عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے .
محفل اپنے آخری مرحلے میں ہے . سوچا کہ دروازہ مقفل ہونے سے پیشتر ایک اور کاوش آپ کی نذر کرتا چلوں . جنابِ حالیؔ کی ایک مشہورِ زمانہ غزل کی تضمین پیش ہے . امید ہے پسند آئیگی .
ہے حسنِ بے مثال کا آخر گزر کہاں
کس خطّے میں مقیم ہے، اس کا ہے گھر کہاں
ہر چند شوقِ دید ہے ڈھونڈیں مگر کہاں
:ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں:
وہ جس میں پیش پیش ہے وہ کام ہو بخیر
اس راہِ التفات میں ہر گام ہو بخیر
تکمیلِ ربط و رشتۂ بے نام ہو بخیر
:یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں:
کس کا ہوا کبھی جو ہمارا ہو نیشِ عشق
طغیانیاں بڑھیں تو کنارہ ہو نیشِ عشق
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ہو نیشِ عشق
:اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکّھی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں:
ہم جیسے عاشقوں کے ہیں جذبات ہی کچھ اور
ہوتے ہیں مجنوؤں کے خیالات ہی کچھ اور
اپنی نگاہ میں ہے تری ذات ہی کچھ اور
:ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں:
دستِ دعا اٹھا ہے مگر کہہ رہا ہے جی
کیا مدّعا ہے جانتا ہے آسمان بھی
جائےگی دھوم دھام سے، پھر لوٹ آئیگی
:ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں:
محفل ہوئی تمام، گئے اپنے گھر کو سب
تشنہ ہوا کریں جو تمہارے ہیں قلب و لب
کرنی تھی اس کی فکر کہ تاخیر کی تھی جب
:حالیؔ نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں:
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
محفل اپنے آخری مرحلے میں ہے . سوچا کہ دروازہ مقفل ہونے سے پیشتر ایک اور کاوش آپ کی نذر کرتا چلوں . جنابِ حالیؔ کی ایک مشہورِ زمانہ غزل کی تضمین پیش ہے . امید ہے پسند آئیگی .
ہے حسنِ بے مثال کا آخر گزر کہاں
کس خطّے میں مقیم ہے، اس کا ہے گھر کہاں
ہر چند شوقِ دید ہے ڈھونڈیں مگر کہاں
:ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں:
وہ جس میں پیش پیش ہے وہ کام ہو بخیر
اس راہِ التفات میں ہر گام ہو بخیر
تکمیلِ ربط و رشتۂ بے نام ہو بخیر
:یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں:
کس کا ہوا کبھی جو ہمارا ہو نیشِ عشق
طغیانیاں بڑھیں تو کنارہ ہو نیشِ عشق
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ہو نیشِ عشق
:اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکّھی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں:
ہم جیسے عاشقوں کے ہیں جذبات ہی کچھ اور
ہوتے ہیں مجنوؤں کے خیالات ہی کچھ اور
اپنی نگاہ میں ہے تری ذات ہی کچھ اور
:ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں:
دستِ دعا اٹھا ہے مگر کہہ رہا ہے جی
کیا مدّعا ہے جانتا ہے آسمان بھی
جائےگی دھوم دھام سے، پھر لوٹ آئیگی
:ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں:
محفل ہوئی تمام، گئے اپنے گھر کو سب
تشنہ ہوا کریں جو تمہارے ہیں قلب و لب
کرنی تھی اس کی فکر کہ تاخیر کی تھی جب
:حالیؔ نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں:
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
آخری تدوین: