لیاقت علی عاصم غزل ۔ نکل کر حلقۂ اہلِ اثر سے بھاگ جاؤں میں ۔ لیاقت علی عاصم

محمداحمد

لائبریرین
غزل

نکل کر حلقۂ اہلِ اثر سے بھاگ جاؤں میں
کئی دن سے یہ خواہش ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں میں

ذرا ہمت کرے یہ دل تو شاید دوسرے پَل میں
چُھڑا کر جان دستِ چارہ گر سے بھاگ جاؤں میں

ابھی رستے میں ہیں کچھ جانے پہچانے ہوئے چہرے
ہراساں ہو کے کیوں گردِ سفر سے بھاگ جاؤں میں

چلو یوں ہی سہی اب کے زیادہ بارشیں ہوں گی
تو کیا اپنے شکستہ بام و در سے بھاگ جاؤں میں

چلو یوں ہی سہی اب کے نشانے پر فقط ہوں میں
تو کیا منہ پھیر کر اُن کی نظر سے بھاگ جاؤں میں

کہاں وہ آنکھ کے اُس بام سے آگے بھی کچھ دیکھوں
کہاں وہ پاؤں کے اُس راہگزر سے بھاگ جاؤں میں

لیاقت علی عاصم
 

کاشفی

محفلین
غزل

نکل کر حلقۂ اہلِ اثر سے بھاگ جاؤں میں
کئی دن سے یہ خواہش ہے کہ گھر سے بھاگ جاؤں میں

ذرا ہمت کرے یہ دل تو شاید دوسرے پَل میں
چُھڑا کر جان دستِ چارہ گر سے بھاگ جاؤں میں

ابھی رستے میں ہیں کچھ جانے پہچانے ہوئے چہرے
ہراساں ہو کے کیوں گردِ سفر سے بھاگ جاؤں میں

چلو یوں ہی سہی اب کے زیادہ بارشیں ہوں گی
تو کیا اپنے شکستہ بام و در سے بھاگ جاؤں میں

چلو یوں ہی سہی اب کے نشانے پر فقط ہوں میں
تو کیا منہ پھیر کر اُن کی نظر سے بھاگ جاؤں میں

کہاں وہ آنکھ کے اُس بام سے آگے بھی کچھ دیکھوں
کہاں وہ پاؤں کے اُس راہگزر سے بھاگ جاؤں میں

لیاقت علی عاصم

ایکسلینٹ۔۔۔۔ بہت ہی خوب ۔۔زبردست بھئی۔۔
 

ملائکہ

محفلین
چلو یوں ہی سہی اب کے زیادہ بارشیں ہوں گی
تو کیا اپنے شکستہ بام و در سے بھاگ جاؤں میں

:grin::grin::grin:

---------------------------
اچھی غزل ہے شکریہ:)
 
Top