سوات ڈیل مبارک ہو

زینب

محفلین

راشد احمد

محفلین
یہ معاہدہ ٹوٹ گیا تو زرداری‌صاحب ایک بار پھر متنازعہ بن جائیں گے۔

کیا یہ جواز کافی نہیں کہ زرداری صاحب نے اس معاہدے امریکی ایماء پر دستخط نہیں کئے؟
 

زونی

محفلین
زونی آپ نے بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ طالبان اس معاہدے کے حق میں نہیں ہیں کہ اس طرح ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی تشکیل میں آسانی پیدا ہوجائے گی ۔ جبکہ یہ لوگ جنگل کا قانون یہاں لانا چاہتے ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں کہ سوات میں رہائش پذیر میرے جاننے والے معاہدہ ٹوٹنے کے حوالے سے طالبان کی اس خوشی کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں توشاید یہ ہمیشہ کی طرح مجھے امریکہ کا ایجنٹ قرار دے دیں ۔ مگر اسی فورم کی ایک معتبر رکن جن کا تعلق سوات سے ہی ہے ان کا یہ بیان ان کے منہ پر طمانچہ ہے کہ جو لوگ یہاں جان بوجھ کر حقیقت سےانحراف کررہے ہیں ۔ دراصل یہ رویہ ان کے تعصب ، عناد ، نفرت اور دشمنی کا اظہارہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ معاہدہ ٹوٹا ہے تو کسی کی منت ِ مراد بر آئی ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے ۔








حالانکہ سوچا جائے تو آپ امریکہ میں طالبان کے ایجنٹ ‌ہیں ;) اور امریکہ کی سلامتی کو آپ سے زبردست خطرہ ھے :grin:
 

زونی

محفلین
مجھے تو یہاں احباب کی دو انتہائیں ہی دکھ رہی ہیں طالبان کہ متوالوں کو فقط امریکہ نظر آتا ہے اور امریکہ کہ شیدائیوں کی نظر فقط طالبان تک محدود . . . عوام اور پاکستاب بےچارے کا تو کوئی پرسان حال نہیں ۔ ۔ ۔ ۔





میں کونسی انتہا پہ ہوں ؟ امریکہ کے شیدائیوں والی یا طالبان کے متوالوں والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :grin:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سوات کی ویڈیو نا جانے حقیقی ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات کو امن کی سخت ضرورت ہے اور اس کا ضامن فی الحال سوات کا امن معاہدہ ہے جتنا عرصہ یہ معاہدہ قائم رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا سوات کا امن معاہدہ سب سے زیادہ امریکا کو ہی کھٹک رہا ہے امریکی وزیر دفاع نے مطالبہ کر دیا ہے کہ سوات امن معاہدہ ختم کیا جائے
1100597676-1.jpg

جس خبر کا حوالہ ديا گيا ہے، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کچھ پرجوش صحافی الفاظ کے ردو بدل کے ذريعے ايسی کہانی تخليق کرتے ہيں جو زيادہ سے زيادہ توجہ حاصل کر سکے۔ اس طرح کی صورت حال ميں اصل حملہ حقائق اور سچ پر ہوتا ہے اور ان شہ سرخيوں اور تخليقی کہانيوں سے محض غلط فہمياں جنم ليتی ہيں جس کے نتيجے ميں اصل ايشوز سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔

يہ بالکل درست ہے کہ ڈيفينس سيکرٹری رابرٹ گيٹس نے ايک افغان ٹی وی کو انٹرويو ديا تھا اور يہ بھی درست ہے کہ ان سے سوات امن معاہدے کے حوالے سے سوال کيا گيا تھا۔ ليکن انھوں نے کسی بھی موقع پر يہ نہيں کہا کہ حکومت پاکستان کو سوات امن معاہدہ ختم کر دينا چاہيے۔

ميں نے افغان ٹی وی کو ديے گئے انٹرويو کا مکمل متن حاصل کيا ہے۔ اس کا وہ حصہ پيش ہے جس ميں انھوں نے سوات معاہدے کے حوالے سے سوال کا جواب ديا تھا۔

سوال – سوات ميں حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کے ساتھ کيے جانے والے معاہدے کے ضمن ميں امريکہ کے کيا تحفظات ہيں؟

جواب –پاکستان کے مغرب ميں کيے جانے والے کچھ معاہدوں کے حوالے سے ہمارے تحفظات ہيں ۔ ہمارے نظريے کے مطابق سال 2005 اور 2006 ميں کیے جانے والے کچھ معاہدوں کے سبب کئ دہشت گردوں کو سرحد کے پار افغانستان تک رسائ کا موقع ملا۔ صدر مشرف کے توسط سے کی جانے والی ڈيل کے سبب انھيں پاکستانی فوج کی طرف سے کوئ خطرہ نہيں رہا۔

ميرے خيال ميں پاکستانی حکومت کو احساس ہو رہا ہے کہ مغربی پاکستان ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ افغانستان کی حکومت کے لیے بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ پاکستان کے ليے۔ پاکستان کے مغربی حصے ميں انھی دہشت گردوں سے مقابلے کے دوران ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی فوجی ہلاک ہو چکے ہيں۔ اس نئ پاليسی کے حوالے سے ہمارا ايک مقصد اس بات کا جائزہ لينا ہے کہ پاکستان اور افغانستان جو کہ مشترکہ طور پر ان انتہا پسندوں کا خاتمہ چاہتے ہيں، ان کے درميان تعاون کو کيسے فروغ ديا جائے۔

اس اقتتباس سے يہ واضح ہے کہ اس طرح کی اشتعال انگيز سرخيوں پر اعتماد کرنے ميں احتياط سے کام لينا چاہيے۔

ميں يہ بات واضح کر دوں کہ يہ کوئ خفيہ امر نہيں ہے کہ امريکہ سميت عالمی برداری کے کئ ممالک نے جانے مانے دہشت گردوں کے ساتھ امن معاہدوں پر تحفظات کا اظہار کيا ہے۔ اور حکومت پاکستان تک يہ تحفظات پہنچا ديے گئے ہيں۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں نے بھی کئ بار اس ايشو پر رائے دی ہے۔ ان خدشات اور تحفظات کی بنياد ايک مسلمہ اصول اور طالبان کی تاريخ سے منسلک ہے۔

ليکن اس رائے اور نظريے کے باوجود بحرحال اس ضمن ميں حتمی فيصلہ حکومت پاکستان کو کرنا ہے۔ امريکہ حکومت پاکستان پر اپنی مرضی مسلط نہيں کر سکتا۔ اسی بات کا اظہار وزير خارجہ شاہ محمود قريشی نے بھی اپنی پريس کانفرنس ميں کيا تھا جب انھوں نے يہ کہا تھا کہ کچھ معاملات ميں "ہم اس بات پر متفق ہيں کہ ہم متفق نہيں ہیں"۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ امريکہ سميت عالمی برادری ايسے دہشت گردوں سے معاہدوں کو قابل تحسين قرار ديں گے جنھوں نے بارہا عوامی فورمز پر پاکستان، افغانستان اور ديگر مقامات پر پردہشت گردی کی کاروائيوں کے ليے اپنے ارادے واضح کر ديے ہيں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

arifkarim

معطل
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ امريکہ سميت عالمی برادری ايسے دہشت گردوں سے معاہدوں کو قابل تحسين قرار ديں گے جنھوں نے بارہا عوامی فورمز پر پاکستان، افغانستان اور ديگر مقامات پر پردہشت گردی کی کاروائيوں کے ليے اپنے ارادے واضح کر ديے ہيں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov

ہر گز نہیں۔ امریکی اتحادی تو خود دہشت گرد پیدا کرنے اور انسے لانگ ٹرم خفیہ ڈیلز کرنے میں ماہر ثابت ہوئے ہیں۔ انکے مطابق دہشت گردوں سے معادے کرنا اور انکو جدید اسلحہ فراہم کرنا انکا ذاتی مسئلہ ہے۔ اگر پاکستانی حکومت طالبان سے معاہدے کرے گی تو یہ اتحادیوں کو ہرگز قبول نہ ہوگا کیونکہ پھر انکا اسلحہ کون خریدے گا؟

عارف کریم-ڈیجیٹل ان ریچ ٹیم- محفل ہوم ڈیپارٹمنٹ
http://www.urduweb.org/mehfil/
 

ظفری

لائبریرین
جو طالبان نے کیا اس کے سچ ہونے سے اختلاف نہیں مجھے ، مگر امریکہ دودھ کا نہا یا ہوا ہے۔۔ پوتر دودھ سے

دنیا کا کوئی ایسا کونہ بتا دیجئیے کہ جہاں امریکہ کے قدم پہنچنے کے بعد خون کی ندیاں نہ بہی ہوں؟؟؟۔
۔

گستاخی معاف ۔۔۔۔ امریکہ کے لیئے جب میں آپ لوگوں کواس رویئے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہیں‌ یا پھر آپ جان بوجھ کر اس سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔ اس کے بعد ستم یہ کہ اپنی نااہلی ، کمزوری ، غلطی ،جرائم اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا جواز امریکی سازشوں میں ڈھونڈتے ہیں ۔ جو ایک مسخ ، شکست خوردہ ذہینت کا ردعمل ہوتا ہے ۔ اگر کوئی طاقت ور ہے اور وہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر رہا ہے تو مجھے چاہیئے کہ میں اپنی کمزوری پر نظر ڈالوں اور اسے دور کرنے کی کوشش کروں تاکہ کوئی میرا استحصال نہ کرسکے ۔ آپ لوگ مسلسل امریکہ کی بات کر رہے ہیں جسے طاقت حاصل کیئے ہوئے دن ہی کتنے گذرے ہیں ۔ مگر آپ کی تو ساری تاریخ ہی اسی طرح ہے ۔ ساری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آپ نے اپنے تمام ادوار میں ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کاکام انجام دیا ہے ۔ اپنی تاریخ کا ذکر پر منہ چھپانا نہیں چاہیئے اس سے تاریخ کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ تاریخ کو مسخ کریں گے تو تاریخ بھی آپ کو مسخ کر دے گی ۔ اور جب بھی اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو بغیر کسی تعصب اور جانبداری کے بغیر جائزہ لیں اس سے یہ ہوگا کہ اس میں آپ کا چہرہ صاف اور نمایاں نظر آئے گا اور آپ کو آج اپنا محاسبہ کرنے کی بھی آسانی ہوگی ۔ جس سے شاید آپ کے آج کل مسائل حل ہوسکیں ۔

مسلمانوں اور مغرب کے درمیان صدیوں سے معرکہ آرائی کا محاذ کھلا ہوا ہے ۔ اس تناظر میں تو یہ کہنا چاہیئے کہ جو تم کرسکتے ہو کرلو ، مگر اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ سازشیں کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ہم سے بہتر دماغ رکھتے ہیں تو کرتے ہیں ۔ آپ بھی کرلیں ۔ مگر یہ بھی ایک واویلا ہے ۔ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ لارڈ کلائیو کیساتھ کتنے گورے انڈیا کی سر زمین پر اترے تھے ۔ مشکل سے ڈھائی سو بھی نہیں رہے ہونگے جبکہ اس کے بعد سارے ہم لوگ ہی تھے ۔ شاہ عالم ثانی کاحشر کرنے والے کون تھے ۔ بابر کو فرغانہ اس کے چچاؤں نے نکالا تھا ۔ یہاں آکر اس نے سب سے پہلے ابراہیم لودھی کی گردن اتاری ۔ امیر تیمور نے کس کو مارا تھا، یلدرم کو ۔۔۔ تیمور نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کا صفایا کردیا ۔ پھر بنو امیہ ، بنو عباس ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے حوالے چاہئیں ۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسپین ہاتھ سے نکل گیا ۔ کیا کسی نے مسلمانوں کو اسپین جہیز میں دیا تھا کہ ہاتھ سے نکل گیا ۔ اس وقت آپ طاقتور تھے اور آپ دنیا میں اجاہ داری قائم کر رہے تھے ، جب آپ میں سکت تھی طاقت تھی تو آپ نیا ورلڈ آرڈر متعارف کرارہے تھے ۔ اسی طرح آج امریکہ طاقتور ہے سو وہ بھی یہی کام کر رہے ہیں تو رونا کس بات کا ۔ پہلے اپنا موازنہ کریں ۔ اپنی حالت کا جائزہ لیں ۔ اپنی سکت دیکھیں ، اپنے دم و خم پر ایک نظر ڈالیں ۔ آپ کی تو پوری تاریخ ہی ایک دوسرے کے لہو سے تر ہے ۔ یلدرم نے پورے یورپ کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا تھا ۔ یہاں سے تیمور جاتا ہے ۔ اور اس کو شکست دیکر پنجرے میں قید کرلیتا ہے ۔

برصغیر میں کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے Divide & Rule کی پالیسی اختیا ر کی ۔ انگریز تو تقریباً جہانگیر کے دور میں آئے اس سے پہلے مغل شہزادے اور دیگر مسلم حکمران ایک دوسرے کی گردنیں پہلے ہی سے کاٹ رہے تھے ۔ شیر شاہ سوری ان سے لڑ گیا ۔ ہمایوں نے دوبارہ آکر اس کے بیٹے سے حکومت چھین لی ۔ یہ تو ایک مکمل طاقت کا کھیل ہے جو صدیوں پر محیط ہے ۔ جن مسلم جرنیلوں کی فتوحات کے قصے بڑھ چڑھ کر آپ اپنی نسلوں کو بتاتے ہیں ذرا ان کو یہ بھی بتائیں کہ ان کے ساتھ بعد میں آپ نے کیا کیا تھا ۔ اور کرنے والے کون تھے ۔ محمد بن قاسم کو کھال میں سی کر ، کیا امریکہ نے بھیجا تھا ۔ اب یہ قدم قدم پر سازشیں ڈھونڈنا ، اپنی کمزوری اور نااہلی پر شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے اس کا الزام کسی کے سر پر رکھ دینا ، اپنی مظلومیت کا رونا ، اپنے اندر غداروں کا بہانہ بنانا کر خود کو خود ساختہ بے بسی کا نمونہ بنانا کیا معنی رکھتا ہے ۔ کبھی سوچا کہ آپ کے اندر ہی غدار کیوں پیدا ہوتے ہیں ۔ گوروں میں یہ وبا کیوں نہیں پائی جاتی ۔ اس کی ایک وجہ ہے ، اور وجہ یہ ہے یہ غدار ایک خاص قسم کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں ۔ جہاں ریاست اور عوام کے مفادات یکساں ہوجائیں وہاں غدار پیدا نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہاں تو فرد سے ریاست کا باہمی تعلق تو دور کی بات ، فرد یہاں فرد کا دشمن ہے ۔ جہانگیر نے جب سر تھامس کو سونے میں تولنے کو کہا تو اس نے کہا " مجھے سونا نہیں چاہیئے ۔ بلکہ میرے ملک کی کمپنی کو اپنے ملک سے تجارت کی اجازت دیدیں ۔ " آپ کے پاس تو یہ رحجان آج 2009 میں بھی نہیں ہے ۔ آپ کے حکمران سوئس بینکوں میں اپنے کیس نمٹاتے نظر آتے ہیں ۔ سربراہانِ مملکت King Of Cureption کہلاتے ہیں ۔ سر تھامس جیسی کامنٹمنٹ آپ کے پاس آج کی تاریخ میں بھی نہیں ہے ۔

آج مسلمان ایک ارب چالیس کروڑ کی تعداد میں 57 ، 56 ملکوں میں پھیلے پڑے ہیں ۔ دنیا کی ترقی میں آج ہمارا کیا کردار ہے ۔آپ دنیا کو ایک بال پوائنٹ نہیں دے سکے ،گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے والا وائپر نہیں دے سکے۔ انہی کے بنائے ہوئے ہتیھاروں سے جہاد کرتے ہیں ۔ اور انہی کو لعنت ملامت بھی کرتے ہیں ۔ کتنی صدیاں گذر چکیں ہیں ۔ آپ ایک ذہین دماغ بھی پیدا نہیں کرسکے ۔ ایک ذہین آدمی بھی نہیں دے سکے ۔ یہ ملک سب کا ہے ۔ قائدِ اعظم کا بیان دیکھیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں ۔ اسی تناظر میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ صدیوں بعد ایک ذہین آدمی یہاں پیدا ہوا تھا اور ا سکو قادیانی کہہ کر ملک سے باہر نکال دیا ۔
پھر ایک نیا شوشہ چھیڑ دیتے ہیں کہ مغرب اور ہمارے درمیان CLASH OF CIVILIZATIONS موجود ہے ۔ کس CIVILIZATIONS کی بات کی جاتی ہے ۔ CIVILIZATIONS تو ان کے پاس ہے ۔ آپ کے پاس کونسی CIVILIZATIONS ہے ۔ زندگی بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کرتے ہیں ، جھوٹ بول کر ناقص مال کو اچھا بتاتے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرتے ۔ کسان اور ہاریوں کو جانوروں کی طرح پنچرے میں بند کرکے رکھتے ہیں ۔ عورتوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں یا پھر اس کو سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر محظوظ ہوتے ہیں ۔ اپنی ہی اولادوں کو زہریلا دودھ فراہم کرنے والے کس منہ سے خود کو CIVILIZATIONS کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ کس قسم کی آپ کے پاس CIVILIZATIONS ہے ۔ دراصل آپ نے خود کو دھوکہ دینے ے لیئے یہ اصطلاح قائم کر رکھی ہے کہ ایک عام سطح کا دانشور اٹھ کر یہ کہتا ہے کہ CLASH OF CIVILIZATIONS ہے اور آپ اس کو سر پر بٹھا لیتے ہیں ۔ یہ CLASH OF CIVILIZATIONS نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔ CLASH OF FAITH ہے ۔ جسے آپ اپنے جرائم چھپانے لے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔

یہاں سب ہی بالعموم پڑھے لکھے لوگ آتے ہیں ۔ اس لیئے امید ہے کہ یہ کوٹ سب نے سنا ہوگا کہ " جب تم کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہو تو تین انگلیاں خود تمہاری طرف اٹھی ہوئی ہوتیں ہیں ۔ "
لہذا یہ گریہ آزوری بند کی جائے اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرکے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ کسی سپر طاقت کو نیست و نابود کے بجائے کم از کم اپنی ہی قوم کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کا سوچا جائے ۔

( ساجد بھائی اور مغل بھائی ۔۔ میں خاص کر آپ کے اقتباس کو یہاں‌کوٹ کیا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں آپ لوگ علمی بحث کے قائل ہیں ۔ باقیوں کی اقتباس کو نظرانداز کیا ہے کہ انکی اپنی کوئی بھی بات " اپنی " نہیں ہوتی )
 

تیشہ

محفلین
چاہیئے کہ جو تم کرسکتے ہو کرلو ، مگر اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ سازشیں کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ہم سے بہتر دماغ رکھتے ہیں تو کرتے ہیں ۔ آپ بھی کرلیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

zzzbbbbnnnn-1.gif


کرتے تو ہیں پر پکڑے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔

zzzbbbbnnnn-1.gif
 

arifkarim

معطل
کتنی صدیاں گذر چکیں ہیں ۔ آپ ایک ذہین دماغ بھی پیدا نہیں کرسکے ۔ ایک ذہین آدمی بھی نہیں دے سکے ۔ یہ ملک سب کا ہے ۔ قائدِ اعظم کا بیان دیکھیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں ۔ اسی تناظر میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ صدیوں بعد ایک ذہین آدمی یہاں پیدا ہوا تھا اور ا سکو قادیانی کہہ کر ملک سے باہر نکال دیا ۔

بہت خوب، عین موقع پر ذکر کیا ہے آپنے ڈاکٹر عبدالسلام کا۔ موصوف پاکستانی نوجوانوں کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ کی دیرینہ خواہش تھی کہ باقی پاکستانی بھی ان کی طرح نوبیل انعام حاصل کریں، مگر افسوس ہمارے علما نے نوبیل انعام کو سودی جبکہ عبدالسلام کو غدار پاکستان کے لقب سے نوازا۔ انکے کتبہ پر سے مسلمان کا لفظ مٹا دیا گیا۔اردو سائنس کی کتب میں انکا نام تک لکھنا گوارہ نہ کیا گیا!
نتیجہ: آج وہی پاکستانی نوجوان سائنس کی بجائے جاہل علما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بم پھاڑنے والےمقامات پہ نوکریاں کرتے پھرتے ہیں جو زیادہ دن تک چلتی نہیں ہیں:)
 

arifkarim

معطل
لہذا یہ گریہ آزوری بند کی جائے اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرکے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ کسی سپر طاقت کو نیست و نابود کے بجائے کم از کم اپنی ہی قوم کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کا سوچا جائے ۔

بھائی اس بارے میں میں‌کئی مہینے سے یہاں چیخ و پکار کرچکا ہوں مختلف دھاگوں میں۔ لیکن ہماری عوام کے بالوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔
جب سائنس و ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر ایک نظام پیش کیا کہ اس پر سوچ و بچار کر کے عوام کے ہر فرد کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان) فراہم کیا جائے تو جواب آیا کہ ہم ایسے نظام پر ہرگز نہ چلیں گے جو پہلے ہی غیر آزمودہ ہو یا شروع سے ہی غیر اسلامی ہو! :grin:
پھر جب میں نے دوسری آپشن یعنی ابتدائی اسلامی نظام کو واپس 21 ویں صدی میں رائج کرنے سے متعلق ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دی تو "منتظمین" سمیت اکثر اراکین میرے پیچھے پڑ گئے کہ میں نے اسلام کی تعلیم کن لوگوں سے حاصل کی ہے؟! :laughing:
یعنی یہاں ہر کسی کو بس لکیر کی فقیری کا شوق ہے۔کسی نئی سوچ و فکر کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ جو ’’اوپر‘‘ سے آرڈر آئے گا ، ہم کہیں گے: YES SIR!
اور جو کوئی نئی سوچ لائے گا، ہم کہیں گے : NO SIR, U ARE QADIANI!
 

ساجد

محفلین
گستاخی معاف ۔۔۔۔ امریکہ کے لیئے جب میں آپ لوگوں کواس رویئے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہیں‌ یا پھر آپ جان بوجھ کر اس سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔ اس کے بعد ستم یہ کہ اپنی نااہلی ، کمزوری ، غلطی ،جرائم اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا جواز امریکی سازشوں میں ڈھونڈتے ہیں ۔ جو ایک مسخ ، شکست خوردہ ذہینت کا ردعمل ہوتا ہے ۔ اگر کوئی طاقت ور ہے اور وہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کر رہا ہے تو مجھے چاہیئے کہ میں اپنی کمزوری پر نظر ڈالوں اور اسے دور کرنے کی کوشش کروں تاکہ کوئی میرا استحصال نہ کرسکے ۔ آپ لوگ مسلسل امریکہ کی بات کر رہے ہیں جسے طاقت حاصل کیئے ہوئے دن ہی کتنے گذرے ہیں ۔ مگر آپ کی تو ساری تاریخ ہی اسی طرح ہے ۔ ساری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آپ نے اپنے تمام ادوار میں ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کاکام انجام دیا ہے ۔ اپنی تاریخ کا ذکر پر منہ چھپانا نہیں چاہیئے اس سے تاریخ کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ تاریخ کو مسخ کریں گے تو تاریخ بھی آپ کو مسخ کر دے گی ۔ اور جب بھی اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو بغیر کسی تعصب اور جانبداری کے بغیر جائزہ لیں اس سے یہ ہوگا کہ اس میں آپ کا چہرہ صاف اور نمایاں نظر آئے گا اور آپ کو آج اپنا محاسبہ کرنے کی بھی آسانی ہوگی ۔ جس سے شاید آپ کے آج کل مسائل حل ہوسکیں ۔

مسلمانوں اور مغرب کے درمیان صدیوں سے معرکہ آرائی کا محاذ کھلا ہوا ہے ۔ اس تناظر میں تو یہ کہنا چاہیئے کہ جو تم کرسکتے ہو کرلو ، مگر اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ سازشیں کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ہم سے بہتر دماغ رکھتے ہیں تو کرتے ہیں ۔ آپ بھی کرلیں ۔ مگر یہ بھی ایک واویلا ہے ۔ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ لارڈ کلائیو کیساتھ کتنے گورے انڈیا کی سر زمین پر اترے تھے ۔ مشکل سے ڈھائی سو بھی نہیں رہے ہونگے جبکہ اس کے بعد سارے ہم لوگ ہی تھے ۔ شاہ عالم ثانی کاحشر کرنے والے کون تھے ۔ بابر کو فرغانہ اس کے چچاؤں نے نکالا تھا ۔ یہاں آکر اس نے سب سے پہلے ابراہیم لودھی کی گردن اتاری ۔ امیر تیمور نے کس کو مارا تھا، یلدرم کو ۔۔۔ تیمور نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کا صفایا کردیا ۔ پھر بنو امیہ ، بنو عباس ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے حوالے چاہئیں ۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسپین ہاتھ سے نکل گیا ۔ کیا کسی نے مسلمانوں کو اسپین جہیز میں دیا تھا کہ ہاتھ سے نکل گیا ۔ اس وقت آپ طاقتور تھے اور آپ دنیا میں اجاہ داری قائم کر رہے تھے ، جب آپ میں سکت تھی طاقت تھی تو آپ نیا ورلڈ آرڈر متعارف کرارہے تھے ۔ اسی طرح آج امریکہ طاقتور ہے سو وہ بھی یہی کام کر رہے ہیں تو رونا کس بات کا ۔ پہلے اپنا موازنہ کریں ۔ اپنی حالت کا جائزہ لیں ۔ اپنی سکت دیکھیں ، اپنے دم و خم پر ایک نظر ڈالیں ۔ آپ کی تو پوری تاریخ ہی ایک دوسرے کے لہو سے تر ہے ۔ یلدرم نے پورے یورپ کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا تھا ۔ یہاں سے تیمور جاتا ہے ۔ اور اس کو شکست دیکر پنجرے میں قید کرلیتا ہے ۔

برصغیر میں کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے divide & rule کی پالیسی اختیا ر کی ۔ انگریز تو تقریباً جہانگیر کے دور میں آئے اس سے پہلے مغل شہزادے اور دیگر مسلم حکمران ایک دوسرے کی گردنیں پہلے ہی سے کاٹ رہے تھے ۔ شیر شاہ سوری ان سے لڑ گیا ۔ ہمایوں نے دوبارہ آکر اس کے بیٹے سے حکومت چھین لی ۔ یہ تو ایک مکمل طاقت کا کھیل ہے جو صدیوں پر محیط ہے ۔ جن مسلم جرنیلوں کی فتوحات کے قصے بڑھ چڑھ کر آپ اپنی نسلوں کو بتاتے ہیں ذرا ان کو یہ بھی بتائیں کہ ان کے ساتھ بعد میں آپ نے کیا کیا تھا ۔ اور کرنے والے کون تھے ۔ محمد بن قاسم کو کھال میں سی کر ، کیا امریکہ نے بھیجا تھا ۔ اب یہ قدم قدم پر سازشیں ڈھونڈنا ، اپنی کمزوری اور نااہلی پر شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے اس کا الزام کسی کے سر پر رکھ دینا ، اپنی مظلومیت کا رونا ، اپنے اندر غداروں کا بہانہ بنانا کر خود کو خود ساختہ بے بسی کا نمونہ بنانا کیا معنی رکھتا ہے ۔ کبھی سوچا کہ آپ کے اندر ہی غدار کیوں پیدا ہوتے ہیں ۔ گوروں میں یہ وبا کیوں نہیں پائی جاتی ۔ اس کی ایک وجہ ہے ، اور وجہ یہ ہے یہ غدار ایک خاص قسم کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں ۔ جہاں ریاست اور عوام کے مفادات یکساں ہوجائیں وہاں غدار پیدا نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہاں تو فرد سے ریاست کا باہمی تعلق تو دور کی بات ، فرد یہاں فرد کا دشمن ہے ۔ جہانگیر نے جب سر تھامس کو سونے میں تولنے کو کہا تو اس نے کہا " مجھے سونا نہیں چاہیئے ۔ بلکہ میرے ملک کی کمپنی کو اپنے ملک سے تجارت کی اجازت دیدیں ۔ " آپ کے پاس تو یہ رحجان آج 2009 میں بھی نہیں ہے ۔ آپ کے حکمران سوئس بینکوں میں اپنے کیس نمٹاتے نظر آتے ہیں ۔ سربراہانِ مملکت king of cureption کہلاتے ہیں ۔ سر تھامس جیسی کامنٹمنٹ آپ کے پاس آج کی تاریخ میں بھی نہیں ہے ۔

آج مسلمان ایک ارب چالیس کروڑ کی تعداد میں 57 ، 56 ملکوں میں پھیلے پڑے ہیں ۔ دنیا کی ترقی میں آج ہمارا کیا کردار ہے ۔آپ دنیا کو ایک بال پوائنٹ نہیں دے سکے ،گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے والا وائپر نہیں دے سکے۔ انہی کے بنائے ہوئے ہتیھاروں سے جہاد کرتے ہیں ۔ اور انہی کو لعنت ملامت بھی کرتے ہیں ۔ کتنی صدیاں گذر چکیں ہیں ۔ آپ ایک ذہین دماغ بھی پیدا نہیں کرسکے ۔ ایک ذہین آدمی بھی نہیں دے سکے ۔ یہ ملک سب کا ہے ۔ قائدِ اعظم کا بیان دیکھیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں ۔ اسی تناظر میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ صدیوں بعد ایک ذہین آدمی یہاں پیدا ہوا تھا اور ا سکو قادیانی کہہ کر ملک سے باہر نکال دیا ۔
پھر ایک نیا شوشہ چھیڑ دیتے ہیں کہ مغرب اور ہمارے درمیان clash of civilizations موجود ہے ۔ کس civilizations کی بات کی جاتی ہے ۔ civilizations تو ان کے پاس ہے ۔ آپ کے پاس کونسی civilizations ہے ۔ زندگی بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کرتے ہیں ، جھوٹ بول کر ناقص مال کو اچھا بتاتے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرتے ۔ کسان اور ہاریوں کو جانوروں کی طرح پنچرے میں بند کرکے رکھتے ہیں ۔ عورتوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں یا پھر اس کو سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر محظوظ ہوتے ہیں ۔ اپنی ہی اولادوں کو زہریلا دودھ فراہم کرنے والے کس منہ سے خود کو civilizations کا حصہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ کس قسم کی آپ کے پاس civilizations ہے ۔ دراصل آپ نے خود کو دھوکہ دینے ے لیئے یہ اصطلاح قائم کر رکھی ہے کہ ایک عام سطح کا دانشور اٹھ کر یہ کہتا ہے کہ clash of civilizations ہے اور آپ اس کو سر پر بٹھا لیتے ہیں ۔ یہ clash of civilizations نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔ clash of faith ہے ۔ جسے آپ اپنے جرائم چھپانے لے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔

یہاں سب ہی بالعموم پڑھے لکھے لوگ آتے ہیں ۔ اس لیئے امید ہے کہ یہ کوٹ سب نے سنا ہوگا کہ " جب تم کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہو تو تین انگلیاں خود تمہاری طرف اٹھی ہوئی ہوتیں ہیں ۔ "
لہذا یہ گریہ آزوری بند کی جائے اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرکے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ کسی سپر طاقت کو نیست و نابود کے بجائے کم از کم اپنی ہی قوم کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کا سوچا جائے ۔

( ساجد بھائی اور مغل بھائی ۔۔ میں خاص کر آپ کے اقتباس کو یہاں‌کوٹ کیا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں آپ لوگ علمی بحث کے قائل ہیں ۔ باقیوں کی اقتباس کو نظرانداز کیا ہے کہ انکی اپنی کوئی بھی بات " اپنی " نہیں ہوتی )
ظفری بھائی ، آپ نے بہت درست لکھا۔ میں بھی اپنے مراسلات میں اکثر و بیشتر کہتا ہوں کہ اگر ہم نے مسائل سے چھٹکارا پانا ہے تو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ آپ نے برصغیر کے مسلم ادوار حکومت کا ذکر کیا میں تو یہ کہتا ہوں کہ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو شرمندگی ہی شرمندگی ملے گی۔
جس دورمیں مسلم سائنسدان ایجادات کے بانی شمار ہوتے تھے اس وقت بھی مسلم دنیا میں ایک طبقہ ان کی بھرپور مخالفت پہ کمر بستہ رہتا تھا اور سائنسی ترقی کو کفر و الحاد کا پیش خیمہ قرار دیتا رہا۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ مغرب اس سے بھی زیادہ بڑی جہالت کا شکار رہا تاوقتیکہ انہوں نے مسلمانوں کے سائنسی کارناموں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور عیسائیت کے نام پر ڈرامہ کرنے والے مذہبی جنونیوں کو کھڈے لائن نہیں لگا دیا۔
میں تاریخ یورپ پر کچھ خاص دسترس نہیں رکھتا لیکن کبھی کبھار اپنے اساتذہ سے سنتا رہا ہوں کہ جب مسلم دنیا سائنسی ، معاشی و معاشرتی دوڑ میں مغرب سے سبقت رکھتی تھی تو مغرب میں بھی ایسی ہی افراتفری ہوتی تھی جیسی کہ آج ہم مسلم دنیا میں دیکھتے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کو کوسنا ہماری اپنی ناکامیوں اور جھنجھلاہٹوں کا عکاس ہے۔ لیکن مسلم دنیا ہی نہیں آج ایک عالم امریکی پالیسیوں سے نالاں ہے۔ اور جو مسلم حکمران ان پالیسیوں کے نفاذ کے لئیے اپنی عوام کو بکرا بناتے ہیں وہ بھی عوام میں اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب تک کوئی قوم سائنس و ٹکنالوجی پہ دسترس نہیں رکھتی اس وقت تک وہ عزت و وقار کے زینے پہ پاؤں نہیں رکھتی۔ مذہب کا اس میں ایک حد تک کردار تو موجود ہے لیکن مذہب ہی اس کی وضاحت یہ کہہ کر کرتا ہے "لیس للانسان الا ما سعٰی"۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ خطاب تمام انسانوں سے ہے صرف مسلمانوں سے نہیں۔ گویا کہ مذہب نے ہمیں خود ہی بتا دیا کہ پدرم کسان بود کے ہوائی قلعوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ترقی ایک مسلسل کوشش اور عمل کا نام ہے۔ درحقیقت یہی وہ بات ہے جو مسلمانوں نے بہت کم سمجھنے کی کوشش کی۔
اہل مغرب اور امریکہ کی ترقی کا راز اسی قول پر عمل سے ہی جاری و ساری ہے اور ہم مسلمان قرآن کو رٹا لگا لگا کر بھی اس کے آفاقی پیغام کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جنت تو جب ملے گی تب ہی سہی لیکن ہم نے اپنی دنیا کو جہالت کی وجہ سے دوزخ ضرور بنا لیا ہے۔ سائنس کو شجر ممنوعہ اورترقی کو کافروں کا راستہ قرار دے کر ہم نے خود ہی تو اپنے مذہب کے سب سے پہلے حکم "اقراء" سے پہلو تہی اختیار کی ہے اور چل نکلے ہیں مذہب کو عوام پہ نافذ کرنے۔
میں پہلے کی طرح سے آج بھی پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ تلوار کا جہاد چھوڑ کر اپنی قوم کو تعلیم کے جہاد کی طرف لے چلو تو عزت و آبرو سے رہو گے ورنہ اس سے بھی زیادہ بری حالت ہونے والی ہے۔ ستم کی بات ہے کہ اغیار سے اسلحہ مانگتے ہیں اور انہی کو دھمکی لگاتے ہیں۔
آخر میں یہ کہوں گا کہ امریکہ آج کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اس پہ اتنی ہی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امریکہ نے اپنی اس حیثیت کا انتہائی غلط استعمال کیا ہے۔ امریکہ کمزور ممالک پہ چڑھائی کرنے اور اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی عوامی رائے عامہ کو مسترد کر کے جو روایات قائم کر چکا ہے وہ قابل فخر ہرگز نہیں۔ ایک طاقتور ملک ہونے کے ناطے امریکہ بہت سارے معاملات بات چیت کے ذریعے حل کر سکتا ہے لیکن قتل و خون ریزی کا جو راستہ امریکہ نے اختیار کیا ہے وہ دنیا کے امن کو تباہ کر چکا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہمیں ایک قوم ہونے کے ناطے خود کو بہت زیادہ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے لیکن اتنا ہی درست یہ بھی ہے کہ امریکی حکومت کو دوسرے ممالک کی آزادیاں سلب کرنے اور بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے سے روکنے کے لئیے احتجاج کے طور پہ بھلے چند حروف لکھ کر ہی سہی ہمیں ایک انسانی فریضہ ادا کرنا چاہئیے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
بھائی اس بارے میں میں‌کئی مہینے سے یہاں چیخ و پکار کرچکا ہوں مختلف دھاگوں میں۔ لیکن ہماری عوام کے بالوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔
جب سائنس و ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر ایک نظام پیش کیا کہ اس پر سوچ و بچار کر کے عوام کے ہر فرد کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان) فراہم کیا جائے تو جواب آیا کہ ہم ایسے نظام پر ہرگز نہ چلیں گے جو پہلے ہی غیر آزمودہ ہو یا شروع سے ہی غیر اسلامی ہو! :grin:
پھر جب میں نے دوسری آپشن یعنی ابتدائی اسلامی نظام کو واپس 21 ویں صدی میں رائج کرنے سے متعلق ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دی تو "منتظمین" سمیت اکثر اراکین میرے پیچھے پڑ گئے کہ میں نے اسلام کی تعلیم کن لوگوں سے حاصل کی ہے؟! :laughing:
یعنی یہاں ہر کسی کو بس لکیر کی فقیری کا شوق ہے۔کسی نئی سوچ و فکر کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ جو ’’اوپر‘‘ سے آرڈر آئے گا ، ہم کہیں گے: Yes sir!
اور جو کوئی نئی سوچ لائے گا، ہم کہیں گے : No sir, u are qadiani!


تم اپنا یہ بے کار رونا ہر جگہ نا شروع کر دیا کرو۔ تمہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے اور انبیاء اور صحابہ کے متعلق زبان درازی کرتے ہو اور چلے ہو اسلام کو اکیسویں صدی میں نافذ کرنے۔
تمہارا وہ پرانا تھریڈ ابھی بھی موجود ہے، جو انقلاب لانا چاہتے ہو وہاں جا کر ہی لاؤ۔ یہاں موضوع پر ہی بات رہنے دو۔
 

محمدصابر

محفلین
بھائی اس بارے میں میں‌کئی مہینے سے یہاں چیخ و پکار کرچکا ہوں مختلف دھاگوں میں۔ لیکن ہماری عوام کے بالوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔
جب سائنس و ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر ایک نظام پیش کیا کہ اس پر سوچ و بچار کر کے عوام کے ہر فرد کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان) فراہم کیا جائے تو جواب آیا کہ ہم ایسے نظام پر ہرگز نہ چلیں گے جو پہلے ہی غیر آزمودہ ہو یا شروع سے ہی غیر اسلامی ہو! :grin:
پھر جب میں نے دوسری آپشن یعنی ابتدائی اسلامی نظام کو واپس 21 ویں صدی میں رائج کرنے سے متعلق ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دی تو "منتظمین" سمیت اکثر اراکین میرے پیچھے پڑ گئے کہ میں نے اسلام کی تعلیم کن لوگوں سے حاصل کی ہے؟! :laughing:
یعنی یہاں ہر کسی کو بس لکیر کی فقیری کا شوق ہے۔کسی نئی سوچ و فکر کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ جو ’’اوپر‘‘ سے آرڈر آئے گا ، ہم کہیں گے: Yes sir!
اور جو کوئی نئی سوچ لائے گا، ہم کہیں گے : No sir, u are qadiani!
پہلے سے معذرت۔ لیکن مجھے ہمیشہ لگتا ہے کہ آپ کے سوال ٹھیک ہیں لیکن انہیں پیش کرنے کا طریقہ انتہائی غلط ہے یا نیت خراب ہے۔
بہرحال ہر بندے کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے۔ اپنی بات/رائے دوسروں پر ٹھونسنے کی بجائے خاموش رہنا زیادہ بہتر ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ڈان اخبار کے عرفان حسین کا فاٹا کی پرابلم پر بہترین مضمون

BunerTalibanRE_608x325.jpg

IMAGINE that a neighbouring country had killed a leading Pakistani politician, blown up a popular hotel in the middle of Islamabad and killed thousands of security personnel and innocent civilians in a series of bombing raids.

Imagine too that the enemy’s stated goal is nothing short of the capture of state power. Surely these acts would have constituted a declaration of war.

In this scenario, all political parties would have united to face this aggression. The media would have been full of patriotic songs and messages to urge the nation to support the government and the military in defending Pakistan. And above all, the armed forces would not have hesitated in playing their role.

Anybody suggesting a dialogue with the invader, or justifying the attack, would be denounced as a traitor and a defeatist.

So my question is why isn’t all this happening now? True, the aggressors are mostly home-grown terrorists, but the damage they have been inflicting is just as lethal as any bombs dropped from the skies. Their acts must, under any definition, count as an open declaration of civil war. And yet, wide sections of public opinion and the media are sitting on the fence. Many leading politicians have yet to publicly denounce the Taliban as enemies of the state. And the army has yet to demonstrate that it is serious about fighting this war.

Talking about the situation in Lahore last week, Aitzaz Ahsan came up with a unique solution. He cited an incident from Mughal history where the emperor had his elephant tethered to the ground to send out a signal to his forces that he would not retreat. His wavering army rallied to protect him and won the day.

According to Aitzaz, this is what the president should do: instead of staying in his bunker in Islamabad, he should set up his office in Fata, as these are federally administered territories, and he is the symbol of the federation. Simultaneously, the chief minister of the NWFP should shift his office to Swat.

According to Aitzaz, the army would then be forced to protect them and move forces to the battle zone.

Aitzaz is an old friend, and I respect his intellect and his integrity. However, I pointed out a fatal flaw in his proposal: it presupposes that the army would want to take the fight to the Taliban and protect political leaders. Thus far, our armed forces have not shown that they take the extremist threat seriously. According to a recent article in Der Spiegel, the respected German daily:

‘The (Pakistan) military avoids serious confrontation with the extremists. Many officers still do not see the Taliban as their enemy. Pakistan’s true enemy, in their view, is India… Quite a few officers say that the fight against terrorism in the north-western part of the country is being forced upon them by the Americans and that they are fighting the wrong war…. A Pakistani two-star general candidly explained the mindset of his fellow military commanders … noting that although the army is fighting the Taliban at the instructions of politicians, it also supports the militants….’

Given this ambiguity and duplicity, the success of Baitullah Mehsud and his fellow terrorists should come as no surprise. In fact, this military mindset mirrors what we see in the media, and reflects the confusion that has characterised and dogged our efforts to combat the extremist threat. In this, Aitzaz Ahsan is right: our security forces have a bunker mentality that has them cowering in their barracks while the jihadis mount a series of attacks. If we are to save Pakistan, the army will have to take the fight to the Taliban, and not simply wait for the next attack.

The Role of Nawaz Sharif

So far, with the exception of the PPP and the MQM, most political parties have avoided taking a clear position. While they may occasionally condemn individual atrocities, they fall short of openly identifying the enemy. One senior journalist in Islamabad told me that when reporters seek an interview with Nawaz Sharif, they must first agree not to ask any direct questions about the Taliban. If this is true, it shows that the PML-N leader does not want to either condemn or support the jihadis openly. Being a canny politician, he does not wish to alienate his core support among reactionary elements. Nor does he want to upset Washington. But wars are not won through such tactical hedging.

While this jockeying for advantage goes on among politicians, millions of Pakistanis are paying the price for this procrastination. Thousands have died in terrorist attacks because the state has failed in its duty to protect its citizens. If somebody wants to know the cost of defeat, he has only to view the video of the 17-year old girl being flogged in Swat. Many have questioned the timing of the video’s release, claiming that it is an attempt to sabotage the ‘peace deal’ between the NWFP government and the Taliban. If it is, I would be happy to see this disgraceful instrument of surrender torn up.

One positive outcome of this atrocity coming to public knowledge is that it has opened many eyes to the reality of the Taliban, and what they represent. The flogging has ignited protests across the country. I participated in one in Lahore last week. I was glad to see that apart from many old friends, a large number of young people and students also took part in the march. One popular slogan was: ‘Pakistan kay do shaitan: fauj aur uskay Taliban’ (‘Pakistan’s two demons: the army and its Taliban’). My favourite banner at the rally asked: ‘$12 billion in aid to fight terrorism. Where is it?’ Where indeed?

During Richard Holbrooke’s recent visit to Pakistan, our government responded to the new Obama plan to fight the Taliban with an ill-concealed resentment.

Clearly, the establishment is not enjoying having its reluctance to fight held up under a spotlight. As in the past, it wants the promised flow of dollars to remain unimpeded by any serious questions about its will to carry the fight to the Taliban. Our television warriors echo this sentiment, and demand that the country should not follow ‘American dictates’.

But as we are about to discover, there really is no such thing as a free lunch.

irfan.husain@gmail.com
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش بہن اردو میں ترجمہ کردیں یا بتادیں کہ مضمون میں کیا لکھا ہے۔

انگلش بہت کمزور ہے

جی بھائی، کوشش کرتی ہوں۔

1۔ لکھا ہے کہ اگر پاک فوج کے جوانوں کی لاشیں یوں پڑی ہوتیں [تصویر] اور انہیں مارنے والا طالبان کی جگہ کوئی غیر ملک ہوتا، تو:
۔ اس وقت میڈیا میں اُس ملک کے خلاف قیامت مچی ہوتی۔
۔ اور اس وقت ملک کے سیاسی جماعتوں میں قیامت مچی ہوتی۔ اور ہر جماعت کا لیڈر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس ملک کے خلاف بیانات دے رہا ہوتا۔


مگر یہ کیا کہ یہ سب کچھ، بلکہ اس سے سیکڑوں گنا زیادہ قتل کر کے بھی ہمارے ملک، ہمارے میڈیا میں طالبان کے ہمدرد موجود ہیں، جو انہیں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو طالبان کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔

اور یہ کیا کہ ملک کی دو ایک سیاسی جماعتوں کے علاوہ کوئی اس پر طالبان کے خلاف کھل کر لب کھولنے کی جرات نہیں کرتا؟

اور یہ کہ فوج کو بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف آپریشن میں سنجیدہ ہے اور عوام کو ان کے ظلم سے نجات دلانا چاہتی ہے۔ اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ فوج کے اپنے اندر طالبان کے بہت سے ہمدرد بیٹھے ہوئے ہیں۔


اور نواز شریف کے رول کے متعلق بتایا گیا ہے کہ سینیئر رپورٹر کہتے ہیں کہ نواز شریف انٹرویو سے پہلے ہی یہ شرط رکھ دیتا ہے کہ طالبان کے متعلق کوئی براہ راست سوال نہیں پوچھنا ہے۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف ایک طرف ان انتہا پسند طبقات میں اپنی حمایت نہیں کھونا چاہتا اور دوسری طرف طالبان کی کھلی حمایت کر کے امریکہ سے بھی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
مگر پھر نواز شریف کو انتباہ کیا گیا ہے کہ جنگ ایسے رویوں سے نہیں جیتی جاتی ہے اور کبھی نہ کبھی یہ جنگ کھل کر اور مزید بھڑک کر نواز شریف کے سامنے بھی کھڑی ہو گی۔


اور پھر کہا گیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی اس سیاست جوڑ توڑ کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہزاروں معصوموں کی موت کی صورت میں جھیلنا پڑ رہا ہے۔ ہر کسی کو ملک سے زیادہ اپنی سیاست کی پڑی ہے اور صرف اسی وجہ سے طالبان فتح پر فتح حاصل کر رہے ہیں۔
مگر دوسری طرف عوام میں بھی آہستہ آہستہ ان طالبانی مظالم کے خلاف شعور پیدا ہو رہا ہے اور لوگ سڑکوں پر نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔

ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْ
 

مہوش علی

لائبریرین
انقلاب کی نشانیاں؟:)

ویسے اوپر والے آرٹیکل میں جو لکھا گیا ہے کہ اب عوام نے رائیٹ ونگ میڈیا کے اثر سے نکل کے طالبانی مظالم کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے، یہ بات بالکل سچ نظر آتی ہے۔

اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ میں اب سسٹر زونی، سسٹر ملائکہ، سسٹر بوچھی کو بھی سیاست کے اس سیکشن میں ایکٹیو حصہ لیتے ہوئے دیکھ رہی ہوں :) :) اور یہ ایک نئے انقلاب کی نشانی ہے :)

ویلکم سسٹرز۔
 

شمشاد

لائبریرین
زونی کے متعلق آپ کہہ سکتی ہیں کہ اس نے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔

ملائکہ کو سیاست کی الف بے بھی نہیں معلوم اور باجو (بوچھی) وہ تو کل کے واقعہ پر جو کہ برطانیہ میں ہوا ہے، اس وجہ سے ادھر آئی ہیں۔
 

ساجد

محفلین
زونی کے متعلق آپ کہہ سکتی ہیں کہ اس نے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔

ملائکہ کو سیاست کی الف بے بھی نہیں معلوم اور باجو (بوچھی) وہ تو کل کے واقعہ پر جو کہ برطانیہ میں ہوا ہے، اس وجہ سے ادھر آئی ہیں۔
اور شمشاد بھائی کا ایک ہاتھ شکرئیے کے بٹن پہ ہوتا ہے تو دوسرے میں ایک تالہ انگلی میں گھماتے رہتے ہیں۔:)
 
Top