اصغر گونڈوی آنکھوں میں‌تیری بزمِ تماشا لئے ہوئے - اصغر گونڈوی

فرخ منظور

لائبریرین
آنکھوں میں‌تیری بزمِ تماشا لئے ہوئے
جنّت میں بھی ہوں جنّتِ دنیا لئے ہوئے

پاسِ ادب میں‌جوشِ تمنّا لئے ہوئے
میں بھی ہو ں اِک حباب میں دریا لئے ہوئے

کس طرح حسنِ دوست ہے بے پردہ آشکار
صد ہا حجابِ صورت و معنےٰ لئے ہوئے

ہے آرزو کہ آئے قیامت ہزار بار
فتنہ طرازیء قدِ رعنا لئے ہوئے

طوفانِ تازہ اور پریشاں غبارِ قیس
شانِ نیازِ محملِ لیلےٰ لئے ہوئے

پھر دل میں التفات ہوا اُن کے جاگزیں
اِک طرزِ خاصِ رنجشِ بیجا لئے ہوئے

پھر ان لبوں پہ موجِ تبسّم ہوئی عیاں
سامانِ جوشِ رقصِ تمنّا لئے ہوئے

صوفی کو ہے مشاہدہء حق کا ادعا
صد ہا حجابِ دیدہء بینا لئے ہوئے

صد ہا تو لطفِ مے سے بھی محروم رہ گئے
یہ امتیازِ ساغر و مینا لئے ہوئے

مجھ کو نہیں ہے تابِ خلش ہائے روزگار
دل ہے نزاکتِ غمِ لیلیٰ لئے ہوئے

تُو برقِ حسن اور تجلیّ سے یہ گریز
میں خاک اور ذوقِ تماشا لئے ہوئے

افتادگانِ عشق نے سَر اَب تو رکھ دیا
اٹھیں گے بھی تو نقشِ کفِ پا لئے ہوئے

رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جُز خیالِ دوست
اس شوخ کو ہوں آج سراپا لئے ہوئے

دل مبتلا و مائلِ تمکینِ اِتّقا!
جامِ شرابِ نرگسِ رسوا لئے ہوئے

سرمایہ حیات ہے حرمانِ عاشقی
ہے ساتھ ایک صورتِ زیبا لئے ہوئے

جوشِ جنوں میں چھوٹ گیا آستانِ یار
روتے ہیں‌منہ پہ دامنِ صحرا لئے ہوئے

اصغر ہجومِ دردِ غریبی میں اُس کی یاد
آئی ہے اِک طلسمِ تمنّا لئے ہوئے
 

الف نظامی

لائبریرین
واہ واہ واہ !!!
تُو برقِ حسن اور تجلیّ سے یہ گریز
میں خاک اور ذوقِ تماشا لئے ہوئے

افتادگانِ عشق نے سَر اَب تو رکھ دیا
اٹھیں گے بھی تو نقشِ کفِ پا لئے ہوئے
 

جیا راؤ

محفلین
پاسِ ادب میں‌جوشِ تمنّا لئے ہوئے
میں بھی ہو ں اِک حباب میں دریا لئے ہوئے

پھر دل میں التفات ہوا اُن کے جاگزیں
اِک طرزِ خاصِ رنجشِ بیجا لئے ہوئے

رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جُز خیالِ دوست
اس شوخ کو ہوں آج سراپا لئے ہوئے




واہ۔۔۔ غزل کا ہر شعر ہی خوبصورت ہے !
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ۔۔۔ خوبصورت انتخاب ارسال کرنے پر آپ کا بے حد شکریہ!

جنّت میں بھی ہوں جنّتِ دنیا لئے ہوئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
صوفی کو ہے مشاہدہء حق کا ادعا
صد ہا حجابِ دیدہء بینا لئے ہوئے


واہ۔ بہت خوب
بہت شکریہ سخنور :)

بہت بہت شکریہ فرحت کیانی!

پاسِ ادب میں‌جوشِ تمنّا لئے ہوئے
میں بھی ہو ں اِک حباب میں دریا لئے ہوئے

پھر دل میں التفات ہوا اُن کے جاگزیں
اِک طرزِ خاصِ رنجشِ بیجا لئے ہوئے

رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جُز خیالِ دوست
اس شوخ کو ہوں آج سراپا لئے ہوئے




واہ۔۔۔ غزل کا ہر شعر ہی خوبصورت ہے !

بہت شکریہ جیا راؤ صاحبہ!

واہ واہ واہ۔۔۔ خوبصورت انتخاب ارسال کرنے پر آپ کا بے حد شکریہ!

جنّت میں بھی ہوں جنّتِ دنیا لئے ہوئے

بہت شکریہ قبلہ لیکن آپ کو مشورہ ہے کہ دنیا میں جنت لینے کے خواب دیکھیں - جنت میں جنتِ دنیا کے خواب نہ دیکھیں - آپ کی صحت کے لئے مضر ہے - ;)
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب یہ غزل بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف میں ہے، افاعیل ہیں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن۔
(آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان/فاعلات بھی آ سکتا ہے)


مطلع کی تقطیع

آنکھوں میں ‌تیری بزمِ تماشا لئے ہوئے
جنّت میں بھی ہوں جنّتِ دنیا لئے ہوئے


آکو مِ - مفعول
تے رِ بزمِ - فاعلات
تماشا لِ - مفاعیل
ئے ہُ ئے - فاعلن

جن نت مِ - مفعول
بی ہُ جن نَ - فاعلات
تِ دنیا لِ - مفاعیل
ئے ہُ ئے - فاعلن
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب آپ مجھے محفل بدر کروائیں گے کہ برادرانِ محفل کو پہلے ہی شکایت ہے کہ "بزمِ ادب" عروضی محفل بن کے رہ گئی ہے :)

خیر،

اخرب، مکفوف اور محذوف تینوں مزاحف اراکین کے نام ہیں، جب سالم اراکین پر کوئی زحافModifier استعمال کیا جاتا ہے تو ان کی شکل بدل جاتی ہے۔

بحر مضارع مثمن کے سالم اراکین 'مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن' ہیں لیکن یہ وزن استعمال نہیں ہوتا بلکہ اسکے مزاحف اوزان استعمال ہوتے ہیں، انہی میں سے ایک اوپر گزرا ہے۔

خرب (خَر،ب) زحاف
یہ زحاف دو زحافوں خَرم (خر،م) اور کف کا مجموعہ ہے اور اسکے بعد جو رکن حاصل ہوتا ہے اس کو اخرب کہتے ہیں۔

خرم میں یہ کرتے ہیں کہ رکن کا پہلا حرف گرا دیتے ہیں، اور کف میں یہ کرتے ہیں کہ رکن کا آخری حرف گرا دیتے ہیں، یہ دونوں اکھٹے استعمال ہوں تو خرب کہلاتے ہیں اور علیحدہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔

اس بحر میں پہلے 'مفاعیلن' پر خرب کا استعمال کیا تو:

مفاعیلن => خرم => فاعیلن => کف => فاعیل = مفعول (اخرب)

کف زحاف
اسکی تفصیل اوپر بھی ہے یعنی رکن کا آخری حرف گرانا، اور پھر جو رکن حاصل ہو اس کو مکفوف کہتے ہیں، اس بحر میں

فاعلاتن => کف => فاعلات (مکفوف)
مفاعیلن => کف => مفاعیل (مکفوف)

حذف زحاف
اس کا مطلب ہے کسی رکن کا آخری سببِ خفیف گرا دینا اور پھر جو رکن حاصل ہوتا ہے اسکو محذوف کہتے ہیں، اس بحر میں:

فاعلاتن => حذف => فاعلا = فاعلن (محذوف)

یعنی بحر مضارع سالم

مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن سے

مفعول (اخرب)، فاعلات (مکفوف)، مفاعیل (مکفوف) اور فاعلن (محذوف) حاصل ہوتے ہیں اس لیے اس وزن

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن کو 'بحر مضارع اخرب مکفوف محذوف' کہتے ہیں!
 

کاشفی

محفلین
غزل
(اصغر حسین اصغر گونڈوی)
آنکھوں میں تیری بزمِ تماشا لئے ہوئے
جنت میں بھی ہوں جنتِ دنیا لئے ہوئے
پاسِ ادب میں جوشِ تمنا لئے ہوئے
میں بھی ہوں اک حیات میں دریا لئے ہوئے
ہے آرزو کہ آئے قیامت ہزار بار
فتنہ طرازیء قدرعنا لئے ہوئے
تو برق حسن اور تجلی سے یہ گریز
میں خاک اور ذوقِ تماشا لئے ہوئے
افتادگانِ عشق نے سراب تو رکھ دیا
اُٹھیں گے بھی تو نقشِ کفِ پا لئے ہوئے
جوشِ جنوں میں چھوٹ گیا آستانِ یار
روتے ہیں منہ پہ دامنِ صحرا لئے ہوئے
 

کاشفی

محفلین
واہ کاشفی صاحب واہ۔۔۔ جنابِ اصغر کا کلام اگر نیٹ پر دتیاب ہو تو مطلع فرمائیں

شکریہ محمود احمد غزنوی صاحب! ۔۔ میری ہمیشہ سے یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ غزل پیش کروں جو نیٹ پر پہلے سے موجود نہ ہو۔۔۔ :)
95٪ میری پیش کردہ غزلیں نیٹ پر پہلے سے موجود نہیں تھیں۔۔۔۔(اپنے منہ میاں مٹھو)
 
Top