اصلاح فرمائے براہِ کرم

ایک غزل لکھنے کی جسارت پھر کی ہے
212-1222-1222-1222
از راہِ کرم راہ نمائی کیجیے

جو ہم بھی نہیں کر پائے وہ تم کرو تو کہیں
جو گھاؤ تم نے لگائے انہیں بھرو تو کہیں

یہ جسمیں ہمیں ڈالا ہے وہ امتحانِ چاہت ہے
مشکل کسی ایسی میں رب کرے تم پڑو تو کہیں

ڈر تو یہ ہے کہ میرے ایک ہی شناسا ہو تم
تمہارے دوست کئی پھر تم ڈرو تو کہیں

سبھی نے موردِ الزام ہمیں کو ٹھہرایا
یہی تہمت سرِ محفل جو تم رکھو تو کہیں

مریں گے کہنا ہی آساں ہے یوں مگر اظہر جی
وصالِ یار کی خاطر اگر جو تم مرو تو کہیں

والسلام
اظہر
 

مغزل

محفلین
شکریہ ، اظہر صاحب، اچھی کوشش ہے ، ماشا اللہ، کچھ فرصت سے حاضر ہوتا ہوں ۔ میری گزارش ہے کہ وارث صاحب اور بابا جانی ( الف عین ) کرم فرمائیں، یہ منصب انہیں کا ہے ۔ آپ اپنے طور پر بھی اساتذہ کرام ( مذکورہ) سے رابطہ کیجے ۔ ویسے جو حکم میں اپنی سی رائے سے آپ کو آگاہ کردیتا ہوں ۔والسلام
 

مغزل

محفلین
شکریہ میرے دوست، آپ کی وضاحت سر آنکھوں پر مگر میرے لیے کسی بھی تخلیق کا صرف کہنا بھی حکم کا درجہ رکھتا ہے ۔ آپ محسوس مت کیجے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
بھئی یہ بائنری نظام تو میری سمجھ سے باہر ہے۔ ویسے کچھ مصرع بحر میں ہیں
جیسے
جو گھاؤ تم نے لگائے انہیں بھرو تو کہیں
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن میں درست ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر دوسرے مصرعوں کو بھی پابندِ بحر کیا جا سکتا ہے۔
 
استادِ محترم،
آپ کیا نظام تجویز فرمائے گا تقطیع کے لئے
اور مزید درخواست ہے کہ اگر ممکن ہو تو مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن میں مصرح کی تقسیم فرما کر مثال سے وضاحت فرما دیجئے
ممنونِ احسان
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
جو گھاؤ تم۔۔۔ مفاعلن
نِ لگائے۔فعِ لاتن
انہیں بھرو۔ مفاعلن
تُ کہیں۔ فعلن
یہی مطلب ہے تمہارا؟
 

مغزل

محفلین
حق بہ حق دار رسید، شکریہ بابا جانی ، ۔۔اظہر بھیا، خوش نصیب ہیں آپ کہ بابا جانی اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر یہاں تشریف لائیں ہیں،
 

مغزل

محفلین
ایک بات کہ ’’ ھل من مزید ‘‘ کا جملہ جہنم نے ادا کرنا ہے۔ آپ کیوں حق تلفی کرتے ہیں۔ :grin:
 
مفاعلن فع لا تن مفاعلن فعلن

جو یم بھی کر نا پائے وہ تم کرو تو کہیں
جو گھاؤ تم نے لگائے انہیں بھرو تو کہیں

یہ جس میں ہم ہیں وہ امتحانِ چاہت ہے
ایسی کسی مشکل میں رب کرے پڑو تو کہیں

یہ ڈر ہم کو ہے کہ تم ایک ہی شناسا ہو
تمہارے دوست کئی ہیں اگر ڈرو تو کہیں

سبھی نے موردِ الزام ہمیں کو ٹھہرایا تھا
ہہی تہمت سرِ محفل جو تم رکھو تو کہیں

مریں گے کہنا تو آساں ہے مگر اظہر
وصالِ یار کی خاطر اگر مرو تو کہیں
 

مغزل

محفلین
یہ بحرِ مجتث ہے ، ہمارے قابو میں نہیں آتی ۔۔ آپ کا ہاتھ نہ پڑنا تو خیر ، وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہاتھ ہلکا رکھا آپ نے ، ۔۔ ویسے اب بابا جانی آگئے ہیں، عجلت نہ کیجے ، فراغت پاتے ہی وہ تشریف لے آئیں گے ،۔۔آپ جب تک کوشش بھی کیجے اور دیگر احباب کا کلام بھی پڑھ لیا کیجے ، اس سے بھی مہمیز ملتی ہے ، یہا ں ، الف عین ، نوید صادق،محمد وارث، فاتح الدین بشیر سینئر شعرا ئے کرام ہیں ، نئی نسل کے لوگوں میں ، فرزانہ نیناں، محمد احمد، زہرہ علوی ، قابلِ قدر نام ہیں‌ ، دیگر احباب کے نام ذہنی ناآمادگی کی وجہ کر لکھ نہیں پارہا ، آپ پہلے انہیں پڑھ لیجے اور رائے دیجے ، اس طرح آپ کی جھجھک بھی ختم ہوگی اور نئے نئے ذائقے بھی پڑھنے کو ملیں‌گے ، پسندیدہ کلام کی لڑی میں تو ایک جہانِ سخن آباد ہے ، فرداً فرداً پڑھ لیا کیجے ، والسلام
 
یہ بحرِ مجتث ہے ، ہمارے قابو میں نہیں آتی ۔۔ آپ کا ہاتھ نہ پڑنا تو خیر ، وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہاتھ ہلکا رکھا آپ نے ، ۔۔ ویسے اب بابا جانی آگئے ہیں، عجلت نہ کیجے ، فراغت پاتے ہی وہ تشریف لے آئیں گے ،۔۔آپ جب تک کوشش بھی کیجے اور دیگر احباب کا کلام بھی پڑھ لیا کیجے ، اس سے بھی مہمیز ملتی ہے ، یہا ں ، الف عین ، نوید صادق،محمد وارث، فاتح الدین بشیر سینئر شعرا ئے کرام ہیں ، نئی نسل کے لوگوں میں ، فرزانہ نیناں، محمد احمد، زہرہ علوی ، قابلِ قدر نام ہیں‌ ، دیگر احباب کے نام ذہنی ناآمادگی کی وجہ کر لکھ نہیں پارہا ، آپ پہلے انہیں پڑھ لیجے اور رائے دیجے ، اس طرح آپ کی جھجھک بھی ختم ہوگی اور نئے نئے ذائقے بھی پڑھنے کو ملیں‌گے ، پسندیدہ کلام کی لڑی میں تو ایک جہانِ سخن آباد ہے ، فرداً فرداً پڑھ لیا کیجے ، والسلام

جی ضرور انشا اللہ
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب یہ اصلاح کے قابل ہے کہ اس پر کچھ دماغ خرچ کیا جائے، پہلے تو میں اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا تھا۔ اب کچھ مصرعے تو واقعی درست وزن میں ہیں۔ اب ایک ایک کر کے۔۔

جو یم بھی کر نا پائے وہ تم کرو تو کہیں
جو گھاؤ تم نے لگائے انہیں بھرو تو کہیں

شاید ٹائپو ہے، ’جو تم بھی کر‘ لکھنا چاہا ہوگا۔۔ لیکن یہ مصرع بحر سے خارج ہے، ان صورتوں میں درست ہو سکتا ہے۔
جو تم بھی کر نہ سکے ہو، وہ تم کرو تو کہیں/ جو تم بھی کر نہیں پائے ہو، وہ کرو تو کہیں۔۔۔ لیکن تب بھی شعر کا مفہوم فی بطنِ شاعر لگتا ہے۔

یہ جس میں ہم ہیں وہ امتحانِ چاہت ہے
ایسی کسی مشکل میں رب کرے پڑو تو کہیں

کئی باتیں یہاں۔ پہلی بات قافیہ۔۔۔ قافیہ جو تم نے رکھا ہے، وہ زیادہ تر کرو، بھرو، ڈرو‘ ہے۔ اس میں ’پڑو‘ کہاں سے آ گیا؟ اسی طرح ’رکھو‘ قافیہ بھی غلط ہے۔ مطلع میں جو قوافی ہوں گے، غزل ان قوافی کے پیمانے پر ہی ناپی جائے گی۔
دوسری بات۔۔ اضافت، (یعنی ’زیر‘ کا استعمال ّامتحانِ چاہت‘ میں) محض فارسی النسل الفاظ میں جائز مانی جاتی ہے۔ ایک لفظ ہندی اور ایک لفظ فارسی یا عربی ہو، یہ غلط ہے۔ اس حساب سے چاہت کا امتحان تو ہو سکتا ہے۔ امتحانَ چاہت نہیں۔ ہاں۔ ’امتحانِ الفت‘ ممکن ہے۔
بحر میں تو لایا جا سکتا ہے اس کو لیکن پہلے قوافی کو درست کر لیا جائے۔

یہ ڈر ہم کو ہے کہ تم ایک ہی شناسا ہو
تمہارے دوست کئی ہیں اگر ڈرو تو کہیں
دوسرا مصرع وزن میں ہے لیکن پہلا مصرع نہیں، اس طرح بحر میں لایا جا سکتا ہے:
یہ ڈر ہے ہم کوکہ تم ایک ہی شناسا ہو/ یہ ڈر ہے ہم کوکہ تم ایک ہی شناسا ہو/ ہمیں یہ ڈر ہے کہ تم۔۔۔۔ معنی اس وقت نہیں دیکھ رہا ہوں، ورنہ ہر مصرع پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔

سبھی نے موردِ الزام ہمیں کو ٹھہرایا تھا
ہہی تہمت سرِ محفل جو تم رکھو تو کہیں

یہ وہی قافئے کی غلطی ہے پھر ۔ پہلا مصرع البتہ یوں وزن میں لایا جا سکتا ہے۔
سبھی نے موردِ الزام ہم کو ٹھہرایا
یہ تہمتیں سرِ محفل جو تم دھرو تو کہیں
میں قافیہ بھی درست ہو سکتا ہے اور وزن بھی۔ لیکن مفہوم کے بارے میں تم فیصلہ کرو کہ درست ہو سکتے ہیں یا نہیں۔

مریں گے کہنا تو آساں ہے مگر اظہر
وصالِ یار کی خاطر اگر مرو تو کہیں
مکمل بحر میں ہو سکتا ہے اگر نون غنہ نہ ہو، معلنہ ہو۔
مریں گے کہنا تو آسان ہے مگر اظہر
وصالِ یار کی خاطر اگر مرو تو کہیں
 
مفاعلن فع لا تن مفاعلن فعلن

مسیحائی میری جاں وہ تم کرو تو کہیں
جو گھاؤ تم نے لگائے انہیں بھرو تو کہیں

یہ جس میں ہم ہیں وہ امتحانِ الفت ہے
ایسی کسی مشکل میں رب کرے گھرو تو کہیں

یہ ڈر ہے ہم کو کہ تم ایک ہی شناسا ہو
تمہارے دوست کئی ہیں اگر ڈرو تو کہیں

سبھی نے موردِ الزام ہم کو ٹھہرایا
ہہی تہمتیں سرِ محفل جو تم دھروتو کہیں

مریں گے کہنا تو آسان ہے مگر اظہر
وصالِ یار کی خاطر اگر مرو تو کہیں​
 
استادِ محترم،
نالائق شاگرد کے ساتھ کچھ زیادہ مہنت کرنے پڑتی ہے جس کے لئے معزرت قبول کیجیے
اب دیکھیے شائد کسی قابل بن جائے
والسلام
اظہر
 
Top