التماس در ردِ التباس

رضوان راز

محفلین
صاحبو! کمرۂ امتحان سے میرا واسطہ پرانا ہے۔ گو کہ میری بے ہنری کسی امتحان کی متحمل نہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں تقریباً سب ہی کمرۂ امتحان کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو امتحان دیتے دیتے استاد ہو جاتے ہیں اور پھر سے اسی کمرۂ امتحان میں بہ طور نگران آن براجتے ہیں۔ یوں تو ہم میں سے ہر ایک اس وقت دارالامتحان میں ہے اور وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اس کا دراک نہیں کر پاتے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے آخری برسوں کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کا امتحان دے رہا تھا بڑے سے ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ نگران اُمیدواروں کی قطاروں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک یوں آجا رہے تھے جیسے جولاہا تانا تان رہا ہو۔ لیکن ان کی یہ مسلسل حرکت بھی خاموش تھی ،
گُربہ گام، دبے پاؤں، بغیر آواز ۔ ایک سقفی پنکھا سبک رفتار تو تھا لیکن مسلسل شکایت کناں، شاید برسوں کی خدمت کے بعد سبک دوش ہونا چاہتا ہو۔ پنکھا تو پاکستانی تھا اغلب ہے کہ گجراتی ہوگا۔ لیکن اس کی روشِ احتجاج جاپانی تھی جس سے حال ہی میں ہمارے وزیراعظم نے قوم کو روشناس کیا۔ اس آواز کو لکھنے کے لیے ایک مضموم الف اور اس کے آگے بہت سے واؤ درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ اب بھی نہیں سمجھ پائے تو اپنا دہنِ مبارک کھولیے، لبوں کو گولائی کی صورت میں کچھ باہر نکالیے یہاں تک کہ رخِ انور پر تھوتھنی نمایاں ہو جائے اب پھیپھڑوں میں بھری ہوا با آواز خارج کیجیے، جی ہاں، یہی بالکل یہی آواز ۔۔۔۔۔ اب آپ سمجھے۔
پردۂ سکوت کو پنکھے کی صدائے احتجاج یوں کاٹ رہی تھی جیسے باریک دندانوں کی آری لکڑی کاٹتی ہے۔ سہج سہج، دھیرے دھیرے، پور پور لیکن مسلسل، یوں کہ کٹنے والے کو احساس بھی نہ ہو کہ وہ کٹ رہا ہے۔ یوں ہی اس پنکھے کی آواز بھی خاموشی میں جذب ہو کر اس کا حصہ بن گئی تھی۔ آواز موجود تھی لیکن نہیں تھی۔ بہ قول غالب
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
اچانک ایک جانب سے شور سنائی دیا۔ دیکھا تو سپرنٹینڈنٹ صاحب مثلِ شیرِ نر دہاڑ رہے ہیں اور ایک امیدوار سر جھکائے ہاتھ جوڑے مثلِ یعور ممیا رہا ہے۔ سپرنٹینڈنٹ صاحب اس کی کلائی تھامے کمرے سے باہر نکل گئے۔ کمرے میں پھر وہی اک صدا باقی رہ گئی۔
ساز تو ٹوٹ گیا اس کی صدا باقی ہے
کچھ دیر بعد صاحب دوبارہ تشریف لائے، میز پر ایک کاغذ دھرا اور ہولے ہولے اپنے نائب سے کچھ کہہ کر رخصت ہو گئے۔ ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ نے اس کاغذ پر کچھ لکھا اور پھر دستخط کر دیے۔ میری نشست ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کے بالکل مقابل تھی درمیان میں صرف میز حائل تھی۔ میں میز کے اس طرف بیٹھا تھا اور صاحب دوسری طرف۔
تجسّس سے مجبور ڈرتے ڈرتے اس کاغذ کی طرف اچٹتی سی نظر سے دیکھا اور پھر اپنے پرچے پر سر جھکا لیا۔ پرچہ تو وقت سے پہلے حل کر چکا تھا لیکن اپنے اساتذہ کی ہدایت کے مطابق اپنا لکھا بار بار پڑھ رہا تھا۔ وقت رہتے باہر جانے کا مطلب تھا ساتھ آئے ہوئے استادِ محترم سے کان کھنچوانا جو کمرہ امتحان کے باہر ہم سب کے منتظر تھے۔ کچھ دیر بعد کن اکھیوں سے دیکھا تو نائب سپرنٹینڈنٹ کو کاغذوں کے پلندے سے جوجھتے پایا۔ برسبیل ِتذکرہ امتحانی مرکز کا مصروف ترین اہل کار ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ ہوتا ہے۔ تمام تر کاغذی کارروائی اسے کرنا ہوتی ہے۔ انہیں مصروف دیکھ کر کاغذ کو کچھ زیادہ دیر تک گھورا احتیاطاً قلم دانتوں میں دبا کر سوچنے کا انداز بنایا جیسے سوچتے سوچتے بے دھیانی میں نگاہیں کہیں مرکوز ہو جاتی ہیں لیکن یہ تو دکھاوا تھا میں بہ ظاہر غافل، بہ باطن ہوشیار کاغذ کا متن پڑھ رہا تھا۔ ابتدائی سطور پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ تھانے دار کے نام اندراج ِ مقدمہ کی درخواست تھی۔اتنا پڑھ کر دوبارہ سر جھکا کر پرچے پر سجدہ ریز ہوا۔ اگلی قسط میں آگے کی سطور پڑھیں کہ امیدوار فلاں ولد فلاں کو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ فلاں فلاں کے تحت " تلبیسِ شخصی" کا مرتکب پایا گیا۔ تلبیس، تلبیس یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لفظ ذہن میں کھب کر رہ گیا صد شکر کہ پرچہ حل کر چکا تھا کیوں کہ دماغ جواب سوچنے اور ہاتھ لکھنے کے قابل نہیں رہا تھا ذہن میں فقط ایک لفظ گونج رہا تھا، تلبیس
گھر پہنچتے ہی لغت کی بزرگ جلد کھولی ، جو جیب خرچ پس انداز کرنے کے بعد پرانی کتابوں کی دکان سے خریدی تھی۔ تلبیس کا مطلب دیکھا، سکھ کا سانس لیا، جان میں جان آئی۔
آج اتنے برس بعد تلبیس نے بارِ دگر بے قرار کر دیا جب خود کو اس کا شکار پایا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنابِ صدر گرامی قدر کو التباس ہوا اور انہوں نے مجھ ناچیز کی بجائے میرے ہم نام کو منتظم بنا دیا۔ اب میں منتظم ہوں ، لیکن نہیں ہوں۔ یعنی بہ تصرفِ قلیل
ہر چند کہوں کہ ہوں ، نہیں ہوں
سو یہ التماس در ردِ التباس بہ خدمت مجلسِ منتظمین اور تائید کنندگان پیش ہے کہ بندہ ملتمس ہے کہ بندہ ملتبس ہے۔
 

رضوان راز

محفلین
صاحبو! کمرۂ امتحان سے میرا واسطہ پرانا ہے۔ گو کہ میری بے ہنری کسی امتحان کی متحمل نہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں تقریباً سب ہی کمرۂ امتحان کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو امتحان دیتے دیتے استاد ہو جاتے ہیں اور پھر سے اسی کمرۂ امتحان میں بہ طور نگران آن براجتے ہیں۔ یوں تو ہم میں سے ہر ایک اس وقت دارالامتحان میں ہے اور وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اس کا دراک نہیں کر پاتے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے آخری برسوں کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کا امتحان دے رہا تھا بڑے سے ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ نگران اُمیدواروں کی قطاروں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک یوں آجا رہے تھے جیسے جولاہا تانا تان رہا ہو۔ لیکن ان کی یہ مسلسل حرکت بھی خاموش تھی ،
گُربہ گام، دبے پاؤں، بغیر آواز ۔ ایک سقفی پنکھا سبک رفتار تو تھا لیکن مسلسل شکایت کناں، شاید برسوں کی خدمت کے بعد سبک دوش ہونا چاہتا ہو۔ پنکھا تو پاکستانی تھا اغلب ہے کہ گجراتی ہوگا۔ لیکن اس کی روشِ احتجاج جاپانی تھی جس سے حال ہی میں ہمارے وزیراعظم نے قوم کو روشناس کیا۔ اس آواز کو لکھنے کے لیے ایک مضموم الف اور اس کے آگے بہت سے واؤ درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ اب بھی نہیں سمجھ پائے تو اپنا دہنِ مبارک کھولیے، لبوں کو گولائی کی صورت میں کچھ باہر نکالیے یہاں تک کہ رخِ انور پر تھوتھنی نمایاں ہو جائے اب پھیپھڑوں میں بھری ہوا با آواز خارج کیجیے، جی ہاں، یہی بالکل یہی آواز ۔۔۔۔۔ اب آپ سمجھے۔
پردۂ سکوت کو پنکھے کی صدائے احتجاج یوں کاٹ رہی تھی جیسے باریک دندانوں کی آری لکڑی کاٹتی ہے۔ سہج سہج، دھیرے دھیرے، پور پور لیکن مسلسل، یوں کہ کٹنے والے کو احساس بھی نہ ہو کہ وہ کٹ رہا ہے۔ یوں ہی اس پنکھے کی آواز بھی خاموشی میں جذب ہو کر اس کا حصہ بن گئی تھی۔ آواز موجود تھی لیکن نہیں تھی۔ بہ قول غالب
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
اچانک ایک جانب سے شور سنائی دیا۔ دیکھا تو سپرنٹینڈنٹ صاحب مثلِ شیرِ نر دہاڑ رہے ہیں اور ایک امیدوار سر جھکائے ہاتھ جوڑے مثلِ یعور ممیا رہا ہے۔ سپرنٹینڈنٹ صاحب اس کی کلائی تھامے کمرے سے باہر نکل گئے۔ کمرے میں پھر وہی اک صدا باقی رہ گئی۔
ساز تو ٹوٹ گیا اس کی صدا باقی ہے
کچھ دیر بعد صاحب دوبارہ تشریف لائے، میز پر ایک کاغذ دھرا اور ہولے ہولے اپنے نائب سے کچھ کہہ کر رخصت ہو گئے۔ ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ نے اس کاغذ پر کچھ لکھا اور پھر دستخط کر دیے۔ میری نشست ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کے بالکل مقابل تھی درمیان میں صرف میز حائل تھی۔ میں میز کے اس طرف بیٹھا تھا اور صاحب دوسری طرف۔
تجسّس سے مجبور ڈرتے ڈرتے اس کاغذ کی طرف اچٹتی سی نظر سے دیکھا اور پھر اپنے پرچے پر سر جھکا لیا۔ پرچہ تو وقت سے پہلے حل کر چکا تھا لیکن اپنے اساتذہ کی ہدایت کے مطابق اپنا لکھا بار بار پڑھ رہا تھا۔ وقت رہتے باہر جانے کا مطلب تھا ساتھ آئے ہوئے استادِ محترم سے کان کھنچوانا جو کمرہ امتحان کے باہر ہم سب کے منتظر تھے۔ کچھ دیر بعد کن اکھیوں سے دیکھا تو نائب سپرنٹینڈنٹ کو کاغذوں کے پلندے سے جوجھتے پایا۔ برسبیل ِتذکرہ امتحانی مرکز کا مصروف ترین اہل کار ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ ہوتا ہے۔ تمام تر کاغذی کارروائی اسے کرنا ہوتی ہے۔ انہیں مصروف دیکھ کر کاغذ کو کچھ زیادہ دیر تک گھورا احتیاطاً قلم دانتوں میں دبا کر سوچنے کا انداز بنایا جیسے سوچتے سوچتے بے دھیانی میں نگاہیں کہیں مرکوز ہو جاتی ہیں لیکن یہ تو دکھاوا تھا میں بہ ظاہر غافل، بہ باطن ہوشیار کاغذ کا متن پڑھ رہا تھا۔ ابتدائی سطور پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ تھانے دار کے نام اندراج ِ مقدمہ کی درخواست تھی۔اتنا پڑھ کر دوبارہ سر جھکا کر پرچے پر سجدہ ریز ہوا۔ اگلی قسط میں آگے کی سطور پڑھیں کہ امیدوار فلاں ولد فلاں کو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ فلاں فلاں کے تحت " تلبیسِ شخصی" کا مرتکب پایا گیا۔ تلبیس، تلبیس یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لفظ ذہن میں کھب کر رہ گیا صد شکر کہ پرچہ حل کر چکا تھا کیوں کہ دماغ جواب سوچنے اور ہاتھ لکھنے کے قابل نہیں رہا تھا ذہن میں فقط ایک لفظ گونج رہا تھا، تلبیس
گھر پہنچتے ہی لغت کی بزرگ جلد کھولی ، جو جیب خرچ پس انداز کرنے کے بعد پرانی کتابوں کی دکان سے خریدی تھی۔ تلبیس کا مطلب دیکھا، سکھ کا سانس لیا، جان میں جان آئی۔
آج اتنے برس بعد تلبیس نے بارِ دگر بے قرار کر دیا جب خود کو اس کا شکار پایا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنابِ صدر گرامی قدر کو التباس ہوا اور انہوں نے مجھ ناچیز کی بجائے میرے ہم نام کو منتظم بنا دیا۔ اب میں منتظم ہوں ، لیکن نہیں ہوں۔ یعنی بہ تصرفِ قلیل
ہر چند کہوں کہ ہوں ، نہیں ہوں
سو یہ التماس در ردِ التباس بہ خدمت مجلسِ منتظمین اور تائید کنندگان پیش ہے کہ بندہ ملتمس ہے کہ بندہ ملتبس ہے۔
گزشتہ ماہ لاہور کی ایک غیر سرکاری ادبی تنظیم نے مجھ خاک سار کوایک شعبے کا منتظم بنایا لیکن اعلان میں میرے ایک ہم نام کا تعارف اور کوائف نشر کیے گئے ۔
اس مغالطے کو دور کرنے کے لیے جو تحریر کیا ۔ وہ پیشِ خدمت ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صاحبو! کمرۂ امتحان سے میرا واسطہ پرانا ہے۔ گو کہ میری بے ہنری کسی امتحان کی متحمل نہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں تقریباً سب ہی کمرۂ امتحان کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو امتحان دیتے دیتے استاد ہو جاتے ہیں اور پھر سے اسی کمرۂ امتحان میں بہ طور نگران آن براجتے ہیں۔ یوں تو ہم میں سے ہر ایک اس وقت دارالامتحان میں ہے اور وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اس کا دراک نہیں کر پاتے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے آخری برسوں کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کا امتحان دے رہا تھا بڑے سے ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ نگران اُمیدواروں کی قطاروں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک یوں آجا رہے تھے جیسے جولاہا تانا تان رہا ہو۔ لیکن ان کی یہ مسلسل حرکت بھی خاموش تھی ،
گُربہ گام، دبے پاؤں، بغیر آواز ۔ ایک سقفی پنکھا سبک رفتار تو تھا لیکن مسلسل شکایت کناں، شاید برسوں کی خدمت کے بعد سبک دوش ہونا چاہتا ہو۔ پنکھا تو پاکستانی تھا اغلب ہے کہ گجراتی ہوگا۔ لیکن اس کی روشِ احتجاج جاپانی تھی جس سے حال ہی میں ہمارے وزیراعظم نے قوم کو روشناس کیا۔ اس آواز کو لکھنے کے لیے ایک مضموم الف اور اس کے آگے بہت سے واؤ درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ اب بھی نہیں سمجھ پائے تو اپنا دہنِ مبارک کھولیے، لبوں کو گولائی کی صورت میں کچھ باہر نکالیے یہاں تک کہ رخِ انور پر تھوتھنی نمایاں ہو جائے اب پھیپھڑوں میں بھری ہوا با آواز خارج کیجیے، جی ہاں، یہی بالکل یہی آواز ۔۔۔۔۔ اب آپ سمجھے۔
پردۂ سکوت کو پنکھے کی صدائے احتجاج یوں کاٹ رہی تھی جیسے باریک دندانوں کی آری لکڑی کاٹتی ہے۔ سہج سہج، دھیرے دھیرے، پور پور لیکن مسلسل، یوں کہ کٹنے والے کو احساس بھی نہ ہو کہ وہ کٹ رہا ہے۔ یوں ہی اس پنکھے کی آواز بھی خاموشی میں جذب ہو کر اس کا حصہ بن گئی تھی۔ آواز موجود تھی لیکن نہیں تھی۔ بہ قول غالب
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
اچانک ایک جانب سے شور سنائی دیا۔ دیکھا تو سپرنٹینڈنٹ صاحب مثلِ شیرِ نر دہاڑ رہے ہیں اور ایک امیدوار سر جھکائے ہاتھ جوڑے مثلِ یعور ممیا رہا ہے۔ سپرنٹینڈنٹ صاحب اس کی کلائی تھامے کمرے سے باہر نکل گئے۔ کمرے میں پھر وہی اک صدا باقی رہ گئی۔
ساز تو ٹوٹ گیا اس کی صدا باقی ہے
کچھ دیر بعد صاحب دوبارہ تشریف لائے، میز پر ایک کاغذ دھرا اور ہولے ہولے اپنے نائب سے کچھ کہہ کر رخصت ہو گئے۔ ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ نے اس کاغذ پر کچھ لکھا اور پھر دستخط کر دیے۔ میری نشست ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کے بالکل مقابل تھی درمیان میں صرف میز حائل تھی۔ میں میز کے اس طرف بیٹھا تھا اور صاحب دوسری طرف۔
تجسّس سے مجبور ڈرتے ڈرتے اس کاغذ کی طرف اچٹتی سی نظر سے دیکھا اور پھر اپنے پرچے پر سر جھکا لیا۔ پرچہ تو وقت سے پہلے حل کر چکا تھا لیکن اپنے اساتذہ کی ہدایت کے مطابق اپنا لکھا بار بار پڑھ رہا تھا۔ وقت رہتے باہر جانے کا مطلب تھا ساتھ آئے ہوئے استادِ محترم سے کان کھنچوانا جو کمرہ امتحان کے باہر ہم سب کے منتظر تھے۔ کچھ دیر بعد کن اکھیوں سے دیکھا تو نائب سپرنٹینڈنٹ کو کاغذوں کے پلندے سے جوجھتے پایا۔ برسبیل ِتذکرہ امتحانی مرکز کا مصروف ترین اہل کار ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ ہوتا ہے۔ تمام تر کاغذی کارروائی اسے کرنا ہوتی ہے۔ انہیں مصروف دیکھ کر کاغذ کو کچھ زیادہ دیر تک گھورا احتیاطاً قلم دانتوں میں دبا کر سوچنے کا انداز بنایا جیسے سوچتے سوچتے بے دھیانی میں نگاہیں کہیں مرکوز ہو جاتی ہیں لیکن یہ تو دکھاوا تھا میں بہ ظاہر غافل، بہ باطن ہوشیار کاغذ کا متن پڑھ رہا تھا۔ ابتدائی سطور پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ تھانے دار کے نام اندراج ِ مقدمہ کی درخواست تھی۔اتنا پڑھ کر دوبارہ سر جھکا کر پرچے پر سجدہ ریز ہوا۔ اگلی قسط میں آگے کی سطور پڑھیں کہ امیدوار فلاں ولد فلاں کو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ فلاں فلاں کے تحت " تلبیسِ شخصی" کا مرتکب پایا گیا۔ تلبیس، تلبیس یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لفظ ذہن میں کھب کر رہ گیا صد شکر کہ پرچہ حل کر چکا تھا کیوں کہ دماغ جواب سوچنے اور ہاتھ لکھنے کے قابل نہیں رہا تھا ذہن میں فقط ایک لفظ گونج رہا تھا، تلبیس
گھر پہنچتے ہی لغت کی بزرگ جلد کھولی ، جو جیب خرچ پس انداز کرنے کے بعد پرانی کتابوں کی دکان سے خریدی تھی۔ تلبیس کا مطلب دیکھا، سکھ کا سانس لیا، جان میں جان آئی۔
آج اتنے برس بعد تلبیس نے بارِ دگر بے قرار کر دیا جب خود کو اس کا شکار پایا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنابِ صدر گرامی قدر کو التباس ہوا اور انہوں نے مجھ ناچیز کی بجائے میرے ہم نام کو منتظم بنا دیا۔ اب میں منتظم ہوں ، لیکن نہیں ہوں۔ یعنی بہ تصرفِ قلیل
ہر چند کہوں کہ ہوں ، نہیں ہوں
سو یہ التماس در ردِ التباس بہ خدمت مجلسِ منتظمین اور تائید کنندگان پیش ہے کہ بندہ ملتمس ہے کہ بندہ ملتبس ہے۔
مزیدار ، مزیدار! پنکھے کے ذکر کو خوب گھمایا ہے آپ نے۔
یہ بتائیے کہ ادبی تنظیم کی طرف سے کوئی جواب بھی آیا کہ نہیں ۔ یا انہوں نے "وی آر سوری" کہہ کر بات ختم کردی۔

تلبیس کی بھی خوب کہی ۔ ابنِ جوزی کی تلبیسِ ابلیس کا لڑکپن سے علما کے وعظوں اور خطبوں میں تذکرہ سنا کرتے تھے ۔ کالج کے زمانے میں کتاب دیکھی اور اس کے عملی مظاہرےیہاں امریکا آکر دیکھے۔ :)
 

رضوان راز

محفلین
بتائیے کہ ادبی تنظیم کی طرف سے کوئی جواب بھی آیا کہ نہیں ۔ یا انہوں نے "وی آر سوری" کہہ کر بات ختم کردی۔
تنظیم کے صدر ایک ہر دل عزیز اور بذلہ سنج شخصیت ہیں۔ ان کی جانب سے اعلان کی تصحیح کی گئی اور اس کے ساتھ یہ تحریر بھی شائع کی گئی جس کے جواب میں بہت دل چسپ پیغامات موصول ہوئے۔
ایک اور واقعہ ہوا۔
صاحبِ صدر کا اسمِ گرامی ایک پیغمبر کے نام نامی سے مستعار لیا گیا ہے اور اس پر مستزاد آپ خانوادۂ خواجگان سے تعلق رکھتے ہیں۔
یعنی الیاس خواجہ
میری اس جسارت آمیز تحریر کی اشاعت کے بعد جنابِ صدر کے نام پر پیغمبری وقت آن پڑا اور یار لوگوں نے ان کے نام میں انتہائی نامناسب حک و اضافہ کرتے ہوئے انہیں ایک ایسے نام سے پکار نا شروع کر دیا جس کا وزن اقتباس جیسا ہے۔ یعنی ال۔۔اس خواجہ
اب آپ ہی کہیے اس میں مجھ کم بخت کا کیا قصور
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
صاحبو! کمرۂ امتحان سے میرا واسطہ پرانا ہے۔ گو کہ میری بے ہنری کسی امتحان کی متحمل نہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں تقریباً سب ہی کمرۂ امتحان کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو امتحان دیتے دیتے استاد ہو جاتے ہیں اور پھر سے اسی کمرۂ امتحان میں بہ طور نگران آن براجتے ہیں۔ یوں تو ہم میں سے ہر ایک اس وقت دارالامتحان میں ہے اور وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اس کا دراک نہیں کر پاتے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی کے آخری برسوں کا ذکر ہے کہ میں میٹرک کا امتحان دے رہا تھا بڑے سے ہال میں مکمل خاموشی تھی۔ نگران اُمیدواروں کی قطاروں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک یوں آجا رہے تھے جیسے جولاہا تانا تان رہا ہو۔ لیکن ان کی یہ مسلسل حرکت بھی خاموش تھی ،
گُربہ گام، دبے پاؤں، بغیر آواز ۔ ایک سقفی پنکھا سبک رفتار تو تھا لیکن مسلسل شکایت کناں، شاید برسوں کی خدمت کے بعد سبک دوش ہونا چاہتا ہو۔ پنکھا تو پاکستانی تھا اغلب ہے کہ گجراتی ہوگا۔ لیکن اس کی روشِ احتجاج جاپانی تھی جس سے حال ہی میں ہمارے وزیراعظم نے قوم کو روشناس کیا۔ اس آواز کو لکھنے کے لیے ایک مضموم الف اور اس کے آگے بہت سے واؤ درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ اب بھی نہیں سمجھ پائے تو اپنا دہنِ مبارک کھولیے، لبوں کو گولائی کی صورت میں کچھ باہر نکالیے یہاں تک کہ رخِ انور پر تھوتھنی نمایاں ہو جائے اب پھیپھڑوں میں بھری ہوا با آواز خارج کیجیے، جی ہاں، یہی بالکل یہی آواز ۔۔۔۔۔ اب آپ سمجھے۔
پردۂ سکوت کو پنکھے کی صدائے احتجاج یوں کاٹ رہی تھی جیسے باریک دندانوں کی آری لکڑی کاٹتی ہے۔ سہج سہج، دھیرے دھیرے، پور پور لیکن مسلسل، یوں کہ کٹنے والے کو احساس بھی نہ ہو کہ وہ کٹ رہا ہے۔ یوں ہی اس پنکھے کی آواز بھی خاموشی میں جذب ہو کر اس کا حصہ بن گئی تھی۔ آواز موجود تھی لیکن نہیں تھی۔ بہ قول غالب
ہاں کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
اچانک ایک جانب سے شور سنائی دیا۔ دیکھا تو سپرنٹینڈنٹ صاحب مثلِ شیرِ نر دہاڑ رہے ہیں اور ایک امیدوار سر جھکائے ہاتھ جوڑے مثلِ یعور ممیا رہا ہے۔ سپرنٹینڈنٹ صاحب اس کی کلائی تھامے کمرے سے باہر نکل گئے۔ کمرے میں پھر وہی اک صدا باقی رہ گئی۔
ساز تو ٹوٹ گیا اس کی صدا باقی ہے
کچھ دیر بعد صاحب دوبارہ تشریف لائے، میز پر ایک کاغذ دھرا اور ہولے ہولے اپنے نائب سے کچھ کہہ کر رخصت ہو گئے۔ ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ نے اس کاغذ پر کچھ لکھا اور پھر دستخط کر دیے۔ میری نشست ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کے بالکل مقابل تھی درمیان میں صرف میز حائل تھی۔ میں میز کے اس طرف بیٹھا تھا اور صاحب دوسری طرف۔
تجسّس سے مجبور ڈرتے ڈرتے اس کاغذ کی طرف اچٹتی سی نظر سے دیکھا اور پھر اپنے پرچے پر سر جھکا لیا۔ پرچہ تو وقت سے پہلے حل کر چکا تھا لیکن اپنے اساتذہ کی ہدایت کے مطابق اپنا لکھا بار بار پڑھ رہا تھا۔ وقت رہتے باہر جانے کا مطلب تھا ساتھ آئے ہوئے استادِ محترم سے کان کھنچوانا جو کمرہ امتحان کے باہر ہم سب کے منتظر تھے۔ کچھ دیر بعد کن اکھیوں سے دیکھا تو نائب سپرنٹینڈنٹ کو کاغذوں کے پلندے سے جوجھتے پایا۔ برسبیل ِتذکرہ امتحانی مرکز کا مصروف ترین اہل کار ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ ہوتا ہے۔ تمام تر کاغذی کارروائی اسے کرنا ہوتی ہے۔ انہیں مصروف دیکھ کر کاغذ کو کچھ زیادہ دیر تک گھورا احتیاطاً قلم دانتوں میں دبا کر سوچنے کا انداز بنایا جیسے سوچتے سوچتے بے دھیانی میں نگاہیں کہیں مرکوز ہو جاتی ہیں لیکن یہ تو دکھاوا تھا میں بہ ظاہر غافل، بہ باطن ہوشیار کاغذ کا متن پڑھ رہا تھا۔ ابتدائی سطور پڑھ کر معلوم ہوا کہ یہ تھانے دار کے نام اندراج ِ مقدمہ کی درخواست تھی۔اتنا پڑھ کر دوبارہ سر جھکا کر پرچے پر سجدہ ریز ہوا۔ اگلی قسط میں آگے کی سطور پڑھیں کہ امیدوار فلاں ولد فلاں کو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ فلاں فلاں کے تحت " تلبیسِ شخصی" کا مرتکب پایا گیا۔ تلبیس، تلبیس یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ لفظ ذہن میں کھب کر رہ گیا صد شکر کہ پرچہ حل کر چکا تھا کیوں کہ دماغ جواب سوچنے اور ہاتھ لکھنے کے قابل نہیں رہا تھا ذہن میں فقط ایک لفظ گونج رہا تھا، تلبیس
گھر پہنچتے ہی لغت کی بزرگ جلد کھولی ، جو جیب خرچ پس انداز کرنے کے بعد پرانی کتابوں کی دکان سے خریدی تھی۔ تلبیس کا مطلب دیکھا، سکھ کا سانس لیا، جان میں جان آئی۔
آج اتنے برس بعد تلبیس نے بارِ دگر بے قرار کر دیا جب خود کو اس کا شکار پایا۔ واقعہ یہ ہے کہ جنابِ صدر گرامی قدر کو التباس ہوا اور انہوں نے مجھ ناچیز کی بجائے میرے ہم نام کو منتظم بنا دیا۔ اب میں منتظم ہوں ، لیکن نہیں ہوں۔ یعنی بہ تصرفِ قلیل
ہر چند کہوں کہ ہوں ، نہیں ہوں
سو یہ التماس در ردِ التباس بہ خدمت مجلسِ منتظمین اور تائید کنندگان پیش ہے کہ بندہ ملتمس ہے کہ بندہ ملتبس ہے۔
کیا ہی خوبصورت تحریر ہے۔۔۔۔ پنکھا گھوما اور ہم بھی۔۔۔۔۔ لاجواب۔۔۔۔ لاجواب۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
تلبیس کی بھی خوب کہی ۔ ابنِ جوزی کی تلبیسِ ابلیس کا لڑکپن سے علما کے وعظوں اور خطبوں میں تذکرہ سنا کرتے تھے ۔ کالج کے زمانے میں کتاب دیکھی اور اس کے عملی مظاہرےیہاں امریکا آکر دیکھے۔
یہ مظاہر اظہار کے محتاج ہیں حضور۔۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کی ذرہ نوازی ہےحضور
آپ کی شفقت سے حوصلہ ملا اور نیرنگ خیال کی تحاریر پڑھ کر تحریک ملی کہ یہ تحریر محفلین کی نذر کروں۔
شفیق الرحمن کے چند کردار ہیں۔۔۔ شیطان۔۔۔۔ میں۔۔۔ بڈی۔۔۔ امجد اور مقصود گھوڑا۔۔۔۔

ان میں سے کسی ایک افسانے میں ۔۔۔۔ شاید شیطان، عینک اور موسم بہار۔۔۔ یا پھر کوئی اور۔۔۔۔ شیطان یہ ضد کرتے ہیں۔۔۔ کہ ان کو رقیب میسر ہو۔۔۔ اور پھر رقیب کی اعلی و ارفع خصوصیات۔۔۔۔ جو کہ رقیب میسر نہ ہونے پر درجہ بدرجہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔۔۔۔ آخر ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ شیطان یہ فرمائش کرتے ہیں کہ یار رقیب ہو زندہ یا مردہ۔۔۔ اس مرحلے پر مقصود گھوڑے کو لایا گیا۔۔۔ ۔
جانے آج آپ کی بات سنکر اور پھر اپنا نام باعث تحریک سمجھ کر۔۔۔ مقصود گھوڑا یاد آیا ہےکہ اللہ اللہ۔۔۔۔ کب سے شیشہ دیکھ رہا ہوں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ ماہ لاہور کی ایک غیر سرکاری ادبی تنظیم نے مجھ خاک سار کوایک شعبے کا منتظم بنایا لیکن اعلان میں میرے ایک ہم نام کا تعارف اور کوائف نشر کیے گئے ۔
اس مغالطے کو دور کرنے کے لیے جو تحریر کیا ۔ وہ پیشِ خدمت ہے۔
کیا آپ لاہور ہی میں مقیم ہیں۔۔۔۔
 

رضوان راز

محفلین
جانے آج آپ کی بات سنکر اور پھر اپنا نام باعث تحریک سمجھ کر۔۔۔ مقصود گھوڑا یاد آیا ہےکہ اللہ اللہ۔۔۔۔ کب سے شیشہ دیکھ رہا ہوں۔
اجی حضرت گھوڑا تو نہایت عالی صفت جانور ہے غالباََ اسی لیے مجھے کبھی گھوڑے سے تشبیہہ نہیں دی گئی۔
البتہ بے تکلف دوست نسبتاً کم صفات سے متصف (بد خواہوں کے مطابق رذیل اور خسیس) جانوروں کے نام سے پکارتےہیں۔
والدِ گرامی کا زاویۂ نگاہ ان ہی کی طرح منفرد ہے وہ ایک حرام جانور سے تشبیہہ دیتے ہیں جس کے متعلق دادی جان مغفورہ فرماتی تھیں کہ اس کانام لینے سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے۔
اس نام سے پکارے جانے پر شاید اس قدر تکلیف نہ ہو جتنا اس کی ادائی سے ہوتی ہے۔موصوف خالص پنجابی لہجے میں ، بلند آواز سے صدا دیتے ہیں اور نام سے پہلے "اوئے "اور بعد میں الف لگانا نہیں بھولتے ۔
جیسے ہندی نام انگریزی میں لکھیں تو نریندر ، نریندرا ہو جاتا ہے۔
سو
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
اجی حضرت گھوڑا تو نہایت عالی صفت جانور ہے غالباََ اسی لیے مجھے کبھی گھوڑے سے تشبیہہ نہیں دی گئی۔
البتہ بے تکلف دوست نسبتاً کم صفات سے متصف (بد خواہوں کے مطابق رذیل اور خسیس) جانوروں کے نام سے پکارتےہیں۔
والدِ گرامی کا زاویۂ نگاہ ان ہی کی طرح منفرد ہے وہ ایک حرام جانور سے تشبیہہ دیتے ہیں جس کے متعلق دادی جان مغفورہ فرماتی تھیں کہ اس کانام لینے سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے۔
اس نام سے پکارے جانے پر شاید اس قدر تکلیف نہ ہو جتنا اس کی ادائی سے ہوتی ہے۔موصوف خالص پنجابی لہجے میں ، بلند آواز سے صدا دیتے ہیں اور نام سے پہلے "اوئے "اور بعد میں الف لگانا نہیں بھولتے ۔
جیسے ہندی نام انگریزی میں لکھیں تو نریندر ، نریندرا ہو جاتا ہے۔
سو
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
ہوہوہوہوہو۔۔۔۔ خادم رضوی یاد کروا دیے۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے کیا پتا یہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ میں تو پاکستان میں رہتا ہوں۔
ہاں ، پاکستان تو واقعی پاک سر زمین ہے۔ ٹی وی پر نعتوں اور قوالیوں کے علاوہ کوئی گانا اور مور کے ناچ کے علاوہ کوئی اور ناچ ممنوع ہے۔ خواتین و حضرات لمبے لمبے جبے پہنے صرف اقوالِ زریں کی زبان میں گفتگو فرماتے ہیں۔ آہ! کیا روح پرور سماں ہوتا ہوگا۔
 
بسم اللّٰہ
منتظر رہوں گا۔
منتظر ہی رہیئے گا ۔ مجھے بھی سارے دس سال سے مل رہے ہیں ۔
x1080
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاں ، پاکستان تو واقعی پاک سر زمین ہے۔ ٹی وی پر نعتوں اور قوالیوں کے علاوہ کوئی گانا اور مور کے ناچ کے علاوہ کوئی اور ناچ ممنوع ہے۔ خواتین و حضرات لمبے لمبے جبے پہنے صرف اقوالِ زریں کی زبان میں گفتگو فرماتے ہیں۔ آہ! کیا روح پرور سماں ہوتا ہوگا۔
اقوال زریں۔۔۔۔۔ سے مجھے آپ کی تحریر یاد آگئی۔۔۔۔ روح پرور سماں تو رہنا ہی ہے۔۔۔۔ بلکہ اب تو روح ہی رہے گی۔۔۔ پروری شاید غائب ہوجائے۔۔۔
 
Top