سولھویں سالگرہ عدم آباد میں منعقدہ جشنِ محفل کی روداد

عدم آباد کی ایک بیٹھک میں اردو محفل فورم پر چند شعراء موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ محفل کی سالگرہ آ رہی ہے تو گپ شپ شروع ہو گئی۔
سب سے پہلے عبد الحمید عدمؔ جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے عارضی معطلی سے واپس آئے تھے، چمک کر بولے:
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں​
عدمؔ معطلی پر ابھی تک جز بز تھے، اپنے غیر فعال ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے:
میں ہوں ضرور کہیں تیری بزم میں لیکن
تلاش کر کے تو خود ہی بتا کہاں ہوں میں​
پھر خیال آیا کہ سالگرہ ہے تو محفل کی تعریف بھی بنتی ہے۔ کہنے لگے:
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
محسنؔ نقوی، جو محفل کو محض خاموش تماشائی کی حیثیت سے ہی دیکھتے رہے تھے، اب پچھتاتے ہوئے کہنے لگے:
یہ حَادثہ ہے میں تِری محفل میں چُپ رہا
حالانکہ وہ فضا بھی بڑی سازگار تھی​
اور محفل کے ٹرولز سے جھنجھلا کر کہنے لگے:
ذہنِ رسا کی محفلِ خاموش میں کبھی
وہ شور کر کہ کچھ بھی سنائی نہ دے مجھے​
اور قطعہ کے اگلے شعر میں اپنی اس خواہش کے پیچھے چھپی اصل خواہش کا اظہار بھی کر دیا کہ اس طرح دراصل ان کا مقصد ٹرولز کو معطل کروانا تھا:
اے دوست! چھوڑ کر یہ رگِ جاں کی پستیاں
اتنا بلند ہو کہ دکھائی نہ دے مجھے​

جونؔ نے کچھ گزرتے شعراء کو دیکھ کر کہا:
اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار، آ نکلو
شروعِ شب کی محفل ہے مری سرکار! آ نکلو​
پھر اپنے اوپر نقاد کی تنقید پڑھ کر بے نیازی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا:
تلخ گو مخلصوں کی محفل میں
جون کس بات کا برا مانے​
محفل سے وابستگی کا اظہار کچھ یوں کیا:
سرِ محفل یہ حال ہے میرا
جیسے خود کو بھگا کے لایا ہوں​
پھر پرانے محفلین ہونے کے ناطے کچھ ناسٹلجیا میں چلے گئے:
گنوا کے اب جنہیں گم ہے نظر کی بیداری
وہ ایک خواب کی محفل تھی اور خیال کے لوگ​
اور اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
اے یار کسی شام، مرے یار کسی شام
بے رونقیِ محفلِ یاراں پہ نظر ہو​

شیفتہؔ محفل چھوڑ کر جانے اور پھر منائے جانے کا قصہ سناتے ہوئے کہنے لگے:
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا​
اور دوبارہ بدمزگی سے بچنے کے لیے یہ فیصلہ کیا:
ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں کیا کریں
اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا​
کیونکہ پہلی بدمزگی کا الزام بھی وہ رقیبوں ہی پر دھرتے ہیں:
مجھے یوں بٹھاتے وہ کب بزم میں
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث​

داغؔ جو کبھی معطل نہ ہوئے تھے، انتظامیہ کو تڑی لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
اے داغؔ اس کی بزم میں ہم گل کھلائیں گے
اس کا ہے انتظار ذرا کوئی کچھ کہے​
ساتھ ہی اپنی ڈھٹائی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے​
اور پھر یہ سوچ کر کہ کہیں انتظامیہ غصہ ہی نہ کر جائے، فوراً مسکا لگایا:
بدلے شراب کے ہے مجھے زہر بھی قبول
اس انجمن میں ساقیِ محفل کے ہاتھ سے​
ایک محفلین سے مکالمہ میں انتظامیہ کے خلاف بات کر دی تھی، اس محفلین نے سب کو بتا دیا تو شکایت کرتے ہوئے کہنے لگے:
ہم نے جو راز کہ خلوت میں کہا تھا اس سے
آج افشا وہ رقیبوں میں سرِ محفل ہے​
پھر ایک شاعر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جو محفل پر کڑی تنقید سے بھاگ کر فیس بک پر گئے تھے اور خوب واہ واہ سمیٹ رہے تھے:
چھوڑ کر وہ مجمعِ اغیار کیوں آنے لگے
روز جلسے ہیں نئی ہر روز محفل گھر میں ہے​
پھر محفل پر سر پھٹول دیکھ کر کہنے لگے:
دیکھنا رشک اس کی محفل میں
ایک کو ایک کھائے جاتا ہے​
کچھ اداس ہوتے ہوئے کہا:
دل کو تھاموں کہ تری بزم میں آنسو پونچھوں
ہاتھ جب دل سے اٹھے دیدۂ تر تک پہنچے​
پھر اچانک یاد آیا کہ یہ تو سالگرہ کی محفل ہے، تو کہا:
نغمۂ عیش سے یاد آگئے نالے ہم کو
بزمِ شادی میں رہے تو بھی تو ماتم میں رہے​


اصغر گونڈوی، جو کبھی خود بھی مدیر رہ چکے تھے، محفل کے بابوں میں شمار ہوتے ہیں، بہت عرصہ بعد محفل حاضر ہوئے تو نئے محفلین کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے:
ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ روحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مغاں برسوں​
اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
لالہ و گل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں !
رنگِ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے​
اور پھر یاس بھرے لہجے میں بولے:
ایک مدّت سے تری بزم سے محروم ہوں میں
کاش وہ چشمِ عنایت بھی تری یاد نہ ہو​
نئے محفلین کی گپ شپ سے نالاں ہوتے ہوئے بولے:
کون سی بزم سے آتے ہیں جوانانِ چمن
خاک میں لے کے چلا ذوقِ تماشا مجھ کو​
پھر بھی امید کی کرن انھیں دکھائی دیتی ہے:
خطِ ساغر میں رازِ حق و باطل دیکھنے والے
ابھی کچھ لوگ ہیں ساقی کی محفل دیکھنے والے​

اقبالؒ جو کافی سوچ میں غرق تھے، افسردہ لہجے میں بولے:
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد​

فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی​
اپنے کبھی فعال ہونے اور پھر غیر فعالیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
کہیں سرمایۂ محفل تھی میری گرم گفتاری
کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی​
پھر اپنی غیر فعالیت کی وجہ عارضی معطلی بتاتے ہوئے انتظامیہ سے کہنے لگے:
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری​
پھر فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انتظامیہ نے سافٹویئر اپڈیٹ کر کے بحال کیا ہے تو کہنے لگے
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں​
اور اپنے آپ سے کہنے لگے:
خموش اے دل! بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں​

محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ​
محفل پر سطحیت کا عروج دیکھ کر کہنے لگے
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے​
پھر امید دلاتے ہوئے کہنے لگے:
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی​

اتنے میں ذوقؔ اپنی محفل میں شمولیت کا قصہ سناتے ہوئے بولے:
آیا ہوں نور لے کے میں بزمِ سخن میں ذوق
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہلِ سخن مجھے​
مگر دل کے ارماں آنسؤں میں بہہ گئے۔ زیادہ پذیرائی نہ ہوئی تو کہا:
کوئی اس بزم میں مونس ہے نہ دمساز اپنا
یار دکھلائے کہیں آ کے جو اعجاز اپنا

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی​
اور پھر جا بے جا غالبؔ کے طرفدار بکھرے نظر آئے تو شکوہ کناں ہوئے:
مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا​
پھر بھی محفل کی سالگرہ کے موقع پر دعا دیتے چلے کہ:
بزمِ رنگیں میں تری رنگِ طرب ہو ہر روز
اور تری خاطرِ اقدس پہ کبھی آئے نہ رنج​

غالبؔ، جو ذوق کے طنز پر ابھی تک جز بز تھے، بولے:
آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
"لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے"​
پھر محفل سے جانے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا​
اپنی حد سے زیادہ پذیرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​
نئے محفلین، جو اپنی تعارفی لڑی میں پذیرائی پر بہت خوش تھے، انھیں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے:
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے​
کچھ عرصہ منتظم بھی رہے، تو اس وقت کی روداد سناتے ہوئے بولے:
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے​
اور پھر وہی اپنا زمانہ یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں​

نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے​
پھر کسی نے یاد دلایا کہ سالگرہ آ رہی ہے تو کہا
پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد محفلِ نشاط قریں

تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار​

میرؔ، جو اپنے مزاج کے مطابق کچھ جھنجھلائے ہوئے تھے، اور منتظمین سے کچھ بنتی بھی نہ تھی، کہنے لگے:
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں

ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں​

ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اس کی بزم میں
نکلا نہ حرف خیر کسو کی زبان سے​
اور محفل چھوڑنے کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:
ہم بے خودانِ محفل تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا​
ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ محفل ہمارے بغیر نہیں چل سکتی:
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں​
پھرکسی نے کہا کہ حضرت سالگرہ ہے تو کچھ تعریف بھی ہو جائے، تو بناوٹی لہجے میں کہا:
دلکشی اس بزم کی ظاہر ہے تم دیکھو تو ہو
لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں​
اتنے میں رات کا کھانا کھلنے کی پکار سنائی دی، تو شعراء اس جانب چل دیے۔ یوں یہ محفل اختتام کو پہنچی۔
٭٭٭​
 

محمد وارث

لائبریرین
بہادر شاہ ظفر بہت چیں بچیں ہوئے، کہ وہ سارے شعرا جو مجھے "پیر و مرشد" کہا کرتے تھے، اپنا اپنا کلام سنا گئے اور میرا ذکر تک نہیں، آخر تنگ آکر فرمایا کہ:

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے "محفلِ" ناپائیدار میں
:)
 
بہادر شاہ ظفر بہت چیں بچیں ہوئے، کہ وہ سارے شعرا جو مجھے "پیر و مرشد" کہا کرتے تھے، اپنا اپنا کلام سنا گئے اور میرا ذکر تک نہیں، آخر تنگ آکر فرمایا کہ:

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے "محفلِ" ناپائیدار میں
:)
کسی کونے میں چارپائی پر پڑے ہوں گے حقہ گڑگڑاتے۔
 

فہد اشرف

محفلین
وہیں ایک گرم و سرد چشیدہ معطلی رسیدہ شاعر بھی تھے ایک شعر یاد آ رہا ان کا۔
بھیس کیا کیا نہ زمانے میں بنائے ہم نے
ایک چہرے پہ کئی چہرے لگائے ہم نے
 
عدم آباد کی ایک بیٹھک میں اردو محفل فورم پر چند شعراء موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ محفل کی سالگرہ آ رہی ہے تو گپ شپ شروع ہو گئی۔
سب سے پہلے عبد الحمید عدمؔ جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے عارضی معطلی سے واپس آئے تھے، چمک کر بولے:
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں​
عدمؔ معطلی پر ابھی تک جز بز تھے، اپنے غیر فعال ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے:
میں ہوں ضرور کہیں تیری بزم میں لیکن
تلاش کر کے تو خود ہی بتا کہاں ہوں میں​
پھر خیال آیا کہ سالگرہ ہے تو محفل کی تعریف بھی بنتی ہے۔ کہنے لگے:
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
محسنؔ نقوی، جو محفل کو محض خاموش تماشائی کی حیثیت سے ہی دیکھتے رہے تھے، اب پچھتاتے ہوئے کہنے لگے:
یہ حَادثہ ہے میں تِری محفل میں چُپ رہا
حالانکہ وہ فضا بھی بڑی سازگار تھی​
اور محفل کے ٹرولز سے جھنجھلا کر کہنے لگے:
ذہنِ رسا کی محفلِ خاموش میں کبھی
وہ شور کر کہ کچھ بھی سنائی نہ دے مجھے​
اور قطعہ کے اگلے شعر میں اپنی اس خواہش کے پیچھے چھپی اصل خواہش کا اظہار بھی کر دیا کہ اس طرح دراصل ان کا مقصد ٹرولز کو معطل کروانا تھا:
اے دوست! چھوڑ کر یہ رگِ جاں کی پستیاں
اتنا بلند ہو کہ دکھائی نہ دے مجھے​

جونؔ نے کچھ گزرتے شعراء کو دیکھ کر کہا:
اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار، آ نکلو
شروعِ شب کی محفل ہے مری سرکار! آ نکلو​
پھر اپنے اوپر نقاد کی تنقید پڑھ کر بے نیازی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا:
تلخ گو مخلصوں کی محفل میں
جون کس بات کا برا مانے​
محفل سے وابستگی کا اظہار کچھ یوں کیا:
سرِ محفل یہ حال ہے میرا
جیسے خود کو بھگا کے لایا ہوں​
پھر پرانے محفلین ہونے کے ناطے کچھ ناسٹلجیا میں چلے گئے:
گنوا کے اب جنہیں گم ہے نظر کی بیداری
وہ ایک خواب کی محفل تھی اور خیال کے لوگ​
اور اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
اے یار کسی شام، مرے یار کسی شام
بے رونقیِ محفلِ یاراں پہ نظر ہو​

شیفتہؔ محفل چھوڑ کر جانے اور پھر منائے جانے کا قصہ سناتے ہوئے کہنے لگے:
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا​
اور دوبارہ بدمزگی سے بچنے کے لیے یہ فیصلہ کیا:
ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں کیا کریں
اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا​
کیونکہ پہلی بدمزگی کا الزام بھی وہ رقیبوں ہی پر دھرتے ہیں:
مجھے یوں بٹھاتے وہ کب بزم میں
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث​

داغؔ جو کبھی معطل نہ ہوئے تھے، انتظامیہ کو تڑی لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
اے داغؔ اس کی بزم میں ہم گل کھلائیں گے
اس کا ہے انتظار ذرا کوئی کچھ کہے​
ساتھ ہی اپنی ڈھٹائی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے​
اور پھر یہ سوچ کر کہ کہیں انتظامیہ غصہ ہی نہ کر جائے، فوراً مسکا لگایا:
بدلے شراب کے ہے مجھے زہر بھی قبول
اس انجمن میں ساقیِ محفل کے ہاتھ سے​
ایک محفلین سے مکالمہ میں انتظامیہ کے خلاف بات کر دی تھی، اس محفلین نے سب کو بتا دیا تو شکایت کرتے ہوئے کہنے لگے:
ہم نے جو راز کہ خلوت میں کہا تھا اس سے
آج افشا وہ رقیبوں میں سرِ محفل ہے​
پھر ایک شاعر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جو محفل پر کڑی تنقید سے بھاگ کر فیس بک پر گئے تھے اور خوب واہ واہ سمیٹ رہے تھے:
چھوڑ کر وہ مجمعِ اغیار کیوں آنے لگے
روز جلسے ہیں نئی ہر روز محفل گھر میں ہے​
پھر محفل پر سر پھٹول دیکھ کر کہنے لگے:
دیکھنا رشک اس کی محفل میں
ایک کو ایک کھائے جاتا ہے​
کچھ اداس ہوتے ہوئے کہا:
دل کو تھاموں کہ تری بزم میں آنسو پونچھوں
ہاتھ جب دل سے اٹھے دیدۂ تر تک پہنچے​
پھر اچانک یاد آیا کہ یہ تو سالگرہ کی محفل ہے، تو کہا:
نغمۂ عیش سے یاد آگئے نالے ہم کو
بزمِ شادی میں رہے تو بھی تو ماتم میں رہے​


اصغر گونڈوی، جو کبھی خود بھی مدیر رہ چکے تھے، محفل کے بابوں میں شمار ہوتے ہیں، بہت عرصہ بعد محفل حاضر ہوئے تو نئے محفلین کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے:
ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ روحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مغاں برسوں​
اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
لالہ و گل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں !
رنگِ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے​
اور پھر یاس بھرے لہجے میں بولے:
ایک مدّت سے تری بزم سے محروم ہوں میں
کاش وہ چشمِ عنایت بھی تری یاد نہ ہو​
نئے محفلین کی گپ شپ سے نالاں ہوتے ہوئے بولے:
کون سی بزم سے آتے ہیں جوانانِ چمن
خاک میں لے کے چلا ذوقِ تماشا مجھ کو​
پھر بھی امید کی کرن انھیں دکھائی دیتی ہے:
خطِ ساغر میں رازِ حق و باطل دیکھنے والے
ابھی کچھ لوگ ہیں ساقی کی محفل دیکھنے والے​

اقبالؒ جو کافی سوچ میں غرق تھے، افسردہ لہجے میں بولے:
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد​

فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی​
اپنے کبھی فعال ہونے اور پھر غیر فعالیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
کہیں سرمایۂ محفل تھی میری گرم گفتاری
کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی​
پھر اپنی غیر فعالیت کی وجہ عارضی معطلی بتاتے ہوئے انتظامیہ سے کہنے لگے:
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری​
پھر فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انتظامیہ نے سافٹویئر اپڈیٹ کر کے بحال کیا ہے تو کہنے لگے
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں​
اور اپنے آپ سے کہنے لگے:
خموش اے دل! بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں​

محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ​
محفل پر سطحیت کا عروج دیکھ کر کہنے لگے
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے​
پھر امید دلاتے ہوئے کہنے لگے:
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی​

اتنے میں ذوقؔ اپنی محفل میں شمولیت کا قصہ سناتے ہوئے بولے:
آیا ہوں نور لے کے میں بزمِ سخن میں ذوق
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہلِ سخن مجھے​
مگر دل کے ارماں آنسؤں میں بہہ گئے۔ زیادہ پذیرائی نہ ہوئی تو کہا:
کوئی اس بزم میں مونس ہے نہ دمساز اپنا
یار دکھلائے کہیں آ کے جو اعجاز اپنا

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی​
اور پھر جا بے جا غالبؔ کے طرفدار بکھرے نظر آئے تو شکوہ کناں ہوئے:
مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا​
پھر بھی محفل کی سالگرہ کے موقع پر دعا دیتے چلے کہ:
بزمِ رنگیں میں تری رنگِ طرب ہو ہر روز
اور تری خاطرِ اقدس پہ کبھی آئے نہ رنج​

غالبؔ، جو ذوق کے طنز پر ابھی تک جز بز تھے، بولے:
آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
"لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے"​
پھر محفل سے جانے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا​
اپنی حد سے زیادہ پذیرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​
نئے محفلین، جو اپنی تعارفی لڑی میں پذیرائی پر بہت خوش تھے، انھیں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے:
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے​
کچھ عرصہ منتظم بھی رہے، تو اس وقت کی روداد سناتے ہوئے بولے:
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے​
اور پھر وہی اپنا زمانہ یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں​

نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے​
پھر کسی نے یاد دلایا کہ سالگرہ آ رہی ہے تو کہا
پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد محفلِ نشاط قریں

تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار​

میرؔ، جو اپنے مزاج کے مطابق کچھ جھنجھلائے ہوئے تھے، اور منتظمین سے کچھ بنتی بھی نہ تھی، کہنے لگے:
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں

ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں​

ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اس کی بزم میں
نکلا نہ حرف خیر کسو کی زبان سے​
اور محفل چھوڑنے کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:
ہم بے خودانِ محفل تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا​
ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ محفل ہمارے بغیر نہیں چل سکتی:
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں​
پھرکسی نے کہا کہ حضرت سالگرہ ہے تو کچھ تعریف بھی ہو جائے، تو بناوٹی لہجے میں کہا:
دلکشی اس بزم کی ظاہر ہے تم دیکھو تو ہو
لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں​
اتنے میں رات کا کھانا کھلنے کی پکار سنائی دی، تو شعراء اس جانب چل دیے۔ یوں یہ محفل اختتام کو پہنچی۔
٭٭٭​
دیکھا ہم نے اِس لڑی کو کہ تابش بھائی نے نظرِ کرم فرمائی ہے
تو رہا نہ گیا لڑی کو کھول کر دیکھا پر کچھ دیر بعد لگا کہ
یہ لڑی نہیں بلکہ لڑیوں کا مجموعہ سا سموع دیا گیا ہے
پر تحریر بہت ہی خوب ہے
شاعروں کے ساتھ نے ہمیں بھی تھوڑا تھوڑا سا
شاعر بنا ہی دیا
:chalo:
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب، تابش بھائی! یہ تحریر صبح ہی صبح پڑھ لی تھی ۔ اب دن کے اختتام پر تبصرہ کرنے کا موقع ملا ہے ۔
کیا بات ہے پروازِ تخئیل کی!! کس بزم میں چشمِ تصور وا ہوئی ہے آپ کی ، واہ! اشعار بھی بہت اچھے منتخب کئے ہیں ۔
داد و تحسین کے پانچ ٹوکرے آپ کی نذر! (بغیر کچھ لگائے ہٹائے) :):):)
 

فاخر

محفلین
عدم آباد کی ایک بیٹھک میں اردو محفل فورم پر چند شعراء موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ محفل کی سالگرہ آ رہی ہے تو گپ شپ شروع ہو گئی۔
سب سے پہلے عبد الحمید عدمؔ جو ابھی کچھ ہی دیر پہلے عارضی معطلی سے واپس آئے تھے، چمک کر بولے:
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں​
عدمؔ معطلی پر ابھی تک جز بز تھے، اپنے غیر فعال ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے:
میں ہوں ضرور کہیں تیری بزم میں لیکن
تلاش کر کے تو خود ہی بتا کہاں ہوں میں​
پھر خیال آیا کہ سالگرہ ہے تو محفل کی تعریف بھی بنتی ہے۔ کہنے لگے:
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
محسنؔ نقوی، جو محفل کو محض خاموش تماشائی کی حیثیت سے ہی دیکھتے رہے تھے، اب پچھتاتے ہوئے کہنے لگے:
یہ حَادثہ ہے میں تِری محفل میں چُپ رہا
حالانکہ وہ فضا بھی بڑی سازگار تھی​
اور محفل کے ٹرولز سے جھنجھلا کر کہنے لگے:
ذہنِ رسا کی محفلِ خاموش میں کبھی
وہ شور کر کہ کچھ بھی سنائی نہ دے مجھے​
اور قطعہ کے اگلے شعر میں اپنی اس خواہش کے پیچھے چھپی اصل خواہش کا اظہار بھی کر دیا کہ اس طرح دراصل ان کا مقصد ٹرولز کو معطل کروانا تھا:
اے دوست! چھوڑ کر یہ رگِ جاں کی پستیاں
اتنا بلند ہو کہ دکھائی نہ دے مجھے​

جونؔ نے کچھ گزرتے شعراء کو دیکھ کر کہا:
اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار، آ نکلو
شروعِ شب کی محفل ہے مری سرکار! آ نکلو​
پھر اپنے اوپر نقاد کی تنقید پڑھ کر بے نیازی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا:
تلخ گو مخلصوں کی محفل میں
جون کس بات کا برا مانے​
محفل سے وابستگی کا اظہار کچھ یوں کیا:
سرِ محفل یہ حال ہے میرا
جیسے خود کو بھگا کے لایا ہوں​
پھر پرانے محفلین ہونے کے ناطے کچھ ناسٹلجیا میں چلے گئے:
گنوا کے اب جنہیں گم ہے نظر کی بیداری
وہ ایک خواب کی محفل تھی اور خیال کے لوگ​
اور اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
اے یار کسی شام، مرے یار کسی شام
بے رونقیِ محفلِ یاراں پہ نظر ہو​

شیفتہؔ محفل چھوڑ کر جانے اور پھر منائے جانے کا قصہ سناتے ہوئے کہنے لگے:
اپنی محفل سے یہ آزردہ اٹھایا مجھ کو
کہ منانے کے لئے آپ مرے گھر آیا​
اور دوبارہ بدمزگی سے بچنے کے لیے یہ فیصلہ کیا:
ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں کیا کریں
اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا​
کیونکہ پہلی بدمزگی کا الزام بھی وہ رقیبوں ہی پر دھرتے ہیں:
مجھے یوں بٹھاتے وہ کب بزم میں
اٹھائے رقیبوں نے طوفاں عبث​

داغؔ جو کبھی معطل نہ ہوئے تھے، انتظامیہ کو تڑی لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
اے داغؔ اس کی بزم میں ہم گل کھلائیں گے
اس کا ہے انتظار ذرا کوئی کچھ کہے​
ساتھ ہی اپنی ڈھٹائی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے​
اور پھر یہ سوچ کر کہ کہیں انتظامیہ غصہ ہی نہ کر جائے، فوراً مسکا لگایا:
بدلے شراب کے ہے مجھے زہر بھی قبول
اس انجمن میں ساقیِ محفل کے ہاتھ سے​
ایک محفلین سے مکالمہ میں انتظامیہ کے خلاف بات کر دی تھی، اس محفلین نے سب کو بتا دیا تو شکایت کرتے ہوئے کہنے لگے:
ہم نے جو راز کہ خلوت میں کہا تھا اس سے
آج افشا وہ رقیبوں میں سرِ محفل ہے​
پھر ایک شاعر پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جو محفل پر کڑی تنقید سے بھاگ کر فیس بک پر گئے تھے اور خوب واہ واہ سمیٹ رہے تھے:
چھوڑ کر وہ مجمعِ اغیار کیوں آنے لگے
روز جلسے ہیں نئی ہر روز محفل گھر میں ہے​
پھر محفل پر سر پھٹول دیکھ کر کہنے لگے:
دیکھنا رشک اس کی محفل میں
ایک کو ایک کھائے جاتا ہے​
کچھ اداس ہوتے ہوئے کہا:
دل کو تھاموں کہ تری بزم میں آنسو پونچھوں
ہاتھ جب دل سے اٹھے دیدۂ تر تک پہنچے​
پھر اچانک یاد آیا کہ یہ تو سالگرہ کی محفل ہے، تو کہا:
نغمۂ عیش سے یاد آگئے نالے ہم کو
بزمِ شادی میں رہے تو بھی تو ماتم میں رہے​


اصغر گونڈوی، جو کبھی خود بھی مدیر رہ چکے تھے، محفل کے بابوں میں شمار ہوتے ہیں، بہت عرصہ بعد محفل حاضر ہوئے تو نئے محفلین کو نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے:
ابھی مجھ سے سبق لے محفلِ روحانیاں برسوں
رہا ہوں میں شریکِ حلقہٴ پیرِ مغاں برسوں​
اپنے دور کے محفلین کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
لالہ و گل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں !
رنگِ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے​
اور پھر یاس بھرے لہجے میں بولے:
ایک مدّت سے تری بزم سے محروم ہوں میں
کاش وہ چشمِ عنایت بھی تری یاد نہ ہو​
نئے محفلین کی گپ شپ سے نالاں ہوتے ہوئے بولے:
کون سی بزم سے آتے ہیں جوانانِ چمن
خاک میں لے کے چلا ذوقِ تماشا مجھ کو​
پھر بھی امید کی کرن انھیں دکھائی دیتی ہے:
خطِ ساغر میں رازِ حق و باطل دیکھنے والے
ابھی کچھ لوگ ہیں ساقی کی محفل دیکھنے والے​

اقبالؒ جو کافی سوچ میں غرق تھے، افسردہ لہجے میں بولے:
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد​

فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی​
اپنے کبھی فعال ہونے اور پھر غیر فعالیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
کہیں سرمایۂ محفل تھی میری گرم گفتاری
کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی​
پھر اپنی غیر فعالیت کی وجہ عارضی معطلی بتاتے ہوئے انتظامیہ سے کہنے لگے:
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری​
پھر فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انتظامیہ نے سافٹویئر اپڈیٹ کر کے بحال کیا ہے تو کہنے لگے
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں​
اور اپنے آپ سے کہنے لگے:
خموش اے دل! بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں​

محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ​
محفل پر سطحیت کا عروج دیکھ کر کہنے لگے
پنہاں تہِ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفلِ نو کی نگاہ ہے​
پھر امید دلاتے ہوئے کہنے لگے:
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی​

اتنے میں ذوقؔ اپنی محفل میں شمولیت کا قصہ سناتے ہوئے بولے:
آیا ہوں نور لے کے میں بزمِ سخن میں ذوق
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہلِ سخن مجھے​
مگر دل کے ارماں آنسؤں میں بہہ گئے۔ زیادہ پذیرائی نہ ہوئی تو کہا:
کوئی اس بزم میں مونس ہے نہ دمساز اپنا
یار دکھلائے کہیں آ کے جو اعجاز اپنا

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی
وہیں معلوم کروں ہونٹ ہلائے تو سہی​
اور پھر جا بے جا غالبؔ کے طرفدار بکھرے نظر آئے تو شکوہ کناں ہوئے:
مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا​
پھر بھی محفل کی سالگرہ کے موقع پر دعا دیتے چلے کہ:
بزمِ رنگیں میں تری رنگِ طرب ہو ہر روز
اور تری خاطرِ اقدس پہ کبھی آئے نہ رنج​

غالبؔ، جو ذوق کے طنز پر ابھی تک جز بز تھے، بولے:
آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
"لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے"​
پھر محفل سے جانے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا​
اپنی حد سے زیادہ پذیرائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے:
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے​
نئے محفلین، جو اپنی تعارفی لڑی میں پذیرائی پر بہت خوش تھے، انھیں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے:
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے​
کچھ عرصہ منتظم بھی رہے، تو اس وقت کی روداد سناتے ہوئے بولے:
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے​
اور پھر وہی اپنا زمانہ یاد کرتے ہوئے کہنے لگے:
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں​

نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے​
پھر کسی نے یاد دلایا کہ سالگرہ آ رہی ہے تو کہا
پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد محفلِ نشاط قریں

تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار​

میرؔ، جو اپنے مزاج کے مطابق کچھ جھنجھلائے ہوئے تھے، اور منتظمین سے کچھ بنتی بھی نہ تھی، کہنے لگے:
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں

ہم کو کہنے کے تئیں بزم میں جا دیتے ہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں​

ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اس کی بزم میں
نکلا نہ حرف خیر کسو کی زبان سے​
اور محفل چھوڑنے کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے:
ہم بے خودانِ محفل تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا​
ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ محفل ہمارے بغیر نہیں چل سکتی:
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں​
پھرکسی نے کہا کہ حضرت سالگرہ ہے تو کچھ تعریف بھی ہو جائے، تو بناوٹی لہجے میں کہا:
دلکشی اس بزم کی ظاہر ہے تم دیکھو تو ہو
لوگ جی دیتے چلے جاتے ہیں کس حسرت سے یاں​
اتنے میں رات کا کھانا کھلنے کی پکار سنائی دی، تو شعراء اس جانب چل دیے۔ یوں یہ محفل اختتام کو پہنچی۔
٭٭٭​

عمدہ لاجواب فقید المثال
 
دیکھا ہم نے اِس لڑی کو کہ تابش بھائی نے نظرِ کرم فرمائی ہے
تو رہا نہ گیا لڑی کو کھول کر دیکھا پر کچھ دیر بعد لگا کہ
یہ لڑی نہیں بلکہ لڑیوں کا مجموعہ سا سموع دیا گیا ہے
پر تحریر بہت ہی خوب ہے
شاعروں کے ساتھ نے ہمیں بھی تھوڑا تھوڑا سا
شاعر بنا ہی دیا
:chalo:
بہت شکریہ
 
بہت خوب، تابش بھائی! یہ تحریر صبح ہی صبح پڑھ لی تھی ۔ اب دن کے اختتام پر تبصرہ کرنے کا موقع ملا ہے ۔
کیا بات ہے پروازِ تخئیل کی!! کس بزم میں چشمِ تصور وا ہوئی ہے آپ کی ، واہ! اشعار بھی بہت اچھے منتخب کئے ہیں ۔
داد و تحسین کے پانچ ٹوکرے آپ کی نذر! (بغیر کچھ لگائے ہٹائے) :):):)
بہت شکریہ ظہیر بھائی۔
 
Top