ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں
سارے جھگڑے آیک طرف ، سالے کے پائے ایک طرف
عمر بڑھ جائے تو ماں باپ لڑنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ۔ لگتا یے اب لڑائی بڑھی اور بات چیت بند لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کیونکہ گزری باتوں پر بات بہ بات لڑنا ہی تو ساتھ بیٹھنے کا بہانہ ہے ۔ سوچیں ! اگر یہ سب کچھ نہ کریں تو دن کیسے گزرے ۔
باپ : ( شام کی چائے پیتے ہوئے ) یہ آج کل تمھارے شمشاد کہاں ہوتے ہیں ؟
ماں : یہ شمشاد کی یاد کہاں سے آ گئی آج ؟
باپ: : سالا ہے یاد تو آئے گا ۔ ہم یاد نہیں کریں گے تو کون یاد کرے گا ،
ماں : اچھا ۔ جب وہ شادی کے بعد گھر آتا تھا تو سو طرح کے منہ بناتے تھے ۔ اب اس میں ایسے کیا سرخاب کے پر نکل آئے ۔
باپ : ہماری شادی پر تو خیر سے اس کے بڑے پر نکل رہے تھے ۔ کاٹنا ضروری تھے ۔
ماں : کیوب کیا آڑ کر آپ کے سر پر بیٹھ رہا تھا ؟
باپ : اتنا تو سر پر آج تک سسرال کو بٹھایا ہی نہیں
ماں : تو سسرال نے کب ۔۔۔۔
باپ : دیکھا آج آگئی ناں صحیح بات منہ پر ۔ بریک لگا کر رکھو ان پر ۔ ذرا سا سیدھے منہ بات کی اور یہ ہوئے بے قابو ۔
ماں : : ارے کوئی ٹرک بس ہیں جو بے قابو ہو جائیں گے ۔ ہمارے ہاں بھی داماد کی عزت کی جاتی ہے خوشامد نہیں ۔۔۔ اور دیکھیں ، یہ گڑھے مردے نہ ہی اکھاڑیں تو اچھا ہے ورنہ اگر میرا منہ کھل گیا تو ۔۔۔۔
باپ : ہاں ہاں کھول لیں منہ ۔ اچھا ہے آج بات صاف ہی ہو جائے ۔ میں تو اپنی مہندی والے دن ہی سمجھ گیا تھا ۔سالے کے لچھن اچھے نہیں ۔ منہ ہی نہیں لگایا اس دن سے سالے کو ۔
ماں : میں خوب سمجھ رہی کون سا والا سالا کہا جا رہا ہے میری بھائی کو ۔
باپ : اب یہ تمھاری مرضی ہے جو جیسا ہے وہ تو کہا جائے گا ۔
ماں : ایسا گرا پڑا نہیں تھا شمشاد کہ عورتوں میں گھسا جاتا ۔ ویڈیو بنانے والا اس کا دوست تھا۔ اب اسے کون بتاتا کہ کس کی ویڈیو بنانی ہے ؟
باپ : یہ بات کی ناں کام کی ۔ تمھارے گھر والی ویڈیو میں تو میں ہوں ہی نہیں ۔ دولھا سے زیادہ لڑکیوں کی ویڈیو بنوا دی تھی اس نے ۔ نکاح میرا ہو رہا ہے اور ویڈیو بن رہی ہے دوسری طرف پڑوس کی لڑکی شمو کی ۔
ماں : ہاں تو اچھی لگ رہی ہو گی اس دن ۔
۔باپ : ہاں تو بارات والے دن میں کیا یوگنڈا سے تیار ہو کر آیا تھا ۔ اور ہاں نکاح کے بعد وہ تمھارے پھوپھا دلاور سب سے پہلے گلے ملنے آ گئے ۔ چھوڑ ہی نہیں رہے تھے ۔ منہ سے منہ لگانے کر کھڑے تھے ۔ پورے 5 منٹ ویڈیو بنوائی ۔ وہ تو ان کے لڑکے نے کہا : ابا چھوڑ دیں ۔ کرائے پر نہیں آئے دولھا بھائی ۔
ماں : بہت سیدھے تھے پھوپھا ہمارے ۔
باپ : سیدھے جنت میں گئے ہوں گے ۔ ویسے میں تو حیران ہوں پھوپھا اتنے عرصے زندہ کیسے رہ لیے تمھاری پھوپھی کے ساتھ ؟
ماں : ہماری پھوپھی کو آپ نے جوانی میں نہیں دیکھا ۔ جو دیکھتا دیکھتا رہ جاتا ۔
باپ : ہاں یہ بات تمھاری سولہ آنے صحیح ہے ۔ میں نے جب پہلی بار دیکھا تو دیکھتا رہ گیا ۔ اماں سے پوچھ لیا تھا کیا آپ کی بہو ان پر پڑی ہے ۔ اماں نے کہا اللہ نے دو آنکھیں دی ہیں لڑکے ۔
ماں : آپ کی اماں کو تو پھوپھی سے خدا واسطے کا بیر تھا ۔ بس رشتہ آنے پر آپ کی عمر ہی تو پوچھی تھی ۔ کوئی گناہ کیا ۔۔۔ کیا ؟
باپ : اس طرح بہانے سے عمر پوچھتے ہیں کیا ؟ بولیں اسکندر مرزا کو جب ایوب خان نے اقتدار سے الگ کیا تو میں کس جماعت میں پڑھتا تھا ۔ ہماری اماں نے طبیعت ہری کردی تھی ، بولیں : اس وقت تو میں خود اسکول میں پڑھتی تھی ۔
ماں : ایسا کریں آج آپ دل بھر ہمارے گھر والوں کی برائیاں ہی کر لیں ۔ نکال لیں ساری بھڑاس ۔
باپ : اس میں بھڑاس نکالنے والی کیا بات ہے جو ہوا وہ بتا رہا ہوں ۔
ماں : اب میں بتاوں ؟ آپ کا رشتہ آیا اور منی باجی ہمارے گھر آ گئیں ۔ اتنی برائیاں کیں آپ کی امی کی ۔ کوئی اور ہوتا تو منع کر دیتا ۔ مگر اماں نے کہا خاندانی لوگ ہیں زبان دے دی تو دے دی ۔
باپ: اب میں کچھ بتاوں ۔ تمھاری پیچھے نہیں رہتے بھائی سمیع ۔ ابا کے پاس آئے تھے بولو : احمد بھائی رشتہ کرو تو دیکھ کر کرنا ۔ دونوں میاں بیوی کی ایک نہیں بنتی ۔ لڑکی بھی انہی کی ہے کہیں تمھارا لڑکا پھنس نہ جائے ۔
اسی دوران باپ کا موبائل بجتا ہے ۔ کال اٹینڈ کرتے ہیں : بھائی کیا حال ہیں ۔ بھول گئے کیا ؟
دوسری جانب سے بات کس جواب دیتے ہیں : ارے تم نے بلایا تو جم جم آئیں گے ۔ کل شام میں ۔۔۔ پکا ! خدا حافظ
ماں : کس کو اتنی محبت دکھائی جارہی تھی ۔
باپ : سالے کو میرے بغیر چین بھی نہیں ۔
ماں : کون سالا ؟
باپ : تم نہیں جانتیں ۔
ماں : پھر بھی ؟
باپ : شمشاد سالے نے بلایا ہے کل پائے کی دعوت کر رہا ہے ۔
ماں : ( چڑ کر ) چھوڑیں ۔ کیا کریں گے وہاں جا کر ۔ وہ تو ویڈیو بھی شمو کی بناتا ہے ۔ گھر آکر سو سو عیب نکالیں گے ۔
باپ : پہلے پائے پلیٹ میں نکالیں گے پھر عیب نکالیں گے ۔ ویسے بھی سارے جھگڑے ایک طرف ، سالے کے پائے ایک طرف




