ترجمہ یا ٹرانسلٹریشن کا سوال اکثر اٹھتا ہے اور اگر آپ ایک ہی زبان میں چیک کریں تو مختلف روایات نظر آتی ہیں۔ جیسے فرنچ میں نیو یارک کو وہ اسی طرح لکھتے ہیں لیکن امریکا کے علاقے نیو انگلینڈ کو Nouvelle-Angleterre کہتے ہیں۔
اسں اختلاف کی بنیادی اور آفاقی وجہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی زبان چند لوگوں نے ایک وقت پر ایک جگہ بیٹھ کر نہیں بنائی بلکہ ہر زبان ایک طویل عرصے اور وسیع علاقے میں ایک سست رفتار ارتقائی عمل سے گزری ہے اور اُس دور میں گزری ہے کہ جب مواصلاتی ذرائع ناپید تھے ، لوگوں کے درمیان رابطے محدود تھے ، کتابیں نہیں چھپتی تھیں۔ چنانچہ کسی بھی زبان میں نظرآنےوالی "بے اصولی" اور رنگارنگی اسی ارتقا کا مظہر ہیں۔
یعنی ہر زبان کو الگ الگ دیکھا جائے تو اس اختلاف کاتعلق ہر زبان کی اپنی لسانی تاریخ سے ہے۔ تاریخی طور پر مختلف زبانیں بولنے والوں کا آپس میں اختلاط عموماً تجارتی سفر اور سیر و سیاحت کے نتیجے میں ہوا کرتا تھا۔ بعض اوقات جنگیں بھی زبانوں کے اختلاط کا باعث بنی ہیں ۔ مثلاً عربوں کا ہندوستان، ایران اور ہسپانیہ پر قبضہ۔ ان تینوں عوامل کے نتیجے میں ایک زبان کے الفاظ دوسری میں داخل ہوتے ہیں۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ چنانچہ اشیاء و ایجادات ، نباتات و فواکہات ، مشروبات و ماکولات وغیرہ کے نام رفتہ رفتہ مختلف ادوار میں زبانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ زباں میں ان الفاظ کا دخل کسی قانون اور اصول کے تحت نہیں ہوا۔ چنانچہ ان میں کسی اصول کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ کسی بھی لفظ کی ابتدا اور ارتقائی تاریخ کو سمجھنے کے لیے علم الاشتقاق( Etymology)سے مدد لی جاسکتی ہے۔
جہاں تک شہر اور علاقوں کے ناموں کا تعلق ہے تو اس میں سب سے بڑا کردارنقشہ سازی( cartography)کا رہا ہے۔ شروع شروع میں شہروں اور ملکوں کے جو نام نقشہ نگاروں اور سفر نامہ نگاروں نے جس طرح لکھ دیئے یا جس طرح ترجمہ کردیے وہ اسی طرح رواج پاگئے( ان ناموں اور ترجموں کے ماخذات اور وجوہات متنوع ہیں ۔ نقشہ سازی یں مکھی پر مکھی مارنا عام دستور رہا ہے) ۔ چونکہ زبان کا بنیادی مقصد ابلاغ ہے اس لیے رواج اور چلن کی اہمیت ہر چیز سے بڑھ کر ہے ۔ ( اسی لیے لسانیات میں غلط العام اصح من الصحیح کے مقولے کو اصول کا درجہ دیا گیا ہے)۔ ۔ حقیقت یه هےكه دنیا كی اكثر زبانوں میں بشمول اردو ایسا کوئی مقتدر ادارہ نہیں کہ جو بیرونی زبانوں سے آنے والے الفاظ یا اصطلاحات کا ایک معیار متعین کردے۔ چنانچہ جو ترجمه ، ٹرانسلٹریشن یا املا کسی نے شروع شروع میں لکھ دیا اور وہ رائج ہو گیا تو وه زبان كا حصه بن جاتا هے۔ اور پھر کسی معروف اور مروجہ لفظ کو بلاوجہ تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگرسیاسی وجوہات کی بنا پر کسی شہر یا ملک کا نام تبدیل کردیا جائے تو وہ ایک الگ بات ہے۔
دنیا میں مواصلاتی انقلاب کے بعد صورتحال بہت تبدیل ہوگئی ہے۔ انگریزی زبان دنیا میں عام رابطے کی زبان( Lingua-Franca)بن گئی هے۔ اكثر علاقوں اور شهروں كے نام اب انگریزی سے لیے جاتے هیں اور ان كی ٹرانسلٹریشن كی جاتی هے ۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ ہم اردو میں صدیوں سے گوبی ڈیزرٹ کا تو ترجمہ کرتے آئے ہیں یعنی صحرائے گوبی ، لیکن اب آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم کا ترجمہ نہیں کرتے بلکہ اس کی ٹرانسلٹریشن کرتے ہیں۔ انگلینڈ کو تو انگلستان کہتے آئے ہیں لیکن جرمنی اور جاپان کے ناموں کی ٹرانسلٹریشن کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
مختصراً یه كه ٹرانسلٹریشن اور ترجمے کا یہ اختلاف فطری ہے اور فی نفسہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ اختلاف غیر اہلِ زبان کو تومسئلہ نظر آسکتا ہے لیکن اُس زبان کے بولنے والوں کے لیے یہ عام یا نارمل بات ہوتی ہے۔ بلکہ اکثر انہیں اس اختلاف کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔