حفیظ ہوشیار پوری کی غزل کا عروضی تجزیہ - محمد زبیر خالد

فرخ منظور

لائبریرین
یہ مضمون مجلّہ خیابان کی سائٹ سے لیا گیا۔


حفیظ ہوشیار پوری کی غزل کا عروضی تجزیہ
محمد زبیر خالد
Abstract
Hafeez Hushiarpuri (1912-1973) is one of the most important ghazal poets of Pakistan. He was one of the founders of Halqa-i-Arbab-i-Zauq. He was a researcher, teacher of philosophy and was highly skilled in “Tarikh-goee”. Also he was the mentor of Nasir Kazimi. His poetry reflects intense ‘taghazzul’ as well as expertise in poetic technique. Prosodic trends are an aspect of his poetry. The abundance of meters, their selection and some delinquencies are noticeable. In this article, his prosodic cursory manner. The study reveals not only Hafeez’s metrical know-how but also surprisingly brings forth some delinquencies which are unexpected of a poet of such caliber both from creative and technical points of view.
تعارف:
حفیظ ہوشیار پوری کے مجموعہ کلام 'متاعِ غزل' میں شامل غزلوں کے عروضی تجزیے پر مبنی زیرِ نظر مقالے کا مقصود ان کے ہاں بحور کے تنّوع اور تقابلی کثرتِ استعمال کے بارے میں تکنیکی حقائق پر روشنی ڈالنا ہے۔ حفیظ پاکستانی غزل گو شعراء میں اعلٰی مقام رکھتے ہیں اور شعری تکنیک میں خاص مہارت بھی اُن کا خاص وصف ہے۔ مشرقی شعریات کے طلباء کے لیے اُن کی عروضی مہارت اور رجحان سے آگاہی مفید ہوسکتی ہے۔
اردو غزل میں آج تک استعمال ہونے والی بحور کا شمار اگرچہ ایک سو سے بھی زیادہ ہے لیکن کسی ایک غزل گو کے ہاں یہ تعداد عام طور پر بیس سے بمشکل بڑھ پاتی ہے۔ میر نے دعوٰی کیا تھا:
کہے میں نے اشعار ہر بحر میں
ولیکن قیامت روانی کے ساتھ
مگر ان کے ہاں مستعملہ بحور کی تعداد صرف چھبّیس (۱) ہے۔ یہی تعداد حفیظ کے استاد صوفی تبسم کے ہاں ملتی ہے۔ فانی بدایونی نے تیس بحریں برتی ہیں۔ راقم کی معلومات کے مطابق معروف غزل گو اردو شعراء میں کثرتِ بحور کے کے اعتبار سے ناصر کاظمی سب سے آگے ہیں (۲)۔ ان کی غزلیں سینتیس بحروں میں ہیں۔ حفیظ ہوشیار پوری کا شمار بھی ان غزل گو شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے بحور کو تنّوع کی طرف توجہ دی ہے۔ زیرِنظر مضمون میں اس کے مجموعہ کلام 'مقامِ غزل (۳) کی غزلیات کی بحور کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
طریقِ کار:
عروضی تجزیے کے نتائج پیش کرنے سے پیش تر، طریقِ کار کے سلسلے میں بعض وضاحتیں ضروری معلوم ہوتی ہیں:
i۔ حرکات و سکنات کی ایک مقررہ خوش آہنگ ترتیب (Permutation) کا نام وزن قرار پائے گا۔
ii۔ اوزان کا ایسا گروہ (Set) بحر کہلائے گا جو باہم تبادلہ پذیر ہوتے ہیں یعنی کسی ایک شعر پارے میں ان کا اجتماع روا ہوتا ہے۔
iii۔ ہر بحر کے اوزان میں سے ایسا وزن "نمائندہ وزن" کہلائے گا جس میں سے بحر کے باقی ماندہ تمام یا زیادہ سے زیادہ اوزان کا سادہ ترین اُصولی تبدیلیوں کے ذریعے استخراج کیا جاسکے۔
iv۔ ایسی ہر بحر ایک علیحدہ اور مستقل بحر سمجھی جائے گی جس کے سارے کے سارے اوزان کا کسی دوسری بحر کے تمام اوزان کے ساتھ اجتماع جائزہ نہ ہو۔ اس اُصول میں بحر کی تعریف مندرجہ بالا اُصول نمبر (ii) کے مطابق ہے۔
v۔ بحر کا عروضی نام 'نمائندہ وزن' کے ارکان کی بنیاد پر رکھا جائے گا اور نمائندہ وزن کے ارکان بحر کے ارکان کے طور پر بیان کیے جائیں گے۔
vi۔ نمائندہ وزن صرف ایک مصرع کا بیان کیا جائے گا جب کہ بحر کا نام دو مصرعوں کے نمائندہ وزن کے مطابق ہوگا۔
vii۔ مکرر اور متواتر وارد ہونے والے زحافات کا ذکر بحر کے نام میں ایک مرتبہ کافی سمجھا جائے گا۔
viii۔ مصرعے کے آخر میں یا وقفے کے مقام پر آنے والے ایک سے زائد ساکن حروف کو تقطیع میں نہیں لیا جائے گا۔
ایسا کرنے سے ہر بحر کے اوزان کی تعداد دوگنا ہو جاتی ہے۔
متن سے متعلق بھی دو صراحتیں پیشِ نظر رہیں۔
i۔ فردیات جو مجموعہ کلام میں علیحدہ حصے کے طور پر شامل ہیں۔ زیرِ نظر تجزیے کے حصار میں نہیں لائی گئیں۔
ii۔ بعض مقامات پر کتابت میں غفلت سے مصرعے ناموزوں ہوگئے ہیں۔ احساسِ موزونیت یا ادراکِ وزن سے انہیں بآسانی درست پڑھا جاسکتا ہے۔
ملاحظہ ہوں بحور کے نام، نمایندہ اوزان ان میں کہی گئی غزلوں کی تعداد اور مثال کے طور پر ایک ایک منتخب شعر:
۱۔ بحر ہزج مثّمن سالم: مفاعیلُن مفاعیلُن // مفاعیلُن مفاعیلُن (سولہ غزلیں)
جدائی کا سماں آج تک اپنی نگاہوں میں
نہ کوئی بات کی تم نے، نہ کوئی بات کی ہم نے
۲۔ بحر ہزج مسدّس محذوف: مفاعلیُن مفاعیلُن فعولُن ( آٹھ غزلیں)
اگر تُو اتفاقاً مِل بھی جائے
تری فُرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
۳۔ بحر ہزج مربّع اخرب مکفوف مضاعف: مفعُول مفاعیلُن // مفعولُ مفاعیلُن (ایک غزل)
کیا تُم کو بتائیں ہم، کیوں کھوئے سے رہتے ہیں
ہوتی ہیں محبت میں کچھ غور طلب باتیں
۴۔ بحر ہزج مثّمن اخرب مکفوف محذوف: مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولُن (پانچ غزلیں)
تُو نے اسے تعبیر کیا عشق سے ورنہ
کِس کے لیے اے دوست پریشاں نہ ہوئے ہم
۵۔ بحر ہزج مسدّس اخرب مقبوض محذوف: مفعولُ مفاعلُن فعولُن (سات غزلیں)
[پہلے اور دوسرے رکن کے درمیان تخنیق کے ذریعے ایک ذیلی وزن حاصل ہوتا ہے]
دیکھا کئی زاویوں سے تجھ کو
اشکوں کا وہ سلسلہ تھا درپیش
۶۔ بحر ہزج مربّع اشتر سالم مضاعف: فاعلُن مفاعیلُن // فاعلُن مفاعیلُن (ایک غزل)
اک تمام شیرینی، اک تمام رنگینی
طرزِ گفتگو ان کی، شیوہ بیاں اپنا
۷۔ بحر رجز مربّع مطوی مخبون مضاعف: مفتعِلُن مفاعلُن // مفتعِلُن مفاعلُن (دو غزلیں)
آہ کوئی نہ کر سکا چارہ تلخی فراق
نالہ صبح کے بغیر، گریہ شام کے سوا
۸۔ بحر رمل مثّمن محذوف: فاعلاتُن فاعلاتُن فاعلاتُن فاعلاتُن (دس غزلیں)
حُسن کو دیکھا ہے میں نے حُسن کی خاطر حفیظ
ورنہ سب اپنا ہی معیارِ نظر دیکھا کیے
۹۔ بحر رمل مسدس محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن
دیکھ لی ایسے غائبِ حاضر نُما!
تیری صورت تیری صورت کے بغیر
۱۰۔ بحر رمل مثّمن مجنون محذوف: فعِلاتُن فعِلاتُن فعِلاتُن فعِلُن (بیس غزلیں)
[پہلا رکن فاعلاتن آسکتا ہے۔ نیز آخری رکن میں تسکینِ اوسط جائز ہے۔ یوں تین ذیلی اوزان حاصل ہوتے ہیں]
جب کبھی ہم نے کیا عشق پشیمان ہوئے
زندگی ہے تو ابھی اور پشیماں ہوں گے
۱۱۔ بحر رمل مسدّس مضنون محذوف: فعِلاتُن فعِلاتُن فعِلُن (بارہ غزلیں)
[بحر نمبر ۱۰ کی طرح اس کے بھی تین ذیلی اوزان بنتے ہیں]
گنگ ہیں ترکِ محبت کرکے
عشق اندازِ بیاں ہو جیسے
۱۲۔ بحر رمل مربّع مسکوں سالم مضاعف: فعِلاتُ فاعلاتُن // فعِلاتُ فاعلاتُن (ایک غزل)
کبھی نام یاد تیرا ترے رُو برو نہ آیا
کبھی اپنے سائے کو بھی ترے نام سے پُکارا
۱۳۔ بحر کامل مثّمن سالم: مُتفاعلُن متفاعلُن // متفاعلُن متفاعلُن (دو غزلیں)
یہ تمیزِ عشق و ہوس نہیں، یہ حقیقتوں سے گریز ہے
جنہیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں
۱۴۔ بحر کامل مثّمن سالم: فعولُن فعولُن فعولُن فعولُن (دو غزلیں)
بہت دوستوں کو ملایا اسی سے
جُدا تم سے جس بات پر ہو گئے ہم
۱۵۔ بحر متقارب مثّمن محذوف: فعولُن فعولُن فعولُن فعل (چار غزلیں)
روایاتِ وصل و فراق اب کہاں
نئی قربتیں ہیں نئے فاصلے
۱۶۔ بحر متقارب مثّمن مقبوض مرّتین مخّنق مضاعف: (۴)
فعولُ فعلُن فعولُ فعلُن // فعولُ فعلُن فعولُ فعلُن (تین غزلیں)
بقدرِ توفیق بہرہ ور ہو تصرفِ دردِ آرزو سے
کہ ابتدا قدِ یار سے ہے تو انتہا اوجِ دار تک ہے
۱۷۔ بحر متقارب مثّمن اثرم مقبوض سالم: فاعِ فعولُ فعولُ فعولُن (ایک غزل)
[ہر دو متواتر ارکان کے مابین عملِ تحنیق سے سات ذیلی اوزان حاصل ہوتے ہیں](۵)
تیری شکایت تیرے منہ پر
کب کی بات کہاں یاد آئی
۱۸۔ بحر متقارب مثّمن اثرم مقبوض محذوف: فاعِ فعولُ فعولُ فعل (ایک غزل)
[بحر نمبر ۱۷ کے طریق پر کُل اوزان آٹھ ہوسکتے ہیں]
مجھ کو دیکھنے آتا ہے
جس نے بھی تم کو دیکھا
۱۹۔ بحر متقارب مثّمن اثرم مقبوض سالم مضاعف:
فاعِ فعولُ فعولُ فعولُن // فاعِ فعولُ فعولُ فعولُن (ایک غزل)
شہد شکن ہونٹوں کی لرزش عشرتِ باقی کا گہوارہ
دائرہ امکانِ تمناّ نرم لچکتی باہوں کے خم
۲۰۔ بحر متقرب اثرم مقبوض محذوف شانزدہ رکنی:
فاعِ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعَل (تین غزلیں)
[ہر دو متواتر ارکان کے مابین عملِ تخنیق سے ایک سوستائیس ذیلی اوزان کا استخراج ممکن اور جائز ہے]
فاصلہ یک چاکِ گریباں، دورِ خزاں اور موسمِ گُل
دیوانوں پر یہ الزام کہ رنگ بدلتے رہتے ہیں
۲۱۔ بحر متقارب اثرم مقبوض سالم اثرم مقبوض محذوف چہاردہ رکنی:
فاعِ فعولُ فعولُ فعولُن // فاعِ فعولُ فعَل (ایک غزل)
[ہر ممکن مقام پر تخنیق کا اختیار استعمال کرنے سے کُل اوزان کی تعداد بتّیس ہو جاتی ہے۔ نیز فعولُ فعلُن پہلے دو اور پانچویں چھٹے رکن کے طور پر بھی آسکتے ہیں ]
دل تو اُجڑتے بستے ہیں، یہ تھا کسے معلوم
ایک نظر ویران کرے گی، ایک نظر آباد
۲۲۔ بحرِ، متدارک مثّمن سالم: فاعلُن فاعلُن فاعلُن فاعلُن (دو غزلیں)
ایک رستے کے بے انتہا منزلیں
ایک منزل کے بے انتہا راستے
۲۳۔ بحر متدارک مثّمن مجنون مضاعف: مفِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن // مفِلُن فعِلُن فعِلُن فعِلُن (چار غزلیں)
[ہر رکن میں تسکینِ اوسط سے دوسو پنسٹھ اوزانِ ذیلی کا استخراج ممکن اور جائز ہے]
آرائشِ بزمِ ہستی ہے یا حسنِ ازل کی خودنگری
اب تک وہ اپنے بکھرے ہوئے جلووں کو مجّسم کرتے ہیں
۲۴۔ بحر سریع مسدّس مطوی مکشوف: مُفتَعِلُن مُفتَعِلُن فاعلُن (ایک غزل)
عشق ہے یہ، زور نہیں عشق پر
یا نہ کبھی ہوسکا یا ہوگا
۲۵۔ بحر خفیف مسدّس مجنون محذوف: فعِلاتُن مفاعلُن فعِلُن (سترہ غزلیں)
[ بحر نمبر ۱۰ کی طرح پر مزید تین اوزان حاصل ہوتے]
دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ
بات دل میں کہاں سے آتی ہے؟
۲۶۔ بحر مضارع مربّع اخرب مضاعف: مفعولُ فاعِ لاتُن // مفعولُ فاعِ لاتن (چوبیس غزلیں)
سُوجھا ہے بے قراری دل کا علاج خوب
میں نے سمجھ لیا جہاں بے قرار ہے
۲۷۔ بحر مضارع مربّع اخرب مضاعت: مفعولُ فاعِ لاتُ مفاعیلُ فاعِ لاتن (ایک غزل)
اب اور داد کیا ہو، اے جلوہ مجّسم
آئینہ بن گئے ہم، حیران ہوگئے ہم
۲۸۔ بحر مُجَتِث مثّمن مجنون محذوف: مفاعِ لُن فعِلاتُن مفاعِ لُن فعِلُن (اُنتالیس غزلیں)
[آخر رکن میں تسکینِ اوسط سے ایک ذیلی وزن برآمد ہوتا ہے]
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
۲۹۔ بحر مجتث مثّمن مجنون: مفاعِ لُن فعِلاتن // مفاعِ لُن فعِلاتُن (ایک غزل)
[فعِلاتن میں تسکینِ اوسط سے تین ذیلی اوزان کا اضافہ ہوتا ہے]
ابھی ہے ان سے تعلق، برنگِ ترکِ محبت
کسی نے ذکرِ محبت کیا تو آنکھ بھر آئی
نتائج:
حفیظ ہوشیار پوری کی استعمال کردہ بحور میں غزلوں کی تعداد گراف کی شکل میں مقالے کے آخر میں ملاحظ کی جاسکتی ہے کثرتِ استعمال کے اعتبار سے بعض مشاہدات قابلِ ذکر ہیں۔ 'مقامِ غزل' کی کُل ایک سو ستانوے غزلوں میں انتیس بحریں 'سنائی' دیتی ہیں۔ غزلوں کی نصف سے زیادہ تعداد صرف چار بحور میں ہے۔ ملاحظہ ہوں:
۱۔ بحر مجتث مثّمن مجنون محذوف: ۳۹ غزلیں ۔۔ ۸۰ء۱۹ فی صد
۲۔ بحر مضارع مثّمن اخرب مکفوف محذوف: ۲۴ غزلیں ۔۔ ۱۸ء ۱۲ فی صد
۳۔ بحر رمل مثّمن مجنون محذوف: ۲۰ غزلین ۔۔ ۱۵ء ۱۰ فی صد
۴۔ بحرخفیف مسدّس مجنون محذوف: ۱۷ غزلیں ۔۔ ۶۳ء۸ فی صد
چار بحریں: ۱۰۰ غزلیں۔۔ ۷۶ء۵۰ فی صد
اردو غزلیات کا کوئی بھی مجموعہ اٹھا کر دیکھ لیجیے نصف کے لگ بھگ غزلیں انہی چار بحور میں ملیں گی۔ گویا حفیظ ہوشیار پوری کی مرغوب ترین بحور جمہور متغزّلین کی ترجیحات کے مطابق ہی ہیں۔ دس بحور ایسی ہیں جن میں حفیظ نے ایک ایک غزل کہی۔ بحر سریع کلاسیکی مثنویوں میں برتی گئی ہے اور عروض کی کتابوں میں اس کی خوش آہنگی کو سراہا بھی جاتا رہا ہے لیکن جدید غزل گو شعراء نے شاذونادر ہی اس بحر میں طبع آزمائی کی ہے۔ حفیظ نے ایک غزل بحر سریع مسدس مطعوی مکثوف میں لکھ کر مذکورہ آہنگ کو ازسرِ نو رواج دینے کی ترغیب دی ہے۔
ہندی نژاد بحور میں بحر متقارب کی چھبّیس اور بتّیس حرفی بحور کا شمار بھی نہایت کم مستعمل بحور میں ہوتا ہے۔ اوّل الذکر کا ماخذ ہندی کا سرسی چھند ہے۔ ثانی الذکر (بحر نمبر ۱۹) دراصل بحر نمبر ۱۷۶ کی دُگنی صورت ہے جو ہندی کے نیل سروپ چھند سے مشابہ ہے۔ بحر متقارب کی چودہ حرفی صورت (بحر نمبر ۱۸) ہندی کے ساروتی چھند کے قریب ہے۔ اور تیس حرفی صورت (بحر نمبر۲۰) جسے بحرِ میر بھی کہا جاتا ہے، نیل سروف + ساروتی چھند کی صورت میں ترکیب پاتی ہے۔ اس قبیل کی پانچوں بحروں میں تسکینِ اوسط اور بعض دیگر تبدیلیوں سے جو ذیلی اوزان حاصل ہوتے ہیں، ہندی کے مذکورہ چھند ان سے مکمل مطابقت نہیں رکھتے۔ مزید برآں ہندی میں بسرام کی پابندی جا بجا ہے جب کہ اُردو شعراء بسرامی بحور میں ایسی بندش سے آزاد رہے ہیں۔ بسرامی بحور کے زمرے میں ہندی نثر ان بحور کے علاوہ بعض دیگر بحور بھی آتی ہیں۔ ان میں بسرام کی پابندی زیادہ خوش گوار تاثیر پیدا کرتی ہے۔ حفیظ کے ہاں اس سفارش پر عدم توجہی کی بعض مثالیں ملاحظہ ہوں:
ع کہں لگ نہ جائے چمن میں / / آ گ ترے جنونِ بہار سے
(متفاعلن چار بار)
ع سیرِ چمن کا حاصل یہ بے // ربط سی کچھ تصویریں ہیں بس
(فاعِ فعولُن فعلُن فعلُن // فاعِ فعولُن فعلُن فعلُن)
ع اگر کوئی سن سکے بہت مخ // تصر مری داستانِ غم ہے
(فعولُ فعلُن چار بار)
ع دشتِ طلب میں راہ بہر فر // سنگ بدلتے رہتے ہیں
(فاعِ فعولُن فاعِ فعولُن // فاعِ فعولُن فعلُن فع)
وقفے کے مقام پر ایک زائد ساکن حرف لانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس اجازت سے استفادہ حفیظ ہی کے ایک مصرع میں دیکھئے۔
ع نالہ صبح کے بغیر // گریہ شام کے سوا
(مفتعلُن مفاعلُن دوبار)
جب کہ مذکورہ بالا (متفاعلن چار بار) مثال میں 'آگ' متحرک کرکے اگلے رکن کا پہلا حرف بنا دیا گیا۔ راقم کی رائے کے مطابق بحر میں بسرام کا اہتمام کرتے ہوئے زائد حرفِ ساکن کو تقطیع سے خارج کردینا چاہیے تھا اور ایک متحرک حرف کا اضافہ اس مقام پر کرکے مصرع بنانا چاہیے تھا۔ لیکن اُنہوں نے شاید اپنے اس شعر کی پیروی کی ہے:
اپنا مسلک ہے جدا مسلکِ غالب سے حفیظ
الٹے پھر آئے درِ کعبہ وا بھی ہوا
بحر مجتث کی چوبیس حرفی شکل (بحر نمبر ۲۹) کو بسرامی نہج پر استعمال کرنے کا نجانے کیوں شعراء کو خیال نہیں آیا۔ ویسے یہ بحر بھی غالب کے بعد شاذونادر ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ تسکینِ اوسط کا اختیار اس بحر میں (دوسرے اور چوتھے رکن میں) برت کر حفیظ نے عروض سے معمولی واقفیت رکھنے والوں کو متامّل کیا ہے۔ مثالیں دیکھئے:
یہ دل کی خوبی قسمت، یہ تیرے غم کا مقدر
زماں زماں بے تابی، جہاں جہاں رسوائی
یہ حسنِ جذب، محبت، یہ حاصلِ رسوائی
تمہی کو سامنے پایا کھبی جو آنکھ اُٹھائی
وہ میرے ہم سخنوں پر کھلا نہ راز ابھی تک
کہ نغمہ شیریں تر ہے بقدرِ تلخ نوائی
اس قسم کی صورتِ حال عبدالعزیز خالد کے ہاں بھی ملتی ہے۔
ایک اور مقامِ تامّل ملاحظہ ہو
ع بے چارگئی حسرتِ دیدار دیکھنا
تقطیع میں بے چارگی کی 'ی' مشدّد ہو جاتی ہے جو ثقہ قواعد نویسوں کے نزدیک درست نہیں یا کم ازکم یہ کہ فصیح نہیں۔ اضافت والی 'ی' کو درجِ ذیل مصرع میں درست باندھا گیا ہے۔
ع سوجھا ہے بے قراری دل کا علاج خوب
بہر حال اُردو غزل کے جدید دور کے نمایاں شعراء میں حفیظ کی شناخت کا پہلو عروضی بھی بنتا ہے۔ بحور کی کثرت اور تنّوع کے ساتھ ساتھ بعض شاذ بحور کا کامیاب استعمال ان کی ہنر مندی کا غمّاز ہے۔
حوالہ جات
۱۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: ڈاکٹر محمد اسلم ضیاء کی کتاب 'علمِ عروض اور اردو شاعری'، اسلام آباد، متقدرہ، ۱۹۹۷ء۔
۲۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہور راقم کا مقالہ 'نغمہ جاں ۔۔ دیوان'، مطبوعہ 'شرق' مجلّہ پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج لاہور، ۱۹۹۰ء۔
۳۔ مطبوعہ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۷۳ء۔
۴۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے: قدر بلگرامی، سیّد غلام حسین: قواعد العرض، لکھنو، شامِ اودھ، ۱۳۰۰ھ۔
۵۔ ایضاً
کلید
۱۔ بحر مجتث مجنون حذوف۔
۲۔ بحر مضارع مثّمن اخرب مکفوف محذوف۔
۳۔ بحر رمل مثّمن مخبون محذوف۔
۴۔ بحر خفیف مسدّس مجنون محذوف۔
۵۔ بحر ہزج مثّمن محذوف۔
۶۔ بحر رمل مسدّس مجنون محذوف۔
۷۔ بحر رمل مثّمن محذوف۔
۸۔ بحر ہزج مسدّس محذوف۔
۹۔ بحر ہزج مسدّس محذوف۔
۱۰۔ بحر رم مسدّس محذوف۔
۱۱۔ بحر ہزج مثّمن اخرب مکفوف محذوف۔
۱۲۔ بحر متقرب مثّمن محذوف۔
۱۳۔ بحر متدارک مثّمن مخبون مضاعف۔
۱۴۔ بحر متقرب مثّمن مقبوض مرّتین مخّنق مضاعف۔
۱۵۔ بحر متقارب اثرم مقبوض محذوف شانزدہ رکنی۔
۱۶۔ بحرِ متدارک مثّمن سالم
۱۷۔ بحر کامل مثّمن سالم
۱۸۔ بحر متقارب سالم
۱۹۔ بحر رجز مربّع مطوّی مخبون مضاعف۔
۲۰۔ بحر ہزج مربّع اخرب مکفوف مضاعف۔
۲۱۔ بحر ہزج مربّع اشتر سالم مضاعف۔
۲۲۔ بحر رمل مربّع مشکول سالم مضاعف۔
۲۳۔ بحر متقرب مثّمن اثرم مقبوض سالم۔
۲۴۔ بحر متقارب مثّمن اثرم مقبوض محذوف۔
۲۵۔ بحر متقارب مثّمن اثرم مقبوض سالم مضاعف۔
۲۶۔ بحر متقرب اثرم مقبوض سالم اثرم مقبوض محذوف۔
۲۷۔ بحر سریع مسدّس مطوّی مکشوف۔
۲۸۔ بحر مضارع مربّع اخرب مضاعف۔
۲۹۔ بحر متجب مثّمن مجنون۔
 

شاہ حسین

محفلین
بہت شکریہ جناب سخنور صاحب گراں قدر شراکت ہے ۔

(مکمل نہیں پڑھا مختصر جائزہ لیا ہے رات عرق ریزی کرتا ہوں ):)
 

فاتح

لائبریرین
یہ گراں قدر تحقیق شریکِ محفل کرنے پر بہت شکریہ جناب۔
اس کام سے مجھے ایک ادھورا کام یاد آ گیا جو وارث صاحب اور میں نے کرنے کی ٹھانی تھی۔ وارث صاحب نے اپنے حصے کا تو مکمل کر لیا تھا مگر میری جانب سے کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔
دعا کیجیے کہ آپ کا یہ مراسلہ مہمیز ثابت ہو اور میں آج سے ہی اس کام کو مکمل کرنے کا آغاز کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ پھر بے حد شکریہ!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ جناب سخنور صاحب گراں قدر شراکت ہے ۔

(مکمل نہیں پڑھا مختصر جائزہ لیا ہے رات عرق ریزی کرتا ہوں ):)

پسند کرنے کے لئے بہت شکریہ شاہ صاحب!

یہ گراں قدر تحقیق شریکِ محفل کرنے پر بہت شکریہ جناب۔
اس کام سے مجھے ایک ادھورا کام یاد آ گیا جو وارث صاحب اور میں نے کرنے کی ٹھانی تھی۔ وارث صاحب نے اپنے حصے کا تو مکمل کر لیا تھا مگر میری جانب سے کچھ خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔
دعا کیجیے کہ آپ کا یہ مراسلہ مہمیز ثابت ہو اور میں آج سے ہی اس کام کو مکمل کرنے کا آغاز کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ پھر بے حد شکریہ!

بہت شکریہ حضور! ہمیں تو مدتوں سے انتظار ہے آپ کے تحقیقی مقالے کا ۔ امید ہے اب مزید انتظار نہیں کروائیں گے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ایسے معروضی مضامین محض ریاضی کے سوال ہوتے ہیں، خوبصورت، عرق ریز، جانفشاں، مکمل، مگر بے جاں :)، ایک ایسا مضمون لکھ کر میں بھگت چکا ہوں (ایک خوبصورت بحر - بحر خفیف) :)

بہت شکریہ آپ کا شیئر کرنے کیلیے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایسے معروضی مضامین محض ریاضی کے سوال ہوتے ہیں، خوبصورت، عرق ریز، جانفشاں، مکمل، مگر بے جاں :)، ایک ایسا مضمون لکھ کر میں بھگت چکا ہوں (ایک خوبصورت بحر - بحر حریف) :)

بہت شکریہ آپ کا شیئر کرنے کیلیے!

حضور پھر کوئی ایسا مضمون لکھیے جو جاندار ہو اور ہم جیسوں کے بھی کچھ پلے پڑے ۔ ویسے یہ مضمون آپ کے ،فاتح صاحب اور اعجاز صاحب کے لئے شئیر کیا ہے۔ :)
 
Top