ٹیکنالوجی اور ہمارا مستقبل

زیک

مسافر
نوٹ: ابنِ سعید اور باقی ارکان کو کھلی اجازت ہے کہ اس مضمون میں مضمون‌نگاری کی غلطیاں نکالیں مگر ساتھ یہ خیال رکھیں کہ پچھلے پندرہ سالوں میں میرا پہلا اردو مضمون ہے۔

ٹیکنالوجی اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہی ہے جو ہمیں جانوروں سے ممیز کرتی ہے۔ اگرچہ کچھ جانور بھی محدود طور پر اوزار کا استعمال کرتے ہیں مگر انسان اوزار ایجاد کرنے اور مختلف ٹکنیکس استعمال کرنے میں ایک علیحدہ ہی کلاس میں ہے۔ اس کا آغاز لاکھوں سال پہلے ہومو ایریکٹس کے پتھر کے اوزار بنانے سے ہوتا ہے۔ مختلف ماہرِ عمرانیات و آنتھروپالوجی ٹیکنالوجی کی تاریخ کو مختلف طریقوں سے تقسیم کرتے ہیں۔ ماضی کی اہم ٹیکنالوجی میں پتھر کے اوزار (25 لاکھ سال پہلے)، آگ کا استعمال(شاید 10 سے 15 لاکھ سال پہلے)، کپڑے (ایک لاکھ سال پہلے)، جانوروں کو پالتو بنانا (15 ہزار سال پہلے)، زراعت (10 ہزار سال پہلے)، تانبا، کانسی اور پھر لوہے کا استعمال، پہیہ (6 ہزار سال پہلے)، لکھائ (6 ہزار سال پہلے) وغیرہ ہیں۔ ان مختلف ٹیکنالوجیز کی بدولت انسان شکار اور چیزیں اکٹھی کرنے سے بڑھ کر گنجان آباد زرعی سوسائٹی کا حصہ بنا۔ پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب نے پہلے یورپ اور پھر دنیا کو بدل دیا۔

آج ہم post-industrial دور سے گزر رہے ہیں جہاں انفارمیشن کے انقلاب نے دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کو قریب‌تر کر دیا ہے۔کمپیوٹر، ٹیلی‌فون، انٹرنیٹ اور سروس اکنامی ہمارے دور کی اہم ایجادات ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم باہم رابطے میں پرانے وقتوں سے بہت مختلف حالات میں رہتے ہیں بلکہ آج ترقی‌یافتہ ممالک میں صنعت سے زیادہ اہم انفارمیشن ہے اور بہت سے لوگ manufacturing کی بجائے information سے متعلقہ جاب کر رہے ہیں جن میں معلومات کو اخذ کرنا، انہیں شیئر کرنا، تعلیم، ریسرچ وغیرہ شامل ہیں۔

کل ہمیں کیسی ٹیکنالوجی دکھائے گا؟ اس سوال کا جواب ایک لحاظ سے مشکل ہے کہ ہم اپنے کل کو آج ہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جیسے بیسویں صدی کے پہلے حصے کے لوگوں‌کا خیال تھا کہ جیسے ان کے زمانے میں گاڑی اور جہاز کی ایجاد سے سفر بہت آسان ہوا اسی طرح مستقبل میں اسی فیلڈ میں ترقی ہو گی اور انتہائ تیزرفتار اور فضائ کاریں دستیاب ہوں گی۔ ایسا نہ ہو سکا بلکہ تیزرفتار کنکورڈ جہاز کچھ عرصہ پہلے بند ہو گیا۔ مگر آج ہوائ سفر اتنا سستا اور آسان ہو چکا ہے کہ سال میں کروڑوں لوگ دور دور کا سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح 1969 میں چاند پر قدم رکھنے کے بعد انسان کا خیال تھا کہ چند ہی دہائیوں میں انسان خلاؤں کا سفر کرے گا مگر آج ہمیں لگتا ہے کہ unmanned space exploration ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ روبوٹس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس اگرچہ کافی کامیاب رہے مگر ساتھ ہی انتہائ مشکل ثابت ہوئے۔ روبوٹس کا استعمال صنعت میں تو عام ہے مگر سائنس فکشن کے انداز میں مصنوعی ذہانت سے بھرپور جنرل پرپز روبوٹس دیکھنے میں نہیں آئے۔

ہم انفارمیشن کے زمانے میں رہتے ہیں تو بہت سی انفارمیشن آج ڈیجٹل شکل میں دستیاب ہے اور اسے کمپیوٹرز سے پراسیس کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جہاں معلومات کو دنیا بھر میں پھیلانا آسان ہو گیا ہے اسی طرح انٹلیکچوئل پراپرٹی اور پرائیویسی بھی متاثر ہوئ ہے۔ آج بہت لوگ آسانی سے گانے اور فلمیں کاپی کر کے مفت میں بانٹ سکتے ہیں جس پر میوزک اور فلم انڈسٹری نالاں ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے متعلق بہت سی معلومات بھی ڈیجٹل فارمیٹ میں دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر ہم آجکل ای‌ٹکٹ پر جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ہماری جہاز، ہوٹل، کار وغیرہ کی بکنگ تمام آن لائن ہی ہوتی ہے۔ کریڈ کارڈ اور بنک اکاؤنٹ کا تمام ریکارڈ بھی آن لائن ہوتا ہے۔ یہ تو پھر پرائیویٹ ڈیٹا ہے مگر ہمارے بلاگ، فورم، ٹویٹر، فیس‌بک وغیرہ بھی ہمارے متعلق بہت سی معلومات رکھتے ہیں۔ اسی طرح فون‌بک بھی آن لائن ہیں اور بہت سے کالج اور یونیورسٹی کی ڈائریکری بھی۔ ہم آن‌لائن سٹور سے خریداری کرتے ہیں تو وہ ڈیٹا بھی ہے اور اگر کسی لوکل سپرسٹور سے تو اس کے ڈسکاؤنٹ کارڈ ہیں جن سے آپ کی خریداری ٹریک کی جا سکتی ہے۔ بہت سے پبلک مقامات پر کیمرے نصب ہیں اور ہمارے سیل فون میں بھی اکثر assisted GPS موجود ہیں جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آپ اس وقت کدھر موجود ہیں۔ چہرے پہچاننے کی ٹیکنالوجی بھی اب کافی حد تک میچور ہو رہی ہے اور وہ وقت شاید دور نہیں جب آپ کہیں بھی جائیں تو خود بخود آپ کو پہچان لیا جائے۔ اس سب ڈیٹا کو کون کب اور کیسے استعمال کر سکتا ہے اس بارے میں ابھی فیصلہ مشکل ہے البتہ یہ لازم ہے کہ کچھ نسلوں بعد انسان کی پرائیویسی کا آئیڈیا آج سے کافی مختلف ہو گا۔

سال کے شروع میں ایج نے سائنسدانوں، مصنفین اور نامور لوگوں سے پوچھا کہ ان کے خیال میں ان کی زندگی میں ایسا کونسا سا سائنسی آئیڈیا سامنے آئے گا جو دنیا کو بدل ڈالے گا۔ ہر کسی نے اپنا خیال پیش کیا۔ اگر مجھ سے پوچھتے تو میرا جواب ہوتا: بائیوٹیکنالوجی۔ اس میں سٹیفن پنکر کا اپنا ذاتی جینوم sequence کرانا اور اس کے نتیجے میں آپ کی جینز کے مطابق آپ کے ڈاکٹر کا آپ کا علاج کرنا بھی شامل ہے اور جینز یعنی وارثت کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریوں‌کا تدارک بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جینز کی بدولت ہم شاید یہ بھی معلوم کر سکیں کہ ہمارے اباؤاجداد کہاں سے تھے۔

کیا ہم مستقبل کی ٹیکنالوجی سے مثبت فوائد حاصل کر سکتے ہیں؟ ایک ٹیکنوفائل کی حیثیت سے میں تو یہی کہوں گا کہ بالکل بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی ہمیں کئ مسائل سے نجات دلانے میں ممد و معاون ثابت ہو گی۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں انسان اور دنیا جس تباہی اور تبدیلی کا شکار ہو رہی ہے اور ہو گی اس کا تدارک energy conservation کے ساتھ ساتھ نئ ٹیکنالوجی کی ایجاد اور استعمال بھی ہو گا۔
 

arifkarim

معطل
بہت اچھا مضمون ہے، زیک بھائی۔ ٹیکنالوجی کے ضمن میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہر سال ریسرچ کی وجہ سے ڈھیروں نت نئی ایجادات اور علوم دریافت ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر لیبارٹری سے باہر نہیں آتے۔ میں‌اس پر کافی تحقیق کر چکا ہوں۔ یہاں کچھ سیاست دانوں اور کچھ پہلے سے موجود کھرب ہا کھرب مالیت کی کارپوریشنز کا قصور ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجی کو عام کرنے سے گھبراتی ہیں کہ اسکا اثر انکے کاروبار پر پڑے گا۔ ۔۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ بجلی کی کی گاڑیاں اور Renew-able توانائی پر اگر كام كیا جائے تو ماحولی فضلے سے بہت حد تک بچا جا سکتا ہے۔ مگر گاڑی کی صنعتیں اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو عام کریں۔
اسی طرح مقناطیسی پلیٹ پر چلنے والی ٹرینیں جو کہ موجودہ ہوائی جہازوں سے کئی گناہ تیز چل سکتی ہیں، صرف اسی لیے عام نہیں ہو رہیں، کیونکہ سیاست دانوں نے اپنے بجٹ ’’تیل‘‘ کی پروڈکشن میں لگائے ہوئے ہیں جس سے مزید جنگیں اور تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔۔۔
ٹیکنالوجی کا مثبت اور انسانیت کیلئے استعمال بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ ہر نئی ٹیکنالوجی مزید منافع کے حُصول کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔۔۔ بے شک اوپری سطح پر ایسا ہی محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ یہ فلاحِ عامہ کیلئے ہے!
 
خفی الفاظ میں مجھے بدنام کرنے کی کوشش۔ :)

زکریا بھائی آپ نے پہلی بار ہی سہی، لکھا تو بلکہ شاید پہلی بار نہیں ہے پندرہ سالوں میں پہلی بار ہے۔ یعنی اس سے پہلے کی تاریخ ممکن ہے مضمون نگاری کی مثالیں رکھتی ہو۔ جب کہ ہمیں آج تک کبھی بھی توفیق نہیں ہوئی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت مضمون ہے زیک، انسان کی یہ خوب سے خوب تر کی تلاش اگر اس میں موجود نہ ہوتی تو آج بھی درختوں پر اور غاروں میں بسیر ہوتا اور اسکی یہی جدوجہد اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی! اچھا لگا آپ کا مضمون!
 

شاہ حسین

محفلین
بہت اچھا مضمون لکھا ہے آپ نے بڑی ہمّت کی بات ہے کہ آپ کا پہلا مضمون ہے اور آپ نے شامل کرنے کی ہم۔ت کی ۔
میں نے بھی لکھا پر بہت چاہنے کے باوجود ہمت نہیں کر پایا۔
م
 
Very interesting article. All those technologies that we've had in last 15 to 20 years or so, they all now face the most daunting task ever faced by human - changing climate or Global Warming (in my opinion). It is time all these so called civilized nations put their efforts together in finding the solution to a phenomena which has put absolute drastic effects on our future generations. Recently, British Gas has built world's largest off-shore wind farm but thats not enough. Hybrid cars once came up as alternative to fuel cars but that to be honest hasnt worked well with fuel organisations. LPG gas is a fantastic alternative as its much greener and efficient but then again as someone has already mentioned anything other than Petrol/Diesel doesn't bode well with big fishes. Solutions are there, but "riches" of the world wouldnt let that happen as it breaks their hold on the world finances.
 

arifkarim

معطل
محفل پر خوش آمدید "اھسن"۔ بھائی یہ اردو کا فارم ہے۔ یہاں انگریزی لکھنے سے گریز کریں!
 

زین

لائبریرین
بہت اچھا مضمون لکھا ہے آپ نے بڑی ہمّت کی بات ہے کہ آپ کا پہلا مضمون ہے اور آپ نے شامل کرنے کی ہم۔ت کی ۔
میں نے بھی لکھا پر بہت چاہنے کے باوجود ہمت نہیں کر پایا۔
م

بھائی کبھی نہ کبھی ہمت تو کرنی پڑے گی ۔
آپ نے غلط کیا۔ اگر لکھا ہے تو اب بھی پوسٹ کردیجئے ۔
 

MyOwn

محفلین
نوٹ: ابنِ سعید اور باقی ارکان کو کھلی اجازت ہے کہ اس مضمون میں مضمون‌نگاری کی غلطیاں نکالیں مگر ساتھ یہ خیال رکھیں کہ پچھلے پندرہ سالوں میں میرا پہلا اردو مضمون ہے۔

ٹیکنالوجی اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہی ہے جو ہمیں جانوروں سے ممیز کرتی ہے۔ اگرچہ کچھ جانور بھی محدود طور پر اوزار کا استعمال کرتے ہیں مگر انسان اوزار ایجاد کرنے اور مختلف ٹکنیکس استعمال کرنے میں ایک علیحدہ ہی کلاس میں ہے۔ اس کا آغاز لاکھوں سال پہلے ہومو ایریکٹس کے پتھر کے اوزار بنانے سے ہوتا ہے۔ مختلف ماہرِ عمرانیات و آنتھروپالوجی ٹیکنالوجی کی تاریخ کو مختلف طریقوں سے تقسیم کرتے ہیں۔ ماضی کی اہم ٹیکنالوجی میں پتھر کے اوزار (25 لاکھ سال پہلے)، آگ کا استعمال(شاید 10 سے 15 لاکھ سال پہلے)، کپڑے (ایک لاکھ سال پہلے)، جانوروں کو پالتو بنانا (15 ہزار سال پہلے)، زراعت (10 ہزار سال پہلے)، تانبا، کانسی اور پھر لوہے کا استعمال، پہیہ (6 ہزار سال پہلے)، لکھائ (6 ہزار سال پہلے) وغیرہ ہیں۔ ان مختلف ٹیکنالوجیز کی بدولت انسان شکار اور چیزیں اکٹھی کرنے سے بڑھ کر گنجان آباد زرعی سوسائٹی کا حصہ بنا۔ پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب نے پہلے یورپ اور پھر دنیا کو بدل دیا۔

آج ہم post-industrial دور سے گزر رہے ہیں جہاں انفارمیشن کے انقلاب نے دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کو قریب‌تر کر دیا ہے۔کمپیوٹر، ٹیلی‌فون، انٹرنیٹ اور سروس اکنامی ہمارے دور کی اہم ایجادات ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم باہم رابطے میں پرانے وقتوں سے بہت مختلف حالات میں رہتے ہیں بلکہ آج ترقی‌یافتہ ممالک میں صنعت سے زیادہ اہم انفارمیشن ہے اور بہت سے لوگ manufacturing کی بجائے information سے متعلقہ جاب کر رہے ہیں جن میں معلومات کو اخذ کرنا، انہیں شیئر کرنا، تعلیم، ریسرچ وغیرہ شامل ہیں۔

کل ہمیں کیسی ٹیکنالوجی دکھائے گا؟ اس سوال کا جواب ایک لحاظ سے مشکل ہے کہ ہم اپنے کل کو آج ہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جیسے بیسویں صدی کے پہلے حصے کے لوگوں‌کا خیال تھا کہ جیسے ان کے زمانے میں گاڑی اور جہاز کی ایجاد سے سفر بہت آسان ہوا اسی طرح مستقبل میں اسی فیلڈ میں ترقی ہو گی اور انتہائ تیزرفتار اور فضائ کاریں دستیاب ہوں گی۔ ایسا نہ ہو سکا بلکہ تیزرفتار کنکورڈ جہاز کچھ عرصہ پہلے بند ہو گیا۔ مگر آج ہوائ سفر اتنا سستا اور آسان ہو چکا ہے کہ سال میں کروڑوں لوگ دور دور کا سفر کرتے ہیں۔ اسی طرح 1969 میں چاند پر قدم رکھنے کے بعد انسان کا خیال تھا کہ چند ہی دہائیوں میں انسان خلاؤں کا سفر کرے گا مگر آج ہمیں لگتا ہے کہ unmanned space exploration ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ روبوٹس اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس اگرچہ کافی کامیاب رہے مگر ساتھ ہی انتہائ مشکل ثابت ہوئے۔ روبوٹس کا استعمال صنعت میں تو عام ہے مگر سائنس فکشن کے انداز میں مصنوعی ذہانت سے بھرپور جنرل پرپز روبوٹس دیکھنے میں نہیں آئے۔

ہم انفارمیشن کے زمانے میں رہتے ہیں تو بہت سی انفارمیشن آج ڈیجٹل شکل میں دستیاب ہے اور اسے کمپیوٹرز سے پراسیس کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جہاں معلومات کو دنیا بھر میں پھیلانا آسان ہو گیا ہے اسی طرح انٹلیکچوئل پراپرٹی اور پرائیویسی بھی متاثر ہوئ ہے۔ آج بہت لوگ آسانی سے گانے اور فلمیں کاپی کر کے مفت میں بانٹ سکتے ہیں جس پر میوزک اور فلم انڈسٹری نالاں ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے متعلق بہت سی معلومات بھی ڈیجٹل فارمیٹ میں دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر ہم آجکل ای‌ٹکٹ پر جہاز میں سفر کرتے ہیں اور ہماری جہاز، ہوٹل، کار وغیرہ کی بکنگ تمام آن لائن ہی ہوتی ہے۔ کریڈ کارڈ اور بنک اکاؤنٹ کا تمام ریکارڈ بھی آن لائن ہوتا ہے۔ یہ تو پھر پرائیویٹ ڈیٹا ہے مگر ہمارے بلاگ، فورم، ٹویٹر، فیس‌بک وغیرہ بھی ہمارے متعلق بہت سی معلومات رکھتے ہیں۔ اسی طرح فون‌بک بھی آن لائن ہیں اور بہت سے کالج اور یونیورسٹی کی ڈائریکری بھی۔ ہم آن‌لائن سٹور سے خریداری کرتے ہیں تو وہ ڈیٹا بھی ہے اور اگر کسی لوکل سپرسٹور سے تو اس کے ڈسکاؤنٹ کارڈ ہیں جن سے آپ کی خریداری ٹریک کی جا سکتی ہے۔ بہت سے پبلک مقامات پر کیمرے نصب ہیں اور ہمارے سیل فون میں بھی اکثر assisted GPS موجود ہیں جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آپ اس وقت کدھر موجود ہیں۔ چہرے پہچاننے کی ٹیکنالوجی بھی اب کافی حد تک میچور ہو رہی ہے اور وہ وقت شاید دور نہیں جب آپ کہیں بھی جائیں تو خود بخود آپ کو پہچان لیا جائے۔ اس سب ڈیٹا کو کون کب اور کیسے استعمال کر سکتا ہے اس بارے میں ابھی فیصلہ مشکل ہے البتہ یہ لازم ہے کہ کچھ نسلوں بعد انسان کی پرائیویسی کا آئیڈیا آج سے کافی مختلف ہو گا۔

سال کے شروع میں ایج نے سائنسدانوں، مصنفین اور نامور لوگوں سے پوچھا کہ ان کے خیال میں ان کی زندگی میں ایسا کونسا سا سائنسی آئیڈیا سامنے آئے گا جو دنیا کو بدل ڈالے گا۔ ہر کسی نے اپنا خیال پیش کیا۔ اگر مجھ سے پوچھتے تو میرا جواب ہوتا: بائیوٹیکنالوجی۔ اس میں سٹیفن پنکر کا اپنا ذاتی جینوم sequence کرانا اور اس کے نتیجے میں آپ کی جینز کے مطابق آپ کے ڈاکٹر کا آپ کا علاج کرنا بھی شامل ہے اور جینز یعنی وارثت کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریوں‌کا تدارک بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جینز کی بدولت ہم شاید یہ بھی معلوم کر سکیں کہ ہمارے اباؤاجداد کہاں سے تھے۔

کیا ہم مستقبل کی ٹیکنالوجی سے مثبت فوائد حاصل کر سکتے ہیں؟ ایک ٹیکنوفائل کی حیثیت سے میں تو یہی کہوں گا کہ بالکل بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی ہمیں کئ مسائل سے نجات دلانے میں ممد و معاون ثابت ہو گی۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں انسان اور دنیا جس تباہی اور تبدیلی کا شکار ہو رہی ہے اور ہو گی اس کا تدارک energy conservation کے ساتھ ساتھ نئ ٹیکنالوجی کی ایجاد اور استعمال بھی ہو گا۔

میں‌اس موضوع کو
http://itmag.pk/ پر شائع کرنے کی اجازت چاہوں گا۔


والسلالم
 

MyOwn

محفلین
itmag.pk پر ہر آرٹیکل اصلی مصنف کے نام کے ساتھ ہی شائع کیا جاتا ہے۔ اور ہر مصنف کو ایک مکمل پیچ بایو گرافی کا شائع کرنے کی اجازت ہے۔ اگر اپ ایک پیج بنا کر مجھے دیے دیں‌تو میں‌اس کو بھی شامل کر دوں گا۔ پیج کا ایچ ٹی ایمل میں ہونا ضروری ہے اپنی اچھی سی تصویر بھی اپ شامل کر سکتے ہیں۔

والسلام
 

امکانات

محفلین
اچھا اور معلوماتی مضمون ہے روایت کے مطابق مجھے اآپ کو داد نہیں دینی چاہیے کیونکہ آپ بھی داد دیتے وقت کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں میری داد یہ ہے زکریا بھائی اگر آپ اپنا پورانام جواب میں لکھ دیں تو میں اس تحریر کو روزنامہ مقدمہ کے ادارتی صفحے پر لگاوں گا
 

جیا راؤ

محفلین
زبردست تحریر ہے۔۔ !:):)

سال کے شروع میں ایج نے سائنسدانوں، مصنفین اور نامور لوگوں سے پوچھا کہ ان کے خیال میں ان کی زندگی میں ایسا کونسا سا سائنسی آئیڈیا سامنے آئے گا جو دنیا کو بدل ڈالے گا۔ ہر کسی نے اپنا خیال پیش کیا۔ اگر مجھ سے پوچھتے تو میرا جواب ہوتا: بائیوٹیکنالوجی۔ اس میں سٹیفن پنکر کا اپنا ذاتی جینوم sequence کرانا اور اس کے نتیجے میں آپ کی جینز کے مطابق آپ کے ڈاکٹر کا آپ کا علاج کرنا بھی شامل ہے اور جینز یعنی وارثت کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریوں‌کا تدارک بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ جینز کی بدولت ہم شاید یہ بھی معلوم کر سکیں کہ ہمارے اباؤاجداد کہاں سے تھے۔

متفق۔۔ !!
 

عین لام میم

محفلین
ماشاءاللہ آپ نے مضمون واقعی خوب لکھا ہے۔ ۔ ۔ موضوع کو بھی خوب نبھایا ہے اور انداز بھی اچھا ہے۔ ۔
لگتا ہے میرا ووٹ آپ کے حصے میں ہی آئے گا۔۔ ۔ ۔ ۔!!
 

زیک

مسافر
itmag.pk پر ہر آرٹیکل اصلی مصنف کے نام کے ساتھ ہی شائع کیا جاتا ہے۔ اور ہر مصنف کو ایک مکمل پیچ بایو گرافی کا شائع کرنے کی اجازت ہے۔ اگر اپ ایک پیج بنا کر مجھے دیے دیں‌تو میں‌اس کو بھی شامل کر دوں گا۔ پیج کا ایچ ٹی ایمل میں ہونا ضروری ہے اپنی اچھی سی تصویر بھی اپ شامل کر سکتے ہیں۔

میں بھیجتا ہوں آپ کو۔

اچھا اور معلوماتی مضمون ہے روایت کے مطابق مجھے اآپ کو داد نہیں دینی چاہیے کیونکہ آپ بھی داد دیتے وقت کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں میری داد یہ ہے زکریا بھائی اگر آپ اپنا پورانام جواب میں لکھ دیں تو میں اس تحریر کو روزنامہ مقدمہ کے ادارتی صفحے پر لگاوں گا

آپ شاید مقابلے پر داد دیتے ہیں۔ :p ویسے تو محفل ہی پر میرا نام آپ کو مل جائے گا مگر ذپ کر رہا ہوں۔

زبردست تحریر ہے۔۔ !:):)

متفق۔۔ !!

ماشاءاللہ آپ نے مضمون واقعی خوب لکھا ہے۔ ۔ ۔ موضوع کو بھی خوب نبھایا ہے اور انداز بھی اچھا ہے۔ ۔
لگتا ہے میرا ووٹ آپ کے حصے میں ہی آئے گا۔۔ ۔ ۔ ۔!!

شکریہ جیا اور عین۔
 

ساقی۔

محفلین
بہت اچھا آرٹیکل ہے جناب. لیکن جہاں ٹکنالوجی کے بہت سے مفائد ہیں وہاں ان کے نقصانات بھی ہیں . لیکن مفائد کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہی سمجھیئے. سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ انسان "کاہل" ہو گیا ہے .

بہر حال اچھے اور مدلل مضمون پر مبار ک باد کے مستحق ہیں آپ.
 
Top