عزیز حامد مدنی کا ایک شعر

منہاج علی

محفلین
جب آئی ساعتِ بے تاب تیری بے لباسی کی
تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر
(عزیز حامد مدنی)

پہلے تو ساعتِ بے تاب کی داد دیجیے۔ یعنی محبوب کی بے لباسی کا انتظار وقت کو بھی ہے۔ وقت بھی بے تاب ہے کہ اسے محبوب کی بے لباسی کی ایک ساعت ہونا نصیب ہوگا۔

آئینے میں انگنت زاویے ہوتے ہیں، سب زاویے جل گئے۔ یعنی، آئینے کے کسی زاویے میں اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اس منظر کا عکس اپنے اندر اتار سکے۔

محبوب کے بدن کو آئینے سے بھی تعبیر کِیا جاتا ہے۔ سو یہ بھی ممکن ہے کہ محبوب کے آئینۂ بدن کا سامنا آئینہ نہ کر سکا ہو۔

ایک اور لطف اس معنیٰ میں بھی ہے کہ ہماری شاعری کی روایت میں عاشق کو معشوق کا آئینہ گردانا جاتا ہے۔

روز مرہ میں کسی فعل کے ساتھ جب رہ جانا استعمال ہو تو اس سے فاعل کا ساکت ہوجانا یا بے بس ہوجانا یا یوں کہیے تو اور بہتر کہ یہ ایک ہی فعل بس میں تھا، مراد لیا جاتا ہے۔۔ مثلاً
میرؔ کل صحبت میں اس کی حرف سر کر رہ گیا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
اب اس مصرعے کو پھر سے پڑھیے تو مزید لطف آئے گا۔ ’’تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر‘‘۔

منہاج علی
 

فاخر رضا

محفلین
جب آئی ساعتِ بے تاب تیری بے لباسی کی
تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر
(عزیز حامد مدنی)

پہلے تو ساعتِ بے تاب کی داد دیجیے۔ یعنی محبوب کی بے لباسی کا انتظار وقت کو بھی ہے۔ وقت بھی بے تاب ہے کہ اسے محبوب کی بے لباسی کی ایک ساعت ہونا نصیب ہوگا۔

آئینے میں انگنت زاویے ہوتے ہیں، سب زاویے جل گئے۔ یعنی، آئینے کے کسی زاویے میں اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اس منظر کا عکس اپنے اندر اتار سکے۔

محبوب کے بدن کو آئینے سے بھی تعبیر کِیا جاتا ہے۔ سو یہ بھی ممکن ہے کہ محبوب کے آئینۂ بدن کا سامنا آئینہ نہ کر سکا ہو۔

ایک اور لطف اس معنیٰ میں بھی ہے کہ ہماری شاعری کی روایت میں عاشق کو معشوق کا آئینہ گردانا جاتا ہے۔

روز مرہ میں کسی فعل کے ساتھ جب رہ جانا استعمال ہو تو اس سے فاعل کا ساکت ہوجانا یا بے بس ہوجانا یا یوں کہیے تو اور بہتر کہ یہ ایک ہی فعل بس میں تھا، مراد لیا جاتا ہے۔۔ مثلاً
میرؔ کل صحبت میں اس کی حرف سر کر رہ گیا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
اب اس مصرعے کو پھر سے پڑھیے تو مزید لطف آئے گا۔ ’’تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر‘‘۔

منہاج علی
کیا زبردست شعر چنا ہے تشریح کے لئے
داد قبول فرمائیے
 

Ali Baba

محفلین
جب آئی ساعتِ بے تاب تیری بے لباسی کی
تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر
(عزیز حامد مدنی)

پہلے تو ساعتِ بے تاب کی داد دیجیے۔ یعنی محبوب کی بے لباسی کا انتظار وقت کو بھی ہے۔ وقت بھی بے تاب ہے کہ اسے محبوب کی بے لباسی کی ایک ساعت ہونا نصیب ہوگا۔

آئینے میں انگنت زاویے ہوتے ہیں، سب زاویے جل گئے۔ یعنی، آئینے کے کسی زاویے میں اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اس منظر کا عکس اپنے اندر اتار سکے۔

محبوب کے بدن کو آئینے سے بھی تعبیر کِیا جاتا ہے۔ سو یہ بھی ممکن ہے کہ محبوب کے آئینۂ بدن کا سامنا آئینہ نہ کر سکا ہو۔

ایک اور لطف اس معنیٰ میں بھی ہے کہ ہماری شاعری کی روایت میں عاشق کو معشوق کا آئینہ گردانا جاتا ہے۔

روز مرہ میں کسی فعل کے ساتھ جب رہ جانا استعمال ہو تو اس سے فاعل کا ساکت ہوجانا یا بے بس ہوجانا یا یوں کہیے تو اور بہتر کہ یہ ایک ہی فعل بس میں تھا، مراد لیا جاتا ہے۔۔ مثلاً
میرؔ کل صحبت میں اس کی حرف سر کر رہ گیا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
اب اس مصرعے کو پھر سے پڑھیے تو مزید لطف آئے گا۔ ’’تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر‘‘۔

منہاج علی
آپ جس طرح کی تشریح کررہے ہیں وہ محبوب کو "بے لباس" کر کے نہیں بلکہ اس کے "بے حجاب" ہونے سے ہوتی ہے۔ فرق سمجھیے۔

مزید یہ کہ آپ "زاویوں" کو بہت ہلکا لے گئے ہیں، شاعر نے اپنے محبوب کو بے لباس کروایا ہی انہی زاویوں کو دکھانے کے لیے ہے جن سے آئینے کے اپنے زوایے بھی جل کر رہ گئے ہیں!
 
آخری تدوین:
جب آئی ساعتِ بے تاب تیری بے لباسی کی
تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر
(عزیز حامد مدنی)

پہلے تو ساعتِ بے تاب کی داد دیجیے۔ یعنی محبوب کی بے لباسی کا انتظار وقت کو بھی ہے۔ وقت بھی بے تاب ہے کہ اسے محبوب کی بے لباسی کی ایک ساعت ہونا نصیب ہوگا۔

آئینے میں انگنت زاویے ہوتے ہیں، سب زاویے جل گئے۔ یعنی، آئینے کے کسی زاویے میں اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اس منظر کا عکس اپنے اندر اتار سکے۔

محبوب کے بدن کو آئینے سے بھی تعبیر کِیا جاتا ہے۔ سو یہ بھی ممکن ہے کہ محبوب کے آئینۂ بدن کا سامنا آئینہ نہ کر سکا ہو۔

ایک اور لطف اس معنیٰ میں بھی ہے کہ ہماری شاعری کی روایت میں عاشق کو معشوق کا آئینہ گردانا جاتا ہے۔

روز مرہ میں کسی فعل کے ساتھ جب رہ جانا استعمال ہو تو اس سے فاعل کا ساکت ہوجانا یا بے بس ہوجانا یا یوں کہیے تو اور بہتر کہ یہ ایک ہی فعل بس میں تھا، مراد لیا جاتا ہے۔۔ مثلاً
میرؔ کل صحبت میں اس کی حرف سر کر رہ گیا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
اب اس مصرعے کو پھر سے پڑھیے تو مزید لطف آئے گا۔ ’’تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر‘‘۔

منہاج علی
حضور پہلے یہ واضح کیجیے کہ ڈی پی والی تصویر آپ ہی کی ہے یا کسی اور کی؟ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ یہاں اساتذہ کو دعوت کلام دی جانی چاہیے تاکہ بےلباسی کا صحیح مفہوم واضح ہو سکے۔
اب تک تو مذاہب اور سیاسیات کی لڑیاں مقفل ہوتی آئی تھیں ۔ لگتا ہے اب شعر و ادب کی لڑیاں بھی مقفل ہو نے کی روایت کی داغ بیل ڈالنے اور بیج بونے کا سہرا پنے سر لینا چاہ رہے ہیں ۔ نین بھیا آپ کے نین شرارت کر رہے ہیں اور آپ کے دل کا بدنام ہونے کا امکان بڑھتا جارہا ہے ۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اب تک تو مذاہب اور سیاسیات کی لڑیاں مقفل ہوتی آئی تھیں ۔ لگتا ہے اب شعر و ادب کی لڑیاں بھی مقفل ہو نے کی روایت کی داغ بیل ڈالنے اور بیج بونے کا سہرا پنے سر لینا چاہ رہے ہیں ۔ نین بھیا آپ کے نین شرارت کر رہے ہیں اور آپ کے دل کا بدنام ہونے کا امکان بڑھتا جارہا ہے ۔ :)
نہ ان لڑیوں کے مقفل کرنے ہونے میں اپنا کوئی حصہ تھا نہ ادھر ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔ معاملہ چونکہ شعر فہمی اور تشریح کا تھا تو میں نے سوچا اساتذہ سے رائے لینے میں مضائقہ نہیں۔ نظیر کے انداز میں منظر کشی کی تمنا ہے اور نہ صادقین جیسی مصوری کی۔۔۔ بس ایسے کوئی فراز کی زبان میں ہی سمجھا دے کہ ہاں "درودیوار مگر گھر کے دیکھتے ہیں" وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو بھی صلہ پائے۔۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ یہاں اساتذہ کو دعوت کلام دی جانی چاہیے تاکہ بےلباسی کا صحیح مفہوم واضح ہو سکے۔
ظہیراحمدظہیر
سید عاطف علی
محمد تابش صدیقی
محمداحمد
فلک شیر
ذوالقرنین! دنیا میں ہر طرح کی سوچ ، ہرطرح کے لوگ ، ہر قسم کے شاعر اور ہر قسم کی شاعری ملتی ہے ۔ انتخاب کرنا آپ کے اپنے ذوق پر ہے ۔
دیکھا جائے تو زندگی قدم قدم پر کئی متنوع چیزوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا نام ہے ۔ کس سے ملنا ہے ، کس سے دور رہنا ہے ، کہاں بیٹھناہے ، کہاں سے اٹھ جانا ہے ، کیا پڑھنا ہے ، کیا دیکھنا ہے ، کیا سننا ہے، کیا بولنا ہے یہ سب چھوٹے چھوٹے کام اور چھوٹے چھوٹے فیصلے معلوم ہوتے ہیں لیکن ان چھوٹے فیصلوں کے مجموعے کا نام ہی زندگی ہے اور یہی فیصلے کسی شخصیت کو اس کا رنگ دیتے ہیں ۔ سو ان باتوں کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے ۔
کہ مزا آگیا ہوگا۔ ہور کرو مینوں ٹیگ!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ذوالقرنین! دنیا میں ہر طرح کی سوچ ، ہرطرح کے لوگ ، ہر قسم کے شاعر اور ہر قسم کی شاعری ملتی ہے ۔ انتخاب کرنا آپ کے اپنے ذوق پر ہے ۔
دیکھا جائے تو زندگی قدم قدم پر کئی متنوع چیزوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا نام ہے ۔ کس سے ملنا ہے ، کس سے دور رہنا ہے ، کہاں بیٹھناہے ، کہاں سے اٹھ جانا ہے ، کیا پڑھنا ہے ، کیا دیکھنا ہے ، کیا سننا ہے، کیا بولنا ہے یہ سب چھوٹے چھوٹے کام اور چھوٹے چھوٹے فیصلے معلوم ہوتے ہیں لیکن ان چھوٹے فیصلوں کے مجموعے کا نام ہی زندگی ہے اور یہی فیصلے کسی شخصیت کو اس کا رنگ دیتے ہیں ۔ سو ان باتوں کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے ۔
کہ مزا آگیا ہوگا۔ ہور کرو مینوں ٹیگ!
کتنے ہی عرصہ سے میں اسی سوچ میں گم تھا کہ آخر زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے فیصلے ہیں ہی کیوں۔ کیا پڑھنا ہے اور کیوں پڑھنا ہے۔ کہاں بیٹھنا ہے اور کیوں بیٹھنا ہے۔ کہاں سے اٹھ جانا ہے یا اٹھا دیے جانا ہے۔ کیا سننا ہے اور کیوں سننا ہے۔ بظاہر یہ سب چھوٹے چھوٹے کام اور فیصلے معلوم نہیں ہوتے تھے بلکہ ایسے وقت کا تقاضا سمجھ کر میں کرتا آ رہا تھاکہ آج آپ نے میری نیم وا آنکھوں کو مکمل کھول دیا کہ بھئی یہی تو زندگی ہے۔ اور کیا کوئی باہر سے آکر تھیلی زندگی کی تھما جائے گا۔ میاں اس پل کو نعمت سمجھو اور اس لمحے کو اس سوچ میں مت ضائع کرو کہ کل کلاں ان کی بنیاد پر تم سے لوگ کچھ نہیں پوچھیں گے۔ تمہاری شخصیت جو بنی ہے اللہ توبہ لوگ ویسے ہی تم سے نہیں پوچھیں گے۔ جب یہ باتیں آپ نے سمجھائیں تو میں کہنے پر مجبور ہوگیا کہ کوئی چھوٹا نہیں زندگی فیصلانے میں۔۔۔۔
سدھر ہی گیا تھا کہ آپ کی سرگوشی پڑھ لی
 
Top