جانا ہو گا دنیا سے جس وقت بلاوا آئے گا

------------
وقت جو ہم پر آیا ہے کس وقت خدایا جائے گا
کب تک ہم انسانوں کو مظلوم بنایا جائے گا
-----------یا
کب تک ہم انسانوں کا یوں خون بہایا جائے گا
------------
امن ہمارا شیوہ ہے ہم امن کی باتیں کرتے ہیں
جس نے آگ لگائی ہے وہ سامنے لایا جائے گا
---------
ظلم کے حامی لوگ نہیں اب جن کو ستایا جاتا ہے
ظالم کو کب نفرت کا انجام بتایا جائے گا
----------
روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
عہد کیا ہے تم سے جو وہ عہد نبھایا جائے گا
--------
معلوم نہیں انجام ہمیں ، یہ راز کی باتیں رب جانے
حشر بُرا ہے ظالم کا جب اس کو اٹھایا جائے گا
-------
جینا ہے آسان کہاں حالات ہیں سب معلوم ہمیں
بات یہ دنیا جانتی ہے اب ہم کو ستایا جائے گا
--------------
رہبر تجھ کو جانا ہے اب ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
پیار ہے تیرا سینوں میں کیوں تجھ کو بھلایا جائے گا
-------------
تجھ پر آنچ نہ آئے گی تُو اللہ کی امان میں ہے
سینوں پر وہ سہہ لیں گے جو تیر چلایا جائے گا
------------
ارشد کی یہ فطرت ہے وہ جھکتا نہیں جھکانے سے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جب اس کو دبایا جائے گا
------------
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
میری دانست میں اسکی اصلاح کی پہلی کڑی ہونی چاہیئے - زبان و بیان کی درستی - شعری محاسن بعد کی بات ہیں -
یہ وقت جو ہم پر آیا ہے کس وقت خدایا جائے گا
کب تک ہم انسانوں کو مظلوم بنایا جائے گا - مظلوم بنانا میری دانست میں صحیح اصطلاح نہیں ہے اسے ظلم کرنا کہتے ہیں اور جس پہ ظلم ہو وہ مظلوم ہوتا ہے - تو مظلوم بنایا نہیں جاتا - مگر اس فورم کے زبان دان اس پر اپنی رائے دیں تو اچھا ہے -

-----------یا
کب تک ہم انسانوں کا یوں خون سکھایا جائے گا (یہ تو بیکار ہے)
------------
امن ہمارا شیوہ ہے ہم امن کی باتیں کرتے ہیں
جس نے آگ لگائی ہے وہ سامنے لایا جائے گا

سامنے لانے سے کیا ہوگا ؟ انجام پہ پہنچایا جائے تو کوئی بات ہے
---------
ظلم کے حامی لوگ نہیں اب جن کو ستایا جاتا ہے
آپ کہنا چاہ رہے ہیں جن کو اب ستایا جاتا ہے وہ لوگ ظلم کی حامی نہیں ہوں گے مگر آپ کہہ رہے ہیں کہ اب تو ظلم کے حامی لوگ ہیں ہی نہیں - یہاں وہ کے بغیر بات نہیں بنتی -

ظالم کو کب نفرت کا انجام بتایا جائے گا
ظالم کو ظلم کا انجام بتایا جاتا ہے نفرت کا نہیں - اور انجام تک پہنچایا جاتا ہے انجام بتایا نہیں جاتا -
----------
روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
عہد کیا ہے تم سے جو وہ عہد نبھایا جائے گا
--------
معلوم نہیں انجام ہمیں ، یہ راز کی باتیں رب جانے
حشر بُرا ہے ظالم کا جب اس کو اٹھایا جائے گا
-------
یہ بھی تعقیدِ لفظی ہے حشر بھی اٹھایا جاتا ہے اور ظالم کو بھی حشر میں اٹھایا جائے گا - تو آپ کس کی بات کر رہے ہیں حشر اٹھانے کی یا ظالم کو اٹھانے کی ؟

جینا ہے آسان کہاں حالات ہیں سب معلوم ہمیں
بات یہ دنیا جانتی ہے اب ہم کو ستایا جائے گا
--------------
رہبر تجھ کو جانا ہے اب ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
پیار ہے تیرا سینوں میں کیوں تجھ کو بھلایا جائے گا
جانا ہے کا مطلب آپ نے "مان لیا ہے" رکھا ہے غالبا یہاں - کہ تجھے رہبر مان لیا ہے تو جانا ہے سے لگتا ہے - رہبر کو کہیں جانا ہے =
پھر بُھلانے کے ساتھ "کیوں" کا کیا محل ہے
-------------
تجھ پر آنچ نہ آئے گی تُو اللہ کی امان میں ہے
سینوں پر وہ سہہ لیں گے جو تیر چلایا جائے گا
وہ غلط ہے یہاں ہم ہونا چاہیے
------------
ارشد کی یہ فطرت ہے وہ جھکتا نہیں جھکانے سے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جب اس کو دبایا جائے گا
اتنا کہ ساتھ جتنا ہونا چاہیئے -
 
الف عین
عظیم
@اے آر قادری
شکیل احمد خان 23
اصلاح کے بعد
-----------------
وقت کٹھن جو آیا ہے کب ہم سے خدایا جائے گا
کب تک یوں انسانوں کو محکوم بنایا جائے گا
------------
امن ہمارا شیوہ ہے ہم امن کی باتیں کرتے ہیں
ہرگز اپنی سوچ نہیں گھر خود ہی جلایا جائے گا
--------
ظلم کے حامی لوگ نہیں ہیں جن کو ستایا جاتا ہے
جبر و ستم کے حربوں سے اب ان کو ڈرایا جائے گا
---------
روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
عہد کیا ہے تم سے جو وہ عہد نبھایا جائے گا
-------
کل کیا ہو گا دیکھیں گے یہ بات ہمیں معلوم نہیں
لوگ یہ اکثر کہتے ہیں اب ہم کو دبایا جائے گا
----------------
رہبر تم کو مان لیا جب حکم تمہارا مانیں گے
تم کو اپنی یادوں سے پھر کیسے بھلایا جائے گا
-----------
تجھ پر آنچ نہ آئے گی تُو اللہ کی امان میں ہے
سینوں پر ہم سہہ لیں گے جو تیر چلایا جائے گا
-----------
ارشد کی یہ فطرت ہے وہ جھکتا نہیں جھکانے سے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا بھی دبایا جائے گا
---------یا
ارشد کی یہ خو ہی نہیں کہ جھکانے سے وی جھک جائے
اتنا ہی وہ ابھرے جتنا کہ دبایا جائے گا
-----------
 

ارشد رشید

محفلین
وقت کٹھن جو آیا ہے کب ہم سے خدایا جائے گا
کب تک یوں انسانوں کو محکوم بنایا جائے گا
تھوڑی نغمگی لائیں
------------
امن ہمارا شیوہ ہے ہم امن کی باتیں کرتے ہیں
ہرگز اپنی سوچ نہیں گھر خود ہی جلایا جائے گا
کرتے ہیں اور جائے گا تو الگ الگ زمانے ہیں -
--------
ظلم کے حامی لوگ نہیں ہیں جن کو ستایا جاتا ہے
جبر و ستم کے حربوں سے اب ان کو ڈرایا جائے گا
تھوڑی نغمگی لائیں
---------
روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
عہد کیا ہے تم سے جو وہ عہد نبھایا جائے گا
-------
کل کیا ہو گا دیکھیں گے یہ بات ہمیں معلوم نہیں
لوگ یہ اکثر کہتے ہیں اب ہم کو دبایا جائے گا
----------------
رہبر تم کو مان لیا جب حکم تمہارا مانیں گے
تم کو اپنی یادوں سے پھر کیسے بھلایا جائے گا
- رہبر کو یادوں سے کب بھلایا جاتا ہے یہ تو محبوب کے لیے کہا جاتا ہے
----------
تجھ پر آنچ نہ آئے گی تُو اللہ کی امان میں ہے
سینوں پر ہم سہہ لیں گے جو تیر چلایا جائے گا
-----------
ارشد کی یہ فطرت ہے وہ جھکتا نہیں جھکانے سے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا بھی دبایا جائے گا
---------یا
ارشد کی یہ خو ہی نہیں کہ جھکانے سے وی جھک جائے
اتنا ہی وہ ابھرے جتنا کہ دبایا جائے گا
-- یہ وی کیا ہوتا ہے ؟؟؟

دیکھیئے سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ مشورہ دونگا کہ بحر میر میں کبھی نہ لکھیں جب تک آپ ماہر نہ ہو جائیں - بحرِ میر میں ہر مصرعہ دوسرے سے وزن میں الگ ہو کر بھی وزن میں ہو سکتا ہے مگر پھر اس میں نغمگی لانا صرف استاد لوگوں کا کام ہے - میر تقی میر کے بس کی بات ہے -
آپ کی غزل میں نغمگی کی کمی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے - دوسری بات یہ کہ آپ اپنا مطالعہ بڑھائیں اس کی کمی آپ کے اشعار میں جھلکتی ہے - مصرع نرم الفاظ سے شروع کریں سخت الفاط بعد میں -
 

ارشد رشید

محفلین
ایک ممکنہ صورت

یوں کب تک ان انسانوں کو محکوم بنایا جائے گا
وقت کٹھن جو آیا ہے کب ہم سے خدایا جائے گا
امن ہمارا شیوہ ہے ہم امن کی باتیں کرتے ہیں
کیسے ہو، سامنے اپنے پھر کوئی گھر بھی جلایا جائے گا
ظلم کے حامی لوگ نہ تھے جن کو کہ ستایا جاتا تھا
جبر و ستم کے حربوں سے اب ان کو ڈرایا جائے گا
روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
عہد کیا ہے تم سے جو وہ عہد نبھایا جائے گا
جو ہو گا کل وہ دیکھیں گے کیا ہو گا یہ معلوم نہیں
پر اتنا ہم بھی جانتے ہیں اب ہم کو دبایا جائے گا
رہبر مان لیا ہے جب، پھرحکم بھی تیرا مانیں گے
بس تیرے ایک اشارے پر سر اپنا کٹایا جائے گا
تجھ پر آنچ نہ آئے گی تُو اللہ کی امان میں ہے
ہم سینوں پر ہی سہہ لیں گے جو تیر چلایا جائے گا
فطرت ہے یہ ارشد کی کہ وہ جھکتا نہیں ہے جھکانے سے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا، پھر اسکو دبایا جائے گا
 
محترم قادری صاحب ، اصلاح کا بہت بہت شکریہ، ویسے اس بحر میں یہ میری پہلی کوشش تھی، اس سے پہلے کبھی اس بحر کو نہیں چھیڑا۔آپ کی محنت سے غزل ٹھیک بھی ہو گئی ہے تو کیا آیندہ اس بحر میں اور کوئی کوشش نہ کروں، جب کہ آپ ہیلپ کر سکتے ہیں
 

ارشد رشید

محفلین
جناب بحر میر میں لکھنا آپ کی اپنی پسند ہو سکتی ہے چاہتے ہیں توضرور لکھیں - میں عموما نئے لکھنے والوں کو اس سے اجتناب کا مشورہ دیتا ہوں - دیکھیئے بحر میر میں میرے مشاہدے کے مطابق صرف موزوں طبع لوگ ہی اچھا لکھ سکتے ہیں اور نوراردان جو مجھے ملے عموما موزوں طبع نہیں ہوتے اس لیئے میں اکثر بحر میر کی اصلاح بھی نہیں کرتا ہوں کیونکہ اس میں وزن کی بہت زیادہ گنجائش ہوتی ہے تو میں کسی اور کی طرف سے اسکی نغمگی پہ کام نہیں کر سکتا-
 
شکریہ محترم ۔اس بحر میں نیا ہوں ویسے نہیں ۔کوشش کرتے رہنے سے ہی انسان پختگی تک تک پینچتا ہے ۔ کوئی اور صاحب دیکھ لیں گے،اور میرے محترم استاد الف عین (اللہ ان کو صحتمند رکھے)وہ ہمیشہ مہربانی فرماتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اب معلوم ہوا کہ قادری صاحب بھی ارشد ہیں! جزاک اللہ خیر انگریزی نام ہٹانے کا، مجھے اس سے بہت کوفت آتی تھی!
ایک ممکنہ صورت

یوں کب تک ان انسانوں کو محکوم بنایا جائے گا
وقت کٹھن جو آیا ہے کب ہم سے خدایا جائے گا
امن ہمارا شیوہ ہے ہم امن کی باتیں کرتے ہیں
کیسے ہو، سامنے اپنے پھر کوئی گھر بھی جلایا جائے گا
ظلم کے حامی لوگ نہ تھے جن کو کہ ستایا جاتا تھا
جبر و ستم کے حربوں سے اب ان کو ڈرایا جائے گا
روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
عہد کیا ہے تم سے جو وہ عہد نبھایا جائے گا
جو ہو گا کل وہ دیکھیں گے کیا ہو گا یہ معلوم نہیں
پر اتنا ہم بھی جانتے ہیں اب ہم کو دبایا جائے گا
رہبر مان لیا ہے جب، پھرحکم بھی تیرا مانیں گے
بس تیرے ایک اشارے پر سر اپنا کٹایا جائے گا
تجھ پر آنچ نہ آئے گی تُو اللہ کی امان میں ہے
ہم سینوں پر ہی سہہ لیں گے جو تیر چلایا جائے گا
فطرت ہے یہ ارشد کی کہ وہ جھکتا نہیں ہے جھکانے سے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا، پھر اسکو دبایا جائے گا
آپ کی مجوزہ غزل میں بھی کچھ مصرعوں میں ایک آدھ رکن کم یا زیادہ ہے، چیک کر لیں۔ ویسے روانی بہت خوب ہو گئی، جسے آپ نغمگی کہتے ہیں، اسی کو میں بلکہ اکثر اہل علم روانی کہتے ہیں۔ ارشد چوہدری قبول کر رہے ہوں اسے تو پھر بہتر ہے کہ ہر مصرع کی تقطیع کر لی جائے
بھائی ارشد، میر کی بحر ہندی میں مشکل نہیں ہونی چاہیے، بس یہ خیال رہے کہ اس کی تقطیع دو اراکین کے نظام میں ہوتی ہے۔ فعل، فعولن کا جوڑا جو فعلن فعلن کے جوڑے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ اور آخر میں فعل یا فاع( یا فع)۔
ارشد چوہدری کو میں نے بھائی ارشد لکھا ہے، لیکن تصویر سے لگتا ہے کہ ارشد رشید بھی بزرگ ہی ہیں، مگر امید ہے کہ ارشد بھائی کی طرح مجھ سے تو چھوٹے ہی ہوں گے!
 

ارشد رشید

محفلین
جی محترمہ تقطیع اسکی پوری صحیح آتئ ہے آپ عروض ڈاٹ کام پر بھی چیک کر سکتی ہیں-
باقی یہی فعل فوعلن کا جؤڑا بنانے میں استادی درکار ہوتی ہے ورنہ وزن میں تو آتا ہے مگر روانی نہیں ہوتی جس کو مجھ جیسے اہلِ کم علم نغمگی کہتے ہیں -
مبتدی شاعر اگر اس میں لکھتا رہے تو کبھی وزن کو نہیں پکڑ پاتا جیسا کہ وہ دوسری فکس بحروں میں سمجھ پاتا ہے -
یہی میرا تجربہ ہے آپ کا اس سے اتفاق یا ایسا ہی مشاہدہ ضروری نہیں - میں تو بس اس بات کی تلقین کر رہا تھا جو میرے تجربے یا مشاہدے میں آئی ہے -

باقی آپ چاہیں تو مجھے بزرگ سمجھ لیں بڑا یا چھوٹا بھائی سمجھ لیں کیا فرق پڑتا ہے
 
یوں کب تک ان انسانوں کو محکوم بنایا جائے گا
کن انسانوں کو؟
وقت کٹھن جو آیا ہے کب ہم سے خدایا جائے گا
یہاں وقت سے پہلے "یہ"کا اضافہ کر لیں تو نہ صرف بیاں واضح ہو جائے گابلکہ روانی بھی بہتر ہو جائے گی ...
نیز ہم سے کے بجائے ہم پر سے کہنا قرین محاورہ ہوگا، جو بحر کی بندش کے سبب ممکن نہیں

امن ہمارا شیوہ ہے ہم امن کی باتیں کرتے ہیں
کیسے ہو، سامنے اپنے پھر کوئی گھر بھی جلایا جائے گا
امن سے پہلے جب کا اضافہ کر کے دیکھیں، ایک تو دوسرے مصرعے سے ربط بہتر ہو جائے گا، دوسرا یہ کہ پہلے مصرعے کی روانی بھی بہتر ہو جائے گی
کیسے ہو کے بجائے یہاں کیسے یہ ممکن ہے یا یہ کیسے ہو سکتا ہے کا محل ہے، تخفیف کر کے محض کیسے ہو کر دینا غلط ہے.
کوئی کا کئی تقطیع ہونا بھی ٹھیک نہیں ... اک گھر کہنے سے عیب بھی دور ہوجاتا ہے اور بیان میں تاکید بڑھ جاتی ہے.

روکھی سوکھی کھا کر بھی ہم ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
عہد کیا ہے تم سے جو وہ عہد نبھایا جائے گا
یہاں شتر گربہ در آیا ہے. مزید یہ کہ مصرعوں کی روانی بھی مخدوش ہے جس کو آسانی سے بہتر بنایا جا سکتا ہے، مثلا

ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے، پر ساتھ نہ تیرا چھوڑیں گے
جو عہد کیا ہے تم سے وہ ہر طور نبھایا جائے گا

جو ہو گا کل وہ دیکھیں گے کیا ہو گا یہ معلوم نہیں
پر اتنا ہم بھی جانتے ہیں اب ہم کو دبایا جائے گا
کل کیا ہوگا، معلوم نہیں، جو ہو گا دیکھا جائے گا
پر اتنا تو ہم جانتے ہیں ... الخ

رہبر مان لیا ہے جب، پھرحکم بھی تیرا مانیں گے
بس تیرے ایک اشارے پر سر اپنا کٹایا جائے گا
جب تجھ کو رہبر مان لیا تو حکم بھی تیرا مانیں گے
بس تیرے ایک ... الخ

تجھ پر آنچ نہ آئے گی تُو اللہ کی امان میں ہے
ہم سینوں پر ہی سہہ لیں گے جو تیر چلایا جائے گا
جب وہ اللہ کی امان میں ہے تو آپ سینے پر تیر کھائیں نہ کھائیں، کیا فرق پڑتا ہے! آپ کے سینے کی اہمیت تب بنے گی جب آپ اس کے آگے سینہ سپر ہونے کا تذکرہ کریں گے.
پہلے مصرعے کی روانی تو انتہائی مخدوش ہے
نیز سینے پر تیر کھایا جاتا ہے، تیر سہنا غلط ہے. مزید یہ کہ یہاں مجرد تیر کہنا بھی گرامر کی رو سے ٹھیک نہیں. یا تو جو بھی کہا جائے گا، یا پھر تیر کی جمع ...چلائے جائیں گے ... کی صورت آئے گی، جس کی اس زمین میں گنجائش نہیں.

فطرت ہے یہ ارشد کی کہ وہ جھکتا نہیں ہے جھکانے سے
اتنا ہی وہ ابھرے گا جتنا، پھر اسکو دبایا جائے گا
یہاں بھی پہلے مصرعے کی بنت نہایت کمزور ہے. بڑی آسانی سے اس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، مثلا
ارشد ہے کہاں ان لوگوں میں جو خوف کے مارے جھک جائیں
سر اس کا جھکے گا بس تب ہی جب تن سے گرایا جائے گا.
 
جی محترمہ تقطیع اسکی پوری صحیح آتئ ہے آپ عروض ڈاٹ کام پر بھی چیک کر سکتی ہیں-
باقی یہی فعل فوعلن کا جؤڑا بنانے میں استادی درکار ہوتی ہے ورنہ وزن میں تو آتا ہے مگر روانی نہیں ہوتی جس کو مجھ جیسے اہلِ کم علم نغمگی کہتے ہیں -
مبتدی شاعر اگر اس میں لکھتا رہے تو کبھی وزن کو نہیں پکڑ پاتا جیسا کہ وہ دوسری فکس بحروں میں سمجھ پاتا ہے -
یہی میرا تجربہ ہے آپ کا اس سے اتفاق یا ایسا ہی مشاہدہ ضروری نہیں - میں تو بس اس بات کی تلقین کر رہا تھا جو میرے تجربے یا مشاہدے میں آئی ہے -

باقی آپ چاہیں تو مجھے بزرگ سمجھ لیں بڑا یا چھوٹا بھائی سمجھ لیں کیا فرق پڑتا ہے
میرے استادِ محترم الف عین اعجاز عبید صاحب اچھے خاصے محترم ہیں وہ محترمہ ک سے ہو گئے
 

ارشد رشید

محفلین

ارشد رشید

محفلین
یسے ہو کے بجائے یہاں کیسے یہ ممکن ہے یا یہ کیسے ہو سکتا ہے کا محل ہے، تخفیف کر کے محض کیسے ہو کر دینا غلط ہے.
کوئی کا کئی تقطیع ہونا بھی ٹھیک نہیں ... اک گھر کہنے سے عیب بھی دور ہوجاتا ہے اور بیان میں تاکید بڑھ جاتی ہے.
یہ کیسے ہو سکتا ہے اک گھر بھی جلایا جائے گا
کیسے یہ ممکن ہے اک گھر بھی جلایا جائے گا
سامنے اپنے کیسے پھر اک گھر بھی جلایا جائے گا
ان میں سے کوئ بھی وزن میں نہیں آسکتا
کوئ کی تقطیع 0 0 ہو سکتی ہے - متفاعلن کی بحر میں ہر پہلا کوئ 00 ہی ہوتا ہے
 

ارشد رشید

محفلین

ارشد رشید

محفلین

ارشد رشید

محفلین
میرے استادِ محترم الف عین اعجاز عبید صاحب اچھے خاصے محترم ہیں وہ محترمہ ک سے ہو گئے
جناب گستاخی معاف میں یہاں نیا ہوں اور مجھے ایسا لگا میں نے کسی دھاگے میں الف عین کو لوگوں کو تانیث سے مخاطب کرتے دیکھا تھا ہو سکتا ہے وہ کوئ اور نام ہو -
الف عین سے پتا نہیں چلتا پھر کوئ تصویر بھی نہیں ہے تو غلطی ہوگئی
 
جناب گستاخی معاف میں یہاں نیا ہوں اور مجھے ایسا لگا میں نے کسی دھاگے میں الف عین کو لوگوں کو تانیث سے مخاطب کرتے دیکھا تھا ہو سکتا ہے وہ کوئ اور نام ہو -
الف عین سے پتا نہیں چلتا پھر کوئ تصویر بھی نہیں ہے تو غلطی ہوگئی
آپ کی بات درست ہے کہ تصویر بھی نہیں ہے اور نام بھی صرف الف عین تو کیسے پتا لگے گا
 
Top