سری لنکا کرکٹ‌ ٹیم پر لاہور میں‌ حملہ

مہوش علی

لائبریرین
انتہاپسندی اور جلدبازی کے تجزیے [بشکریہ بی بی سی ]
وجاہت مسعود
لاہور
t.gif

t.gif
20090304122601pakistani_newspaper203.jpg

پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی حلقوں میں انتہا پسندی کے عذرخواہوں کی کوئی کمی نہیں لاہور لبرٹی چوک میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے چند ہی منٹ بعد ایک ٹی وی چینل پر ایک معروف ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کا براہ راست انٹرویو نشر کیا گیا جنھوں نے حملے کے قلابے ممبئی کے دہشت گرد حملوں سے ملاتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے ممبئی حملوں کا انتقام ہے۔
اس ابتدائی اشارے کے بعد پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینلوں کا رُخ ممبئی حملوں اور پھر بھارت کے ممکنہ انتقامی کردار کی طرف مُڑ گیا۔ بہت کم تجزیہ کاروں نے اِس نکتے پر توجہ دی کہ اگر ممبئی حملوں اور لاہور کے لبرٹی چوک میں دہشت گردی کے طریقہ واردات میں مماثلت پائی جاتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہیں زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ یہ واردات بھی غالباً اُسی تنظیم کا کام ہے جس نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔
بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہمسایہ ملک پر سازش کا الزام لگانے کا مقصد لاہور میں حملے کے مرتکب افراد کی نشاندہی سے زیادہ اُن کی طرف سے توجہ ہٹانا معلوم ہوتا تھا۔

t.gif
خوف و ہراس

پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی حلقوں میں انتہا پسندی کے عذرخواہوں کی کوئی کمی نہیں۔ اِن حلقوں کا آزمودہ طریقہ کار انتہا پسندی کی کسی واردات کے بعد ایسی دھول اُڑانا ہے جس سے واردات کے مرتکب عناصر سے توجہ ہٹ جائے اور رائے عامہ کو انتہا پسندی کے مفروضہ اسباب اور سازشی نظریات میں اُلجھا دیا جائے۔ یہ اصحاب اِس امر کی نشاندہی کرنے میں تو بہت دلچسپی رکھتے ہیں کہ انتہا پسندی کی پشت پناہی کون کر رہا ہے لیکن یہ بیان کرنے سے ہچکچاہتے ہیں کہ ایسی کارروائیاں در حقیقت کون کر رہا ہے؟ یہ طریقہ کار انتہاپسندوں کے لیے نہایت مفید مطلب ہے۔
ابتدائی غبار بیٹھنے کے کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیمیں واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں۔ ڈنمارک کے سفارت خانے یا میریٹ ہوٹل پر حملوں کے فوراً بعد تواتر سے بیرونی ہاتھ کا ذکررہا ۔ کچھ عرصہ بعد القاعدہ نے تسلیم کر لیا کہ دونوں مقامات پر اس کے فرستادہ اراکین نے حملے کیے تھے۔
دہشت گردی کی کسی بھی واردات کے بعد رائے عامہ میں انتہاپسندوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ جھوٹ یا تاویل آرائی کی مدد سے اس ممکنہ نفرت کو دبانا کسی بھی انتہا پسند کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی اُٹھایا گیا کہ القاعدہ یا اِس کی ذیلی تنظیمیں سری لنکا کو نشانہ کیوں بنائیں گی؟ اِس استدلال میں بنیاد پرست انتہا پسندی کی نوعیت کو سرے سے نظر اندازکر دیا گیا۔ القاعدہ یا اُس کی حلیف تنظیموں کو فلسطین، کشمیر یا افغانستان سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ۔
1998ءمیں القاعدہ نے مغربی دنیا کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تو اُس میں فلسطین یا کشمیر کا ذکر تک نہیں تھا۔ بنیاد پرستوں کا اصل مقصد اپنی ہدف سرزمینوں اور بالآخر پوری دنیا پر اپنا تصور مذہب اور اُس سے پھوٹنے والا تصور سیاست مسلط کرنا ہے۔ اس راہ میں بُدھا کے مجسمے تباہ کیے جا سکتے ہیں اور اہلِ تشیع مسلمانوں پر حملے بھی ہو سکتے ہیں۔

t.gif
القاعدہ منشور
800_right_quote.gif
1998ءمیں القاعدہ نے مغربی دنیا کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تو اُس میں فلسطین یا کشمیر کا ذکر تک نہیں تھا۔ بنیاد پرستوں کا اصل مقصد اپنی ہدف سرزمینوں اور بالآخر پوری دنیا پر اپنا تصور مذہب اور اُس سے پھوٹنے والا تصور سیاست مسلط کرنا ہے۔ اس راہ میں بُدھا کے مجسمے تباہ کیے جا سکتے ہیں اور اہلِ تشیع مسلمانوں پر حملے بھی ہو سکتے ہیں
800_left_quote.gif



انتہا پسند کسی قوم یاگروہ کا اس لیے مخالف نہیں کہ مذکورہ قوم یا گروہ نے اُسے کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے تصور عالم میں ہر وہ فرد، گروہ اور قوم اُس کی دشمن اور جائز ہدف ہے جو اُس سے مختلف ہے یا اُس کے دستِ وحشت خیز پر بیعت کے لیے تیار نہیں۔ لاہور میں حملے کے بعد ایک سوال یہ اُٹھا کہ انتہا پسند کرکٹ کے کھلاڑیوں کو کیوں نشانہ بنائیں گے؟ اِس دلیل میں یہ مفروضہ کار فرما ہے کہ یہ لوگ کرکٹ جیسے معصوم شغل سے کیوں کِد رکھیں گے۔ اِس میں یہ حقیقت فراموش کی جا رہی ہے کہ انتہا پسندی بنیادی انسانی معصومیت ہی کی دشمن ہے۔ ہدف جس قدر معصوم ہو دہشت گردی اُسی قدر موثر قرار پاتی ہے۔ دہشت گردی کا مقصد خوف زدہ کرنا ہے۔ ایک بالغ انسان کی مصیبت کے مقابلے میں کسی معصوم بچے کی اذیت زیادہ دہشت ناک ہوتی ہے۔
یوں بھی اب سے پچیس برس پہلے ڈاکٹر اسرار احمد نے کرکٹ کو فُحش کھیل قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ اُن دنوں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ طالبان کے افغانستان میں گیند سے کھیلنے والے بچوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ بات کرکٹ کی معصومیت یا کھلاڑیوں کی غیر سیاسی شناخت کی نہیں، انتہا پسند اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
انتہا پسند پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں اپنے پنجے موثر طور پر گاڑ چکے ہیں۔ اگلا منطقی ہدف پنجاب ہے۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر پسماندہ سرائیکی خطے میں فرقہ واریت کا ہتھیار موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ڈیرہ غازی خان، میانوالی اور بھکر جیسے علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا گراف بلند کیا جا رہا ہے۔

t.gif
مرکزی پنجاب کو دھڑکا
800_right_quote.gif
مرکزی پنجاب میں شہری متوسط طبقہ کو یہ دھڑکا ہے کہ ان کی اقتصادی خوشحالی پنجاب کے دیگر حصوں کو کھٹکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی پنجاب میں انتہا پسندوں نے ہراول دستے کے طور پر ایسی کارروائیاں شروع کی ہیں جنھیں بظاہر انتہاپسندی کے بڑے دھارے سے منسوب کرنا مشکل نظر آتا ہے
800_left_quote.gif



مرکزی پنجاب میں شہری متوسط طبقہ کو یہ دھڑکا ہے کہ ان کی اقتصادی خوشحالی پنجاب کے دیگر حصوں کو کھٹکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی پنجاب میں انتہا پسندوں نے ہراول دستے کے طور پر ایسی کارروائیاں شروع کی ہیں جنھیں بظاہر انتہاپسندی کے بڑے دھارے سے منسوب کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ لاہور میں تھیٹروں اور دیگر تفریحی مقامات پر متعدد دھماکے کیے گئے جن میں جانی نقصان کا اندیشہ زیادہ نہیں تھا لیکن خوف و ہراس میں خاصا اضافہ ہوا۔ کرکٹ کے کھیل پر حملہ اِسی رجحان کا اگلا مرحلہ سمجھنا چاہیے۔ اب کئی برس تک کوئی بین الاقوامی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔ سیاحت کا دروازہ ایک عرصے سے بند ہو چکا ہے۔ پاکستان کی عالمی تنہائی بڑھ رہی ہے اور داخلی استحکام مخدوش ہو رہا ہے۔
پاکستان کو انتہاپسندی سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادت، ریاستی ادارے اور رائے عامہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے میں پوری طرح یکسو نہیں ہیں۔
 

طالوت

محفلین
اب اس طویل مراسلے پر میں کچھ نہیں کہتا ماسوائے اس کے کہ کنفیوژن پیدا کرنے ، بے جا اور متعصب بیانات اور غیر ضروری ہمدردیاں حاصل کرنے کی ایک لاحاصل کوشش ہے ۔۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی حلقوں میں انتہا پسندی کے عذرخواہوں کی کوئی کمی نہیں۔اِن حلقوں کا آزمودہ طریقہ کار انتہا پسندی کی کسی واردات کے بعد ایسی دھول اُڑانا ہے جس سے واردات کے مرتکب عناصر سے توجہ ہٹ جائے اور رائے عامہ کو انتہا پسندی کے مفروضہ اسباب اور سازشی نظریات میں اُلجھا دیا جائے۔

واللہ یہ بعینیہ وہی بات ہے جو میں نے اوپر جنگ اخبار کے حامد میر جیسے اینکرز کے لیے آپ کے گوش گذار کی تھی۔

از مہوش:
حد افسوس کہ میری تمنا میری دعا قبول نہ ہو سکی اور جنگ وہ منافق اخبار ہے تو پل بھر میں پنتیرے بدلتا ہے اور اپنی چولی بدلتا ہے اور آج بنا کسی غیرت و شرم کے بالکل الٹ خبر چھاپ رہا ہے۔
جنگ اخبار کے [حامد میر جیسے] اینکرز ایسے جھوٹ بول کر اور اور سچ میں جھوٹ کی آمیزشیں کر کے قوم کو مغالطوں میں ڈال کر اصل حقائق سے گمراہ کرنا چاہتا ہیں تاکہ قوم بس کنفیوزڈ رہے اور کبھی انکے سامنے مذھبی جنونیوں کے اصل جرم کی داستان بھی پہنچ جائے تو وہ اس کنفیوژن میں کوئی ٹھیک اور ٹھوس فیصلہ نہ کر پائیں۔

کاش کہ قوم کوئی سبق سیکھ سکے اور اور اللہ کرے کہ حق بات کو پہچاننے میں کبھی ان سازشوں کا شکار نہ ہو۔ امین۔
 

مہوش علی

لائبریرین
منتظمین سے میری گذارش یہ ہے کہ اس تھریڈ کو مقفل نہ کیا جائے اور ہر کوئی اپنی رائے پیش کرنے کا مجاز ہے بغیر دوسرے رکن کو پر اعتراض کیے اور صرف موضوع پر گفتگو کی جائے۔ ابھی یہ معاملہ حل نہیں ہوا ہے اور ثبوت مسلسل سامنے آ رہے ہیں اور ہر کوئی حالات کے متعلق اپنی رائے بیان کرنے میں آزاد ہے۔
*************************

investigators see let footprints in lahore attack - dawn

islamabad: Investigators are zeroing in on the footprints of the banned lashkar-e-taiba (let), according to preliminary investigations by the joint investigation team probing tuesday’s attack on sri lankan cricketers at lahore’s liberty chowk.

Sketchy details of the initial probe suggest that a group of headstrong lashkar activists, who went underground and remained in hiding in rawalpindi after the crackdown on lashkar and jamaatud dawa in december, had acted on their own and carried out the attack.

Although officials would not confirm the involvement of lashkar, they categorically ruled out the possibility of involvement of the indian spy agency raw (research and analysis wing) or the liberation tigers of tamil eelam (ltte) as no evidence has been found so far pointing in their direction.

At least eight people, six policemen among them, were killed after 12 gunmen attacked the bus carrying sri lankan cricketers to qadhafi stadium.

The attack has killed hopes of any international sports events in pakistan for months, if not years, and seriously damaged pakistan’s reputation to host any international sporting event, including the 2011 cricket world cup.

The prime minister’s adviser on interior, rehman malik, refused to comment on the investigations when asked.

‘at this moment i can only say that investigations into the lahore attack are going in the right direction. We have also involved the national database registration authority (nadra) to determine the identity of the attackers,’ he told dawn.

Interestingly, officials working at nadra told dawn that they had no facility to match the sketches with the database. ‘it is a very expensive technology and we do not have it here. So nadra cannot do anything in this regard,’ a top official of nadra said.

But asked specifically about the involvement of lashkar in the lahore attack, mr malik said he could not reveal anything at the moment. ‘the preliminary report will be finalised by friday. At this moment i can only say that reports regarding the involvement of let are speculation,’ he added.

Later he told reporters in parliament that al qaeda could be involved in the attack. He also said so far investigations had not yet found any indian connection.

he told journalists that the involvement of india’s raw had not been proved so far. But, he added, the final answer could only be given once the investigations were completed.

Mr malik claimed that investigators had not found any link between the attackers and zakiur rehman lakhvi, a key pakistani suspect in the mumbai attacks and the alleged trainer/handler of the suicide squad that wreaked havoc in india’s commercial hub in november last year.

But he refused to share details with media of the arrests made by the law enforcement agencies so far.

The investigators involved in the probe believe that the attackers got their commando training in the camp of lashkar’s operational commander zakiur rehman lakhvi as their modus operandi had similarities with the mumbai attackers.

Lakhvi was detained by authorities on suspicion of involvement in the mumbai terror attacks. He was picked up from his camp in muzaffarabad on dec 10 last year.

Investigators believed that one of the attackers had assured the chief suspect in mumbai terror attacks that his followers would take revenge against pakistani authorities for his arrest and subsequent trial.

The authorities have also approached jamaatud dawa chief hafiz saeed, who is currently under detention at his johar town residence in lahore, to help authorities in tracking down the attackers.

 

مہوش علی

لائبریرین
نذیر ناجی سے جتنے بھی پرسنل اختلافات ہوں، مگر نذیر ناجی جو لکھتے ہیں، اُس سے ہم بطور قوم پھر بھی بہت کچھ اچھا سیکھ سکتے ہیں۔

بشکریہ جنگ اخبار
headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
دہشت گردی کی ہر واردات پر اگر گورنرز ‘ وزراء اعلیٰ‘ آئی جی اور چیف سیکرٹریز‘ ہوم سیکرٹریز اور ایس پی حضرات استعفے دینے لگتے تو اب تک پاکستان کا سارا ایوان اقتدار اور سارے سیکرٹریٹ خالی ہو چکے ہوتے۔ یہاں ڈیڑھ ڈیڑھ‘ دو دو سو‘ افراد دہشت گردی کی ایک ایک واردات کی نذرہوتے رہے ہیں۔ دھماکے اتنے بڑے ہوئے ہیں کہ پوری پوری عمارتیں بھک سے اڑ گئیں اور پورے کے پورے شہر لرز اٹھے۔سفارتی نمائندے اغوا ہوئے۔ سفارتخانوں کو کاربموں سے اڑایا گیا۔ غیر ملکی کھلاڑی ہوٹل کے کمروں میں بیٹھے دھماکوں کی زد پر آئے۔ مگر سب کچھ ٹھیک چلتا رہا۔ یہ پاکستان میں روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ بھکر اور ڈیرہ غازی خان کے دھماکے اور ان میں ہونے والی ہلاکتیں لاہور میں دہشت گردی کے واقعے سے بہت زیادہ تھیں۔فرق صرف یہ ہے کہ گذشتہ واقعے کے وقت وہ سیاسی یدھ نہیں تھا جو چند روز پہلے شروع ہوا ہے۔ عرصہ ہوا ہم 90ء کے عشرے کی سیاسی لڑائیاں بھول چکے تھے۔ باہم دست و گریباں ہونے کی عادی دونوں بڑی جماعتوں کی قیادتیں‘ جیلوں اورجلاوطنیوں میں رہ کر طویل تربیتی کورسز کر کے آئی ہیں۔9/11 کے بعد امریکہ اور یورپ میں پاکستانیوں کی سماجی حیثیت جس بری طرح سے خراب ہوئی‘ ہماری قیادتوں نے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہو گا اور ضرور سوچا ہو گا کہ جب اقتدار ملا۔ وہ اپنے وطن کی عزت و وقار کو بحال کریں گے۔مسکرایئے نہیں۔ میں نے صدق دل سے یہی سوچا تھا۔ وطن سے محبت رکھنے والا ہر شخص اسی طرح سوچتا ہے۔
منتخب حکومتوں کی تشکیل کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا کہ 90ء کے عشرے کا ماردھاڑ سے بھرپور منظر‘ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر صرف ایک عینک والا جن مار دھاڑ کی یکطرفہ پرفارمنس دکھایا کرتا تھا۔ اب عینک والے اور بغیر عینک کے جن ‘ درجنوں ٹی وی چینلز پر یکطرفہ پرفارمنس اور تبصرے پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے شہروں میں دہشت گردی کا سلسلہ پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں شروع ہوا۔ تب صرف دہشت گردی کی تفصیل سامنے آتی تھی۔ منتخب حکومتیں قائم ہوئیں تو ان کا ابتدائی زمانہ مفاہمت پر مبنی تھا۔ اس دور میں بھی دہشت گردی کی جتنی وارداتیں ہوئیں۔ ان کے ذمہ دار صرف دہشت گرد ہوتے تھے۔محاذ آرائی چند روز پہلے شروع ہوئی اور اس میں دہشت گردوں نے لاہور کے اندر جو پہلی واردات کی‘ اس میں وہ اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کر سکے۔ لاہور پولیس کے بہادر جوانوں نے جان پر کھیل کر سری لنکا کی ٹیم کو بچانے کی ڈیوٹی پوری کی۔ یہ ان گنے چنے چند واقعات میں سے ایک ہے‘ جن میں دہشت گرد ناکام رہے۔ رہ گیا پاکستانی کرکٹ کی تباہی اور دہشت گردی کے حوالے سے ملک کی رسوائی کا سوال تو پہلے کونسی ٹیم پاکستان آرہی تھی؟ سری لنکا والے سیاسی تقاضوں اور علاقائی ضرورتوں کے تحت پاکستان آئے تھے۔ ورنہ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا اور بھارت انکار کر چکے تھے۔دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی بدنامی پہلے ہی اتنی زیادہ ہے کہ اس میں اضافہ ممکن نہیں تھا۔
فرانسیسی انجینئروں کی ہلاکت۔ چینی مہمانوں کے اغوا اور ان کی ہلاکتیں ۔ سفارتکاروں کے اغوا کے واقعات۔ منتخب اراکین اسمبلی کی ہلاکتیں۔ ٹیکسلا کا دھماکہ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت۔ لاہور ہائی کورٹ پر حملے۔ کراچی میں اہل سنت کی ساری اعلیٰ قیادت کی شہادت۔ میریٹ ہوٹل کی تباہی۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں ہونے والی سینکڑوں شہادتوں کے ناقابل فراموش المیوں کا ریکارڈ رکھنے والے پاکستان کی بدنامی میں لاہور کی یہ فائرنگ کیا اضافہ کرتی؟ شاید اسی لئے سیاسی پہلوانوں کو اس المیے پر خاص تکلیف نہیں ہوئی۔ انہوں نے سیاسی دنگل کے پہلے ہی ہفتے میں دہشت گردی کو اپنے سیاسی مقابلے کا ذریعہ بنا لیا۔ حکومت سے باہر بیٹھے فریق نے اس واقعہ کا ذمہ دار گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قرار دیتے ہوئے‘ نئی طرح کے مضامین باندھنا شروع کر دیئے۔ دہشت گردی کے اصل واقعہ میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ سارا زور اس پر ہے کہ دہشت گردی کاذمہ دار گورنر کو ٹھہرایا جائے۔ [شکریہ ناجی صاحب، آپ نے قوم کی بالکل صحیح تصویر کشی کی ہے]
ایسی ایسی مضمون آرائی ہو رہی ہے کہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ مضمون آرائی میں عمران خان سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ”اگر اس واقعہ میں جہادی ملوث ہوتے تو سری لنکن ٹیم اگلے جہان پہنچ چکی ہوتی۔“ معلوم نہیں یہ جہادیوں کو خراج تحسین ہے یا ناکام دہشت گردوں کے اناڑی پن پر غصہ۔البتہ ایک بات ظاہر ہوئی کہ دہشت گردی کا کلچر اب ہمارے مزاج کا حصہ بننے لگا ہے۔ اب ہم دہشت گردی کو انسان دشمن سرگرمی سمجھنا چھوڑ چکے ہیں۔ اب ہم دہشت گردوں کے عیب و ہنر کو فنی معیاروں کے تحت پرکھنے لگے ہیں۔ ہمارے پسندیدہ دہشت گرد وہ جہادی ہیں‘ جو اپنے ہدف کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ دہشت گردوں کی ناکامی ہمیں پسند نہیں۔ ایسے دہشت گردوں کو ہم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ جو بے گناہوں کو ہلاک کرنے آئیں اور ناکام ہو کر بھاگ نکلیں۔ ایسے دہشت گرد نہ اچھے پاکستانی ہیں نہ اچھے جہادی۔ وہ پاکستان کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ اس نقطہ نظر سے دیکھنے والے‘ گورنر پنجاب کو لائق تعزیر سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں سلمان تاثیر کی ماتحت انتظامیہ نے دہشت گردوں کا راستہ روک کر‘ ہماری شہرت کو مجروح کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ دہشت گردوں کو آئندہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ سلمان تاثیر کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ دہشت گردی کی مزید ناکام واردات کا خطرہ مول لینا ٹھیک نہیں۔ہمارے اپنے ہی ملک میں دہشت گرد ناکام ہونے لگے تو کاروبار کیسے چلے گا؟
پاکستانی ٹیم کے کپتان یونس خاں اور کرکٹ سے محبت کرنے والے سب پاکستانیوں سے مجھے ہمدردی ہے۔ افسوس ان کا زمانہ ختم ہو رہا ہے۔طالبان کی فتوحات شروع ہیں۔ جلد ہی وقت آئے گا ‘ جب ہمارے سٹیڈیم پھر سے آباد ہوں گے۔مجھے کابل سٹیڈیم کا وہ استعمال یاد ہے۔ جب وہاں طالبان کی حکومت تھی۔ شہر اور گردونواح کے لوگ جوق در جوق سٹیڈیم میں جمع ہوتے۔ مجاہدین اسلام مختلف مجرموں کو میدان کے اندر لاتے اور ہجوم کے سامنے اسے مبینہ جرم کی سزا دی جاتی۔ سب سے پہلے کوڑے لگائے جاتے۔ ہر کوڑے پر نعرہ ہائے تحسین بلند ہوتے ۔ ملزم کی چیخیں سن کر حاضرین لطف اٹھاتے۔آخر میں موت کی سزا پانے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا۔ سب سے زبردست آئیٹم آخر میں ہوتا۔ برقعے میں ملبوس عورتوں کو لا کر میدان کے اندر بٹھایا جاتا اور ان کے سر میں گولیاں ماری جاتیں اور حاضرین نعرہ تکبیر بلند کر کے جذبہ ایمانی کا اظہار کرتے۔ پاکستانی طالبان اگر اسی رفتار سے فتوحات حاصل کرتے رہے‘ تو ایک دن ہمارے سٹیڈیم بھی آباد ہوں گے اور ہم بھی تفریح کے اس نئے انداز کو دیکھیں گے۔یہ سب کچھ ناقابل یقین لگتا ہے۔ مگر آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ لاہور میں دہشت گردی کی اس ہولناک واردات پر ہم دکھ اور پریشانی کا اظہار کرنے کی بجائے سیاست کر رہے ہیں۔ اگرہم آٹھ انسانوں کی ہلاکت پر سیاست کر سکتے ہیں تو کوڑوں اور گولیوں سے مارے جانے والے ملزموں کا تماشا دیکھ کر تالیاں نہیں بجائیں گے کیا؟ دھماکے ‘ قتل‘ انسانی جسموں کے ٹکڑے اور خون میں لت پت تڑپتے زخمیوں کو دیکھ دیکھ کر‘ ہمارا نظام حسیات بدل رہا ہے۔ ہم بدل رہے ہیں اور ہمارے لئے دنیا بدل رہی ہے۔

یہ ہمارے میڈیا کے شاہد مسعود، حامد میر و انصار عباسی جیسے سب سے بڑے اینکرز اور کالم نگار دانشوران کا حال ہے [بشمول نواز و عمران خان جیسے سیاستدانوں کے] جن کا زور دہشتگردوں پر نہیں بلکہ سارا زور فقط گورنر سلمان تاثیر کے خلاف ہے۔ اور عمران خان کے دوغلے پن کو پہچاننے میں میں نے بہت شروع سے کوئی غلطی نہیں کی جب جامعہ حفصہ سے لیکر پاکستانی طالبان کی ہر ہر قاتلانہ کاروائیوں پر یہ شخص نہ صرف آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا بلکہ الٹا اس کے دو چار بیانات آئے بھی تو وہ بھی ان دہشتگردوں کی ہمدردی میں لٹے پٹے تھے۔
 

مغزل

محفلین
ایک مراسلہ جو وہاں لگایا کہ یہ لڑی مقفل تھی ۔۔ سو اب یہاں دیکھیں :

صاحبان و صاحبات ! آپ وضاحتوں کے پھیرے لگائیں یا معذرت کے چکر۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ :
ہزار حرف برہنہ ہیں کوئی کیا لکھے ----------------------- امیرِ شہر کو القاب سے ذرا پہلے
کہ میرے نزدیک سب ہی ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔ دودھ کادھلا کوئی بھی نہیں ۔ہم ( عوام ) صرف ان کی انا اور موشگافیوں کا ایندھن بنتے ہیں ، کمی کمین کی زندگی ہماری ہے کما کر ہم دیں (‌محصول ) موج یہ اڑا تے پھرتے ہیں ۔ عوام کی اکثریت کو جاہل رکھنے وا لے یہی ہیں ۔۔ نتیجہ کے طور پر کوئی جے الطاف ، کوئی جے بھٹو، کوئی جے نواز، کوئی جے مشرف اور کوئی جے فلاں جے فلاں کے نعرے لگاتے ان کے پیچھے سگان ِ شہر کی صورت دم ہلاتے پھریں ۔۔ میں ایک بات جانتا ہوں کہ ’’ لکھنے والے ‘‘ ( لکھنے والے پر ہی زور ہے ) کسی تعصب اور وابستگی سے منہا ہو کر تو کچھ بہتری کی کوشش کرسکتے وگرنہ دوسرے لفظوں‌میں یہ سب ’’ علم برائے شر ‘‘ کے مطیع اور مامور من الشیطان ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔


شکریہ ’’آبی ٹوکول, خرم, سعود الحسن, طالوت ‘‘ کے آپ نے میری بات پر اتفاقیہ ’’ شکریہ ‘‘ ادا کیا ۔:battingeyelashes:
 

زینب

محفلین
اف مہوش بہت ہو گئی آپ کی جیالی تقریریں اب بس کریں کوئی جواب نہیں دے رہا اپ سے کوئی کسر رہ بھی گئی تو ہمت علی ہے نا ۔۔۔۔۔اور اپ اتنی تو سیانی ہیئں ہی کہ جب ہماری کسی بات کا اگلا بندہ جواب نا دے رہا ہو تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بشکریہ جنگ
headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
یہ بشریٰ کی پچھلے چھ ماہ میں مجھے دوسری کال تھی۔ وہ لاہور میں ایک آرکیٹیکٹ ہے۔ کم عمری میں اس کا باپ اسے سندھ سے ہجرت کرا کر لاہور لے آیا تھا کیونکہ وہاں پنجابی بولنے والوں کیلئے حالات خراب ہوتے جا رہے تھے۔ جب پہلی بار اس نے مجھے کال کیا تھا تو وہ بڑی دیر تک مجھے بتاتی رہی کہ وہ جس سندھ کی دھرتی پر پیدا ہوئی تھی اسے چھوڑ کر پنجاب میں آ کر بسنا اس کیلئے کتنا تکلیف دہ کام تھا۔ وہ ہر لمحے سندھ کی اسی دھرتی کی یادوں میں کھوئی رہتی ہے جہاں وہ بڑی ہوئی تھی۔ اپنے ہی ملک میں ہونے والی اس ہجرت نے بشریٰ کو ہلا کر رکھ دیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی زندگی کو نئے سرے سے لاہور میں اپنے میاں طارق کے ساتھ شروع کیا۔ خدا نے کرم کیا اور زندگی اچھی گزرنے لگی۔ اولاد کی کمی بھی بہت جلد پوری ہو گئی۔ بشریٰ اس ملک کے دکھوں کا رونا روتی رہی۔ میں کچھ دنوں بعد بشریٰ کی یہ کال بھول گیا کیونکہ اب میں اس بات کا عادی ہو چکا ہوں کہ بہت سارے حساس دل لوگ میرے جیسے لوگوں کو فون کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد قدرے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فریضہ پورا کر دیا تھا۔ جب میں ڈیپریس ہو کر ٹی وی اسکرین پر لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے بار بار مناظر دیکھ رہا تھا تو بشریٰ کا فون آیا۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آج اس کے شہر میں کیا حشر ہو گیا تھا۔ وہ حیران تھی کہ اتنی دیدہ دلیری سے صرف چند لوگ اتنی بڑی کارروائی کر گزریں گے اور ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ یہ بھلا کیونکر ممکن تھا کہ لاہور شہر کے دل میں چند دہشتگرد آدھے گھنٹے تک خون کھیلنے کے بعد بڑے مزے سے ٹہلتے ہوئے موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر بیٹھ کر فرار ہو جائیں۔ کیا ریاست کی رٹ سوات کے بعد لاہور میں بھی ختم ہو گئی تھی کہ جو چاہے گن اٹھا کر سڑک پر آ جائے اور اپنی مرضی کی کارروائی کرکے چائے پیتا، سگریٹ پھونکتا کیمروں کے سامنے مسکراتا ہوا اور ہمیں چڑاتا ہوا گزر جائے۔ جوں جوں بشریٰ کی آواز میں تلخی، غصہ، چڑچڑاہٹ اور بے بسی بڑھ رہی تھی ویسے ہی میرا ذہن اپنے ملک کے ان حکمرانوں، فوجیوں، بیوروکریٹس، دانشوروں اور صحافیوں کی طرف جا رہا تھا جنہوں نے اس ملک کے عوام کو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا تھا۔
یہ ہم ہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے غریب طبقات کو اعلیٰ تعلیم اور زندگی میں بہتر مواقعے دینے کے بجائے انہیں اپنی سہولتوں کی خاطر ترقی نہیں کرنے دی تھی۔ ایک ظلم تو ہم نے ان طبقات کے ساتھ یہ کیا کہ انہیں اپنے بچوں کی طرح اپنا نہیں سمجھا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ترقی کرنا، تعلیم حاصل کرنا اور دولت اکٹھی کرنا صرف ہمارا اور ہمارے بچوں کا حق تھا۔ اگر ان غریب اور محروم طبقات کے استحصال میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو ہم نے نسیم حجازی کے ناولوں کے زیر اثر افغانستان، سنٹرل ایشیاء اور دنیا کے باقی ملکوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ بڑی سنجیدگی کے ساتھ بھارت کے لال قلعہ پر اپنا جھنڈا لہرانے کا خواب دیکھا۔ ان سب کو اسلام کے نام پر ایک گن دیکر افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑنے بھیجا اور مڑ کر یہ بھی نہیں سوچا کہ کسی دن یہ جنگ ہمارے گھروں تک بھی آ پہنچے گی۔ ہم اندھا دھند اس جھوٹے رومانس کے زیر اثر پوری دنیا سے لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔
جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو ہم سب بڑے خوش ہوئے کہ اب وہاں امن ہو جائے گا جو کہ ہو بھی گیا تھا لیکن یہ کسی کو علم نہیں تھا کہ پانچ سال بعد اسی امن سے یہی طالبان اپنے اور ہمارے لیے امریکہ کی شکل میں اتنی بڑی تباہی اس خطے میں لائیں گے کہ جس سے ہماری آنے والی نسلیں تک محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔
ارب پتی اسامہ بن لادن نے بھی اپنے سرمائے کی مدد سے افغانستان میں جدید یونیورسٹیاں، اسکول اور تعلیمی ادارے کھولنے کے بجائے وہاں ٹریننگ کیمپ کھول دیئے جن میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو مفت داخلہ دیا گیا۔ یہ سارے جہادی جو امریکہ کے ساتھ مل کر ان کے اتحادی کے طور پر کام کرتے رہے تھے وہی اب اس کے دشمن ہوگئے تھے۔ امریکہ کا تو شاید کچھ نہیں بگڑا لیکن اس جنگ میں اب تک بارہ لاکھ سے زیادہ افغانی مارے گئے ہیں اور ہم پاکستانیوں کے مرنے کی گنتی تو اب شروع ہو رہی ہے۔ ایلیٹ فورس کے ان بہادر سپاہیوں کے علاوہ دیگر پولیس فرار ہو گئی تھی۔ اپنی روایتی میزبانی کیلئے مشہور زندہ دلان لاہور اپنے سری لنکا کے مہمانوں کو لبرٹی چوک میں دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہمارے فوجی اور صحافیوں دانشوروں کے ارشادات پڑھ رہے تھے کہ کیسے ہم نے جلد پوری دنیا کو فتح کر لینا ہے۔ آج دنیا حیران ہے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے اس کے ایک بڑے شہر میں بارہ دہشتگرد آتے ہیں۔ دن دیہاڑے قتل عام کرتے ہیں اور بڑے مزے سے وہاں سے فرار ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک ان میں سے ایک بھی نہیں پکڑا جاسکا۔ ہمارے اس غریب عوام کی جیب میں سے اربوں روپے کے فنڈز سیکرٹ ایجنسیوں کو دیئے جاتے ہیں۔ سب سے مہنگی اور قیمتی گاڑیاں انہی کے افسروں کے پاس ہوتی ہیں۔ کسی میں اتنی جرات نہیں ہے کہ ان کا آڈٹ کر سکے۔ اس کے بدلے وہ اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اس ملک میں دہشت گردی کرنے والے چند سو لوگوں کو ٹریس کر سکیں۔ اب انہوں نے یہ نیا وطیرہ بنا لیا ہے کہ وہ ریڈی میڈ رپورٹیں تیار رکھتے ہیں جو اس طرح کے مواقعوں سے چند روز پہلے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھیج کر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا کام پورا کر لیا ہے۔ اگر دہشت گردی ہو جائے تو فخر سے فرمائیں گے کہ ہم نے تو پہلے بتا دیا تھا۔ جناب یہ انٹیلی جنس نہیں ہوتی کہ آپ کو پتہ چل جائے کہ کوئی کارروائی ہونے والی ہے۔ اصل رول تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ٹریس کریں جو یہ کارروائی کرنے والے ہیں۔ امر یکہ اور برطانیہ کی ایجنسیوں سے صرف ایک دفعہ غفلت ہوئی مگر اس کے بعد انہوں نے دوبارہ اپنی سرزمین پر دہشتگردی نہیں ہونے دی۔ ہمارے ہاں روزانہ یہ دہشت گردی ہو رہی ہے۔ کسی نے سی آئی ڈی سے یہ نہیں پوچھا کہ اگر آپ کے پاس یہ انفارمیشن تھی کہ یہ کارروائی ہونے والی ہے تو پھر اگلے آٹھ دنوں میں دہشتگردوں کو ٹریس کرنے کی کوئی کوشش کی تھی یا محض سمجھداری سے کام لیکر آپ نے ایک جنرل رپورٹ بنا کر بھیج دی تھی کہ دہشتگرد اس ٹیم کو ہوٹل اور اسٹیڈیم کے درمیان نشانہ بنا سکتے ہیں کیونکہ اسٹیڈیم اور ہوٹل میں اس ٹیم پر حملہ کرنا مشکل کام تھا۔ میرے خیال میں سی آئی ڈی کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی جو آٹھ دنوں میں ان لوگوں کو ٹریس نہیں کر سکے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ٹیم پر حملہ کرنے والے تھے۔ کوئی بھی واقعہ ہو جائے وہ را کے کھاتے میں ڈال کر سارے چپ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ را کی ان کارروائیوں کو پاکستان میں کاؤنٹر کرنے کیلئے ہماری اپنی ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں۔ پاکستان میں کسی ایک ذمہ دار بندے کو بھی یہ شرم نہیں آئی کہ وہ بھارتی وزیر کی طرح اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتا جیسے انہوں نے ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد دیئے تھے۔ اپنی ٹی وی اسکرین پر بار بار ان دہشت گردوں کے مناظر دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے مجھے چوک پر کھڑا کر کے ننگا کر دیاتھا۔
اچانک بشریٰ کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ اس کی ایک بات سن کر مجھے اپنا لہو برف کی طرح جمتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ میرا خاوند طارق کہتا ہے کہ ہمیں دوسرا بچہ پیدا کرنا چاہیے اور میں خوف کے مارے پوچھتی ہوں کہ کیا ہمیں اپنے بچے کے ساتھ یہ ظلم کرنا چاہیے۔ کیا اسے ایسے شہر میں جنم دیں جہاں دن دیہاڑے بارہ لوگ پورے شہر کو آدھے گھنٹے تک یرغمال بنا کر اور آٹھ لوگوں کو قتل کر کے ٹی وی کیمروں کے سامنے چائے پیتے، پان کھاتے اور سگریٹ سلگاتے موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر بیٹھ کر فرار ہو جائیں اور ان کا پتہ بھی نہ چلے۔ بشریٰ کے منہ سے ایک اور سسکی سی نکلی کہ سندھ سے جان بچا کر تو یہاں آ گئے تھے اب کہاں جائیں !!
 

مہوش علی

لائبریرین

جنگ اخبارکے اینکرز سنسنی پھیلانے کے لیے سچ میں جھوٹ اور جھوٹ میں سچ کی خوب آمیزش کرنے کے بعد اپنے مقاصد میں کامیاب ہیں اور قوم اتنی کنفیوزڈ اور ہیجان میں مبتلا ہے کہ اصل حقیقت آنے تک وہ اس قابل ہی نہ رہے گی کہ اس فتنے و قتل عام پر کوئی احتجاج بھی کر سکے۔ قوم کی اس بے حسی و مردہ پنے کے سیاسی نا اہل لیڈروں سے زیادہ میڈیا میں بیٹھے یہ خاموش طالبانی فتنے کے حامی اینکرز ہیں جنہوں نے پہلے دن سے ہی یہ وطیرہ اپنایا ہوا تھا کہ ملک میں ہونے والے ہر فتنے کا الزام اپنے اوپر سے ہٹا کر بس افغانستان، اور انڈین را پر لگا دو۔
کرتے کرتے آج یہ حالت ہے کہ قوم کے گریبان میں اتنی گندگی جمع ہو چکی ہے اور قدر تعفن ہے کہ قوم کا ہر ہر عضو بس بیماری سے عضو معطل بنتا جا رہا ہے۔
 

طالوت

محفلین
آپ نے قوم کی اس "گندگی" کو صاف کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے نا ، کرتی رہیے مگر باربار قوم ، گندگی اور تعفن کو مت جوڑیں ۔۔ آپ سے درخواست ہے ۔۔ آپ ایک ہی لاٹھی سے جو ساری قوم کو ہانک رہی ہیں اس سے باز رہیں ۔۔۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
قوم کی اس بے حسی و مردہ پنے کے سیاسی نا اہل لیڈروں سے زیادہ میڈیا میں بیٹھے یہ خاموش طالبانی فتنے کے حامی اینکرز ہیں جنہوں نے پہلے دن سے ہی یہ وطیرہ اپنایا ہوا تھا کہ ملک میں ہونے والے ہر فتنے کا الزام اپنے اوپر سے ہٹا کر بس افغانستان، اور انڈین را پر لگا دو۔

یعنی آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ ہمارے اپنے پاکستانیوں کی کارستانی ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
ہماری صحافت اور اخباروں کا تو کام ہی یہی ہے کہ سنسنی پھیلاؤ تا کہ اخبار زیادہ بِکے، اور ہر روز خبریں بدل بدل کر دو تاکہ دلچسپی برقرار رہے۔
 
Top