پاکستان کا قومی ترانہ پہلے کیا تھا اور کس نے لکھا تھا

arifkarim

معطل
بالکل، یہی تو رونا ہے کہ ہمارے ہاں قومی فلاح کیلئے جو کہ لانگ ٹرم منصوبے مانگتی ہے پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ہر چند سالہ حکومتی دور سے پہلے ہی اسمبلیاں کرپشن کا شکار ہو کر ختم ہو جاتی ہیں یا کر دی جاتی ہیں!
 

شاہ حسین

محفلین
میرا مقصد جناب فخر نوید صاحب کو نیچا دکھنا نہیں تھا اگر احباب نظر ثانی کریں تو جناب فخر صاحب اور میرے مراسلہ کا وقت ایک ہی ہے وہ الگ بات ہے کہ جناب نے حوالہ نہیں دیا ۔

اور رہی بات جگن ناتھ صاحب کے ترانے کی اُس کو تعصب کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے حالانکہ اُس کو تو تبدیل کرنا ہی چاہئے تھا ۔ اور کیا بھی گیا ۔ اسُ ترانے میں کوئی بات ایسی نہیں تھی جو دل کو چھوتی نہ شاعری نہ جذبات و اظہار ۔ جبکہ حفیظ جالندھری صاحب کا لکھا ہوا مترنم ،حسین و مرُصع ترانہ ہے ۔ جس کا ہر لفظ دعائیہ انداز لئے ہے ۔
 

dxbgraphics

محفلین
میرا مقصد جناب فخر نوید صاحب کو نیچا دکھنا نہیں تھا اگر احباب نظر ثانی کریں تو جناب فخر صاحب اور میرے مراسلہ کا وقت ایک ہی ہے وہ الگ بات ہے کہ جناب نے حوالہ نہیں دیا ۔

اور رہی بات جگن ناتھ صاحب کے ترانے کی اُس کو تعصب کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے حالانکہ اُس کو تو تبدیل کرنا ہی چاہئے تھا ۔ اور کیا بھی گیا ۔ اسُ ترانے میں کوئی بات ایسی نہیں تھی جو دل کو چھوتی نہ شاعری نہ جزبات و اظہار ۔ جبکہ حفیظ جالندھری صاحب کا لکھا ہوا مترنم ،حسین و مرُصع ترانہ ہے ۔ جس کا ہر لفظ دعائیہ انداز لئے ہے ۔

متفق ہوں میں۔۔۔
 

arifkarim

معطل
میرا مقصد جناب فخر نوید صاحب کو نیچا دکھنا نہیں تھا اگر احباب نظر ثانی کریں تو جناب فخر صاحب اور میرے مراسلہ کا وقت ایک ہی ہے وہ الگ بات ہے کہ جناب نے حوالہ نہیں دیا ۔

اور رہی بات جگن ناتھ صاحب کے ترانے کی اُس کو تعصب کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے حالانکہ اُس کو تو تبدیل کرنا ہی چاہئے تھا ۔ اور کیا بھی گیا ۔ اسُ ترانے میں کوئی بات ایسی نہیں تھی جو دل کو چھوتی نہ شاعری نہ جزبات و اظہار ۔ جبکہ حفیظ جالندھری صاحب کا لکھا ہوا مترنم ،حسین و مرُصع ترانہ ہے ۔ جس کا ہر لفظ دعائیہ انداز لئے ہے ۔

قائد اعظم کے پسند کردہ قومی ترانہ کی تو ہم عزت نہ کر سکے، وہ خواب جو انہوں نے پاکستان کیلئے دیکھے تھے، انکو توڑنا کونسا مشکل ہے؟!
باقی جالندھری صاحب نے جو فارسی زبان میں قومی ترانہ لکھ کر کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اسکو حکومت ایران کی طرف تحفہ میں بھیج دینا چاہئے!
ہر ملک کا قومی ترانہ اسکی قومی زبان کی عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ ہمارا قومی ترانہ ایک غیر قوم کی زبان میں ہونا اس بات کا اثبوت ہے کہ ہم اول دن سے ہی غیر قوموں کے اثر میں رہنا چاہتے تھے!
 

شاہ حسین

محفلین
کیا قائد اعظم اتحاد بین القوام کے داعی تھے ؟ اگر تھے تو وہ دو قومی نظریہ کیا تھا ؟ اگر نہ تھے تو پھر ایک غیر مسلم کے ہاتھوں قومی ترانہ کیوں لکھوایا گیا ؟

اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکتی کے قائد نے اُس ترانے کو پسند کیا۔
ایک شخص جو ابھی اُس مملکت کے انتظامی امور میں الجھا ہوا جو حال ہی میں معرض الوجود میں آئی ہو ۔ تمام صرف نظر صرف قومی ترانے پر مرتکز نہیں کر سکتا انہوں نے ایک ترانہ دیا ضرور اور ساتھ میں قائد کے ان فرامین کو بھی نظر میں رکھنا پڑے گا جس میں بہتری کی طرف رہنمائی کی گئی ۔
اور پھر یہ تو اُس ترانے سے لاکھ درجہ بہتر بلکہ اس سے بھی سوا ہے ۔

اور جو نکتہ ہائے اعراضات فارسی زبان کی ضمن میں پیش کئے جاتے ہیں اُن سے پوچھنا چاہوں گا قومی ترانے کے کون سے الفاظ ایسے ہیں جس کے لئے لغت کو دیکھنا پڑتا ہے اور جبکہ سب ہی جانتے ہیں اردو کا ارتقا و نمود فارسی و عربی کی مرہون و منت ہے اس سسب فارسی ترانہ ہونے کا الزام بے بنیاد ہے کیونکہ قومی ترانہ میں غالب اکثریت ان الفاظ کی ہے جو اردو میں مستعمل ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
باقی جالندھری صاحب نے جو فارسی زبان میں قومی ترانہ لکھ کر کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اسکو حکومت ایران کی طرف تحفہ میں بھیج دینا چاہئے!
ہر ملک کا قومی ترانہ اسکی قومی زبان کی عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ ہمارا قومی ترانہ ایک غیر قوم کی زبان میں ہونا اس بات کا اثبوت ہے کہ ہم اول دن سے ہی غیر قوموں کے اثر میں رہنا چاہتے تھے!

یہ محض آپ کی ہٹ دھرمی ہے۔

یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک بیٹا یہ کہے کہ چونکہ میرے خون کا گروپ، چہرے کا نقش، بالوں وغیرہ کا رنگ چونکہ اپنے باپ سے مختلف ہے سو میں کسی 'غیر' کا بیٹا ہوں، باقی آپ خود سمجھ دار ہیں!
 

dxbgraphics

محفلین
قائد اعظم کے پسند کردہ قومی ترانہ کی تو ہم عزت نہ کر سکے، وہ خواب جو انہوں نے پاکستان کیلئے دیکھے تھے، انکو توڑنا کونسا مشکل ہے؟!
باقی جالندھری صاحب نے جو فارسی زبان میں قومی ترانہ لکھ کر کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اسکو حکومت ایران کی طرف تحفہ میں بھیج دینا چاہئے!
ہر ملک کا قومی ترانہ اسکی قومی زبان کی عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ ہمارا قومی ترانہ ایک غیر قوم کی زبان میں ہونا اس بات کا اثبوت ہے کہ ہم اول دن سے ہی غیر قوموں کے اثر میں رہنا چاہتے تھے!

ہر کسی کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے ۔ آپ اپنی جگہ پر بجا ہوسکتے ہیں لیکن اردو کی افادیت کو بھولئے گا نہیں کہ لشکری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اردو میں کسی بھی زبان سے الفاظ جذب کرنے کی صلاحیت ہے
 

عین لام میم

محفلین
میں آج اس دھاگے کو دیکھ رہا ہوں، کیونکہ آج "حسبِ حال" میں اسی بات پر بحث ہو رہی تھی۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں کا پتا ملا۔۔ اور ان اشعار کے علاوہ کہیں بھی کوئی اور اشعار نہیں مل سکے۔۔۔۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اگر کسی کے پاس باقی اشعار ہوں یا پتا ہوں تو ضرور شیئر کرے۔۔۔۔
جہاں تک بات ہے ترانہ بدلنے کی تو یہ پات حقائق سے ہی سامنے آ سکتی ہے ۔۔۔۔۔فی الحال شاہ حسین صاحب کے اوپر بیان کردہ تبصرے سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ قائد اس وقت محض قومی ترانے کے مسئلے میں ہی نہیں الجھے ہوئے تھے، اور بھی غم تھے زمانے میں۔۔۔۔۔۔
لیکن اس ترانے کا یا اس کے وجود کا اس طرح ہماری درسی و تاریخی کتب سے بھی غائب ہو جانا کہ میں آج پہلی دفعہ یہ سن رہا ہوں کہ ہمارا کوئی اور ترانہ بھی رہ چکا ہے!
پاکستان کے صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب و اسکالر کے اس کام کو بھُلا دینا بھی پاکستانی قوم کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ فخر صاحب ۔ میں اسی دن سے پورے ترانےکی تلاش میں ہوں ، گزشتہ شب دنیا نیوز پر اس کا تذکرہ سن کر حسِ تجسس پھر جاگ گئی ہے ، پورا ترانہ مل جائے تو کیا کہنے ، شنید ہے کہ زاہدہ حنا صاحبہ کے پاس موجود ہے میں معلوم کرتا ہوں ۔
 
اس سلسلے میں پاکستان کے ممتاز محقق جناب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی تازہ تحقیق جس کی روزنامہ جنگ میں دو اقساط شائع ہو چکی ہیں

جنگ 6 جون 2010

قائداعظم، جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ؟...صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود

اس کالم کامقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان قبل 9اگست 1947 کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کاترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوااور پھر یہ ترانہ 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23فروری 1949کو حکومت ِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلبہ اوربزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظم پر تحقیق کرتے اورلکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کاکہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کااستعمال کرنے والوں کوکنفیوز کیاجاسکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یاپھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سچ کی تلاش میں، میں جن حقائق تک پہنچا ان کاذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے تمہید کے طور پریہ ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا ۔ وہ 1918 میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑاساعرصہ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلاگیا۔ وِکی پیڈیا (Wikipedia) اور All things Pakistan کے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو 9اگست کو بلا کر پاکستان کاترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزاد ی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایاگیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے جگن کو 1979 میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا۔
میراپہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ، کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویرکے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظم سرتاپا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کاحوالہ دے سکتاہوں۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یاماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظم نے عمر کامعتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا۔ ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیرمعروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ”جئے ہند“ کے ملازم تھے۔ ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اورکہاکہ قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کرمل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کاکہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam ۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25اپریل 1948تک کے عرصے کااحاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کاکہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7اگست شام سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کاجائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی 3جون 1947 والی تقریرکااردو ترجمہ آل انڈیاریڈیو سے نشر کیاتھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میر ی تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب 7اگست 1947 کو قائداعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارااہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اورصرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہرثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھرساتھ ہی رہے۔ خدا کاشکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب ان تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی ان کانام قائداعظم سے سنا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہوجاناچاہئے تھا کہ جگن ناتھ آزا د کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947 میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھررہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ان حالات میں ان کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کاتصو ر بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں ۔ عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کاشوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979 میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی آزاد کا نام نہیں ہے۔ وہ جھوٹ بول کر سچ کوبھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف… ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کاکوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949 تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا اور 15اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔
پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو
ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا ”توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے“
میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14 اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں، میں ریڈیو پاکستان آرکائیو ز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14اگست سے21 اگست 1947 تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ ”آہنگ“ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948 سے چھپنا شروع ہوا۔ 18ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبردینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہوجائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949 تک نشر ہوتارہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکرکیو ں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیاں ہیں“ (1982) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا اس کاذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائداعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں اس کاذکر کرتا۔ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کہ پہلے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتارہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا۔
قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اوربغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے۔

دوسری قسط
 

محمد امین

لائبریرین
اے سرزمین پاک
ذرے ترے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
تندی حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک
دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک
اے سرزمین پاک

:اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند
اپنا وطن ہے آج زمانے میں سر بلند
پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند
اپنا علم ہے چاند ستاروں سے بھی بلند
اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہوں یا سماک
اے سرزمین پاک

:اترا ہے امتحان میں وطن آج کامیاب
اب حریت کی زلف نہیں محو پیچ و تاب
دولت ہے اپنے ملک کی بے حد و بے حساب
ہوں گے ہم آپ ملک کی دولت سے فیض یاب
مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک
اے سرزمین پاک

:اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام
اپنا وطن ہے راہ ترقی پہ تیز گام
آزاد، بامراد، جوان بخت شاد کام
اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہر ناک
اے سرزمین پاک

:ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
اے سرزمین پاک

(جگن ناتھ آزاد)

وکی پیڈیا سے: http://en.wikipedia.org/wiki/Qaumi_Tarana#Controversial_previous_national_anthem_claim
 

ابوشامل

محفلین
بہت پرانا دھاگہ تازہ ہوا ہے اور میری نظروں سے گزرا ہے تو میں بھی اپنی بات پیش کروں۔ مشہور لکھاری عقیل عباس جعفری نے اسی موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے اور انہوں نے تمام انٹرویوز اور دلائل کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کا دعوی غلط ہے کہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا تھا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ عقیل عباس جعفری کا تعلق ہر گز دائیں بازو سے نہیں ہے بلکہ وہ اس کے کٹر مخالف ہیں لیکن بات دلائل سے کرتے ہیں "پاکستان کرونیکلز" کے نام سے پاکستان کی ایک ضخیم تصویری تاریخ بھی لکھ چکے ہیں۔ اس لیے کم از کم میں ان کی کتاب پڑھنے کے بعد جگن ناتھ کے دعوے کو غلط سمجھتا ہوں۔ باقی پاکستان کے سیکولر حلقوں نے جتنا شور مچانا ہے مچاتے رہیں۔ چاہے وہ بینا سرور ہوں یا رضا رومی یا پھر ان کے جیسے "دانشوروں" کی فوج، ان کے کہنے سے تاریخ نہیں بدل جائے گی۔
 

Ajnabi

محفلین
ڈاکٹر صفدر محمود جیسے معتبر محقق کی اس تحقیق کے بعد کہ پاکستان کے قومی ترانے کے بارے جگن ناتھ آزاد کا نام لینا محض ایک شوشہ ہے اور جسے بنیاد بنا کر ہمارے لبرل اور اسیکولر حضرات دل آزاری کی حد تک طعنہ و تشنیع پہ اتر آتے ہیں۔ جو مناسب نہیں۔ اس بارے میں نے بھی اپنی سی کرید کی ہے اور بی بی سی نامی ادارے کے انٹر نیٹ اردو ایڈیشن نے 13 اگست 2011ء کو انور سن رائے کا ایک نہائت معلوماتی مضمون شائع کیا ہے ۔ جس کا رابطہ لنک بھی ذیل میں ہے۔ اسمیں انہوں نے عقیل عباس جعفری کہ جو بجائے خود بھی لبرل تھے انکی تحقیق اور تصنیف¨ پاکستان کا قومی ترانہ حقیقت ۔ کیاہے حقیقت؟ کیا ہے؟ افسانہ؟¨ نامی کتاب پہ مفصل روشنی ڈالتے ہوئے اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ ۔ پاکستان کے لبرل اور اسیکولر طبقے کے وہ افراد جو جگن ناتھ آزاد کو پاکستان کے پہلے قومی ترانے کے خالق بیان کرتے ہیں ۔ اور آزاد کے ہندؤ ہونے کی وجہ سے آزاد کے لکھے قومی ترانے کو مسترد کرنے کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف غلط بیانی کرتے ہیں۔ بلکہ ایک ایسے مسئلے کو الجھا کر پیش کرتے ہیں جس کا کبھی وجود ہی نہیں تھا،۔ یعنی جگن ناتھ آزاد نامی ہندؤ شاعر نے قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی فرمائش پہ کبھی بھی پاکستان کا قومی ترانہ نہیں لکھا اور نہ ہی اسے ریڈیو پاکستان سے کبھی قومی ترانے کی حیثیت سے بجایا گیا۔
حیرت ہوتی ہے ۔ اپنے آپ کو لبرل اور اسیکولر لوگ کس طرح جگن ناتھ آزاد کے ایک شوشے کو بغیر تحقیق کے فسانہ بناتے ہیں اور پھر اسےعام پاکستانی پہ حقیقت کا روپ ٹھونسے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں۔(یہ آخری جملے میری ذاتی رائےہیں) ۔
مذکورہ بالا بی بی سی کے مضمون سے چند اقتباس۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں جہاں مذہبی حلقے، شدت پسند سمجھے جانے لگے ہیں وہیں خود کو روشن خیال، لبرل اور سیکولر کہنے والے بھی ان سے پیچھے نہیں رہے۔سوال یہ تھا کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ کس نے لکھا؟ اور کچھ آخر الذکر دوستوں کا اصرار ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا۔
جگن ناتھ آزاد سے انٹرویو پر مشتمل اس رپورٹ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے تو پاکستان کا قومی ترانہ ایک ہندو شاعر سے لکھوایا تھا۔ لیکن ان کے بعد آنے والوں نے یہ اعزاز کسی مسلمان کو دینے کے لیے اس سارے کام کو ملیا میٹ کر دیا اور اس ترانے کی جگہ حفیظ جالندھری سے ایک نیا ترانہ لکھوا لیا۔
لیکن عقیل عباس جعفری نے جو دستاویزی ثبوت اور حقائق جمع کیے ہیں ان کے مطابق ریڈیو پاکستان لاہور اور پشاور کی لاگ بُکس کے محفوظ ریکارڈ سے جگن ناتھ آزاد کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی کہ ان کا ترانہ نشر ہوا تھا۔

اب ریڈیو پاکستان کراچی رہ جاتا ہے۔ کراچی کو نئے ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیا تھا۔ لیکن عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ ریڈیو پاکستان کراچی پاکستان بننے کے ایک سال بعد یعنی 14 اگست 1948 کو وجود میں آیا۔ لہٰذا کراچی سے قیام پاکستان کی نشریات اور ترانہ نشر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جگن ناتھ آزاد نے لو پوری کو دیے جانے والے انٹرویو میں اور کہیں بھی اور ریڈیو پاکستان لاہور کے اس اہلکار کا نام نہیں بتایا جس نے انہیں یہ کہا پاکستان کی اہم ترین شخصیت ان سے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھوانا چاہتی ہے۔ اور قائد اعظم کے پیپرز میں بھی کہیں یہ بات اب تک سامنے نہیں آئی کہ انہوں نے کوئی قومی ترانہ لکھوایا تھا۔

مفصل تفضیلات کے لئیے ۔ نیچے دیے گئے رابطہ لنک کو کھول کر ملاحضہ فرمائیں کہ حقیت کیا تھی اور فسانہ کیا ہے۔ امید ہے ایک شوشے کو حقیقت کا روپ دینے کی بحث نہ صرف ختم ہوجانی چاہئیے ۔ بلکہ کسی بھی واقعہ کوبنیاد بنا کر اسلام پشندوں کو لفظی سنگساری کا نشانہ بناے کی دلآزار مشق کا خاتمہ بھی ہو جانا چاہئیے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/08/110813_pakistan_antham_sen.shtml
 
اختر بلوچ صاحب کا ایک کالم ڈان کے ویب سائٹ سے ملا جس میں انہوں نے کافی تفصیل کے ساتھ کتابوں کا حوالہ دے کر بیان کیا ہے کہ جگن ناتھ صاحب کا جو بیان تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قائد اعظم نے ان کو یہ کام سونپ دیا تھا کہ قومی ترانہ آپ لکھو گے
کتابوں سے دلائل دیتے ہوئے اختر بلوچ صاحب ارشاد کرتے ہیں کہ نہ تو قائد اعظم کو اردو میں دلچسپی تھی اور نہ ہی اردو ادب میں اور نہ ہی جگن ناتھ صاحب سے قائد اعظم کی ملاقات کا کہیں ذکر موجود ہے باقی تفصیل ایس لنک میں ہیں پڑھ لیجئے
http://www.dawnnews.tv/news/1025177
 
Top