انٹرویو گل یاسمیں سے انٹرویو

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اچانک سے ایک ہاتھ آگے بڑھا اور ہمارے دائیں بازو کو پکڑ کر ہلایا " گل میں یہاں ہوں"

آہ نہ کر!
یہی حرف تمنا
یہی حرف تماشائی
یہی وسیلہِ حاجات
یہی تمثیلِ جاودانی
یہی رفعتِ لامکانی
یہی شوق لن ترانی
جی بالکل۔۔۔ وہ لمحات، وہ لمس، وہ منظر جیسے آنکھوں میں بس گیا ہے۔ بہت اچھا سا احساس ہے۔

تیری آغوش سے ماں سر کو اٹھاؤں کیسے
مجھ سے پتھر میں نہیں کوئی بھی نازک سا مقام
واسطہ تجھ سے مری زیست کے ہر پہلو کا
تجھ سے بڑھ کر نہیں دنیا میں کوئی بھی مقام
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جو بھی فیملی سے جا چکے ہیں اللہ پاک کے پاس۔۔۔ ہمیں اکثر خواب میں ملتے رہتے ہیں۔

آپ کو کس "احساس " سے اسکے " سچے " ہونے کا احساس ہوتا ہے؟کیا پتا واہمہ ہو؟
احساسات لفظوں میں ہو بہو ویسے بیان نہیں کئے جا سکتے جیسے محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ وہ زندگی میں تحلیل ہوئے رہتے ہیں۔ ان کی پیغام رسانی بہت مشکل ہے۔ خرد و جنوں کی سرحدوں پر ظاہر ہونے والے خوابوں کے یہ جلوے صرف وہی محسوس کر پاتا ہے جو محوِ سفر ہوتا ہے۔ شاید اپنوں سے بے پناہ وارفتگی ہی اس کا سبب ہوتی ہے کہ انسان فراق و وصال کو یکساں کیفیات سمجھنے لگتا ہے۔ موجود اور غیر موجود کا فرق ہی نہیں رکھ پاتا۔ خاموشیاں بھی کلام کرنے لگتی ہیں، تنہائی کا احساس مٹ جاتا ہے ۔ اور قرب کا احساس یوں حاوی ہوتا ہے جیسے کہ ابدی جدائی بیچ میں آئی ہی نہیں۔ محفل سی جم جاتی ہے ۔ جانے والے جا چکے ہیں، مگر پاس ہی ہیں ہنستے بولتے، کبھی کچھ کہتے ہوئے کبھی کچھ سنتے ہوئے۔
نہیں واہمہ نہیں۔۔۔ واہمے بے چین کرتے ہیں۔ خوف طاری کرتے ہیں۔ ادھورے پن کا احساس دلاتے ہیں۔ جب کہ ہمیں ایک بھرپور ملاقات کا تاثر ملتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر سہی مگر بہت ہوتے ہیں با ہمت کرنے کے لئے اور "سبق" دینے کے لئے بھی
ایسے خواب سکھاتے ہیں کہ " جو تمہیں حاصل ہے ، اس پر ہمیشہ کے لئے قابض رہنے کی خواہش دل میں مت پالنا۔ تم سے پہلے والے بھی چلے گئے ، تم نے بھی چلے جانا ہے"
بعد میں کچھ دن ان کیفیات کے بیچ جیسے یہاں اور وہاں ہونے کا احساس رہتا ہے کچھ کچھ۔۔ خود کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ کبھی جلدی کامیابی ہوتی ہے اور کبھی تھوڑا ٹائم لگ جاتا ہے ۔ اورپھر سکون سا دل میں اتر آتا ہے۔ نہیں معلوم کہ ان کیفیات کو کیا نام دیں، جو محسوس ہوتا ہے بتا دیا بس۔
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ہم نے امی جان کو خواب میں دیکھا کہ اکیلی (پاکستان) گھر کے دروازے کی دہلیز پہ اداس سی بیٹھی ہیں ۔ ہم نے پوچھا کیوں اداس ہیں۔تو منہ پھیرتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہیں کیوں بتاؤں، تم تو اتنی دور ہو۔
اس کے بعد ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہمیں ہمیشہ خوش مزاجی سے ہی ملتی رہی ہیں لیکن اس دن کا ان کا چہرہ آنکھوں میں پھرتا رہا۔ بہت ذہن دوڑایا کہ کس لئے ایسا ہے۔ لیکن سمجھ نہ آئی۔ پھر بھابی سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ خالہ جان نے تمہیں کچھ کام ذمہ لگانا تھا، اب بیٹھ کر سوچو کہ کیا ہو سکتا ہے۔ آخر کار تمام اطراف کا جائزہ لے کر سمجھ آئی کہ ان کا اشارہ کیا تھا۔ امی کے میکے یعنی ننھیال میں ایک لڑکی کواس کےخاوند کی طرف سے اپنے گھر والوں سے ملنے کی اجازت نہ تھی جس پر وہ بہت پریشان تھی۔ بھائیوں سے مشورہ کیا کہ اب کیا کریں۔ بالآخر ان بھائی صاحب سے رابطہ کیا گیا کانفرس کال پہ جس میں ہم تین سے چار لوگ شامل تھے۔ آخر کار انھیں اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنے کی اجازت دیں۔ مان گئے اور یوں اللہ پاک نے عزت رکھی۔ ٹھیک اسی دن امی جان ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ اسی جگہ بیٹھے ملیں اور ہمارا دل مطمئن ہوا۔ اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔
بتانے کا مقصد یہ کہ۔۔۔۔ اب چاہے ہمارا مغز آدھا سمجھیں یا بالکل ہی خالی۔۔۔ مگر جو ہے سو ہے۔۔۔ ہم اس سب کو نہیں بدل سکتے جو جو ہوتا جا رہا ہے۔ کسی وقت واقعی میں اس کیفیت سے الجھن بھی ہوتی ہے ہلکی سی۔۔۔ مگر کون ہے جو کچھ سمجھا پائے۔
غم یا پریشانی نہیں ہے مگر پھر بھی ۔۔۔۔۔۔ الفاظ نہیں ہیں بتانے کو۔ کوئی سمجھ پائے تو سمجھا دے ہمیں بھی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
سر کو اگر سائیڈ کے رُخ ٹکرایا جائے یا سر کا پچھلا حصہ تو دماغ پہ شدید چوٹ آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

یہ انتہائی معلوماتی بات ہے میرے لیے:)

ہے تو مفید اور معلوماتی بات مگر بھولے سے بھی اس پر عمل نہ کر بیٹھئیے گا۔ دماغ پر چوٹ نہیں آتی لیکن ماتھے پہ گومڑ ضرور بن جاتا ہے۔ جو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ برف کی ٹکور سے نہ صحیح ہو تو کبھی گرم پانی سے سینکائی کرنی پڑتی ہے اور کبھی کچھ۔
بس کوئی ایسا کرنے اک سوچے بھی نہیں۔ ہم نے اپنا تجربہ بتا دیا نا، اسی کو غنیمت سمجھئیے۔ ہم تو معلوم نہیں کس ذہنی دباؤ میں پڑ گئے تھے کہ نہیں رونا نہیں کبھی۔ حالانکہ رو لینا ایک بہتریں ٹانک ہے آنکھوں کی صفائی کے لئے بھی اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے بھی۔
مگر واویلے والا رونا ہر گز نہیں۔۔۔ بس اللہ پاک کی محبت میں۔۔۔ کہ وہ کسی صورت آپ کو غموں کے اندھیروں میں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
 
آپ جیسا نظر آتی ہیں ایسی ہے نہیں ،
آپ دنیا اور دینوی معاملات پر بہت گہری نظر رکھتی ہیں ،
ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ پر کب آگہی اور سوچ کے در وا ہوئے ، کیا اس کیا وجہ زندگی میں پیش آیا حادثہ ہے یا عمر رواں کے ساتھ ساتھ زمانے کے چلن سے آپ سیکھتی گئیں ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
کہ انسان فراق و وصال کو یکساں کیفیات سمجھنے لگتا ہے۔ مو

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

تفصیل سے تبصرہ فراغت پاتے ہی .... اچھا لگا سب پڑھ کے
مزید سوال کروں گی جب فرصت ملی

آپ گفتگو یا انٹرویو بہت اچھا جارہا مگر بہت کچھ مکس ہوگیا ہے. چاہو تو گپ شپ والے مراسلے نکلوادو تاکہ سب بآسانی پڑھ کے مزید سوال کر سکیں.
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ جیسا نظر آتی ہیں ایسی ہے نہیں ،
کیا مطلب۔۔۔ جیسا نظر آتی ہیں ویسی نہیں۔۔۔۔ نہیں بھائی جیسی ہیں ہم ویسی ہی ہیں۔۔۔ سیدھی سادی سی۔ بالکل سنجیدہ۔ لیکن شوخیاں بھی تو زندگی کا حصہ ہیں نا۔ تو سنجیدہ معاملات میں حد سے زیادہ سنجیدہ مگر جب رگِ ظرافت پھڑکتی ہے تو کسی کل چین نہیں پڑتا۔ آخر کو ہمیں دوسروں کو خوشیاں بانٹنے کے لئے کچھ پازیٹو انرجی چاہئیے ہوتی ہے نا جو "محفل " سے وافر مقدار میں ملتی ہے۔ الحمد للہ
آپ دنیا اور دینوی معاملات پر بہت گہری نظر رکھتی ہیں ،
اللہ پاک کا کرم ہے بھائی ۔ اور آپ کا خلوص کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں۔
زندگی کے راستے بہت دشوار گزار ہوتے ہیں۔ ایک صاف شفاف دل کا مالک ہونا ہی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیا ہے کہ "ٹرانسپیرنٹ " میں آپ کو دوسری چیز بھی ہو بہو ویسی دکھے گی جیسی وہ ہے۔ اس پر کوئی دوسرا رنگ اپنا عکس نہیں ڈال رہا ہو گا۔
معاملات کی سمجھ علم سے آتی ہے۔اور علم وہ ہے جو "نگاہ" سے ملتا ہے۔ نصاب کی کتابیں پڑھ کر ڈگری حاصل کر لینا محض تعلیم ہے۔ جب تک ہم کسی بھی معاملہ کو اپنی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے، ہمیں علم عطا نہیں ہو گا۔ ظاہر کا علم، باطن کا علم۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس بات پر "سمجھا " سکیں کہ چند روز کی اس زندگی میں ہم جتنا کچھ بھی حاصل کر لیں، بالآخر سب یہیں چھوڑ جانا ہے۔ تو انسان خود بخود دین کو زندگی میں شامل کئے رکھتا ہے۔ دین میں صرف پنج وقتہ نماز یا روزہ زکوۃٰ کا ذکر نہیں کہ وہ ہمارے اپنے لئے کئے جانے والے اعمال ہیں۔ اور ان کا صلہ بھی ہمیں ہی ملنا ہے۔ جب علم یہ جستجو کرتا ہے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ مالکِ کائنات جس نے یہ وسیع دنیا بنائی ، بیج کو مٹی کی تاریک گود میں پال کر سبزہ و گل کی صورت زمین کو سنوارا، اس نے انسان کو دنیا میں کس مقصد سے بھیجا ہے۔ دل میں سوال پہ سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ ان کے جواب تلاشنے میں ہی انسان بہت سارے معاملات پر گہری نظر رکھنے لگتا ہے۔ جو بظاہر نظر آ رہا ہوتا ہے، وہ محض ایک عکس ہوتا ہے، جتنا غور کریں، پرتیں کھلتی جاتی ہیں اور تب بندہ حقیقت کے قریب پہنچنے لگتا ہے۔
آپ کی پوچھی بات کا اگر جواب نہیں ملا تو پھر سے پوچھ لیجئیے گا۔۔۔ ہمیں کبھی کبھی بولنا بہت اچھا بھی لگتا ہے ۔

باقی حصہ کا جواب اگلے مراسلہ میں ان شاء اللہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

تفصیل سے تبصرہ فراغت پاتے ہی .... اچھا لگا سب پڑھ کے
مزید سوال کروں گی جب فرصت ملی

آپ گفتگو یا انٹرویو بہت اچھا جارہا مگر بہت کچھ مکس ہوگیا ہے. چاہو تو گپ شپ والے مراسلے نکلوادو تاکہ سب بآسانی پڑھ کے مزید سوال کر سکیں.
جی ضرور کیجئیے سوال بلکہ سوالات۔۔۔

نہیں کوئی بات نہیں۔۔۔ مکس تو ہوا ہے لیکن ہمارے پاس اس کا ایک حل ہے۔ کہ مراسلے بھی نہ نکلوانے پڑیں اور کام بھی ہو جائے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
کیا مطلب۔۔۔ جیسا نظر آتی ہیں ویسی نہیں۔۔۔۔ نہیں بھائی جیسی ہیں ہم ویسی ہی ہیں۔۔۔ سیدھی سادی سی۔ بالکل سنجیدہ۔ لیکن شوخیاں بھی تو زندگی کا حصہ ہیں نا۔ تو سنجیدہ معاملات میں حد سے زیادہ سنجیدہ مگر جب رگِ ظرافت پھڑکتی ہے تو کسی کل چین نہیں پڑتا۔ آخر کو ہمیں دوسروں کو خوشیاں بانٹنے کے لئے کچھ پازیٹو انرجی چاہئیے ہوتی ہے نا جو "محفل " سے وافر مقدار میں ملتی ہے۔ الحمد للہ


یہ آپ کے لیے
 
آپ جیسا نظر آتی ہیں ایسی ہے نہیں ،
آپ دنیا اور دینوی معاملات پر بہت گہری نظر رکھتی ہیں ،
ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ پر کب آگہی اور سوچ کے در وا ہوئے ، کیا اس کیا وجہ زندگی میں پیش آیا حادثہ ہے یا عمر رواں کے ساتھ ساتھ زمانے کے چلن سے آپ سیکھتی گئیں ؟
واقعی میں عدنان بھائی گل بہن کی تحریر پڑھ کر لگتا ہی نہیں کہ اِن پر کوئی پردیس کا اثر ہوا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
اف خدایا۔۔۔۔ واقعی کبھی کبھی ایسا دورہ پڑ ہی جاتا لیکن بہت کم ۔
ابھی تین یا چار دن پہلے ولیمہ کی دعوت سے واپسی پہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے اونچی آواز میں میوزک لگئے ویڈیوز بنائیں راستے کی۔
تھوڑا دماغ (بچا ہوا) کھسکا تھا نا۔۔ لیکن مزہ خوب آیا۔
 
کیا مطلب۔۔۔ جیسا نظر آتی ہیں ویسی نہیں۔۔۔۔ نہیں بھائی جیسی ہیں ہم ویسی ہی ہیں۔۔۔ سیدھی سادی سی۔ بالکل سنجیدہ۔ لیکن شوخیاں بھی تو زندگی کا حصہ ہیں نا۔ تو سنجیدہ معاملات میں حد سے زیادہ سنجیدہ مگر جب رگِ ظرافت پھڑکتی ہے تو کسی کل چین نہیں پڑتا۔ آخر کو ہمیں دوسروں کو خوشیاں بانٹنے کے لئے کچھ پازیٹو انرجی چاہئیے ہوتی ہے نا جو "محفل " سے وافر مقدار میں ملتی ہے۔ الحمد للہ

اللہ پاک کا کرم ہے بھائی ۔ اور آپ کا خلوص کہ آپ ایسا سمجھتے ہیں۔
زندگی کے راستے بہت دشوار گزار ہوتے ہیں۔ ایک صاف شفاف دل کا مالک ہونا ہی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیا ہے کہ "ٹرانسپیرنٹ " میں آپ کو دوسری چیز بھی ہو بہو ویسی دکھے گی جیسی وہ ہے۔ اس پر کوئی دوسرا رنگ اپنا عکس نہیں ڈال رہا ہو گا۔
معاملات کی سمجھ علم سے آتی ہے۔اور علم وہ ہے جو "نگاہ" سے ملتا ہے۔ نصاب کی کتابیں پڑھ کر ڈگری حاصل کر لینا محض تعلیم ہے۔ جب تک ہم کسی بھی معاملہ کو اپنی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے، ہمیں علم عطا نہیں ہو گا۔ ظاہر کا علم، باطن کا علم۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس بات پر "سمجھا " سکیں کہ چند روز کی اس زندگی میں ہم جتنا کچھ بھی حاصل کر لیں، بالآخر سب یہیں چھوڑ جانا ہے۔ تو انسان خود بخود دین کو زندگی میں شامل کئے رکھتا ہے۔ دین میں صرف پنج وقتہ نماز یا روزہ زکوۃٰ کا ذکر نہیں کہ وہ ہمارے اپنے لئے کئے جانے والے اعمال ہیں۔ اور ان کا صلہ بھی ہمیں ہی ملنا ہے۔ جب علم یہ جستجو کرتا ہے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ مالکِ کائنات جس نے یہ وسیع دنیا بنائی ، بیج کو مٹی کی تاریک گود میں پال کر سبزہ و گل کی صورت زمین کو سنوارا، اس نے انسان کو دنیا میں کس مقصد سے بھیجا ہے۔ دل میں سوال پہ سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ ان کے جواب تلاشنے میں ہی انسان بہت سارے معاملات پر گہری نظر رکھنے لگتا ہے۔ جو بظاہر نظر آ رہا ہوتا ہے، وہ محض ایک عکس ہوتا ہے، جتنا غور کریں، پرتیں کھلتی جاتی ہیں اور تب بندہ حقیقت کے قریب پہنچنے لگتا ہے۔
آپ کی پوچھی بات کا اگر جواب نہیں ملا تو پھر سے پوچھ لیجئیے گا۔۔۔ ہمیں کبھی کبھی بولنا بہت اچھا بھی لگتا ہے ۔

باقی حصہ کا جواب اگلے مراسلہ میں ان شاء اللہ
آپ نے علم باطن کا تذکرہ کیا ہے ،آپ کی نظر میں علم باطن کیا ہے۔ذرا کچھ تفصیل بیان کیجیے ؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
واقعی میں عدنان بھائی گل بہن کی تحریر پڑھ کر لگتا ہی نہیں کہ اِن پر کوئی پردیس کا اثر ہوا
کیوں ہو گا بھائی پردیس کا اثر ہم پر؟
اپنا اثر کیوں نہ چھوڑیں ہم پردیس پر۔ ۔۔۔ مزہ تو اس میں ہے نا۔
نہیں؟؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ نے علم باطن کا تذکرہ کیا ہے ،آپ کی نظر میں علم باطن کیا ہے۔ذرا کچھ تفصیل بیان کیجیے ؟

علم باطن۔۔۔۔ یعنی کہ باطنی اعمال کا وہ علم جو باطنی اعضاء یعنی کہ دل سے عمل میں آئیں۔ جس میں بغیر دیکھے اللہ پاک کے ہونے کا یقین کرنا ہے۔ ایمان لانا ہے۔ ذکر الہیٰ ، تقویٰ، توکّل بھی اسی علم کا حصہ ہیں۔ اللہ پاک کی مخلوق سے محبت اس پاک ذات تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ نعمتوں کا شکر اور تکلیفوں پر صبر بھی اسی میں آتا ہے۔
دل میں اللہ پاک کا خوف پیدا کئے رکھنا کہ ہم برائیوں سے دور رہیں۔
معرفت، مراقبہ اور بہت کچھ علم باطن کا حصہ ہیں مگر ہم تو ابھی طالب علم ہیں اور کوئی ہاتھ پکڑ کر اس راہ پہ لے جانے والا بھی نہیں کہ جلدی کچھ سیکھ سکیں۔ سو زندگی کے تجربات سے جو کچھ سیکھ پا رہے ہیں، شئیر کر دیا۔ ہاں اگر علم حاصل کرنے کے لئے کوئی وسیلہ یا رہنما مل پایا تو ضرور کچھ بہتر سیکھ پائیں گے۔
 
Top