انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
ایک اعرابی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی کچھ لوگ اس کے پاس پوچھنے اور سببب معلوم کرنے آئے کہ اُس نے طلاق کیوں دی.
وہ کہنے لگا : کہ وہ ابھی عدت میں ہے ابھی تک وہ میری بیوی ہے مجھے اُس سے رجوع کا حق حاصل ہے میں اگر اس کے عیب تمہارے سامنے بیان کردوں تو رجوع کیسے کروں گا ؟؟؟
لوگوں نے انتظار کیا اور عدت ختم ہوگئی اور اس شخص نے رجوع نہیں کیا لوگ دوبارہ اُس کے پاس آئے تو اس نے کہا : اگر میں نے اب اس کے بارے میں کچھ بتایا تو یہ اُس کی شخصیت مسخ کرنے کے مترادف ہو گا اور کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرے گا !!!
لوگوں نے انتظار کیا حتٰی کہ اس عورت کی دوسری جگہ شادی ہوگئی
لوگ پھر اُس کے پاس آئے اور طلاق کا سبب پوچھنے لگے
اس اعرابی نے کہا: اب چونکہ وہ کسی اور کی عزت ہے اور مروت کا تقاضا یہ ہے کہ میں پرائی اور اجنبی عورت کے بارے میں اپنی زبان بند رکھوں ۔"
 

سید عمران

محفلین
سکول ٹیچر نے چھٹی کلاس کے بچے کی کاپی پہ جَلی حروف سے یہ عبارت لکھتے ہوئے کہا کہ یہ اپنے والد صاحب کو دِکھانا اور کَل مُجھے اُنکا جوابی نوٹ بھی چیک کرانا. وہ عبارت کچھ یوں تھی
...
...
"آپ کا بچہ غَیر ذمہ دار ہے "
...
...
والد نے بچے کے شدید اِصرار پہ بھی کاپی پہ کُچھ جوابی الفاظ لکھنے سے اجتناب کیا اور کہا کہ کَل میں خود آپ کے ساتھ چلوں گا.
صبح ہوتے ہی وہ بچے کو ساتھ لیکر کلاس روم میں پہنچا تو اس نے بچے کے استاد سے دو سوال کیے
استاد صاحب کیا میرا بچہ ووٹ دے سکتا ہے ؟
کیا میرا بچہ شادی کر سکتا ہے ؟
ظاہر ہے استاد کا جواب نفی میں ہی تھا تو بچے کے والد نے معنی خیز نظروں سے استاد کی آنکھوں میں گھورتے ہوئے کہا کہ پھر تو یہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ غیر ذمہ دار ہے، جب ریاست اور معاشرہ اسے کوئی ذمہ داری نہیں دیتے تو ثابت ہوا کہ یہ واقعی غیر ذمہ دار ہے اور ہم نے اسے آپ کے پاس ذمہ داری سیکھنے کیلئے بھیجا ہے. آپ اپنا فرضِ منصبی پورا کرنے کی بجائے ہماری درخواست کو ہو بہو ہمارے پاس واپس کر رہے ہیں...
بچے غیر ذمہ دار ہی ہوتے ہیں انکی تربیت استاد کا فریضہ ہے.....
99

2 Shares
Like


Comment

Share
 

سید عمران

محفلین
مولانا روم نے لکھا ھے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے اللہ کی عبادت کرنا شروع کر دی اور پروردگار کی عبادت میں اتنا مشغول ھوا کہ دنیا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سب کچھ بھلا دیا اور سچے دل سے اللہ کی رضا میں راضی رھنے کے لیے انسانیت کے رستے پر چل پڑا.
مولانا روم کہتے ہیں کہ ایک وقت وہ آیا کہ اس کے گھر میں کچھ کھانے کو بھی نہ بچا اور ھوتے ھوتے وہ وقت بھی آیا کہ گھر باہر سب ختم ھو گیا اور وہ شخص چلتے ھوئے موت کے انتظار میں گلیاں گھومتا کہ اب پلے تو بچا کچھ نہیں تو انتظار ھی کر سکتا ھوں اللہ سنبھال لے.
ایک دن بیٹھا ھوا تھا کہ دیکھا اس کے قریب سے ایک لمبی قطار میں گھوڑے گزرے...
ان گھوڑوں کی سیٹ سونے اور چاندی سے بنی ہوئی تھی اور ان کی پیٹوں پر سونے کے کپڑے پہنے ھوئے تھے.
ان گھوڑوں پر جو لوگ بیٹھے تھے وہ کسی شاھی گھرانے سے کم نہ لگتے تھے ان کے سروں پر سونے کی ٹوپیاں تھیں اور ایسے معلوم ھو رہا تھا کوئی بادشاہ جا رہے ہیں.
اس شخص کے دریافت کرنے پر اسے بتایا گیا کہ یہ ساتھ گاؤں میں ایک بادشاہ ھے یہ سب اس کے غلام ہیں اور بادشاہ کے دربار میں جا رھے ہیں.
وہ شخص کچھ دیر حیران ھوا کہ یہ حالت غلاموں کی ھے تو بادشاہ کی کیا حالت ھو گی ؟
اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا میرے بادشاہ میرے مالک میرے اللہ ....! شکوہ تو تجھ سے نہیں کرتا لیکن اس بادشاہ سے ھی غلاموں کا خیال رکھنا سیکھ لے ....
اتنی بات کہہ کر وہ شخص چل دیا کچھ دن گزرے تو ایک بزرگ آئے اور اس کا بازو پکڑ کر اسے ایک جگہ لے گئے جہاں وھی غلام وھی گھوڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
اور دیکھتا کیا ھے کہ کسی گھوڑے کی ٹانگ کٹی ھوئی ھے کسی غلام کا دھڑ گھوڑے کی پشت پر پڑا ھوا ھے کسی غلام کے ہاتھ کٹے ھوئے ہیں کسی کے سر سے خون نکل رہا ھے کوئی گھوڑے کو ذخمی حالت میں واپس لے کر جا رہا ھے...
وہ شخص حیران ھوا اور بزرگ سے پوچھا جناب آپ کون ہیں اور یہ سب کیا ماجرا ھے ؟
اس وقت اس بزرگ نے کہا کہ یہ وھی غلام ہیں جو اس دن سونے میں لپٹے ھوئے تھے اور آج یہ ایک جنگ سے واپس آ رھے ہیں اس لیے ان کی یہ حالت ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے خواب میں بس اتنا کہا گیا ھے کہ اسے کہنا بادشاھوں کے لیے قربانیاں دینا بھی ان غلاموں سے سیکھ لے......
 

سید عمران

محفلین
ایک عالم دین سے ایک نوجوان شخص نے شکایت کی کہ میرے والدین اڈھیر عمر ھیں اور اکثر و بیشتر وہ مجھ سے خفا رہتے ھیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ھوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ھیں ۔۔
عالم دین نے نوجوان شخص کو سر سے پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ھے کہ جو وہ مانگتے ھیں تم انکو لا کر دیتے ھو ۔۔
نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہی سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں ۔۔
عالم دین فرمانے لگے
بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ھے کہ
جب تم دنیا میں نہی آے تھے تو تمہارے آنے سے پہلےھی تمھارے والدین نے تمھارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی
تمھارے لئے کپڑے ۔
تمھاری خوراک کا انتظام
تمھاری حفاظت کا انتظام
تمہیں سردی نہ لگے اگر گرمی ھے تو گرمی نہ لگے
تمہھارے آرام کا بندوبست
تمھاری قضاے حاجت تک کا انتظام تمھارے والدین نے تمھاری دنیا میں آنے سے پہلے ھی کر رکھا تھا ۔۔
پھر آگے چلو
کیا تمھارے والدین نے کبھی تم سے پوچھا تھا کہ بیٹا تم کو سکول میں داخل کروائیں یا نہ
اسیطرح کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے تم سے کبھی پوچھا ھو بلکہ تمھارے بہتر مستقبل کیلئے تم سے پہلے ھی سکول اور کالج میں داخلے کا بندوبست کر دیا ھو گا
اسی طرح تمھاری پہلی نوکری کیلئے تمھارے سکول کی ٹرانسپورٹ کیلئے تمھارے یونیفارم کیلئے تمھارے والد صاحب نے کبھی تم سے نہی پوچھا ھو گا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر چیز تمھارے مانگنے سے پہلے ھی تمہیں لاکر دی ھو گی ۔۔
تمہہں تو شاید اسکا بھی احساس نہ ھو کہ جب تم نے جوانی میں قدم رکھا تھا تو تمھارے والدین نے تمھارے لئے ایک اچھی لڑکی بھی دھونڈنی شروع کر دی ھو گی جو اچھی طرح تمھاری خدمت کر سکے اور تمھارا خیال رکھ سکے ۔۔۔
لڑکی تلاش کرتے ھوے بھی انکی اولین ترجیح تمھاری خدمت ھی ھوگی بلکہ انکے تو ذھین میں کبھی یہ خیال بھی نہی آیا ھو گا کہ ھم ایسی دلہن بیٹے کیلئے لائیں جو ھماری خدمت بھی کرے اور ھمارے بیٹے کی بھی ۔۔۔
تمھارے لئے کپڑے تمھاری پہلی سائکل تمھارا پہلا موٹرسائکل
تمھارا پہلا سکول
تمھارے کھلونے
تمھاری بول چال
تمھاری تربیت
تمھارا رھن سہن چال چلن رنگ دھنگ گفتگو کا انداز
یہاں تک کے تمھارے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ تک تمکو تمھارے ماں باپ نے مفت میں سیکھایا ھے اور تمھارے مطالبے کے بغیر سیکھایا ھے ۔۔۔
اور آج تم کہتے ھو کہ جو کچھ وہ مجھ سے مانگتے ھیں میں انکو لا کر دیتا ھوں اسکے باوجود وہ۔خفا رھتے ھیں ۔۔۔
جاو والدین کو بن مانگے دینا شروع کرو ۔
انکی ضروریات کا خیال اپنے بچوں کی ضروریات کیطرح کرنا شروع کرو ۔۔
اگر انکی۔مالی مدد نہی کر سکتے تو انکو اپنا قیمتی وقت دو ۔انکی خدمت کرو گھر کی زمہ داریاں خود لو جیسے اپنے بچوں کے باپ بنے ھو ویسے ھی اپنے والدین کی نیک اولاد بنو اور انکو بن مانگے دینا شروع کرو ۔۔
اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ انکو تم سے مانگنے کی یا مطالبے کی ضرورت ھی نہ پڑے یا انکو کبھی تمھاری کمی محسوس ھی نہ ھو کم سے کم اتنا وقت تو انکو عطا کردو انکو مسائل پوچھو ۔۔
اگر انکی مالی مدد نہی کر سکتے تو انکی خدمت کرو
کیا کبھی ماں یا باپ کے پاوں کی پھٹی ھوئی ایڑیاں دیکھیں ھیں تم نے ؟؟
کیا کبھی ان پھٹی ھوئی ایڑیوں میں کوئی کریم یا تیل لگایا ھے جیسے وہ تمکو چھوٹے ھوتے وقت لگاتے تھے ؟؟
کیا کبھی ماں یا باپ کے سر میں تیل لگایا ھو کیونکہ جب تم بچے تھے تو وہ باقاعدہ تمھارے سر میں تیل لگا کر کنگھی بھی کرتے تھے
تمھای ماں تمھارے بال سنوارتی تھی کبھی ماں کے بال سنوار کر تو دیکھو ۔۔۔
کیا کبھی باپ کے پاوں دبائیں ھیں حالانکہ تمھارے باپ نے تمہیں بہت دفعہ دبایا ھو گا ۔۔۔
کیا کبھی ماں یا۔باپ کیلئے ہاتھ میں پانی یا تولیہ لے کر کھڑے ھوے ھو
جیسے وہ تمھارا منہ بچپن میں نیم گرم پانی سے دھویا کرتے تھے ۔۔۔۔
کچھ کرو تو سہی
انکو بغیر مانگے لا کر دو
انکی زمہ داریاں اٹھا کر دیکھو ۔
انکو وقت دے کر دیکھو
انکی خدمت کر کے دیکھو ۔
انکو اپنے ساتھ رکھو ھمیشہ
انکو اپنے آپ۔پر۔بوجھ مت سمجھو نعمت سمجھ کر دیکھو
جس طرح انہوں نے تم کو بوجھ نہی سمجھا بغیر کسی معاوضہ کے تمھاری دن رات پرورش کر کے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا ھے
کم سے کم انکی وھی خدمات کا صلہ سمجھتے ھوے ان سے حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو پھر دیکھنا وہ بھی خوش اور اللہ بھی خوش ۔۔
عالم دین کی یہ باتیں سن کر نوجوان اشک بار ھو گیا اور باقی کے حاضرین کی آنکھیں بھی نم ھو گئیں ۔۔
واقعی یہ حقیقت ھے کہ ایسے نصیحت آموز باتیں دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں نہی مل سکتی صرف اور صرف دینی علماء ھی ایسی تربیت کر سکتے ھیں ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
ایک غریب شخص نے ایک عالیشان مکان دیکھ کر اپنے دوست سے کہا کہ جَب اِن امیروں کی قِسمَت میں مال و دولت لِکھا جا رہا تھا تَو ہم کہاں تھے؟ اُس کے دوست نے اُس کا ہاتھ پَکڑا اور ایک ہَسپتال لے گیا اور مریضوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ
جَب اِن مریضُوں کی قِسمَت میں بِیماریاں لِکھی جا رہی تھیں تَب ہم کہاں تھے؟
ہمیں ہر حال میں الله کریم کا شکر ادا کرنے والا بننا چاہیے،
نہ کہ شِکوہ کرنے والا•••*
 

سید عمران

محفلین
محمد بن عروة یمن کا گورنر بن کر شہر میں داخل ہوا لوگ استقبال کے لئے امڈ آئے،لوگوں کا خیال تھا کہ نیا گورنر لمبی چوڑی تقریر کریں گے،محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا:
"لوگوں یہ میری سواری میری ملکیت ہے اس سے زیادہ لیکر میں واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے۔"
یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سنہرا دور تھا محمد بن عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنایا جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورا کرکے واپس پلٹ رہا تھا لوگ ان کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے لوگوں کا جم غفیر موجود تھا امید تھی کہ لمبی تقریر کریں گے محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا:
"لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت تھی میں واپس جا رہا ہوں میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں.‘‘
 

سید عمران

محفلین
ایک عرب شخص اپنی بیوی کو لیکر مولوی کے پاس آیا،مولوی صاحب یہ میری زوجہ ہیں ان پر اچانک آسیب کا حملہ ہوا ہے،شاید جن چڑھا ہے.
مولوی صاحب نے دم دردو کیا تو جن باتیں کرنے لگ گیا.
مولوی صاحب: ابھی کے ابھی باہر نکلو ورنہ میں... !
جن :میں نکلنے کے لئے تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے،میں اس عورت سے نکل کر ان کے شوہر سے چمٹ جاؤں گا.
(شوہر ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہٹتے ہیں)
مولوی صاحب: یہ نہیں ہوسکتا ہے،لیکن آپ اس عورت کے شوہر سے کیوں چمٹ جانا چاہتے ہیں؟
جن: یہ نماز نہیں پڑھتا ہے اس لئے.
مولوی صاحب :اچھا اس طرح کریں ان کی بیوی سے نکل جاؤ اور ان کے گھر کے قریب رہو اس عورت کا شوہر نماز نہ پڑھے تو پھر اس شخص سے چمٹ جانا.
جن: ٹھیک ہے،جن نکل جاتا ہے.
چند دن بعد وہ عورت شیخ صاحب کو فون کرکے شکریہ ادا کرتی ہے کہ اب نہ صرف ان کا شوہر صف اولی میں نماز پڑھتا ہے بلکہ اکثر مسجد کا دروازہ بھی وہی کھولتا ہے اور آذان بھی دیتا ہے.
یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ اس خاتون کو جن ون کچھ نہیں چڑھا تھا اس نے شوہر کو نماز کا پابند بنانے کے لئے یہ واردات کر ڈالی تھی.
1f60e.png

إن كيدكن عظيم
عربی سے ترجمہ
 

سید عمران

محفلین
ایک بادشاہ نے اپنے وزیراعظم سے پوچھا کہ کسی چیز کی عام شہرت اور مقبولیت کیسے ہوتی ہے؟ وزیراعظم نے کہا کہ حضور دیکھا دیکھی، سنی سنائی اور بازاری افواہ سے- بادشاہ نے کہا وہ کیسے؟ وزیر اعظم نے کہا کہ حضور انتظار کیجئے وقت آئیگا تو بتا دوں گا-
وزیراعظم نے اس بات کو ذہن میں رکھا اور کچھ دنوں کے بعد ایک موچی کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے ڈھائی ہاتھ کے جوتے چاہئیں۔ چنانچہ موچی نے جوتے بنا دیئے- وزیر اعظم نے تاکید کر دی کہ یہ راز کسی کو مت بتانا- اور وہ ان جوتوں کو قبل طلوع فجر جامع مسجد کے دروازے پر چپکے سے رکھ دیئے- جب مؤذن مسجد پہنچا تو دروازے کے بیچوں بیچ ڈھائی ہاتھ کے لمبے جوتے دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا، پسینہ سے شرابور سر تھام کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اس وقت اتنا لمبا پیر کسی کا بھی نہیں ہو سکتا، پھر یہ اتنے لمبے جوتے کس کے ہو سکتے ہیں؟ ہو نہ ہو کسی جن ولی کے جوتے ہونگے، نماز پڑھنے آئے ہونگے اور بھول کر چلے گئے ہیں، یہی بات مؤذن کے ذہن میں بیٹھ گئی۔ اٹھا اور فرطِ عقیدت و محبت سے ان جوتوں کو سر پر رکھا، آنکھوں سے لگایا اور بوسہ دے کر بڑے احترام سے اپنے رومال میں لپیٹ کر رکھ دیا۔
اذان ہوئی لوگ نماز کے لئے حاضر ہوئے، بعد نماز مؤذن نے تمام لوگوں کو روک کر ماجرا سنایا، پھر تو سارے لوگ ان جوتوں کو چومنے لگے اور شدہ شدہ یہ خبر پورے علاقے میں مشہور ہو گئی کہ فلاں مسجد میں جن ولی کے جوتے ہیں- جوتوں کی زیارت کے لئے لوگوں کا سیلاب امڈ پڑا- شاہی محل تک خبر پہنچ گئی- بادشاہ نے وزیر اعظم سے کہا کہ سنا ہے کہ فلاں مسجد میں جن ولی کے جوتے ہیں چلو زیارت کر آئیں چنانچہ بادشاہ اپنے وزراء، مصاحبین اور درباریوں کی جھرمٹ میں جوتوں کی زیارت کو آئے اور خوب چوما، چاٹا اور عقیدت کا اظہار کیا اور ریشمی کپڑوں میں لپیٹ کر شاہی محل میں لانے کا حکم دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ حضور کچھ روز پہلے آپ نے ایک سوال کیا تھا کہ کسی چیز کی عام شہرت اور مقبولیت کیسے ہو تی ہے؟ تو سنئے حضور ان جوتوں کی طرح - بادشاہ نے کہا، کیا مطلب؟
وزیر اعظم نے سارا ماجرا سنایا اور بادشاہ ہنستے ہنستے پاگل سا ہو گیا۔
دوستو! جی ہاں بعض چیزیں اور شخصیتیں بازاری افواہ اور بے سرو پا اخباری بیان کے ذریعے شہرت کے بام عروج تک پہنچ جاتی ہیں حالانکہ معاملہ اور حقیقت بر عکس ہوتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محمد بن عروة یمن کا گورنر بن کر شہر میں داخل ہوا لوگ استقبال کے لئے امڈ آئے،لوگوں کا خیال تھا کہ نیا گورنر لمبی چوڑی تقریر کریں گے،محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا:
"لوگوں یہ میری سواری میری ملکیت ہے اس سے زیادہ لیکر میں واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے۔"
یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سنہرا دور تھا محمد بن عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنایا جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورا کرکے واپس پلٹ رہا تھا لوگ ان کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے لوگوں کا جم غفیر موجود تھا امید تھی کہ لمبی تقریر کریں گے محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا:
"لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت تھی میں واپس جا رہا ہوں میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں.‘‘
واہ ، کیا بات ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
هم ایسےمعاشرے کوکیا نام دیں جهاں په فلموں اور ڈراموں میں موجود درد و تکلیف پر تو رونا آ جاتا هے مگر اصلی زندگی میں کسی کےدکھ اور درد کو ڈرامه سمجها جاتا هے-‏
 

سید عمران

محفلین
*ایک ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺭﻗﻢ ﺍکٹھی ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ*۔
*ﮐﻤﯿﭩﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻧﮑﮌ ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ بہت ﺑﮍا ﺗﺎﺟﺮ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ*۔
*ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻫﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ* -
*ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ*۔
*ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ*
*ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﺘﺎئی ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ خانہ ﺳﭩﭙﭩﺎ ﮔﺌﮯ , ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﭙﯿﮑﺮﻭﮞ ﮐﮯ بار بار ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ ہمارا ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺗﻢ میرے گھر تک ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻫﻮ*۔
*ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﻨﺪﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ* ..
*ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ* , *ﺻﺎﺣﺐ* , *ﺍلله ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﺁﭖ کے لیئے*، *ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺖِ ﺗﻌﺎﻭﻥ کی اشد ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ* , *ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ*
*ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ, ﺍلله تعالٰی ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ ﮔﺎ* .
*تاجر ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻻﺅ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﺪﮦ ﺩﻭﮞ*۔
*ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ آگے ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ*
*ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ صاحب ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮎ ﺩﯾﺎ*
*ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺴﻢ الله ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮎ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨے ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﻞ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ہوئے کہا " , ﯾﮧ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ لیئے ﮨﻮ ﮔﺌﯽ*۔
*ﺍﺏ ﺍﺱ ﮨﺎﺗﮫ پر ﺍلله ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮐھ دیجیئے*۔ "
*ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻟﮕﯽ*
*ﮐﮧ اس کی آنکھوں میں *آنسووں آ گئے اور ﻣﻨﮧ سے ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله *نکلنا ﺷﺮﻭﻉ ہو گیا*۔۔
*ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ہوا ﺍﻭر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ* ,
*بتایئے ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ* .. ؟
*ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ , ابھی ﺗﯿﻦ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ سے کام چل جائے گا*۔
*ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ، نہیں* ! *یہ بتایئے ﺁﭖ ﮐو مکمل ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ٹوٹل ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ* ؟ .
*ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ , ﮨﻤﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮر پر 8 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ*۔
*ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ 8 لاکھ روپے کا ﺍﯾﮏ ﭼﯿﮏ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ , ﺁﺝ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ لے ﻟﯿﺠﯿﮱ ﮔﺎ اور آج سے اس مسجد کی تمام ذمہ داری میری ہے*،،
*یہ سن کر امام صاحب بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے واپس آ گئے*۔
*سبق* !!
*ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ، ﺳﻠﯿﻘﮧ، ﺗﻤﯿﺰ اور ادب ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺳﻖ ﺷﺨﺺ بھی ﮨﺪﺍﮨﺖ ﭘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ مگر افسوس ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺘﻨﮯ ہی ﺑﮯ ﺗﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ، ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺩین ﺳﮯ پیچھے رہ گئے ﮨﯿﮟ*۔۔
*ﺍﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ کی ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮈﺍلنی ہوگی* !
 

شمشاد

لائبریرین
مختلف بیویاں اپنے شوہروں سے لڑتی ہوئیں۔..

پائلٹ کی بیوی : زیادہ مت اُڑو ! سمجھے ؟.. ✈
ٹیچر کی بیوی : مجھے مت سکھاؤ ! یہ اسکول نہیں۔.... ✏
ڈینٹسٹ کی بیوی : دانت توڑ کر ہاتھ میں دے دوں گی....۔
حکیم کی بیوی : نبض دیکھے بغیر طبیعت درست کر دوں گی....۔
ڈاکٹر کی بیوی : تمہارا الٹرا ساؤنڈ تو میں ابھی کرتی ہوں۔...
فوجی کی بیوی : تم اپنے آپ کو بڑی توپ چیز سمجھتے ہو.....
شاعر کی بیوی : تمہاری ایسی تقطیع کروں گی کہ ساری بحریں اور نہریں بھول جاؤ گے...
ایم بی اے کی بیوی : مائنڈ یور اون بزنس۔...
اور CA/ACCA/CFA/ICMA/CIMA شخص کی بیوی : پہلے پاس تو کر لو بُڈھے....
وکیل کی بیوی : تیرا فیصلہ تو میں کرتی ہوں ... ۔
ڈرائیور کی بیوی : گئیر لگا اور نکل یہاں سے ...
 

سید عمران

محفلین
ایک فلائٹ پر پاس بیٹھی نقاب پوش لڑکی سے ایک لبرل خیالات کا حامل شخص بولا، آئیں کیوں نہ کچھ بات چیت کرلیں،
سنا ہےاس طرح سفر بآسانی کٹ جاتا ہے۔
لڑکی نے کتاب سے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ ضرور، مگر آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہیں گے؟
اُس شخص نے کہا کہ ہم بات کرسکتے ہیں کہ اسلام عورت کو پردے میں کیوں قید کرتا ہے؟
یا اسلام عورت کو مرد کے جتنا وراثت کا حقدار کیوں نہیں مانتا؟
لڑکی نے دلچسپی سے کہا کہ ضرور لیکن پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیئے۔ اس شخص نے پوچھا کیا؟
لڑکی نے کہا کہ گائے، گھوڑا اور بکری ایک سا چارہ یعنی گھاس کھاتے ہیں، لیکن۔۔۔ گائے گوبر کرتی ہے، گھوڑا لید کرتا ہے اور بکری مینگنی کرتی ہے، اسکی وجہ کیا ہے؟
وہ شخص اس سوال سے چکرا گیا اور کھسیا کر بولا کہ مجھے اسکا پتہ نہیں۔
اس پر لڑکی بولی کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ، آپ خدا کے بنائے قوانین ،پردہ ،وراثت اور حلال و حرام پر بات کے اہل ہیں۔۔۔۔ جبکہ خبر آپ کو جانوروں کی غلاظت کی بھی نہیں؟ یہ کہہ کر لڑکی اپنی کتاب کی طرف متوجّہ ہوگئی۔“
 

سید عمران

محفلین
*گھاٹے کے سوداگر*
فیملی والے حضرات توجہ دیں۔
ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔اس نے 1980 ء میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا ٗ مائیکرو سافٹ اس کے کیرئیر میں ’’ہیلی پیڈ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا ٗوہ 1995ء میں کمپنی میں بھاری معاوضہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا جب تک ہنری کسی سافٹ وئیر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے مائیکرو سافٹ اس وقت تک اسے مارکیٹ نہیں کرتی ٗ ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی
وہ دفتر میں روزانہ16 گھنٹے کام کرتا تھا ٗ وہ صبح 8 بجے دفتر آتا تھا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا ٗہنری کا ایک ہی بیٹا تھا ٗ ہنری دفتری مصروفیات کے باعث اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا ٗ وہ جب صبح اٹھتا تھا تو اس کا بیٹا سکول جا چکا ہوتا تھا اور وہ جب دفتر سے لوٹتا تھا تو بیٹا سو رہا ہوتا تھا ٗ چھٹی کے دن اس کا بیٹا کھیلنے کے لئے نکل جاتا تھا جبکہ ہنری سارا دن سوتا رہتا تھا۔ 1998ء میں سیاٹل کے ایک ٹیلی ویژن چینل نے ہنری کا انٹرویو نشر کیا ٗ اس انٹرویو میں ٹیلی ویژن کے میزبان نے اعلان کیا آج ’’ہمارے ساتھ سیاٹل میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی شخصیت بیٹھی ہے‘‘ کیمرہ میزبان سے ہنری پر گیا اور ہنری نے فخر سے مسکرا کر دیکھا ٗ اس کے بعد انٹرویو شروع ہو گیا ٗ اس انٹرویو میں ہنری نے انکشاف کیا وہ مائیکرو سافٹ سے 500 ڈالر فی گھنٹہ لیتا ہے۔ یہ انٹرویو ہنری کا بیٹا اور بیوی بھی دیکھ رہی تھی ٗ انٹرویو ختم ہوا تو ہنری کا بیٹا اٹھا ٗ اس نے اپنا ’’منی باکس‘‘ کھولا ٗ اس میں سے تمام نوٹ اور سکے نکالے اور گننا شروع کر دئیے ٗ یہ ساڑھے چار سو ڈالر تھے ٗ ہنری کے بیٹے نے یہ رقم جیب میں ڈال لی‘ اس رات جب ہنری گھر واپس آیا تو اس کا بیٹا جاگ رہا تھا ٗ بیٹے نے آگے بڑھ کر باپ کا بیگ اٹھایا ٗ ہنری نے جھک کر بیٹے کو پیار کیا ٗبیٹے نے باپ کو صوفے پر بٹھایا اور بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا ’’ڈیڈی کیا آپ مجھے پچاس ڈالر ادھار دے سکتے ہیں‘‘ باپ مسکرایا اور جیب سے پچاس ڈالر نکال کر بولا ’’کیوں نہیں ٗ میں اپنے بیٹے کو ساری دولت دے سکتا ہوں‘‘ بیٹے نے پچاس ڈالر کا نوٹ پکڑا ٗ جیب سے ریزگاری اور نوٹ نکالے ٗ پچاس کا نوٹ ان کے اوپر رکھا اور یہ ساری رقم باپ کے ہاتھ پر رکھ دی ٗ ہنری حیرت سے بیٹے کو دیکھنے لگا ٗ بیٹے نے باپ کی آنکھ میں آنکھ ڈالی اور مسکرا کر بولا ’’یہ پانچ سو ڈالر ہیں ٗ میں ان پانچ سو ڈالروں سے سیاٹل کے سب سے امیر ورکر سے ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں‘‘ ہنری خاموشی سے بیٹے کی طرف دیکھتا رہا ٗ بیٹا بولا ’’میں اپنے باپ سے صرف ایک گھنٹہ چاہتا ہوں ٗ میں اسے جی بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں ٗ میں اسے چھونا چاہتا ہوں ٗ میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں ٗ میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں ٗ میں اس کے ساتھ ہنسنا ٗ کھیلنا اوربولنا چاہتا ہوں ٗ
ڈیڈی کیا آپ مجھے ایک گھنٹے دے دیں گے ٗ میں آپ کو اس کا پورا معاوضہ دے رہا ہوں ‘‘ ہنری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ٗ اس نے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ہنری نے 1999ء میں ’’فیملی لائف‘‘ کے نام سے ایک آرٹیکل لکھا ٗ مجھے یہ مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ٗ اس مضمون میں اس نے انکشاف کیا دنیا میں سب سے قیمتی چیز خاندان ہوتا ہے ٗ دنیا میں سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑا اطمینان ہماری بیوی اور بچے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ انہیں سب سے کم وقت دیتے ہیں ٗ ہنری کا کہنا تھا دنیا میں سب سے بڑی بے وفا چیز ہماری نوکری ٗہماراپیشہ اور ہمارا کاروبار ہوتا ہے ٗہم آج بیمار ہو جائیں ٗ آج ہمارا ایکسیڈنٹ ہو جائے توہمارا ادارہ شام سے پہلے ہماری کرسی کسی دوسرے کے حوالے کر دے گا ٗہم آج اپنی دکان بند کردیں ‘ہمارے گاہک کل کسی دوسرے سٹور سے خریداری کر لیں گے ٗ آج ہمارا انتقال ہو جائے تو کل ہمارا شعبہ ‘ہمارا پیشہ ہمیں فراموش کر دے گا لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ دنیا کی سب سے بڑی بے وفا چیز کو زندگی کا سب سے قیمتی وقت دے دیتے ہیں ٗ ہم اپنی بہترین توانائیاں اس بے وفا دنیا میں صرف کر دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے دکھ درد کے ساتھی ہیں جن سے ہماری ساری خوشیاں اور ہماری ساری مسرتیں وابستہ ہیں اور جو ہمارے ساتھ انتہائی وفادار ہوتے ہیں ہم انہیں فراموش کر دیتے ہیں ٗ ہم انہیں اپنی زندگی کا انتہائی کم وقت دیتے ہیں۔‘‘
‘میں نے سوچابدقسمتی سے ہم لوگ پہلی قسم کے لوگوں کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ دے دیتے ہیں ٗ ہم لوگ زندگی بھر دوسری قسم کے لوگوں کو فراموش کرکے پہلی قسم کے لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ٗ ہم بے وفا لوگوں سے وفاداری نبھاتے رہتے ہیں اور وفاداروں سے بے وفائی کرتے رہتے ہیں‘میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا تھا
اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ اس افسر نے فوراً معذرت کر لی ٗ فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘ یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا ’’آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں‘‘ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا ’’نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں‘‘ فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا ’’مجھے یقین ہے میں جوں ہی وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گاجبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں‘میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن‘ اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ جو مجھ سے محبت کرتی ہے‘ جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے‘‘ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے دیر تک سوچتا رہا ٗ ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں ٗ ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ٗ ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں‘ میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل باس کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لئے دروازہ کھولنے ٗہمیں گرم کھانا کھلانے کے لئے دو ٗ دو بجے تک جاگتی رہتی ہے ٗ ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ٗ ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں ٗ جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں ٗ جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کر تے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا‘ ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے‘ میں نے سوچا‘ ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کر تے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا‘ ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے‘ میں نے سوچا‘ ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں
بے شک ہم گھاٹے کے سوداگر ہیں!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
*…*
*تاریخ کےجھروکے*
*ایک نہر۔۔۔۔۔۔۔*

*یہ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺭﯾﺎﺽ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ۔*

ﺍﯾﮏ ﻧﯿﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﮎ ﮐﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺍﻓﻄﺎﺭ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻭﮞ، ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﯽ۔۔۔ ! " ﯾﺎ ﺍﻟﮩٰﯽ ! ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﺮ ﮨﻮ۔۔۔ "!

ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﮯ " ﯾﺎ ﺍﻟﮩٰﯽ ! ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﺮ ﮨﻮ۔۔۔ "!
ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﮨﻨﺴﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ، " ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮩﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ؟، ﺍﺱ ﺻﺤﺮﺍﺋﯽ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺮ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ۔۔۔؟ "
ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺑﺎً ﮐﮩﺘﯽ، " ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻏﺮﺽ، ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ، ﺁﭖ ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﺁﺋﯿﮯ۔۔ !! ، ﻭﮦ ﺭﺏ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ، " ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮕﻮ، ﻣﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ، ﮨﻢ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ، ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﮔﮯ۔۔ !! ، ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﮔﮯ۔ "
ﻏﺮﺽ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﮭﭩﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﺍﺗﯽ۔ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﮎ ﺑﯿﺖ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﺍﺏ ﺑﺘﺎﺅ، ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ، ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﮩﺮ۔۔۔؟ "
ﺧﺎﺗﻮﻥ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﯾﻘﯿﻦ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ، " ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮔﮭﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺮﺍﺩﯾﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔ "
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﮔﻼ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ، " ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﭼﮫ ﺭﻭﺯﮮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺑﮍﺍ ﻋﺠﯿﺐ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ۔۔۔ "!!

ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺽ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﯿﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺭﻭﮐﺎ، ﻣﯿﺮﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ۔۔۔ ! " ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ، ﺁﺩﮬﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﮕﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﺼﻒ ﺣﺼﮧ ﺧﺎﻟﯽ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻀﻞ ﻭ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮨﮯ، ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺁﺩﮬﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺁﺝ ﺍﺱ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻋﺼﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺩﮬﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﺪﯾۃً ﺩﮮ ﺩﻭﻧﮕﺎ، ﯾﻮﮞ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺩﮬﺎ ﮔﮭﺮ ﮬﺪﯾﺘﮧً ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎﻟﯿﮟ۔۔۔۔ "!!

ﺑﻼ ﻗﯿﻤﺖ ﻣﮑﺎﻥ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﺮﺩﺩ ﮨﻮﺍ، ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، " ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺴﻠﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﺩﺋﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺟﺘﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﺁﭖ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺩﮮ ﺩﯾﺠﺌﮯ۔۔۔ "!!

ﺧﯿﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺍِﺩﮬﺮ ﺍُﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺭﻗﻢ ﺍﮐﭩﮭﯽ ﮐﯽ ﻭﮦ ﮐﻢ ﻭ ﺑﯿﺶ 8 ﮨﺰﺍﺭ ﺭﯾﺎﻝ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ، ﻭﮦ ﺭﻗﻢ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ، ﺍﺏ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺁﺩﮬﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮑﺎﻥ ﺭﯾﺎﺽ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﺗﮭﺎ، ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﻮ ﭘﮑﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘُﮑﺎﺭ ﺿﺮﻭﺭ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﻟﯿﮑﻦ ! ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺟﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮩﺮ ﮨﻮﻧﯽ ﺗﮭﯽ، ﻣﮑﺎﻥ ﺗﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ، ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮩﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ " ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺗﻮ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮕﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﺮ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﺗﮭﺎ، ﮔﮭﺮ ﺗﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮩﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﯽ۔۔ "!
ﺍُﻥ ﻋﺎﻟﻢِ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺩُﻋﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﯾﻘﺎﻥِ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﭘﺮ ﺑﮍﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ، " ﺍﺳﻮﻗﺖ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔۔۔؟ "
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، " ﺍﺳﻮﻗﺖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻣﺴﺠﺪ ﮨﮯ۔۔ "!!
ﻋﺎﻟﻢِ ﺩﯾﻦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، " ﯾﮧ ﻧﮩﺮ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ۔۔ "!!
ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮐﮧ۔۔ !!
ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽﷺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ *ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ، " ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﺮ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﭽﯿﻞ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ؟ "*
*ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ، " ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﭽﯿﻞ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ۔ "*
*ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، " ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻝ ﭘﺎﻧﭻ ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﮐﺎ ﮨﮯ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﭩﺎ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔ "!*
*ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺭﻭﺍ ﺗﮭﮯ، ﺑﯿﺸﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﻧﮩﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔ !*
 

سیما علی

لائبریرین
ایک شاندار عربی حکایت کا اردو ترجمہ
ماخذ : قصص و عبر مِن قدیم زمان
ترجمہ نگار: توقیر بُھملہ

اہل عرب جب شادی بیاہ کرتے تھے تو قدیم رواج کے مطابق دعوت کی تقریب میں شامل مہمانوں کی تواضع کے لیے بھنے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو روٹی کے اندر لپیٹ کر پیش کرتے تھے .

اگر کسی تقریب میں گھر کے سربراہ کو پتا چلتا کہ اس شادی میں شریک افراد کی تعداد دعوت میں تیار کیے گوشت کے ٹکڑوں کی تعداد سے زیادہ ہے ، یا زیادہ ہوسکتی ہے ، تو وہ کھانے کے وقت دو روٹیاں (گوشت کے بغیر) ایک دوسرے کے ساتھ لپیٹ کر اپنے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور انتہائی قریبی دوستوں میں تقسیم کرتے جبکہ گوشت روٹی کے اندر لپیٹ کر صرف باہر سے آئے ہوئے اجنبیوں کو پیش کیا جاتا تھا...

ایسا ہی ایک بار غریب شخص کے ہاں شادی کی تقریب تھی جس میں اس شخص نے دعوت کے دن احتیاطاً بغیر گوشت کے روٹی کے اندر روٹی لپیٹ کر اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور متعدد قریبی قابلِ بھروسہ دوستوں کو کھانے میں پیش کی،،، تاکہ اجنبیوں کو کھانے میں روٹی کے ساتھ گوشت مل سکے اور کسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچا جاسکے.

جنہیں صرف روٹی ملی تھی تو انہوں نے ایسے کھانا شروع کردیا گویا اس میں گوشت موجود ہے ، سوائے اس کے ایک انتہائی قریبی رشتہ دار کے اس نے روٹی کھولی گھر کے سربراہ کو بلایا اور غصے سے بلند آواز میں اس سے کہا ، "اے عبداللہ کے باپ یہ کیا مذاق ہے یہ تو روٹی گوشت کے بغیر ہے میں تو آج کے دن ہرگز یہ نہیں کھاؤں گا"

غریب شخص نے تحمل سے سنا اور مسکرا کر جواب دیا ، "اجنبیوں کا مجھ پر حق ہے کہ میرے دسترخوان پر انہیں ہر حال میں گوشت پیش کیا جائے" . یہ لیجئے گوشت کا ٹکڑا اور معافی چاہتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی میں آپ کو اپنے اہلِ خانہ میں شمار کررہا تھا

حکمت:
ہمارے موجودہ دور میں ہم بہت سارے لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں. ان کو گھر کے فرد جیسا سمجھتے ہوئے یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مشکل وقت میں ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، ہماری پیٹھ پیچھے ہماری عزت کی حفاظت کرتے ہوئے ہر حال میں وفاداری نبھائیں گے. لیکن عین ضرورت کے وقت ہمارے اندازے غلط ثابت ہوجاتے ہیں اس لیے
 

سید عمران

محفلین
ایک مالدار تاجر مسجد میں بیٹھا تھا اور قریب ہی ایک فقیردُعا مانگ رہا ہے: ''یا اللہ ! آج میں اِس طرح کا کھانا اور اِس قِسْم کا حلوہ کھانا چاہتا ہوں۔''
تاجِر نے یہ دُعا سن کر بدگُمانی کرتے ہوئے کہا :'' اگر یہ مجھ سے کہتا تو میں اِسے ضرور کھلاتا مگر یہ بہانے سے مجھے سُنا رہا ہے تاکہ میں سُن کر اسے کھلا دوں، وَاللہ! میں تو اسے نہیں کھلاؤں گا ۔'' وہ فقیر دُعا سے فارغ ہوکر ایک کونے میں سو گیا ۔ کچھ دیر بعد ایک شخص کھانا لے کر آیا اور فقیر کو ڈھونڈ کر جگایا اور بڑے ادب سے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا۔ فقیر نے اس میں سے کچھ کھایا اور بقیہ واپس کر دیا ۔ تاجِر نے دیکھا تو یہ وُہی کھانے تھے جن کے لئے فقیر نے دُعا کی تھی ۔
تاجِر نے کھانا لانے والے کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھا :''کیا تم اِنہیں پہلے سے جانتے ہو ؟'' جواب ملا: ''بخدا ! ہرگز نہیں ، میں ایک مزدور ہوں میری زوجہ اور بیٹی سال بھر سے ان کھانوں کی خواہش رکھتی تھیں مگر مہیا نہیں ہو پاتے تھے ۔آج مجھے مزدوری میں ایک مِثْقَال (یعنی ساڑھے چار ماشے) سونا ملا تو میں نے اس سے گوشت وغیرہ خریدا اور گھر لے آیا۔ میری بیوی کھانا پکانے میں مصروف تھی کہ اس دوران میری آنکھ لگ گئی۔
آنکھیں تو کیا سوئیں ، قسمت جاگ اٹھی ،میرے خواب میں حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم تشریف لائے اور فرمایا: ''آج تمہارے علاقے میں اللہ کا ایک ولی آیا ہوا ہے ،اُس کا قیام مسجِد میں ہے۔ جو کھانے تم نے اپنے بیوی بچوں کے لئے تیار کروائے ہیں اِن کھانوں کی اسے بھی خواہش ہے ،اس کے پاس لے جاؤ وہ اپنی خواہش کے مطابق کھا کر واپس کردے گا ،بقیہ میں اللہ تعالیٰ تیرے لئے بَرَکت عطا فرمائے گا اور میں تیرے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔'' نیند سے اٹھ کر میں نے حکم کی تعمیل کی جس کو تم نے بھی دیکھا۔
تاجِر کہنے لگا:'' میں نے اِن کو اِنہی کھانوں کے لئے دُعا مانگتے سنا تھا ،تم نے ان کھانوں پر کتنی رقم خرچ کی ؟'' اس شخص نے جواب دیا :''مثقال بھر سونا۔''اس تاجِر نے اسے پیش کش کی:''کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ مجھ سے دس مثقال سونا لے لواور اس نیکی میں مجھے ایک قیراط کا حصہ دار بنا لو ؟'' اس شخص نے کہا :''یہ نامُمْکِن ہے ۔'' تاجِر نے کہا:''اچھا میں تجھے بیس مثقال سونا دے دیتا ہوں۔''
وہ شخص اِنکار کرتا رہا حتی کہ اس تاجِر نے سونے کی مقدار بڑھا کر پچاس پھر سو مثقال کردی مگر وہ شخص اپنے اِنکار پر ڈٹا رہا اور کہنے لگا:''وَاللہ! جس چیز کی ضمانت رسول اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے دی ہے ،اگر تُو اس کے بدلے ساری دُنیا کی دولت بھی دیدے پھر بھی میں اسے فروخت نہیں کروں گا ، تمہاری قسمت میں یہ چیز ہوتی تو تم مجھ سے پہل کرسکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرتا ہےجسے چاہے ۔'' تاجِر نہایت نادِم وپریشان ہوکر مسجد سےچلاگیا گویا اس نےاپنی قیمتی مَتَاع کھودی ہو ۔
*(روض الریاحین، الحکایۃالثلاثون بعد الثلاث مئۃ،ص۲۷۷،ملخصاً)*
 

سید عمران

محفلین
امام شافعی رحمه الله اپنے شاگرد یونس بن عبد الاعلی رحمه الله کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”اے یونس! اگر تمہیں کسی دوست کے متعلق ناپسندیدہ بات پہنچے تو دشمنی پالنے اور تعلق ختم کرنے میں جلدی نہ کرو، کیونکہ شک یقین کو زائل نہیں کرتا۔ بلکہ تم اس دوست کو ملو اور اس کو بتاؤ کہ مجھے تمہارے متعلق یہ اور یہ بات پہنچی ہے۔ بہتر ہے کہ بات پہنچانے والے کا نام بھی لے لو۔ پھر اگر دوست انکاری ہو تو اس سے کہو : ٹھیک ہو گیا، تم میرے لیے اس مخبر سے زیادہ سچے اور قابلِ اعتبار ہو۔ اور مزید مت کریدو۔ اور اگر وہ دوست اُس بات کا اعتراف کرے تو دیکھو کہ اس کا کوئی معقول عذر ہو سکتا ہے، اسے قبول کر لو۔“ (حليۃ الأولياء : ١٢١/٩، سنده صحيح)
 
Top