جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی
پھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
(افتخار عارف)
میں نے جب اردو محفل میں شمولیت اختیار کی تھی ذہن میں بہت سوال تھے جن کے متحمل میرے اردگرد کے لوگ نہ ہو پاتے۔ شروع شروع کے کچھ مراسلہ جات میں کسی محفلین (شاید شزا مغل) کی جانب سے تحریک بھی ملی کہ یہاں بڑے عالی دماغ لوگ ہیں کھل کر سوال پوچھیے ممکن ہے کچھ افاقہ ہو۔ مگر اس وقت محفل کے ماحول کا جو مشاہدہ کر پائی وہ یہ تھا کہ لوگ دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اگرچہ یہ معاملہ فقط محفل کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا کا حسن اسی تنوع اور تضاد میں پنہاں ہے (شاید)۔ جب تک کسی کی رائے یا جواب آپ کے ذاتی رجحانات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا تب تک یہی نہیں کہ آپ دل میں برا جانتے ہیں بلکہ تاحال بری ترین ریٹنگز اور القابات سے بھی نوازتے جاتے ہیں۔ سائنسی، دینی اور سیاسی معاملہ جات میں تا حال معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ سکیل کیا ہے جس سے اوپر یا نیچے کوئی ہو تو وہ محفلین کی نظر میں حد سے گزرا ہوا ہے اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ کس محفلین کی نظر میں؟

میں ہمیشہ سے ایک لڑی بنانا چاہتی تھی جس میں میں بہت سارے سوالات اٹھا سکوں جن کے جوابات اگر آئیں تو بھلا، کوئی اور بھی سوال سے سوال نکالے تو نہلے پہ دہلا ورنہ کم از کم کوئی لوگ سوچنے پر مجبور تو ہوں۔ مجھے سقراط کا وہ طریقہ بہت پسند ہے جس میں وہ مکالمہ جات میں ایسے سوالات اٹھایا کرتا تھا جو سننے والوں کو سوچنے پر مجبور تو کرتے تھے۔یہ بھی ایک سوال ہے کہ سوال اٹھانے کی حد کیا ہے؟ اگر میری حد کی بات کریں تو ابھی چند روز قبل جب مجھ سے یہ سوال ایک اجلاس میں پوچھا گیا جس میں ایک سائیکولوجسٹ بھی موجود تھا جس کا کہنا تھا کہ اگر مکمل طور پر ہر چیز پر سوال کرو تو existential crisis میں چلے جاتے ہو اس لیے کوئی بنیاد رکھنی چاہئیے جس پر مضبوطی سے پیر جما کر کھڑے ہو سکو اور باقی سب چیزوں کو کوئسچن کرو، تو میں نے جواب دیا کہ میری وہ بنیاد کلام اللہ ہے لا ریب فیہ۔ اس سے باہر ہر شے میرے لیے بدلتی رہتی ہے اور کچھ حرف آخر نہیں۔ تاہم اسے بھی سمجھنے کی سعی جاری ہے اور اس سے باہر کی دنیا کو بھی!

بہت کچھ چلتا رہتا ہے کچھ بے ربط اور کچھ با ربط مگر ایک بات ہے کہ ہم سب کہیں نہ کہیں یہ سمجھتے تھے کہ ہم دنیا کے جھمیلے نمٹا کے آجائیں گے اور محفل شاید یہیں دروازے پہ انتظار کرے گی۔ ایسا کب ہوتا ہے؟ کہانیوں میں ہوتا ہوگا۔ اب جتنا تیز رفتار دور ہے لوگ کچھ دیر میں ہی آگے بڑھ جاتے ہیں اس نے تو پھر ہم سب کا کئی سال انتظار کیا۔ تاہم اس کے جانے پر میں جس سنجیدہ پہلی اور آخری خواہش کی تکمیل کرنا چاہوں گی وہ یہ لڑی بنانا اور اس میں بہتوں سے فیض پانا ہے۔ تاہم اپنے biases جس حد تک ممکن ہو باہر رکھ کر آئیے گا اور اس لڑی کو دوسرے محفلین پر ذاتی حملے کا میڈیم نہ سمجھئیے گا ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لڑیا ں ہم نے اپنے دور ادارت میں بڑی دیکھی ہیں جن سے عوام الناس مزید استفادہ حاصل نہیں کر پاتی۔ :)
غالب گمان ہے کہ اس لڑی میں آنے والے ہر مراسلے پر میرا جواب ایک سوال کی شکل میں ہی ہو!
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
یہ بھی ایک سوال ہے کہ سوال اٹھانے کی حد کیا ہے؟ اگر میری حد کی بات کریں تو ابھی چند روز قبل جب مجھ سے یہ سوال ایک اجلاس میں پوچھا گیا جس میں ایک سائیکولوجسٹ بھی موجود تھا جس کا کہنا تھا کہ اگر مکمل طور پر ہر چیز پر سوال کرو تو existential crisis میں چلے جاتے ہو اس لیے کوئی بنیاد رکھنی چاہئیے جس پر مضبوطی سے پیر جما کر کھڑے ہو سکو اور باقی سب چیزوں کو کوئسچن کرو، تو میں نے جواب دیا کہ میری وہ بنیاد کلام اللہ ہے لا ریب فیہ۔ اس سے باہر ہر شے میرے لیے بدلتی رہتی ہے اور کچھ حرف آخر نہیں۔ تاہم اسے بھی سمجھنے کی سعی جاری ہے اور اس سے باہر کی دنیا کو بھی!
بہت لوگ بنیادی طور پر مذہب و عقائد پر سوال سے احتراز کرتے ہیں لیکن اگر آپ بڑے سکالرز اور علما کو پڑھیں تو وہاں آپ کو کافی ایسے سوال نظر آتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ سوال عقیدے پر ہو یا نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ سوال کا مقصد کیا ہے اور اس کے جواب کی جستجو آپ کے لئے کتنی اچھی یا بری ہو گی۔
 
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)

آپ سب اس سے اور سوالات بھی نکال سکتے ہیں!
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
یہ بھی ایک سوال ہے کہ سوال اٹھانے کی حد کیا ہے؟
جب سکول، کالج وغیرہ میں تھے تو فلسفہ یا فرسٹ پرنسپلز سے چیزوں پر بحث کا اپنا مزہ تھا۔ لیکن عمرکے ساتھ ساتھ وہ کچھ حد تک وقت کا زیاں لگتا ہے۔ کس بحث یا سوال سے ہم کیا حاصل کر پائیں گے اور اس کے لئے ہمارے پس کتنا وقت ہے یہ بھی سوچنا پڑتا ہے۔ انٹرنیٹ پر تیس سال سے زائد گزارنے کے بعد یہ خیال بھی آتا ہے کہ میں خود ضرور سیکھنا چاہتا ہوں لیکن کم از کم انٹرنیٹ پر دوسروں کو کچھ سکھانا میرے بس کی بات نہیں۔ میں صرف ان کو سمت کی طرف اشارہ کر سکتا ہوں باقی کا کام ان کا اپنا ہے۔ البتہ جب میں اور میری اولاد اکٹھے بیٹھے ہوں یا اس سے بہتر سائیکلنگ، ہائیکنگ یا واک کر رہے ہوں تو گفتگو ایک موضوع سے دوسرے اور تیسرے تک تیزی سے جاتی ہے اور دونوں کو بہت سیکھنے کو ملتا ہے۔ شاید یہاں مکمل ٹرسٹ کی وجہ سے آسانی رہتی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
علمی میدان میں انسان کی محدودیت دو طرح کی ہے:
تجزیاتی محدودیت - Analytic limitation
تجرباتی محدودیت - Experimental limitation

تجزیاتی محدودیت کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ ہم ہر ڈیفرینشل ایکویشن/میتھیمیٹکل ماڈل کا تجزیاتی حل Analytic solution معلوم نہیں کر سکتے اور کہیں نمیرکل سلویشن معلوم کرنا بھی کمپیوٹیشن کے دائرہ سے باہر ہے ۔ اسی طرح گوڈیل کا ادھورے پن کا تھیورم بھی ریاضی پر حدود لاگو کرتا ہے۔

تجرباتی محدودیت کا تعلق پیمائشی آلات کی پیمائش کی حد سے ہے۔

اس کے علاوہ نہایت عرفان کے بارے میں بھی دو اقوال ہیں:
العجز عن درک الادراک ادراک (کہیں یہ قول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے اور کہیں مولا علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب کیا جاتا ہے )
حقیقت تمام تر مدرک نہیں ہوتی (کشکول کلیمی ، الشیخ کلیم اللہ جہاں آبادی)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
متعلقہ:

سورہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگوں کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے ایک فطری انسانی حقیقت کااعلان کیا گیا ہے۔اس سلسلہ میں قرآن کامتعلقہ بیان یہ ہے:وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (17:85)۔ یعنی، اور وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے ۔ اور تم کو صرف علم قلیل دیا گیا ہے۔

قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی محدود یت(limitations) کی بنا پر علم کلی تک نہیں پہنچ سکتا ۔ علم کلی بطور واقعہ موجو دہے۔ مگر انسان کی ذاتی محدود یت کی بنا پر وہاں تک اس کی رسائی ممکن نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندی سے کام لے ۔ وہ جزئی علم کی بنیاد پر کلی علم کے بارے میں استنباط کرے۔ اگر انسان نے یہ اصرار کیا کہ ہر چیز کو براہ راست میرے مشاہدہ میں آنا چاہیے تو وہ صرف کنفیوژن کاشکار ہو کررہ جائے گا ۔ کیوںکہ کلی حقیقت کا بطور مشاہدہ علم میں آنا اس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔

یہ ایک اہم تعلیم ہے۔ یہی واحد چیز ہے جو آدمی کو کنفیوژن سے بچانے والی ہے۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ ہر چیزان کے براہ راست مشاہدہ میں آئے ، اسی وقت وہ اس کو مانیں گے تو ایسے لوگ ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہیں گے ۔ اس دنیا میں یقین کے درجہ تک پہنچنا صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایسا کرے ۔ یعنی وہ جزئی علم تک براہ راست رسائی حاصل کرنے کے بعد یہ اعتراف کرلے کہ اس کے بعد براہ راست علم کی حد ختم ہو گئی اور بالواسطہ علم کی حد آگئی ۔ یہی واحد طریقہ ہے جو کسی آدمی کو یقین کادرجہ عطا کر سکتا ہے۔

یہ عین وہی اصول ہے جس کو موجودہ سائنس میں اب ایک حقیقت کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اب اہل علم کے درمیان یہ ایک مسلمہ اصول بن چکا ہے کہ سائنس ہم کو سچائی کاصرف ایک حصہ عطا کرتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.​
 
ہر ایک کے لیے اسکی سوچ کی تشنگی ، اسکی حد ہے۔
تو کیا ہر ایک کو اپنی سوچ کی تشنگی پر بھی ہر معاشرے میں جواب دہ ہونا پڑتا رہا ہے؟خاص طور پر ان سوالوں میں جو رائج کردہ بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔۔۔
 
آخری تدوین:
بہت لوگ بنیادی طور پر مذہب و عقائد پر سوال سے احتراز کرتے ہیں لیکن اگر آپ بڑے سکالرز اور علما کو پڑھیں تو وہاں آپ کو کافی ایسے سوال نظر آتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ سوال عقیدے پر ہو یا نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ سوال کا مقصد کیا ہے اور اس کے جواب کی جستجو آپ کے لئے کتنی اچھی یا بری ہو گی۔
شاید سبھی لوگوں کی بنیاد ایک جیسی نہ بھی ہو کہ وہ مذہب و عقائد پر ہی پیر جمائے رکھیں لیکن وہ کسی نہ کسی شے پر تو پیر جماتے ہیں نا۔ تو کیا یہ پیر جمانے کی متنوع وجہ انسانوں کے ذاتی رجحانات ہوتے ہیں یا کائنات کا ایلگورتھم ایسا ہے کہ جس سے جو کام لینا ہو اسے ویسے امتحان دیے جاتے، مواد دکھایا جاتا اور ذہن بنایا جاتا ہے؟
 
آخری تدوین:
لیکن عمرکے ساتھ ساتھ وہ کچھ حد تک وقت کا زیاں لگتا ہے۔
جب انسان بوڑھا ہو رہا ہوتا ہے تو کون سی چیزیں وردی آف انویسٹمنٹ لگتی ہیں اور کیا ان چیزوں کا تعلق فقط طبعی عمر سے ہے؟
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
شاید سبھی لوگوں کی بنیاد ایک جیسی نہ بھی ہو کہ وہ مذہب و عقائد پر ہی پیر جمائے رکھیں لیکن وہ کسی نہ کسی شے پر تو پیر جماتے ہیں نا۔ تو کیا یہ پیر جمانے کی متنوع وجہ انسانوں کے ذاتی رجحانات ہوتے ہیں یا کائنات کا ایلگورتھم ایسا ہے کہ جس سے جو کام لینا ہو اسے ویسے امتحام دیے جاتے، ویسا مواد دکھایا جاتا اور ذہن بنایا جاتا ہے؟
ایک بنیاد آپ کی ویلیوز ہیں۔ اکثر لوگ اسے مذہب سے ملاتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں۔ پھر تجسس بھی اس میں شامل ہے۔ مذہب یا سپرنیچرل قوتوں کا ہمارے مائنڈ اور ایوولیوشن سے کیا اور کتنا تعلق ہے اس پر بھی کتب لکھی گئی ہیں۔
 

زیک

مسافر
جب انسان بوڑھا ہو رہا ہوتا ہے تو کون سی چیزیں وردی آف انویسٹمنٹ لگتی ہیں اور کیا ان چیزوں کا تعلق فقط طبعی عمر سے ہے؟
معلوم نہیں کہ اس کا تعلق عمر سے ہے یا کسی اور چیز سے۔ صحیح طور تو میں بوڑھا نہیں ہوا لیکن مصروفیات بڑھ گئی ہیں اور ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے
 

ظفری

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ آپ سوال پر سوال کر رہیں ہیں کہ آپ کے پچھلے سوالوں کے جوابات ہنوز مکمل نہیں ہوئے ہیں ۔یا پھر اس لڑی کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ بس جہاں سے شروع ہونا ہو ۔ شروع ہوجاوٗ۔ :D :D
میں پہلا سوال ہی اب تک ڈھونڈ رہا ہوں ۔ :idontknow:
 

ظفری

لائبریرین
جب انسان بوڑھا ہو رہا ہوتا ہے تو کون سی چیزیں وردی آف انویسٹمنٹ لگتی ہیں اور کیا ان چیزوں کا تعلق فقط طبعی عمر سے ہے؟
جب انسان بڑھاپے کی سرحد کو پہنچ جاتا ہے تو اُسے بڑی حد تک وقت کی اہمیت کا احساس ہوا چلا جاتا ہے ۔ جہاں توجہ ، قرابت داریاں ، تعلقات ، محبتیں ، فکری ارتقاء، اسکے عقل و فہم اور تجربے و مشاہدے پروان چڑھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وقت کی اہمیت اس پر واضع ہوجاتی ہے۔ پھر وہ اسے اس طرح یوٹیلائیز کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اسے سکون فراہم اور کسی مقصدیت کی راغب کرے۔ مقصدیت کئی نوعیت کی ہوسکتی ہے ۔ مذہبی نقطہِ نگاہ سے قُربِ الہی اس کی اولین ترجیح بھی ہوسکتی ہے ۔ دنیاوی دوڑ میں اس کی دلچسپی میں کمی واقع ہوجاتی ہے ۔ وقت گذرنے کیساتھ اسے اس بات کا بھی ادراک ہوجاتا ہے کہ مال و جاہ سے زیادہ معافی ، محبت اور خلوص اہم ہے ۔پھروہ رشتوں میں بہتری کا خواہ ہوجاتا ہے ۔ اس کے لیئے دل کا سکون ہی تمام زندگی کا حاصل نظر آتاہے ۔ اس سکون کے لیئے پھر وہ اپنی فکری اور روحانی ارتقاء میں تبدیلی لاتا ہے۔ دل جان لیتا ہے کہ دنیا دھوکہ ہے ۔عموماً لوگ بڑھاپے میں دین کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔ وہ عبادتوں اور ریاضتوں کو زندگی کی سرمایہ کاری سمجھتے ہیں ۔
اس کا تعلق طبعی عمر سے نہیں ہے ۔ بہت سے لوگ بڑھاپے میں بھی بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں اور اس کے برعکس کچھ جوانی میں ہی عارفانہ باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں ۔اصل "worthwhile investments" وقت، رشتے، روحانیت، اور فہم میں ہوتی ہیں ۔ اور یہ شعور کسی بھی عمر میں جاگ سکتا ہے۔
کچھ لوگ 20 سال کی عمر میں بھی اصل میں "بوڑھے اور دانا" ہوتے ہیں، اور کچھ 70 سال کی عمر میں بھی دنیاداری کے سحر میں کھوئے ہوتے ہیں اور بچکانہ حرکتیں کرتے ہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
اگر ہم absolute knowledge نہیں رکھ سکتے تو بھی اپنےفہم میں بتدریج less-wrong ہونے میں کیا قباحت ہے؟
انسان کا علم ہمیشہ probabilistic ہوتا ہے نہ کہ قطعی ۔ ہماری عقل ہمارے مشاہدے ، تجربات اور معلومات سے استفادہ کرتی ہے ۔ اور مکمل علم کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے ۔آج ہم دنیا کو بھی اس کے ماڈلیز میں دیکھتے ہیں ۔ یہ ماڈلز آئن اسٹائن کے بھی ہوسکتے ہیں اور نیوٹن کے بھی ۔ جو کہ بہتر اندازے ہیں ۔ مگر قطعی نہیں ہیں ۔ لہذا کسی قطعی علم یا یوں کہہ لیں کہ absolute- truth تک نہ پہنچ جانا کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری دائرہ ہے ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ فکری ارتقاء less- wrong سے ہی ممکن ہے ۔ فکری ، سائنسی اور سماجی ترقیاں ہمیشہ غلطیوں کی اصلاح سے ہی ممکن ہوتیں ہیں ۔ پرانے نظریے بھی اس فورمولے کے تحت رد کیئے جاتے ہیں اور نئے نظریوں کو جگہ ملتی ہے ۔ یہ عمل سائنس اور مذہب میں بھی اسی طرح عمل پیرا ہوتا ہے ۔ less- wrong میں کوئی قباحت نہیں ہے ہاں البتہ اگر انسان اپنی غلطی تسلیم نہ کرے ، اپنے سیکھنے کا عمل ترک کردے اور اپنی رائے کو قطعی حق سمجھے تو قباحت یہاں پیدا ہوتی ہے ۔
ہر فیصلہ ، ہر قانون اور کوئی بھی سائنسی کلیہ اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس پر کوئی قوی دلیل نہ آجائے ۔یعنی ہم زندگی "best -available -understanding" پر گزارتے ہیں اور اسی میں ترقی ہے۔
مطلق علم کی عدم دستیابی کے باوجود "کم غلط" ہوتے جانا،انسانی شعور، فکری دیانت، اور عقلی ارتقاء کی علامت ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ یہی عقلی سفر کا حقیقی رخ ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آج کل سپیشلائزیشن کا دور ہے یعنی ایک شعبہ علم کی ایک برانچ میں تخصص حاصل کرنا۔

اکتسابی علوم کا احاطہ کرنے کے لیے جنرلائزیشن درکار ہے یعنی ہر شعبہ علم کو کلی طور پر جاننا جو کہ محال ہے۔ یعنی ہم کسی ایسے شخص کی مثال نہیں دے سکتے جو بیک وقت فزکس ، کمیسڑی ، میتھ ، بائیولوجی ، میڈیسن ، زولوجی ، باٹنی وغیرہ وغیرہ کا علم رکھتا ہو۔

لہذا انسان کو اپنے اور دوسرے فرد ، جس سے وہ سوال کر رہا ہے ، کے مبلغ علمی (وہ کیا جانتا ہے)اور عجز علمی (کیا نہیں جانتا) کا شعور رکھتے ہوئے سوال کرنا ہے ۔

اور یہ بھی ماننا ہے کہ کچھ سوال ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کا جواب دینے کے لیے انسان کے پاس متعلقہ ڈیٹا موجود نہیں۔

حقیقت کیا ہے ؟
وہ اس چیز کا جاننا ہے کہ:
میں کیا ہوں ؟
کائنات کیا ہے ؟
اور
اس ذات کا حتی المقدور عرفان جس نے مجھے اور کائنات کو تخلیق کیا

ان تینوں سوالات کے بارے میں انسان کے پاس مکمل ڈیٹا موجود نہیں۔

تیسرے سوال کی نوعیت تو کلی طور پر مابعد الطبیعاتی ہے
جب کہ پہلے دو سوالوں کے طبیعاتی و حیاتیاتی جوابات دیتے ہوئے ایک مقام ایسا آ جاتا ہے جہاں مابعد الطبیعات کی سرحد شروع ہوتی ہے۔

علمی احاطہ سے متعلقہ آیات:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎2:31‏ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ‎2:32
اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو،
فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے،

وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ --- 2:255
اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہے

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا 20:110
وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دُوسروں کو اس کا پورا عِلم نہیں ہے

--- وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ 12:76
اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے

جو چیز انسان کے احاطہ علمی سے باہر ہے اسے غیب کہہ لیجیے ، اس کے بارے میں ارشاد ہے:
قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ 2:33
تو اللہ نے فرمایا: "میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ 2:3
جو غیب پر ایمان لاتے ہیں

ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ 3:44
اے محمدؐ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں

انسان کے علمی احاطہ سے باہر اشیا کے بارے میں راہنمائی صرف نبی علیہ السلام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے:
موجودہ فلسفہ ، نفسیات ، بائیالوجی ، کیمسٹری ، فزکس وغیرہ پڑھنے یا پڑھانے والے کتنے ایسے ہیں جو فکری ظلمات سے محفوظ ہوں۔
اسلام کا نام چھوڑنا یعنی کھلم کھلا اسلام ترک کرنا آسان نہیں تھا تو کسی نے دل کو خوش کرنے کے لئے نیچری مذہب ایجاد کر لیا۔ کسی نے اہلِ قرآن یا پرویزی نام اختیار کیا۔
یہ سب کیوں تھا؟
معجزات کی عقلی توجیہہ نہیں مل رہی ، فرشتوں کا وجود کیوں کر ثابت کریں۔ حالاں کہ بد نصیب اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ :
حقائقِ غیبیہ کا عقل سے ادراک ہمارے بس سے باہر ہے۔ عالم غیب کا تعارف صرف نبی (علیہ السلام) ہی کرا سکتا ہے اور یہ اسی کی منصبی ذمہ داری ہے۔
( پروفیسر محمد حسین آسی )

ڈاکٹر طاہر القادری اپنی کتاب علم اور مصادر علم کے صفحہ 83 پر لکھتے ہیں:
عقل کی لامحدودیت کا تصور مادیت کا فتنہ ہے:
دور حاضر میں مادیت کے فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ عقل کی لامحدودیت کا تصور ہے۔ یہ فتنہ اتنا سنگین ہے کہ مسلمان کو ایمان کے نور سے محروم تک کر دیتا ہے۔ جب عقل ایک محدود شخصیت کا حصہ ہے تو وہ خود کیسے لامحدود ہوسکتی ہے؟ عقل ہمارے دماغ میں ہوتی ہے، دماغ ہماری کھوپڑی کے اندر ہے، ہمارا سر ہمارے بدن کا حصہ ہے اور بدن ہماری شخصیت کا حصہ ہے۔ ہم سر تا پا محدود ہیں۔ ہماری ہر صلاحیت، ہر عضو کی صلاحیت اور صلاحیتوں کی ساری حدود محدود ہیں۔ ایک ایسا وجود جو سارے کا سارا محدود ہو، وہ لامحدود کا ادراک بھلا کیسے کر سکتا ہے؟ عمر بھر تالاب میں رہنے والے سمندر کا تصور نہیں کر سکتے۔ بند غار میں رہنے والے کھلی دنیا کا تصور نہیں کر سکتے۔ عمر بھر اندھیرے میں رہنے والے روشن دنیا کا تصور کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے سارے علوم کا تعلق ہماری طبائع، ہمارے اعضاء کی صلاحیتوں اور ہمارے محدود ادراکات کی استعداد سے ہے۔ لہٰذا ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جب ہم لامحدود کے بارے میں فیصلہ محدود عقل و فہم سے کرنا چاہیں گے تو یہ بے عقلی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی لیے قرآن مجید میں بار بار فرمایا ہے:
وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
اور یہ نصیحت صرف اہل دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔

یعنی دانشمندی یہی ہے کہ انسان لامحدود کو اپنی محدود صلاحیتوں سے قطعاً نہیں جان سکتا بلکہ تسلیم و رضا کا پیکر بنتے ہوئے، اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے احکامات کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ اس کے بڑا عالم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب اس سے کسی شے کی آخری حقیقت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: من نمی دانم، میں نہیں جانتا۔ یہی بات سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی فرمائی ہے:
الْعَجْزُ عَنْ دَرْكِ الْإِدْرَاكِ إِدْرَاكٌ
اصل ادراک، عدم ادراک کا ادراک ہے۔
یعنی یہ جان لینا کہ میں نہیں جانتا، یہ جان لینا کہ اس حقیقت علیا (ultimate truth) تک میں نہیں پہنچ سکتا، یہ جان لینا کہ اس کو سمجھنا میری ذاتی استعداد سے باہر ہے۔ جب انسان اس
مقام پر پہنچ جاتا ہے تو یہی اصل علم ہے۔
 
آخری تدوین:
Top