوتی ہے پس میں ان سے گذارش کروں گا کہ انہوں نے نماز نبوی علی صاحبھا الصلوۃ و السلام کے طریقہ کے بارے میں جو کچھ تیار کیا ہے اسے یہاں محفل میں ایک الگ دھاگے کی صورت میں نشر کریں ، اللہ ان کو جزائے خیر سے مالا مال فرمائے ،

بہت ہی شکریہ رسول اکرم کی اس سنت جاریہ پر ریسرچ کا۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ضرور کیا ہوگا۔۔۔ اس کے لئے آپ کا اور عبداللہ حیدر صاحب کا شکریہ۔۔۔۔ جو کچھ صحیح‌ سنت رسول ہے اس پر تو کوئی اعتراض ہی نہیں اس پر سر تسلیم خم ہے۔ مجھے انتظار رہے گا۔ ( مخلصاً عرض کررہا ہوں)۔


والسلام
 
color]

اگر کوئی شخص کسی نماز پڑھنے والے کی سامنے سے گذرے تو اس کو روکو، اگر وہ نہ رکے تو اس کو قتل کردو کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے۔ (بخاری ج/1، ص/68)

مسجدوں میں ایک بندوقچی یا تلوار بردار چوکیدار کی ضرورت ہے ، جو سامنے سے گذرنے والوں کو قتل کردیا کرے ۔۔۔ ؟؟؟؟


[/color]
سلام علی من اتبع الھدی،
میں دخل اندازی کر کے ربط کلام خراب نہیں کرنا چاہتا، چچا عادل سہیل طریقہ نماز کے بارے میں آپ کے مضمون کا تجزیہ مکمل کر لیں تو تازہ اعتراضات پر بھی بات ہو سکتی ہے ان شاء اللہ۔ قارئین نوٹ کرتے چلیں کہ حدیث میں اصل لفظ "فلیقاتلہ" ہے جس کا ترجمہ "اس کو قتل کر دو" کیا گیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ پھر ذاتیات پر حملے کا ایشو کھڑا کر دیا جائے گا لیکن کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جو شخص "فلیقتلہ" اور فلیقاتلہ" میں فرق نہ کر سکتا ہو اسے حدیث پر بے سروپا اعتراض کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ایشو تو یہاں اور بھی بہت سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ موضوع پر رہ کر بات کریں۔
 
السلام علی من یتبع الھُدیٰ ،
جناب فاروق سرور صاحب ،
آپ کے مراسلہ رقم ۱۰۰ کے بارے میں ایک گذارش ہے کہ اس کے لیے ایک الگ دھاگہ کھول لیجیے اور اس میں جو احادیث آپ نے ذکر کی ہیں ان کا عربی متن بھی نقل فرما دیجیے ، تا کہ یہاں ہم لوگ آپ کے بیان کردہ قرانی طریقہ نماز پر ہی بات کریں ، ان شا ء اللہ آپ کے مراسلہ رقم ۱۰۰ میں لکھے ہوئے اعتراضات کا بھی مکمل علمی جواب دیا جائے گا ، جی صرف علمی بات ہو گی ، ان شاء اللہ ،
اگر آپ مجھ جیسے عام مسلمانوں پر طنز والی بات کریں گے تو بھی میری کوشش ہو گی کہ میں اس طنز کا جواب طنز سے نہ دوں ان شاء اللہ ،
لیکن اگر آپ مسلمانوں کے اماموں اور علماء پر طنز کریں گے تو ان شاء اللہ مجھے بھی مجبورا کچھ ایسا لکھنا پڑے گا جو شاید آپ کو ذاتیات میں محسوس ہونے لگے ،
ایک لمبی مدت تک آپ سے گفتگو کرتے ہوئے میں اللہ کے اس حکم پر عمل پیرا رہا ہوں و للہ الحمد اور اب بھی اسی پر عمل پیرا رہنا چاہتا ہوں ،
((((( ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ))))) سورت النحل/ آیت ۱۲۵ ،
اور آپ سے بھی امید کرتا ہوں کہ آپ اس کا خیال رکھیں گے کہ اپنے اعتراضات میں صرف نصوص ذکر کریں ، و السلام علی من یتبع الھُدیٰ ،

 
صاحب میں ترجمہ نہیں کرتا۔ کٹ‌پیسٹ کرتا ہوں۔ آپ سب کے لئے توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ جس دام سرخ روایت بکتی ہے اسی دام سبز روایت بکتی ہے۔ دونوں‌اکی دوسرے کے متضاد ہیں۔ جو غیر مسلم یہاں نئے نئے مسلمان ہوتے ہیں اور وہ پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں ۔۔ ان کو سب کچھ ایک نشست میں گھول کر نہیں پلایا جاسکتا۔ جبکہ یہ پڑھے لکھے بھی ہیں۔ یہ آپ میں سے کسی پر بھی اعتراض نہیں ہے ۔ جب ان تک یہ کتب روایات پہنچتی ہیں --- اس کی سب سے بڑی سائیٹ آج کل یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کی ویب سائیٹ ہے، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ان کو نماز سیکھنے کے لئے اس قسم کی ریسرچ کے گورکھ دھندے سے گذارا جائے؟؟

ہم نے یہاں قرآن سے اللہ تعالی کے احکامات سے شروع کیا اور دیکھا کہ ہم ان میں سے کتنے احکامات کی نماز میں تعمیل کرتے ہیں۔ قرآن کے احکامات کا مقابلہ اس قسم کی مضاد روایات سے کیجئے۔

کیا ہم کو اس مقابلہ میں‌ خلاف قرآن اور موافق القرآن روایات نظر آتی ہیں ؟؟؟؟

اگر ہاں تو صاحب سوچنے کا مقام ہے کہ ان دونوں‌کی ایک ہی قیمت ہونی چاہئیے ؟ یعنی دونوں قسم کی روایات ‌کو ایک ہی کتاب میں‌لکھ کر شائع کرنا درست ہے؟

اب اصحاب ان پر صحیح اور ضعیف کی مضراب سے جھنکا کر دیکھیں گے کہ کونسا اصل تانبہ ہے ۔۔۔۔ لیکن یہاں تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری جس کا ضعف تو پہلے ہی نکالا جاچکا ہے سے حوالے دئے ہیں ۔

میر اخیال ہے کہ ہم سب کو کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر قرآن حکیم پڑھنے کی۔۔۔۔

والسلام
 
اقتباس:
لیکن اگر آپ مسلمانوں کے اماموں اور علماء پر طنز کریں گے تو ان شاء اللہ مجھے بھی مجبورا کچھ ایسا لکھنا پڑے گا جو شاید آپ کو ذاتیات میں محسوس ہونے لگے

بزرگوں اور اماموں پر طنز میں نہیں کرتا۔ جو کچھ مراسلہ نمبر 100 میں‌لکھا ہے ، اس میں سے وہ تمام جو خلاف قرآن ہے ہمارے بزرگ اور امام لکھ ہی نہیں سکتے۔ آج تک کوئی بھی شخص مناسب طور پر سمجھے بغیر نا بزرگوں مٰن شمار ہوا ہے اور نہ ہی اماموں میں ۔۔ کسی بھی بزرگ یا امام سے کچھ بھی منسوب کرنے کے لئے ضروری بلکہ لازمی ہے کہ اس کی اصل کتاب کا حوالہ دیجئے۔ ورنہ ان سب کتب کو بھی امتداد زمانہ کا شکار سمجھئے۔

زیادہ ضد اچھی نہیں کچھ عقل و خرد کی آنکھ سے دیکھئے صاحب۔
 
اقتباس:
آپ کے مراسلہ رقم ۱۰۰ کے بارے میں ایک گذارش ہے کہ اس کے لیے ایک الگ دھاگہ کھول لیجیے اور اس میں جو احادیث آپ نے ذکر کی ہیں ان کا عربی متن بھی نقل فرما دیجیے ، تا کہ یہاں ہم لوگ آپ کے بیان کردہ قرانی طریقہ نماز پر ہی بات کریں

کچھ عرصہ پہلے جب قرآن کی آیات کا کوئی بھی چھپا ہوا ترجمہ پیش کرتا تھا تو بھائی لوگ یہی اعتراض کرتے تھے کہ --- اجی ، آپ نے کونسا ترجمہ پڑھ لیا؟؟؟؟ تو اس کا علاج میں نے یہ نکالا کہ تمام بڑے ترجمہ ایک جگہ رکھ دیے کہ کیا اتنے سارے مترجمین سب کے سب غلط ہیں۔

عرض یہ ہے کہ ترجمہ کے پیچھے چھپنے کا گر اور حربہ بہت ہی پرانا ہو چکا ہے ۔۔ صاف اور سیدھی بات پر غور کیجئے۔ ان روایات میں سے ایک سیٹ‌من گھڑت، غلط اور خلاف قرآن ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کا اصرار اس وقت نا میں ہو۔ اس کی وجہ صرف اور صرف معلومات اور مطالعہ کی کمی ہے۔ لہذا مزید بحث کے بجائے ، پڑھتے رہنے کا مشورہ دوں گا۔

یہ طنز نہیں۔ ضرورت ہے مزید تدبر کی ۔ وقت لگانے اور سوچنے اور سمجھنے کی، قرآن کے نظام کی مقصدیت کی۔

میں تو فقط طالب علم قرآن ٹھیرا۔۔۔۔ ان ترجموں کے چکر میں‌نہیں پڑتا، مجھے تو بہت ہی کم توانائی صرف کرکے نظر آجاتا ہے کہ ایک روایت دوسری کے متضاد ہے ۔۔۔۔ رہا سوال اس معاملہ کو الگ الگ کرنے کا تو بھائی ۔۔ بہت ہی سادہ سے سوالات کرتا رہا ہوں۔۔

1۔ اس دھاگہ میں فراہم کردہ کس کس احکام کی تعمیل نماز میں نہیں‌کی جاتی ؟
2۔ روایات کے اس تضاد کے باوجود یہ دعوی کیوں ہے کہ نماز کا طریقہ کتب روایات میں ہی ہے؟

میرا خیال ہے کہ اب بہت بحث ہوگئی۔۔۔۔ یہ ھقیقت تو چوراہے (‌فورم)‌ میں پھوٹ چکی ہےکہ باوجود دعوے کے نماز کا طریقہ کتب روایات میں نہیں ملتا۔۔ اگر کچھ ملتا ہے تو متضاد بیانات، ایسے بیانات کے جن کو قرآن حکیم کے نور کے سامنے رکھنے سے یہ مٹضاد بیانات خود ہی جل اٹھتے ہیں ۔۔۔۔

والسلام
 
السلام علی من یتبع الھدیٰ ،
جناب فاروق سرور صاحب ، اگر آپ تجموں کے چکر میں نہیں پڑتے تو کیا آپ خود اتنی عربی جانتے ہیں کہ براہ راست اصل کتابوں میں سے عربی متن پڑھ کر ان کا ترجمہ لکھ کر اعتراضات وارد کر سکیں ؟؟؟
تقیریباً پچھلے پونے دو سال سے آپ کے ساتھ جو گفتگو ہو رہی ہے اس کے مطابق اس سوال کا جواب """ یقیناً نہیں """ ہے ،
جناب آج تک آپ نے ہمیں """" خلاف قران """ کی کوئی ایسی تعریف نہیں بتائی جس کی خود آپ نے کبھی مخالفت نہ کی ہو اور نہ کبھی کریں """ اور نہ ہی جناب جن احادیث پر اعتراض کر رہے ہیں ان کا اصل متن پیش کر سکتے ہیں ،
فاروق صاحب ، معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ خود ترجمانی کے صلاحیت نہیں رکھتے اور ترجموں کے چکر میں نہیں پڑتے تو پھر جناب جو ترجمے لکھتے ہیں ان کے بارے میں کیا سمجھا جائے !!!
فاروق صاحب پہلے تو آپ کے بیان کردہ قرانی طریقہ ء نماز کا جائزہ مکمل کر لوں اس کے بعد آپ کے مراسلہ رقم ۱۰۰ کا جواب بھی دوں گا ان شاء اللہ ،
لیکن صرف اس صورت میں کہ اگر آپ ترجموں کے ساتھ ان احادیث کا اصل عربی متن بھی پیش کریں جن کے ادھورے تراجم پر آپ نے اعتراضات وارد کیے ہیں ، ورنہ بالکل سیدھی اور منطقی بات یہ بنتی ہے کہ آپ جان بوجھ کر احادیث مبارکہ کے بارے میں شکوک پھیلانا چاہتے ہیں ،
جناب کیا آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کتب احادیث میں نماز کا طریقہ نہیں ہے ؟؟؟؟؟
آپ نے ابھی خود لکھا ہے کہ مزید تدبر کی ضرورت ہے اور کچھ وقت لگانے کی ضرورت ہے ، تو جناب کچھ وقت لگا کر کتب احادیث کا مطالعہ کر لیجیے ، اور چونکہ آپ ترجموں کے چکر میں نہیں پڑتے اس لیے یقینا اصل عربی کتب کا ہی مطالعہ کریں گے ، اس کے بعد بھی اگر آپ کو کتب احادیث میں نماز کا طریقہ نظر نہ آئے تو بتایے گا ، کچھ وقت لگایے اور تدبر فرمایے ،
و السلام علی من یتبع الھُدایٰ ۔

 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
قارئین کرام ،
اس دھاگے کے عنوان """ قران کریم طریقہء نماز کیسے سکھاتا ہے """" کے مطابق صاحبء مضمون نے قران پاک کی مختلف آیاتء مبارکہ کو جس طرح عنوان میں مذکور اپنے فلسفے کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اس کا تجزیہ پیش کر رہا تھا کہ درمیان میں صاحبء مضمون کی طرف سے کچھ اور ایسی باتیں کر دی گئیں جن کا جواب دینا ضروری تھا ، اور الحمد للہ ان کا جواب فی الحال مکمل ہوا ، لہذا اب ان شاء اللہ میں اس تجزے کی طرف واپس آتے ہوئے اس کو مکمل کرتا ہوں ،
اس تجزیے کے پہلے دو حصے """ مراسلہ رقم ۸۰ """ ، اور """ مراسلہ رقم ۸۱ """" میں ہیں اس تیسرے حصے کے مطالعہ سے پہلے ان کا مطالعہ کر لیا جانا ان شاء اللہ زیادہ خیر کا سبب ہو گا ،
ان دو مراسلات کے تسلسل میں ہی اگلی بات یہ کہ :::
سورت الحج کی آیت رقم 37 کے بعد صاحبء مراسلہ نے اپنے فلسفے کے مطابق نماز کا طریقہ قران میں سے بتاتے ہوئے نماز میں تکبیر کا حُکم ثابت کرنے کے کی کوشش میں اگلے ثبوت کے طور پر سورت العنکبوت کی مندرجہ ذیل آیت مبارکہ اور اس کا مندرجہ ذیل ترجمہ پیش کیا :::
((((( اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّالصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُاللَّهِ أَكْبَرُوَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ::: (اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحیبھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سےروکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتاہے جو تم کرتے ہو)))))
صاحبء مراسلہ کی عربی زبان سے واقفیت تو معروف ہے لیکن افسوس کہ اپنے ہی """ کاپی پیسٹ """ ترجمے کو بھی سمجھ نہ پائے ، (براہ مہربانی اس بات کو ذاتیات کے زمرے میں نہ سمجھا جائے ، یہ صاحبء مراسلہ کی علمی استطاعت کا ذکر ہے جیسا کہ وہ خود اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ترجموں کے چکر میں نہیں پڑتے لہذا نہ تو وہ خود ترجمہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ترجموں کے چکر میں پڑتے ہیں بس ایسی لا علمی کی حالت میں وہ """ خلاف قران """ فلسفوں کو قران پاک کی آیاتءِ مُبارکہ کی آڑ میں نشر کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں ) جی تو صاحبء مراسلہ کے اپنے ہی """ کاپی پیسٹ """ کیے ہوئے ترجمے میں بڑی وضاحت سے یہ کہا گیا ہے کہ """ اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے """نہ کہ نماز میں تکبیر کہنے کا حکم دیا جا رہا ہے یا اس کا طریقہ بتایا جا رہا ہے ،
الحمد للہ یہاں بڑی اچھی وضاحت میسر ہوتی ہے کہ صاحبء مراسلہ اپنی """ کاپی پیسٹ """ والی عادت کی بنا پر اور الفاظ کی مشابہت کی بنا پر الفاظ """ سرچ """ کر کے """ کاپی پیسٹ """ کر دیتے ہیں لیکن انہیں سمجھتے نہیں کہ کون سی بات کس طرح کہی گئی ہے ، اور """ کٹ پیسٹ """ کا الزام مجھ پر لگاتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد صاحبء مراسلہ نے اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کے مطابق قران میں سے نماز کا طریقہ بتانے کے زعم میں اسی طرح ایسے اعمال جو کہ نماز میں بھی کیے جاتے ہیں ، کے ناموں والے الفاظ کے ذکر والی آیات """ سرچ """ کر کے حسب سابق ان کو سمجھے بغیر """ کاپی پیسٹ """ کر دیا ،
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو ان کا تجزیہ بھی پیش کروں گا ، تا کہ صاحبء مراسلہ کی """ خلاف قران """ قران فہمی مزید واضح ہو جائے ، باذن اللہ ، و السلام علیکم ۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،

محترم قارئین کرام ، نماز کا طریقہ قران پاک میں ثابت کرنے کی کوشش میں صاحب ء مضمون نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ، سورتوں کے نزول کے زمانے اور آیات کے سبب ء نزول اور سیاق و سباق کا کوئی خیال رکھے بغیر اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے کلام پاک میں معنوی تحریف جاری رکھتے ہوئے ایک اورذیلی عنوان لکھا اور اُس میں ایک آیت کا ترجمہ یوں نقل کیا :::

نماز زبان سے کیسے ادا کی جائے، اس کی تعلیم:
سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:17 , آیت:110 فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں، اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ کا ذکر میں پہلے مراسلہ رقم 80 میں لکھ چکا ہوں کہ :::
""""""" ((((( قُلِ ٱدْعُواْ ٱللَّهَأَوِ ٱدْعُواْ ٱلرَّحْمَ۔ٰنَ أَيّاً مَّا تَدْعُواْ فَلَهُ ٱلأَسْمَآءَ ٱلْحُسْنَىٰوَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَٱبْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَسَبِيلاً ::: ( اے محمد ) آپ فرما دیجیے کہ اللہ (کہہ کر) پکارو یا رحمٰن کہہ کر جسنام سے بھی پکارو اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں ، اور (اے محمد) آپ اپنی نماز میںاونچی آواز میں قرأت مت کیجیے اور نہ ہی اسے بہت زیادہ نیچی آواز میں ، اور اندونوں باتوں کے درمیان والا راستہ اپنایے)))))
بڑی وضاحت سےسمجھ آرہا ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ اور اس کے بعد والی آیت مبارکہ نازل ہوئیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُس سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے،اور اللہ تعالیٰ انہیں نمازمیں قرأت کے انداز کے بارے میں ایک حکم فرما رہا ہے،"""""""
اور اب مزید کہتا ہوں کہ اگر اس آیت مبارکہ میں نماز کو زُبان سے ادا کرنے کا حکم نازل ہوا ہے ، اور زُبان سے ادائیگی کا طریقہ بتایا گیا ہے تو صاحبء مضمون صرف یہ بتا دیں کہ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کس طرح پڑھا کرتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اب اگر صاحبء مضمون سابقہ انبیاء علیہ السلام کی نمازوں کا ذکر کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نماز کو اُن انبیاء علہھم السلام کی نماز کے طریقے کے مطابق بتانے کی کوشش کریں تو انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ وہ طریقہ نماز کیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تک کیسے پہنچا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ روایات کی بنا پر ؟؟؟ یا وحی کی بنا پر ؟؟؟
اور کیا ہی بھلا ہو کہ صاحبء مضمون یہ بھی بتا دیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ حکم کہاں اور کیوں نازل فرمایا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مجھے خوب اندازہ ہے کہ ان شاء اللہ ان میں سے کسی سوال کا کوئی علمی مدلل جواب نہیں دیا جائے گا ، بلکہ حسب """ دستور """ وہی پرانے فلسفے دہرا کر بات کو بدلنے کی کوشش کی جائے گی ،
اِن شاء اللہ میں صاحبء مضمون کی طرف سے علمی مدلل جوابات کا منتظر رہوں گا ، و السلام علی من یتبع الھُدیٰ۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
قارئین کرام ،
اس دھاگے کے عنوان """ قران کریم طریقہء نماز کیسے سکھاتا ہے """" کے مطابق صاحبء مضمون نے قران پاک کی مختلف آیاتء مبارکہ کو جس طرح عنوان میں مذکور اپنے فلسفے کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اس کا تجزیہ پیش کر رہا تھا کہ درمیان میں صاحبء مضمون کی طرف سے کچھ اور ایسی باتیں کر دی گئیں جن کا جواب دینا ضروری تھا ، اور الحمد للہ ان کا جواب فی الحال مکمل ہوا ، لہذا اب ان شاء اللہ میں اس تجزے کی طرف واپس آتے ہوئے اس کو مکمل کرتا ہوں ،
صاحبء مراسلہ کی عربی زبان سے واقفیت تو معروف ہے لیکن افسوس کہ اپنے ہی """ کاپی پیسٹ """ ترجمے کو بھی سمجھ نہ پائے ، (براہ مہربانی اس بات کو ذاتیات کے زمرے میں نہ سمجھا جائے ، یہ صاحبء مراسلہ کی علمی استطاعت کا ذکر ہے جیسا کہ وہ خود اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ترجموں کے چکر میں نہیں پڑتے لہذا نہ تو وہ خود ترجمہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ترجموں کے چکر میں پڑتے ہیں بس ایسی لا علمی کی حالت میں وہ """ خلاف قران """ فلسفوں کو قران پاک کی آیاتءِ مُبارکہ کی آڑ میں نشر کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں ) جی تو صاحبء مراسلہ کے اپنے ہی """ کاپی پیسٹ """ کیے ہوئے ترجمے میں بڑی وضاحت سے یہ کہا گیا ہے کہ """ اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے """نہ کہ نماز میں تکبیر کہنے کا حکم دیا جا رہا ہے یا اس کا طریقہ بتایا جا رہا ہے ،
الحمد للہ یہاں بڑی اچھی وضاحت میسر ہوتی ہے کہ صاحبء مراسلہ اپنی """ کاپی پیسٹ """ والی عادت کی بنا پر اور الفاظ کی مشابہت کی بنا پر الفاظ """ سرچ """ کر کے """ کاپی پیسٹ """ کر دیتے ہیں لیکن انہیں سمجھتے نہیں کہ کون سی بات کس طرح کہی گئی ہے ، اور """ کٹ پیسٹ """ کا الزام مجھ پر لگاتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد صاحبء مراسلہ نے اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کے مطابق قران میں سے نماز کا طریقہ بتانے کے زعم میں اسی طرح ایسے اعمال جو کہ نماز میں بھی کیے جاتے ہیں ، کے ناموں والے الفاظ کے ذکر والی آیات """ سرچ """ کر کے حسب سابق ان کو سمجھے بغیر """ کاپی پیسٹ """ کر دیا ،
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو ان کا تجزیہ بھی پیش کروں گا ، تا کہ صاحبء مراسلہ کی """ خلاف قران """ قران فہمی مزید واضح ہو جائے ، باذن اللہ ، و السلام علیکم ۔



بہت معذرت کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ یہ مراسلہ عادل سہیل صاحب کی بددیانتی کی اور کم سمجھی کی اعلی ترین مثال ہے۔ نماز میں‌ تکبیر یعنی--- اللہ اکبر -- کہنے کے حکم کے لئے میں‌نے درج ذیل آیات پیش کیں ۔ جس میں سلسلہ وار بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ تکبیر کہا کرو اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح‌کہا کرو۔

ایک بار پھر دیکھئے:

تکبیر کی تعلیم: اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا حکم
[ayah]17:111[/ayah] وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّہ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَم يَكُن لَّہُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّہُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا

اور فرمائیے کہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے نہ تو (اپنے لئے) کوئی بیٹا بنایا اور نہ ہی (اس کی) سلطنت و فرمانروائی میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کے باعث اس کا کوئی مددگار ہے (اے حبیب!) آپ اسی کو بزرگ تر جان کر اس کی خوب بڑائی (بیان) کرتے رہئے ( كَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا)

اللہ تعالی کی بزرگی اور کبریائی بیان کرنے کا ایک اور حکم ۔
[ayah]2:185[/ayah] [arabic]شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ[/arabic]
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو( [arabic]وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ [/arabic] ) اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ


اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا ایک اور حکم
[ayah]22:37[/ayah] [arabic]لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ [/arabic]

ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر[arabic] لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ[/arabic] کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں

نماز کے دوران اللہ اکبر کہنے یعنی نماز میں اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا صریح حکم۔
[ayah]29:45[/ayah][arabic] اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ [/arabic]
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو




عادل سہیل سے سوال:
1۔ کیا آپ کو ان آیات میں اللہ کی کبریائی کہنے کا صاف صاف حکم نظر نہیں آتا۔ پھر آخری آیت میں نماز قائم کرنے اور اس میں‌تکبیر ادا کرنے کا حکم نظر نہیں‌آتا؟؟؟؟
اگر نہیں تو آپ کو کیا حکم نظر آتا ہے اور آپ آپ اللہ اکبر کی جگہ کیا تکبیر ادا کرتے ہیں؟


آپ اپنی تحاریر سے بہت ہی کنفیوژ قسم کے آدمی نظر آتے ہیں۔ آپ کی یہ کوشش کہ تمام مترجمیں کو ترجمہ نہیں آتا اور ان ترجمہوں سے قرآن کی آیات واضح نہیں ، ایک ایسی بے معانی کوشش ہے :) آپ کچھ لوگوں کو اپنی لفاظی سے کچھ دن بے وقوف بنا سکتے ہیں ۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کی یہ کوشش صرف آپ کی اپنے "علمیت" اور قرآن حکیم سے عناد سامنے لارہی ہے ۔

ان آیات کا مطلب کیا ہے ؟ ان سے کیا تکبیر کا حکم ثابت ہوتا ہے ؟‌ اگر نہیں تو کونسا حکم ثابت ہوتا ہے اور نماز میں اللہ اکبر کی جگہ کیا کہنا چاہئیے ، آپ یہ بتانے میں بالکل فیل ہوگئے ہیں۔


جی آپ کی کتب روایات میں نماز کا متفقہ طریقہ موجود ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو آج لوگ طرح طرح سے نماز ادا نہیں کررہے ہوتے ۔


جب لوگ خود یہ آیات پڑھیں‌گے تو نہ صرف یہ دیکھ لیں گے کہ اللہ تعالی اللہ اکبر کہنے یعنی اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اور اس کے لئے نماز مین کیا کہنا ہے وہ بھی صاف حکم دے رہے ہیں۔

مجھے انتظار ہے کہ ان آیات سے آپ ثابت کریں کہ ان آیات میں‌ اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کاحکم نہیں اور نماز میں اللہ اکبر کی جگہ کچھ اور کہنا چاہئیے جو ان آیات سے ظاہر ہے۔

بہت معذرت چاہتا ہوں‌لیکن بے وقوفی اور ذاتی عناد کی ایک حد ہوتی ہے۔ آپ کا یہ مراسلہ تو جھوٹ کا پلندہ ہے۔

والسلام
 
نماز کے دوران اللہ اکبر کہنے یعنی نماز میں اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرنے کا صریح حکم۔
[ayah]29:45[/ayah][arabic] اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ [/arabic]
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو

محترم، یہاں "ذکر اللہ اکبر" کا بیان ہے جسے رنگوں کے امتیاز سے آپ نے "اللہ اکبر" بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس آیت اور اس کے سیاق و سباق میں دور دور تک کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے نماز میں تکبیر کہنے کا حکم سمجھ میں آتا ہو۔
 
عبداللہ سلام ،

نماز بنیادی طور پر اللہ تعالی کے ان احکامات کا مجموعہ ہے جو اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں‌ مختلف صورتوں میں صادر کئے، اللہ تعالی سے سیکھی ہوئی نماز کی اس تعلیم کو رسول اکرم نے انسانوں تک پہنچایا۔

قرآن حکیم میں آپ یہ نہیں‌پائیں گے کہ
کھڑے ہو کر کانوں تک ہاتھ اٹھائیے پھر کہیے اللہ اکبر۔ پھر ہاتھ باندھ لیجئے۔ یہ طریقہ صرف اور صرف سنت رسول سے ثابت ہے۔

اللہ تعالی قرآن حکیم میں آپ کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ---- اللہ کی کبریائی بیان کیجئے۔ نماز قائم کیجئے ، اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے ۔
جب رسول اکرم نے نماز کی تعلیم دی، تو اس نماز میں اللہ اکبر موجود ہے ، تو کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اس حکم کا انکار کردیں کہ -- اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کرنے کا حکم جو کہ اللہ تعالی نے دیا ---- نماز میں اس حکم کی تعمیل نہیں ہورہی؟

یہ واضح طور پر لکھ چکا ہوں کہ نماز ایک ایسی سنت رسول ہے جو کہ آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نماز کے میں زبان سے دہرائے جانے والے تمام جملوں کا حکم کہیں نہ کہیں اللہ تعالی نے دیا۔ جس کا ثبوت میں قرآن حکیم سے پیش کرچکا ہوں۔ انہی احکام کا زبان سے دہراہا جانا، اور جسمانی طور پر پورا کرنا، اطاعت اور بندگی ہے۔


یہاں دیکھنے کا فرق ہے ۔ آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ :
اس آیت میں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہنے کا حکم کہا‌ں ہے۔ پھر ہاتھ باندھنے کا حکم کہاں‌ہے۔

جبکہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم کو ہدایت دے رہے ہیں کہ
اللہ تعالی کی کبریائی بیان کیا کرو۔
اس کبریائی بیان کرنے کے حکم کو رسول اکرم نے نماز میں‌بھی استعمال کیا اور جہاد میں‌بھی استعمال کیا۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کبریائی بیان کرنے کا حکم دیا، جس کی تعمیل ہم نماز میں کرتے ہیں۔

کبریائی بیان کرنے کی اس سنت کو کسی طور ہم خلاف قرآن نہیں قرار دے سکتے۔ کبریائی بیان کرنے کی یہ ہدایت اللہ تعالی کی ہے اور نماز میں موجود ہے ۔

یہی صورت حال ، کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کے حکم کی ہے کہ رسول اکرم کا پیش کیا ہوا طریقہ مکمل طور پر موافق القرآن سنت رسول ہے۔


ایک بار پھر عرض‌کرتا ہوں‌کہ آپ ڈھونڈھ رہے ہیں --- نماز کی ترکیب، کے پہلے سجدہ کرنا ہے یا پہلے رکوع کرنا ہے یا پہلے کھڑا ہونا ہے۔
جبکہ اس مراسلہ میں اللہ تعالی کی وہ ہدایات ہیں جو مختلف صورت حال میں دی گئیں اور ان ہدایات و احکامات کا اعادہ نماز میں رسول اللہ صلعم نے کیا، زبان سے بھی اور عملی طور پر بھی۔ اس ترتیب کا علم رسول اکرم کو ہی تھا، جس کی تعلیم انہوں نے مسلمانوں کو دی۔ رسول اکرم سے پہلے بھی انبیاء نے نماز ادا کی۔ اس کا ثبوت بھی آپ کو قرآن حکیم میں‌مل جائے گا۔


کیا اللہ تعالی کی سکھائی ہوئی نماز میں اعمال کی ترتیب میں‌ فرق ممکن تھا؟
اس کی مثال اس طرح دیکھئے۔
جب ہندو، کسی بادشاہ کے دربار میں‌پیش ہوتا ہے تو سب سے پہلے سجدہ کرتا ہے۔
تو ایسا بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالی سب سے پہلے سجدہ کرنے کی تعلیم نماز میں رسول اکرم کو عطا فرماتے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ۔ نماز کی ترکیب و ترتیب صرف نبی کی سنت سے قائم ہے۔

اس مراسلہ میں فراہم کئے گئے نماز کے جو احکام قرآن سے اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق آئے ہیں وہ آپ نماز سے ہٹا دیجئے پھر دیکھئے کہ نماز کیا باقی رہ جاتی ہے؟

یہاں‌ آپ کے سوال کا جواب ختم ہوا۔

نماز کا طریقہ کتب روایات سے کے عنوان سے جو دھاگہ آپ لکھ رہے ہیں اس میں آپ وضو اور غسل کا حکم اور طریقہ بھی اس میں‌ شامل کیجئے جس کے بغیر نماز نہیں‌ہوتی ہے اور نماز کی ادائیگی کے لئے شرط ہے۔

شکریہ
والسلام
 
بہت معذرت کے ساتھ عرض کررہا ہوں کہ یہ مراسلہ عادل سہیل صاحب کی بددیانتی کی اور کم سمجھی کی اعلی ترین مثال ہے۔ نماز میں‌ تکبیر یعنی--- اللہ اکبر -- کہنے کے حکم کے لئے میں‌نے درج ذیل آیات پیش کیں ۔ جس میں سلسلہ وار بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ تکبیر کہا کرو اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح‌کہا کرو۔
السلام علی من یتبع الھدیٰ ،
مقولہ بالا مراسلہ لکھنے والے صاحب کی ذہنی حالت کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے ، اللہ ان پر رحم کرے ،
صاحبء مراسلہ اُن کی طرف سے کی گئی اللہ کے کلام میں معنوی تحریف کا پول کھلنے پر خوب تلملا رہے ہیں ، اور حسب عادت الزام تراشیوں پر اتر آئے اور ذاتیات پر حملے کرنے لگے ہیں ،
اس کے جواب میں ان سے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اللہ کی تکبیر بلند کرنے کے ان مذکورہ احکام کو کسی طور نماز کے طریقہ میں ثابت کیجیے ، محض کسی کی ذاتی سوچ جو کہ """ ترجموں کے چکر "" میں گم ہو کی بنا ہر اللہ کے کلام کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے ،
کہاں کی اور کب کی بات کہاں اور کسیے جوڑی گئی ہے ، یہ ہر صاحب بصیرت کو سمجھ آ رہا ہے ،
چودہ سو سال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے لے کر آج تک کسی نے ان آیات میں تکبیر کہنے کے احکام کو نماز سے متعلق نہٰں بتایا ، اب اگر کوئی صاحب "ترجموں کے چکر " میں قران پاک کی آیات کی معنوی تحریف کریں تو ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
صٓاحبء مراسلہ کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ جب ان کے """ خلاف قران """ فلسفوں کا بطلان علمی طور ظاہر ہوتا ہے تو وہ ایسا کرنے والے پر طرح طرح کے الزام لگانے لگتے ہیں ،
اور دوسروں کے سوالات کے جوابات دینے کی بجائے اپنی طرف سے نئے سوالات کرنے لگتے ہیں ،
میری صاحبء مراسلہ سے گزارش ہے کہ پہلے میرے سابقہ مراسلوں میں موجود سوالات کے جوابات دیجیے پھر اپنے سوالات کے جواب کی توقع کیجیے ،
یوں بھی میرے سابقہ مراسلات میں اُن کے سوالات کے جوابات ہیں ، اگر انہیں سمجھ آ سکیں ،
صاحبء مراسلہ سے یہ بھی گذارش ہے کہ ابھی تو ان کے """ خلاف قران """ فلسفوں میں سے نکلے ہوا قرانی طریقہ ء نماز کا کچھ تجزیہ باقی ہے ، سب کا مطالعہ کر لیجیے ،
چوراہے میں بھانڈا پھوٹ رہا ہے ان شاء اللہ اب جڑے گا نہیں ، خواہ کتنی ہی بدزبانی کیجیے ، اور خواہ کتنے ہی الزام لگایے ،
ان شاء اللہ ہر صاحبء بصیرت کو سمجھ آ رہی ہو گی کہ کون بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کے کلام پاک کو اپنے فلسفوں کی سچائی کی دلیل بنانے کے لیے معنوی تحریف کر رہا ہے ،

اب ان شاء اللہ صاحبء مراسلہ کے مذعوم """ قرانی طریقہء نماز """ کے باقی تجزیہ کا ایک حصہ ہیش کرتا ہوں ۔
و السلام علی من یتبع الھدیٰ ۔
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،

محترم قارئین ، """ خلاف قران """ قران فہمی کے مظاہرے کرتے ہوئے اس دھاگے کا آغاز کرنے والے اور اپنی دانست میں """ قران میں سے نماز کے طریقہ کی تعلیم """ ثابت کرتے ہوئے صاحبء مضمون نے جو کچھ لکھا اس کا کچھ تجزیہ میں اس سے پہلے چار مختلف مراسلات میں پیس کر چکا ہوں ، جس کے جواب میں صاحبء مضمون اپنے """ دستور """ کے مطابق الزام تراشیوں اور ذاتی طعن و تشنیع کا مظاہرہ کر رہے ہیں ،
خیر یہ ان کا ظر ف ہے ، عربی میں کہتے ہیں """ لا یخرج من الاِناء اِلّا ما فیہ """
صاحبء مضمون کے اصل مضمون کے تجزیہ کی طرف واپس آتے ہوئے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام کو اس کی جگہ سے کہیں اور پہنچاتے ہوئے صاحبء مضمون نے سابقہ ذیل عنوان کے بعد ، ایک اور ذیلی عنوان اور اس کے تحت یوں لکھا :::
سورۃ فاتحہ کو دہرانے کی تعلیم:
سورۃ الحجر:15 , آیت:87 اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورۃ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے
سورۃ الحجر:15 , آیت:88 ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بیشک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے
صاحبء مضمون نے اس منقولہ بالا اقتباس میں نقل کردہ سورت الحجر آیت 87 ((((( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ))))) جو کہ اقتباس میں پہلی آیت ہے ، اس کے ترجمے ( کے چکر ) میں سے ایک جز درست پایا کہ سورت الفاتحہ کو """ سبع المثانی """ نام اس لیے دیا گیا کہ وہ نمازوں میں دہرائی جاتی ہے ،
دوسرا جز ترجمے (کے چکر ) میں درست نہیں رہا ، کیونکہ اس آیت مبارکہ میں صرف سورت الفاتحہ کا ذکر ہے ، قران پاک کا نہیں ،
اس بات کو کوئی مانے یا مانے ہم مانتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے اور ان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر مبارک ہے جس کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے عالم مفتی علامہ مجتھد وغیرہ کی کوئی بات مانی نہیں جا سکتی ہے چہ جائیکہ فلسفہ زدہ خیالات کو مانا جائے ،
ابی سعید بن المُعلی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میں ایک دفعہ مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے آواز دی ، لیکن میں نے جواب نہ دِیا ، میں نے ( نماز سے فارغ ہوتے ہی فوراً خدمت میں حاضر ہو کر معذرتاً ) عرض کیا " اے رسول اللہ میں نماز پڑھ تھا " انہوں نے اِرشاد فرمایا ((((( أَلَمْ يَقُلْ الله اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إذا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ::: کیا اللہ نے فرمایا نہیں کہ اے ایمان والوں اللہ اور رسول کے پکار کا جواب دو جب وہ تم لوگوں کو اس (کام یا چیز کی تعلیم ) کے لیے بلائے جو تمہیں زندگی دینے والا ہے ))))) پھر ارشاد فرمایا (((((لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ في الْقُرْآنِ قبل أَنْ تَخْرُجَ من الْمَسْجِدِ ::: اِ س سے پہلے کہ تُم مسجد سے باہر نکلو میں تُمہیں ضرور ایسی سُورت سکھاوں گا جو قران کی سُُورتوں میں سب سے زیادہ عظیم ہے ))))) پھر انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا اور جب وہ مسجد سے باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے عرض کیا """کیا آپ نے فرمایا نہیں تھا کہ ((((( میں تُمہیں ضرور ایسی سُورت سکھاوں گا جو قران کی سُُورتوں میں سب سے زیادہ عظیم ہے ))))) (تو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الذي أُوتِيتُهُ ::: الحمد للہ رب العالمین (یعنی سورت الفاتحہ ) ہی السبع المثانی (یعنی بار بار دہرائی جانے والی سات آیات ) ہے اور ( یہی ) "القران العظیم " ہے جو مجھے دیا گیا ہے ))))) صحیح البخاری / کتاب التفسیر کی پہلی حدیث ،
( موضوع تک محدود رہنے کا خیال کرتے ہوئے صرف قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ وہ غور فرمائیں کہ یہ حدیث مبارک بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اعلیٰ ترین بے مثال اخلاق اور اندازء تربیت کے دلائل میں سے ایک ہے ، فداہُ ما رزقنی اللہ ، جو کچھ مجھے اللہ نے دیا ہے سب ان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہو جائے )

جی، تو ، صاحب مضمون کے مضمون کے منقولہ بالا اقتباس کا پہلا حصہ تو جزوی طور پر درست ہے کہ سورت الفاتحہ کا نام السبع المثانی ہے اور اس کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ اُسے ہر نماز میں بار بار پڑھا جاتا ہے ، اب یہ تو صاحبء مضمون ہی بتا سکتے ہیں کہ انہیں یہ کہاں سے پتہ چلا کہ یہ آیت مبارکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سب سے پہلی نماز شروع کرنے سے پہلے نازل ہوئی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کون سی روایات ہیں جنہوں نے یہ خبر دی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یا معاذ اللہ صاحبء مضمون پر وحی ہوتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یا انہیں بھی القاء علی القلب کا زعم ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ سورت الحجر مکی سورت ہے اور ترتیب التنزیل یعنی سورتوں کے نازل ہونے کی ترتیب میں یہ سورت رقم 54 ہے ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو نماز پڑھنے کا حکم سورت المزمل میں دیا گیا تھا جو کہ ترتیب التنزیل میں تیسری سورت ہے ،
اور ساری امت کے لیے نماز معراج کے سفر میں فرض کی گئی تھی جس کا ذکر سورت الاِسراء میں کیا گیا ہے ، جو کہ ترتیب التنزیل میں سورت رقم 50 ہے ،
یعنی صاحبء مضمون کا یہ فلسفیانہ قرانی طریقہء نماز کسی طور موفق قران ثابت نہیں ہو پا رہا ، بلکہ """ خلاف قران """ ہی ثابت ہو رہا ہے،
میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کی عِلمی خیانت ہے کیونکہ کسی چیز میں خیانت کرنے کے لیے اس چیز کو جاننا اور اس کا اپنے پاس ہونا ، اپنے اختیار میں ہونا ضروری ہے ، یہاں تو جہالت پر مبنی سوچیں اور اُن سوچوں پر مبنی """ خلاف قران """ فلسفے ہیں جو چودہ سو سال تک امت میں سے کسی کو سجھائی نہ دیے نہ آئے ، و لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،
اب اگر صاحبء مضمون یہ کہیں کہ سابقہ انبیاء بھی تو نماز پڑھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نماز ان کی نماز کی طرح تھی ، تو کسی لمبی چوڑی بات کے بغیر ان سے صرف اتنا ہی ہوچھنا کافی ہو گا کہ کیا یہ سورت الفاتحہ سابقہ انبیاء بھی جانتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور اپنی نماز میں پڑھتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر وہ کہیں کہ "ہاں" تو یہ سراسر خلاف قران ہو گا ، کیونکہ((((( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ))))) میں خاص طور پر اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے خطاب ہے اور انہی کو السبع المثانی دینے کا ذِکر ہے کہ یہ نعمت عظیم کسی اور نبی یا رسول کو عطاء نہیں ہوئی ، علیھم السلام أجمعین ،
اور اگر وہ کہیں کہ " نہیں " تو پھر ان کا اپنا ہی سارا فلسفہ ہوا ہو جاتا ہے ، اور یہ دوسرا جواب ہی حق ہے ، و للہ الحمد و المنۃ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ اب اگلے مراسلے میں صاحبء مراسلہ کی بیان کردہ """ سورۃ فاتحہ کو دہرانے کی تعلیم: """" میں دوسرے حوالے کی بات ہو گی ، فی الحال یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دوسری آیت کے حوالے کو یا ترجمے کو """ کاپی پیسٹ """ کرنے میں ان سے فاش غلطی ہوئی ہے ، شاید """ ترجموں کے چکر """ میں چکر آ گیا ہو ، و السلام علی من یتبع الھُدیٰ ۔
 
گو کہ تمام قران ہی رسول پرنور کی زبان سے ادا ہوا۔ اور ان کی نماز پڑھنے کی یہ سنت جاریہ تمام مساجد میں عموماَ اور حرم شریف میں ہر روز پانچ بار دیکھی جاسکتی ہے

عادل سہیل یہ مانتے ہیں کہ سات آیات والی سورت ، سورۃ فاتحہ ہے۔ جو کہ آیات کی گنتی سے بھی ثابت ہے اور رسول اللہ کی حدیث سے بھی۔
عادل سہیل کے نزدیک یہ بات خلاف قرآن ہے کہ ۔۔۔۔۔ اللہ تعالی نے سات آیات والی سورت دی ہے۔ جس کو رسول اکرم نے اپنی نماز میں‌پڑھا اور یہ آج سنت جاریہ ہے۔

اب یہ عادل سہیل بہت ہی کنفیوژ ہیں کہ یہ سات آیات والی سورت بعد میں اور نماز کا حکم پہلے نازل ہوا تو رسول اکرم صلعم نماز میں سورۃ الفاتحہ کیسے پڑھتے تھے؟؟؟؟؟


میرے سینکڑوں سوالات اس دھاگے میں عادل سہیل صاحب سے ہیں۔ جن میں سے ایک کا بھی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ اب ان سے یہی سوال ہے کہ جب سورۃ‌فاتحہ بعد میں‌نازل ہوئی تو کیا رسول اکرم بغیر سورۃ‌فاتحہ کے نماز پڑھتے تھے؟ اور اگر رسول اکرم نے سورۃ‌فاتحہ کے نزول کے وقت تک بغیر سورۃ ‌فاتحہ کے نماز پڑھتے رہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آج نبی کی سنت کس طور جاری ہے ؟

مزید یہ شاید بھول جاتے ہیں کہ گو کہ آیات و سورات کا نزول ایک خاص ترتیب سے ہوا لیکن قرآن حکیم کو اس ترتیب سے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو پیش نہیں کیا، لہذا قرآن کی نزول کی ترتیب کو آپ کسی بھی طور سورۃ‌فاتحہ کے نماز میں دہرائے جانے کی تردید کے لئے کیسے استعمال ‌کرسکتے ہیں۔

عادل سہیل اس آیت سے کیا مطلب لیتے ہیں؟

[ayah]97:1[/ayah] [arabic]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [/arabic]
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے

اس آیت میں تو اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ تمام کا تمام قرآن حکیم رسول اکرم پر ایک ہی رات میں اتار دیا گیا تھا۔ بعد میں ان ہی آیات کا نزول ضرورت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا۔


اب عادل سہیل کا کیوں خیال ہے کہ --- سورۃ فاتحہ کا نماز میں دہرانا خلاف قرآن ہے۔ وہ اس لئے کہ اس کا نزول بعد میں ہوا۔ کیا عادل صاحب کے دل پر وحی اترتی ہے کہ یہ فرمارہے ہیں کہ رسول اکرم کو ان سات آیات کے بارے میں سورۃ المزمل اترنے کے وقت تک علم نہیں تھا یا وہ اپنی نماز میں اس سورۃ‌ کے نزول سے قبل ان آیات کو نہیں دہراتے تھے۔۔ اس کا ان کے پاس کیا ثبوت ہے۔

مجھے ہنسی آتی ہے کہ سنت مبارکہ سے ثابت سات آیات کی بار بار دہرائی جانے والی سورت کو خلاف قرآن سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو جناب ایک دوسری سورت قرآن حکیم سے نکال کر دکھا دیں جس میں سات سورتیں ہوں۔ لگتا ہے انہوں نے سورتوں کی آئتیں نہیں گنیں۔ لگتا یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی ayah]97:1[/ayah] [arabic]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [/arabic] پر غور بھی نہیں‌کیا۔


عادل صاحب سے سینکڑوں سوالات ہیں جو یہ اپنے دستور کے مطابق گول کرتے جاتے ہیں۔ اب تک انہوں نے یہ ہی نہیں‌بتایا کہ

1۔ عادل سہیل اس دھاگہ میں فراہم کردہ احکامات کو خلاف قرآن سمجھتے ہیں ، تو پھر ان احکامات کے بغیر نماز کیسے ادا کرتے ہیں؟
2۔ ان کو نماز کی سنت جاریہ میں موجود احکامات قرآن سے کیوں نظر نہیں‌آتے۔ قرآن حکیم سے ان کو کیا دشمنی ہے؟


اور اب نئے سوالات:
3۔ بار بار دہرائی جانے والی سات آیات والی سورت اگر سورۃ‌فاتحہ نہیں ہے تو پھر کونسی سورت ہے؟
4۔ عادل سہیل کے بیان کے مطابق سورۃ‌المزمل کے نزول سے سورۃ الفاتحہ تک کے نزول تک نبی اکرم نماز میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ عادل سہیل کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ نبی اکرم یہ سورت نماز میں‌نہیں‌پڑھتے تھے جبکہ لیلۃ القدر میں‌ سارے کا سارا قرآن نازل ہوچکا تھا جو کہ مسلماں کے ایمان کے مطابق صرف اور صرف اللہ کے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ عادل سہیل صاحب کو کیسے پتہ کہ سورۃ‌فاتحہ لیلۃ القدر کے نزول میں شامل نہیں‌تھی؟ کیا ان پر وحی ہوتی ہے؟

4۔ کیا عادل سہیل کو وحی ہوئی ہے کہ رسول اکرم اس سورۃ‌کے نزول سے پہلے نماز میں‌یہ سورۃ نہیں‌پڑھتے تھے؟ ثابت کریں کہ رسول اکرم نمکمل نماز ادا کرتے تھے۔
5۔ ثابت کیجئے کہ لیلۃ‌القدر میں رسول اکرم پر سارا قرآن نازل نہیں ہوا؟

سارا مسئلہ یہ ہے کہ عادل سہیل قرآن حکیم کو سرسری انداز میں‌پڑھتے رہے ہیں۔ جو ان کو کتابوں‌میں‌ مل گیا اس کو رٹ لیا یا مارک کرلیا۔ اپنے طور پر کبھی تدبر نہیں کیا۔ عادل سہیل کی تحریر سے ظاہر ہے کہ انہوں نے نے آیات کو صرف دیکھا ہے کبھی ان آیات پر غور نہیں‌کیا۔ یہ ایک قابل افسوس امر ہے، پھر اپنی سمجھ کی کمی سے قرآن حکیم کی ان آیات کو ہی خلاف قرآن قرار دیے کر عادل سہیل صاحب ایک نئے دین کی بنیاد رکھ رہے ہیں کہ قرآن کی آیات قرآن کے خلاف ہیں ۔

اللہ تعالی ہم سب کو بہترین ہدایت دے اور دل کے اندھے ہونے سے بچائے۔

والسلام
 
عادل سہیل یہ مانتے ہیں کہ سات آیات والی سورت ، سورۃ فاتحہ ہے۔ جو کہ آیات کی گنتی سے بھی ثابت ہے اور رسول اللہ کی حدیث سے بھی۔
عادل سہیل کے نزدیک یہ بات خلاف قرآن ہے کہ ۔۔۔۔۔ اللہ تعالی نے سات آیات والی سورت دی ہے۔ جس کو رسول اکرم نے اپنی نماز میں‌پڑھا اور یہ آج سنت جاریہ ہے۔
السلام علی من یتبع الھُدیٰ ،
منقولہ بالا مراسلہ صاحبء مراسلے کے ادراک و فہم کا ایک اور ثبوت ہے ،
کیا خوب ، پلا جملہ دوسرے کی نکیر اور دوسرا جملہ پہلے کی نکیر ،
یہی حال ہوتا ہے من گھڑت فلسفوں کی اتباع کرنے والوں کا،
الزام تراشی کی حد ہے ، یا صاحبء مراسلہ بات کو سمجھنے کی استطاعت سے فارغ ہیں ، یا جان بوجھ کر بات کو بدلنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ، یا انہیں اپنے مخصوص فلسفوں کی روشنی میں جو سمجھ آتا پے اس کے مطابق الزام لگاتے ہیں ،
معاذ اللہ عادل سہیل نے کہاں یہ کہا کہ """"""" یہ بات خلاف قرآن ہے کہ ۔۔۔۔۔ اللہ تعالی نے سات آیات والی سورت دی ہے۔ جس کو رسول اکرم نے اپنی نماز میں‌پڑھا اور یہ آج سنت جاریہ ہے۔"""""""
میں صاحبء مراسلہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میری آخرت کی بھلائی کے لیے ایک اور تحفہ دیا ہے ، و السلام علی من یتبع الھُدیٰ ۔
 
اب یہ عادل سہیل بہت ہی کنفیوژ ہیں کہ یہ سات آیات والی سورت بعد میں اور نماز کا حکم پہلے نازل ہوا تو رسول اکرم صلعم نماز میں سورۃ الفاتحہ کیسے پڑھتے تھے؟؟؟؟؟

السلام علی من یتبع الھُدیٰ ،
منقولہ بالا دعویٰ کرنے والے صاحب عادل سہیل کے بارے میں یہ ثابت کریں کہ اس نے یہ کہا ہو کہ """"""" یہ سات آیات والی سورت بعد میں اور نماز کا حکم پہلے نازل ہوا تو رسول اکرم صلعم نماز میں سورۃ الفاتحہ کیسے پڑھتے تھے؟؟؟؟؟ """"""
صاحبء مراسلہ کو بہت وقت لگانے اور تدبر کے ساتھ وقت کی اشد ضرورت ہے ، اپنی ہی باتوں کی خود تردید کرتے چلے جاتے ہیں اور انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کہاں کیا لکھ آئے ہیں ، اس منقولہ بالا فقرے سے پہلے جو فقرہ انہوں نے عادل سہیل پر ایک الزام کے طور پر لکھا وہ ان کے اِس منقولہ بالا فقرے کی تردید ہے ، اور اس سے پہلے جو فقرہ لکھا وہ اُس دوسرے کی تردید ہے لکھا ،
اللہ ان کے حال پر رحم کرے ،
صاحبء مراسلہ کو جھوٹے الزام لگانے سے پہلے کچھ تو سوچنا چاہیے ،
عادل سہیل نے کہیں بھی سورت الفاتحہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پہلی نماز شروع کرنے کے بعد نازل ہونے کی بات نہیں کی ، اس سورتوں کی بعد میں نازل ہونے کی بات کی ہے جن کی آیات کو صاحبء مراسلہ اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کی بنا پر نماز کا طریقہ قران پاک میں سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ،
صاحبٗ مراسلہ بات کا کوئی علمی اور سیدھا جواب دینے کی بجائے قارئین کے توجہ اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کا چوراہے میں بھانڈا پھوٹنے سے ہٹانے کے لیے الزام لگاتے چلے جا رہے ہیں ، لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،
صاحبء مراسلہ سے گذٓراش ہے کہ کوئی علمی دلیل پیش کیجیے کہ نماز کی ادائیگی کے شروع ہو چکنے کے بعد نازل ہونے والی آیات مبارکہ نماز کا طریقہ کیسے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اور اگر یہ نماز کا طریقہ ہیں تو ان کے نزول سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کس طرح کی نماز پڑھا کرتے تھے
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ان سیدھے سے سوالات کا جواب چونکہ صاحبء مراسلہ نہیں دے سکتے اور یہ سوال ان کے """ خلاف قران """ فلسفے کو آشکار کرتے ہیں اس لیے وہ جھوٹے الزامات لگا کر اور ادھر ادھر کی باتیں کر کے موضوع کو بدلنا چاہ رہے ہیں ،
صاحبء مراسلہ کے بیان کردہ قرانی طریقہ نماز کے تجزیہ کا اگلہ حصہ ابھی پیش کرتا ہوں ، جو ان شاء اللہ ان کے """ خلاف قران """ فلسفوں کو مزید واضح کرے گا ۔ والسلام ولی من یتبع الھدیٰ ۔
 
میرے سینکڑوں سوالات اس دھاگے میں عادل سہیل صاحب سے ہیں۔ جن میں سے ایک کا بھی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ اب ان سے یہی سوال ہے کہ جب سورۃ‌فاتحہ بعد میں‌نازل ہوئی تو کیا رسول اکرم بغیر سورۃ‌فاتحہ کے نماز پڑھتے تھے؟ اور اگر رسول اکرم نے سورۃ‌فاتحہ کے نزول کے وقت تک بغیر سورۃ ‌فاتحہ کے نماز پڑھتے رہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آج نبی کی سنت کس طور جاری ہے ؟
السلام علی من یتبع الھدیٰ ،
بہت خوب ، ایک اور جھوٹا دعویٰ ہے ، صاحبء مراسلہ سے درخواست ہے کہ """ سینکڑوں """ تو کیا """ ایک چوتھائی سینکڑہ """ سوال ہی دکھایے جن کا یہاں اس مراسلے میں جواب نہ دیا ہو ،
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ، چونکہ میں نے پہلے سوال کیے تھے لہذا پہلے میرے سوالات کے جواب دیجیے اور پھر مجھ سے اپنے سوالات کی توقع کیجیے ،
صاحبء مراسلہ کا یہ انداز کم از کم میرے تو خوب معروف ہے کہ وہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اور اپنی """ خلاف قران """ باتوں سے قارئین کی صرف نظر کروانے کی کوشش میں ہمیشہ اسی قسم کا شور مچاتے ہیں ،
صاحبء مراسلہ کہیں یہ تو دکھائیں کہ عادل سہیل نے سورت الفاتحہ کے قوت نزول کی کوئی بات کی ہو ،
انا للہ و انا الیہ راجعون ، صاحبء مراسلہ کی قران فہمی کیسی ہے جو انہوں جھوٹے الزامات لگانے سے روکنے کا سبب نہیں بنتی ، و السلام علی من یتبع الھدیٰ ۔
 
مزید یہ شاید بھول جاتے ہیں کہ گو کہ آیات و سورات کا نزول ایک خاص ترتیب سے ہوا لیکن قرآن حکیم کو اس ترتیب سے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو پیش نہیں کیا، لہذا قرآن کی نزول کی ترتیب کو آپ کسی بھی طور سورۃ‌فاتحہ کے نماز میں دہرائے جانے کی تردید کے لئے کیسے استعمال ‌کرسکتے ہیں۔

عادل سہیل اس آیت سے کیا مطلب لیتے ہیں؟

سورۃ القدر:97 , آیت:1 [arabic]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [/arabic]
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے

اس آیت میں تو اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ تمام کا تمام قرآن حکیم رسول اکرم پر ایک ہی رات میں اتار دیا گیا تھا۔ بعد میں ان ہی آیات کا نزول ضرورت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا۔


اب عادل سہیل کا کیوں خیال ہے کہ --- سورۃ فاتحہ کا نماز میں دہرانا خلاف قرآن ہے۔ وہ اس لئے کہ اس کا نزول بعد میں ہوا۔ کیا عادل صاحب کے دل پر وحی اترتی ہے کہ یہ فرمارہے ہیں کہ رسول اکرم کو ان سات آیات کے بارے میں سورۃ المزمل اترنے کے وقت تک علم نہیں تھا یا وہ اپنی نماز میں اس سورۃ‌ کے نزول سے قبل ان آیات کو نہیں دہراتے تھے۔۔ اس کا ان کے پاس کیا ثبوت ہے۔

السلام علی من یتبع الھُدیٰ ،
صاحبء مراسلہ کی علمیت کا اندازہ """ سورات """ سے کیا جا سکتا ہے ، جناب کو یہ بھی نہیں پتہ کہ سورت کی جمع کیا ہوتی ہے ،
اپنے """ خلاف قران """ فلسفے کو درست بنانے کے لیے اب مزید نئے """ خلاف قران """ فلسفے لیے آئے ہیں ،
کوئی ان پوچھے کہ جناب کیا قران کو دو بار مختلف ترتیب سے نازل کیا گیا تھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اپنی ہی باتوں کی تردید کرنا کوئی ان سے سیکھے ،
قارئین اس منقولہ بالا اقتباس میں دیکھیے کہ انہوں نے خود ہی اپنی باتوں کی تردید کی ہے ،
ایک طرف تو کہا کہ قران کو اللہ نے ایک ترتیب سے نازل کیا اور پھر کسی اور ترتیب سے مسلمانوں کے سامنے پیش کیا ، !!!
ملاحظہ کیجیے ایک ہی فقرے میں دو متضاد باتیں ، جن کی کہیں کوئی دلیل نہیں ،

اور دوسری طرف کہا کہ قران سارے کا سارا ایک ہی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل ہوا !!!
اور ساتھ ہی اس کی تردید کر دی کہ ، بعد میں ان ہی آیات کا نزول ضرورت کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ،
ملاحظہ کیجیے پھر ایک ہی جملے میں دو متضاد باتیں لکھ دی اور کسی ایک کے لیے بھی کوئی علمی دلیل نہیں دی ،

سورت القدر کی جو آیت انہوں نے لکھی ، اس کی تفیسر ہم ان کے فلسفوں کے مطابق نہیں سمجھ سکتے بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فرامین کے مطابق سمجھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں سے لیلۃ القدر میں قران پاک ایک ہی دفعہ نیچے آسمانوں میں بیت العزۃ میں نازل فرمایا اور پھر وہاں سے وقتا فوقتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر سورتیں اور آیات نازل ہوتی رہیں ،
صاحب مراسلہ کیا یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ان کے ایک دوسرے کی نکیر کرنے والے فلسفوں میں سے کس پر بات کی جائے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اور کیا صاحبء مراسلہ یہ بتانا پسند فرمائیں گے عادل سہیل کب اور کہاں سورت الفاتحہ کے وقتء نزول کے بارے میں بات کی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اور کب اور کہاں سورت الفاتحہ کو نماز مین دھرانے کو """ خلاف قران """ کہا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
صٓاحبء مراسلہ پر اللہ رحم کرے ، انہیں """ خلاف قران """ فلسفوں نے اس قدر نڈھال کر دیا ہے کہ """ خلاف قران """ باتیں کر کر کے دوسروں کی بات کو بھی اپنے بات کے جیسا سمجھتے ہیں ، و السلام علی من یتبع الھُدیٰ ۔
 
Top