ابتدائی اسلامی نظام 21ویں صدی میں کیسے رائج ہوگا؟!

arifkarim

معطل
بس اتنی سی جان ہے تمہارے فلسفے میں کہ دو سوال کیا کیے تم نے چلانا شروع کر دیا ہے کہ تنقیدی سوچ کو برداشت نہیں کیا جا رہا؟
میں نے یہ بحث پوری نہیں دیکھی ہے، میں تو صرف اپنی معلومات کے لیے جاننا چاہ رہا ہوں کہ سیارہ زہرہ کے خیالی آئیڈیل نظام کے اصل خدوخال کیا ہیں؟ اور اس کے پیچھے اصل ذہن کس کا ہے؟ میں نے ابھی وینس پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر سرسری نظر ڈالی ہے اور مجھے فی الحال اس کا کوئی سر پیر نظر نہیں آیا ہے۔ شاید تفصیل سے دیکھنے سے کچھ بہتر پتا چلے گا۔ لیکن مجھے اس سائٹ پر کم از کم مذہب سے متعلقہ کوئی بات نظر نہیں آئی۔ مذہب پر بحث کیسے شروع ہوئی ہے؟
تم سے پبلک فورم پر رائے ظاہر کرنے کا حق کوئی نہیں چھین رہا ہے لیکن کچھ پوسٹ کرتے وقت یہ بھی سوچا کرو کہ تمہیں اپنے نکتہ نظر کی وضاحت بھی کرنی پڑے گی۔
اگر اسلام کے مکمل ہونے میں کچھ کسر ہے تو یہ آخر کیسے پوری ہوگی؟ کیا اسے مکمل کرنے کے لیے کسی نبی کا آنا باقی ہے؟

شور اسلئے مچایا ہے کہ عموماً ’’انقلابی ‘‘دھاگوں پر تنقید کے بعد بات سیدھا ذاتیات اور فرقہ واریت پر اتر جاتی ہے، جسکے بعد منتظمین اُس دھاگے کو مقفل یا حذف کرکے چلتے بنتے ہیں اور ساری ڈسکشن کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس قسم کے موضوع پر پھر وہی حرکتیں شروع ہو جاتی ہیں۔:(
میں یہ بات واضح کر دوں کہ اس دھاگے کا تعلق The Venus Project سے قطعی نہیں ہے۔ وہ تو محض ایک نئے ٹیکنالوجی بیسڈ معاشرتی نظام کا خواب ہے، جسپر عمل کرنے کیلئے پوری دنیا کی سوچ بدلنی پڑے گی اور روحانیت کو لوگوں کے دلوں سے غائب کرنا ہوگا۔ جو کہ ناممکن ہے۔اور ضروی نہیں کہ آپThe Venus Project پر ضرور ۱۰۰ فیصد چلیں۔ البتہ ہم ہرنظریے میں سے اچھی چیز لے سکتے ہیں اور بری چیز رد کر سکتے ہیں ۔ نیز چونکہ یہ نظام پہلے کبھی آزمایا نہیں گیا اسلئے محمد صابر صاحب نے یہ آئیڈیا دیا کہ جو نظام مکمل و جامع ہے اور آزمودہ ہے، اسکے موجودہ دور میں نفاز سے متعلق کوئی لاحۂ عمل تخلیق دینا چاہیے۔ سو اس دھاگہ کو ’’زہرہ پراجیکٹ‘‘ سے نہ ملائیں۔۔۔۔
اس میں کیا شک ہے کہ دین اسلام قیامت تک کیلئے ظابطۂ حیات ہے۔ لیکن کیا صرف اسلامی تعلیمات کا اقرار کرنا یا چند رسومات پر عمل کرنا ہمیں خودکار طور پر حقیقی مسلمان بنا دے گا ؟:confused: اور اعمال صالحہ کی دنیا سے کیا کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے؟
ایمان کا سارا وزن ہی اعمال صالحہ سے ناپا جاتا ہے۔ جو ہم میں سے اکثر کرتے نہیں۔ اب اعمال سے عام تاثر یہ ہے کہ سارا زور نماز و روزہ پر دیا جاتا ہے۔ بھئی یہ تو ذاتی اعمال ہیں ! معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے ہم کیا کر رہے ہیں ؟ اسکی طرف کسی کا دھیان نہیں‌جاتا۔ حقوق العباد پہلے ہے۔ حقوق اللہ بعد میں۔ مسلمان بھوکے مر رہے ہیں اور عربی حج کر رہے ہیں (سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی)۔ یہ کیسا ایمان ہے :confused: :idontknow: اس قدر ناقص حالت کے باوجود موجودہ دور کے مسلمان ، اسلام پر بکلی طور پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسلئے مجھے اعتراض اسلامی تعلیمات پر نہیں، انکا Practical Life میں غلط نفاذ پرہے! یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہےجسکی طرف توجہ دلانا چاہ رہاہوں لیکن کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی:(
نیز کیا ابھی کسی نبی، امام مہدی، نزول عیسیٰ، مصلح، کا آنا باقی ہے یا نہیں۔ اس موضوع پر ہمارے پاس اتنا علم نہیں ہے جتنا اس پر پچھلے ۱۴۰۰ برسوں میں بے کار بحث و مباحثہ ہو چکا ہے۔! ہر فرقہ اسلام کےاس ’’نزول‘‘پر اپنے اپنے عقائد ہیں ۔ کچھ کے نزدیک ابھی آنا ہے۔ باقیوں کے نزدیک وہ تو آکر بھی چلا گیا۔ بعض کے نزدیک ان کے درمیان’’خفیہ امام‘‘ کی صورت میں موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں:sad2:
اگر بالفرض ایسا کوئی شخص آبھی گیا اور دعویٰ بھی کرلیا تو کون مانے گا اسے؟ اگر سنی مانےتو شیعا انکاری۔ اگر شیعا مانے تو سنی انکاری۔ اگر غیریقینی طور پر سب مسلمان بھی اس کو تسلیم کر لیں کہ وہ واقعی خدا کی طرف سے آیا ہے تو ظاہر ہے یہودی و نصاریٰ برادری انکار کرے گی۔ کیونکہ انکے مطابق ہمارا خدا اور انکا خدا مختلف ہے۔ ایسے میں خود سوچیں وہ آنے والا زیادہ پریشان ہوگا یا اسکو بھیجنے والا۔:rolleyes:
اب جب تک وہ نہیں آتا، ہم مسلمانوں کا کیا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ظلم برداشت کرتے رہیں۔ دشمن ہمارے وسائل پر قبضہ جماکر بیٹھ جائے اور ہم ہاتھ ملتے اس آنے والے کی راہیں دیکھتے رہیں کہ وہ ہمیں آکر بچائے گا اور مسلمانوں کو بیدار کرے گا! کیسی عجیب و غریب سوچ میں مبتلا ہے امت مسلمہ۔۔۔۔
اپڈیٹ: اگر آپ صرف زہرہ پراجیکٹ کے متعلق مزید جاننا چاہتے ہیں تو فارغ وقت میں یہ دو مشہور فری ڈاکومنٹریز دیکھ لیں:
http://www.zeitgeistmovie.com/
 

نبیل

تکنیکی معاون
ابھی تو صرف تم شور مچا رہے ہو۔ میں تو صرف تم سے اپنی معلومات کے لیے سوال پوچھ رہا ہوں کہ آخر یہ موضوع شروع کرنے کا تمہارا مقصد کیا ہے۔ میں نے تم سے باقی فرقوں کے عقائد کا تقابل کرنے کا نہیں کہا ہے۔ مجھے ایک سیدھے سے سوال کا جواب چاہیے کہ کیا اسلام ایک نامکمل مذہب ہے؟ تم نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ہمیں علم نہیں ہے کہ کسی نبی یا مصلح نے آنا ہے یا نہیں۔ کیا تم ختم نبوت پر یقین رکھتے ہو یا نہیں؟ مجھے صاف جواب چاہیے۔ لمبی چوڑی پوسٹس اور آئیں بائیں شائیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

arifkarim

معطل
ابھی تو صرف تم شور مچا رہے ہو۔ میں تو صرف تم سے اپنی معلومات کے لیے سوال پوچھ رہا ہوں کہ آخر یہ موضوع شروع کرنے کا تمہارا مقصد کیا ہے۔ میں نے تم سے باقی فرقوں کے عقائد کا تقابل کرنے کا نہیں کہا ہے۔ مجھے ایک سیدھے سے سوال کا جواب چاہیے کہ کیا اسلام ایک نامکمل مذہب ہے؟ تم نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ہمیں علم نہیں ہے کہ کسی نبی یا مصلح نے آنا ہے یا نہیں۔ کیا تم ختم نبوت پر یقین رکھتے ہو یا نہیں؟ مجھے صاف جواب چاہیے۔ لمبی چوڑی پوسٹس اور آئیں بائیں شائیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

نبیل بھائی، یہ موضوع شروع کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان جو اتنے عرصہ سے ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں، جسمیں مکمل امن و سلامتی ہو، اسکا قیام موجودہ دور میں کیسے ممکن ہو گا۔۔۔اس پر ڈسکشن کیلئے یہ دھاگہ کھولا ہے۔
سیدھی بات یہی ہے کہ اسلام ہر لحاظ سے ایک مکمل مذہب ہی نہیں‌بلکہ مکمل اور جامع دین بھی ہے۔ Its a true way of life! البتہ مجھے اعتراض ان تمام مسلمانوں سے ہے جو اپنے آپکو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن انکے اعمال کہیں سے بھی مسلمانوں والے نہیں ہیں!
جی ہاں! میں ختم نبوت پر یقین رکھتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں آسکتا!

مل گیا صاف جواب یا مزید صفائیاں پیش کروں؟!:)
 

فخرنوید

محفلین
صحیح،ابتدائی اسلامی نظام سے مراد سلسلہ خلافت ہے۔ جو کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی وفات کے قریبا ۳۰ سال بعد تک ایک بہترین معاشی، سیاسی و سماجی نظام کا کردار ادا کر تا رہا۔ آج ۱۴۰۰ سال کے بعد ابھی تک دنیا بھر کے مسلمان اسی نظام کے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن عملی جامہ کوئی نہیں پہنا پا رہا۔ اس تھریڈ میں ہمنے اسی بارے میں ڈسکشن کرنی ہے کہ کس طرح اس کو عملی طور پر عمل میں لایا جائے۔
ابتدائی اسلام سے مراد وہ اسلام ہے جسپر رسول اللہ اور صحابہ رسول ﷺ عمل کرتے رہے۔ کیا آج کے مسلمان اُن اسلامی قوانین پر مکمل طور پر قائم ہیں جیسا کہ ’’ابتدائی مسلمان‘‘ قائم تھے۔ اسی لئے ایک لحاظ سے اسلام مردہ ہو چکا ہے، جسکو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب مردہ ہونے کا یہ مطلب نہ لیجئےگا کہ تعلیمات میں دم نہ رہا، بلکہ یہ ہے کہ مسلمان ان تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اسکو مردہ کر رہے ہیں!
بسم اللہ الرحمن الرحیم!

ابتدائی اسلام اور موجودہ اسلام:

جیسا کہ عارف فرما رہا ہے کہ ابتدائی اسلام اور موجودہ اسلام میں فرق تو ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس میں کھلا تضاد اور بُغض موجود ہے۔
جناب اسلام آج سے تقریبآ چودہ سو سال قبل حضور ﷺ نے اس دنیا مین دوبارہ روشناس کروایا۔
اسلام تو مذہب تو حضرت آدم علیہ اسلام کے دور سے ہے اور تا قیامت رہے گا۔
حضور ﷺ نے نے ہمیں چودہ سو سال قبل اسلام جو اسلام دیا اس کی تعلیمات روز روشن کی طرح عیاں اور زندہ ہیں۔

وہ مذہب اسلام اور دین حق جس کی اکملیت کے بارے میں خود اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا!

آج تمہارا دین تم پر مکمل کر دیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے اس دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی ہے۔

اس تعلیم اور اس مذہب کی عملی نمائش حضور ﷺ کی زندگی اور اسوہ حسنہ ، قول و فعل سے
آج تک محفوظ ہے ۔
حضور ﷺ کی احادیث میں کئی ایسی احادیث موجود ہیں ۔ جس میں بیان کر دیا گیا ہے کہ میری امت میں ایک گروہ ایسا ہو گا ۔ جو میری امت میں انتشار اور فساد برپا کرے گا۔
لیکن پھر بھی میری امت کے کچھ لوگ دین حق پر قائم و دائم رہیں گے۔

اس فسادی اور منتشر دور زندگی میں ۔ منافقین اور شر پسند لوگ ایسی ایسی تاویلیں گھڑیں گے کہ وہ خود کو سچا ثابت کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
وہ اسلام کے نظام حیات کو نا مکمل اور مقفود سمجھیں گے۔


اسلام کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اسلام کے اس دور حکومت اور دور فلاحی ریاست کو کوئی ایک فرد یا ایک حکمران یا ایک امیر المومنین درست نہیں کر سکتا ہے اور ناہی اسے لاگو کر سکتا ہے ۔
جب تک ہمارا معاشرہ خود اپنے اندر اسلامی تبدیلیاں نہ لائے۔
انفرادی ذمہ داریاں:
1۔ اسلام کے فرائض پر عمل کیا جائے۔
2۔حق تلفی نہ کی جائے۔
3۔پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔
4۔ برائی کو برائی سمجھا جائے۔
5۔ذاتی مفاد کے لئے جھوٹ نہ بولا جائے۔
6۔اپنے انداز بیاں کو شائستہ کیا جائے۔


اجتماعی ذمہ داری:
1۔کسی کی حق تلفی ہوتے دیکھ کر چپ نہ رہیں
2۔شائستگی کو ترویج دی جائے۔
3۔حسن سلوک سے پیش آیا جائے
4۔ فرائض کی بروقت ادائیگی کی جائے۔
5۔ غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ شفقت کی جائے۔
6۔ زکوۃ و صدقات دیئے جائیں۔

حکمرانوں کی ذمہ داری:
1۔ نظام حکومت ایسی ہو کہ جس میں کرپشن نہ ہو۔
2۔لوگوں کی اتنی تنخواہ ضرور ہو ۔ جس میں وہ خوشحال زندگی گزار سکیں۔
3۔ میڈیکل مفت ہو تمام ر عایا کے لئے۔
4۔لا اینڈ آرڈر درست کیا جائے۔
5۔ بے گناہ کو فوری انصاف ملے۔
6۔ اسلامی سزاوں کا نفاذ کیا جائے۔



مندرجہ بالا گزارشات پر ہی بس عمل کر لیا جائے تو میرے خیال سے بہت ہیں۔

وسلام
 

arifkarim

معطل
بسم اللہ الرحمن الرحیم!

ابتدائی اسلام اور موجودہ اسلام:

جیسا کہ عارف فرما رہا ہے کہ ابتدائی اسلام اور موجودہ اسلام میں فرق تو ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس میں کھلا تضاد اور بُغض موجود ہے۔
جناب اسلام آج سے تقریبآ چودہ سو سال قبل حضور ﷺ نے اس دنیا مین دوبارہ روشناس کروایا۔
اسلام تو مذہب تو حضرت آدم علیہ اسلام کے دور سے ہے اور تا قیامت رہے گا۔
حضور ﷺ نے نے ہمیں چودہ سو سال قبل اسلام جو اسلام دیا اس کی تعلیمات روز روشن کی طرح عیاں اور زندہ ہیں۔

وہ مذہب اسلام اور دین حق جس کی اکملیت کے بارے میں خود اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا!

آج تمہارا دین تم پر مکمل کر دیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے اس دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی ہے۔

اس تعلیم اور اس مذہب کی عملی نمائش حضور ﷺ کی زندگی اور اسوہ حسنہ ، قول و فعل سے
آج تک محفوظ ہے ۔
حضور ﷺ کی احادیث میں کئی ایسی احادیث موجود ہیں ۔ جس میں بیان کر دیا گیا ہے کہ میری امت میں ایک گروہ ایسا ہو گا ۔ جو میری امت میں انتشار اور فساد برپا کرے گا۔
لیکن پھر بھی میری امت کے کچھ لوگ دین حق پر قائم و دائم رہیں گے۔

اس فسادی اور منتشر دور زندگی میں ۔ منافقین اور شر پسند لوگ ایسی ایسی تاویلیں گھڑیں گے کہ وہ خود کو سچا ثابت کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
وہ اسلام کے نظام حیات کو نا مکمل اور مقفود سمجھیں گے۔


اسلام کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اسلام کے اس دور حکومت اور دور فلاحی ریاست کو کوئی ایک فرد یا ایک حکمران یا ایک امیر المومنین درست نہیں کر سکتا ہے اور ناہی اسے لاگو کر سکتا ہے ۔
جب تک ہمارا معاشرہ خود اپنے اندر اسلامی تبدیلیاں نہ لائے۔
انفرادی ذمہ داریاں:
1۔ اسلام کے فرائض پر عمل کیا جائے۔
2۔حق تلفی نہ کی جائے۔
3۔پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔
4۔ برائی کو برائی سمجھا جائے۔
5۔ذاتی مفاد کے لئے جھوٹ نہ بولا جائے۔
6۔اپنے انداز بیاں کو شائستہ کیا جائے۔


اجتماعی ذمہ داری:
1۔کسی کی حق تلفی ہوتے دیکھ کر چپ نہ رہیں
2۔شائستگی کو ترویج دی جائے۔
3۔حسن سلوک سے پیش آیا جائے
4۔ فرائض کی بروقت ادائیگی کی جائے۔
5۔ غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ شفقت کی جائے۔
6۔ زکوۃ و صدقات دیئے جائیں۔

حکمرانوں کی ذمہ داری:
1۔ نظام حکومت ایسی ہو کہ جس میں کرپشن نہ ہو۔
2۔لوگوں کی اتنی تنخواہ ضرور ہو ۔ جس میں وہ خوشحال زندگی گزار سکیں۔
3۔ میڈیکل مفت ہو تمام ر عایا کے لئے۔
4۔لا اینڈ آرڈر درست کیا جائے۔
5۔ بے گناہ کو فوری انصاف ملے۔
6۔ اسلامی سزاوں کا نفاذ کیا جائے۔



مندرجہ بالا گزارشات پر ہی بس عمل کر لیا جائے تو میرے خیال سے بہت ہیں۔

وسلام

معذرت، لیکن بغض میرے میں نہیں آپ لوگوں میں موجود ہے۔ جونہی کوئی مسلمانوں پر کوئی تنقید کرتا ہے۔ فٹا فٹ آنا فانا اسکو رٹی پٹی حدیثوں کیساتھ ملا کر منافقین کے گروہ میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ دین صرف آپکا ہی نہیں ہے جناب۔ دین میں تشریح کی اجازت اور تنقید کی بھی بالکل اجازت ہے۔۔۔ نیز میں نے نہ تو اسلامی تعلیمات کو نامکمل کہا کہ پہلے مکمل تھیں اور اب نہیں ہیں۔ اور نہ ہی اس بات کا اقرار کیا کہ اسلام سچا و مکمل ظابطۂ حیات نہیں ہے! یہ تاثر آپ اور آپ کے مولویوں کے دلوں کا بغض ہے کہ جب بھی کوئی مسلمانوں کی بدعادات کیخلاف آواز اٹھائے۔ فوراً اسکے خلاف فتوے جاری کر دو کہ یہ منافق ہے اور احادیث رسول کو اسکے خلاف استعمال کرو تاکہ نہ نئی بات سنیں گے اور نہ سننے دیں‌گے!
اسلام کل بھی سچا تھا۔ آج بھی سچا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا! اسکا میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ لیکن اس اسلام پر مبنی نظام کا نفاذ اس موجودہ معاشرے میں کیسے ہوگا۔ اس پر ڈسکشن کرنا چاہ رہوں۔ لیکن یہاں تو ساری بحث ہی ذاتی عقائد پر ہو رہی ہے!:mad:
نیز آپنے جو ذمہ داریاں پیش کی ہیں ، یہ تو رٹی ہوئی اسلامی تعلیمات ہیں اور ایک مڈل اسکول کے طالب علم کو بھی انکا پتا ہے!!! اس تعلیم کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔۔۔ اسپر بات کریں:doh:

اپڈیٹ: ناظمین دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ڈسکشن کا رخ موڑنے کیلئے ذاتیات کا اسٹارٹ ہوتا ہے!
 

فخرنوید

محفلین
معذرت، لیکن بغض میرے میں نہیں آپ لوگوں میں موجود ہے۔ جونہی کوئی مسلمانوں پر کوئی تنقید کرتا ہے۔ فٹا فٹ آنا فانا اسکو رٹی پٹی حدیثوں کیساتھ ملا کر منافقین کے گروہ میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ دین صرف آپکا ہی نہیں ہے جناب۔ دین میں تشریح کی اجازت اور تنقید کی بھی بالکل اجازت ہے۔۔۔ نیز میں نے نہ تو اسلامی تعلیمات کو نامکمل کہا کہ پہلے مکمل تھیں اور اب نہیں ہیں۔ اور نہ ہی اس بات کا اقرار کیا کہ اسلام سچا و مکمل ظابطۂ حیات نہیں ہے! یہ تاثر آپ اور آپ کے مولویوں کے دلوں کا بغض ہے کہ جب بھی کوئی مسلمانوں کی بدعادات کیخلاف آواز اٹھائے۔ فوراً اسکے خلاف فتوے جاری کر دو کہ یہ منافق ہے اور احادیث رسول کو اسکے خلاف استعمال کرو تاکہ نہ نئی بات سنیں گے اور نہ سننے دیں‌گے!
اسلام کل بھی سچا تھا۔ آج بھی سچا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا! اسکا میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ لیکن اس اسلام پر مبنی نظام کا نفاذ اس موجودہ معاشرے میں کیسے ہوگا۔ اس پر ڈسکشن کرنا چاہ رہوں۔ لیکن یہاں تو ساری بحث ہی ذاتی عقائد پر ہو رہی ہے!:mad:
نیز آپنے جو ذمہ داریاں پیش کی ہیں ، یہ تو رٹی ہوئی اسلامی تعلیمات ہیں اور ایک مڈل اسکول کے طالب علم کو بھی انکا پتا ہے!!! اس تعلیم کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔۔۔ اسپر بات کریں:doh:

اپڈیٹ: ناظمین دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ڈسکشن کا رخ موڑنے کیلئے ذاتیات کا اسٹارٹ ہوتا ہے!

السلام علیکم !
جناب والا میں نے کوئی بغض نہیں دکھایا ہے صرف سچائی بیان کی ہے۔

ہر انسان خطا کا پُتلا ہے ماسوائے انبیا کرام و مرسلین !
جناب مسلمانوں میں سب مسلمان ہی اچھے نہیں ہیں ۔ ان کو لے کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب ہی بُرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان بُرے مسلمانوں کی وجہ سے مذہب اسلام اچھا نہیں ہے۔
جناب یہ باتیں تو سب جانتے ہیں ۔ اپنی ذمہ داریاں بھی جانتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں ہو گا تو کونسا شخص ، کونسی ہستی ، کونسی جماعت ، کونسا خلیفہ ، کونسا حکمراں
ان پر عمل کروائے بنا اسلام نافذ کر سکتا ہے یا اسلامی نظام حیات کو نافذ کر سکتا ہے۔

جاہل وہ ہے جس نے علم حاصل کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔

جناب آپ تو جذباتی ہو جاتے ہو اور خود ہی بات اپنی طرف کھینچ کر لے جاتے ہو ۔ اپنی بات پر قائم بھی نہیں رہتے ہو کبھی تم کہتے ہو اسلامی نظام بس 30 سال زندہ رہا ۔ اب کہتے ہمیشہ سے زندہ ہے اور رہے گا۔

اونٹ کی کونسی کل سیدھی ہے یہ بھی تو پتہ چلے

وسلام

:hiro:
 

arifkarim

معطل
السلام علیکم !
جناب والا میں نے کوئی بغض نہیں دکھایا ہے صرف سچائی بیان کی ہے۔

ہر انسان خطا کا پُتلا ہے ماسوائے انبیا کرام و مرسلین !
جناب مسلمانوں میں سب مسلمان ہی اچھے نہیں ہیں ۔ ان کو لے کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب ہی بُرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان بُرے مسلمانوں کی وجہ سے مذہب اسلام اچھا نہیں ہے۔
جناب یہ باتیں تو سب جانتے ہیں ۔ اپنی ذمہ داریاں بھی جانتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں ہو گا تو کونسا شخص ، کونسی ہستی ، کونسی جماعت ، کونسا خلیفہ ، کونسا حکمراں
ان پر عمل کروائے بنا اسلام نافذ کر سکتا ہے یا اسلامی نظام حیات کو نافذ کر سکتا ہے۔

جاہل وہ ہے جس نے علم حاصل کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔

جناب آپ تو جذباتی ہو جاتے ہو اور خود ہی بات اپنی طرف کھینچ کر لے جاتے ہو ۔ اپنی بات پر قائم بھی نہیں رہتے ہو کبھی تم کہتے ہو اسلامی نظام بس 30 سال زندہ رہا ۔ اب کہتے ہمیشہ سے زندہ ہے اور رہے گا۔

اونٹ کی کونسی کل سیدھی ہے یہ بھی تو پتہ چلے

وسلام

:hiro:

شکریہ۔ اب ڈسکشن ٹھیک انداز میں ہو رہی ہے۔ دیکھو دین اسلام میں اور اسلامی نظام میں کیا فرق ہے؟ اسلام تو محض جامع و مکمل تعلیمات ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو۔ اور یہی تعلیمات بلاشبہ زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ ہمارے پاس قرآن پاک کے احکام اور اسوۂ رسولؐ پر مبنی کتب کا انبار لگا ہوا ہے۔ لیکن ان سب کا فائدہ ہی کیا جب معاشرہ ان پر عمل پیرا ہی نہیں ہو رہا۔ :confused: ابتدائی اسلامی نظام وہ عرصہ ہے جب ہم مسلمان بکلی طور اسلامی طرز معاشرت پر قائم رہے۔ خلفائے راشدین جمہوری طور پر منتخب ہوئے اور امت مسلمہ ان تمام احکام کی پابند رہی جو شریعت نے بیان کیے ہیں۔ یہ سب اسلئے ممکن ہوا کیونکہ ابتدائی ۳۰ سالوں میں مسلمان ایک تھے۔ اور درمیان میں کوئی فرقہ موجو د نہ تھا۔ جونہی شیعا ، سنی میں مسلمان تقسیم ہوئے (خلافت کے صحیح حقدار کی وجہ سے) اسی دن سے ہم سے حقیقی خلافت چھن کر بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ بعد میں متعدد خاندان خود ساختہ خلافت کا پرچار کرتے رہے۔ لیکن حقیقت میں وہ دنیاوی بادشاہت ہی تھی نہ کہ روحانی خلافت!
اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کس طرح دوبارہ مسلمانوں کو نیک اعمال کی طرف واپس لایا جائے۔ مولوی، ملا، مربی اور ان جیسے اور مذہبی رہنما اس کام میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ امت مسلمہ روز بروز بد اعمالیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ میں آپکی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جب تک ہم اپنی حالت نہ بدلیں گے، معاشرے کی اصلاح نہ ہوگی۔ آپ ہی بتائیں ہم مسلمان اپنی حالت کیسے بدلیں؟!
 

arifkarim

معطل
نبیل نے کہا:
تم اپنا یہ بے کار رونا ہر جگہ نا شروع کر دیا کرو۔ تمہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے اور انبیاء اور صحابہ کے متعلق زبان درازی کرتے ہو اور چلے ہو اسلام کو اکیسویں صدی میں نافذ کرنے۔
تمہارا وہ پرانا تھریڈ ابھی بھی موجود ہے، جو انقلاب لانا چاہتے ہو وہاں جا کر ہی لاؤ۔ یہاں موضوع پر ہی بات رہنے دو۔

اگر صحابہ کرام ضنللہعلیہمجمعین سے ہونے والی بشری خطاؤں کے متعلق کچھ لکھنا "زبان درازی" ہے تو مجھے قبول ہے۔ کیونکہ تاریخ کا صرف مثبت پہلو ہی نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے ابتدإ سلام کے اصحاب رسول صللہعلیہسلم کو اتنی عقیدت مندی دے رکھی ہے کہ انسے سر زد ہونے والی’’ غلطیوں‘‘ کو نہ صرف نظر انداز کر دیا بلکہ مستقبل میں کچھ سیکھا بھی نہیں ۔
باقی اسلام کے نفاذ والی بات ظفری بھائی کے جواب میں لکھی تھی۔ مجھے کوئی رونا وونا نہیں ہے کیونکہ آجکل جیسی ہماری حالت ہے اسپر اب صرف ہنسی ہی آسکتی ہے :)
انقلاب والے دھاگے کا مجھے کوئی فائدہ نہیں۔ وہ آپ سب کی معلومات کیلئے کھولا تھا کہ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ایک لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ لیکن جب ہمیں خود ہی اپنی فکر نہیں تو میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں :rolleyes:
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے اوپر والا پیغام یہاں منتقل کر دیا ہے۔ جو رونا ہے وہ یہاں پر ہی رو لو۔ اور صحابہ کرام کے متعلق بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لو۔
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ۔ اب ڈسکشن ٹھیک انداز میں ہو رہی ہے۔ دیکھو دین اسلام میں اور اسلامی نظام میں کیا فرق ہے؟ اسلام تو محض جامع و مکمل تعلیمات ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو۔ اور یہی تعلیمات بلاشبہ زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ ہمارے پاس قرآن پاک کے احکام اور اسوۂ رسولؐ پر مبنی کتب کا انبار لگا ہوا ہے۔ لیکن ان سب کا فائدہ ہی کیا جب معاشرہ ان پر عمل پیرا ہی نہیں ہو رہا۔ :confused: ابتدائی اسلامی نظام وہ عرصہ ہے جب ہم مسلمان بکلی طور اسلامی طرز معاشرت پر قائم رہے۔ خلفائے راشدین جمہوری طور پر منتخب ہوئے اور امت مسلمہ ان تمام احکام کی پابند رہی جو شریعت نے بیان کیے ہیں۔ یہ سب اسلئے ممکن ہوا کیونکہ ابتدائی ۳۰ سالوں میں مسلمان ایک تھے۔ اور درمیان میں کوئی فرقہ موجو د نہ تھا۔ جونہی شیعا ، سنی میں مسلمان تقسیم ہوئے (خلافت کے صحیح حقدار کی وجہ سے) اسی دن سے ہم سے حقیقی خلافت چھن کر بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ بعد میں متعدد خاندان خود ساختہ خلافت کا پرچار کرتے رہے۔ لیکن حقیقت میں وہ دنیاوی بادشاہت ہی تھی نہ کہ روحانی خلافت!
اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کس طرح دوبارہ مسلمانوں کو نیک اعمال کی طرف واپس لایا جائے۔ مولوی، ملا، مربی اور ان جیسے اور مذہبی رہنما اس کام میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ امت مسلمہ روز بروز بد اعمالیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ میں آپکی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جب تک ہم اپنی حالت نہ بدلیں گے، معاشرے کی اصلاح نہ ہوگی۔ آپ ہی بتائیں ہم مسلمان اپنی حالت کیسے بدلیں؟!

ڈسکیشن خاک ٹھیک انداز سے ہو رہی ہے ۔ میں یہاں اس موضوع پر بحث کے لیئے آیا تھا ۔ مگر آخر میں تمہارے ان دو جملوں سے حیران ہوگیا ہوں ‌کہ تم ایک وقت میں کتنی متضاد باتیں کہہ جاتے ہو ۔ " ابتدائی اسلامی نظام " یہ اصطلاح تم نے کن معنوں میں استعمال کی اس کی وضاحت کرو ۔ پھر آگے کہہ رہے ہو کہ " خلفائے راشدین جہموری طریقے سے منتخب ہوئے ۔ " مگر تمہارے دستخط کہتے ہیں‌ کہ " جنگ محض علامت ہے، سرمایہ کاری و جمہوریت اصل بیماری ہے!"
یعنی تم کو خلفائے راشدین کے منتخب ہونے کے طریقہ کار پر بھی اعتراض ہے ۔یہاں تمہارا نکتہ ِ نظر بلکل بھی واضع نہیں کہ تم اسلام کے جس " ابتدائی طرزِ حکومت " کو دوبارہ زندہ کرنے کی جو بات کہہ رہے ہو ۔ وہ اصل میں ہے کیا ۔۔۔۔ کیونکہ خلفائے راشدین کے انتخاب کے طریقہ کار کی تم نے نفی کردی ۔ اور پھر رول ماڈل بھی انہی کو بنا رہے ہو ۔ تو پھر اسلام کا ابتدائی نظام کونسا ہوا ۔ پہلے اپنی بات خود سمجھ کر ا سکی وضاحت کرو تو پھر ہی کوئی اس پر اپنا استدلال پیش کرسکتا ہے ۔ :idontknow:
 

arifkarim

معطل
:cool:
ڈسکیشن خاک ٹھیک انداز سے ہو رہی ہے ۔ میں یہاں اس موضوع پر بحث کے لیئے آیا تھا ۔ مگر آخر میں تمہارے ان دو جملوں سے حیران ہوگیا ہوں ‌کہ تم ایک وقت میں کتنی متضاد باتیں کہہ جاتے ہو ۔ " ابتدائی اسلامی نظام " یہ اصطلاح تم نے کن معنوں میں استعمال کی اس کی وضاحت کرو ۔ پھر آگے کہہ رہے ہو کہ " خلفائے راشدین جہموری طریقے سے منتخب ہوئے ۔ " مگر تمہارے دستخط کہتے ہیں‌ کہ " جنگ محض علامت ہے، سرمایہ کاری و جمہوریت اصل بیماری ہے!"
یعنی تم کو خلفائے راشدین کے منتخب ہونے کے طریقہ کار پر بھی اعتراض ہے ۔یہاں تمہارا نکتہ ِ نظر بلکل بھی واضع نہیں کہ تم اسلام کے جس " ابتدائی طرزِ حکومت " کو دوبارہ زندہ کرنے کی جو بات کہہ رہے ہو ۔ وہ اصل میں ہے کیا ۔۔۔۔ کیونکہ خلفائے راشدین کے انتخاب کے طریقہ کار کی تم نے نفی کردی ۔ اور پھر رول ماڈل بھی انہی کو بنا رہے ہو ۔ تو پھر اسلام کا ابتدائی نظام کونسا ہوا ۔ پہلے اپنی بات خود سمجھ کر ا سکی وضاحت کرو تو پھر ہی کوئی اس پر اپنا استدلال پیش کرسکتا ہے ۔ :idontknow:

بھائی میرا خیال تھا کہ آپ امریکہ میں رہنے کی وجہ سے کھلے دماغ کے مالک ہیں۔ لیکن یہاں آپنے بھی لکیر کی فقیری سے کام چلایا ہے۔ میرے دستخط میں‌جو جمہوریت سے بیزاری کا اعلان ہے، اس سے مراد موجودہ دور کی کرپٹ قسم کی جمہوریت ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ میں کس طرح الیکشن کیمپینز چلائی جاتی ہیں اور پارٹی لیڈرز کو بڑی بڑی کورپریشنز اپنے مقاصد کیلئے ہائر کرتی ہیں۔ بش کی انتظامیہ سارا وقت چند یہودی بینکرز کی انگلیوں پر ناچتی رہی جبکہ پوری امریکی قوم کے ساتھ فریب کیا گیا۔ :(
اسکے برعکس جب میں ابتدائی اسلامی نظام والی جمہوریت کی بات کرتا ہوں تو وہ بالکل اور چیز ہے۔ اُس وقت خلفاءِ راشدین کو منتخب کرنے کیلئے ہر مسلمان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی، بلکہ ہر بار ایک کمیٹی یا اصحاب کا گروہ متفقہ طور پر کسی کو خلیفہ چنتا تھا۔ یہ جمہوریت ہر قسم کی سیاست سے عاری تھی اور یہی ہماری رول ماڈل بھی ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلےخلیفہ کے چناؤ کےوقت حضرت علیؓ سے زبردستی بیعت لی گئی، حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت پہلے ہی حضرت ابو بکرؓ کیساتھ تھی اور حضرت علیؓ کا بیعت نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
ابتدائی اسلامی نظام سے میری مراد نظام خلافت ہے جو کہ نظام عدل پر قائم ہوتا ہے اور ہر قسم کی پارٹی بازی یا کسی خاص انٹرسٹ سے آزاد ہے۔ یہ ایک فلاحی نظام ہے جسمیں اکثریت و اقلیت دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے میں نے اپنا مؤقف ظاہر کر دیا۔ آپ اس پر اپنا استدلال پیش کر سکتے ہیں کہ یہ اس دور میں کس حد تک اور کیسے ممکن ہے؟
 

صرف علی

محفلین
بھائی میرا خیال میں تو اسلام کا ایک ہی نظام ہے اس کو ابتدائی نظام کہنا ہی اسلام کے اوپر تنقیتکرنا ہے کیوں کی رسول اللہ (س) نے تو ایک جامع نظام دیا ہے اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں اس مے نظام کر خراب ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ لوگوں کا خراب ہونا ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اس نظام پر تحیک عمل کیوں نہیں کیا ۔
 

صرف علی

محفلین
اسکے برعکس جب میں ابتدائی اسلامی نظام والی جمہوریت کی بات کرتا ہوں تو وہ بالکل اور چیز ہے۔ اُس وقت خلفاءِ راشدین کو منتخب کرنے کیلئے ہر مسلمان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی، بلکہ ہر بار ایک کمیٹی یا اصحاب کا گروہ متفقہ طور پر کسی کو خلیفہ چنتا تھا۔ یہ جمہوریت ہر قسم کی سیاست سے عاری تھی اور یہی ہماری رول ماڈل بھی ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلےخلیفہ کے چناؤ کےوقت حضرت علیؓ سے زبردستی بیعت لی گئی، حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت پہلے ہی حضرت ابو بکرؓ کیساتھ تھی اور حضرت علیؓ کا بیعت نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
ابتدائی اسلامی نظام سے میری مراد نظام خلافت ہے جو کہ نظام عدل پر قائم ہوتا ہے اور ہر قسم کی پارٹی بازی یا کسی خاص انٹرسٹ سے آزاد ہے۔ یہ ایک فلاحی نظام ہے جسمیں اکثریت و اقلیت دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے میں نے اپنا مؤقف ظاہر کر دیا۔ آپ اس پر اپنا استدلال پیش کر سکتے ہیں کہ یہ اس دور میں کس حد تک اور کیسے ممکن ہے؟
اگر ھم شروع کا دور دیکھے تو جمہوری طریقہ ہمیں کہی نظر نہیں آئے گا پہلی خلافت چند لوگوں کہ بیعت کی وجہ سے ہوئی تو دوسری پہلے کی وصیت سے اور تیسری ایک شورای کے ذریعہ اور چوتھی مدینہ کے لوگوں کی وجہ سے تو بھا ئی جمہوریت جس کا آپ بار بار ذکر ہورہا ہے وہ کہا ہے ؟؟؟؟؟
 

باذوق

محفلین
بھائی میرا خیال تھا کہ آپ امریکہ میں رہنے کی وجہ سے کھلے دماغ کے مالک ہیں۔ لیکن یہاں آپنے بھی لکیر کی فقیری سے کام چلایا ہے۔
بھائی محترم ! اِس تضحیک کے بغیر بھی آپ اپنا موقف آرام سے بیان کر سکتے تھے۔
۔۔۔۔ جب میں ابتدائی اسلامی نظام والی جمہوریت کی بات کرتا ہوں تو وہ بالکل اور چیز ہے۔ اُس وقت خلفاءِ راشدین کو منتخب کرنے کیلئے ہر مسلمان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی، بلکہ ہر بار ایک کمیٹی یا اصحاب کا گروہ متفقہ طور پر کسی کو خلیفہ چنتا تھا۔ یہ جمہوریت ہر قسم کی سیاست سے عاری تھی اور یہی ہماری رول ماڈل بھی ہونی چاہیے۔
آپ کے ان جملوں کو دوبارہ سہ بارہ پڑھنے کے بعد مجھے شدید خواہش ہو رہی ہے کہ پہلے تو "جمہوریت" کے وہ معنی معلوم کروں جو آپ کے ذہن میں مقید ہیں۔
ورنہ تو انسائیکلوپیڈیا برٹینکا کے مطابق "جمہوریت" کی تعریف کچھ یوں ہے اور وکی پیڈیا کے مطابق یوں۔
اور "جمہوریت" کی ان دونوں ہی تعریفات میں عوام کی قوت کی بات کی گئی ہے۔
جبکہ آپ کے اقتباس میں الفاظ کچھ یوں ہیں :
خلفاءِ راشدین کو منتخب کرنے کیلئے ہر مسلمان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی، بلکہ ہر بار ایک کمیٹی یا اصحاب کا گروہ متفقہ طور پر کسی کو خلیفہ چنتا تھا

بھائی صاحب !!
اوپر جو تعریف آپ نے بیان کی ہے ، وہ درحقیقت "خلافت" کی تعریف ہے اور خلافت کسی بھی معنوں میں "جمہوریت" کے مترادف یا مماثل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ دونوں میں "عوام" اور "اہل الرائے" کا واضح فرق ہے۔

ہاں یہ عین ممکن ہے کہ صدیوں سے چلی آ رہی ایک اسلامی اصطلاح "خلافت" کا نام بدل کر آپ اپنی مرضی سے "اسلامی جمہوریت" رکھ لیں۔
اور اردو محفل پر آپ کی اس قسم کی "مرضیوں" کی کوئی فہرست اگر بنائی جائے تو وہ خاصی طویل نکل پڑتی ہے لہذا جانے دیں، میں کچھ نہیں بولتا ;)۔

یہ الگ بات ہے کہ پہلےخلیفہ کے چناؤ کےوقت حضرت علیؓ سے زبردستی بیعت لی گئی، حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت پہلے ہی حضرت ابو بکرؓ کیساتھ تھی اور حضرت علیؓ کا بیعت نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
بھائی! بحث میں اسلام یا تاریخ اسلام سے متعلق کچھ کہنا ہو تو ذرا الفاظ سوچ سمجھ کر استعمال کیجئے گا۔ تاریخ آپ کی سوچ پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنی سوچ کو مستند تاریخ پر منحصر رکھنا چاہئے۔
یہ جملہ ہی غلط ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یقیناً بیعت کی تھی مگر کچھ تاخیر کے ساتھ !!
 

محمدصابر

محفلین
عارف کریم آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔ جتنی محنت آپ ابتدائی اسلامی نظام کو غلط ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں اتنی محنت اگر آپ اپنے دستخط والے دھاگے میں تفصیل بیان کرنے پر لگائیں تو شاید لوگوں کو وہ سسٹم بھی سمجھ میں آ ہی جائے۔
 

arifkarim

معطل
بھائی صاحب !!
اوپر جو تعریف آپ نے بیان کی ہے ، وہ درحقیقت "خلافت" کی تعریف ہے اور خلافت کسی بھی معنوں میں "جمہوریت" کے مترادف یا مماثل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ دونوں میں "عوام" اور "اہل الرائے" کا واضح فرق ہے۔

ہاں یہ عین ممکن ہے کہ صدیوں سے چلی آ رہی ایک اسلامی اصطلاح "خلافت" کا نام بدل کر آپ اپنی مرضی سے "اسلامی جمہوریت" رکھ لیں۔

لیکن بھائی اگر مؤمنین کی ایک جماعت یا کمیٹی خلیفہ چنتی ہے تو وہ تمام مسلمانوں کی نمائندگی کیساتھ ہی چنے گی۔ اب یہ تو نہیں کہ کمیٹی کی اکثریت ایسے شخص کو خلیفہ چُن لے جسکی عوام میں مقبولیت صفر فیصد ہو! اس منظر میں اگر خلافت کو دیکھا جائے تو یہ ایک جمہوری عمل ہی ہے، ہاں البتہ مغربی قسم کی پارٹی باز جمہوریت سے بہت مختلف ہے۔
 

arifkarim

معطل
عارف کریم آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔ جتنی محنت آپ ابتدائی اسلامی نظام کو غلط ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں اتنی محنت اگر آپ اپنے دستخط والے دھاگے میں تفصیل بیان کرنے پر لگائیں تو شاید لوگوں کو وہ سسٹم بھی سمجھ میں آ ہی جائے۔

بھائی اسکو غلط ثابت نہیں کر رہا، بلکہ اسی کو بہترین تصور کرتا ہوں۔ اس نظام میں ووٹنگ عوام کی بجائے خلافت کمیٹی کے نمائندگان کر تے ہیں۔
باقی اس زہرہ پراجیکٹ پر ابھی بات نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہماری ’’عقل و فہم‘‘ سے کافی آگے ہے ;)
 

ظفری

لائبریرین
:cool:

بھائی میرا خیال تھا کہ آپ امریکہ میں رہنے کی وجہ سے کھلے دماغ کے مالک ہیں۔ لیکن یہاں آپنے بھی لکیر کی فقیری سے کام چلایا ہے۔ میرے دستخط میں‌جو جمہوریت سے بیزاری کا اعلان ہے، اس سے مراد موجودہ دور کی کرپٹ قسم کی جمہوریت ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ میں کس طرح الیکشن کیمپینز چلائی جاتی ہیں اور پارٹی لیڈرز کو بڑی بڑی کورپریشنز اپنے مقاصد کیلئے ہائر کرتی ہیں۔ بش کی انتظامیہ سارا وقت چند یہودی بینکرز کی انگلیوں پر ناچتی رہی جبکہ پوری امریکی قوم کے ساتھ فریب کیا گیا۔ :(
اسکے برعکس جب میں ابتدائی اسلامی نظام والی جمہوریت کی بات کرتا ہوں تو وہ بالکل اور چیز ہے۔ اُس وقت خلفاءِ راشدین کو منتخب کرنے کیلئے ہر مسلمان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی، بلکہ ہر بار ایک کمیٹی یا اصحاب کا گروہ متفقہ طور پر کسی کو خلیفہ چنتا تھا۔ یہ جمہوریت ہر قسم کی سیاست سے عاری تھی اور یہی ہماری رول ماڈل بھی ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلےخلیفہ کے چناؤ کےوقت حضرت علیؓ سے زبردستی بیعت لی گئی، حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت پہلے ہی حضرت ابو بکرؓ کیساتھ تھی اور حضرت علیؓ کا بیعت نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
ابتدائی اسلامی نظام سے میری مراد نظام خلافت ہے جو کہ نظام عدل پر قائم ہوتا ہے اور ہر قسم کی پارٹی بازی یا کسی خاص انٹرسٹ سے آزاد ہے۔ یہ ایک فلاحی نظام ہے جسمیں اکثریت و اقلیت دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے میں نے اپنا مؤقف ظاہر کر دیا۔ آپ اس پر اپنا استدلال پیش کر سکتے ہیں کہ یہ اس دور میں کس حد تک اور کیسے ممکن ہے؟

پہلی بات کو میں نظر انداز کردیتا ہوں ‌کہ میرے پاس ذاتیات پر بحث کے لیئے فالتو وقت نہیں‌ ہے ۔
جبکہ دیگر دو باتوں‌ کے لیئے میں اپنا استدلال بیان کردیتا ہوں‌جو کہ میں پہلے بھی کرچکا ہوں ۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ریاست سے کہتے ہیں کہ وہ اسلام نافذ کرے ۔ چناچہ اس طرح عقیدے کا تعلق طاقت سے منسلک ہوجاتا ہے ۔ اور پھر ایک نیا مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ کونسا فقہ سامنے آئے گا ۔ اور اس طرح گروہ بندی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح آج عراق کو دیکھیں ۔ وہاں مسئلہ عقائد کا نہیں ہے ۔ عقائد تو بہت پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ مسئلہ سیاسی طاقت کا ہے ۔ جب آپ اپنی Community کو Mobilized کرتے ہیں تو اسے ایک خاص قسم کی شناخت بھی دیتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے ۔

ہمارے مذہب کا آغاز جس دور میں ہوا وہ ایک قبائلی معاشرہ تھا ۔ اور جب وہ قبائلی معاشرہ آگے بڑھا تو اس کا ٹکراؤ دنیا کی کُھلی تہذیبوں سے ہوا ۔ چناچہ پھر ہر چیز کی شکل ہی بدل گئی ۔ سوچنے کے انداز بھی بدل گئے ۔ جن چار ، پانچ ارکان پر مذہب کی بنیاد تھی جس پر سادہ سی قبائلی سوسائٹی چل رہی تھی ۔ اُس کی بھی وہ شکل نہ رہ سکی ۔ فلسفہ ، علم ، نظریات ، توجیحات ، تشریحات یہ سب بعد کی پیداوار ہے ۔ چناچہ جب آپ کا واسطہ دنیا کی بڑی تہذیبوں سے پڑا تو ہم دوبارہ پیچھے جانے کی طرف لوٹ آئے ۔ اور ان چیزوں کے ساتھ ہماری ریاست اور نظام تو وہی رہے مگر دنیا کی ریاستیں اور نظام ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ وہ سارے فارمولے جو قبائلی معاشرے استعمال کرتے تھے ۔ وہ نہ تو بادشاہوں کے زمانے میں استعمال ہوسکے ۔اور نہ آج کے جدید دور میں استعمال ہوسکے جہاں دنیا کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پروڈکشن ہو رہی ہے ۔ دنیا کے نظام کسی اور ہی طریقے سے چلتے ہیں ۔ اس کے جوابات آپ کو دینے پڑتے ہیں ۔ یہ جوابات آپ مذہب میں نہیں دیں گے ۔ یہ آپ اکنامکس میں دیں گے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دیں گے ۔ جو ہم نہیں دیتے یا یوں کہہ لیں کہ جو ہم نہیں دے سکتے ۔

اگر خیال یہ ہے کہ کسی ریاست کا نظریات اور خیالات کے لحاظ سے ایک Frames Of Reference ہوتا ہے تو پھر یہ درست ہے ۔ مگر جب آپ اس Frames Of Reference سے ایسی چیزیں بناتے ہیں ۔ جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ قائمتہ الذات ہے ۔ یہ بدل نہیں سکتی ۔ اور اس کو آپ اپنے تجربے کی روشنی میں بھی بدل نہیں سکتے اور یہ حکم ہے اور جو اس سے ہٹے گا وہ قابلِ گردنِ زد ٹہرے گا ۔ تو بات یہاں تک آجاتی ہے جو ہم آج سوات میں ایک اسلامی ریاست کی شکل میں دیکھ رہے ہیں‌ جو آپ کے نظریہ کی تائید کرتے ہوئے ایک قبائلی نظام کو آج کی دنیا میں‌ لانا چاہ رہے ہیں ۔ آپ دیکھیں کہ مغرب کے سیکولر سسٹم میں بھی گذشتہ چار صدیوں میں کئی تبدیلیاں آچکیں ہیں ۔ اور اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے United Nations Charter بنادیا اور اس میں دائیں بازو، بائیں بازو ، مسلم ، عسیائی ، یہودی ، ہندو ، بدھ مت سبھی نے دستخط کردیئے ۔ اور دیکھیں کہ یہ Charter ہے کیا ۔ ؟ یہ بھی سیکولر ہے ۔

لہذا مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ریاست کا مذہب سے کیا تعلق ہونا چاہیئے ۔ موجودہ ریاست کا جو نظام ہے وہ صرف مذہب کے حوالے سے دیکھا نہیں جاسکتا ۔ بلکہ اس کی جو پہچان ہے وہ شہریت ہے ۔ اور اس میں سب برابر کا حق رکھتے ہیں ۔ اسی حوالے سے اسپین کو دیکھیں تو وہ ایک Empire تھا، کوئی اسلامی ریاست نہیں تھی ۔ جس میں یہودی ، مسلم اور عیسائی سب اکٹھے رہتے تھے ۔ اسی طرح Ottoman Empire میں بھی یہی کچھ تھا ۔ اور ہمارے ہاں مغل ایمپائر میں یہی کچھ صورتحال تھی ۔ اسی طرح آج پاکستان میں دیکھیں جو کہ مسلم اکثریت کی ریاست ہے ۔ اب آپ ریاست کا مذہب لکھیں یا نہ لکھیں ۔ لیکن جب مسلمان اسمبلیوں میں بیٹھیں گے تو ان کا اپنا ایک Frames Of Reference ہوگا ۔ اسی کے بنیاد پر وہ آئین بناکر اس کو پرکھتے رہیں گے ۔ جوں جوں ان کا تجربہ بڑھتا رہے گا ۔ اسی طرح وہ اپنے خیالات میں بھی تبدیلیاں لاتے رہیں گے ۔ لیکن جب آپ ایک چیز Fixed کردیتے ہیں تو یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ کس کا اسلام ، کونسا فرقہ ، کونسا مسلک ، اور پھر اس کے بعد آپ آپس میں لڑنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے تسلط کے علاقوں میں اپنی اپنی شریعت نافذ کرنا شروع کردیتے ہیں‌۔

آپ کے پاس ایک " اسلامی ریاست " کو تخیلق کرنے کے کیا کیا آپشن موجود ہیں‌۔ آپ یا تو ایک شخص کی حکومت لائیں گے ، یا کسی طبقاتی حکومت کو ترجیح دیں گے یا پھر آپ لوگوں کے منتخب کردہ لوگوں کے ہاتھوں میں‌ " اسلامی ریاست " کی باگ دوڑ دیں گے ۔ میری سمجھ میں‌ یہ بات نہیں آتی کہ آج جہموریت جو دو ، تین سو سال میں اپنے ارتقاء کے مختلف منازل طے کرتی ہوئی ہے آج یہاں‌ تک پہنچی ہے ۔ ہم اس کی موجودہ شکل کو خلافت کے دور میں ‌کیوں ‌ڈھونڈتے ہیں‌۔ اس قبائلی نظام میں خلفاؤں کو جس طرح منتخب کیا گیا تھا وہ ایک 1400 سال قبل ایک قبائلی معاشرے کی جہموریت تھی ۔ جو شعور اس وقت لوگوں‌ میں اتفاقِ رائے کے بارے میں تھا ۔ انہو‌ں نے اس کو استعمال کیا ۔ اس کے بعد وہ خلافت مملوکیت میں کیسے تبدیل ہوئی یہ بھی سب جانتے ہیں‌ ۔ بلکل اسی طرح بقول آپ کے " امریکہ میں کس طرح الیکشن کیمپینز چلائی جاتی ہیں اور پارٹی لیڈرز کو بڑی بڑی کورپریشنز اپنے مقاصد کیلئے ہائر کرتی ہیں۔ بش کی انتظامیہ سارا وقت چند یہودی بینکرز کی انگلیوں پر ناچتی رہی جبکہ پوری امریکی قوم کے ساتھ فریب کیا گیا۔ " تو یہاں بھی اب اس نظام میں مذید ارتقاء کا عمل جاری رہنا ضروری ہے ۔ کہ وقت اور حالات کے ساتھ انسان کی ترجیحات بدلتیں‌ رہتیں‌ ہیں ۔ علامہ اقبال سے پوچھا گیا کہ " جناب آپ جہموریت کو پسند نہیں‌ کرتے تو پھر اس کی حمایت کیوں کرتے ہیں‌ ۔ ؟ " تو انہوں نے جواب دیا " کیا کروں ۔۔۔ ؟ آج کے دور میں اس سے بہتر نظام بھی نہیں‌ ہے ۔ " انسان وقت اور حالات کیساتھ تبدیلیوں‌ کا سامنا کرتے ہوئے بہت سے نظام کا خالق بنا ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ آج انسان کی ضروریات اور حالات کے تحت دنیا کی اکثریت جہموریت کو اچھا نظام قرار دیتی ہے تو آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ کوئی بعید نہیں‌ کہ آنے والے وقت میں انسان کی ضروریات ، حالات اور ترجیحات میں‌تبدیلیوں کے لحاظ سے جہموریت سے اچھا کوئی اور نظام متعارف ہوجائے ۔
 

محسن حجازی

محفلین
اسلام بنیادی طور پر localized مذہب نہیں ہے۔ جب بھی اس کی localization کی کوشش کی جاتی ہے تو سراسر گمراہی جنم لیتی ہے۔ جیسے لباس کو لیجئے۔ کہیں یہ تحریر نہیں کہ کرتا شلوار اسلامی لباس ہے۔ لیکن ہم اسے اسلامی سمجھتے ہیں۔ اسلام میں محض سترپوشی کے تقاضے درج ہیں سکرٹ منی اسکرٹ کی بحث موجود نہیں۔ لیکن جس اسے localization کے process سے گزارا جاتا ہے تو شدید گمراہی جنم لیتی ہے۔ دین میں انہیں بدعات سے تعبیر کیا گیا ہے اور دین میں نئی چیزیں داخل کرنے کی مناہی کی گئی ہے گویا localization پر پابندی۔

اگر اسلام ہی کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ مغربی دنیا جس طرح اور مغربی تمدن جن اصولوں کے ساتھ چل رہا ہے، وہی اصل اسلام ہے اور قریب قریب 70 فیصد اسلام کے دائرے میں ہی آتا ہے جیسے انسانیت، مساوات، آزادی رائے وغیرہ۔

جہاں پر فرق ہے وہ تین بڑے مسائل ہیں:
1۔ عقائد۔ (اللہ، الہامی کتب، رسول، عبادات، نمازیں وغیرہ)
2۔ جنس اور خاندان۔ (پردہ، فحاشی، عریانی وغیرہ کی ممانعت وغیرہ)
3۔ مالیات۔ (زکوہ، سود وغیرہ)

اس کے علاوہ مقامی گروہوں کی جو بھی مذہب کی تعبیرات ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ کافی حد تک localized اور polluted ہیں۔
دین اپنی اصل میں بے حد سادہ ہے۔

لہذا کوئی وجہ نہیں کہ اسلام جدید زمانے میں رائج العمل نہ ہو سکے، اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ محض اس کی ذہنی پسماندگی کی دلیل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ صاحب بتائیے کہ اڑن کھٹولے کی ایجاد کے بعد ہم والدین کا احترام کس طرح کر سکتے ہیں؟
ایجادات اور تمدن پر ان کے اثرات کا اسلام سے کوئی تصادم نہیں، یہ مولوی حضرات ہیں جو پہلے لاؤڈسپیکر کو کلیتا حرام قرار دیتے ہیں اور بعد میں منبر سے مائک ہی نہیں چھوٹتا۔
 

arifkarim

معطل
شکریہ محسن اور ظفری آپ دونوں کا۔
ظفری بھائی موجودہ جمہوریت کےہی ارتقا کے خواہاں ہیں جبکہ محسن بھائی مغربی طرز معاشرت کو ہی اسلام سمجھتے ہیں، ان مقامات کے علاوہ جہاں تصادم ہو سکتا ہے۔
مزید اراکین کی رائے کا انتظار رہے گا :)
 
Top