چند ادبی لطیفے

جیہ

لائبریرین
ایک محفل میں مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان حاضر تھے۔ مولانا آزاد کو پیاس محسوس ہوئی تو ایک بزرگ جلدی سے پانی کا ہیالہ لے آئے۔ مولانا آزاد نے ہنس ارشاد کیا:

لے کے اک پیرِ مغاں ہاتھ میں مینا، آیا

مولانا ظفر علی خان نے برجستہ دوسرا مصرع کہا:

مے کشو! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا
 

جیہ

لائبریرین
دہلی کے ایک ہند و پاک مشاعرے میں عبد الحمید عدم پنڈت ہری چند اختر کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ گئے اور پوچھنے لگے: " پنڈت جی مجھے پہچانا؟ میں عدم ہوں۔

اختر نے عدم کا موٹا تازہ جسم دیکھتے ہوئے مسکرا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا:
" اگر یہی عدم ہے تو وجود کیا ہوگا۔"
 

جیہ

لائبریرین
ایک محفل میں کچھ شاعر بیخود دہلوی اور سائل دہلوی کا ذکر کر رہے تھے۔ ایک شاعر نے شعر سنائے جس میں دونوں کے تخلص نظم تھے۔ وہاں حیدر دہلوی بھی موجود تھے۔ شعر سن کر کہنے لگے ۔
"اس شعر میں سائل اور بیخود تخلص صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو۔"

کسی نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔؟ حیدر نے وہیں برجستہ یہ شعر کہہ کر سب کو حیران کر دیا:

پڑا ہوں میکدے کے در پر اس انداز سے حیدر
کوئی سمجھا کہ بے خود ہے کوئی سمجھا کہ سائل ہے
 

مغزل

محفلین
ایک محفل میں کچھ شاعر بیخود دہلوی اور سائل دہلوی کا ذکر کر رہے تھے۔ ایک شاعر نے شعر سنائے جس میں دونوں کے تخلص نظم تھے۔ وہاں حیدر دہلوی بھی موجود تھے۔ شعر سن کر کہنے لگے ۔ "اس شعر میں سائل اور بیخود تخلص صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو۔"
کسی نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔؟ حیدر نے وہیں برجستہ یہ شعر کہہ کر سب کو حیران کر دیا:
پڑا ہوں میکدے کے در پر اس انداز سے حیدر
کوئی سمجھا کہ بے خود ہے کوئی سمجھا کہ سائل ہے

بہت خوب جیہ ، جیتی رہو ،
------------------------------------
( کچھ وضاحتیں اس سے ہٹ کر ) حیدر دہلوی کا لقب ، خیام الہند تھا، علامہ نازش حیدری آپ ہی کے شاگرد تھے،
( اجمالاً ایک تعارفی خاکہ پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں)۔۔۔
("اس شعر میں سائل اور بیخود تخلص صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو۔")
یہ ازرہِ تفنن تو ٹھیک ہے مگر صنعتِ شعری میں‌اساتذہ اسے عیب سے تعبیر کرتے ہیں یعنی تخلص بطور لفظ کے ۔
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب جیہ ، جیتی رہو ،
------------------------------------
( کچھ وضاحتیں اس سے ہٹ کر ) حیدر دہلوی کا لقب ، خیام الہند تھا، علامہ نازش حیدری آپ ہی کے شاگرد تھے،
( اجمالاً ایک تعارفی خاکہ پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں)۔۔۔
("اس شعر میں سائل اور بیخود تخلص صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو۔")
یہ ازرہِ تفنن تو ٹھیک ہے مگر صنعتِ شعری میں‌اساتذہ اسے عیب سے تعبیر کرتے ہیں یعنی تخلص بطور لفظ کے ۔

شکریہ محمود

یہ ازرہِ تفنن تو ٹھیک ہے مگر صنعتِ شعری میں‌اساتذہ اسے عیب سے تعبیر کرتے ہیں یعنی تخلص بطور لفظ

یہ تو آپ عجیب کہہ رہے ہیں۔ ہم نے اس کے الٹ سنا ہے۔ مومن دہلوی کا نام اس ذیل میں لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے تخلص کا با معنی استعمال کیا ہے۔ پشتو میں اباسین یوسفزئ بھی اس وجہ سے مشہور ہے
 

مغزل

محفلین
شکریہ محمود
یہ تو آپ عجیب کہہ رہے ہیں۔ ہم نے اس کے الٹ سنا ہے۔ مومن دہلوی کا نام اس ذیل میں لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے تخلص کا با معنی استعمال کیا ہے۔ پشتو میں اباسین یوسفزئ بھی اس وجہ سے مشہور ہے

شکریہ جیہ، آپ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں کہ بہت سے لوگوں کی شناخت اسی طرح سے ہے ، استادقمر جلالوی اس میں ملکہ رکھتے تھے، مگر جو غلط ہے سو غلط ہے ( نکاتِ سخن کے تحت)
 

جیہ

لائبریرین
چلیں اساتذہ

بابا جانی
وارث
فرخ
اور فاتح صاحبان
کی رائے لیتے ہیں کہ یہ غلط ہے یا درست
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال آپ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ صحیح بات کر رہے ہیں :)

تخلص کو اس انداز سے استعمال کرنا کہ اس سے وہ نہ صرف ذو معنی ہو جائے بلکہ اس سے شعر چمک اٹھے ایک خوبی ہے، جیسے مومن، داغ یا قمر جلالوی نے اپنے اپنے تخلص کو استعمال کیا ہے۔

تخلص کو بطور اسم یا فعل یا صفت اسطرح استعمال کرنا کہ اس سے یہ واضح ہی نہ ہو کہ شاعر نے اسے بطور تخلص استعمال کیا ہے بہرحال عیب ہے!
 

فاتح

لائبریرین
وارث صاحب انتہائی لطیف پیرائے میں تخلص کے استعال کے متعلق بیان فرما ہی چکے ہیں لیکن چونکہ ہم ان کے دستِ محبت پر بیعت ہیں لہٰذا "تائیداً" کچھ عرض کرنا نہ صرف اپنے لیے باعثِ شرف و عزت جانتے ہیں بلکہ اسے مال و دولت میں اضافے کا تعویذ بھی مانتے ہیں۔

شاعری میں ایسی کئی صنائع ہیں جن کا استعمال شعر کو خوبصورت بنا دیتا اور قاری کے دل و دماغ کو معانی کے ساتھ ساتھ اس کی ہیئت بھی لطف دیتی ہے۔ شاعر انہی صنائع کو اگر "بر محل" اور "تکنیک" کے ساتھ استعمال کرے تو اس کا شعر گراں مایہ کہلاتا ہے جب کہ اس کے بر عکس ان کا بھونڈا استعمال شعر کو پستی میں گرا دیتا ہے۔
محمود مغل صاحب اور جیہ صاحبہ کی ادبی بحث بھی اسی قسم کی ایک صنعت کے متعلق ہے اور یہی قاعدہ اس پر لاگو ہوتا ہے کہ بر محل اور عمدگی کے ساتھ تخلص کو بطور صفت، اسم یا فعل برتنا اعلیٰ پائے کے شعرا کا خاصہ رہا ہے لیکن بہرحال اس شعر سے یہ واضح ہوتا ہو کہ تخلص کا یہ استعمال کسباً ہے۔ جیسا کہ وارث صاحب نے چند شعرا کے نام بھی لیے ان میں کئی اور ناموں کے ساتھ ایک نام خمارؔ بارہ بنکوی کا بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
میرؔ کے درج ذیل شعر کی تشریح میں بھی کئی شارحین کا اتفاق ہے کہ اس میں میرؔ صاحب نے تخلص کو بطور اسم، بمعنی بادشاہ استعمال کیا ہے۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے​
اس طرح کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے تو ابھی دیکھا ہے اس کو۔۔
وارث سے میں متفق ہوں۔ لیکن اس کی وضاحت میں یہ کہوں گا کہ تخلص محض نام کے طور پر آئے، محض تقطیع کے لئے تو وہ بھی معیوب نہیں، جائز تو ہے لیکن حسن بھی نہیں۔
 
Top