سیما علی

لائبریرین
محوِ زنجیرِ نَفَس بُودن دلیلِ ہوش نیست
ہر کہ می بینی بقیدِ زندگی دیوانہ است


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

سانسوں کی زنجیر سے بندھا ہونا، ہوشمند ہونے کی دلیل نہیں ہے، جسے بھی تُو زندگی کی قید میں (زندہ) دیکھتا ہے سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے (کہ قید میں اور زنجیر سے بندھا ہونا دیوانے کی نشانیاں ہیں، ہوشمند کی نہیں)۔
بہت خوب
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ لوحِ مشہدِ پروانہ ایں رقم دیدم
کہ آتشے کہ مرا سوخت خویش را ہم سوخت


عرفی شیرازی

پروانے کی لوحِ مزار پر میں نے یہ لکھا دیکھا کہ جس آگ (شمع) نے مجھے جلایا اُس نے خود اپنے آپ کو بھی جلا لیا۔
 
بہ لوحِ مشہدِ پروانہ ایں رقم دیدم
کہ آتشے کہ مرا سوخت خویش را ہم سوخت


عرفی شیرازی

پروانے کی لوحِ مزار پر میں نے یہ لکھا دیکھا کہ جس آگ (شمع) نے مجھے جلایا اُس نے خود اپنے آپ کو بھی جلا لیا۔
خوبصورت!
 

محمد وارث

لائبریرین
گر بَرَود جانِ ما، در طلبِ وصلِ دوست
حیف نباشد کہ دوست، دوست تر از جانِ ماست


شیخ سعدی شیرازی

اگر وصلِ دوست کی طلب میں ہماری جان بھی چلی جائے تو کوئی دکھ کوئی افسوس نہیں کہ دوست، ہماری جان سے بھی دوست تر ہے۔
 

منہاج علی

محفلین
نیست ایں لالۂ خونیں کفن اے بی خبراں
خاکِ مدفونِ خزاں شعلہ وش آوردہ بروں
نصیر ترابی

اے بے خبرو یہ لالۂ خونیں کفن نہیں ہے
بلکہ خزاں کے مدفون کی خاک شعلے کی صورت میں باہر آئی ہے
 
آخری تدوین:
معاصر افغانستانی شاعرہ شکیبا شمیم کی ایک غزل:

مصلحت نیست چنین بر سرِ من داد مزن
زندگی ؛ بر سرِ من این همه فریاد مزن
من که آباد ترین خانه‌یِ غم‌های توام
سنگ بر شیشه‌یِ این خانه‌یِ آباد مزن
مصلحت نیست که از گریه‌یِ من شاد شوی
خنده بر گریه‌یِ یک آدمِ ناشاد مزن
خونِ دل خورده و معتاد به خوردن شده‌ام
طعنه بر خوردنِ بی‌چاره‌یِ معتاد مزن
سجده‌گاه است گواهِ سرِ افگنده به خاک
خاک بر این سرِ افگنده‌یِ سجاد مزن
هر نفس مردن و پس زنده شدن سخت بُوَد
دست بر زخمِ دلِ کودکِ نوزاد مزن
زندگی ؛ بارِ من و دوشِ تو افتیده به‌هم
بارم از دوشِ گرانِ تو بیفتاد، مزن
ذوب شد آهنِ دل ، کوره دگر داغ مکن
شعله‌ای باز در این سوخته فولاد مزن
رفته از یاد مرا درسِ پری‌روز همه
گنهم نیست مگر لطف کن استاد مزن
(شکیبا شمیم)


ترجمه:
مصلحت نہیں ہے، ایسے میرے سر پر فریاد مت کر! اے زندگی! میرے اوپر یہ سب فریاد مت کر!
میں کہ تیرے غموں کا آبادترین گھر ہوں، اس آباد گھر کے شیشے پر سنگ (پتھر) مت مار!
مصلحت نہیں ہے کہ میرے گریہ سے خوش ہوجا، ایک ناخوش آدمی کے گریہ پر مت ہنس!
خونِ دل پیا اور پینے کی عادی ہوگئی ہوں، بےچارے عادی کے کھانے پرطعنہ مت مار!
خاک پر پڑے سر کا گواہ سجدہ گاہ ہے۔ سجدہ‌کننده کے اس سر پر خاک مت مار!
ہر نَفَس مرنا اور پھر زندہ ہوجانا سخت ہوتا ہے۔ نوزاد (نئے پیدا ہوئے بچے) کے زخمِ دل پر ہاتھ مت مار!
زندگی! میرا بار (بوجھ) اور تیرا دوش (کندھا) آپس میں ملے تھے، میرا بوجھ تیرے دوشِ گراں سے گرگیا، مت مار!
آہنِ دل پگھل گیا، کورہ (بھٹی) مزید داغ مت کر! اس سوختہ فولاد میں پھر شعلہ مت جلا!
مجھے پرسوں کا درس سب بھول گیا۔ میرا گناہ نہیں ہے مگر مہربانی کر اے استاد! مت مار!


داغ کردن = آہن (لوہے) کو آتش میں گرم کر کے سرخ کرنا۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
گر بَرَود جانِ ما، در طلبِ وصلِ دوست
حیف نباشد کہ دوست، دوست تر از جانِ ماست


شیخ سعدی شیرازی

اگر وصلِ دوست کی طلب میں ہماری جان بھی چلی جائے تو کوئی دکھ کوئی افسوس نہیں کہ دوست، ہماری جان سے بھی دوست تر ہے۔
واہ بہت بہت خوب صورت!
 

محمد وارث

لائبریرین
ہست جوشِ لالہ ہر سُو در نظر ہا جلوہ گر
یا بحالِ مردمِ دیوانہ صحرا خوں گریست


غنیمت کُنجاہی

یہ ہر سُو لالہ کے سُرخ پھولوں کا جوش نظروں میں جلوہ گر ہے یا کہ دیوانے لوگوں کے حال پر صحرا نے خون کے آنسو بہائے؟
 
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما در گۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ

حضرت ابو سعید ابوالخیر رحمتہ اللہ علیہ

تو واپس آ، تو واپس آ، تو جو کچھ بھی ہے، واپس آ
اگر تو کافر ہے اگر تو آتش پرست ہے اور اگر تو بت پرست ہے تو بھی تو واپس آ
ہماری یہ درگاہ نا امیدی کی درگاہ نہیں ہے
اگر تو نے سو بار بھی توبہ توڑی ہے تو پھر بھی تو واپس آ
 
گر بَرَود جانِ ما، در طلبِ وصلِ دوست

بائے حکمیہ پر زیر ہوسکتا ہے یا پیش، زبر نہیں ہوتا۔۔۔یہاں بِرَود خوانا (پڑھا) جائے گا۔اسی طرح ببیند (وہ دیکھے) پر بھی یا پیش ہوگا یا زیر یعنی بِبینَد یا بُبینَد و امثالِ این‌ہا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شاہ نعمت اللہ ولی رح

در مجلسِ اُنس ہمدمے یافتہ ام
در پردۂ عشق محرمے یافتہ ام
عالم چہ کنم کہ از دو عالم بہتر
در سینۂ خویش عالمے یافتہ ام


مجلسِ اُلفت میں مجھے اِک ہمدم مل گیا ہے، اور عشق کے پردے میں مجھے اپنا محرم مل گیا ہے۔ میں جہان کو کیا کروں کہ دونوں جہانوں سے بہتر اپنے ہی سینے میں اِک جہان پا گیا ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
مجلسِ اُلفت میں مجھے اِک ہمدم مل گیا ہے، اور عشق کے پردے میں مجھے اپنا محرم مل گیا ہے۔ میں جہان کو کیا کروں کہ دونوں جہانوں سے بہتر اپنے ہی سینے میں اِک جہان پا گیا ہوں۔
واہ واہ کیا کہنے
بہت خوب !!!!!!!
 
من مدتی‌ست ابرِ بهارم برای تو
بايد وِلم کنند بِبارم برای تو
اين‌روزها پُر از هَيَجانِ تغزلم
چيزی به‌جز ترانه ندارم برای تو
جانِ من است وجانِ تو! امروز حاضرم
اين را به پایِ آن بگذارم برای تو
از حدِ «دوست دارمت»اعداد عاجزند
اصلاََ نمی‌شود بِشمارم برای تو
اين شهر در کشاکشِ کوه و کوير و دشت
دريا نداشت دل بِسپارم برای تو
من ماهی‌ام تو آب،تو ماهی من آفتاب
ياری برای من تو و يارم برای تو
با آن صدایِ ناز برايم غزل بِخوان
تا وقتِ مرگ حوصله دارم برای تو
(مهدی فرجی)

مدتوں سے میں تمہارے لئے ابرِ بہار ہوں۔ مجھے رہا کیا جائے (تاکہ) تمہارے لئے برسوں۔
ان دنوں میں ہیجانِ غزل‌سرائی سے پُر ہوں۔تمہارے لئے بجز ترانے (گانے) کے کچھ نہیں ہے میرے پاس۔
میری جان ہے اور تیری جان کی قسم! امروز (آج) حاضر ہوں (تاکہ) میں تمہارے لئے اِس (میری جان) کو اُس (تمہاری جان) کے پاوٗں میں رکھ دوں۔
’’میں تم سے پیار کرتا ہوں‘‘ کی حد(بندی) سے اعداد عاجز ہیں (یعنی تم سے میری محبت کی پیمائش نہیں کی جاسکتی)۔ اصلاََ میں تمہارے لئے شمار نہیں کرسکتا۔
یہ شہر کوہ، شورہ‌زار اور دشت کی کشاکش (کھینچاتانی) میں کوئی دریا نہیں رکھتا (کہ جس میں) تمہارے لئے (خود کا) دل سپرد کروں۔
میں مچھلی ہوں اور تو آب ہے، تو ماہ (چاند) ہے اور میں آفتاب۔ تو میرا محبوب ہے اور میں تیرا محبوب ہوں۔
تُو (خود کی) صدائے ناز سے میرے لئے غزل خوانو (پڑھو) تاکہ مرگ (موت) کے وقت تک تمہارے حوصلہ رکھوں۔

مترجم: اریب آغا ناشناس
 
تیرِ مژگان و کمانِ ابروش
عاشقان را عیدِ قربان می‌کند
(سعدی شیرازی)

اس (محبوب) کی تیرِ مژگاں اور کمانِ ابرو عاشقوں کے لئے عیدِ قربان (کا کام) کرتا ہے۔
 
فدایِ جانِ تو! گر من فدا شوم چه شود؟
برایِ عید بود گوسفندِ قربانی
(سعدی شیرازی)

(میں) تیری جان پر فدا! اگر میں فدا ہوجاوٗں تو کیا ہوا؟ قربانی کا گوسفند (دنبہ) عید (ہی) کے لئے ہوتا ہے۔
 

منہاج علی

محفلین
قصۂ عُمرِ من اے محرمِ جاں نیست دگر
عُمر می خواہم اگر، بہرِ شُما می خواہم

نصیر ترابی

اے محرمِ جاں میری عُمر کا قصہ اس کے سوا کچھ اور نہیں
کہ میں اگر (مزید) عُمر چاہتا (بھی) ہوں تو تمھارے لیے چاہتا ہوں۔
 
گر موج زند بر لبِ ما، تلخئ عالم
هرگز نزند چین به جبین حوصلهٔ ما


شیخ علی حزین

دنیا کی تلخی ہماری لب پر اگر موج زن ہو جائے تب بھی ہمارا حوصلہ کبھی چین بجبین نہیں ہوتا۔
(یعنی مذکورہ لب کا معاملہ ساحل سے مختلف ہے)
 
آخری تدوین:
Top