مریم افتخار
محفلین
جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی
پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
(افتخار عارف)
پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
(افتخار عارف)
میں نے جب اردو محفل میں شمولیت اختیار کی تھی ذہن میں بہت سوال تھے جن کے متحمل میرے اردگرد کے لوگ نہ ہو پاتے۔ شروع شروع کے کچھ مراسلہ جات میں کسی محفلین (شاید شزا مغل) کی جانب سے تحریک بھی ملی کہ یہاں بڑے عالی دماغ لوگ ہیں کھل کر سوال پوچھیے ممکن ہے کچھ افاقہ ہو۔ مگر اس وقت محفل کے ماحول کا جو مشاہدہ کر پائی وہ یہ تھا کہ لوگ دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اگرچہ یہ معاملہ فقط محفل کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا کا حسن اسی تنوع اور تضاد میں پنہاں ہے (شاید)۔ جب تک کسی کی رائے یا جواب آپ کے ذاتی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا تب تک یہی نہیں کہ آپ دل میں برا جانتے ہیں بلکہ تاحال بری ترین ریٹنگز اور القابات سے بھی نوازتے جاتے ہیں۔ سائنسی، دینی اور سیاسی معاملہ جات میں تا حال معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ سکیل کیا ہے جس سے اوپر یا نیچے کوئی ہو تو وہ محفلین کی نظر میں حد سے گزرا ہوا ہے اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ کس محفلین کی نظر میں؟
میں ہمیشہ سے ایک لڑی بنانا چاہتی تھی جس میں میں بہت سارے سوالات اٹھا سکوں جن کے جوابات اگر آئیں تو بھلا، کوئی اور بھی سوال سے سوال نکالے تو نہلے پہ دہلا ورنہ کم از کم کوئی لوگ سوچنے پر مجبور تو ہوں۔ مجھے سقراط کا وہ طریقہ بہت پسند ہے جس میں وہ مکالمہ جات میں ایسے سوالات اٹھایا کرتا تھا جو سننے والوں کو سوچنے پر مجبور تو کرتے تھے۔یہ بھی ایک سوال ہے کہ سوال اٹھانے کی حد کیا ہے؟ اگر میری حد کی بات کریں تو ابھی چند روز قبل جب مجھ سے یہ سوال ایک اجلاس میں پوچھا گیا جس میں ایک سائیکولوجسٹ بھی موجود تھا جس کا کہنا تھا کہ اگر مکمل طور پر ہر چیز پر سوال کرو تو existential crisis میں چلے جاتے ہو اس لیے کوئی بنیاد رکھنی چاہئیے جس پر مضبوطی سے پیر جما کر کھڑے ہو سکو اور باقی سب چیزوں کو کوئسچن کرو، تو میں نے جواب دیا کہ میری وہ بنیاد کلام اللہ ہے لا ریب فیہ۔ اس سے باہر ہر شے میرے لیے بدلتی رہتی ہے اور کچھ حرف آخر نہیں۔ تاہم اسے بھی سمجھنے کی سعی جاری ہے اور اس سے باہر کی دنیا کو بھی!
بہت کچھ چلتا رہتا ہے کچھ بے ربط اور کچھ با ربط مگر ایک بات ہے کہ ہم سب کہیں نہ کہیں یہ سمجھتے تھے کہ ہم دنیا کے جھمیلے نمٹا کے آجائیں گے اور محفل شاید یہیں دروازے پہ انتظار کرے گی۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ کہانیوں میں ہوتا ہوگا۔ اب جتنا تیز رفتار دور ہے لوگ کچھ دیر میں ہی آگے بڑھ جاتے ہیں اس نے تو پھر ہم سب کا کئی سال انتظار کیا۔ تاہم اس کے جانے پر میں جس سنجیدہ پہلی اور آخری خواہش کی تکمیل کرنا چاہوں گی وہ یہ لڑی بنانا اور اس میں بہتوں سے فیض پانا ہے۔ تاہم اپنے biases جس حد تک ممکن ہو باہر رکھ کر آئیے گا اور اس لڑی کو دوسرے محفلین پر ذاتی حملے کا میڈیم نہ سمجھئیے گا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لڑیا ں ہم نے اپنے دور ادارت میں بڑی دیکھی ہیں جن سے عوام الناس مزید استفادہ حاصل نہیں کر پاتی۔
میں ہمیشہ سے ایک لڑی بنانا چاہتی تھی جس میں میں بہت سارے سوالات اٹھا سکوں جن کے جوابات اگر آئیں تو بھلا، کوئی اور بھی سوال سے سوال نکالے تو نہلے پہ دہلا ورنہ کم از کم کوئی لوگ سوچنے پر مجبور تو ہوں۔ مجھے سقراط کا وہ طریقہ بہت پسند ہے جس میں وہ مکالمہ جات میں ایسے سوالات اٹھایا کرتا تھا جو سننے والوں کو سوچنے پر مجبور تو کرتے تھے۔یہ بھی ایک سوال ہے کہ سوال اٹھانے کی حد کیا ہے؟ اگر میری حد کی بات کریں تو ابھی چند روز قبل جب مجھ سے یہ سوال ایک اجلاس میں پوچھا گیا جس میں ایک سائیکولوجسٹ بھی موجود تھا جس کا کہنا تھا کہ اگر مکمل طور پر ہر چیز پر سوال کرو تو existential crisis میں چلے جاتے ہو اس لیے کوئی بنیاد رکھنی چاہئیے جس پر مضبوطی سے پیر جما کر کھڑے ہو سکو اور باقی سب چیزوں کو کوئسچن کرو، تو میں نے جواب دیا کہ میری وہ بنیاد کلام اللہ ہے لا ریب فیہ۔ اس سے باہر ہر شے میرے لیے بدلتی رہتی ہے اور کچھ حرف آخر نہیں۔ تاہم اسے بھی سمجھنے کی سعی جاری ہے اور اس سے باہر کی دنیا کو بھی!
بہت کچھ چلتا رہتا ہے کچھ بے ربط اور کچھ با ربط مگر ایک بات ہے کہ ہم سب کہیں نہ کہیں یہ سمجھتے تھے کہ ہم دنیا کے جھمیلے نمٹا کے آجائیں گے اور محفل شاید یہیں دروازے پہ انتظار کرے گی۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ کہانیوں میں ہوتا ہوگا۔ اب جتنا تیز رفتار دور ہے لوگ کچھ دیر میں ہی آگے بڑھ جاتے ہیں اس نے تو پھر ہم سب کا کئی سال انتظار کیا۔ تاہم اس کے جانے پر میں جس سنجیدہ پہلی اور آخری خواہش کی تکمیل کرنا چاہوں گی وہ یہ لڑی بنانا اور اس میں بہتوں سے فیض پانا ہے۔ تاہم اپنے biases جس حد تک ممکن ہو باہر رکھ کر آئیے گا اور اس لڑی کو دوسرے محفلین پر ذاتی حملے کا میڈیم نہ سمجھئیے گا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لڑیا ں ہم نے اپنے دور ادارت میں بڑی دیکھی ہیں جن سے عوام الناس مزید استفادہ حاصل نہیں کر پاتی۔
غالب گمان ہے کہ اس لڑی میں آنے والے ہر مراسلے پر میرا جواب ایک سوال کی شکل میں ہی ہو!
آخری تدوین: