احمد رضا بریلوی بحیثیت عاشق رسول

الف نظامی

لائبریرین
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز
بحیثیت ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی
(شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی)


(یہ مقالہ امام احمد رضا کانفرنس ٢٠٠٧ء میں پڑھا گیا)​


آپ چودہویں صدی ہجری کے ایک بلند پایہ فقیہہ ،سائنس دان ، بہترین نعت گو ، صاحب شریعت وصاحب طریقت بزرگ تھے۔ آپ کے علم و مقام کا اندازہ اس بات سے لگا یاجاسکتا ہے کہ آپ تقریباً 54 علوم وفنون پرمکمل دسترس رکھتے تھے اور ان علموں میں سے ہر فن میں آپ نے کوئی نہ کوئی تصنیف یاد گار ضرور چھوڑی ہے۔ ان تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے زائد بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے مشہور کتابوں پربے شمار حواشی تحریر فرمائے ہیں۔ ان کی تصانیف میں قرآن حکیم کے ترجمے کے علاوہ بارہ ہزار صفحات پر مشتمل ”فتاویٰ رضویہ” ایک شاہکار کی حیثیت رکھتاہے۔ ”فتاویٰ رضویہ” دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو علم ادب اور فقہ وحدیث پرکتنا عبور حاصل تھا۔ حتیٰ کہ علماء عرب بھی آپ کی علمی قابلیت کے معترف تھے۔

امام احمدرضا خان نے بلا کا حافظہ پایا تھا۔ آپ نے صرف ایک ماہ کے عرصہ میں قرآن پاک حفظ کرلیاتھا۔ دینی علوم کے علاوہ امام احمدرضا خان کو سائنسی علوم پر بھی پوری مہارت حاصل تھی۔
ماہر ریاضیات تھے، جب ان کے سامنے ریاضی کا ایک پیچیدہ سوال آیا تو اس کو مولانا امام احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے باآسانی حل کردیا۔

مولانا کی شخصیت ایک پہلودار شخصیت تھی جس کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔لیکن ان امتیازی وصف میں جودوسرے تمام فضائل وکمالات سے بڑھ کر ہیں وہ ”عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ” ہے ۔ ان کی تصانیف وتالیفات میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ یہی حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ترجمہ قرآن کریم ہویا تشریح احادیث ، فقہ کی باریک بینی ہو یا شریعت و طریقت کی بحث ہو یا نعتیہ شاعری ، ہرجگہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے ۔ ان کی نعتیہ شاعری کو ہی لے لیجئے یہ کوئی رسمی اور روایتی شاعری نہیں ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی شاعری ہے۔ جس کے افکار کا محور ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آپ کے شعری مجموعہ ”حدائق بخشش” کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ آپ کی ذات عشق مصطفی سے عبارت تھی۔ آپ کی نظموں اور غزلوں کا ایک ایک حرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت گو شعراء میں کوئی شاعر علم وفضل اور زُہد وتقویٰ میں مولانا امام احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کا ہم پلہ نہیں ہے۔

مولانا کی شخصیت کا دوسرا نمایاں پہلوجس نے آپ کو منفرد مقام عطاکیا۔ وہ آپ کا متبحر فقہی علم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ان علوم وفنون پر مکمل دسترس رکھتے تھے جو ایک فقیہہ کے لئے ضروری ہے۔ آپ میں استدلال واستنباط کا وہ ملکہ موجودتھا ۔ جو ایک مجتہد کے لئے ضروری ہے۔ اس کی شہادت ان کے فتوؤں کا مجموعہ ہے۔یہی وہ مجموعہ ہے جس کے مطالعے کے بعد جناب علامہ اقبال نے کہاتھا کہ ”اگر مولانا میں شدت نہ ہوتی تو وہ اپنے زمانے کے امام ابو حنیفہ ہوتے۔”

علامہ اقبال کے اس قول سے حضرت مولانا امام احمدرضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے ایک اور پہلوپر روشنی پڑتی ہے۔ یعنی ان کی شدت اور سختی۔ اگرہم مولانا کی زندگی کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ جس شدت کا علامہ اقبال تذکرہ کررہے ہیں۔ وہ مولانا کی زندگی میں ان کے ذاتی معاملات میں نہ تھی بلکہ شدت کا یہ اظہار وہ دشمنان دین کے مقابلے پر کرتے تھے جو قرآنی تعلیمات ”اشد آء علی الکُفّار” کے عین مطابق ہے اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود علامہ اقبال فرماتے ہیں :

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

حضرت مولانا امام احمدرضا خان کا ایک اہم کارنامہ یہ تھا کہ آپ اسلام کی برتری اور مسلمانان ہندکی بہتری کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہے اور قلمی جہاد کرتے رہے۔ آپ میں امت مسلمہ کی اصلاح کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مسلم لیگ نے بعد میں دوقومی نظریہ پیش کیا۔ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ بہت پہلے اس طرف اشارہ کرچکے تھے۔ اپنی سیاسی بصیرت کے پیش نظر وہ ہندو مسلم اتحاد کے سخت مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاملات، روز مرہ کے لین دین اور تعلقات ومراسم کی بات مختلف ہے۔ اپنی ایک تصنیف (المحجۃ المؤتمنہ فی آیاۃ الممتحنہ) میں انہوں نے صراحت سے بیان کیا کہ ترک موالات کے ساتھ ساتھ جو ہندومسلم اتحاد کا نعرہ لگایاجارہاتھا وہ غیر شرعی ہے۔ اگر چہ مولانا قیام پاکستان تک زندہ نہ رہے لیکن اپنی تحریروں اور تبلیغ سے قیام پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ہزاروں علماء کی ایک ٹیم ضرور تیار کر گئے۔

آج جامعہ کراچی سمیت کئی ملکی وبیرونی جامعات میں امام موصوف کی نعتیہ شاعری اور دیگر فنون سے متعلق تحقیقی مقالات لکھے جارہے ہیں ۔ اور جامعہ کراچی شعبہ اسلامیہ ہی سے ان کی علمی، دینی، تفسیری ، فقہی خدمات پر پی ایچ ڈی کی اسناد دی جاچکی ہیں ، اور کئی مقالے زیر ترتیب ہیں۔ معاشرہ کی تشکیل نوکے لئے آپ نے انگریز اور ہندوؤں کے رسم و رواج کا سختی سے ردکیا اور مسلمانوں کو دینی شعائر پر قائم رہنے کی تلقین فرمائی ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھی راغب کیا چنانچہ آپ ایک جگہ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں۔ ”غیردین کی ایسی تعلیم جوجملہ مفاسد سے پاک ہو مثلاً ریاضی، ہندسہ، حساب، جبر، مقابلہ اور جغرافیہ ضروریات دینیہ سیکھنے کے بعد سیکھنے کی کوئی ممانعت نہیں خواہ کسی بھی زبان میں ہواور نفس زبان کا سیکھنا کوئی حرج رکھتاہی نہیں۔”

مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور تشخص کو اس وقت زبردست دھچکا لگا جب آج سے سو سال قبل انگریزوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہند کی معیشت پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس پر آشوب دور میں اللہ رب العزت نے برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت امام احمدرضا خان جیسی باصلاحیت اور مدبرانہ قیادت سے نوازا، آپ کی تصانیف اور تبلیغی کاوشوں نے شکست خور دہ قوم میں ایک فکری انقلاب برپاکردیا۔ آج کامنتشر ماحول بھی ہم سے تعلیمات امام احمدرضا پر غور و فکر کرنے کامتقاضی ہے۔

یوں تو اسلام علم وفن کے ہر شعبے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس کی تعمیر وترقی کاداعی بھی ہے لیکن ایسے علوم کی اہمیت زیادہ ہے جس کا تعلق انسان کے فکروعمل سے ہو کیوں کہ فکر وعمل کے اثرات ہی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر انتہائی گہرے ہوتے ہیں۔

بلاشبہ قانون کی تشریح کرنااور اصولوں کی روشنی میں قانون بنانا بڑا مشکل کام ہے اور اس کام کو وہی حضرات بطریق احسن انجام دے سکتے ہیں جو بہتر ین صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ گونا گوں علوم وفنون میں مہارت رکھتے ہوں اور قوت استدلال اور جدید وقدیم مسائل کے ادراک کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مالک بھی ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیاد قائم کردی ہے لیکن اس بنیاد کی روشنی میں مجتہد انہ غور وفکر اور بصیرت کے ذریعہ مسائل کاقابل عمل حل پیش کرنا معمولی ذمہ داری نہیں۔
میں عرض کررہاتھا کہ فقہ کے بارے میں، فقہ کے میدان میں آپ کے فتاویٰ فقہ اسلامی کا وہ عظیم الشّان کارنامہ ہیں جو آپ کو مجتہد کے درجہ پر فائز کرنے کے لئے کافی ہیں۔
آپ کے علمی کارناموں کا دوسرا رُخ آپ کے پیش کردہ معاشی نکات ہیں جو آپ نے ١٩١٢ء میں وہ چار نکات پیش کئے کہ جن پر اگر ہمارے اکابر بروقت توجہ فرماتے، تو مسلمان ١٩٤٧ء سے قبل ہی انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرلیتے بلکہ آج پورے برصغیر کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی۔ آپ نے ان چارنکات کااعلان کرتے ہوئے فرمایا:

٭ مسلمان اپنے دین کی اشاعت کی طرف توجہ دیں۔
٭ فضول خرچی نہ کریں اور مقدمات پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح نہ بہائیں۔
٭ مسلمان صرف مسلمان تاجروں سے خرید وفروخت کریں۔
٭ اہلِ اسلام مسلمانوں کے لئے اسلامی طرز پر بینکاری کا نظام قائم کریں۔



اعلیٰ حضرت کے یہ نکات مسلمانوں کی معاشی اصلاح کے لئے تھے تاکہ وہ اپنے دین کی روشنی میں معاشی استحکام حاصل کرلیں جس کے نتیجے میں وہ سیاسی طورپرقوت حاصل کر لیں گے۔ کیوں کہ اس بات سے ہم انکار نہیں کرسکتے کہ تقسیم سے قبل مسلمان اقلیت ہونے کے باوجود بعض علاقوں خاص کر یوپی میں گاؤں کے مالک ہوتے تھے جس بناء پر ان کا وہاں کی آبادی پر سیاسی اثرہوتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے فوراً بعد ہندوستان کے وزیر داخلہ پٹیل نے زمینداری کے خاتمے کا اعلان کرکے مسلمانوں کی اقتصادی قوت کو ختم کردیا۔


اعلیٰ حضرت نے 1912ء میں مسلمانوں کے لئے الگ بینکاری کی جوتجویز پیش کی تھی وہ اس لئے کہ اس وقت صرف انگریز اور ہندوبینکاری کرتے تھے۔ مسلمان زمیندار ان اس طرح اپنے علاقے میں اپنا سیاسی اثر بھی زائل کردیتے ۔ نیز سیاسی استحکام ہی وہ واحد حربہ ہے جو کسی بھی قوم کو سیاسی قوت بخشتا ہے۔ امریکہ کے حالات ہمارے سامنے ہیں کہ یہودی معیشت پر غالب ہونے کی وجہ سے امریکہ جیسی طاقتور حکومت سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں اور عرب ممالک معاشی قوت کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔


علم دین کی اشاعت کی طرف اعلیٰ حضرت نے اس لئے توجہ دلائی کہ اگر مسلمان مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی پر توجہ نہیں دیں گے تو یہی ترقی ان کے لئے تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ خاص کر اعلیٰ حضرت کا مقصد یہ تھاکہ انگریزی تعلیم اگر حاصل کرنا ضروری ہے تو اس کے ساتھ مسلمان اپنی دینی تعلیم نہ بھُلا بیٹھیں۔ کیونکہ آپ کو یہ خطرہ محسوس ہوگیاتھا کہ اگر مسلمان علم دین سے بے بہرہ ہوگئے تو اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گے۔

یہی وجہ تھی کہ آپ نے تحریک ترک موالات کے سلسلے میں ١٩٢٠ء میں ایک جامع فتویٰ دے کر دوقومی نظریئے کی بنیاد ڈال دی اور آپ کے فتوے ہی کی بناء پر علامہ اقبال نے ٢١نومبر ١٩٢٠ء میں انجمن حمایت الاسلام کے جلسہ میں انجمن کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور فرمایا:

”میں ہر معاملہ کو مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتا ہوں اور مسلمانوں کو بتادینا چاہتاہوں کہ اگر وہ شریعت کے احکام پر نہ چلے تو ہندوستان میں ان کی حیثیت بالکل تباہ ہوجائے گی۔”


امام احمدرضا خان نے اپنی جملہ تصانیف میں کئی جگہ جن اسلامی سیاسی افکار اور تنظیماتِ عامہ کو بھی بیان کیا ہے عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق ان افکار اور نظریات کو مربوط کیا جائے اور فروغ دیاجائے تاکہ امت اسلامیہ اپنے اس ورثہ علمیہ کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اپنے روشن مستقبل کے لئے ایک مستحکم ومضبوط لائحہ عمل بھی تیار کرسکے۔


امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ ایک مقلد تھے ۔ آپ کا مسلک حنفی تھا لیکن آپ ایسے مقلد تھے جس کی تقلید کے دامن میں اجتہاد کی وسعتیں اپنی تمام ترگہرائیوں کے ساتھ سمٹ کر آگئی تھیں۔ وہ مجدد تھے لیکن ایسے مجدد کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تجدد نے علم وفکر کے ان گوشوں تک صاحبان طلب کوپہنچایاجو رہنمائی کی نایابی کے باعث مجبور ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ اسلاف پرستی اور شخصی عظمتوں کے اعتبارات علم وفضل نے تحقیق وتجسس، تفحص وتفکر کے راستوں پر اعتماد ویقین کے ایسے دبیز پر دے ڈال دیئے تھے کہ نئے راستے ہی نہیں بلکہ قدیم راستے بھی چھُپ گئے تھے اور مدتوں سے قدم ناآشنابن چکے تھے۔”
ماشاء اللہ! جو چیز اس مضمون میں خلاصہ کرکے بیان کی گئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو پھیلایا جائے۔ اس کو بتایا جائے کہ یہ چیز ہے جو اعلیٰ حضرت کرنا چاہتے تھے۔


ایک بات عرض کرتاچلوں کہ ١٨٩٧ء کے بعد بر صغیر پاک وہند میں ملت اسلامیہ کی نشاۃ الثانیہ میں جب اکابر نے حصہ لیا ان میں حضرت امام احمدرضا خان بھی شامل ہیں۔ اس دور میں مسلمان نہ صرف یہ کہ سیاسی محاذ پر ہزیمت کا شکار ہوچکے تھے، نہ صرف سلطنت سے محرومی ان کا خاص مسئلہ تھا بلکہ یہ ایک بڑا تہذیبی حادثہ بھی تھا جس کا انہیں سامنا تھا اور معلوم کچھ ایسا ہوتا تھا کہ شاید اس خطہ ارض میں بھی مسلمانوں کا وہی حشر ہونے والا ہے جو سرزمین ہسپانیہ میں ہوچکا تھا۔ ان کے دشمن صرف نئے حکمران (فرنگی) ہی نہ تھے بلکہ ان کے ساتھ آنے والے وہ عیسائی مبلّغین بھی تھے جو سارے ملک کو عیسائی بنانا چاہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش اور ابتلاکے دور میں اپنے بندوں میں سے ہی بعض کو یہ نعمت نصیب کی کہ وہ اپنی تحریر وتقریر اور عمل سے اس سیلاب کا مقابلہ کریں اور مسلمانوں کو ایک طرف انگریزوں اور کالے پادریوں کی یلغار سے بچائیں اور دوسری طرح ان تحریکات کا مقابلہ کریں جو ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ہندودھرم میں داخل ہونے کے لئے شروع کی گئی تھیں اور جن کو برطانوی حکومت اور ان کے کارندوں کی تائید حاصل تھی۔ ان ہی بزرگوں میں سرسید سے لے کر اقبال ، قائد اعظم تک زندگی کے ہر میدان میں خواہ سیاست ہو، آزادی کے لے جدوجہد ہویا دین مبین کے استحکام کے لئے جدوجہد ہو علمائے کرام کا بھی نمایاں کردار رہاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلام پر ایسا وقت آیاہے تو ان علماء نے ہی اپنے علم ویقین ، اپنے اجتہاد اور کردار سے وہ فرض ادا کیاہے جس کا ایک حدیث شریف میں یوں ذکر ہے کہ میری امّت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء جیسے ہیں۔
حضرات!
مجھے اس کے اعتراف میں قطعاً تامل نہیںکہ علم دین کے بارے میں ، میں طفل مکتب بھی نہیں۔ لہٰذا ان علوم کے سلسلے میں یا ان کے تناظر میں میں امام احمدرضا خان کی زندگی اور تصانیف کے اس پہلو پر گفتگوکا خودکو اہل نہیں پایا۔ لیکن جب میں آپ کی تصانیف کی طویل فہرست پر نظر ڈالتا ہوں تو اندازہ ہوتاہے کہ عالم کسے کہتے ہیں؟ اور صاحب تصانیف ہونے سے کیا عبارت ہے۔ آج کاد ور تخصیص کا ہے۔ اور تخصیص کا مطلب ہے کہ ایک علم کے ایک پہلو بلکہ اس پہلو کے ایک جزپر عالم کی توجہ رہتی ہے اور علم کے بحرذخار میں اس کی حقیقت اور حیثیت ایک قطرہ سے بھی کم ہوتی ہے ۔ ایک ایسا شخص جو بیک وقت عالم دین ہو، فقیہ ہو، مذاہب اربعہ پر عبور رکھتا ہو، حدیث پر ایسی نظر ہوکہ جو اس دور میں صرف انگلیوں پر گننے والے چند بزرگوں کا حصہ ہو۔ وہ جو بارہ جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ تصنیف کرے اور ساتھ ہی علوم جدیدہ میں علم ہندسہ ، علم ہیئت، ریاضی ، طبیعات، طبقات الارض ، فلکیات ، علم مناظرہ، جغرافیہ، جبرو مقابلہ اور علم طب پر بیک وقت عالمانہ بحث پر قادر ہو، ایک نابغہ روزگار ہی ہوسکتاہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے ساتھ ان کے علوم کی تاریخ اور ان کے علمی کارناموں پر بھی پردے پڑگئے۔ آج ہماری جدید تعلیم جسے ہم نے تعلیم کانام دے رکھا ہے اور جس کی اصلاح کے لئے ہم کتنے کمیشن، کمیٹیاں اور مجالس قائم کرچکے، کتنی تجاویز پیش کرچکے، کتنے کاغذسیاہ کرچکے، ایک بھی عالم پیدانہ کرسکے اگر کہیں کسی مدرسہ میں یا خانقاہ میں کوئی اہل علم اور اہل دل باقی ہے تو وہ اس تعلیم جدید کا ثمر نہیں۔ ہمارے اسلاف کی یاد گار اور اس نظام تعلیم سے فیض یافتہ ہے جس کا ایک نمونہ امام احمدرضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ملتاہے۔

ان میں ہر جہت اور ہر پہلو ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے کہ اسلامی علوم وفنون کے ان شعبوں کے تناظر میں امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کارناموں کا تجزیہ کیاجائے اور موجودہ نسل کو ان کی علمی تاریخ اور دینی ورثہ سے روشناس کرایا جائے۔ خاص کر وہ علوم جن کے بارے میں یہ غلط فہمی صرف عوام الناس ہی میں نہیں بلکہ طبقہئ خواص میں بھی پائی جاتی ہے کہ یہ علوم ہمیں اہل مغرب کی بدولت حاصل ہوئے حالانکہ جس وقت یورپ کی اقوام قرونِ وسطیٰ کی جہالت میں مبتلا تھیں مسلمانوں کے دارالعلوم بغداد سے غرنا طہ اور قرطبہ تک پھیلے ہوئے تھے۔
ان بنیادوں کو ہم نے فراموش کردیا اور اغیار نے ان پر وہ عالیشان عمارتیں تعمیر کرلیں جن کو دیکھ کر آج ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ اور اپنی جہالت ، پس ماندگی کا احساس ہوتاہے۔

غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ ور روشن کند چشم زلیخا را

جامعہ کراچی کے مختلف شعبہ جات بالخصوص شعبہ اسلامک اسٹڈیز، اردو ڈیپارٹمنٹ اور دیگر شعبہ جات میں مولانا فاضل بریلوی کے حوالے سے تحقیقی کام کاآغاز ہوچکا ہے اور اب تک کئی طالب علم پی،ایچ،ڈی کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

 

رضا

معطل
بعض علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو عاشق رسول بننا چاہے۔اپنے دل میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کو مزید بڑھانا چاہے تو اسے چاہے کہ وہ اعلی حضرت کے نعتیہ دیوان "حدائق بخشش" کا مطالعہ کرے۔
آہ! کس وقت لگی پھانس الم کی دل میں
کہ بہت دور رہے خار مغیلان عرب (حدائق بخشش)
آہ! یعنی افسوس میرے دل میں الم کی پھانس(لکڑی کا باریک ٹکڑا) کس وقت لگی دل میں۔
کہ مجھ سے مدینے کے کانٹے بہت دور رہ گئے ہیں۔اگر میرے پاس مدینے کے کانٹے ہوتے تو اپنے دل سے الم کی پھانس نکال لیتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جی رضا آپ نے صحیح فرمایا۔ امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری عشق رسول میں ڈوبی ہوئی ہے۔
رونق بزم جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ​
 

فر حان

محفلین
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا​

کیا بات میرے پیر و مرشد سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی
سبحان اللہ فیصان رضا آج تک جاری ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
رونقِ بزمِ جہاں ہے عاشقانِ سوختہ
کہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ

جس کو قرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو
ان کے خوانِ جود سے ہے ایک نانِ سوختہ

ماہِ من یہ نیرِ محشر کی گرمی تابکے
آتشِ عصیاں میں خود جلتی ہے جانِ سوختہ

برقِ انگشتِ نبی چمکی تھی اس پر ایک بار
آج تک ہے سینہِ مہ میں نشانِ سوختہ

مہرِ عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روز
بیشِ ذراتِ مزار بیدلانِ سوختہ

کوچہ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم
بال وپر افشاں ہوں یارب بلبلانِ سوختہ

بہر حق اے بحر رحمت اک نگاہ لطف بار
تابکے بے آب تڑپیں ماہیانِ سوختہ

روکش خورشید محشر ہو تمہارے فیض سے
اک شرار سینہ ٴ شیدائیانِ سوختہ

آتش تر دامنی نے دل کئے کیا کیا کباب
خضر کی جان ہو جِلا دو ماہیانِ سوختہ

آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کیلئے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ

لطف برق جلوہٴ معراج لایا وجد میں
شعلہ جوالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ

اے رضا مضمون سوزِ دل کی رفعت نے کیا
اس زمینِ سوختہ کو آسمانِ سوختہ
 
بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا
لمعہءِ باطن میں گمنے جلوہ ءِ ظاہر گیا

تیری مرضی پا گیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا

بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا

بندھ گئی ہوا سا وہ میں خاک اڑنے لگی
بڑھ چلی تیری ضیا آتش پہ پانی پھر گیا

تیری رحمت سے صفی اللہ کا بیڑا پار تھا
تیرے صدقے سے نجی اللہ کا بجرا تِر گیا

تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھرا کر گر گیا

مومن ان کا کیا ہوا اللہ اس کا ہو گیا
کافر ان سے کیا پھرا اللہ ہی سے پھر گیا

وہ کہ اس در کا ہوا اللہ اس کا ہو گیا
وہ کہ اس در سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا

مجھ کو دیوانہ بتاتے ہو میں وہ ہشیار ہوں
پاﺅں جب طوف حرم میں تھک گئے سر پھر گیا

رحمة للعالمین آفت میں ہوں کیسی کروں
میرے مولیٰ میں تو اس دل سے بلا میں گھر گیا

میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منہ پھر گیا

کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جام شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ بھر گیا

ق واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنی مرے
یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا

عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا
فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب و طاہر گیا

اللہ اللہ یہ علوِ خاص عبدیت رضا
بندہ ملنے کو قریب حضرت قادر گیا

ٹھوکریں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضا اوّل گیا آخر گیا

احمد رضا خان بریلوی
 
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز
بحیثیت ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی
(شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی)


(یہ مقالہ امام احمد رضا کانفرنس ٢٠٠٧ء میں پڑھا گیا)​


آپ چودہویں صدی ہجری کے ایک بلند پایہ فقیہہ ،سائنس دان ، بہترین نعت گو ، صاحب شریعت وصاحب طریقت بزرگ تھے۔ آپ کے علم و مقام کا اندازہ اس بات سے لگا یاجاسکتا ہے کہ آپ تقریباً 54 علوم وفنون پرمکمل دسترس رکھتے تھے اور ان علموں میں سے ہر فن میں آپ نے کوئی نہ کوئی تصنیف یاد گار ضرور چھوڑی ہے۔ ان تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے زائد بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے مشہور کتابوں پربے شمار حواشی تحریر فرمائے ہیں۔ ان کی تصانیف میں قرآن حکیم کے ترجمے کے علاوہ بارہ ہزار صفحات پر مشتمل ”فتاویٰ رضویہ” ایک شاہکار کی حیثیت رکھتاہے۔ ”فتاویٰ رضویہ” دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو علم ادب اور فقہ وحدیث پرکتنا عبور حاصل تھا۔ حتیٰ کہ علماء عرب بھی آپ کی علمی قابلیت کے معترف تھے۔

امام احمدرضا خان نے بلا کا حافظہ پایا تھا۔ آپ نے صرف ایک ماہ کے عرصہ میں قرآن پاک حفظ کرلیاتھا۔ دینی علوم کے علاوہ امام احمدرضا خان کو سائنسی علوم پر بھی پوری مہارت حاصل تھی۔
ماہر ریاضیات تھے، جب ان کے سامنے ریاضی کا ایک پیچیدہ سوال آیا تو اس کو مولانا امام احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے باآسانی حل کردیا۔

مولانا کی شخصیت ایک پہلودار شخصیت تھی جس کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔لیکن ان امتیازی وصف میں جودوسرے تمام فضائل وکمالات سے بڑھ کر ہیں وہ ”عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ” ہے ۔ ان کی تصانیف وتالیفات میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ یہی حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ترجمہ قرآن کریم ہویا تشریح احادیث ، فقہ کی باریک بینی ہو یا شریعت و طریقت کی بحث ہو یا نعتیہ شاعری ، ہرجگہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے ۔ ان کی نعتیہ شاعری کو ہی لے لیجئے یہ کوئی رسمی اور روایتی شاعری نہیں ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی شاعری ہے۔ جس کے افکار کا محور ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ آپ کے شعری مجموعہ ”حدائق بخشش” کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ آپ کی ذات عشق مصطفی سے عبارت تھی۔ آپ کی نظموں اور غزلوں کا ایک ایک حرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت گو شعراء میں کوئی شاعر علم وفضل اور زُہد وتقویٰ میں مولانا امام احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کا ہم پلہ نہیں ہے۔

مولانا کی شخصیت کا دوسرا نمایاں پہلوجس نے آپ کو منفرد مقام عطاکیا۔ وہ آپ کا متبحر فقہی علم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ان علوم وفنون پر مکمل دسترس رکھتے تھے جو ایک فقیہہ کے لئے ضروری ہے۔ آپ میں استدلال واستنباط کا وہ ملکہ موجودتھا ۔ جو ایک مجتہد کے لئے ضروری ہے۔ اس کی شہادت ان کے فتوؤں کا مجموعہ ہے۔یہی وہ مجموعہ ہے جس کے مطالعے کے بعد جناب علامہ اقبال نے کہاتھا کہ ”اگر مولانا میں شدت نہ ہوتی تو وہ اپنے زمانے کے امام ابو حنیفہ ہوتے۔”

علامہ اقبال کے اس قول سے حضرت مولانا امام احمدرضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے ایک اور پہلوپر روشنی پڑتی ہے۔ یعنی ان کی شدت اور سختی۔ اگرہم مولانا کی زندگی کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ جس شدت کا علامہ اقبال تذکرہ کررہے ہیں۔ وہ مولانا کی زندگی میں ان کے ذاتی معاملات میں نہ تھی بلکہ شدت کا یہ اظہار وہ دشمنان دین کے مقابلے پر کرتے تھے جو قرآنی تعلیمات ”اشد آء علی الکُفّار” کے عین مطابق ہے اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود علامہ اقبال فرماتے ہیں :

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

حضرت مولانا امام احمدرضا خان کا ایک اہم کارنامہ یہ تھا کہ آپ اسلام کی برتری اور مسلمانان ہندکی بہتری کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہے اور قلمی جہاد کرتے رہے۔ آپ میں امت مسلمہ کی اصلاح کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مسلم لیگ نے بعد میں دوقومی نظریہ پیش کیا۔ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ بہت پہلے اس طرف اشارہ کرچکے تھے۔ اپنی سیاسی بصیرت کے پیش نظر وہ ہندو مسلم اتحاد کے سخت مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاملات، روز مرہ کے لین دین اور تعلقات ومراسم کی بات مختلف ہے۔ اپنی ایک تصنیف (المحجۃ المؤتمنہ فی آیاۃ الممتحنہ) میں انہوں نے صراحت سے بیان کیا کہ ترک موالات کے ساتھ ساتھ جو ہندومسلم اتحاد کا نعرہ لگایاجارہاتھا وہ غیر شرعی ہے۔ اگر چہ مولانا قیام پاکستان تک زندہ نہ رہے لیکن اپنی تحریروں اور تبلیغ سے قیام پاکستان کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ہزاروں علماء کی ایک ٹیم ضرور تیار کر گئے۔

آج جامعہ کراچی سمیت کئی ملکی وبیرونی جامعات میں امام موصوف کی نعتیہ شاعری اور دیگر فنون سے متعلق تحقیقی مقالات لکھے جارہے ہیں ۔ اور جامعہ کراچی شعبہ اسلامیہ ہی سے ان کی علمی، دینی، تفسیری ، فقہی خدمات پر پی ایچ ڈی کی اسناد دی جاچکی ہیں ، اور کئی مقالے زیر ترتیب ہیں۔ معاشرہ کی تشکیل نوکے لئے آپ نے انگریز اور ہندوؤں کے رسم و رواج کا سختی سے ردکیا اور مسلمانوں کو دینی شعائر پر قائم رہنے کی تلقین فرمائی ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھی راغب کیا چنانچہ آپ ایک جگہ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں۔ ”غیردین کی ایسی تعلیم جوجملہ مفاسد سے پاک ہو مثلاً ریاضی، ہندسہ، حساب، جبر، مقابلہ اور جغرافیہ ضروریات دینیہ سیکھنے کے بعد سیکھنے کی کوئی ممانعت نہیں خواہ کسی بھی زبان میں ہواور نفس زبان کا سیکھنا کوئی حرج رکھتاہی نہیں۔”

مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور تشخص کو اس وقت زبردست دھچکا لگا جب آج سے سو سال قبل انگریزوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہند کی معیشت پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس پر آشوب دور میں اللہ رب العزت نے برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت امام احمدرضا خان جیسی باصلاحیت اور مدبرانہ قیادت سے نوازا، آپ کی تصانیف اور تبلیغی کاوشوں نے شکست خور دہ قوم میں ایک فکری انقلاب برپاکردیا۔ آج کامنتشر ماحول بھی ہم سے تعلیمات امام احمدرضا پر غور و فکر کرنے کامتقاضی ہے۔

یوں تو اسلام علم وفن کے ہر شعبے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس کی تعمیر وترقی کاداعی بھی ہے لیکن ایسے علوم کی اہمیت زیادہ ہے جس کا تعلق انسان کے فکروعمل سے ہو کیوں کہ فکر وعمل کے اثرات ہی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر انتہائی گہرے ہوتے ہیں۔

بلاشبہ قانون کی تشریح کرنااور اصولوں کی روشنی میں قانون بنانا بڑا مشکل کام ہے اور اس کام کو وہی حضرات بطریق احسن انجام دے سکتے ہیں جو بہتر ین صلاحیتوں کے حامل ہوں۔ گونا گوں علوم وفنون میں مہارت رکھتے ہوں اور قوت استدلال اور جدید وقدیم مسائل کے ادراک کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مالک بھی ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیاد قائم کردی ہے لیکن اس بنیاد کی روشنی میں مجتہد انہ غور وفکر اور بصیرت کے ذریعہ مسائل کاقابل عمل حل پیش کرنا معمولی ذمہ داری نہیں۔
میں عرض کررہاتھا کہ فقہ کے بارے میں، فقہ کے میدان میں آپ کے فتاویٰ فقہ اسلامی کا وہ عظیم الشّان کارنامہ ہیں جو آپ کو مجتہد کے درجہ پر فائز کرنے کے لئے کافی ہیں۔
آپ کے علمی کارناموں کا دوسرا رُخ آپ کے پیش کردہ معاشی نکات ہیں جو آپ نے ١٩١٢ء میں وہ چار نکات پیش کئے کہ جن پر اگر ہمارے اکابر بروقت توجہ فرماتے، تو مسلمان ١٩٤٧ء سے قبل ہی انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرلیتے بلکہ آج پورے برصغیر کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی۔ آپ نے ان چارنکات کااعلان کرتے ہوئے فرمایا:

٭ مسلمان اپنے دین کی اشاعت کی طرف توجہ دیں۔
٭ فضول خرچی نہ کریں اور مقدمات پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح نہ بہائیں۔
٭ مسلمان صرف مسلمان تاجروں سے خرید وفروخت کریں۔
٭ اہلِ اسلام مسلمانوں کے لئے اسلامی طرز پر بینکاری کا نظام قائم کریں۔



اعلیٰ حضرت کے یہ نکات مسلمانوں کی معاشی اصلاح کے لئے تھے تاکہ وہ اپنے دین کی روشنی میں معاشی استحکام حاصل کرلیں جس کے نتیجے میں وہ سیاسی طورپرقوت حاصل کر لیں گے۔ کیوں کہ اس بات سے ہم انکار نہیں کرسکتے کہ تقسیم سے قبل مسلمان اقلیت ہونے کے باوجود بعض علاقوں خاص کر یوپی میں گاؤں کے مالک ہوتے تھے جس بناء پر ان کا وہاں کی آبادی پر سیاسی اثرہوتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے فوراً بعد ہندوستان کے وزیر داخلہ پٹیل نے زمینداری کے خاتمے کا اعلان کرکے مسلمانوں کی اقتصادی قوت کو ختم کردیا۔


اعلیٰ حضرت نے 1912ء میں مسلمانوں کے لئے الگ بینکاری کی جوتجویز پیش کی تھی وہ اس لئے کہ اس وقت صرف انگریز اور ہندوبینکاری کرتے تھے۔ مسلمان زمیندار ان اس طرح اپنے علاقے میں اپنا سیاسی اثر بھی زائل کردیتے ۔ نیز سیاسی استحکام ہی وہ واحد حربہ ہے جو کسی بھی قوم کو سیاسی قوت بخشتا ہے۔ امریکہ کے حالات ہمارے سامنے ہیں کہ یہودی معیشت پر غالب ہونے کی وجہ سے امریکہ جیسی طاقتور حکومت سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں اور عرب ممالک معاشی قوت کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔


علم دین کی اشاعت کی طرف اعلیٰ حضرت نے اس لئے توجہ دلائی کہ اگر مسلمان مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی پر توجہ نہیں دیں گے تو یہی ترقی ان کے لئے تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ خاص کر اعلیٰ حضرت کا مقصد یہ تھاکہ انگریزی تعلیم اگر حاصل کرنا ضروری ہے تو اس کے ساتھ مسلمان اپنی دینی تعلیم نہ بھُلا بیٹھیں۔ کیونکہ آپ کو یہ خطرہ محسوس ہوگیاتھا کہ اگر مسلمان علم دین سے بے بہرہ ہوگئے تو اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گے۔

یہی وجہ تھی کہ آپ نے تحریک ترک موالات کے سلسلے میں ١٩٢٠ء میں ایک جامع فتویٰ دے کر دوقومی نظریئے کی بنیاد ڈال دی اور آپ کے فتوے ہی کی بناء پر علامہ اقبال نے ٢١نومبر ١٩٢٠ء میں انجمن حمایت الاسلام کے جلسہ میں انجمن کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے مسلمانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور فرمایا:

”میں ہر معاملہ کو مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتا ہوں اور مسلمانوں کو بتادینا چاہتاہوں کہ اگر وہ شریعت کے احکام پر نہ چلے تو ہندوستان میں ان کی حیثیت بالکل تباہ ہوجائے گی۔”


امام احمدرضا خان نے اپنی جملہ تصانیف میں کئی جگہ جن اسلامی سیاسی افکار اور تنظیماتِ عامہ کو بھی بیان کیا ہے عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق ان افکار اور نظریات کو مربوط کیا جائے اور فروغ دیاجائے تاکہ امت اسلامیہ اپنے اس ورثہ علمیہ کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اپنے روشن مستقبل کے لئے ایک مستحکم ومضبوط لائحہ عمل بھی تیار کرسکے۔


امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ ایک مقلد تھے ۔ آپ کا مسلک حنفی تھا لیکن آپ ایسے مقلد تھے جس کی تقلید کے دامن میں اجتہاد کی وسعتیں اپنی تمام ترگہرائیوں کے ساتھ سمٹ کر آگئی تھیں۔ وہ مجدد تھے لیکن ایسے مجدد کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تجدد نے علم وفکر کے ان گوشوں تک صاحبان طلب کوپہنچایاجو رہنمائی کی نایابی کے باعث مجبور ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ اسلاف پرستی اور شخصی عظمتوں کے اعتبارات علم وفضل نے تحقیق وتجسس، تفحص وتفکر کے راستوں پر اعتماد ویقین کے ایسے دبیز پر دے ڈال دیئے تھے کہ نئے راستے ہی نہیں بلکہ قدیم راستے بھی چھُپ گئے تھے اور مدتوں سے قدم ناآشنابن چکے تھے۔”
ماشاء اللہ! جو چیز اس مضمون میں خلاصہ کرکے بیان کی گئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو پھیلایا جائے۔ اس کو بتایا جائے کہ یہ چیز ہے جو اعلیٰ حضرت کرنا چاہتے تھے۔


ایک بات عرض کرتاچلوں کہ ١٨٩٧ء کے بعد بر صغیر پاک وہند میں ملت اسلامیہ کی نشاۃ الثانیہ میں جب اکابر نے حصہ لیا ان میں حضرت امام احمدرضا خان بھی شامل ہیں۔ اس دور میں مسلمان نہ صرف یہ کہ سیاسی محاذ پر ہزیمت کا شکار ہوچکے تھے، نہ صرف سلطنت سے محرومی ان کا خاص مسئلہ تھا بلکہ یہ ایک بڑا تہذیبی حادثہ بھی تھا جس کا انہیں سامنا تھا اور معلوم کچھ ایسا ہوتا تھا کہ شاید اس خطہ ارض میں بھی مسلمانوں کا وہی حشر ہونے والا ہے جو سرزمین ہسپانیہ میں ہوچکا تھا۔ ان کے دشمن صرف نئے حکمران (فرنگی) ہی نہ تھے بلکہ ان کے ساتھ آنے والے وہ عیسائی مبلّغین بھی تھے جو سارے ملک کو عیسائی بنانا چاہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش اور ابتلاکے دور میں اپنے بندوں میں سے ہی بعض کو یہ نعمت نصیب کی کہ وہ اپنی تحریر وتقریر اور عمل سے اس سیلاب کا مقابلہ کریں اور مسلمانوں کو ایک طرف انگریزوں اور کالے پادریوں کی یلغار سے بچائیں اور دوسری طرح ان تحریکات کا مقابلہ کریں جو ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ہندودھرم میں داخل ہونے کے لئے شروع کی گئی تھیں اور جن کو برطانوی حکومت اور ان کے کارندوں کی تائید حاصل تھی۔ ان ہی بزرگوں میں سرسید سے لے کر اقبال ، قائد اعظم تک زندگی کے ہر میدان میں خواہ سیاست ہو، آزادی کے لے جدوجہد ہویا دین مبین کے استحکام کے لئے جدوجہد ہو علمائے کرام کا بھی نمایاں کردار رہاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلام پر ایسا وقت آیاہے تو ان علماء نے ہی اپنے علم ویقین ، اپنے اجتہاد اور کردار سے وہ فرض ادا کیاہے جس کا ایک حدیث شریف میں یوں ذکر ہے کہ میری امّت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء جیسے ہیں۔
حضرات!
مجھے اس کے اعتراف میں قطعاً تامل نہیںکہ علم دین کے بارے میں ، میں طفل مکتب بھی نہیں۔ لہٰذا ان علوم کے سلسلے میں یا ان کے تناظر میں میں امام احمدرضا خان کی زندگی اور تصانیف کے اس پہلو پر گفتگوکا خودکو اہل نہیں پایا۔ لیکن جب میں آپ کی تصانیف کی طویل فہرست پر نظر ڈالتا ہوں تو اندازہ ہوتاہے کہ عالم کسے کہتے ہیں؟ اور صاحب تصانیف ہونے سے کیا عبارت ہے۔ آج کاد ور تخصیص کا ہے۔ اور تخصیص کا مطلب ہے کہ ایک علم کے ایک پہلو بلکہ اس پہلو کے ایک جزپر عالم کی توجہ رہتی ہے اور علم کے بحرذخار میں اس کی حقیقت اور حیثیت ایک قطرہ سے بھی کم ہوتی ہے ۔ ایک ایسا شخص جو بیک وقت عالم دین ہو، فقیہ ہو، مذاہب اربعہ پر عبور رکھتا ہو، حدیث پر ایسی نظر ہوکہ جو اس دور میں صرف انگلیوں پر گننے والے چند بزرگوں کا حصہ ہو۔ وہ جو بارہ جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ تصنیف کرے اور ساتھ ہی علوم جدیدہ میں علم ہندسہ ، علم ہیئت، ریاضی ، طبیعات، طبقات الارض ، فلکیات ، علم مناظرہ، جغرافیہ، جبرو مقابلہ اور علم طب پر بیک وقت عالمانہ بحث پر قادر ہو، ایک نابغہ روزگار ہی ہوسکتاہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے ساتھ ان کے علوم کی تاریخ اور ان کے علمی کارناموں پر بھی پردے پڑگئے۔ آج ہماری جدید تعلیم جسے ہم نے تعلیم کانام دے رکھا ہے اور جس کی اصلاح کے لئے ہم کتنے کمیشن، کمیٹیاں اور مجالس قائم کرچکے، کتنی تجاویز پیش کرچکے، کتنے کاغذسیاہ کرچکے، ایک بھی عالم پیدانہ کرسکے اگر کہیں کسی مدرسہ میں یا خانقاہ میں کوئی اہل علم اور اہل دل باقی ہے تو وہ اس تعلیم جدید کا ثمر نہیں۔ ہمارے اسلاف کی یاد گار اور اس نظام تعلیم سے فیض یافتہ ہے جس کا ایک نمونہ امام احمدرضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ملتاہے۔

ان میں ہر جہت اور ہر پہلو ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے کہ اسلامی علوم وفنون کے ان شعبوں کے تناظر میں امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے کارناموں کا تجزیہ کیاجائے اور موجودہ نسل کو ان کی علمی تاریخ اور دینی ورثہ سے روشناس کرایا جائے۔ خاص کر وہ علوم جن کے بارے میں یہ غلط فہمی صرف عوام الناس ہی میں نہیں بلکہ طبقہئ خواص میں بھی پائی جاتی ہے کہ یہ علوم ہمیں اہل مغرب کی بدولت حاصل ہوئے حالانکہ جس وقت یورپ کی اقوام قرونِ وسطیٰ کی جہالت میں مبتلا تھیں مسلمانوں کے دارالعلوم بغداد سے غرنا طہ اور قرطبہ تک پھیلے ہوئے تھے۔
ان بنیادوں کو ہم نے فراموش کردیا اور اغیار نے ان پر وہ عالیشان عمارتیں تعمیر کرلیں جن کو دیکھ کر آج ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ اور اپنی جہالت ، پس ماندگی کا احساس ہوتاہے۔

غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ ور روشن کند چشم زلیخا را

جامعہ کراچی کے مختلف شعبہ جات بالخصوص شعبہ اسلامک اسٹڈیز، اردو ڈیپارٹمنٹ اور دیگر شعبہ جات میں مولانا فاضل بریلوی کے حوالے سے تحقیقی کام کاآغاز ہوچکا ہے اور اب تک کئی طالب علم پی،ایچ،ڈی کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔


مقالہ بہت اچھا ہے ماشا اللہ۔ الحمد للہ حدائقِ بخشش کے حوالے سے میرا ایک تحقیقی مقالہ ایچ ای سی کے منظور شدہ رسالے میں زیرِ طباعت ہے ۔ طباعت ہوتے ہی میں بھی یہاں شئیر کروں گا۔
 

اے خان

محفلین
آج کل تو ہر کوئی عاشق رسول بنا ہوا ہے. لیکن ایک کام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سنت کے مطابق نہیں. ہر کوئی زبان سے کہہ رہا ہے.
 
آج کل تو ہر کوئی عاشق رسول بنا ہوا ہے. لیکن ایک کام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سنت کے مطابق نہیں. ہر کوئی زبان سے کہہ رہا ہے.
خیر اب ایسا بھی بیڑا غرق نہیں ہے۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ دعوی کرنے والے بہت زیادہ ہیں لیکن عمل کرنے والے کم۔
دعوت اسلامی کی تحریک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کے حوالے سے بہت زور دیا جاتا ہے اور وہاں وابستہ افراد عمل بھی کرتے ہیں۔
 

اے خان

محفلین
خیر اب ایسا بھی بیڑا غرق نہیں ہے۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ دعوی کرنے والے بہت زیادہ ہیں لیکن عمل کرنے والے کم۔
دعوت اسلامی کی تحریک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کے حوالے سے بہت زور دیا جاتا ہے اور وہاں وابستہ افراد عمل بھی کرتے ہیں۔
سچا عاشق وہی ہوتا ہے جو محبوب کی پیروی کرے.
ہم تو بڑے جوش و خروش سے میلاد مناتے ہیں. سیاست دانوں کی طرح بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں.کہ آل نبی پر جان و مال قربان. لیکن عملی طور پر ہم زندگی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق نہیں گزارتے. آج ہم جیسے مسلمانوں کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام جیسے خوبصورت دین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے.
اور ہم ہیں کہ عاشق رسول ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں.
 

اے خان

محفلین
اللہ تعالٰی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ساری سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
 
Top