نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
مہوش بہن ، السلام علیکم،

ہم یہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے تمام عقائد کی روح قرآن حکیم ہے۔ اگر کوئی حکم قرآن حکیم میں موجود ہے تو پھر اس حکم کی تفصیلات بھی ہم کو سنت سے مل جاتی ہیں۔ نکاح کا حکم قرآن حکیم میں موجود ہے ۔

ایک مثال:
[ayah]24:32 [/ayah][arabic]وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ [/arabic]
اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے

مزید مثالیں بھی کوئی مشکل کام نہین کہ یہ موضوع مسلمانوں میں بہت ہی پاپولر ہے۔

1۔ قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیجئے جس میں اللہ تعالی نے متع یعنی وقتی شادی کرنے کا حکم دیا ہو کہ ۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہو تو تم متع کرلیا کرو۔


قرآن کے بعد اہمیت ہے سنت رسول کی۔ کہ رسول اللہ صلعم نے خود ایک کام کیا ہو۔
2۔ رسول اللہ صلعم نے جن جن خواتین سے متع کیا تھا ان کے ناموں‌کی ایک لسٹ مل جائے تو بہت عنایت ہوگی۔

اس کے بعد کچھ لوگ تابعین یعنی جناب خلفاء راشدین سے سبق لیتے ہیں۔ خلفاء راشدیں نے رسول اکرم کی کس سنت کا اتباع کیا؟ اس سنت کے اتباع میں۔۔۔
3۔ خلفاء راشدین نے جن جن خواتین سے متع کیا ان کے نام کی ایک لسٹ فراہم کردیجئے۔

اللہ مجھے اپنی پناہ میں رکھے، نعوذ باللہ۔۔۔
4۔ رسول اکرم صلعم نے اور خلفاء راشدین نے اس حکم کو جاری رکھنے کے لئے ، اپنے خانوادہ کی کس کس خاتون کا متعہ دوسرے لوگوں سے کیا؟

معذرت چاہتا ہوں ، لیکن یہ بحث کسی طور بھی ایک درست بحث نہیں‌ہے۔ یہ ایک نہی عن المنکر کا نشریہ ہے۔

بناء نکاح کسی طور بھی ایک عورت کا سے فائید اٹھانا شادی نہیں، اور ایسے کسی بھی طور طریقہ کو مسلمان حرام سمجھتے ہیں۔

میری ذاتی استدعا ہے کہ اس پر ضد پر قائم رہنے کے بجائے قرآن حکیم کو پڑھئیے اور مزید تدبر فرمائیے۔


والسلام
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور پھر جو حضرت اسماء بنت ابی بکر کے متعلق روایت ہے، جسے نسائی نے مسلم القری سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ہم حضرت اسماء بنت ابی بکر کے پاس گئے اور ہم نے اُن سے عقد المتعہ کے متعلق سوال کیا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ: "ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں نکاح المتعہ کیا کرتے تھے۔"

ایک تو نسائی کا مکمل حوالہ بھی عنائت فرما دیں ۔

کچھ تو خدا کا خوف کریں روایات کی من مانی تشریح اور کھینچ تان کر اپنے مطالب پورے کرنا اس کی کوئی تو حد ہونی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی عقل اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے مگر استعمال کنندہ کی محتاج ہے کہ وہ اسے کس کام میں اور کیسے استعمال کرتا ہے۔ مگر خیر ہم آپکی طرح ہر روایات سے منکر بن کر دامن جھاڑ کر نہیں بیٹھیں گے تصویر کا روشن پہلو ضرور دکھائیں گے۔ اب کوئی پھر بھی اس میں بدصورتی اور تاریکی ہی دیکھنا چاہے تو اس کا کوئی حل نہیں۔


صحت روایت اور مقصد روایت سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اگر الفاظ پر غور کریں تو مذکورہ روایت میں لفظ ہے فعلناھا ہے جیسا کہ آپکے ترجمے میں بھی ظاہر ہے۔ اب خاکم بدہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہ اپنا ذاتی فعل بیان نہیں کر رہی ہیں۔ یہ قومی تاریخ بیان کرنے کا ایک اسلوب ہے ۔ آپ نکاح موقت کے بارے میں جو ابتدائے اسلام میں غیر ممنوع تھا ۔ (یاد رہے یہ نکاح موقت آپکے پیش کردہ نکاح متعتہ سے مختلف تھا) بیان فرما رہی ہیں کہ اس دور میں ایسا ہوتا تھا اور بس آپ کے بیان کا یہ منشاء ہر گز نہیں کہ اب بھی اس کی اجازت ہے یا معاذ اللہ آپ نے ایسا کیا تھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے عرب اسلوب کے مطابق ایک حکایت نقل فرمائی ہے نہ کہ اپنی ذات کا بیان کیا ہے مزید اطمینان کے لیے ہم ایک مثال سے اس کو واضح کرتے ہیں حضرت امام بخاری رحمہ اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں۔

عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ نَحَرْنَا عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا فَأَکَلْنَاهُ۔

عَنْ أَسْمَائَ قَالَتْ ذَبَحْنَا عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا وَنَحْنُ بِالْمَدِينَةِ فَأَکَلْنَاهُ۔
(صحیح بخاری 5086،5087)

شیخ الاسلام حافظ بن حضر عسقلانی رحمہ نے شرح بخاری میں "ذبحنا" والی روایت بھی نقل فرمائی ہے۔
(فتح الباری جلد ۳ ص۵۳)

حضرت اسماء رضی اللہ سے روایت ہے ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گھوڑا ذبح کیا اور ہم اسے کھا گئے۔

تو کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ پورا گھوڑا حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے ذبح بھی کیا اور کھا بھی گئیں۔مذکورہ بالا روایت میں نحرنا (ہم نے نحر کیا ) اور ذبحنا (ہم نے ذبح کیا) کےالفاظ سامنے رکھیے۔ عورتوں کا اونٹ کو نحر کرنا اور جانوروں کو ذبح کرنا اس دور میں نہ تو معروف تھا اور نہ ایسا ہوتا تھا۔ مرد ہی جانوروں کو نحر اور ذبح کیا کرتے تھے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ اس حدیث میں ایک واقعہ کی حکایت نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑوں کو نحر اور ذبح کیا جاتا تھا۔ آپ کا یہ مطلب نہیں کہ میں جانوروں کو نحر اور ذبح کیا کرتی تھی۔

اس اسلوب بیان سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ فعلناھا سےحضرت اسماء رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک وقت تک نکاح موقت ہوتا رہا ہے اور یہ ممنوع نہ تھا اور لوگ کیا کرتے تھے۔

اگر پھر بھی اعتراض قائم ہے تو مندرجہ ذیل روایت کہ وضاحت کیجئے۔

لقد کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقتل اٰباءنا وبنائنا و اخواننا اوعمامنا (نہج البلاغہ جلد ا ص ۱۲۰)

بے شک ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے باپوں بیٹیوں بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے۔
(تقتل کا معنی ہے ہم قتل کرتے تھے)۔

شیعہ عالم المسعودی مروج الذہب جلد ۳ صفحہ ۸۲ پر اپنے ہی لوگوں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

لان الزبیر تزوج اسماء بکر ا فی الاسلام وزوجہ ابوبکر معلنا فکیف تکون متعۃ النساء۔ (مروج الذہب جلد ۳ ص ۸۲)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہ کے ساتھ باکرہ ہونے کی حالت میں اسلام کی شادی کی تھی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھلے عام یہ شادی کرائی تھی۔ پس اس سے کیسے متعتۃ النساء ثابت ہو سکتا ہے۔

امام بخاری رحمہ صحیح بخاری میں حضرت زبیر اور اسماء رضی اللہ عنہ کی غیرت کے بارے میں حدیث درج کرتے ہیں۔

محمود، ابواسامہ، ہشام، اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے زبیر رضی اللہ عنہ نے جب شادی کی تو نہ انکے پاس مال تھا نہ زمین اور نہ لونڈی غلام تھے بجز پانی کھینچنے والے اونٹ اور گھوڑے کے کچھ نہ تھا، زبیر رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کو میں چراتی تھیں، پانی پلاتی تھی، انکا ڈول سیتی تھی اور آٹا پیستی تھی البتہ روٹی پکانا مجھے نہیں آتا تھا میری روٹی انصاری پڑوسنیں پکا دیا کرتی تھیں وہ بڑی نیک عورتیں تھیں، زبیر رضی اللہ عنہ کی اس زمین سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی، میں اپنے سر پر چھوہاروں کی گٹھلیاں اٹھا کرلاتی، وہ مقام دو میل دور تھا ایک دن میں اپنے سر پر گٹھلیاں رکھے آرہی تھی کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملے، آپ کے ہمراہ چند صحابہ رضوان اللہ عنہم بھی تھے، آپ نے مجھے پکارا پھر مجھے اپنے پیچھے بٹھانے کے لئے اونٹ کو اخ اخ کہا، لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے سے شرم آئی زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت بھی مجھے یاد آئی کہ وہ بڑے غیرت والے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاڑ لیا کہ اسماء کو شرم آتی ہے، چناچہ آپ چل پڑے، زبیر سے میں نے آکر کہا کہ مجھے راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تھے، میرے سر پر گٹھلیوں کا گٹھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صحابہ تھے، آپ نے مجھے بٹھانے کے لئے اونٹ کو ٹھہرایا، تو مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کو بھی میں جانتی ہوں، زبیر نے کہا اللہ کی قسم! مجھے تیرے سر پر گٹھلیاں لاتے ہوئے آپ کا دیکھنا آپ کے ساتھ سوار ہوجانے سے زیادہ برا معلوم ہوا اس کے بعدحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک خادم بھیج دیا تاکہ وہ گھوڑے کی نگہبانی میں میرا کام دے گویا انہوں نے مجھے آزاد کردیا۔ (صحیح بخاری 4823)

اور روایت کی تشریح میں چھپی بد دیانتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ بقول مدعیان متعہ کے پورے دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اور دور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ میں متعہ ہوتا رہا اور ایک ہی معزز خاتون کا نام سامنے آیا۔وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اور امت کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی بہن کا ۔ العیاذ باللہ۔

اور میں پھر اصرا کرتا ہوں کہ یہ ادھر ادھر کی چھوڑیئے اور لائیے روایات جو کہ ثابت کریں کہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے تاکہ امت پر حجت تمام ہو۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
تابعین میں سے جو عقد متعہ کو حلال جانتے تھے ان میں طاؤس، عطاء، سعید بن جبیرشامل ہیں، اور پھر اہل مکہ کے فقہاء کی اکثریت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی

حضرت علامہ ابو عمرو یوسف بن عبدالبر مالکی لکھتے ہیں۔ اصحاب ابن عباس من اھل مکۃ والیمن علیٰ اباحتھاتم اتفق فقھاء الامصار علیٰ تحریمھا۔ مکہ اور یمن میں مقیم اصحاب ابن عباس پہلے اباحت متعہ کے قائل تھے پھر جب ان کو صریح حدیث مل گئی اور ابن عباس کا رجوع بھی معلوم ہوا تو تمام فقہاء کرام متعہ کی حرمت پر متفق ہو گئے۔ فتح الباری جلد ۹ ص ۲

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔ وقہ نقل ابو عوانہ فی صحیحہ عن ابن جریج انہ رجع عنھا۔ حضرام امام ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں اس بات کو نقل کیا ہے کہ حضرت ابن جریج نے (اپنے اباحت والے قول سے ) رجوع کر لیا تھا۔

رقہ اعترف ابن حزم مع ذٰلک بتحریمھا لثبرت قولہ علیہ السلام انھا حرام الیٰ یوم القیامۃ۔
علامہ ابن حزم نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ متعہ حرام ہے کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ متعہ اب قیامت تک حرام ہے۔ فتح الباری جلد ۹ ۲۰۹
علامہ ابن جریر طبری مختلف اقوال درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
واولی التاویلین فی ذٰلک بالصواب تاویل من تاولہ فما نکحتموا منھن فجا معتموھن فاتوھن اجورھن لقیام الحجۃ بتحریم اللہ تعالیٰ متعۃ النساء علیٰ غیر زوجہ النکاح الصحیح او الملک علیٰ لسان رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم۔دونوں تفسیروں میں سے اولیٰ اور بہتر تفسیر یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح کرو پھر ان سے مجامعت کرو تو ان کو ان کے مہر ادا کر دو کیونکہ نکاح صحیح اور مملوکہ باندی کے سوا متعۃ النساء کا حرام ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارکہ سے ثابت ہو چکا ہے اور اس پر حجت قائم ہو چکی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور یہ اکثریت فقہائ مکہ کیاہوا ؟؟؟؟؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو چھ فقیہہ صحابی تھے ان میں‌سے ایک ہی کا قول دکھا دیں۔

اور اس کے بعد والوں کے نام بتا دیں۔

اور یہ سب جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے اگر آپ کوئی ایک روایت بھی ایسی لا دیں کہ جس سے پتہ چلے کہ یہ سنت نبوی ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ڈاکٹر موسیٰ الموسوی کے بعد ایک اور اہل نظر و فکر کا وڈیو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متعہ حلال کہ حرام


[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=FYQSLpYKJn4?[/youtube]

[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=Og6EBEoFtGw?[/youtube]


[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=Rp30zN-zrjg?[/youtube]


[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=B5wZw_YNEiE?[/youtube]​
 

S. H. Naqvi

محفلین
اصل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
اور پھر آپکو پہلے سنت رسول سے چیز کو حلال حرام ثابت کرنا ہے، وگرنہ اگر خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب نے بھی بدعت کو جاری رکھا تو وہ بھی آپکے اصولوں کے مطابق گنہگار ہوا نہ کہ حلال اللہ کو حرام بنانا ٹھیک ٹھہرا۔
جناب علی ابن ابی طالب سے اس کا رد کرنا اور اس کا دوبارہ احیاء نہ کرنا ثابت ہو چکا ہے اور سنت رسول سے تو ہم پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں محترمہ اور یہ سنت کیا ہے یہ بھی سبھی جانتے ہیں‌ مگر آپ کا اگلا فقرہ پڑھ کر تو چودہ طبق روشن ہو گۓ ہیں اور واہ کیا دلیرانہ انداز ہے آپ کا، صدیوں سے شیعہ زعماء و فقہا جس بات کو تکیہ (تقیہ( بلکہ رضایٔ کے نیچے چھپانے کی کو شش کرتے رہے اور آپ نے آ کر ان کی یہ رضایٔ ایک ہی جھٹکے سے اٹھا کر پرے دور پھینک دی اور سیدھا سیدھا "امام علی" کے گنہگار اور غلط ہونے کا فتویٰ دے دیا، واہ واہ کیا جرأت ہے، کیا انداز ہے ، کیا قطعیت ہے اور کیا علم کا مقام ہے آپ کا جنابہ فقییہ، مجتہدہ، عالمہ، کاملہ، عاقلہ اور امام حاضرہ (کیوں کے آپکے فقہ کے مطابق ایک "امام" ہی دوسرے "امام" کا عمل اور قول منسوخ کر سکتا ہے( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
مگر ایک بات یاد رکھیں‌ کہ پوری امت کے لیے اور خصوصاً ہمارے لیے اور ترجیحاً شیعہ کے لیے "امام علی" کا قول و عمل "حجت" ہے، "دوسروں" کے لیے بھی (بے شک امام علی کے بجاۓ " حضرت علی رضی اللہ عنہ " کی فارم میں‌ ہو(۔۔۔۔۔۔۔۔! اور خدا کی قسم اگر مولا علی ہی اس چیز کو حلال جانتے اور اس کا حکم دے دیتے تو ہم بلا چون و چرا اس پر عمل کرتے مگر وہ اللہ جو علیم و بصیر ہے اس نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ کسی فاسق اور دل کے اندھے کو کویٔ چور راستہ نہ مل سکے۔۔۔۔۔۔۔!
معاف کیجیے گا محترمہ آپ نے تو اپنے فقہ کا رد کر کے اور امام اول کو غلط کہہ کر اپنی بنیاد ہی ختم کر دی ہے اب ایک ہی کسر رہ گٔی ہے کہ آپ ایک اور فرقے کی بنیاد رکھیں کے جس کے قول و عمل کی بنیاد آپ کے "فقہی اور عالمانہ" اصولوں پر ہو اور آپ کا فرمایا ہوا ان کے لیے حجت ہو۔ :mad:
 

مہوش علی

لائبریرین
صبر کیجئے۔ میرا پورا لکھا ہوا مراسلہ پوسٹ ہونے سے قبل ڈیلیٹ ہو گیا ہے۔ اب وقت ملنے پر دوبارہ لکھنے کی کوشش کروں گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شوکت کریم بھائی،
آپ اتنے بچے نہیں ہیں کہ آپ کو پتا نہیں کہ سنت یہاں کس معنوں میں استعمال ہو رہی ہے۔ یہ اللہ کے رسول ص کی Practice (سنت) تھی کہ جب صحابہ نے آ کر کہا کہ انہیں گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے تو رسول اللہ ص نے انہیں عقد المتعہ کرنے کی اجازت (اور کچھ روایات میں منادی، اور کچھ میں حکم) دیا۔ اگر آپ کو رسول اللہ ص کی یہ Practice یعنی سنت نظر نہیں آتی تو پھر آپکا اللہ ہی حافظ ہے۔
************
اور حضرت ابو بکر کی بیٹی اسماء بنت ابی بکر کے عقد المتعہ کے متعلق یہ بات آپ کے عظیم عالم ابن حجر العسقلابی بیان کر رہے ہیں (اور بغیر کسی تردید کے بیان کر رہے ہیں)۔ اور نسائی کا حوالہ بھی وہی دے رہے ہیں۔ میں نے اوپر انکی کتاب کا مکمل لنک پیش کر دیا ہے۔ اب آپ کو پھر بھی نسائی میں نہ ملے تو یہ آپکا قصور یا پھر آپکی پسندیدہ کتاب کے مؤلف سپاہ صحابہ کے حافظ اقبال رنگونی کا بات سے فرار حاصل کرنا ہے۔
اور مسعودی ہرگز شیعہ مؤرخ نہیں تھا۔ پتا نہیں کتنے عرصے فرقہ واریت میں مبتلا یہ علماء دھوکہ دیں گے. سلف علمائے رجال میں شیعہ اُس شخص کو کہا جاتا تھا جو معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ علی ابن ابی طالب کی جنگ میں علی کی سائیڈ پر تھا یا سیاسی طور پر علی کو برحق مانتا تھا ، جبکہ آجکے عقیدتی امامی شیعہ کو ماضی میں مخالفین رافضی کہتے تھے۔
مسعودی پکا اہلسنت تھا اور الفاروق کے شروع میں شبلی نعمانی نے جو بطور اپنے سلف کے اسکی جو تعریف کی ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اور مودودی صاحب نے خلافت و ملوکیت میں مسعودی پر اعتراضات کو واہیات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ مسعودی کی کتاب میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی جو تعریفیں بیان کی گئیں ہیں وہ کوئی رافضی کر ہی نہیں سکتا۔ اور مسعودی کی جو روایات اہل تشیع کے حق میں جاتی ہیں، اور جن کی وجہ سے اس پر شیعہ کا الزام لگا دیا گیا ہے، وہ تمام کی تمام تاریخی روایات دیگر سنی کتب میں بھی موجود ہیں تو پھر انکا انکار کیسا اور مسعودی پر شیعہ کا الزام کیسا۔
**************

فاروق صاحب،
آپ سے میں نے درخواست کی تھی کہ آپ سے بات الگ تھریڈ میں ہو گی۔ اگر آپ نے یہاں پر پھر بھی موضوع شروع کر دیا ہے تو بھی میں ایک دفعہ بقیہ حضرات سے فارغ ہو کر ہی آپکے کے ساتھ گفتگو کر سکوں گی۔ شکریہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نقوی بھائی صاحب،
عمران بن حصین کی روایت میں پیش کر چکی ہوں، مگر حسب معمول وہ ہضم ہے۔ چنانچہ جواب دیجئے کہ وہ قرآن میں بیان کردہ حلال اللہ کی تبدیلی پر خاموش کیوں ہیں اور کیوں اُس شخص کے خلاف تلوار نہیں اٹھا رہے۔
علی ابن ابی طالب کا عقد المتعہ پر عثمان کے ساتھ اختلاف کی روایت بھی میں پیش کر چکی ہوں، مگر وہ بھی ہضم ہے اور بتلایا نہیں جاتا کہ علی نے پھر تلوار اٹھا کر حضرت عمر کے خلاف کیوں نہیں قتل و خون شروع کر دیا۔
ابن عباس کا مسئلہ بیان ہو چکا ہے۔ جابر بن عبداللہ انصاری کا مسئلہ بیان ہو چکا ہے۔ مگر وہ لوگ جو شیعہ کتب میں خیبر کے متعلق فقط ایک روایت (غیر صحیح) موجود ہونے پر اتنا شور مچاتے ہوئے اچھلنا شروع ہو گئے تھے، انہیں جب ان کی اپنی کتابوں میں روایات کو پورا دفتر دکھایا گیا تو انہیں پھر حسب معمول خاموشی سے ہضم کیا جا چکا ہے کیونکہ خود پر یہ ہزار خون معاف رکھتے ہیں۔
میں نے تو آپ سے کہا ہے کہ پہلے آپ ان سوالوں کی صفائی دیں کہ انہوں نے پھر تلوار اٹھا کر کیوں نہ جنگ شروع کر دی اور پھر یہیں سے میرا جواب شروع ہو گا۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
اصل پيغام ارسال کردہ از:شوکت کریم
ا وپر میں نےایک اقتباس دیا تھا ڈاکٹر موسیٰ‌الموسوی کی کتاب اصلاح شیعہ سے۔ مناسب ہے کہ ان کا تھوڑا سا تعارف بھی کروا دیا جائے اور کتاب کا لنک بھی دے دیا جائے تا کہ حجت تمام ہو۔

ڈاکٹر موسٰی الموسوی، الامام الاکبر سید ابوالحسن الموسوی الاصفہانی کے پوتےہیں۔ سند پیدائش 1930 ہے اور مقام پیدائش نجف اشرف ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر فقہ اسلامی میں‌ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
1955 میں‌طہران یونیورسٹی سے اسلامی قانون میں‌ڈاکٹریٹ اور 1959 میں‌پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں‌پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
منسلکہ کتاب اصلاح‌شیعہ کے صفحہ 190 سے متعہ کا بیان شروع ہوتا ہے۔
سبحان اللہ، شوکت بھایٔ کیا مثا لی کاوش ہے آپ کی اس کی جتنی بھی داد دی جاۓ کم ہے اس کتاب نے تو سب کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا ہے اور صاحب کتاب تو کیا علم ہے ان کا اور کیا مقام ہے ، جس نے "امام خمینی" کو جلا وطنی میں پناہ دی ہو اور امام ابو الحسن اصفہانی کا پوتا ہو اور شیعت کے گڑھ میں رہتا ہو اس سے اس چیز کی توقع کی تو نہیں جا سکتی تھی مگر کیا کیا جاۓ اس ما لک کے بھید نرالے ہیں اب بے شک جماعت _______ کے ماننے والے سید ابو اعلٰی مودودی پرآخری عمر میں گمراہ ہونے کا لیبل لگاتے رہیں یا یہ شیعہ حضرات ڈاکڑ موسٰی الموسوی کو مرتد ہونے کا طعنہ دیتے رہیں مگر اللہ تبارک تعالٰی نے جو ان سے کام لینا تھا اور جو حق سامنے لانا تھا وہ تو آ گیا۔ شکر اے خداۓ بزرگ و برتر بے شک تیری خکمت نرالی اور عجب شان والی ہے۔
ویسے ایک قانونی و نفسیاتی نقطہ بھی ہے کے آخری وقت پر انسان لازمی سچ بولتا ہے اور بستر مرگ کے بیان کو ایک خاص ایمیت حاصل ہوتی ہے;)
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن حسن:
آپ لاکھ سر پٹخ لیں اور الزامات لگا لیں، مگر ابھی تک حسب معمول ایک بھی روایت ایسی نہیں پیش کر سکے ہیں جس کی سند ہو اور ہمارے لیے حجت ہو۔ آپ کا پورا متاع حیات اس وقت مکمل طور پر ایسی روایات ہیں جن کہ کوئی وقعت نہیں اور نہ وہ ہمارے اوپر حجت ہیں اور فضائل وغیرہ کے ضمن میں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ اب لاکھ اچھل لیں، کود لیں، چیخ لیں چلا لیں مگر ثابت پھر بھی ٹھینگا نہیں کر پا رہے۔ ایک درجتی والی روایت پر سب سے زیادہ شور تھا، تو اُس کی حقیقت بھی سامنے آ گئی کہ اُسکی کوئی اصل نہیں اور نہ درجتی والی روایت خود موصوف کی کتاب میں موجود ہے۔ اب چاہے لاکھ کاشانی کاشانی کرتے رہیں، مگر کاشانی ہم پر حجت نہیں ہے۔
از ابن حسن:
اس چشم کشا حقیقت کے بعد اب آپ کی اس بات میں کتنا دم رہ جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ہماری جانب سے جھوٹی روایت کے بعد پھیلا کہ زیر بحث روایت الکافی کی ہے؟؟
بہت خوب۔باتوں کو گھمانے کے فن کا کمال آپ پر ختم ہے۔
سوال: کیا ابن ہاشمی کے جھوٹ کا لنک اور صفحے کا لنک آپ کے سامنے پیش نہیں ہوا جہاں مسلسل یہ جھوٹ بولا گیا ہے کہ یہ روایت الکافی میں موجود ہے؟
سوال: اور سب سے بڑھ کر کیا اتنے کھلے طریقے سے یہاں اسی تھریڈ میں گرافک بھیا نے سفید جھوٹ پھر نہیں بولا کہ انکے پاس الکافی بمع سکین صفحات کے موجود ہے۔
اگر انکار ہے گرافک بھیا کے اس سفید جھوٹ کا تو انکا ٹیکسٹ یہاں موجود ہے اور میں پہلے پیش کر چکی ہوں۔
اب آپکے پاس فرار کی کوئی راہ نہیں ہے۔ بتلائیے کہ آپ کی آنکھیں اپنی طرف کے ان سفید اور کھلے جھوٹوں کو سامنے دیکھ کر کیوں نابینا ہو جاتی ہیں؟ ْ آپ اور گرافک بھیا اس سے پہلے امام خمینی پر جھوٹے الزام کے معاملے میں بھی فرار ہیں۔ لیکن اسکا حساب بعد میں لوں گی۔ انشاء اللہ۔

اور کاشانی پر سند کے حوالے سے تنقید کرنے سے قبل یہ بتلا دیتے کہ اوپر جنت میں حضرت عمر کے سب سے پہلے داخل ہونے والی توہین آمیز روایت پر آپکی سنن کے مؤلف اور دیگر بے تحاشہ علماء نے کون سا اہتمام کیا ہے؟
ابن حسن، دوسروں پر پتھر پھینکنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکیں۔ کاشانی کو برا بھلا کہنے سے قبل اپنے ان علماء پر تنقید کریں۔
اور ابن ماجہ کی شرح میں امام سندی تو اس روایت کو ایسے ہی Defend کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا آپ بندریا کو سنگسار کرنے والی جاہلیت کے زمانے کی روایت کو کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں مراد اللہ نہیں ہے بلکہ یہ کوئی حق فرشتہ ہے جو سب سے سب کو چھوڑ کر حضرت عمر کا استقبال کرے گا، ان سے مصافحہ کرے گا اور پھر سب سے پہلے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑ کر انہیں جنت میں لے جائے گا۔ ماشاء اللہ۔
ابن حسن،
کچھ عقل پکڑیں۔ ہماری تو سند والی کوئی روایت پیش نہیں کر سکے ہیں، مگر اپنی سند والی روایتوں میں بھی موجود رطب و یابس اور توہین نظر نہیں آتی۔ اور جو بغیر سند کے غنیۃ الطالبین کی روایات ہیں، ان میں توہین کا کیا کہنا کہ آخر میں یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں کہ دوسرے کنویں میں چھلانگ لگا رہے ہیں اس لیے میں بھی لگاؤں گا اور باز نہ آؤں گا۔ اور کاشانی پر سند کا اہتمام نہ کرنے پر شور مچایا جا رہا ہے مگر غنیۃ الطالبین کے مصنف کے اس مباشرت کے متعلق توہین آمیز روایات میں سند کا اہتمام کرنے پر بس خاموشی ہی خاموشی یا پھر لولے لنگڑے بہانے بنا کر دوسرے کے پردے کے پیچھے پناہ لینا۔ توبہ ہے اس کھلے دو رخے رویے پر کہ انسان اتنا نابینا ہو جائے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آئے مگر دوسری کی آنکھ کے چھوٹے سے تنکے پر بس شور مچا کر اچھلا جایا جاتا رہے۔

***************

اور ہاں آپ نے جو کاشانی کی متعہ والی اولاد کی بات کی ہے اسکا امیج اپلوڈ کر دیجئے۔ اسکے بعد مجھے بھی آپکی کتابوں میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے کی فضیلت پر کچھ لکھنا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از ابن حسن:
تعہ (زنا)پر بحث کر رہیں ہیں اور تقیہ (جھوٹ) کا استعمال آپ فراوانی سے فرما رہیں ہیں اور ساتھ ساتھ ہر ایک گذرتی پوسٹ کے بعد آپ کی تبرا بازی (گالم گلوچ) میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اور یہی رفتار رہی تو شاید محفل کی یہ تھریڈ اس لیے بھی یادگار بن جائے گئی کہ یہاں آپ کے فرقے کے ان تین بنیادی عقائد پر بہت سارا مواد دستیاب ہو گا اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا آپ کا ہی کارنامہ قرار پائے گا۔(شاید محفل کی انتظامیہ اسی بات کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے)
مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی سرشت سے باز نہیں آ سکتے اور جو صدیوں کی سرشت ہے کہ ہم پر تقیہ کے نام پر جھوٹ کا الزام لگایا جائے، وہ زہر آپکی رگوں میں بھی مکمل دوڑ رہا ہے۔ میں نے کہاں تقیہ کیا ہے؟ اور کیا اپنے جھوٹ نظر نہیں آئے جب امام خمینی پر جھوٹا الزام لگایا جا رہا تھا؟ نہیں آپ خود پر تو ہر خون معاف رکھتے ہیں۔
اور میں نے کون سی گالم گلوچ کی ہے؟ اس تبرا کے بہانے کو رہنے دیں اور دکھائیں کہ میں نے کون سی گالم گلوچ کی ہے اور محفل کی انتظامیہ نے اس گالم گلوچ کو سنسر کیوں نہیں کیا ہے۔ باقی آپ جو چاہے افتراء پردازی کریں کہ کوئی آپکی زبان نہیں پکڑ سکتا۔
*************

۔۔۔
ابن حسن،
کیا آپ کی اس بیماری کا کوئی علاج ممکن ہے کہ آپ سند کےبغیر جو روایات پیش کر کے شور مچاتے پھرتے ہیں، اسکی جگہ کوئی ایسی ڈھنگ کی بات کریں کہ جس پر بات بھی کی جا سکے؟ یہ ایک عمومی بات ہے۔
اور اب آتے ہیں اس روایت کی طرف اور اسکی سند موجود ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس روایت کی اصل کیا ہے اور کیا اس پر ایسے اچھل اچھل کر شور مچانا انصاف ہے جیسا کہ مخالفین کر رہے ہیں؟

باقر مجلسی کی کتاب حق الیقین کا جو عکس ابن حسن نے پیش کیا ہے، اس میں باقر مجلسی (جو بہت بعد کے عالم ہیں) لکھتے ہیں:"اور شیخ طوسی اور نعمانی نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت قائم (مہدی) کے ظہور کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ حضرت ۔۔۔قرص آفتاب کے سامنے ظاہر ہوں گے اور منادی آواز دے گا یہ امیر المومنین ہیں۔۔۔"
شیخ طوسی اور نعمانی کی کتب میں یہ روایت بمع سند موجود ہے اور ان کو دیکھ کر بات واضح ہو جاتی ہے کہ حق الیقین میں یہ روایت نقل کرتے وقت یا علامہ مجلسی یا پھر کاتب سے سہوا غلطی ہو گئی ہے اور برہنہ بازو کا جو لفظ آگے ایک روایت میں آ رہا ہے، وہ یہاں غلطی سے لکھا گیا ہے۔

let us therefore present the original arabic text from shaykh tusi’s book ‘al-ghaybah’ page 440 and from shaykh numani’s book ‘al-ghaybah’ page 186:

سعد بن عبد الله، عن الحسن بن علي الزيتوني و عبد الله بن جعفر الحميري [ معا ] (1) عن أحمد بن هلال العبرتائي، عن الحسن بن محبوب، عن أبي الحسن الرضا عليه السلام - في حديث له طويل اختصرنا (2) منه موضع الحاجة ۔۔۔ . والصوت الثالث - يرون بدنا بارزا نحو عين الشمس -: هذا أمير المؤمنين

saad bin abdullah – al-hassan bin ali al-zaitoni & abdullah bin jaffar al-hemiari – ahmad bin helal al-abertaei – al-hassan bin mahboob – abi al-hassan al-raza [as]- which is long tradition thus i am just quoting the needed part…the third call they see a body rise toward the sun, this is the commander of the believers and he will attack sprint to perish the unjust.
al-ghaybah by shaykh tusi, page 440

وحدثنا محمد بن همام قال : حدثنا أحمد بن مابنداد وعبدالله بن جعفر الحميري قالا : حدثنا أحمد بن هلال قال حدثنا الحسن بن محبوب الزراد قال : قال لي الرضا (عليه السلام)۔۔۔ قال : ثلاثة أصوات في رجب : أولها { ألا لعنة الله على الظالمين } ، والثاني : أزفت الأزفة يا معشر المؤمنين ، والثالث : يرون يدا بارزا مع قرن الشمس ينادي : ألا أن الله قد بعث فلانا على هلاك الظالمين

muhammad bin humam – ahmad bin manabad & abdullah bin jaffar al-hemiari – ahmad bin helal – al-hassan bin mahboob al-zarad – al-raza [as]:…. The third: They see a hand rise towards the sun and a caller will say: Verily allah sent you that certain person with to sprint to perish the unjust.
al-ghaybah by muhammad bin ibrahim numani, page 186

۔ پہلی روایت میں سورج کے سامنے "بدن" ظاہر ہونے کی بات ہے۔
۔ دوسری روایت میں سورج کے سامنے "ہاتھ" ظاہر ہونے کی بات ہے۔
۔ اور اسی صفحے پر کچھ سطریں چھوڑ کر "برہنہ ہاتھ" تلوار اور نیزہ بلند کرنے کی بات ہے۔
چنانچہ اب بات صاف ہو رہی ہے کہ غلطی کہاں ہو سکتی ہے۔ بقیہ اگر اب بھی کسی کو اس انسانی غلطی پر اچھل کر شور مچانا ہے تو میں پلٹ کر بہت سی ایسی انسانی غلطیاں دکھاؤں گی۔

اور ابن حسن، آپ کو شرم کرنی چاہیے کہ اپنی طرف سے اس میں ایسا غلیظ اضافہ کر رہے ہیں کہ امام مہدی ننگے ہو کر رسول اللہ اور حضرت علی سے بیعت لے رہے ہوں گے۔ اگر سورج کے سامنے ۔۔۔۔ ہونے تک بات کو رکھتے تو پھر اعتراض نہ ہوتا، مگر جب آپ گندگی کو اپنی طرف سے اس میں ساتھ شامل کر اضافے کر رہے ہیں، اس پر آپ کو شرمسار ہونا چاہیے اور معذرت کرنی چاہیے۔

(حذف کردہ۔۔)
 

مہوش علی

لائبریرین
سبحان اللہ، شوکت بھایٔ کیا مثا لی کاوش ہے آپ کی اس کی جتنی بھی داد دی جاۓ کم ہے اس کتاب نے تو سب کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا ہے اور صاحب کتاب تو کیا علم ہے ان کا اور کیا مقام ہے ، جس نے "امام خمینی" کو جلا وطنی میں پناہ دی ہو اور امام ابو الحسن اصفہانی کا پوتا ہو اور شیعت کے گڑھ میں رہتا ہو اس سے اس چیز کی توقع کی تو نہیں جا سکتی تھی مگر کیا کیا جاۓ اس ما لک کے بھید نرالے ہیں اب بے شک جماعت _______ کے ماننے والے سید ابو اعلٰی مودودی پرآخری عمر میں گمراہ ہونے کا لیبل لگاتے رہیں یا یہ شیعہ حضرات ڈاکڑ موسٰی الموسوی کو مرتد ہونے کا طعنہ دیتے رہیں مگر اللہ تبارک تعالٰی نے جو ان سے کام لینا تھا اور جو حق سامنے لانا تھا وہ تو آ گیا۔ شکر اے خداۓ بزرگ و برتر بے شک تیری خکمت نرالی اور عجب شان والی ہے۔
ویسے ایک قانونی و نفسیاتی نقطہ بھی ہے کے آخری وقت پر انسان لازمی سچ بولتا ہے اور بستر مرگ کے بیان کو ایک خاص ایمیت حاصل ہوتی ہے;)

انسان جب فرقہ پرستی میں پڑتا ہے تو ایسا ہی نابینا پن اس کی آنکھوں میں آ جاتا ہے کہ شیعت کی گڑھ کی بات کرتا ہے مگر خود قرآن کو دیکھنے سے قاصر ہر جاتا ہے جہاں نبی کا بیٹا اور نبی کی بیوی، اس نبی کے گھر اور گڑھ میں رہتے ہوئے گمراہ ہو کر غرق ہو جاتے ہیں۔

اللہ کہتا ہے کہ دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔

مگر ہم جب اپنے ان بھائیوں سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ جواب میں دلیل کی بجائے پکڑ کر ڈاکٹر موسوی کو لے آتے ہیں۔

اللہ تعالی ان کو ہدایت دے۔ امین۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش بہن، مجھے مجبوراً آپ کو تنبیہہ کرنا پڑ رہی ہے کہ آئندہ صحابہ کبار اور امہات المومنین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے بارے میں زبان سنبھال کر بات کریں۔ شکریہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نبیل بھائی، آپ نے تنبیہ کی ہے تو بالکل ٹھیک کی ہو گی اور آپ کو پتا ہے کہ میں منتظمین کے ہر فیصلے کو بغیر کسی تنقید کے قبول کرتی ہوں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ آپ حضرت عائشہ والی روایت کو مراسلے سے نکال دیں (یا جو بھی حصے آپکے نزدیک ٹھیک نہیں) اور باقی مراسلے کو پوسٹ کر دیں کیونکہ اس میں ابن حسن کے بقیہ اعتراضات کے جوابات ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ میں انہیں دوباہ لکھ پاؤں؟

نیز یہ کہ حضرت عائشہ والی روایت پر اگر دل آزاری کا باعث ہے، تو کیا اس سے زیادہ ننگی اور دل آزاری والی بات ابن حسن نے امام مہدی علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق نہیں لکھی ہوئیں؟
 

باذوق

محفلین
اور کیا آپ کو اس میں رسول اللہ ص کی صاف توہین نظر آتی؟ مگر اسکے باوجود یہ روایت سنن اور دیگر کتب میں فضائل کے ذیل میں نقل ہو گئی۔ اور میں شروع سے ہی یہ بات آپکی عقلوں کی نظر کر رہی ہوں مگر بات آپ لوگوں کے پلے پڑ نہیں رہی ہے۔
آپ بھی کیسی بےتکی باتیں کر رہی ہیں ؟؟
صحیحین کو چھوڑ کر وہ کون سی ایسی کتابِ روایت ہے جس کی تمام روایات کو اہل سنت نے حجت مانا ہو؟ محض کسی روایت کے نقل ہو جانے سے کیا یہ لازم آتا ہے کہ وہ صحیح اور قابل حجت بھی ہوگی؟ دوسری بات ایک یہ بھی کہ قرآنسٹ حضرات کو تو بخاری و مسلم میں بھی ایسی کئی روایات نظر آتی ہیں جن سے ان کی عقل کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین ہوتی ہے ۔۔۔۔ کیا ان کے اس فہم کو قبول کر لیا جانا چاہئے؟؟
ونیز ۔۔۔ ضعیف و موضوع روایات پر متقدمین اور متاخرین ائمہ و علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ سب کس لئے ہیں؟؟ کیا ان کتب کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی دانستہ توہین کی گئی ہے یا ان کا مذاق اڑایا گیا ہے؟؟
یہ عجیب و غریب منطق تو منکرینِ حدیث کی ہے کہ ان کا فرمان ہوتا ہے کہ :
جس روایت کے ذریعے نبی کی توہین کا مفہوم ہماری عقل میں آئے وہ کتبِ فضائل میں قطعاَ بیان نہیں ہونی چاہئے۔

اگر آپ نے آنکھیں کھول کر اس تھریڈ میں حصہ لیا ہوتا تو آپ کو بار بار یہ محنت دوسروں سے نہ کروانی پڑتی۔
اس تھریڈ کے سب سے پہلے مراسلے میں ابن حجر العسقلانی کی کتاب کا حوالہ بمع لنک مہیا کر دیا گیا تھا۔
جی ! ہم کو تو خیر سے پتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کو کتنا کھول کر دوسروں کی "محنت" دیکھ رہے ہیں لیکن اب تو یہ بھی علم ہو رہا ہے کہ کتربیونت والے حوالے دیتے ہوئے کس طرح دوسروں کی کھلی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے؟

ویسے لاکھوں صحابہ میں سے "جم غفیر" کے حوالے سے آپ کے پاس کیا ابن حزم (رحمۃ اللہ علیہ) کی بتائی ہوئی صرف یہی 9 صحابہ والی لسٹ ہے ؟؟

اور دوسرے یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔ التلخيص الحبير کا یہ جو ربط آپ نے دیا ہے ، اس کا یہی باب (كتاب النكاح > باب اركان النكاح) ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے :
[ARABIC]حَدِيثُ عَلِيٍّ : { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ } . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ . قَوْلُهُ : كَانَ ذَلِكَ جَائِزًا فِي ابْتِدَاءِ الْإِسْلَامِ ، ثُمَّ نُسِخَ ، رَوَى الشَّيْخَانِ مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ إبَاحَةَ ذَلِكَ ثُمَّ نَسَخَهُ . وَرَوَى مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ عَنْ أَبِيهِ نَحْوُ ذَلِكَ ، وَقَالَ الْبُخَارِيُّ : بَيَّنَ عَلِيٌّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ . وَفِي ابْنِ مَاجَهْ عَنْ عُمَرَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ أَنَّهُ خَطَبَ فَقَالَ : { إنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لَنَا فِي الْمُتْعَةِ ثَلَاثًا ، ثُمَّ حَرَّمَهَا ، وَاَللَّهِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَمَتَّعَ وَهُوَ مُحْصَنٌ إلَّا رَجَمْته بِالْحِجَارَةِ }[/ARABIC]
حدیثِ علی (رضی اللہ عنہ) : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ سے منع فرمایا (متفق علیہ) ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں یہ جائز تھا پھر منع ہوا۔
امام بخاری اور امام مسلم نے سلمہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سے اس کا جائز اور پھر منع ہونا بیان کیا ہے۔ اور امام مسلم نے ربیع بن سبرۃ عن ابیہ والی حدیث میں بھی اسی سے ملتی جلتی بات کہی ہے۔ اور ابن ماجہ میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے باسناد صحیح بیان کیا گیا ہے انہوں نے خطاب کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ متع کی اجازت دی پھر منع فرما دیا ۔۔۔۔۔۔


مزید ۔۔۔۔ آپ نے ابن حزم کی فہرست والے عربی متن سے اس فقرہ کا ترجمہ لکھنے کے بجائے تین نقطے ڈال دئے
[ARABIC]قَالَ : وَقَدْ تَقَصَّيْنَا الْآثَارَ بِذَلِكَ فِي كِتَابِ الْإِيصَالِ[/ARABIC]
ترجمہ : ( ابن حزم کہتے ہیں کہ ) اس موضوع پر موجود آثار ہم نے کتاب الایصال میں بیان کیے ہیں۔

یعنی ۔۔۔۔۔ ابن حزم نے صحابہ کے ان تمام آثار کا ذکر اپنی کتاب [ARABIC]كتاب الإيصال إلى فهم كتاب الخصال[/ARABIC] میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے یہ کچھ صحابہ کے انفرادی اقوال / اعمال ہیں۔
صحابہ کے انفرادی اقوال / اعمال کیا حجت ہیں؟؟ وہ بھی اس وقت جبکہ لاکھوں صحابہ میں سے یہاں صرف 9 کی فہرست دی جا رہی ہے اور اسے "جم غفیر" کا عنوان عطا کیا جا رہا ہو ؟؟

جبکہ یہی مہوش علی ہیں ۔۔۔ جو کہیں بھی کوئی بھی بحث ہو ، وہاں یہ بات اکثر دہراتی ہیں کہ صحابہ کے درمیان لڑائی جھگڑے تلخ کلامی وغیرہ وغیرہ کے نازیبا افعال و اعمال سرزد ہوئے ہیں۔ تو کیا کہا جائے گا کہ مسلمانوں کے لئے ایسی تمام خرابیاں جائز ہیں چونکہ ان کا صدور بعض صحابہ سے ہوا ہے؟؟
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین (جنگ کے) مواقع پر متعہ کی اجازت دی تھی تو آخر میں قیامت تک کے لیے منع بھی تو فرما دیا ہے !! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ممانعت حجت نہیں ہے اور اس ممانعت کے بالمقابل صحابہ کے اقوال یا افعال حجت رہیں گے؟؟
ذرا بتائیے کہ یہ کون سی منطق ہے جس کے سہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ترین قول کو جھٹلا کر صحابہ کی لسٹ پر اعتبار کیا جا رہا ہے؟؟
ونیز ۔۔۔۔۔
ابن حزم کی بیان کردہ لسٹ تو زور و شور سے پیش کی گئی ۔۔۔۔ مگر انہی ابن حزم کا ایک اور قول جو اسی صفحہ پر موجود ہے ، اسے کیوں نظرانداز کر دیا گیا ہے؟؟ کیوں ؟؟
ملاحظہ کیجئے ۔۔۔۔
بحوالہ : التلخيص الحبير > كتاب النكاح > باب اركان النكاح
[ARABIC] قَالَ ابْنُ حَزْمٍ فِي الْمُحَلَّى : مَسْأَلَةٌ : وَلَا يَجُوزُ نِكَاحُ الْمُتْعَةِ وَهِيَ النِّكَاحُ إلَى أَجَلٍ ، وَقَدْ كَانَ ذَلِكَ حَلَالًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ تَعَالَى عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ .[/ARABIC]
یعنی یہاں تو ابن حزم خود نکاحِ متعہ کی واضح ترین ممانعت کا ذکر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ نکاحِ متعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں حلال تھا پھر اللہ تعالیٰ نے لسانِ رسالت سے قیامت تک کے لیے اسے منسوخ کر ڈالا !!

اب یہ تو مہوش علی کو ضرور بتانا چاہئے کہ اگر انہیں ابن حزم کے ایک قول سے اتفاق ہے تو دوسرے قول سے کیوں کر اختلاف ہے؟؟
اور اگر ان کو اپنا ذاتی فہم ہی مقدم رکھنا منظور ہے تو اہل سنت کے ائمہ کے یکطرفہ اقوال کو قلمبند کر کے کیوں دھوکہ دیا جا رہا ہے؟؟
ہم آخر کیوں کر ایسے فہم کو ڈبل اسٹینڈرڈ کا خطاب نہ دیں ؟؟
ایسا دہرا معیار تو اہل تشیع کی روش ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کا انتساب رافضیت کی طرف ہی کیا جانا چاہئے !!
 

گرائیں

محفلین
مہوش بہن، مجھے مجبوراً آپ کو تنبیہہ کرنا پڑ رہی ہے کہ آئندہ صحابہ کبار اور امہات المومنین (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے بارے میں زبان سنبھال کر بات کریں۔ شکریہ۔

دو تنبیہات ہو گئی ہیں۔

میری منتظمین سے درخواست ہے کہ اگر اس دھاگے میں‌اس طرح کا کوئی اور واقعہ پیش آیا تو شائد گڑ بڑ ہو جائے۔


ہم دیکھ چکے ہیں‌کہ ان کے اپنے دلائل ان کی کتابوں‌میں‌موجود دلائل سے کتنی مطابقت رکھتے ہیں۔ متعہ کی اہمیت سب پر واضح ہو چکی ہے، اب تو صرف الزام تراشی ہی رہ چکی ہے۔

مجھے تو فقہ جعفریہ کی اہمیت کے لحاظ سے ایک ہی سوال اہم نظر آیا۔
اگر متعہ حلال ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کوئی ایک واقعہ، کوئی ایک حکم، جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے متعہ کے حلال ہونے پر اپنے قول فعل یا سکوت سے مہر ثابت کی ہو۔
کوئی بھی نہیں‌، مگر بندریا اور بھیڑیوں‌کے قصوں تک نو بت آ‌چکی ہے۔

اگر متعہ کے فضائل اہل تشیع کی کتب سے بیان کئے جا رہے ہیں‌تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ حلا ل قرار دیا گیا ہے تو فضائل موجود ہین۔ اب کسی حرام چیز کے فضائل تو موجود ہونے سے رہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت کے اپنے من گھڑت معنوں‌کے علاوہ کو ئی ثبوت نہیں‌ہے۔

خدا کے لئے ہوش کے ناخن لیجئے۔ میرا خیال نہیں‌کہ متعہ پر تنقید صرف اس لئے ہو رہی ہے کہ لوگ فرقہ پرستی کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے اس پر تنقید اس لئے ہو رہی ہے کہ اس کے جواز کے دلائل بہت بھونڈے ہیں‌اور اس کے جاری رکھنے کے نقصانات بہت۔

میں‌ نے پہلے بھی مہوش علی سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے فقہ کے حساب سے متعہ کو ممنوع قرار دینے کے لئے اجتہاد پر غور فرمائیں اور معصوم عورتوں‌کا مذہب کے نام پر استحصال بند کرائیں۔
 

باذوق

محفلین
عمران بن حصین کی روایت میں پیش کر چکی ہوں، مگر حسب معمول وہ ہضم ہے۔ چنانچہ جواب دیجئے کہ وہ قرآن میں بیان کردہ حلال اللہ کی تبدیلی پر خاموش کیوں ہیں اور کیوں اُس شخص کے خلاف تلوار نہیں اٹھا رہے۔
میں نے اپنی اس پوسٹ:247 میں واضح طور سے لکھ دیا تھا کہ اس روایت سے کشید کردہ آپ کے خودساختہ فہم کا جواب ضرور دوں گا (بتوفیق اللہ)۔
علی ابن ابی طالب کا عقد المتعہ پر عثمان کے ساتھ اختلاف کی روایت بھی میں پیش کر چکی ہوں، مگر وہ بھی ہضم ہے اور بتلایا نہیں جاتا کہ علی نے پھر تلوار اٹھا کر حضرت عمر کے خلاف کیوں نہیں قتل و خون شروع کر دیا۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ یہاں دوبارہ علی ابن ابی طالب کا عقد المتعہ پر عثمان کے ساتھ اختلاف والی روایت کاپی کریں۔ لیکن براہ مہربانی اپنی اس پوسٹ کا نمبر بتا دیں تاکہ ریکارڈ رہے اور اسی پوسٹ کو کوٹ کر کے جواب دیا جا سکے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
شوکت کریم بھائی،
آپ اتنے بچے نہیں ہیں کہ آپ کو پتا نہیں کہ سنت یہاں کس معنوں میں استعمال ہو رہی ہے۔ یہ اللہ کے رسول ص کی practice (سنت) تھی کہ جب صحابہ نے آ کر کہا کہ انہیں گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے تو رسول اللہ ص نے انہیں عقد المتعہ کرنے کی اجازت (اور کچھ روایات میں منادی، اور کچھ میں حکم) دیا۔ اگر آپ کو رسول اللہ ص کی یہ practice یعنی سنت نظر نہیں آتی تو پھر آپکا اللہ ہی حافظ ہے۔
************

العیاذ باللہ اگر یہ آپ کے نزدیک یہی سنت کی تعریف ہے تو پھر واقعی اللہ ہی حافظ ہے۔

یاد رکھیں ہر سنت حدیث ہو سکتی ہے مگر ہر حدیث سنت نہیں ہو سکتی، اور سنت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عمل حیات طیبہ سے ثابت شدہ ہو اور متواتر ہو اور آخری عمل ہو۔ اگر آپ کے نزدیک سنت کی تعریف کچھ اور ہے تو بیان فرما دیں۔۔۔۔۔۔ نعوذ باللہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فعل ایک بار بھی نہیں سر انجام دیا تو پھر سنت کہاں سے ہو گیا۔ اور بقول آپکے یہ مخصوص حالات میں چند لوگوں کو دی گئی ایک رخصت تھی۔۔ تو پھر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ صاحب کا عمل کہاں سے ہو گیا۔

نبی کریم صلی کی حیات مبارکہ سے چند اعمال حسنہ کہ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تو ہے مگر اس عمل کو کوئی سنت نہیں مانتا اور نہ ہی کوٕئی سنت سمجھ کے عمل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ مانتی ہیں تو بتائیں یا آپ کے نزدیک کوئی شخص ان اعمال کو سنت کہتا ہے تو بتائیں؟؟؟؟؟؟

اور اگر نبی کا ایک مضطر کو ایک مخصوص حالت میں ایک فعل کی اجازت دینا سنت ہے تو یہ نیچے والے اعمال تو پھر بدرجہا اولیٰ‌سنت ہیں۔


کھڑے ہو کر پیشاب کرنا

آدم، شعبہ، اعمش، ابو وائل، حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی قوم کی ڈلاؤ پر تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا، پھر پانی مانگا تو میں آپ کے پاس پانی لے آیا، تب آپ نے وضو کیا۔

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابو وائل، حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ (ایک مرتبہ) میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چلا جا رہا تھا کہ آپ ایک قوم کی ڈلاؤ، پر دیوار کے پیچھے آئے اور جس طرح تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے، کھڑے ہوگئے اور پیشاب کرنے لگے، تو میں آپ سے الگ ہو گیا، آپ نے میری طرف اشارہ کیا، چناچہ میں آپ کے پاس آگیا آپ کی ایڑیوں کے قریب کھڑا ہو گیا، یہاں تک کہ آپ فارغ ہو گئے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 223222,


نماز سےپہلے بیوی کا بوسہ لینا۔

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، اعمش، حبیب، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا اور پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور نیا وضو نہیں کیا (اس حدیث کے راوی) عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ بیوی آپ ہی ہو سکتی ہیں اس پر وہ مسکرا دیں ابو داؤد کہتے ہیں زائدہ اور عبدالحمید حمانی نے بھی سلیمان اعمش سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ آطھرات نے اپنی نجی اور ازدواجی زندگی کے متعلق بیان فرمائی ہیں.
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 179

محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، سفیان، ابوروق، ابراہیم تیمی،حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کا بوسہ لیتے پھر نماز ادا کرتے (لیکن) دوبارہ وضو نہ فرماتے۔ (صاحب کتاب) امام نسائی فرماتے ہیں مذکورہ حدیث اس باب کی سب سے عمدہ حدیث ہے اور اس حدیث مبارکہ کے مرسل ہونے کی علت یہ ہے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ صدیقہ سے نہیں سنا اور اعمش نے یہ حدیث حضرت حبیب بن ثابت سے اور وہ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت فرماتے ہیں لیکن یحیی بن سعید قطان فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث اور عروہ کی عائشہ صدیقہ سے منقول حدیث کہ استحاضہ والی عورت کے خون کے قطرے چٹائی وغیرہ پر گریں قابل اعتبار نہیں ہیں۔
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 172

ابوبکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، اعمش، حبیب بن ابی ثابت، عروة بن زبیر، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک اہلیہ کا بوسہ لیا پھر نماز کے لئے تشریف لے گئے اور وضو نہ کیا ، میں نے کہا آپ ہی ہوں گی ؟ تو وہ مسکرا دیں ۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، حجاج، عمرو بن شعیب، زینب سہمیہ، حضرت زینب سہمیہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کر کے بوسہ لیتے اور پھر دوبارہ وضو کئے بغیر ہی نماز پڑھ لیتے اور بسا اوقات میرے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر ,503502


فاروق صاحب،
آپ سے میں نے درخواست کی تھی کہ آپ سے بات الگ تھریڈ میں ہو گی۔ اگر آپ نے یہاں پر پھر بھی موضوع شروع کر دیا ہے تو بھی میں ایک دفعہ بقیہ حضرات سے فارغ ہو کر ہی آپکے کے ساتھ گفتگو کر سکوں گی۔ شکریہ۔

یاد رکھیں ہر دلیل، ہر روایت ہر ثبوت سے منکر بن کر آپ اپنے مذہب سے کھلواڑ کر رہی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بدنام ہیں مفت میں فاروق صاحب ۔۔۔۔۔ آپ کو جو جو روایت دی جاتی ہے اس سے منکر بن جاتی ہیں تو پھر منکر روایت اور کس طرح کے ہوتے ہیں۔

بلکہ وہ ایسے منکر روایت سے بدرجہا بہتر ہیں کہ جن کے طریق کا سب کو پتہ ہے۔ اور ایسے منکر روایت زیادہ خطرناک ہیں کہ جو اپنی بات کے ثبوت کے لیئے تو روایت کو بطور دلیل پیش کر دیں اور دوسروں کی دی ہوئی روایت کو دیوار پر مار دیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top