میری وفات پہ۔۔

جاسمن

لائبریرین
اپنی وفات کے حوالے سے مصنفین نے مضامین لکھے ہیں، مجھے اب یاد نہیں آرہا کہ ایسے مضامین کو کیا کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
خاطر خواہ فرق تو پڑنے کا نہیں ۔ لیپ سال سے ہزار سال میں ۔۔۔۔
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ۔
بس خدا سلامتی سے رکھے سب دوستوں کو۔
سب کا بھلا سب کی خیر ۔
مرنے کا ایک ہی دن ہوتا ہے بار بار نہیں مرتے
 

محمداحمد

لائبریرین
دھاگہ تو خیر کوئی بھی کھول لے گا۔ لیکن ایسا دھاگہ کھولنے کا متمنی کوئی بھی نہیں ہوتا۔ عزیز لوگوں کی وفات کے بارے میں سننا بتانا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

رہی بات مرنے کی۔ تو مرنا تو سب کو ہی ہے۔ آج نہیں تو کل۔ آگے پیچھے سب ہی چلے جائیں گے۔ اس معاملے میں اختیار کوئی نہیں۔

اختیار اگر ہے تو بس اتنا کہ ایمان کی سلامتی کی فکر، کوشش اور دعا کرتے رہیں۔ اور جب مریں تو ایمان والوں کی حیثیت میں مریں۔ بس ہمیں اتنا ہی کرنا ہے۔

اگر ہم ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے تو ان شاءاللہ اس موت کا کوئی غم نہیں ہوگا۔

اللہ رب العزت ہم سب کو ایمان عطا فرمائے اور اس پر استقامت عطا فرمائے اور جب بھی اُٹھائے تو ایمان کے ساتھ اُٹھائے۔ آمین یا رب العالمین

سیانے کہتے ہیں کہ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے کسی کتاب کے لیے اس کا دیباچہ۔ یعنی یہ دنیا کی زندگی تو بہت مختصر سی ہے اور اصل زندگی آخرت کی ہی ہے۔ بس اللہ اسی کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اپنی وفات کے حوالے سے مصنفین نے مضامین لکھے ہیں، مجھے اب یاد نہیں آرہا کہ ایسے مضامین کو کیا کہتے ہیں۔
اشفاق احمد صاحب نے بہت اچھا مضمون لکھا تھا اس سلسلے میں۔ لیکن یہ کوئی باقاعدہ صنفِ ادب غالباََ نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین

جاسمن

لائبریرین
اشفاق احمد صاحب نے بہت اچھا مضمون لکھا تھا اس سلسلے میں۔ لیکن یہ کوئی باقاعدہ صنفِ ادب غالباََ نہیں ہے۔
یہ صنفِ ادب ہے لیکن مجھے اب اس کا نام یاد نہیں آ رہا۔
حالانکہ میں نے کچھ عرصہ پہلے وہ مضامین پڑھنے کے لیے سوچا ہوا تھا لیکن نجانے کیسے مجھ سے وہ لنک ہی حذف ہو گیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
عقیل عباس جعفری نے ایسے مضامین‘ یعنی '' خود وفاتیے‘‘ جمع کیے ہیں اور کتاب کی شکل میں شائع کر دیے ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے ''اپنی یاد میں‘‘ غالباً اس موضوع پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے۔
خود وفاتیے‘‘ جمع کرنے کا کام بھی اس نے انوکھا ہی کیا ہے۔ یہ کتاب دیکھنے اور پڑھنے سے پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس صنف میں (ہاں! یہ ایک الگ صنف ہی تو ہے ) اتنے ادیبوں نے طبع آزمائی کی ہے اور اتنے بڑے بڑے ادیبوں نے! رشید احمد صدیقی‘ انتظار حسین‘ منٹو‘ جوش‘ کنہیا لال کپور‘ اشفاق احمد‘ محمد طفیل‘ جوگندر پال‘ خشونت سنگھ‘ حمید اختر اور بہت سے دوسرے معروف ادیبوں نے اپنی موت کا ماتم خود کیا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ مجتبیٰ حسین کا "خود وفاتیہ" ہے جو ان کی کتاب "چہرہ در چہرہ" (سن اشاعت: 1993) میں شامل ہے۔
 
Top