نوٹ: اختصار کی خاطر اہم نکات کو سرخ رنگ سے نشان زد کردیا گیا ہے ۔ مصروف قارئین صرف سرخ رنگ کی سطور کو بھی پڑھ سکتے ہیں ۔
اضافتی تراکیب
فارسی الاصل ہونے کی وجہ سے اضافتی ترکیب کو فارسی ترکیب بھی کہا جاتا ہے۔
بنانے کا طریقہ:
پہلے لفظ کے آخر میں اضافت یا کسرہ داخل کیا جاتا ہے۔ جیسے خیالِ یار ، سکوتِ شب ، اہلِ علم ، ماہِ تمام ، شبِ تاریک وغیرہ ۔
جو الفاظ الف اور واؤ پر ختم ہوتے ہیں ان پر کسرہ کے بجائے “ئے“ داخل کرتے ہیں ۔ جیسے قبائے زر ، دعائے شب ، خوشبوئے خیال ، آرزوئے ناتمام وغیرہ۔
وہ الفاظ جو ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں ان پر ہمزہ (ء) لگایا جاتا ہے ۔ جیسے فسانۂ محبت ، بندۂ خدا ، کلمۂ کفر وغیرہ ۔
وہ الفاظ جو یائے معروف (ی)پر ختم ہوتے ہیں ان پر کسرہ لگایا جاتا ہے۔ جیسے ناتمامیِ شب ، گرانیِ عشق ، خرابیِ قسمت وغیرہ
(اہم نوٹ: اضافتی ترکیب صرف فارسی اور عربی الفاظ سے بنائی جاتی ہے اس ترکیب میں ہندی ، پنجابی ، انگریزی یا کسی اور زبان کے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے۔)
اردو میں اضافت کے استعمال سے بنائی جانے والی ترکیبیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ترکیبِ توصیفی اور ترکیبِ اضافی۔
(1) ترکیبِ توصیفی:
اس ترکیب میں پہلا لفظ موصوف اور دوسرا لفظ اس کی صفت ہوتا ہے۔ جیسے حسنِ لازوال ، شبِ تاریک ، آرزوئے ناتمام ، رتبۂ بلند ، قبائے، نقشِ کہن وغیرہ ۔
اس ترکیب کو پہچاننے کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ دونوں لفظوں کی ترتیب بدل دی جائے تو اس کے معنی واضح ہوجاتے ہیں ۔ جیسے دورِ جدید (جدید دور) ، نقشِ کہن ( کہن نقش) ، صدائے پست (پست صدا) ، علمِ ناقص (ناقص علم) ، دردِ پنہاں (پنہاں درد) وغیرہ ۔
صفت اور موصوف یک لفظی ہونے کے بجائے مرکب الفاظ بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً
(ا) دلِ شاداں و فرحاں ، شہرِ بے نام و نشاں ، مقامِ بلند و بالا ، گیسوئے مشکبار و خم دار ، حکایتِ سادہ و رنگیں ۔ ان میں صفت مرکبِ عطفی ہے۔
(ب) نقش و نگارِ سادہ ، تخت و تاجِ شاہی ، کلاہ و قبائے رنگیں ، منبر و محرابِ مقدس ۔ان تراکیب میں موصوف مرکبِ عطفی ہے۔
(2) ترکیبِ اضافی:
اس ترکیب میں پہلا لفظ مضاف اور دوسرا لفظ مضاف الیہ کہلاتا ہے ۔ یہ دونوں اسم ہوتے ہیں۔ اس ترکیب میں مضاف کو مضاف الیہ سے نسبت دی جاتی ہے۔ جیسے خیالِ یار (یار کا خیال) ، سکوتِ شب (شب کا سکوت) ، علمِ دین (دین کا علم) ، صدائے درد (درد کی صدا) ، فسانۂ محبت (محبت کا فسانہ) وغیرہ ۔
اضافی ترکیب کو پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مضاف الیہ کو مضاف سے پہلے بولا جائے اور دونوں کے درمیان "کا ، کے یا کی" لگا دیا جائے تو معنی واضح ہوجاتے ہیں۔ جیسے غمِ دل ( دل کا غم) تو مرکبِ اضافی ہے لیکن غمِ پنہاں (پنہاں غم) مرکبِ توصیفی ہے۔ اگر پنہاں کا غم کہیں تو کوئی معنی نہیں بنتے۔ شبِ غم (غم کی شب) مرکبِ اضافی ہے لیکن شبِ سیاہ (سیاہ شب) مرکبِ توصیفی ہے کیونکہ سیاہ کی شب کہنا بےمعنی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مضاف اور مضاف الیہ بھی مفرد لفظ کے بجائے مرکب عطفی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً
(ا) شامِ رنج و غم ، شدتِ جور و ستم ، فسانۂ گل و بلبل ، فریبِ رنگ و بو وغیرہ۔ ان تراکیب میں مضاف الیہ مرکب عطفی ہے۔
(ب) نقش و نگارِ الفت ، نام و نشانِ ہستی ، شب و روزِ ہجراں ، آہ و بکائے بیکس۔ ان تراکیب میں مضاف مرکبِ عطفی ہے۔
طویل اور پیچیدہ اضافتی تراکیب:
ایک سے زیادہ اضافی اور توصیفی مرکبات کو باہم ملا کر طویل اور پیچیدہ تراکیب تشکیل دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً نشانِ زخم ، زخمِ محبت اور محبتِ وطن کی ترکیبوں کے باہمی اشتراک سے نشانِ زخمِ محبت (محبت کے زخم کا نشان) اور نشانِ زخمِ محبتِ وطن (وطن کی محبت کے زخم کا نشان) کی طویل تراکیب بنائی جا سکتی ہیں۔ عام طور پر تین سے زیادہ لفظوں کی اضافتی تراکیب اپنی پیچیدگی کی وجہ سے اچھی نہیں سمجھی جاتیں اور شعر و ادب میں ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ طویل تراکیب کی کچھ مثالیں یہ ہیں:
1۔ نقش و نگارِ طاق + طاقِ نسیاں = نقش و نگارِ طاقِ نسیاں (طاقِ نسیاں کے نقش و نگار)
2۔ غبارِ شام + شامِ رنج و غم + رنج و غمِ ہجراں = غبارِ شامِ رنج و غمِ ہجراں (یعنی ہجراں کے رنج و غم کی شام کا غبار) ۔ یہاں تین مرکبِاتِ اضافی کو باہم جوڑ دیا گیا ہے۔
3۔ نقش و نگارِ پردہ + پردۂ شب + شبِ تاریک = نقش و نگارِ پردۂ شبِ تاریک (یعنی تاریک شب کے پردے کے نقش و نگار)۔ یہاں دو مرکباتِ اضافی اور ایک مرکبِ توصیفی کو باہم جوڑ کر ترکیب بنائی گئی ہے۔
4۔ قصۂ مردمان + مردمانِ آزاد + آزادِ قفس + قفسِ نان و نمک = قصۂ مردمانِ آزادِ قفسِ نان و نمک (یعنی نان و نمک کے قفس سے آزاد مردمان کا قصہ) ۔ یہاں دو مرکباتِ اضافی اور دو مرکباتِ توصیفی کو باہم جوڑ دیا گیا ہے