انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
*آپکے پاس ایک ہی روٹی ہو اور آپکے بچے بھوکے ہوں تو آپ اس روٹی کو پرندوں کو نہیں ڈالیں گے.*
*اگر آپکے پاس ایک چھاگل پانی کی ہو اور آپ کو صحرا عبور کرنا ہو تو آپ اس پانی سے پاؤں نہیں دھوئیں گے.*
*آپ کے پاس ایک ہی زندگی ہے اور اسی سے آپ کو آخرت کمانی ہے تو آپ اسے بے کار کاموں پر کیسے صرف کر سکتے ہیں*
 

سید عمران

محفلین
خوش باش زندگی کا پہلا اصول محبت ہے۔ یہ ایسا جذبہ ہے جو رشتوں کو مضبوطی سے باندھ لیتا یے۔ رشتوں کو مٹھاس عطا کرتا اور نکھار لاتا ہے۔ دلوں کے فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ رشتوں میں مضبوطی اور زندگی میں خوشحالی آتی ہے۔ محبت نیک اور پاکیزہ جذبہ ہے، اس خوبصورت جذبے کی پاکیزگی کی وجہ سے ہی اللّٰه تعالی نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل معاشرے میں محبت کو منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔
دوسرا اصول اعتماد ہے، آج ہمارے معاشرے میں فسادات اور لڑائی جھگڑوں کی بڑی وجہ اعتماد کا فقدان ہے۔ اگر رشتوں میں اعتماد ختم ہو جائے تو بدگمانی جنم لیتی ہے۔ لہذا خوشحال زندگی گزارنے کیلئے اعتماد لازمی جزو ہے۔ اعتماد سے جذبوں میں مضبوطی اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اگر کسی رشتے پر اعتماد کیا جائے تو وہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اعتماد سے انسانی رشتے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر اچھی زندگی گزارنے کیلئے اعتماد بہت ضروری ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں اسی ایک مثبت اصول کا فقدان ہے جس کے سبب کوئی رشتہ دوسرے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ نتیجے کے طور پر رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس حادثے کی صورت میں نفسیاتی و روحانی کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔
اعتماد نہ ہو تو بات تک شیئر نہیں کی جاتی، بچے اپنے بڑوں سے ان جانے ڈر کے سبب دور ہوتے چلے جاتے ہیں جس کے سبب ان کی شخصیت میں وہ پختگی نہیں آ پاتی جو بھرپور زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ لہذا وقت کی ضرورت ہے کہ بچوں کو بچپن ہی سے اعتماد کی دولت سے مالامال کیا جائے تاکہ وہ زندگی میں قدم بہ قدم کامیابی حاصل کرتے چلے جائیں۔ اعتماد مضبوط قوم کا ایک لازمی جزو ہے۔
خوشحال زندگی گزارنے کیلئے تیسرا اور اہم اصول بھرپور توجہ دینا ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات، احساسات، خیالات اور ایک دوسرے کے طرز زندگی کا خیال رکھنا زندگی کو حسیں بنا دیتا ہے۔ اس طرح ایک دوسرے کیلئے قربانی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ دوسرے کی خواہشات کا احترام، پر امن بقائے باہمی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ نفسیاتی طور پر اگر کسی رشتے کا خیال رکھا جائے تو رشتے آپس میں مضبوطی سے جڑ جاتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں لوگ خوشیوں کیلئے ترس رہے ہیں، بے لوث محبت، اعتماد اور پرخلوص رشتے ختم ہوتے جا رہے ہیں جن کو ایک مرتبہ پھر زندگیوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا ایک بار پھر امن و سلامتی اور خوشحالی کا گہوارہ بن جائے۔
 

سید عمران

محفلین
زندگی ایک بہت خوبصورت امتحان ہے، جس کا ایک پرچہ ہمیں روز حل کرنا ہوتا ہے.
اس پرچے میں کبھی خوشیاں ہوتی ہیں، کبھی غم ہوتے ہیں، کبھی محبتیں ہوتی ہیں اور کبھی نفرتیں اور بدگمانیاں!
ہمیں اس پرچے کو حل کرنا ہوتا ہے، اور ہم اپنی غفلت میں کئی جگہیں خالی چھوڑ دیتے ہیں.
وہ جگہیں جہاں ہمیں خوشی کے جواب میں شکر لکھنا ہوتا ہے، جہاں ہمیں درد کے جواب میں صبر درج کرنا ہوتا ہے. ہم وہاں کچھ بھی نہیں کرتے.
زیادہ غلطی تب ہوتی ہے جب ہم جگہ خالی چھوڑنے کی بجائے اپنی مرضی کے جواب درج کردیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا.
وہی احساس جو ہمارے اندر بتدریج گھٹتا گھٹتا ختم ہورہا ہے.
ہمیں رشتے توڑتے ہوئے احساس ہونا چاہیے، مگر وہ ہمارے پاس ہوتا ہی نہیں.
ہمیں کسی کو دکھ دیتے ہوئے احساس ہونا چاہیے، کسی کی خوشی کا. مان رکھنے کی حس ہونی چاہیے مگر وہ ہمارے پاس نہیں ہوتا.
ہم تہی دامان دوسروں کے دامن سے بھی اچھی چیزیں نوچ لیتے ہیں، اور ہمیں اتنا بھی نہیں پتہ ہوتا کہ کسی دوسرے کی نعمت ہمارے دامن کو نہیں بھر سکتی. ہمارا دامن صرف ہمارے نصیب سے بھر سکتا ہے جسے ہم خود ضائع کردیتے ہیں.
ہمیں اب رک جانا چاہیے.
زندگی پرچے لا رہی ہے، کون جانے کس پرچے میں کیا درج کرنا پڑے؟
اپنے ہر روز کے پرچے کو اچھی طرح حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے. کیونکہ کوئی پرچہ دوبارہ نہیں ملے گا، ہماری کی ہوئی کوئی غلطی بھی حل شدہ ماضی کے پرچوں میں سے مٹائی نہیں جائے گی.
اب ہمیں سنبھل جانا چاہیے، کیونکہ اسی میں ہماری اور ہمارے اردگرد کے انسانوں کی بھلائی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
اگر آپ کسی ہو ٹل میں چائے پیتے ہوئے عام طور پر گھر پر چائے پینے کی نسبت زیادہ چینی ڈالتے ہیں تو آپ کے بد عنوان ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔
اگر آپ پبلک واش روم میں گھر کی نسبت زیادہ ٹشو پیپر استعمال کرتے ہیں تو آپ کے اندر ایک چور چھپا بیٹھا ہے کہ اگر آپ کو کوئی موقع مل گیا تو آپ ضرور چوری کریں گے۔
-اگر آپ اپنی پلیٹ میں بھوک سے زیادہ کھانا محض اس لیے ڈالتے ہیں کہ اس کا بل کسی دوسرے جیب سے جارہا ہے تو آپ فطرتا" لالچی ہیں۔
-اگر عام طور پر آپ قطار کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اگر آپ کوئی طاقت ور عہدہ دیا جائے تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ آپ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے۔
-اگر عام طور پر ٹریفک جام میں آپ قطار توڑ کر دوسری گاڑیوں کے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں تو جب آپ کو کبھی سرکاری پیسے کا رکھوالا بنایا جائے تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ آپ اس میں غبن کے مرتکب ہوں گے، کیونکہ آپ کو قوانین و ضوابط پر عمل سے نفرت ہے۔۔
اگر آپ اپنے گھر کے گندے پانی کا بہتر انتظام کرنے کی بجائے رخ دوسرے کے گھر کی طرف کر دیتے ہیں تو آپ کو معاشرتی آداب معلوم نہیں۔
-اگر آپ گھر اور آفس کی فالتو لائٹس بند کرنے کے عادی نہیں ہیں تو موقع ملنے پر آپ ملکی اور قومی وسائل کو ضائع کرنے کا ارتکاب کریں گے۔
اگر آپ کمپیوٹر پر اور موبائل پر گیمز کھیلتے ہیں تو آپ کاہل اور سست انسان ہیں اور آپ اپنی زندگی کو فضولیات میں ضائع کر دیں گے۔
-اگر آپ طالب علم ہیں اور امتحان کی تیاری صرف امتحان سر پر آنے پر کرتے ہیں تو آپ بددیانت، کاہل اور کام چور ہیں اور آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنے والدین، معاشرہ اور قوم کے بھی دشمن ہیں۔
آئیے جہاں بھی ہمیں موقع ملے ہم خود باکردار انسان بننے کی کوشش کریں۔ یہ زندگی عطیہ خداوندی ہے اور قوم کی امانت ہے۔ اس میں خیانت ہرگز نہ کریں....!!!
 

سید عمران

محفلین
انسان سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس بہت وقت ہے، وہ بعد میں نیکیاں کر لے گا۔ وہ سب اچھے کام بعد کے لئے سوچ کر رکھتا ہے، پر ایک دن اچانک اس کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
اُس کے لئے یقین کرنا مشکل ہی ہوتا ہے کہ اب وہ قیامت تک اِسی مٹی میں رہے گا، تب اُسے یاد آتا ہے جو وہ زمین پر کرتا تھا۔ نماز نہیں پڑھتا تھا، وہ لوگوں کو دین سے ہٹاتا تھا، وہ لوگوں میں فحشی پھیلاتا تھا، وہ جھوٹ بولتا تھا، چوری کرتا تھا، دھوکہ دیتا تھا، خیانت کرتا تھا، تنہائی میں گناہ کرتا تھا۔
پر یہ کیا اُس نے تو سوچا تھا وہ معافی مانگ لے گا اور اُس کا وقت تو ختم ہو گیا۔ اب توبہ کے دروازے بند ہو گئے، تب وہ روئے گا چیخے گا پر نیکی نہیں کر سکے گا۔
اپنے گناہ نہیں مٹا سکے گا اور اگر اُس نے کوئی نیکی پھیلائی ہوگی تو اُسے اجر ملتا رہے گا اور جس نے فخشی پھیلائی اُسے گناہ ملتا رہے گا۔
ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ انسان کیوں خود کو دھوکہ دیتا ہے وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ اس کے پاس وقت کم ہے اور یہ زندگی عارضی ہے۔
1f340.png
تھوڑا نہیں بلکہ مکمل سوچیئے!!!!
 

سید عمران

محفلین
عورت کے بارے میں یہی تعلیم ھے کہ تم اسے خوبصورت کہو وہ خوبصورت ھوتی چلی جائے گی ، تم اسے اچھا کہو وہ اچھی ھوتی چلی جائے گی ، تم اسے ھمدرد ،رحم دل ،گھر کا خیال رکھنے والی ،، ہنس کر قربانی دینے والی کہتے جاؤ وہ ویسی بنتی جائے گی ،، مگر جب تم اس میں عیب نکالتے ھو ،چھوٹی غلطی کو بڑی بناتے ھو ، اس کے لباس ،کھانے اور روزمرہ کاموں میں عیب نکالتے ھو تو تم اسے دن بدن عیب دار کرتے چلے جاتے ھو ، اس کو ذھنی مریض بنا دیتے ھو، وہ ھر دن کو اس گھر میں اپنا آخری دن سمجھتی ھے، پھر وہ اس گھر کے بارے میں بیس سال بعد کی پلاننگ کیسے کر سکتی ھے؟
 

سید عمران

محفلین
• *
1f448.png
ماں کا قرض*
1f449.png

ایک بیٹا پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بن گیا۔ والد کی وفات کے بعد ماں نے ہر طرح کا کام کر کے اسے اس قابل بنا دیا تھا۔ شادی کے بعد بیوی کو ماں سے شکایت رہنے لگی کہ وہ ان کے اسٹیٹس میں فٹ نہیں ہے۔ لوگوں کو بتانے میں انہیں شرم آتی کہ یہ ان پڑھ ان کی ساس ہے۔
بات بڑھنے پر بیٹے نے ایک دن ماں سے کہا: ’’ماں میں چاہتا ہوں کہ میں اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ کوئی بھی قرض ادا کر سکتا ہوں۔ میں اور تم دونوں خوش رہیں اس لیے آج تم مجھ پر کئے گئے اب تک کے سارے اخراجات سود سمیت ملا کر بتا دو میں وہ ادا کر دوں گا پھر ہم الگ الگ سکھی رہیں گے۔‘‘
ماں نے سوچ کر جواب دیا: ’’بیٹا حساب ذرا لمبا ہے سوچ کر بتانا پڑے گا مجھے تھوڑا وقت چاہیے۔‘‘بیٹے نے کہا ماں کوئی جلدی نہیں ہے۔
رات ہوئی سب سوگئے، ماں نے ایک لوٹے میں پانی لیا اور بیٹے کے کمرے میں آئی اور بیٹا جہاں سو رہا تھا اس کے ایک طرف پانی ڈال دیا۔ بیٹے نے کروٹ لے لی۔ ماں نے دوسری طرف بھی پانی ڈال دیا۔ بیٹے نے جس طرف بھی کروٹ لی، ماں اسی طرف پانی ڈالتی رہی تو پریشان ہو کر بیٹا اٹھ کے چیخ کر بولا کہ ماں یہ کیا ہے میرے بستر کو پانی پانی کیوں کر ڈالا؟
ماں بولی " بیٹا " تو نے مجھ سے پوری زندگی کا حساب بنانے کو کہا تھا " میں ابھی یہ حساب لگا رہی تھی کہ میں نے کتنی راتیں تیرے بچپن میں تیرے بستر گیلا کر دینے سے جاگتے ہوئے كاٹي ہیں " یہ تو پہلی رات ہے اور تو ابھی سے گھبرا گیا " میں نے تو ابھی حساب شروع بھی نہیں کیا ہے جسے تو ادا کر پائے
ماں کی اس بات نے بیٹے کے دل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا " پھر وہ رات اس نے سوچنے میں ہی گزار دی " شاید اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ ماں کا قرض کبھی نہیں اتارا جاسکتا...
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ماں کا قرض کبھی نہیں اتارا جاسکتا...
بے شک۔
ماں اللہ پاک کی دی گئی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہئیے۔ ہر رشتہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن ماں جیسا رشتہ بے لوث ہے۔
اللہ پاک سب کی ماؤں کو ان کے سر پر سلامت رکھے اور ان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

سید عمران

محفلین
حضرت ابوبکر ورّاق رحمۃ اللہ علیہ کے ایک صاحبزادے قرآن پاک یک تلاوت فرمارہے تھے۔ جب وہ اس آیت پرپہنچے ،ترجمہ:(جب قیامت کے )دن بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔‘‘ تو وہ خوفِ الٰہی سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ فوراً ان کا دم نکل گیا اور وہ مر گئے۔
حضرت ابوبکر ورّاق ان کے مزار پر روتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:’’کس قدر افسوسناک ہے یہ بات کہ اس بچے نے ایک ہی آیت کے خوف سے جان دے دی لیکن میرے اُوپر برسوں کی تلاوت کے بعدیہ آیت اثر انداز نہ ہو سکی۔‘‘
 

سید عمران

محفلین
ڈاکٹر نے پوچھا جی بی بی کیا مسئلہ ھے؟
بولی بیٹا بھوکا رہ جاتا ھے دودھ نہیں اُترتا!!!
یہ لو پرچی انجیکشن لکھ کے دیا ھے لگواتی رہنا!!!
کچھ دن بعد وہ عورت دوبارہ آتی ھے
بولی ڈاکٹر جی ھڈیاں درد کرتی ھیں بدن ٹوٹتا ھے!!
تو انجیکشن بند کر دو!!!
نہیں!!! بیٹا بھوکا رہ جائے گا کہہ کر چل دیتی ھے!!!
پچیس سال بعد کراھنے کی آواز سُن کر بیٹا ساتھ والے کمرے سے اُٹھ کر آتا ھے کیا ھے امّاں کیا ھوا ھے؟
بیٹا ھڈیاں درد کر رھی ھیں بدن ٹوٹ رھا ھے!!!
امّاں پھر کچھ الٹا پلٹا کھا پی لیا ھو گا
نہ خود سوتی ھو نہ ھمیں سونے دیتی ھو!!!!
 

سید عمران

محفلین
میری بیوی رات کو چار سے پانچ دفعہ اُٹھتی ہے. بچی کو چُپ کرواتی ہے. دودھ دیتی ہے. تب تک جاگتی ہے جب تک بچی سو نہ جائے. پھر سونے کے بعد بیٹی 2 گھنٹے یا ایک گھنٹے بعد جاگ جاتی ہے. پھر اُٹھتی دودھ اور چُپ کروانا..
میں یہ منظر روز دیکھتا ہوں. اور سوچتا ہوں اِن لمحوں کو اس منظر کو کہیں پر لکھ کر رکھ لوں..
بچے جب بڑے ہو کر ماں باپ پر جھڑکیں گے تو اُن کو یہ تحریر دکھاؤں گا... یا ماں باپ محتاج ہو کر چار پائی پر پڑ جاتے ہیں تو رات کو ماں یا باپ جب اُن سے پانی مانگنے کو چیختا چلاتا ہے. تو وہ سکون سے سوئے رہتے ہیں..
میں اکثر رات کو جاگتا ہوں. دیکھتا ہوں بیوی بیٹھی بیٹی کو چُپ کروا رہی ہوتی ہے. میں سوچتا ہوں میری اگر نیند پوری نہ ہو تو صبح تھکاوٹ کی وجہ سے کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں.. اس کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی.. پھر بھی کوئی کام ادھورے نہیں رہتے...
ماں باپ کو دُکھ دینے والوں کو اُن کی پیدائش کے منظر دکھائے جائیں تو شاید کوئی شخص اپنے ماں باپ کو یوں گلی کوچوں میں ذلیل نہ کرے۔
 

سید عمران

محفلین
ﻭﺍﻟﺪ، ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ. ﺑﯿﭩﺎ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ..
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻮﻻ؛
ﭘﺎﭘﺎ .. ﯾﮧ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﺘﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﮟ!!
ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ...
ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﮔﮧ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺎ ..
ﭘﺘﻨﮓ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻟﮩﺮﺍ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮔﺮ ﮔﺌﯽ ...
ﺗﺐ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ. ،،،،
ﺑﯿﭩﺎ ..!
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﺲ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ..
ﮨﻤﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺟﻦ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔۔
ﺟﯿﺴﮯ۔۔۔۔
ﮔﮭﺮ،
ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ،
ﻧﻈﻢ ﻭ ﺿﺒﻂ،
ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻭﻏﯿﺮﮦ
ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ...
ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺑﻨﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺍﻥ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻭﮨﯽ ﺣﺸﺮ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ ﺑﻦ ﺩﮬﺎﮔﮯ ﮐﯽ ﭘﺘﻨﮓ ﮐﺎ ﮨﻮﺍ...
"ﻟﮩﺬﺍ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﻨﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻣﺖ ﺗﻮﮌﻧﺎ"
"ﺩﮬﺎﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﻨﮓ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﮨﯽ 'ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ' ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ!"
 

سید عمران

محفلین
حضرت عمر کو ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ماں کو گالیاں دیتا ھے۔
آپ نے اس شخص کو بلوایا اور حکم دیا کہ پانی سے بھری ھو مشک لائی جائے ،،
پھر وہ مشک اس کے پیٹ پر خوب کس کر بندھوا دی
اور اس کو کہا کہ اسے اسی مشک کے ساتھ چلنا پھرنا بھی ھے اور کھانا پینا بھی ھے اور سونا جاگنا بھی ھے۔
ایک دن گزرا تو وہ بندہ بلبلاتا ھوا حاضر ھوا کہ اس کو معاف کر دیا جائے وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔
آپ نے پانی آدھا کر دیا
مگر مشک بدستور اس کے پیٹ پر بندھی رھنے دی۔
مزید ایک دن کے بعد وہ بندہ ماں کو بھی سفارشی بنا کر ساتھ لے آیا کہ اس کو معاف کر دیا جائے اور اس مشک کو ھٹا دیا جائے وہ دو دن سے نہ تو سو سکا ھے اور نہ ھی ٹھیک سے کھا سکا ھے۔
آپ نے اس کی ماں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس نے تجھے پیٹ کے باھر نہیں بلکہ پیٹ کے اندر اتنے ھی وزن کے ساتھ 9 ماہ اٹھا کر رکھا ھے۔
نہ وہ ٹھیک سے سو سکتی تھی اور نہ ٹھیک سے کھا سکتی تھی ،پھر تو اسے موت کی سی اذیت دے کر پیدا ھوا اور 2 سال اس کا دودھ پیتا رھا ،
اور جب اپنے پاؤں پر کھڑا ھوا تو اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کے لئے تیرے منہ سے گالیاں نکلتی ھیں ،، اگر آئندہ یہ شکایت موصول ھوئی تو تجھے نشانِ عبرت بنا دونگا۔
(فتاوی و اقضیتہ عمر ابن الخطاب)
 

سید عمران

محفلین
ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﯿﮍﺍ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﺎ ﮐﯿﮍﺍ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ.(گوگنگٹ) ﺍﺳﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﺑﮭﯿﻨﺲ ﮐﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﯽ ﺑﻮ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
ﻭﮦ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﻣﻠﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﮔﻮﻻ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﻡ ﺗﮏ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﺎ ﺑﮍﺍ ﮔﻮﻻ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮔﻮﻟﮯ ﮐﻮ ﺩﮬﮑﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﻞ ﺗﮏ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻞ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮔﻮﻻ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻞ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﮩﺖ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻭﮦ ﮔﻮﻻ ﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ.
ﯾﮩﯽ ﮨمارا ﺣﺎﻝ ﮨﮯ ۔ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺣﻼﻝ ﺣﺮﺍﻡ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﻭ ﻣﺘﺎﻉ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺗﻮ " ﻗﺒﺮ" ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺣﺴﺮﺕ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔۔ !!!
 

سید عمران

محفلین
بیوی بار بار ماں پر الزام لگائے جا رہی تھی ......
اور
شوہر بار بار اسکو اپنی حد میں
رہنے کی کہہ رہا تھا
لیکن بیوی چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی
بار بار زور زور سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ
"اس نے انگوٹھی ٹیبل پر ہی رکھی تھی
اور تمهارےاور میرے علاوہ اس کمرے میں کوئی نہیں آیا
انگوٹھی ہو نا ہو ماں جی نے ہی اٹھائی ہے.
بات جب شوہر کی برداشت سے باہر ہو گئی تو
اس نے بیوی کے گال پر ایک زور دار طمانچہ دےمارا اب
تین ماہ پہلے ہی تو شادی ہوئی تھی.
بیوی سے طمانچہ برداشت نہیں ہوا وہ گھر چھوڑ کر جانے لگی
اور جاتے جاتے شوہر سے ایک سوال پوچھا
کہ تمھیں اپنی ماں پر اتنا یقین کیوں ہے .. ؟؟
تب شوہر نے جو جواب دیا
اس جواب کو سن کر
دروازے کے پیچھے کھڑی ماں نے سنا
تو
اس کا دل بھر آیا
شوہر نے بیوی کو بتایا کہ
"جب وہ چھوٹا تھا تب اس کے والد گزر گئے
.
ماں محلے کے گھروں میں جھاڑو پوچھا لگا کر جو کما پاتی تھی
اس سے ایک وقت کا کھانا آتا تھا
ماں ایک پلیٹ میں مجھے روٹی دیتی تھی
اور
خالی ٹوکری ڈھک كر رکھ دیتی تھی
اور
کہتی تھی
میری روٹیاں اس ٹوکری میں ہے بیٹا تو کھا لے
میں نے بھی ہمیشہ آدھی روٹی کھا کر کہہ دیتا تھا
کہ ماں میرا پیٹ بھر گیا ہے
مجھے اور نہیں کھانا ہے
ماں نے مجھے میری جھوٹی آدھی روٹی کھا کر پالا پوسا اور بڑا کیا ہے کہ
آج میں دو روٹی کمانے کے قابل ہوا ہوں
لیکن یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ ماں نے عمر کے اس حصے پر اپنی خواہشات کو مارا ہے،
.
وہ ماں آج عمر کے اس حصے پر کیسے انگوٹھی کی بھوکی ہو گی ...
.یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا
آپ تو تین ماہ سے میرے ساتھ ہو
میں نے تو ماں کی تپسیا کو گزشتہ پچیس سالوں سے دیکھا ہے ..
.یہ سن کر ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھے
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بیٹا اس کی آدھی روٹی کا قرض چکا رہا ہے یا وہ بیٹے کی آدھی روٹی کا قرض!!!!!
 

سید عمران

محفلین
میاں بیوی ایک کاؤنسلر کے پاس گئے۔
ان کا آپس میں شدید جھگڑا چل رہا تھا۔
وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بھی روا دار نہیں تھے۔
انہوں نے سوچا کہ لوگوں کے مشورے پر عمل درآمد کیا جائے اور تھوڑی سی تھیراپی کروا لی جائے۔
جب وہ دونوں آفس میں داخل ہوئے تو کاؤنسلر نے دونوں کے چہرے پر سخت کشیدگی دیکھی۔ اس نے ان دونوں کو بیٹھنے کے لیے بولا۔
جب وہ بیٹھ گئے تو اس نے بولا کہ اب آپ بتائیں کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے؟
تو وہ دونوں یکدم بولنا شروع ہو گئے اور ایک سانس میں ایک دوسرے پر تنقید کے پہاڑ ڈال دیے۔
دونوں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔
کاؤنسلر نے ان دونوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے دی اور چپ کر کے ان کی لڑائی ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
جب دونوں بول بول کر تنگ آگئے تو کاؤنسلر نے انہیں بولا کہ اچھا یہ تو لڑائی اور خامیوں والی کہانی ہو گئی اب ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کرو۔
تم دونوں کو ایک دوسرے میں کیا کیا باتیں پسند ہیں؟
دونوں بالکل خاموش ہو گئے۔
بہت دیر تک دونوں نے کچھ نہیں بولا۔
کاؤنسلر سمجھ گئی کہ ان کو ایک دوسرے پر اتنا شدید غصہ ہے کہ ایک دوسرے کی کوئی اچھی بات یاد ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ یاد کرنا چاہتے تھے۔
کاؤنسلر نے ایک ایک کاغذ اور پین دونوں کو تھما دیے اور میاں بیوی کو بولا کہ اپنے اپنے کاغذ پر ایک دوسرے کی خوبیاں تحریر کرو۔
ایک دفعہ پھر بہت دیر دونوں نے کچھ بھی نہ لکھا اور غصہ ان کے چہروں پر عیاں تھا۔
بہت دیر کے بعد خاوند نے جیسے ہی اپنے کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کیا تو ایک دم ہی اس کی بیگم بھی تیز تیز اپنے کاغذ پر کچھ لکھنے لگ گئی۔
لگ رہا تھا کہ ابھی بھی دونوں مقابلے پر اپنا اپنا کاغذ بھرنے بیٹھ گئے تھے۔
جب انہوں نے لکھ لیا تو، بیوی نے اپنا کاغذ کاؤنسلر کو تھمایا۔
اس نے اسے واپس کرتے ہوئے بولا کہ اسے اپنے شوہر کو دو۔
وہ خود ہی پڑھے گا۔
بیوی نے اسے دے دیا اور اس کا کاغذ لے لیا۔
دونوں نے پڑھنا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد بیوی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی تعریفیں پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔
کمرے کی فضا ایک دم تبدیل ہو گئی تھی۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے ان دونوں کی کبھی لڑائی ہی نہ ہوئی ہو۔
کاؤنسلر کا فرض پورا ہو چکا تھا۔
وہ دونوں جیسے لڑتے بھڑتے اندر داخل ہوئے تھے ویسے ہی ہنستے مسکراتے بانہوں میں بانہیں ڈالے کمرے سے نکل رہے تھے۔
ہر انسان بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔
اگر ہم دوسروں کے عیب تلاش کرنے لگیں تو ان کی اور اپنی زندگی عذاب بنا لیتے ہیں اور اگر ہم ہر ایک کی خوبیوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیں تو اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنا دیتے ہیں۔
فیصلہ آپ لوگوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔“
 

سید عمران

محفلین
ملک میں قحط پڑا ھوا تھا' خلقت بھوک سے مر رھی تھی. ایک بزرگ اس خیال سے کچھ خریدنے بازار جا رھے تھے کہ نہ معلوم بعد میں یہ بھی نہ ملے..
بازار میں انھوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ھنستا کھیلتا لوگوں سے مزاق کر رھا تھا.. بزرگ ان حالات میں غلام کی حرکات دیکھ کر جلال میں آ گئے.. غلام کو سخت سست کہا کہ لوگ مر رھے ھیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رھی ھیں..
غلام نے بزرگ سے کہا.. " آپ اللہ والے لگتے ھیں.. کیا آپ کو نہیں پتا میں کون ھوں..؟ "بزرگ بولے.. " تو کون ھے..؟ "
غلام نے جواب دیا.. " میں فلاں رئیس کا غلام ھوں جس کے لنگر سے درجنوں لوگ روزانہ کھانا کھاتے ھیں.. کیا آپ سمجھتے ھیں کہ جو غیروں کا ' اس قحط سالی میں پیٹ بھر رھا ھے وہ اپنے غلام کو بھوکا مرنے دے گا..???? جائیں.. آپ اپنا کام کریں.. آپ کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی.. "
بزرگ نے غلام کی بات سنی اور سجدے میں گر گئے.. بولے..
" یا اللہ ! مجھ سے تو یہ ان پڑھ غلام بازی لے گیا.. اسے اپنے آقا پر اتنا بھروسہ ھے کہ کوئی غم اسے غم نہیں لگتا اور میں جو تیری غلامی کا دم بھرتا ھوں یہ مانتے ھوئے کہ تو مالک الملک اور ذولجلال ولااکرام ھے اور تمام کائنات کا خالق اور رازق ھے میں کتنا کم ظرف ھوں کہ حالات کا اثر لے کر نا امید ھو گیا ھوں..
بے شک میں گناہ گار ھوں اور تجھ سے تیری رحمت مانگتا ھوں اور اپنے گناھوں کے معافی مانگتا ھوں۔
 

سید عمران

محفلین
خلیفہ ہارون الرشید بڑے حاضر دماغ تھے۔ آپ نے اپنی حاضر دماغی اور دُور اندیشی سے دُنیا کو متاثر کیا۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا: ’’کیا آپ بھی کبھی کسی کی بات پر لاجواب ہوئے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہو گیا۔
ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں اور غم نہ کریں۔ اس نے کہا کہ میں اس بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو بہاؤں جس کے بدلے خلیفہ میرا بیٹا بن گیا۔
دوسری مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا۔ میں نے اسے بلوا کر کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے دئیے معجزات تھے، اگر تُو موسیٰ ہے تو کوئی معجزہ دکھا۔ اس نے جواب دیا کہ موسیٰ نے تو اس وقت معجزہ دکھایا تھا جب فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا، تُو بھی یہ دعویٰ کر تو میں معجزہ دکھاؤں۔
تیسری مرتبہ کچھ لوگ ایک گورنر کی غفلت اور کاہلی کی شکایت لے کر میرے پاس آئے۔ میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت نیک، شریف اور ایماندار ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پھر آپ اپنی جگہ اسے خلیفہ بنا دیں تا کہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔‘‘
 

سید عمران

محفلین
امام کعبہ قاری عبدالرحمٰن السدیس ایک واقعہ بیان کرتے ہیں، ایک لڑکا تھا،اس کی عمر یہی کوئی نو،دس برس رہی ہوگی۔وہ بھی اپنی عمر کے لڑکوں کی طرح شریر تھابلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی، یہ وہ دور تھا،جب نہ آج کی طرح بجلی کے پنکھے تھے،نہ گیس کے چولہے،گھر بھی مٹی کے، چولہا بھی مٹی کا ہوا کرتا تھا،اور نہ اس زمانہ میں
دولت کی اس قدر ریل پیل تھی،جو آج دیکھی جارہی ہے، ایک دن اس کے گھر مہمان آگئے، اس کی ماں نے اپنے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کیا، یہ لڑکا بھی قریب ہی دوستوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، ماں نے جیسے ہی سالن تیار کیا،بچہ نے شرارت سے اس سالن میں مٹی ڈال دی۔اب آپ خود ہی اس ماں کی مشکل کا اندازہ کر سکتے ہیں،غصے کا آنا بھی فطری تھا،غصہ سے بھری ماں نے ماں نے صرف اتنا کہا کہ جا تجھے اللہ کعبہ کا امام بنادے ‘اتنا سنا کر ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس رو پڑے اور کہنے لگے، آپ جانتے ہو کہ یہ شریر لڑکا کون تھا؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں، وہ شریر لڑکا ”میں“ تھاجسے آج دنیا دیکھتی ہے کہ وہ کعبہ کا امام بنا ہوا ہے۔عبدالرحمٰن السدیس یہ واقعہ کئی بار سنا چکے ہیں اور جب بھی سناتے ہیں،جذباتی ہوجاتے ہیں۔
ماؤں کے لب کی ہلکی سی جنبش اولاد کا نصیب لکھ دیتی ہے۔بعض اوقات مائیں اولاد کی غلطیوں پر ان کو برا بھلا کہہ دیتی ہیں اور ان کے لیے بددعا کر بیٹھتی ہیں۔بچے تو بچے ہی ہوا کرتے ہیں،وہ شرارت نہ کریں تو کیا بوڑھے شرارت کریں؟کبھی بچوں کی شرارت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا مت کہیں،ایسا نہ ہو بعد میں پچھتانا پڑے، ہوسکتا ہے وہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہو۔ ماں باپ کے منہ سے نکلے جملے کبھی اولاد کا مقدر لکھ دیتے ہیں۔اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو عزت دواور ان کی قدر کروکیونکہ وہ تمہارے بعد تمہارا نشان بن جاتے ہیں۔
 
امام کعبہ قاری عبدالرحمٰن السدیس ایک واقعہ بیان کرتے ہیں، ایک لڑکا تھا،اس کی عمر یہی کوئی نو،دس برس رہی ہوگی۔وہ بھی اپنی عمر کے لڑکوں کی طرح شریر تھابلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی، یہ وہ دور تھا،جب نہ آج کی طرح بجلی کے پنکھے تھے،نہ گیس کے چولہے،گھر بھی مٹی کے، چولہا بھی مٹی کا ہوا کرتا تھا،اور نہ اس زمانہ میں
دولت کی اس قدر ریل پیل تھی،جو آج دیکھی جارہی ہے، ایک دن اس کے گھر مہمان آگئے، اس کی ماں نے اپنے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کیا، یہ لڑکا بھی قریب ہی دوستوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، ماں نے جیسے ہی سالن تیار کیا،بچہ نے شرارت سے اس سالن میں مٹی ڈال دی۔اب آپ خود ہی اس ماں کی مشکل کا اندازہ کر سکتے ہیں،غصے کا آنا بھی فطری تھا،غصہ سے بھری ماں نے ماں نے صرف اتنا کہا کہ جا تجھے اللہ کعبہ کا امام بنادے ‘اتنا سنا کر ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس رو پڑے اور کہنے لگے، آپ جانتے ہو کہ یہ شریر لڑکا کون تھا؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں، وہ شریر لڑکا ”میں“ تھاجسے آج دنیا دیکھتی ہے کہ وہ کعبہ کا امام بنا ہوا ہے۔عبدالرحمٰن السدیس یہ واقعہ کئی بار سنا چکے ہیں اور جب بھی سناتے ہیں،جذباتی ہوجاتے ہیں۔
ماؤں کے لب کی ہلکی سی جنبش اولاد کا نصیب لکھ دیتی ہے۔بعض اوقات مائیں اولاد کی غلطیوں پر ان کو برا بھلا کہہ دیتی ہیں اور ان کے لیے بددعا کر بیٹھتی ہیں۔بچے تو بچے ہی ہوا کرتے ہیں،وہ شرارت نہ کریں تو کیا بوڑھے شرارت کریں؟کبھی بچوں کی شرارت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا مت کہیں،ایسا نہ ہو بعد میں پچھتانا پڑے، ہوسکتا ہے وہ وقت دعاؤں کی قبولیت کا ہو۔ ماں باپ کے منہ سے نکلے جملے کبھی اولاد کا مقدر لکھ دیتے ہیں۔اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو عزت دواور ان کی قدر کروکیونکہ وہ تمہارے بعد تمہارا نشان بن جاتے ہیں۔
اسی لئے ہی ماں اور باپ کی بددعا سے بچنے کو کہا گیا ہے کیونکہ فوری قبولیت ہوتی ہے۔
جب ماں کا دل اولاد کی وجہ سے دکھتا ہے تو رحمت الہیٰ جوش میں آجاتی ہے،جو بات ماں کے منہ سے نکلے قبول ہو جاتی ہے۔
ماں کو بھی چاہیئے کہ جیسا بھی دل دکھے کبھی بددعا نہ دے۔
سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی ہمت والی خاتون تھیں کہ غصہ میں بھی اتنی اچھی دعا دی۔باکمال اعلیٰ ظرف۔
 
Top