اقبال عظیم اک خطا ہم ازرہِ سادہ دلی کرتے رہے

فاروقی

معطل
اک خطا ہم ازرہِ سادہ دلی کرتے رہے
ہر تبسم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے

ایسے لوگوں سے بھی ہم ملتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پہ سوداگری کرتے رہے

خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے

اپنے ہاتھوں آرزوؤں کا گلا گھونٹا کئے
زندہ رہنے کے لیے ہم خود کشی کرتے رہے


اس طرح اقبال گزری ہے ہماری زندگی
زہرِ غم پیتے رہے اور شاعری کرتے رہے

(پروفیسر اقبال عظیم)
 

فاروقی

معطل
واہ! بہتر ہوتے جا رہے ہیں!
لیکن اب کہ رنگ ایسا ہے کہ پڑھا نہیں جا رہا! :grin:

بھئی رنگ کی شکایت تو ایڈمن حصرات سے کرنی چاہیے تھی آپ کو . . . . بہر حال میں نے نظر ثانی کر دی ہے. . .اب خوش ...اچھا تو مسکرائے تھوڑا سا.. . . . . .

بہتر ہونے والی بات نے تو "مزا" ہی دے دیا. . .
 
مکمل غزل

اک خطا ہم ازرہِ ساده دلی کرتے رہے
ہر تبسم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے

ایسے لوگوں سے بھی ہم ملتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پر سوداگری کرتے رہے

خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے

سجدہ ریزی پائے ساقی پر کبھی ہم نے نہ کی
اپنے اشکوں سے علاجِ تشنگی کرتے رہے

اپنے ہاتھوں آرزوؤں کا گلا گھونٹا کیے
زندہ رہنے کے لیے ہم خودکشی کرتے رہے

ہر طرف جلتے رہے بجھتے رہے جھوٹے چراغ
اور ہم سامانِ جشنِ تیرگی کرتے رہے

حالِ دل کہہ دیں کسی سے، بارہا سوچا مگر
اس ارادے کو ہمیشہ ملتوی کرتے رہے

خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلق کا فریب
اور درپردہ کسی کو یاد بھی کرتے رہے

اس طرح اقبالؔ گزری ہے ہماری زندگی
زہرِ غم پیتے رہے اور شاعری کرتے رہے

٭٭٭
اقبالؔ عظیم
 
Top