خوف کی وجوہات پر میں نے ماضی میں کافی غور و خوض کیا ہے۔ ان فکر کا نچوڑ کچھ یوں ہے:
الف) خوف سابقہ تجربات کا نتیجہ ہے اور یوں عمل اکتساب کی اضافی پیداوار یا by product ہے۔
ذیلی منطقی نتیجہ - اگر خوف سابقہ تجربات کا نتیجہ ہے، تو عدم خوف آمدہ تجربات کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔(مزید اکتساب)
ب) خوف کا تعلق تعدد مشاہدہ سے بھی ہے۔ (یہ نکتہ پہلے سے مربوط ہے، کہ مشاہدہ اور اکتساب باہم مربوط ہیں)
اب ان خشک اور لپٹی ہوئی باتوں کی وضاحت کرتا ہوں۔
مجھے 2002 میں سکوٹر پر ایک خطرناک حادثے سے دو چار ہونا پڑا جس کے نتیجے میں میری کالر بون ٹوٹ گئی اور عمل جراحی سے گزرنے کے بعد مجھے تین مہینے بستر پر گزارنا پڑے۔ یہ دور وہ تھا جب میں تازہ تازہ انٹر سے نکلا تھا ( شمشاد بھائی تب آمد بھی ہوا کرتی تھی
) اس تجربے نے مجھ میں سڑکوں کے بارے میں بہت خوف بھر دیا اور مجھے ڈرائیو کرنے سے خوف آنے لگا۔ یہاں تک کہ اسلام آباد میں اپنی موٹرسائیکل خریدنے کے بعد بھی مجھے کہیں آنے جانے میں بہت خوف آتا تھا کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح بات ٹل جائے۔ جس سے خریدی تھی اس نے بھی یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ تم چھوٹے بھائی کی طرح ہو یہ 125 سی سی کی موٹرسائیکل نرا شیطانی چرخہ ہے دھیان سے چلانا۔ میرے پس منظر میں ایک حادثہ بھی تھا سو مجھے چالیس سے اوپر چلانے میں بہت خوف محسوس ہوتا تھا۔
سابقہ حادثے میں ایک بغلی گلی سے اچانک کوئی نکل آیا تھا اور میں اس میں جا لگا تھا، اب یہاں اسلام آباد میں بھی جہاں کوئی سڑک ملتی ہوئی نظر آتی خوف طاری ہو جاتا کہ کوئی آگے سے نہ آ جائے۔
یہ حصہ تو وہ ہوا کہ خوف عموما سابقہ تجربات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اب میں نکتہ الف کی ذیلی شق میں اخذ کردہ نتیجے کی طرف آتا ہوں۔
آمدہ تجربات سے خوف پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور وہ ایسے کہ میں سڑک پر دو سال چلاتا رہا اور مجھ پر کھلا یا یوں کہہ لیجئے کہ میں نے سیکھا کہ ٹریفک قوانین کی پابندی، سڑک پر اپنا حق چھوڑ دینے کی عادت اور تحمل سے حادثات کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک مجھ پر یہ خوف طاری نہیں ہوا۔
اب آئیے نکتہ ب کی طرف کہ خوف تعدد مشاہدہ سے بھی مربوط ہے۔ اس کے لیے ہمیں آئنی سٹائین کی طرح ایک مائیڈ گیم کھیلنا ہوگی۔
فرض کیجئے کہ آپ کو ایک جگہ سے ملازمت کی پیشکش آتی ہے۔ آپ مقررہ وقت پر انٹرویو کے لیے پہنچتے ہیں، کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ کی نظر سامنے بیٹھے شخص پر پڑتی ہے۔ اس کے آٹھ ہاتھ اور بارہ ٹانگیں ہیں! وہ کسی مکڑی کی طرح براجمان ہے! آپ خوف سے یقینی طور پر چیخ اٹھیں گے۔ کیوں کہ اب تک جو انسان آپ نے دیکھ رکھے ہیں، وہ ایسے نہیں ہیں۔ اسی دوران وہ آپ کے لیے کافی منگواتا ہے۔ کافی لے کر آنے والا شخص بھی بارہ ٹانگوں پر مکڑی کی طرح چلتا آ رہا ہے اور آٹھوں مختلف ہاتھوں میں کپ، تھرماس، چمچ، خالی کپ، بسکٹ وغیرہ تھامے ہوئے ہے۔ آپ پھر خوف سے چیخ اٹھتے ہیں۔ سامنے بیٹھا شخص مسکراتا ہے اور آپ کو تسلی دیتا ہے کہ گھبرائیے مت، یہاں ایک ہزار ملازمین ہیں، سبھی اسی طرح کے ہیں۔ آپ کا خوف مزید انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔
اب مزید آگے چلئے۔ تنخواہ اس قدر بھاری ہے کہ آپ سب دیکھتے ہوئے بھی کام کرنے کے کو تیار ہیں۔ آپ کو کام کرتے چھے ماہ بیت گئے آپ دیکھتے ہیں کہ یہ بارہ ٹانگوں اور آٹھ ہاتھوں والے لوگ خطرناک نہیں ہیں تعدد مشاہدہ یعنی بار بار کا مشاہدہ خوف ختم کر دیتا ہے۔ مزید باریکی میں یوں کہ بارہا کا مشاہدہ اکتساب کو جنم دیتا ہے جو نتیجے کے طور پر خوف سے نجات پر منتنج ہوتا ہے۔
اب مزید آگے چلئے۔ آپ اپنے ایک دوست کو کہتے ہیں کہ آج ہم باہر نہیں مل سکیں گے بہت کام ہے، سو میرے دفتر ہی آ جاؤ۔ وہ جونہی داخل ہوتا ہے، آپ کو پانچ سات عجیب الخلقت لوگوں میں گھرا دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے۔ جبکہ آپ ان لوگوں میں بیٹھ کر بھی نہیں چیخ رہے۔ کیوں؟ تعدد مشاہدہ۔ آپ کا روز کامشاہدہ ہے، وہ پہلی بار دیکھ رہا ہے۔
تعدد مشاہدہ کی آخری مثال ہے بچھو۔ مجھے بچھو کی ساخت سے بہت خوف آتا ہے بدن مین سنسنی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ اس خوف سے نجات پانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ میرے ہر طرف بچھو ہی بچھو ہوں اور میں عادی ہو جاؤں یا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں چشم تصور سے بچھو کو دیکھوں، اس پر ہاتھ پھیروں، اس کے ڈنک کو کو چھیڑوں تو میرا خوف کم ہو جائے گا۔
ابھی تک اس خوف کے لیے میں نے اتنا کیا ہے کہ بچھو کی ساخت کم سے کم اتنی خوف زدہ نہیں کرتی تاہم اب میں یہ ذہنی مشق کرتا ہوں کہ ایک ایسا بچھو جس کا وزن پانچ کلو سے اوپر اور طوالت دو فٹ سے زیادہ ہے، اسے رینگتا ہوا دیکھ رہا ہوں، وہ میرے کمرے میں ہے۔ یقین مانئے خوف سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن کب تک؟ چند دنوں میں عادت ہو جائے گی۔
اسی طرح مجھے اپنی ملازمت کے بارے میں کئی خدشات لاحق تھے، ان پر بھی اسی قسم کی ذہنی مشقوں سے نجات حاصل کی۔ اگر آپ بھی کسی خوف میں مبتلا ہیں تو یہ نسخہ آزما سکتے ہیں۔
تاہم پیش کردہ آرا کی صحت پر مجھے قطعی کوئی اصرار نہیں۔