انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
آپ غائب کہاں ہیں ! کہیں بڑی نے تو نہیں سن لیا سب کچھ کیرالہ کی روداد😎
خدا کا خوف کریں ایسی باتیں تو دل ہی دل میں بھی نہیں سوچنی چاہئیں۔۔۔
اگر بڑی نے سن لیں تو ہمارا دہی بڑا بننے میں کوئی دیر نہیں لگے گی!!!
 

شمشاد

لائبریرین
اردو کے حروف تہجّی کی دو اقسام ہیں:

نمبر ١
نقطہ والے جیسا کہ
ش چ ج ظ ض ق غ ث ت ب وغیرہ

نمبر ٢
بلا نقطہ کے جیسا
ح ع ط س ر ص و ک ل م د وغیرہ

بغیر نقطہ والے حروف قوی اور طاقتور مانے جاتے ہیں اور نقطہ والے کمزور و ضعیف مانے جاتے ہیں.

*‏اب اپ غور کریں کہ:*
سسرال
سسر
ساس
سالا
سالی

*کسی میں بھی نقطہ نہیں ہے کیونکہ یہ تمام رشتے بہت مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں.*

*داماد* کے کسی حرف پر بھی نقطہ نہیں ہے کیونکہ یہ بھی شادی کے بعد بہت قوی ہو جاتا ہے.

‏آپ *داماد* اور *ساس* کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہیں جدھر سے بھی پڑھیں گے *داماد* اور *ساس* ہی رہیں گے!

یعنی دونوں کاسیدھا تو سیدھا ہے ہی مگر دونوں کا الٹا بھی سیدھا ہوتا ہے!

اس لیئے ان ارکان خمسہ کا خیال رکھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یُوسفی صاحب کی ایک شگفتہ تحریر

جس میں اُنہوں نے کمال خوبصُورتی سے دو شعرا کے کلام کو یکجا کر کے مزاح کا نیا ہی رنگ تخلیق کیا ہے۔

پانی پانی کر گئی ، مجھ کو قلندر کی یہ بات
پھر بنیں گے آشنا ، کتنی ملاقاتوں کے بعد؟؟
اقبال/ فیض

جان تم پر نثار کرتا ھُوں
جب کوئی دوسرا نہیں ھوتا
غالب/ مومن

وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
جانے کس جُرم کی پائی ھے ، سزا یاد نہیں

پروین/ ساغر

جَھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جَھپٹنا
ساری مستی شراب کی سی ھے
اقبال/ میر

اُس کے پہلو سے لگ کر چلتے ھیں
شرم تم کو مگر نہیں آتی

غالب/جون

نہیں تیرا نشیمن ، قصرِ سُلطانی کے گنبد پر
تُو کسی روز میرے گھر میں اُتر ، شام کے بعد

علامہ اقبال/ فرحت عباس

موت آئے تو دن پھریں غالب
قرض ھے تم پر چار پھولوں کا
ساغر/غالب

وہ کہتی ھے سنو جاناں ، محبت موم کا گھر ھے
کاش اُس زباں دراز کا ، منہ نوچ لے کوئی
آتش/ جون
_____________
(مشتاق احمّد یوسفی)
 

شمشاد

لائبریرین
cleardot.gif

cleardot.gif
*پوری قوم پاگل ہے ۔۔*

پاگل پن نمبر *01*

۔۔ کروڑوں روپے کی حفاظت کے لیے بنک 15000 روپے ماہانہ تنخواہ پر گارڈ رکھتا ہے ۔
🙄


پاگل پن نمبر *02*

۔۔ ان پڑھ قوم کے لیے ٹینکر پہ بچاؤ کی ہدایات انگریزی میں لکھتے ہیں ۔
Highly Inflameble۔۔
😒


پاگل پن نمبر *03*

۔۔ سڑک پہلے بناتے ہیں ۔ پھر اسے کھود کر بجلی ، گیس کی لائنیں بچھاتے ہیں ۔
🤨


پاگل پن نمبر *04*

۔۔ مسجدوں سے بجلی کے بل میں ٹی ۔ وی لائیسنس کی فیس وصول کرتے ہیں ۔ اور ملک کا نام ھے ۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان
😔


پاگل پن نمبر *05*

۔۔ حادثات میں مرنے ، جلنے والوں کے ورثا کو کروڑوں بانٹ دیں گے ، مگر حادثات کی روک تھام ، سزا جزا اور ایمرجنسی سے نمٹنے پر ٹکہ خرچ نہیں کریں گے ۔
😟


پاگل پن نمبر *06*

۔۔ خود قرضے پہ قرضہ لیتے رہتے ہیں اور عوام کو بچت اسکیموں کی ترغیبیں دیتے ہیں کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے گھر بیٹھے اور بچوں کو لیپ ٹاپ دیتے ہیں
😒


پاگل پن نمبر *07*

عیدالفطر۔۔۔ عیدالاضحی۔۔ربیع الاول۔۔ گیارہویں۔۔ شادی بیاہ۔۔سب اسلامی چاند دیکھ کر مناتے ہیں اور عیسوی سال کے آغاز پر اتنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ عیسائی بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں
😔


پاگل پن نمبر *08*

مایوں۔۔۔مہندی۔۔۔شادی بیاہ۔۔۔سب میں ہندوستانی کی پیروی اور بیٹی کی رخصتی پر قرآن کاسایہ کرتے ہیں
😔


*کہاں تک سنو گے ۔۔۔۔ کہاں تک سناؤں
 

سیما علی

لائبریرین
بندہ جب موبائل میں مگن ہو ارد گرد کا کچھ پتہ نہیں چلتا،،، ریسٹورنٹ میں کھانے کا آرڈر کیا میرے سامنے ایک بندہ بیٹھا اور اس نے بھی کھانے کا آرڈر کیا، اور موبائل میں پب جی گیم لگا کر موبائل میں مگن ہو گیا، دونوں کا کھانا ایک ساتھ آیا، میں نے کھانا شروع کیا، اور ختم بھی کر لیا، لیکن وہ اپنے موبائل میں ویسے ہی مگن تھا، اور کھانا اس کے سامنے ایسے ہی رکھا تھا، میں نے اسے آواز دی بھائی صاحب،، لیکن اس کے کان پر جوں بھی نہ رینگی،، میں آرام سے اس کی پلیٹ سے دو مٹن پیس اٹھائے اور اپنی پلیٹ میں رکھ کر، کھا گیا،،، پھر اٹھ کر اس کا کندھا ہلا کر کہا بھائی آپ کا کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے، اور کھانا سامنے رکھ کر کھانے کو انتظار نہیں کرانا چاہیئے، کیونکہ، باہر کی چیزیں،جن بھوت کھانے میں شامل ہو کر کھانا کھا لیتے ہیں، اس نے موبائل سے سر اٹھایا ایک نظر کھانے کی طرف دیکھا اور کہنے لگا، جی آپ سچ کہہ رہے ہیں کیونکہ میرا کھانا، کم کم لگ رہا ہے، میں اسے سوچتا چھوڑ کر جلدی سے بل ادا کیا اور ادھر سے نکل آیا 😂😂😂😂
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ چیزیں تُمہارے حق میں بہتر نہیں ہوتیں اِس لئے ﷲ رب العزت اُنہیں تُم سے دور کر دیتا ہے_ ایسا نہیں ہے کہ وہ اُن چیزوں کو بہتر نہیں بنا سکتا بلکہ کبھی کبھار تُم اس چیز کی تمنا کر بیٹھتے ہو جو کسی اور کا نصیب ہوتی ہے , جس کا تُمہارے پاس رہنا صرف تکلیف کا باعث ہوتا ہے اِس لئے ﷲ تُمہیں مُستقل اذیت سے بچانے کے لئے عارضی تکلیف دیتا ہے...!

کُچھ لوگ اور کُچھ چیزیں تُمہاری زندگی میں صرف آزمائش کے طور پر آتیں ہے , اور آزمائش تو بس وقتی ہوتی ہے اِس لئے جب آزمائش کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ﷲ رب العزت اُن کا خیال بھی تُمہارے دل سے نکال دیتا ہے جو تُمہیں بےسکون و بےقرار رکھتے ہیں....! ہر شے تُمہارے مُقدر کا حصہ بن کر نہیں آتی کیونکہ تُم اُن باتوں کو کبھی نہیں سمجھ سکتے جو ﷲ رب العزت جانتا ہے اور اگر تُمہیں اُن کی حقیقت کا پتا چل جائے جنہیں ﷲ رب العزت تُم سے دور کرتا ہے تو تُم کبھی اُن کے لوٹ آنے کی تمنا نہ کرو....!

مصلحتوں کو سمجھنے سے زیادہ ضُروری اُن مصلحتوں پہ یقین رکھنا ہوتا ہے , جیسے تُم ﷲ رب العزت کو مان سکتے ہو مگر جان نہیں سکتے اور اُس کو ماننا ہی سب سے ضروری ہے کیونکہ اُس کی ذات تُمہاری سوچ سے بہت وسیع ہے , اور جس کو جاننا نامُمکن ہو اُسکی مصلحتوں کی رازداریاں تُمہاری سمجھ میں کہاں آنی ہیں...؟؟

غم سے ہی تو زندگی کی لذت ہوتی ہے..!! اور امتحان ﷲ اُن کا ہی لیتا ہے جن سے وہ بےپناہ محبت کرتا ہے , جانتے ہو کیوں...؟؟ تاکہ وہ اُنہیں چُن لے اور اپنا بنا لے.... اور جن کو وہ چُن لیتا ہے اُنہیں کسی اور نہیں ہونے دیتا , اِس لئے وہ اُن چیزوں کو تُم سے دور کر دیتا ہے جو تُمہارے اور اُس کے درمیان فاصلہ حائل کرتیں ہیں اور یوں اختتام میں وہ رہ جاتا ہے اور تُم رہ جاتے ہو....!

تو پھر کیوں اُن کے لئے خُود کو ہلکان کر رکھا ہے جو چھوڑ کر چلے گئے...؟؟ تُم اُس کے لئے جیو جو اب تک تُمہارے ساتھ ہے....!اور یاد رکھو! تمہارے صبر کے آخری مرحلے پر وہ تمہیں اُس چیز سے نوازے گا جس کا تُم نے کبھی تصّور بھی نہیں کیا ہو گا...! بےشک اس کا وعدہ ہے کہ:

وَلَ۔لْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىۗ
"یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جان ڈی راک فیلر کبھی دنیا کے امیرترین آدمی تھا۔ دنیا کا پہلا ارب پتی۔ 25سال کی عمر میں، اس نے امریکہ کی سب سے بڑی آئل ریفائنریوں میں سے ایک کو کنٹرول کیا۔ 31سال کی عمر میں وہ دنیا کا سب سے بڑا تیل صاف کرنے والا بن گیا تھا۔ 38سال کی عمر میں اس نے امریکہ میں 90فیصد تیل کو صاف کیا۔
50 تک، وہ ملک کا سب سے امیر آدمی تھا۔ ایک نوجوان کے طور پر، ہر فیصلہ، رویہ، اور رشتہ اسکی ذاتی طاقت اور دولت پیدا کرنے کےلئے تیار کیا گیا تھا.
لیکن 53سال کی عمر میں وہ بیمار ہو گئے۔ اسکا پورا جسم درد سے لرز گیا اور اسکے سارے بال جھڑ گئے۔ مکمل اذیت میں، دنیا کا واحد ارب پتی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی خرید سکتا تھا، لیکن وہ صرف سوپ اور کریکر ہضم کر سکتا تھا۔ ایک ساتھی نے لکھا، وہ سو نہیں سکتا تھا، مسکرا نہیں سکتا تھا اور زندگی میں کوئی بھی چیز اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اسکے ذاتی، انتہائی ماہر ڈاکٹروں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک سال کے اندر مر جائے گا۔ وہ سال اذیت سے آہستہ آہستہ گزر گیا۔
جب وہ موت کے قریب پہنچا تو وہ ایک صبح اس مبہم احساس کے ساتھ بیدار ہوا کہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ بھی اپنے ساتھ اگلے جہان میں لے جانے کے قابل نہیں ہے۔ وہ آدمی جو کاروباری دنیا کو کنٹرول کر سکتا تھا، اچانک احساس ہوا کہ وہ اپنی زندگی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسکے پاس ایک انتخاب رہ گیا تھا۔
🌹اس نے اپنے اٹارنی، اکاؤنٹنٹ، اور مینیجرز کو بلایا اور اعلان کیا کہ وہ اپنے اثاثوں کو ہسپتالوں، تحقیق اور خیراتی کاموں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
جان ڈی راک فیلر نے اپنی فاؤنڈیشن قائم کی۔ یہ نئی سمت بالآخر پینسلین کی دریافت کا باعث بنی، ملیریا، تپ دق اور خناق کا علاج۔
🌹لیکن شاید راکفیلر کی کہانی کا سب سے حیرت انگیز حصہ یہ ہے کہ جس لمحے اس نے اپنی کمائی ہوئی تمام چیزوں کا ایک حصہ واپس دینا شروع کیا، اسکےجسم کی کیمسٹری میں اس قدر نمایاں تبدیلی آتی چلی گئی کہ وہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت تھا کہ ایسا لگتا تھا وہ 53سال کی عمر میں ہی مر جائے گا۔ لیکن وہ 98سال کی عمر تک زندہ رہا۔ مال خیرات کرنے سے وہ تندرست ہو گیا۔ گویا یہ خیرات نام کی چیز بھی ایک طریق علاج ہے۔ اسے بھی آزما کر دیکھ لیجئے.
اپنی موت سے پہلے، اس نے اپنی ڈائری میں لکھا،
*"سپریم انرجی نے مجھے سکھایا، کہ سب کچھ اسکا ہے، اور میں اسکی خواہشات کی تعمیل کرنے کےلیے صرف ایک چینل ہوں۔* _
میری زندگی ایک طویل، خوشگوار چھٹی رہی؛ کام اور کھیل سے بھرپور۔
میں نے پریشانی کو راستے میں چھوڑ دیا اب میں تھا اور میرا خدا تھا_
_میرے لیے ہر دن اچھا تھا۔"_

ہم سب کےلیے ایک پیغام!
 

سیما علی

لائبریرین
اولڈ کراچی کی ایک برسات

وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے ؟
گزر جانے والوں کی یادیں !

تحریر : اظہر عزمی

کراچی میں صبح سے بارش ہورہی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی چلی جارہی تھی۔ شام کو اس کے بابا (والد مرحوم ) کا فون آگیا ۔

بابا : ہاں میاں ۔۔۔ ابھی تک آفس میں ہو ؟

وہ : جی بابا !

بابا : بس اب گھر آنے کی کرو ۔ سارا شہر جھل تھل ہورہا ہے ۔ گھٹنوں گھٹنوں پانی جمع ہے ۔

وہ : میں مجھے پتہ ہے ۔

بابا : کیا پتہ ہے ۔ باہر نکل کر سڑکوں کا حال دیکھا ہے۔ ابھی میں بڑی مشکلوں سے گھر پہنچا ہوں ۔ تمھارے علاوہ سب بچے گھر آچکے ہیں ۔

وہ : آپ فکر نہ کریں ۔ میں کسی نہ کسی طرح آجاوں گا ۔

بابا : کیسے آجاو گے ؟ روڈ پر بسوں ٹیکسیوں کا نام و نشان نہیں اور ایک بات تو بتاو ؟ یہ گاڑئ گھر پر سجانے کے لئے لی ہے کیا ؟ اتنے پیسے ہیں کہ رکشہ ٹیکسی میں آسکو ۔

وہ : ہو جائیں گے ۔

بابا : جیب میں ہوں گے تو ہوں گے ۔ بارش کا زمانہ ہے ۔ گھر سے زیادہ پیسے لے کر نکلا کرو ۔ تمھاری یہ بے دھیانی کی عادت جائے گی نہیں ۔

وہ : بابا میں نے کہا ناں ہو جائیں گے ۔ آفس میں کوئی موٹر سائیکل والا کہیں راستے میں اتار دے گا ۔

بابا : کہہ دیا ہے اس سے ۔ کہیں وہ تمھیں چھوڑ ہی نہ آئے۔

وہ : جی جی کہہ دیا ہے ۔

اب بابا کا غصہ ذرا تھمتا تو کہتے : سنو تمھاری ماں نے آلو بھرے پراٹھے بنائے ہیں ۔ تم آجاو گے تو پکوڑے بھی تل لیں گے ۔ بارش رک جائے تو بیوی بچوں کو لے کر آسکو تو آجاتا ۔ گھر پہنچتے ہی فون کرنا کہ گھر پہنچ گئے ۔
________________________________________________

ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ٹیلی فون آپریٹر نے کہا کہ آپ کی وائف کا فون ہے ۔

اہلیہ : ارے آپ ابھی تک آفس میں ہیں ؟

وہ : بس نکلنے کی کررہا ہوں ۔ بابا کا فون بھی آیا تھا ۔ امی نے آلو بھرے پراٹھے بنائے ہیں اور پکوڑے بھی تل رہی ہیں ۔

ااہلیہ : اچھا تو کیا سیدھے وہیں جائیں گے ؟ اور میں نے جو آلو کا رسا اور پوریاں بنا کر رکھی ہیں ۔ پہلے بتانا تھا ۔

وہ : پہلے کیا بتاتا ۔ ابھی بتایا ہے بابا نے ۔

اہلیہ : بابا کا فون دو مرتبہ یہاں بھی آچکا ہے ۔ آپ کا پوچھ رہے تھے ۔ پانچ مرتبہ افس کال کر چکی ہوں۔ اب کہیں جا کر نمبر ملا ہے ۔ آپ کو تو خیال ہی نہیں آتا ۔ گھر میں بیوی بچے اکیلے ہوں گے۔

وہ : ارے بس ۔۔۔ کیا بتاوں کال کرنے کی سوچ رہا تھا ۔

ااہلیہ : اچھا سنیں ۔ پھر میں بچوں کو بھی تیار کرا دیتی ہوں ۔ اپنی گاڑی پر ہی چلیں گے ؟

وہ : ہاں بھائی بارش میں کون سی سواری ملے گی ۔

اہلیہ : تو یہ گاڑی گھر میں کھڑی کرنے کے لئے لی ہے کیا ؟ عجیب آدمی ہیں آپ بھی ۔ گھر میں گاڑی ہے اور صاحب بسوں میں آ جا رہے ہیں ۔ میں تو کہتی ہوں بیچ ہی دیں ۔

وہ : بابا بھی یہی کہہ رہے تھے ۔

اہلیہ : اچھا بس فون رکھیں اور آنے کی کریں ۔ سنیں ! واپسی پر تھوڑی دیر کے لئے میں اپنی امی کے ہاں بھی ہو لوں گی ۔
________________________________________________

موسلادھار بارش آج بھی ہورہی ہے۔ سڑکوں پر پانی بھی بہت جمع ہوگا ۔ وہ آفس میں ہے اور موبائل فون اس کے ہاتھ میں ہے ۔ ایک اشارے میں کال مل سکتی ہے لیکن وہ جانتا ہے اب یہ کالز نہیں آئیں گی ۔ زمانہ آگے چلا گیا ہے ۔ اس کے چاھنے والے یہ لوگ ایسی جگہ جا سوئے ہیں جہاں ٹیکنالوجی تمام تر ترقی کے باوجود نہیں پہنچ سکتی ۔

ہنس ہنس کے سناتی ہے جہاں بھر کے فسانے
پوچھیں کبھی تیرا تو رو پڑتی ہے بارش

ڈانٹ بھری محبت کے ساتھ ، ہلکی سی ناراضگی میں رچی محبت کے ساتھ ۔

وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے ؟🥲🥲🥲🥲🥲
 

سیما علی

لائبریرین
ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہات اور گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کی
جب وہاں کے لوگ فوج کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے
یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں
ان طالبعلم بچوں میں شیخ محمود آفندی نقشبندی صاحب بھی شامل تھے، حضرت نے یوں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور فراغت کے بعد یہی سلسلہاپنے گاؤں جاری رکھا ،
اسی دوران حضرت آفندی کے دو خلفاء شہید کیے گیے تو حالات کے تناظر میں حضرت آفندی نے وہاں سے شہر کا رخ کیا جہاں ایک قدیم مسجد تھی وہاں رہتے ہوئے حضرت نے چالیس سال تک دین کی تدریس کا کام جاری رکھا۔
تقریبا اٹھارہ سال تک حضرت آفندی کے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت آفندی سے فیضیاب ہوتے گئے ۔
آج جب اسی مسجد میں اذان ہوتی ہے تو جوق درجوق لوگ نماز کیلئے اس مسجد میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں جو حضرت آفندی جیسے علماء کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے
-
ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی ۔
اس وقت حضرت مولانا شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے اسباق پڑھائے حج اور نماز کے مسائل بھی ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھائے اللہ تعالی نے حضرت آفندی کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھ دیا تھا.

شیخ محمود آفندی کے ساٹھ لاکھ سے زائد شاگرد اور مریدین اس وقت دنیا بھر میں ان کی تعلیمات کو عام کرکے اسلام کا نام روشن کررہے ہیں ،معرفت وطریقت کا یہ تابناک سورج زندگی کی 95بہاریں دیکھنے کے بعد اس ماہ غروب ہوگیا۔۔۔پروردگار آپکے درجات بلند فرمائے آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہات اور گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کی
جب وہاں کے لوگ فوج کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے
یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں
ان طالبعلم بچوں میں شیخ محمود آفندی نقشبندی صاحب بھی شامل تھے، حضرت نے یوں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور فراغت کے بعد یہی سلسلہاپنے گاؤں جاری رکھا ،
اسی دوران حضرت آفندی کے دو خلفاء شہید کیے گیے تو حالات کے تناظر میں حضرت آفندی نے وہاں سے شہر کا رخ کیا جہاں ایک قدیم مسجد تھی وہاں رہتے ہوئے حضرت نے چالیس سال تک دین کی تدریس کا کام جاری رکھا۔
تقریبا اٹھارہ سال تک حضرت آفندی کے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت آفندی سے فیضیاب ہوتے گئے ۔
آج جب اسی مسجد میں اذان ہوتی ہے تو جوق درجوق لوگ نماز کیلئے اس مسجد میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں جو حضرت آفندی جیسے علماء کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے
-
ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی ۔
اس وقت حضرت مولانا شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے اسباق پڑھائے حج اور نماز کے مسائل بھی ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھائے اللہ تعالی نے حضرت آفندی کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھ دیا تھا.

شیخ محمود آفندی کے ساٹھ لاکھ سے زائد شاگرد اور مریدین اس وقت دنیا بھر میں ان کی تعلیمات کو عام کرکے اسلام کا نام روشن کررہے ہیں ،معرفت وطریقت کا یہ تابناک سورج زندگی کی 95بہاریں دیکھنے کے بعد اس ماہ غروب ہوگیا۔۔۔پروردگار آپکے درجات بلند فرمائے آمین
اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
 

سیما علی

لائبریرین
❤جس سے محبت ہوتی ہے اس سے حساب کتاب نہیں ہوتا❤

مولانا رومیؒ بازار سے گزر رہے تھے، مولانا صاحب کے سامنے کریانے کی ایک دکان تھی
ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی اور دکاندار وارفتگی کے عالم میں اس خاتون کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتی دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ چیز نکالنے لگتا اور اس وقت تک وہ چیز تھیلے میں ڈالتا جاتا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی اور دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھا دھند چیز نکال کر تھیلے میں ڈالنے لگتا۔۔۔
یہ عجیب منظر تھا دکاندار وارفتگی کے ساتھ گاہک کو دیکھ رہا تھا اور گاہک انگلی کے اشارے سے دکاندار کو پوری دکان میں گھما رہا تھا اور دکاندار اٰلہ دین کے جن کی طرح چپ چاپ اس کے حکم پر عمل کر رہا تھا۔۔۔
خاتون نے آخر میں لمبی سانس لی اور دکاندار کو حکم دیا "چلو بس کرو آج کی خریداری مکمل ہو گئی۔۔۔۔"
دکاندار نے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے منہ بند کئے یہ تھیلیاں بڑی بوری میں ڈالیں بوری کندھے پر رکھی اور خاتون سے بولا "چلو زبیدہ میں سامان تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں۔۔۔۔"
خاتون نے نخوت سے گردن ہلائی اور پوچھا "کتنا حساب ہوا۔۔۔۔؟"
دکاندار نے جواب دیا "زبیدہ عشق میں حساب نہیں ہوتا۔۔۔۔"
خاتون نے غصے سے اس کی طرف دیکھا واپس مڑی اور گھر کی طرف چل پڑی دکاندار بھی بوری اٹھا کر چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا۔
مولانا صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے دکاندار خاتون کے ساتھ چلا گیا تو مولانا صاحب دکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے اور شاگرد گلی میں کھڑے ہو گئے ۔۔۔ دکاندار تھوڑی دیر بعد واپس آگیا، مولانا صاحب نے دکاندار کو قریب بلایا اور پوچھا "یہ خاتون کون تھی۔۔۔۔؟"
دکاندار نے ادب سے ہاتھ چومے اور بولا "جناب یہ فلاں امیر خاندان کی نوکرانی ہے۔"
مولانا صاحب نے پوچھا "تم نے اسے بغیر تولے سامان باندھ دیا پھر اس سے رقم بھی نہیں لی کیوں۔۔؟"
دکاندار نے عرض کیا "مولانا صاحب میں اس کا عاشق ہوں اور انسان جب کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر اس سے حساب نہیں کر سکتا"
دکاندار کی یہ بات سیدھی مولانا صاحب کے دل پر لگی ۔۔۔ وہ چکرائے اور بیہوش ہو کر گر پڑے، شاگرد دوڑے مولانا صاحب کو اٹھایا ان کے چہرے پر عرقِ گلاب چھڑکا، ان کی ہتھیلیاں اور پاؤں رگڑے مولانا صاحب نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔
دکاندار گھبرایا ہوا تھا وہ مولانا صاحب پر جھکا اور ادب سے عرض کیا "جناب اگر مجھ سے غلطی ہو گئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔۔۔"
مولانا صاحب نے فرمایا "تم میرے محسن ہو میرے مرشد ہو کیونکہ تم نے آج مجھے زندگی میں عشق کا سب سے بڑا سبق دیا"
دکاندار نے حیرت سے پوچھا "جناب وہ کیسے۔۔۔؟"
مولانا صاحب نے فرمایا "میں نے جانا تم ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر حساب سے بیگانے ہو جبکہ میں اللہ کی تسبیح بھی گن گن کر کرتا ہوں، نفل بھی گن کر پڑھتا ہوں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی اوراق گن کر کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالٰی سے عشق کا دعوٰی کرتا ہوں تم کتنے سچے اور میں کس قدر جھوٹا عاشق ہوں۔"
مولانا صاحب وہاں سے اٹھے ۔۔۔ اپنی درگاہ پر واپس آئے اور اپنے استاد حضرت شمس تبریز کے ساتھ مل کر عشق کے چالیس اصول لکھے۔ ان اصولوں میں ایک اصول "بے حساب اطاعت" بھی تھا۔
یہ مولانا صاحب مولانا روم تھے، اور یہ پوری زندگی اپنے شاگردوں کو بتاتے رہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں نعمتیں دیتے ہوئے حساب نہیں کیا، چنانچہ تم بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے حساب نہ کیا کرو اپنی ہر سانس کی تار اللہ کے شکر سے جوڑ دو اس کا ذکر کرتے وقت کبھی حساب نہ کرو یہ بھی تم سے حساب نہیں مانگے گا اور یہ کُل عشقِ الٰہی ہے ۔ ۔
😇😇😇😇😇
 
Top