پاکستان اور انڈیا میں جنگ کا آغاز

جاسمن

لائبریرین
مذاکرات کے پہلے مرحلے میں پاک بھارت جنگ بندی کو جاری رکھنے پر متفق ۔
اچھی اور خوش آئند بات ہے ۔ خدا کرے طرفین انسانی نقصانات کے امکانات کو کم سے کم کرنے میں کوشاں رہیں ۔
آمین! ثم آمین!
یا ربّ العالمین!
 

ظفری

لائبریرین
پھر تو غزہ میں بھی کوئی جنگ نہجیں۔ آپ جنگ کو بالکل اپنی مرضی کے معنی دے رہے ہیں۔
یہ تاثر میں آ پ کے بارے میں قائم کررہا ہوں کہ آپ کے مطابق ہر جھڑپ کسی بھی لیویل یا اسکیل پر ہو۔ وہ روایتی جنگ کہلاتی ہے ۔ مگرایک روایتی جنگ کا اطلاق ہر قسم کی جنگ پر نہیں ہوتا ۔ اگر آپ بین الاقوامی تعلقات اور عسکری سائنس کو مدِنظر رکھیں تو روایتی جنگ کی تعریف کچھ یوں بنتی ہے کہ ریاستوں کے درمیان منظم اور مسلح جھڑپیں جس میں دونوں فریقین اپنی اپنی جنگی طاقتوں کو استعمال کریں۔اور اس کا دائرہ اور شدت معمولی سرحدی چھڑپوں سے بڑھ کر ہو ۔ یعنی ایک ایسی منظم فوجی طاقت کا استعمال جو اپنی شدت اور تسلسل میں سیاسی ، علاقائی مقاصد اور بالادستی کے لیئے مکمل طور پر موبلائیزیشن بنیادوں پر انجام پائے اس کو عالمی سطح پر روایتی جنگ کہا جاتا ہے ۔ یعنی یہ Mode -of -warfare پر منحصر ہے کہ جنگ کی نوعیت کیا ہے ۔
1965 اور 1971 کی جنگیں اس کی مثالیں ہیں ۔ جہاں دونوں ریاستوں نے باقاعدہ اپنی فوجیں استعمال کیں ۔ بین الاقومی سرحد پار کی گئی ۔ مکمل طور فوجی موبلائیزیشن وجود میں آئی ۔ اور عالمی سطح پر اسے وار تسلیم کیا گیا ۔ اس کے برعکس کارگل وار کو ایک مکمل جنگ تسلیم نہیں کیا گیا ۔ بلکہ اس کو ایک محدود جنگ کا نام دیا گیا ۔ اس محدود جنگ کا دائرہ ایل او سی تک ہی محدود رہا ۔ بھارت اور پاکستان نے انٹرنیشنل سرحد پار نہیں کی ۔ کارگل میں پاکستان اور بھارت نے اپنی مکمل فوجی طاقت استعمال نہیں کی ۔ یہ جنگ کارگل کے مخصوص سیکڑز کارگل ، دراس اور بتالک تک ہی محدود رہی ۔ فضائی جنگ بھی محدود تھی ۔ کارگل جنگ میں پاکستان نے اپنی فضائیہ بھی استعمال نہیں کی ۔ اب اگر ہم Mode ، of ،warfare کی اصطلاح کو کارگل جنگ پر استعمال کریں تو وہ ایک مکمل جنگ نہیں تھی۔ بلکہ محدود اور مخصوص علاقے تک مقید تھی ۔مگر اس جنگ کے کچھ منفرد پہلو بھی تھے ۔ جو اس کو Low-intensity -conflict سے الگ کرتے ہیں ۔
جہاں تک غزہ کی بات ہے تو اسے بھی آپ روایتی جنگ کا نام نہیں دے سکتے ۔ یہ ایک غیر متوازن جنگ یعنی asymmetric، warfare ہے ۔ کیونکہ اسرائیل کے پاس ایک باقاعدہ فوج ہے ۔ دوسری طرف ایک غیرریاستی مسلح گروہ ہے یعنی حماس ہے ۔ دونوں میں لڑائی کی شدت بہت ہے ۔ مگر قانونی طور پر دونوں ریاستیں نہیں ہیں ۔ بین الاقومی قانون کے تحت اسے armed، conflict تو کہا جاسکتا ہے ۔ مگر روایتی جنگ نہیں ۔

پاکستان وہ ملک ہے جہاں اکثر لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ 1965 کی جنگ 6 ستمبر کو شروع ہوئی جبکہ پاکستان فوج شروع اگست میں حملہ کر چکی تھی اور جنگ ایک ماہ سے جاری تھی
میرا خیال ہے کہ آپ بحث کا اصل ماخذ بھول رہے ہیں ۔ یہ رہا آپ کی پوسٹ کا اقتباس جس کو میں نے کوٹ کیا تھا ۔ اور اس پر بحث شروع کی تھی ۔ میری اوپر کی پوسٹ اور اس سے پہلے کی پوسٹ اسی اختلاف کے باعث تھی کہ جنگ ایک ماہ سے جاری تھی ۔ وہ ایک محدود جنگ تھی جو ستمبر 1965 میں روایتی جنگ بن گئی ۔ میں ہر لڑائی کو اس کے Mode- of -warfare کی اصطلاح میں دیکھتا ہوں ۔
جھڑپوں اور جنگ میں سکیل اور تسلسل کا فرق ہے۔ آپریشن جبرالٹر میں ہزاروں پاکستانی فوجی انڈین کشمیر میں گئے تھے۔ پھر آپریشن گرینڈ سلیم میں ایک میجر جنرل کی قیادت میں پاکستانی فوج انڈین کشمیر میں کافی دور تک گئی۔ یہ سب 6 ستمبر سے پہلے ہوا
جیسا کہ آپ نے کہا کہ جھڑپوں اور جنگ کے اسکیل اور تسلسل میں فرق ہوتا ہے ۔مگر یہ فرق آپ خود کر نہیں پارہے ہیں ۔ آپ نے آپریشن جبرالٹر کا حوالہ دیا ۔ اگر آپ اسے Mode ، of ،warfare کی اصطلاح میں دیکھیں تو وہ ایک خفیہ آپریشن تھا، جس میں پاکستان نے مجاہدین اور کمانڈوز کو کشمیر میں داخل کیا۔ یہ جنگ بلکہ غیر روایتی طریقے پر لڑی گئی ۔ اس میں باقاعدہ فوج کے بجائےخاص دستے استعمال ہوئے ۔ بلکل ایک گوریلا جنگ تھی ۔ آپریشن گرینڈ سلم 1 ستمبر کو کشمیر کے علاقے اخنور میں ہوا،اس مقام سے بھارت کی سپلائی لائن کاٹنا مقصود تھا ۔ جو ایک پُل پر انحصار کرتی تھی ۔ یہ بھی ایک محدود جنگ تھی مگر بعد میں ایک مکمل جنگ بن گئی کہ اس کے بعد پھر 6 ستمبر کو نیچے بھارت نے انٹرنیشنل باڈر کراس کیا اور ایک روایتی جنگ کا آغاز ہو ا۔
 

زیک

مسافر
میرا خیال ہے کہ آپ بحث کا اصل ماخذ بھول رہے ہیں ۔ یہ رہا آپ کی پوسٹ کا اقتباس جس کو میں نے کوٹ کیا تھا ۔ اور اس پر بحث شروع کی تھی ۔ میری اوپر کی پوسٹ اور اس سے پہلے کی پوسٹ اسی اختلاف کے باعث تھی کہ جنگ ایک ماہ سے جاری تھی ۔ وہ ایک محدود جنگ تھی جو ستمبر 1965 میں روایتی جنگ بن گئی ۔ میں ہر لڑائی کو اس کے Mode- of -warfare کی اصطلاح میں دیکھتا ہوں
آپ ایک تسلسل میں لڑی جانے والی لڑائیوں کے ٹکڑے کر کے انہیں علیحدہ علیحدہ دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں کرتا۔ دوسرے آپ نے آپریشن گرینڈ سلیم کو نظرانداز کر دیا کیونکہ وہ آپ کی تھیوری پر پورا نہیں اترتا تھا۔

کارگل اور غزہ کی جنگیں اپنے جانی نقصان کی وجہ سے جنگیں کہلاتی ہیں۔ بہرحال وہاں آپ کی مرضی ہے لیکن ایک جنگ کو تین نہ بنائیں پلیز
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
آپ ایک تسلسل میں لڑی جانے والی لڑائیوں کے ٹکڑے کر کے انہیں علیحدہ علیحدہ دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں کرتا۔ دوسرے آپ نے آپریشن گرینڈ سلیم کو نظرانداز کر دیا کیونکہ وہ آپ کی تھیوری پر پورا نہیں اترتا تھا۔

کارگل اور غزہ کی جنگیں اپنے جانی نقصان کی وجہ سے جنگیں کہلاتی ہیں۔ بہرحال وہاں آپ کی مرضی ہے لیکن ایک جنگ کو تین نہ بنائیں پلیز
اب تو مجھے پورا یقین ہوگیا کہ آپ میاں بیوی کی لڑائی کو بھی جنگ ہی کہتے ہونگے۔ :thinking:
 
انڈیا کا نقصان نہیں دکھایا گیا پاکستان کا نقصان دکھایا گیا ہے تصاویر میں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
لکھاریوں میں ایک بھارتی بھی ہے، شاید اس کا دل رکھنا مقصود تھا۔ باقی سارا مضمون الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے۔
 

یاز

محفلین
یہ تاثر میں آ پ کے بارے میں قائم کررہا ہوں کہ آپ کے مطابق ہر جھڑپ کسی بھی لیویل یا اسکیل پر ہو۔ وہ روایتی جنگ کہلاتی ہے ۔ مگرایک روایتی جنگ کا اطلاق ہر قسم کی جنگ پر نہیں ہوتا ۔ اگر آپ بین الاقوامی تعلقات اور عسکری سائنس کو مدِنظر رکھیں تو روایتی جنگ کی تعریف کچھ یوں بنتی ہے کہ ریاستوں کے درمیان منظم اور مسلح جھڑپیں جس میں دونوں فریقین اپنی اپنی جنگی طاقتوں کو استعمال کریں۔اور اس کا دائرہ اور شدت معمولی سرحدی چھڑپوں سے بڑھ کر ہو ۔ یعنی ایک ایسی منظم فوجی طاقت کا استعمال جو اپنی شدت اور تسلسل میں سیاسی ، علاقائی مقاصد اور بالادستی کے لیئے مکمل طور پر موبلائیزیشن بنیادوں پر انجام پائے اس کو عالمی سطح پر روایتی جنگ کہا جاتا ہے ۔ یعنی یہ Mode -of -warfare پر منحصر ہے کہ جنگ کی نوعیت کیا ہے ۔
1965 اور 1971 کی جنگیں اس کی مثالیں ہیں ۔ جہاں دونوں ریاستوں نے باقاعدہ اپنی فوجیں استعمال کیں ۔ بین الاقومی سرحد پار کی گئی ۔ مکمل طور فوجی موبلائیزیشن وجود میں آئی ۔ اور عالمی سطح پر اسے وار تسلیم کیا گیا ۔ اس کے برعکس کارگل وار کو ایک مکمل جنگ تسلیم نہیں کیا گیا ۔ بلکہ اس کو ایک محدود جنگ کا نام دیا گیا ۔ اس محدود جنگ کا دائرہ ایل او سی تک ہی محدود رہا ۔ بھارت اور پاکستان نے انٹرنیشنل سرحد پار نہیں کی ۔ کارگل میں پاکستان اور بھارت نے اپنی مکمل فوجی طاقت استعمال نہیں کی ۔ یہ جنگ کارگل کے مخصوص سیکڑز کارگل ، دراس اور بتالک تک ہی محدود رہی ۔ فضائی جنگ بھی محدود تھی ۔ کارگل جنگ میں پاکستان نے اپنی فضائیہ بھی استعمال نہیں کی ۔ اب اگر ہم Mode ، of ،warfare کی اصطلاح کو کارگل جنگ پر استعمال کریں تو وہ ایک مکمل جنگ نہیں تھی۔ بلکہ محدود اور مخصوص علاقے تک مقید تھی ۔مگر اس جنگ کے کچھ منفرد پہلو بھی تھے ۔ جو اس کو Low-intensity -conflict سے الگ کرتے ہیں ۔
جہاں تک غزہ کی بات ہے تو اسے بھی آپ روایتی جنگ کا نام نہیں دے سکتے ۔ یہ ایک غیر متوازن جنگ یعنی asymmetric، warfare ہے ۔ کیونکہ اسرائیل کے پاس ایک باقاعدہ فوج ہے ۔ دوسری طرف ایک غیرریاستی مسلح گروہ ہے یعنی حماس ہے ۔ دونوں میں لڑائی کی شدت بہت ہے ۔ مگر قانونی طور پر دونوں ریاستیں نہیں ہیں ۔ بین الاقومی قانون کے تحت اسے armed، conflict تو کہا جاسکتا ہے ۔ مگر روایتی جنگ نہیں ۔


میرا خیال ہے کہ آپ بحث کا اصل ماخذ بھول رہے ہیں ۔ یہ رہا آپ کی پوسٹ کا اقتباس جس کو میں نے کوٹ کیا تھا ۔ اور اس پر بحث شروع کی تھی ۔ میری اوپر کی پوسٹ اور اس سے پہلے کی پوسٹ اسی اختلاف کے باعث تھی کہ جنگ ایک ماہ سے جاری تھی ۔ وہ ایک محدود جنگ تھی جو ستمبر 1965 میں روایتی جنگ بن گئی ۔ میں ہر لڑائی کو اس کے Mode- of -warfare کی اصطلاح میں دیکھتا ہوں ۔

جیسا کہ آپ نے کہا کہ جھڑپوں اور جنگ کے اسکیل اور تسلسل میں فرق ہوتا ہے ۔مگر یہ فرق آپ خود کر نہیں پارہے ہیں ۔ آپ نے آپریشن جبرالٹر کا حوالہ دیا ۔ اگر آپ اسے Mode ، of ،warfare کی اصطلاح میں دیکھیں تو وہ ایک خفیہ آپریشن تھا، جس میں پاکستان نے مجاہدین اور کمانڈوز کو کشمیر میں داخل کیا۔ یہ جنگ بلکہ غیر روایتی طریقے پر لڑی گئی ۔ اس میں باقاعدہ فوج کے بجائےخاص دستے استعمال ہوئے ۔ بلکل ایک گوریلا جنگ تھی ۔ آپریشن گرینڈ سلم 1 ستمبر کو کشمیر کے علاقے اخنور میں ہوا،اس مقام سے بھارت کی سپلائی لائن کاٹنا مقصود تھا ۔ جو ایک پُل پر انحصار کرتی تھی ۔ یہ بھی ایک محدود جنگ تھی مگر بعد میں ایک مکمل جنگ بن گئی کہ اس کے بعد پھر 6 ستمبر کو نیچے بھارت نے انٹرنیشنل باڈر کراس کیا اور ایک روایتی جنگ کا آغاز ہو ا۔
آپ کا بیان معلوماتی اور مدلل ہے، تاہم اس ضمن میں ہمارے شدید محدود علم کے باوجود چند نکات عرض ہیں۔
ایک تو یہ کہ تغیراتِ زمانہ کی بدولت روایتی جنگ اپنی شکل کافی حد تک تبدیل کر چکی ہے۔ اب دنیا روایتی جنگیں شاید نہ دیکھے یا بہت ہی کم دیکھے۔
دوسرا یہ کہ انٹرنیشنل بارڈر چاہے بندے کراس کریں یا میزائل کراس کریں، جنگ کا طبل تو سمجھیں بج گیا۔ میں کارگل کو ایک محدود جنگ کہنے کے آپ کے موقف سے اتفاق کرتا ہوں، تاہم موجودہ جنگ یا جھڑپ کو اس سے متماثل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مزید یہ کہ موبلائزیشن وغیرہ بھی اب شاید جنگوں میں شاذ ہی ہوا کریں۔ یہ صرف اس صورت میں ہوں گی، جب ایک ملک دوسرے کے کسی حصے یا مکمل ملک پر ملکیت کا دعویٰ کرے اور اسی مقصد سے جنگ مسلط کرے۔ روس یوکرین جنگ کو اس کی مثال سمجھ سکتے ہیں۔
اور آخری بات یہ کہ جین زی کا اٹیشن سپین کم ہونے کی وجہ سے جہاں دیگر چیزوں کے شارٹ ورژنز آ گئے ہیں، بس یوں جانیں کہ اب جنگیں بھی شارٹ یا فاسٹ فارورڈ موڈ میں لڑی جایا کریں گی۔
پی ایس: اہنسا کے پرچارک ہونے کی وجہ سے ہمیں جنگ پہ بات کرنا زیادہ پسند نہیں ہے، اوپری گفتگو بس یوں سمجھیں کہ زبان (یا کی بورڈ) سے پھسل وغیرہ گئی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کا بیان معلوماتی اور مدلل ہے، تاہم اس ضمن میں ہمارے شدید محدود علم کے باوجود چند نکات عرض ہیں۔
ایک تو یہ کہ تغیراتِ زمانہ کی بدولت روایتی جنگ اپنی شکل کافی حد تک تبدیل کر چکی ہے۔ اب دنیا روایتی جنگیں شاید نہ دیکھے یا بہت ہی کم دیکھے۔
دوسرا یہ کہ انٹرنیشنل بارڈر چاہے بندے کراس کریں یا میزائل کراس کریں، جنگ کا طبل تو سمجھیں بج گیا۔ میں کارگل کو ایک محدود جنگ کہنے کے آپ کے موقف سے اتفاق کرتا ہوں، تاہم موجودہ جنگ یا جھڑپ کو اس سے متماثل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مزید یہ کہ موبلائزیشن وغیرہ بھی اب شاید جنگوں میں شاذ ہی ہوا کریں۔ یہ صرف اس صورت میں ہوں گی، جب ایک ملک دوسرے کے کسی حصے یا مکمل ملک پر ملکیت کا دعویٰ کرے اور اسی مقصد سے جنگ مسلط کرے۔ روس یوکرین جنگ کو اس کی مثال سمجھ سکتے ہیں۔
اور آخری بات یہ کہ جین زی کا اٹیشن سپین کم ہونے کی وجہ سے جہاں دیگر چیزوں کے شارٹ ورژنز آ گئے ہیں، بس یوں جانیں کہ اب جنگیں بھی شارٹ یا فاسٹ فارورڈ موڈ میں لڑی جایا کریں گی۔
پی ایس: اہنسا کے پرچارک ہونے کی وجہ سے ہمیں جنگ پہ بات کرنا زیادہ پسند نہیں ہے، اوپری گفتگو بس یوں سمجھیں کہ زبان (یا کی بورڈ) سے پھسل وغیرہ گئی ہے۔
آپ کی بات بجا ہے ۔ مگر میری ساری گفتگو پچھلی جنگوں کے پیرائے کے حوالے سے تھی ،جن کا بار بار ذکر کیا گیا ۔
 

زیک

مسافر
اب کی بار شاہینو کا پلڑا بھاری رہا
جنگ میں اکثر سچ کی موت سب سے پہلے ہوتی ہے۔ اس لئے ہر کوئی بڑے بڑے دعوے کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ بھی سیاست ہی کی دوسری قسم ہے۔ لہذا سوچنا چاہیئے کہ جنگ سے strategically اور tactically کیا حاصل ہوا؟
 
جنگ میں اکثر سچ کی موت سب سے پہلے ہوتی ہے۔ اس لئے ہر کوئی بڑے بڑے دعوے کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگ بھی سیاست ہی کی دوسری قسم ہے۔ لہذا سوچنا چاہیئے کہ جنگ سے strategically اور tactically کیا حاصل ہوا؟
کوئی گل نہیں جنا کو تے جنج دا سچ پہلاں وی ساڈے کول چل ریا سی اوہندے نالوں اک واری اینوں مر ای لین دیو۔۔۔
 
Top