اردو دانے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں اس دھاگے میں اردو زبان و بیان کے ان چھوٹے چھوٹے مسائل پر مختصر گفتگو کروں گا کہ جو عام طور پر نو آموز لکھنے والوں کو پیش آتے ہیں ۔ مثلاً رموزِ اوقاف ، فعل کی گردانیں ، کہ اور کے کا فرق اور اسی طرح کی اور باتیں ۔ کوشش ہوگی کہ اختصار کے ساتھ ان باتوں کو واضح کردیا جائے ۔ تاہم اگر کوئی بات تشریح طلب رہ جائے تو سوالات کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

نوٹ: اختصار کی خاطر اہم نکات کو سرخ رنگ سے نشان زد کردیا گیا ہے ۔ مصروف قارئین صرف سرخ رنگ کی سطور کو بھی پڑھ سکتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ترکیبِ عطفی
فارسی یا عربی کے دو لفظ جب حرفِ عطف "و" کے ذریعے ملا دیے جائیں تو اسے مرکبِ عطفی کہتے ہیں۔ مثلاً روز و شب ، قلب و جگر ، حسن و عشق ، نان و نمک ، طنز و مزاح وغیرہ ۔
حرفِ عطف سے پہلے والے لفظ کو معطوف علیہ اور بعد والے کو معطوف کہتے ہیں ۔ عطفی ترکیب صرف عربی اور فارسی الفاظ کے درمیان بنائی جاتی ہے ۔ اگرچہ کچھ اردو دانوں نے ہندی اور فارسی/عربی الفاظ کو باہم مرکب کرنے کی سعی کی ہے ۔ شان الحق حقی اس کشادگی کے قائل تھے۔

ترکیبِ عطفی میں معطوف علیہ اور معطوف ہم معنی اور ہم قبیل بھی ہوسکتے ہیں اور باہم متضاد اور بے جوڑ بھی ہوسکتے ہیں ۔

ہم معانی الفاظ پر مشتمل تراکیب عموماً کلام میں زور اور تاکید کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ۔مثلاً: رنج و غم ، خوش و خرم ، خس و خاشاک ، اعلیٰ و ارفع ، رحم و کرم ، قد و قامت ، جنگ و جدل ، صبر و تحمل وغیرہ

ہم قبیل یا ہم جنس الفاظ پر مشتمل تراکیب ایک خاص مضمون یا موضوع کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور عموماً علامت یا استعارے کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں ۔ مثلاً ۔ تعلیم و تعلم ، صنعت و حرفت، آب و دانہ ، شعر و ادب ، راز و نیاز ، لوح و قلم ، زمان و مکان ، حسن و عشق ، شراب و کباب ، در و دیوار وغیرہ

متضاد الفاظ پر مشتمل تراکیبِ عطفی عموماً کسی چیز یا مضمون کی وسعت اور حدود کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ۔ مثلاً : شب و روز ، مرد و زن ، حیات و ممات ، زمین و آسمان ، ارض و سما ، زیر و زبر ، دیر و حرم ، بحر و بر وغیرہ
بعض اوقات اختصار کی خاطر عطفی ترکیب میں بے جوڑ یا غیر متعلق الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلاً غیرت و عظمت ، سیاست و صحافت ، محنت و ذہانت ،
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نوٹ: اختصار کی خاطر اہم نکات کو سرخ رنگ سے نشان زد کردیا گیا ہے ۔ مصروف قارئین صرف سرخ رنگ کی سطور کو بھی پڑھ سکتے ہیں ۔


اضافتی تراکیب

فارسی الاصل ہونے کی وجہ سے اضافتی ترکیب کو فارسی ترکیب بھی کہا جاتا ہے۔
بنانے کا طریقہ:
پہلے لفظ کے آخر میں اضافت یا کسرہ داخل کیا جاتا ہے۔ جیسے خیالِ یار ، سکوتِ شب ، اہلِ علم ، ماہِ تمام ، شبِ تاریک وغیرہ ۔
جو الفاظ الف اور واؤ پر ختم ہوتے ہیں ان پر کسرہ کے بجائے “ئے“ داخل کرتے ہیں ۔ جیسے قبائے زر ، دعائے شب ، خوشبوئے خیال ، آرزوئے ناتمام وغیرہ۔
وہ الفاظ جو ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں ان پر ہمزہ (ء) لگایا جاتا ہے ۔ جیسے فسانۂ محبت ، بندۂ خدا ، کلمۂ کفر وغیرہ ۔
وہ الفاظ جو یائے معروف (ی)پر ختم ہوتے ہیں ان پر کسرہ لگایا جاتا ہے۔ جیسے ناتمامیِ شب ، گرانیِ عشق ، خرابیِ قسمت وغیرہ

(اہم نوٹ: اضافتی ترکیب صرف فارسی اور عربی الفاظ سے بنائی جاتی ہے اس ترکیب میں ہندی ، پنجابی ، انگریزی یا کسی اور زبان کے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔)

اردو میں اضافت کے استعمال سے بنائی جانے والی ترکیبیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ترکیبِ توصیفی اور ترکیبِ اضافی۔

(1) ترکیبِ توصیفی:
اس ترکیب میں پہلا لفظ موصوف اور دوسرا لفظ اس کی صفت ہوتا ہے۔ جیسے حسنِ لازوال ، شبِ تاریک ، آرزوئے ناتمام ، رتبۂ بلند ، قبائے، نقشِ کہن وغیرہ ۔ اس ترکیب کو پہچاننے کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ دونوں لفظوں کی ترتیب بدل دی جائے تو اس کے معنی واضح ہوجاتے ہیں ۔ جیسے دورِ جدید (جدید دور) ، نقشِ کہن ( کہن نقش) ، صدائے پست (پست صدا) ، علمِ ناقص (ناقص علم) ، دردِ پنہاں (پنہاں درد) وغیرہ ۔
صفت اور موصوف یک لفظی ہونے کے بجائے مرکب الفاظ بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً
(ا) دلِ شاداں و فرحاں ، شہرِ بے نام و نشاں ، مقامِ بلند و بالا ، گیسوئے مشکبار و خم دار ، حکایتِ سادہ و رنگیں ۔ ان میں صفت مرکبِ عطفی ہے۔
(ب) نقش و نگارِ سادہ ، تخت و تاجِ شاہی ، کلاہ و قبائے رنگیں ، منبر و محرابِ مقدس ۔ان تراکیب میں موصوف مرکبِ عطفی ہے۔

(2) ترکیبِ اضافی:
اس ترکیب میں پہلا لفظ مضاف اور دوسرا لفظ مضاف الیہ کہلاتا ہے ۔ یہ دونوں اسم ہوتے ہیں۔ اس ترکیب میں مضاف کو مضاف الیہ سے نسبت دی جاتی ہے۔ جیسے خیالِ یار (یار کا خیال) ، سکوتِ شب (شب کا سکوت) ، علمِ دین (دین کا علم) ، صدائے درد (درد کی صدا) ، فسانۂ محبت (محبت کا فسانہ) وغیرہ ۔ اضافی ترکیب کو پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مضاف الیہ کو مضاف سے پہلے بولا جائے اور دونوں کے درمیان "کا ، کے یا کی" لگا دیا جائے تو معنی واضح ہوجاتے ہیں۔ جیسے غمِ دل ( دل کا غم) تو مرکبِ اضافی ہے لیکن غمِ پنہاں (پنہاں غم) مرکبِ توصیفی ہے۔ اگر پنہاں کا غم کہیں تو کوئی معنی نہیں بنتے۔ شبِ غم (غم کی شب) مرکبِ اضافی ہے لیکن شبِ سیاہ (سیاہ شب) مرکبِ توصیفی ہے کیونکہ سیاہ کی شب کہنا بےمعنی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مضاف اور مضاف الیہ بھی مفرد لفظ کے بجائے مرکب عطفی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً
(ا) شامِ رنج و غم ، شدتِ جور و ستم ، فسانۂ گل و بلبل ، فریبِ رنگ و بو وغیرہ۔ ان تراکیب میں مضاف الیہ مرکب عطفی ہے۔
(ب) نقش و نگارِ الفت ، نام و نشانِ ہستی ، شب و روزِ ہجراں ، آہ و بکائے بیکس۔ ان تراکیب میں مضاف مرکبِ عطفی ہے۔

طویل اور پیچیدہ اضافتی تراکیب:
ایک سے زیادہ اضافی اور توصیفی مرکبات کو باہم ملا کر طویل اور پیچیدہ تراکیب تشکیل دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً نشانِ زخم ، زخمِ محبت اور محبتِ وطن کی ترکیبوں کے باہمی اشتراک سے نشانِ زخمِ محبت (محبت کے زخم کا نشان) اور نشانِ زخمِ محبتِ وطن (وطن کی محبت کے زخم کا نشان) کی طویل تراکیب بنائی جا سکتی ہیں۔ عام طور پر تین سے زیادہ لفظوں کی اضافتی تراکیب اپنی پیچیدگی کی وجہ سے اچھی نہیں سمجھی جاتیں اور شعر و ادب میں ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ طویل تراکیب کی کچھ مثالیں یہ ہیں:
1۔ نقش و نگارِ طاق + طاقِ نسیاں = نقش و نگارِ طاقِ نسیاں (طاقِ نسیاں کے نقش و نگار)
2۔ غبارِ شام + شامِ رنج و غم + رنج و غمِ ہجراں = غبارِ شامِ رنج و غمِ ہجراں (یعنی ہجراں کے رنج و غم کی شام کا غبار) ۔ یہاں تین مرکبِاتِ اضافی کو باہم جوڑ دیا گیا ہے۔
3۔ نقش و نگارِ پردہ + پردۂ شب + شبِ تاریک = نقش و نگارِ پردۂ شبِ تاریک (یعنی تاریک شب کے پردے کے نقش و نگار)۔ یہاں دو مرکباتِ اضافی اور ایک مرکبِ توصیفی کو باہم جوڑ کر ترکیب بنائی گئی ہے۔
4۔ قصۂ مردمان + مردمانِ آزاد + آزادِ قفس + قفسِ نان و نمک = قصۂ مردمانِ آزادِ قفسِ نان و نمک (یعنی نان و نمک کے قفس سے آزاد مردمان کا قصہ) ۔ یہاں دو مرکباتِ اضافی اور دو مرکباتِ توصیفی کو باہم جوڑ دیا گیا ہے
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فعل اور امدادی فعل

1۔ ریستوان کے باہر بہت ساری خواتین کھڑی ہوئیں تھیں اور زور زور سے ہاتھ ہلا رہیں تھیں ۔
2۔ سڑک پر رنگ برنگی گاڑیاں آگے پیچھے چلی جارہیں ہیں۔

اگر آپ کو مندرجہ بالا دو جملوں میں گرامر کی کوئی غلطی نظر نہیں آتی تو لازم ہے کہ آپ مندرجہ ذیل کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔

1۔ فعل کی حالت جملے میں فاعل اور مفعول کی جنس اور تعداد کے مطابق بدل جاتی ہے۔ مثلاً ۔
فاعل کے لحاظ سے: لڑکا اسکول گیا ، لڑکے اسکو ل گئے ، لڑکی اسکول گئی ، لڑکیاں اسکو ل گئیں
مفعول کے لحاظ سے: صابرہ نے پراٹھا کھایا ، صابرہ نے پراٹھے کھائے ، صابرہ نے خوبانی کھائی ، صابرہ نے خوبانیاں کھائیں

جب کسی فعل کے ساتھ ایک یا ایک سے زیادہ امدادی فعل استعمال کیے جائیں تو بنیادی فعل تو اپنی سادہ حالت میں رہتا ہے لیکن امدادی فعل کی حالت تبدیل ہوجاتی ہے۔
( عام طور پر استعمال ہونے والےامدادی افعال یہ ہیں : ہے ، ہیں ، ہو ، ہوں ، تھا ، تھی ، تھے ، تھیں ، گا ، گے ، گی وغیرہ)
چنانچہ اس مراسلے میں سب سے اوپر درج جملے درست صورت میں یوں ہوں گے:
1۔ ریستوان کے باہر بہت ساری خواتین کھڑی ہوئی تھیں اور زور زور سے ہاتھ ہلا رہی تھیں ۔
2۔ سڑک پر رنگ برنگی گاڑیاں آگے پیچھے چلی جارہی ہیں۔

یعنی صابرہ نے خوبانیاں کھائیں تھیں غلط ہے ۔ صابرہ نے خوبانیاں کھائی تھیں درست ہے۔ بنیادی فعل اپنی سادہ حالت میں رہتا ہے جبکہ امدادی فعل تجنیس و تعدید کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح فعلِ امر کی صورت مخاطب کے لحاظ سے بدل جاتی ہے ۔ اگر اس کا لحاظ نہ رکھا جائے تو شترگربہ کا عیب پیدا ہوجاتا ہے۔
تو یہاں آ ۔۔۔۔۔۔تُو یہاں آ کر بیٹھ
تم یہاں آؤ۔۔۔۔۔ تم یہاں آکر بیٹھو
آپ یہاں آئیے۔۔۔۔۔۔آپ یہاں آکر بیٹھیے
آپ یہاں آئیں ۔۔۔۔۔۔ آپ یہاں آکر بیٹھیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
رموزِ اوقاف​

تحریر کے ابلاغ میں علاماتِ اوقاف کی بڑی اہمیت ہے ۔ روکو مت ، جانے دو ۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ روکو! مت جانے دو ۔۔۔ کی مشہور مثال سے ہم سب واقف ہیں ۔ علاماتِ اوقاف کے درست اور برمحل استعمال سے عبارت ابہام سے دور اور ابلاغ کے قریب تر ہوجاتی ہے۔

ختمہ(۔) انگریزی کا فل اسٹاپ یا پیریڈ ہے۔ اسے مکمل جملے کے اختتام پر اسپیس دیے بغیر لگایا جاتا ہے۔ کسی کے الفاظ واوین میں قید کرنے سے پہلے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ( شاعر نے کہا۔ " مطلع عرض کرتا ہوں ۔")
سکتہ (،) یا کاما: کسی مکمل جملے میں دو یا الفاظ یا دو فقروں کو علیحدہ کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ اگر علیحدہ کیے جانے والے الفاظ دو سے زیادہ ہوں تو آخری لفظ سے پہلے "اور" کا استعمال کرنا چاہیے ۔ مثلاً ایک ٹوکری میں ٹماٹر ، آلو ، کریلے ، ٹنڈے اور بھنڈیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ انتخاب کی صورت میں "یا" کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً: آپ اس ٹوکری میں سے ٹماٹر ، کریلے ، بھنڈی یا آلو لے سکتے ہیں ۔

وقفہ( : ) کے استعمال کے تین مواقع ہیں ۔
1۔ کسی ذیلی عنوان کے بعد ( جیسا کہ اس مراسلے میں استعمال کیا گیا ہے۔)
2۔ کسی لفظ یا اصطلاح کی تعریف یا تشریح کے وقت ( قافیہ: ہم صوت الفاظ کو کہتے ہیں ۔)
3۔ کسی کے الفاظ واوین میں قید کرنے سے پہلے ( شوہر بولا: " ایک پراٹھا میرے لیے بھی چھوڑ دینا ۔")

استفہامیہ یا سوالیہ (؟) جملے کی سوالیہ حالت کو ظاہر کرنے کے یے استعمال ہوتا ہے۔

استعجابیہ یا فجائیہ (!) علامتِ تعجب اور علامتِ ندا ہے ۔ ( اے لوگو! تم یہ کیا کر رہے ہو؟)

نوٹ: ایک سے زیادہ افراد کو خطاب کرتے یا ندا دیتے وقت آخر کا نون غنہ حذف کردیا جاتا ہے ۔ مرے بھائیو! درست ہے لیکن مرے بھائیوں! غلط ہے۔)

تفصیلیہ( :۔)
کسی لفظ یا اصطلاح کی تعریف یا تشریح کے وقت ( ردیف:۔ بلا تغیر غزل کے ہر مصرعِ ثانی میں قافیے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ الخ)

واوین (") کسی کے لفظ یا الفاظ کو من و عن بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ بعض اوقات کسی لفظ یا اصطلاح کو بقیہ نثر سے علیحدہ اور ممتاز کرنے کے لیے بھی واوین کا استعمال کیا جاتا ہے۔

علامتِ شعر (؎) اگر نثر کے درمیان کوئی شعر لکھنا ہو تو اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اب اس کا استعمال متروک سمجھیے ۔ اب عموماً شعر کو دو نئی لائنوں میں لکھ کر اوپر نیچے کی نثر سے ممتاز کر دیا جاتا ہے۔

علامتِ تخلص ( غالبؔ) اسے بَت بھی کہتے ہیں ۔ بعض اوقات کسی التباس سے بچنے کی خاطر اس علامت کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔

۔۔۔۔الخ
کسی طویل تحریر کا حوالہ دیتے وقت اس کے چند ابتدائی الفاظ لکھ کر یہ علامت لگادی جاتی ہے ۔ مراد یہ کہ یہاں اول سے آخر تک تحریر کا حوالہ دیا جارہا ہے ۔ مثلاً ( شبلی نے شعر العجم میں قافیے سے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔ الخ)

علامتِ حذف (۔۔۔۔۔۔) کسی بنا پر اگر جملے کے درمیان بعض الفاظ نہ لکھنے ہوں تو یہ علامت استعمال کی جاتی ہے ۔ مثلاً ( اس مناقشے کے دوران انہوں نے غالب کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔ کا لقب استعمال کیا ۔)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کہ اور کے

" کے" دو صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔

۔ ایک تو مضاف الیہ اور مضاف کے درمیان ۔ ( کا ، کی ، کے) ۔
قدموں کے نشانات ، لڑکوں کے جوتے ، مراسلوں کے جواب ، کام کے بعد وغیرہ وغیرہ۔

۔ دوسری صورت میں "کر " کے بجائے استعمال ہوتا ہے۔

وہ گھوم پھر کر واپس آگیا ۔۔۔۔۔ وہ گھوم پھر کے واپس آگیا
درزی بیٹھ کر کام کرتا ہے ۔۔۔۔۔ درزی بیٹھ کے کام کرتا ہے۔


نوٹ: اس دوسری صورت کو اس طرح یاد رکھیے کہ جیسے "پر " کے بجائے "پہ" استعمال کیا جاتا ہے اسی طرح" کر "کے بجائے "کے "استعمال کیا جاتا ہے۔

"کہ " بھی دو صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ "یا" کے معنی میں اور حرفِ بیان /حرفِ وضاحت کے معنوں میں
(1) کہ کا لفظ "یا " کے بجائے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً
کتاب پڑھی جائے کہ ٹی وی دیکھا جائے
وہ لاہور میں ہیں کہ پشاور میں
سنائی نہیں دیتا کہ دکھائی نہیں دیتا
دل سے اٹھتا کہ جاں سے اٹھتا ہے
دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تمام جملوں میں "کہ" کی جگہ "یا" رکھا جا سکتا ہے۔

(2) حرفِ بیان یا حرفِ وضاحت کے طور پر استعمال کی متعدد صورتیں ہیں ۔ جیسے
کسی فقرے کی وضاحت یا تعریف کے لیے : اس قدر اندھیرا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا ۔ اتنی روشنی ہے کہ ہر چیز چمک رہی ہے۔ ایسی بات کرو کہ کسی کا دل نہ دکھے۔
۔ کسی بات کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے: وہ شور مچا کہ مردے جاگ اٹھے ۔ ایسی بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا ۔ وہ ابھی کمرے میں داخل ہی ہوا تھا کہ سب چل دیے۔
۔ کسی کا قول یا الفاظ بیان کرنے کے لیے : اس نے پوچھا کہ آپ کیسے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اب یہاں سے چل دو۔
۔ دو باتوں میں ربط بیان کرنے کے لیے: ابھی رمضان آیا نہیں کہ قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں ۔
 
Top