نمود - سحر انصاری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

خزاں کا چاند


گرجا کے ستوں کے پاس ہے چاند
عیسٰی کی طرح اُداس ہے چاند
کیا جانے کدھر گئے حواری
تارے ۔۔۔ در ماہ کے بھکاری
خاموش سی اک صلیب سنگیں
تصویر وفور جاں سپاری
تثلیث کا مرمریں تبسم
کفّارہ دہِ گناہ گاری

بھیگی ہوئی رات میں صنوبر
کچھ سوچ رہا ہے سر جھکائے
اُلجھی ہوئی شرمسار شاخیں
ہنگامِ وصالِ بے محابا
تکتی ہیں اُداس چاند کی سمت

گرجا کے قریب چند سائے
بکھری ہوئی زرد چاندنی میں

حیراں ہیں کہ نصف شب کو میں نے
آنکھوں میں سجائی بے قراری
میں جاگ رہا ہوں اور ہر سُو
عالم پہ ہے خوابِ عیش طاری
پھیلی ہوئی کُہر کی ردا میں
لمحات ہیں محو اشکباری
کیا سود و زیاں کی فکر کیجیے
ہر شئے ہے یہاں کی اعتباری
انعام شعور و آگہی ہے
احساسِ زیاں کی ضربِ کاری
ماحول کی بے حسی سلامت
کیا کربِ نہاں کی پردہ داری
اصحابِ یمین کی نظر میں
میں روزِ ازل سے ہوں یساری
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

زرد سورج



مہیب روحوں کے قہقہوں سے
مآثرِ جاں لرز اُٹھے ہیں
لہو کی رفتار زہرِ قاتل کی دھار بن کر
دل کی گہرائیوں میں پہیم اتر رہی ہے
ہڈیاں آگہی کی بیدار آگ میں پھر پگھل رہی ہیں
حیات سے بے خبر فضاؤں میں
جسم تحلیل ہو رہا ہے

شبِ سیہ کے ڈراؤنے فاصلوں سے لٹکی ہوئی
شپرّہ چشم آرزوؤئیں یہ چاہتی ہیں
کہ تیرگی کو میں روح اپنی فروخت کر دوں
اور اس اجالے کو بھول جاؤں
جو اب بھی میرا مسیحِ موعودِ جسم و جاں ہے

مہیب روحوں کے قہقہوں نے
میری آواز چھین لی ہے
میں گھر کی دیوار پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہوں
جیسے میرے تمام الفاظ گھر کی دیوار میں نہاں ہیں

مہیب روحوں کے قہقہوں میں
کچھ اجنبی اجنبی صدائیں ابھر رہی ہیں
وقت کا چاک چل رہا ہے
زمین کی سانس اُکھڑ رہی ہے
میں سوچتا ہوں
وہ زرد سورج نجانے کب آئے گا
کہ جس کا
کتابِ سیارگاں میں وعدہ کیا گیا ہے

کتابِ سیارگاں کے مالک
میں اس اندھیرے سے تھک گیا ہوں


----------------



جبِر تضادِ زندگی ، خوب ہے یہ مذاق بھی
مرہمِ زخم جس کے ہات ، سینہ فگار بھی وہی



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


تم اور میں



تم کیوں کسی کو خاطر میں لاؤ
تم شاخِ گُل ہو
دستِ خزاں کے ناز کیوں اُٹھاؤ
میں کیوں یہ سوچوں
میں ہوں "انا" کا زخمی پرندہ
زخموں کو لے کے اُڑ کیوں نہ جاؤں

لیکن یہ دنیا
جس کے قفس میں
تم بھی ہمیشہ دستِ خزاں سے ڈرتی رہو گی
میں بھی ہمیشہ زخموں کی پوشاک پہنے رہوں گا

آؤ ، پھر آؤ
اک دوسرے کی تعظیم کر لیں
تسلیم کر لیں
ہم اپنی اپنی مجبوریاں ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

موئن جو دڑو



قدیم تہذیب کے شکستہ بدن
تہہ بہ تہہ خاک کے اندھیروں سے
مسخ ہو کر
زمیں پہ اُبھرے ہیں اور
تہذیب نو کی آنکھوں کو
اپنی عظمت کی داستانیں سنا رہے ہیں

شکستہ آثار
نسل انساں کی گمشدہ ساعتوں کے نوحے
زندہ تہذیب کی امنگوں پہ دم بخود ہیں

یہ نصف عظمت ، یہ نیم تہذیب
اپنی بے جا برہنگی پر
بہت خجل ہے
کہ اس کے جسم سفیم کے داغ
طشت تہذیب نو میں اب تک چمک رہے ہیں

شکستہ آثار
شرم سے دھنس رہے ہیں قاتل زمیں کے اندر
کہ میوزیم کے تمام کمروں میں
موت ہے موت کی نمائش

تمام انسان موت کے مسخ کردہ لمحوں کی کھوج میں ہیں
متاع پس خوردہ اجل کو
تبرکات بشر سمجھ کر
تمام انساں
بزرگ نسلوں کی مدح کرتے ہیں ان خرابوں میں
اور پیہم یہ سوچتے ہیں

کہ کیسی تہذیب
مردہ مٹی میں دھنس گئی تھی
کہ ان کے ہاتھوں نے
کوزہ گر کی دکان کے
سارے ٹھیکروں کو
اپنی تہذیب کے عجائب گھروں میں
محفوظ کر لیا ہے

شکستہ تہذیب دیکھتی ہے
کہ وقت کی نیم خوردہ خوراک
عصر حاضر کو کتنی مرغوب ہے کہ اب تک
ہے مردہ تہذیب زندہ تہذیب کے
قبائل کا خوان یغما

مردہ تہذیب دیکھتی ہے
کہ زندہ تہذیب کے فلک بوس قصر و ایواں
ہلاکتوں سے سجے ہوئے ہیں
اور اس کے مامن
تابکاری کی وحشتوں کے بنے ہوئے ہیں
اور اس کے اجسام
کوہ آتش فشاں پہ غافل کھڑے ہوئے ہیں

زندہ تہذیب کوہ آتش فشاں پہ ایستادہ
سوچتی ہے
کہ مردہ تہذیب کو بچائے

مردہ تہذیب
زندہ تہذیب کے ارادوں پہ ہنس رہی ہے
مردہ تہذیب شرم سے
لمحہ لمحہ مٹی میں دھنس رہی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
من کے مندر میں ہے اُداسی کیوں
نہیں آتی وہ دیو داسی کیوں

ابر برسا ، برس کے کُھل بھی گیا
رہ گئی پھر زمین پیاسی کیوں

اک خوشی کا خیال آتے ہی
چھا گئی ذہن پر اُداسی کیوں

زندگی بے وفا ازل سے ہے
پھر بھی لگتی ہے با وفا سی کیوں

ایسی فطرت شکار دنیا میں
اتنی انسان ناشناسی کیوں

کیوں نہیں ایک ظاہر و باطن
آدمی ہو گئے سیاسی کیوں

غمگساری ،خلوص ، مہر ، وفا
ہو گئے ہیں یہ پھول باسی کیوں

اک حقیقت ہے جب بدن کی طلب
پھر محبت کریں قیاسی کیوں

یہ ملاقات ، یہ سکوت ، یہ شام
ابتداء میں یہ انتہا سی کیوں

ملنے والے بچھڑ بھی سکتے ہیں
تیری آنکھوں میں ہے اداسی کیوں



--------------------------


کسی اشک خاک رسیدہ کی طرح تُو نے ہم کو گنوا دیا
تری چشم ہی میں نہاں تھے ہم ، ترے قلب ہی میں تپاں تھے ہم
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گُل و سمن سے بھی رشتے قرار جاں کے ہیں
بہت فریب یہاں عمر رائیگاں کے ہیں

نہیں ہے کوئی بھی منزل اگر مری منزل
تو پھر یہ پاوں تلے راستے کہاں کے ہیں

قمر سے دیکھ طلوع زمیں کا نظارہ
نگاہ پر تو بہت قرض آسماں کے ہیں

نظر نظر میں یہاں پھر رہی ہیں تعبیریں
کچھ اور خواب مگر چشم پاسباں کے ہیں

یہ کس نے پھر مری تحریر سے خطاب کیا
کہ حرف حرف میں انداز رازداں کے ہیں

اُداس جس نے رکھا ہے تمہاری آنکھوں کو
اسیر ہم بھی اسی خواب رائیگاں کے ہیں

سحر ، نصیب وفا قتل گاہ شب ہی سہی
مرے لہو میں ستارے تو کہکشاں کے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

عہد فراموش



مرے لبوں میں تمہارے لبوں کی خوشبو ہے
تمہارے دل کے دھڑکتے ہوئے مہ و انجم
بکھر گئے ہیں مرے دل میں روشنی کی طرح

مرے تصور خُلد آفریں کے پردے میں
ہیں محو خواب ابھی تک تمہاری بند آنکھیں
تمہاری ساق و کمر کی سپردگی کا خُمار
ہے آج بھی مرے حق میں نوید مے نوشی
مرے وجود کے ٹھہرے ہوئے سمندر میں
نہاں ہے آج بھی خمیازہ ہم آغوشی
مرے بدن میں تمہارے بدن کا لمس جواں
رواں ہے صورت سیال خود فراموشی

خلوص و عشق کے ان تجربات میں لیکن
یہ تجربہ بھی نیا ہے کہ بزم ناز میں تم
ملی ہو آج اک انجان اجنبی کی طرح
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فسانہ غم دل ناتمام ہے دیکھو
بجھی بجھی سی مگر شمع شام ہے دیکھو

کھٹک رہا ہے جو دل بار بار سینے میں
یہ زندگی کا نیا اہتمام ہے دیکھو

عذاب بن گئے ہیں ہم ایک دوسرے کے لیے
محبتوں کو بھی کتنا دوام ہے دیکھو

ہوا ، بکھیر دیا جس نے چار سُو ، مجھ کو
یہ میری خاک سے پھر ہمکلام ہے دیکھو

میں کہہ رہا تھا کہ دل ، ہے مرا اُداس بہت
مگر دلوں کی اُداسی تو عام ہے دیکھو

کیا تو ہو گا کسی نے کسی سے یوں بھی کلام
تمہیں پہ میری محبت تمام ہے دیکھو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


سودائی



کُہر میں مہر درخشاں کھو گیا
تھا عبارت موسم گُل سے جو شہر
محبس فصل گلستاں ہو گیا

سب مکانوں کے دریچے بند ہیں
عارض ویرانیوں کو دیکھ کر
کچھ سگان گرسنہ خورسند

شہر کی سنسان گلیوں میں مگر
زرد پتوں کے کھڑکنے کی صدا
مثل شور دستک طفلان شہر
ہے زمستاں کے تعاقب میں رواں

خاک ہے آوارہ ہر رہگذار
یا ہجوم کُودکان سنگ بار
رنگ زرد موسم نا آشکار

ساغر فصل جنوں کی دُرد ہے
اور خاک رہ نورد شہر کا
ذرہ ذرہ گنج باد آورد ہے

کُہر میں پنہاں ہے اب تک
ساکت و صامت در و دیوار شہر
مثل دزدان شعور زندگی
تاک میں ہیں گنج باد آورد کی

شہر کی سنسان گلیوں میں مگر
زرد پتوں کے کھڑکنے کی صدا
مثل شور دستک طفلان شہر
ہے زمستاں کے تعاقب میں رواں

اے مرے چاک جگر یہ تو بتا
میں ہوں سودائی کہ آوارہ ہوا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


یاد داشت



میں یہ کہہ سکتا ہوں سورج آگ کی اولاد ہے
چاند رودِ نیل کی آغوش میں آباد ہے
اور ہوا ہے چاند سورج کی نگاہوں کا پیام


پھر بھی میں اپنی گزشتہ ساعتوں کے دشت میں
سر گراں ذرّوں کے دامن کو پکڑ سکتا نہیں
حافظہ پر زور دے کر بھی یہ کہہ سکتا نہیں
زندگی کے کون سے لمحے میں میری آنکھ نے
چاند سورج کی نگاہوں سے کیا تھا اکتساب
کب ہوا کے لمس نے مہکائے تھے غم کے گلاب
کون سا لمحہ تھا بحرِ وقت کا پہلا حباب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محبت کا گماں ہونا بہت ہے
کہ اب یہ لفظ بھی رُسوا بہت ہے

میں انساں کو خدا کیسے سمجھ لوں
خدا کو بھی خدا کہنا بہت ہے

اداسی کا سبب میں کیا بتاؤں
گلی کُوچوں میں سناٹا بہت ہے

ترے غم کی فسوں کاری سے پہلے
میں سمجھا تھا غم دنیا بہت ہے

تجھے معلوم تو ہو گا مری جاں !
تُجھے اک شخص نے چاہا بہت ہے

نہ ملنے کی قسم کھا کے بھی میں نے
تجھے ہر راہ میں ڈھونڈا بہت ہے

یہ آنکھیں اور کیا دیکھیں کسی کو
ان آنکھوں نے تجھے دیکھا بہت ہے

تڑپتا ہوں تو یہ بھی سوچتا ہوں
تری یادوں نے بہلایا بہت ہے

کبھی خود سے رہا ہوں بے تعلق
کبھی اس باب میں سوچا بہت ہے

نجانے کیوں بچا رکھے ہیں آنسو
ابھی شاید مجھے رونا بہت ہے

نہ آ ، طوفاں ، ڈبونے کو ہمارے
خلوصِ موجہ دریا بہت ہے

سُبک رفتار آوارہ ہوا کو
فریب وسعتِ صحرا بہت ہے

بہت آباد ہے یہ شہر پھر بھی
سحر اس شہر میں تنہا بہت ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


دیمک



کتابوں کی دشمن
کتابوں کی دشمن بھی ایسی کہ لفظوں کے رشتے کو یکسر مٹا دے
غنیموں کے لشکر کی جاسوس بن کر
فصیلوں کے ہمراہ شہروں کو ڈھانے کے سب گُر بتا دے
تو یوں ہو کہ سنسان ہو جائیں سب سانس لیتی ہوئی بستیاں ایک پل میں


خداوند حرف و معانی کی ہیکل کے بیدار کاہن
جو لفظوں کے معبد میں آنکھوں کی شمع جلائے
ہر نوشتے کی تقدیر سے باخبر ہیں
کس افسردگی سے خود اپنی نگاہوں کو روداد ساری سناتے ہیں ، دیکھو
یہاں سارے صفحے مرصع تھے پہلے
یہاں جدولیں تھیں طلائی
یہاں ہر ورق سحر شنگرف سے جگمگاتا تھا مانند دست حنائی
جہاں آج بنجر زمینوں کی وحشت برسنے لگی ہے
جہاں اب مشام وفا حرف کی نکہتوں کو ترسنے لگی ہے
وہاں خط گلزار و طاوس کے موسموں کا گذر تھا
یہ پس خوردہ و مسخ اوراق ایک تازیانہ سوالات کا ہیں
خدا وند لوح و قلم ہی بتائے
کہ تاراجی لفظ و قرطاس کیسا ہنر ہے
کتابوں میں مٹی کے گھر آ کے تعمیر کرنے کا فن
عظمت حرف و تقدیس معنی سے کیوں بے خبر ہے

----------------




-- بائے خواب میں کھلتے ہیں باد باں جن کے
وہ کشتیاں مرے بے خواب ساحلوں میں نہیں

کبھی کبھی میں انہی قافلوں میں ہوتا ہوں
جو راستوں میں نہیں ہیں جو منزلوں میں نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

کبھی کبھی




کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوا کرتا ہے
جیسے لفظ کے سارے رشتے بے معنی ہیں
لگتی ہے کانوں کو اکثر
خاموشی
آواز کے سناٹے سے بہتر
سادہ کاغذ
لکھے ہوئے کاغذ سے اچھا لگتا ہے
خوابیدہ لفظوں کو آخر
جاگتی آنکھوں کی تصویریں دکھائیں کیسے
پلکوں پر آواز سجائیں کیسے

کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے تم میری نظمیں ہو
جن کو پڑھ کر کبھی کبھی میں یوں بھی سوچا کرتا ہوں
لفظوں کے رشتے بے معنی ہوتے ہیں
لفظ کہاں جذبوں کے ثانی ہوتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب یہی رنجِ بے دلی مجھ کو مٹائے یا بنائے
لاکھ وہ مہرباں سہی ، اس کی طرف بھی کون جائے

رُوٹھے ہوئے وجود بھی درسِ ''انا' سے کم نہیں
کیوں میں کسی کے ناز اُٹھاؤں ، مجھ کو بھی کوئی کیوں منائے

سایہ قرب میں ملیں آ وہی وقت دونوں پھر
ہونٹ پہ صبح جگمگائے ، آنکھ میں شام مسکرائے

دن کو دیارِ دید میں وسعتِ لمس سے گریز
سب کو حصارِ چشم میں خود ہی مثالِ خواب آئے

ختم ہیں واقعات بھی ، زیست کی واردات بھی
اب وہ جھکی جھکی نظر خود کوئی داستاں سنائے

مونسِ خلوتِ وفا آج بھی ہے وہ دل کہ جو
شمع کی لَو میں تھرتھرائے ، چاند کے ساتھ ڈوب جائے

موت کے بعد زیست کی بحث میں مبتلا تھے لوگ
ہم تو سحر گزر گئے تہمتِ زندگی اُٹھائے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں کہوں اپنے باب میں کیا
مُنکرِ دیں کا دین و مذہب کیا

زندگی خود دلیل ہے اپنی
اس میں بحثِ کتاب و مکتب کیا

ہے مری روح کے تعاقب میں
نشہ زہرِ نیشِ عقرب کیا

خواب کی سی ہے ایک کیفیت
جاگنے کی سبیل ہو اب کیا

چاہتا ہوں کہ تجھ کو پیار کروں
اس میں تخصیصِ عارض و لب کیا

بے نوا کیوں گذر رہی ہے ہوا
میں نہیں ہوں ترا مخاطب کیا

رہ نوردی کریں کہ خوار پھریں
تجھ کو ہم سر پھروں سے مطلب کیا

تیرے بیدار رہنے والوں کو
نیند آئی ہے آخرِ شب کیا

اعترافِ ہوس کے بعد سحر
لَب تک آئے گا حرفِ مطلب کیا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



نگاہ ڈھونڈتی رہتی ہے زاویوں کا جواز
بہارِ زیست کے منظر گزر بھی جاتے ہیں

جو کامیاب ہے اس وقت کی ستائش پر
جو رائگاں تھے وہ لمحے بھی یاد آتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


تجربہ گاہ میں ایک دن





تجربہ گاہ کی وہ صبح ابھی
یاد ہے خواب کی مانند مجھے

نلکیوں اور مشینوں کی فضاؤں میں آ کر
اپنے کمرے کے دریچے سے لگی بیل کا کچھ دھیان آیا
نہ مجھے رات کی آوارہ ہوا یاد آئی
میری آنکھوں نے مرے ذہن سے سازش کر لی
اپنے دامن میں نئے رمز کی لذت بھر لی

میز پر ایک طرف
"ایکس رے" اپنی سیاہی میں مرے جسم کی تمثال چھپائے
ساکت و خاموش ملا
ایک نلکی میں مرے خون کا بے صورت رنگ
میری جانب نگراں
جیسے تعارف کے بغیر
گفتگو کا کوئی امکاں ہی نہ ہو
ایک طرف میری حرارت کے نقوش
سرمئی چارٹ پہ لرزاں لرزاں
ایک طرف ذہن کی لہروں کا گراف
اور کاغذ کے لچکتے ہوئے فیتے پہ عیاں
دل کی دھڑکن کے نشاں

ایک طرف زیست کی تمہید لیے
اپنے اجزاء سے الگ سوچ رہا تھا میں بھی
میرے اجزاء کے بہم کرنے کو
اب پرشک اور پرستار کہاں سے آئیں
اور اجزاء یہ بہم ہوں بھی تو پھر زیست کے آثار کہاں سے آئیں


--------------



مری صدا پہ کسی کی صدا نہیں آئی
مزاجِ عصرِ رواں سازشِ سکوت ہے کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ زندگی کہ جس میں اذیت نہیں کوئی
اک خواب ہے کہ جس کی حقیقت نہیں کوئی

میری وفا کو زلف و لب و چشم سے نہ دیکھ
کارِ خلوصِ ذات کی اُجرت نہیں کوئی

تسلیم تیرے ربط و خلوص و وفا کے نام
خوش ہوں کہ ان میں لفظِ محبت نہیں کوئی

خلوت میں گر وجود پہ اصرار ہو تو ہو
بازار میں تو ذات کی قیمت نہیں کوئی

ہم برزخِ وفا کے جزا یافتوں کے پاس
اک جسم ہے سو جسم کی جنت نہیں کوئی

ہر فیصلے کو روزِ قیامت پہ چھوڑ دیں
اس جبر سے تو بڑھ کے قیامت نہیں کوئی

یہ شہر قتل گاہ نہیں پھر بھی اے سحر
کیا قہر ہے کہ جسم سلامت نہیں کوئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کس کا رنج و الم زیادہ نہیں
کون یاں سر بکف نہادہ نہیں

میں مسافر ہوں ایسی منزل کا
جس کی قسمت میں کوئی جادہ نہیں

سب کو چھوڑا ترے لیے اور اب
تجھ سے ملنے کا بھی ارادہ نہیں

ہو نہ برہم کہ زندگی اپنی
چند روز اور ہے زیادہ نہیں

میں وفا کیش ہوں مرا انعام
زہرِ قاتل ہے ، جامِ بادہ نہیں

تو بھی چالاک ہے محبت میں
اور اس درجہ میں بھی سادہ نہیں

وہ توجہ بھی سوچی سمجھی تھی
یہ تغافل بھی بے ارادہ نہیں

آدمی ہوں ، زمیں کا بیٹا ہوں
شکر ہے میں بہشت زادہ نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں ، نہ کسی کے ستم کا خیال کریں
ہمیں کون سے غم ملے ہیں نئے کہ جو دل کے زیاں کا ملال کریں

ابھی صرف خیال ہے خواب نما ، ابھی صرف نظر ہے سراب نما
ذرا اور خراب ہو وضع جنوں تو وہ زحمت پرسش حال کریں

وہی شہر ہے شہر کے لوگ وہی ، غم خندہ و سنگ و صلیب وہی
یہاں آئے ہیں کون سے ایسے سخی کہ جو لطف سخن کا سوال کریں

سنے کون یہ طعنہ چاک گری ، سہے کون یہ داغ کمال رفو
چلو درد وجود جگائیں سحر ، چلو زخم حیات بحال کریں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



ہوا کے نوحے



یہ اک خرابہ
جو میرے اشکوں کا منتظر ہے
یہ استعارہ ہے میرے دل کا
وہی اداسی ، وہی خموشی
جو سر خوشی کی تمام سمتوں پہ چھا چکی ہے

کسی شکستہ مکاں کی دہلیز
اور سوکھے درخت کی کرم خوردہ شاخیں
مجسموں اور طاقچوں کی شکستہ قوسیں
شکستہ سائے ، شکستہ چہرے

چہار جانب ہے ہُو کا عالم
ہیں بود و نابود محو پیکار
ان کے مابین اعتبار وجود پرچھائیں ہے
جو قعر عدم سے ابھری ہے رفتہ رفتہ

یہ ایک پرچھائیں جسم کو ڈھونڈنے چلی ہے
جو شاید اپنی اداس پرچھائیں سے بچھڑ کر
ہوا کے نوحوں میں بازگشت کی تشکیل کر رہا ہے
کسی ادھورے گنہہ کی تکمیل کر رہا ہے



------------


پھر اس کے حق میں دلیلیں سنائی جائیں گی
یہ عہد ترک محبت ہے آخری کوئی

---------------

جس بزم میں گیا طلب سر خوشی لیے
مجھ سے ترے خیال نے پوچھا یہاں کہاں
 
Top