کیا ہم سب قصوروار ہیں؟ دلخراش انکشاف

قیصرانی

لائبریرین
شکریہ شمشاد بھائی

لیکن میں نے تو محب کو لکھا ہے
I think he wont mind it + it was a joke nothing personal

بعض اوقات ہمارے چھوٹے سے مذاق بھی تلخی پیدا کر دیتے ہیں۔ خصوصاً جب پہلے تلخی پیدا ہو چکی ہو تو پھر اس طرح‌کے پیغامات سے احتراز کرنا بہتر رہتا ہے۔ امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہی ہوں گی
 

damsel

معطل
اچھا تو آپ اس طرح اپنی پوسٹس کی تعداد بڑھا رہی ہیں۔۔۔۔

:grin: آپ سمجھ دار انسان لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرنا پڑتا ہے ورنہ آپ کے والے ٹاپک میں مجھے انٹری نہیں مل رہی تھی ۔ مستقبل میں ایسا نہ ہو اس لیے حفظ ما تقدم کے تحت :)
 

ظفری

لائبریرین
اللہ تعالی نے ہمیں جو احکامات عطا فرمائے ہیں ۔ ان کے فہم میں اختلاف ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان اختلافات کو علمی انداز میں لینے کے بجائے حق و باطل کا مسئلہ بنادیا جاتا ہے ۔ حالانکہ اختلاف کا طریقہ ہمارے اسلاف کا طریقہ تھا ۔ میں نے یہ ساری بحث پڑھی ہے ۔ابتداء ، معاشرے کی بے راہ وری سے شروع ہوئی ہے ۔ جس میں‌ کئی حقائق ہیں ۔ ہمیں چاہیئے تھا کہ ان حقائق کی جانکنی کے علاوہ اس کے سدباب پر بھی غور کرتے ۔ مگر ہمیشہ کی طرح ہم موضوع کے اصل ماخذ سے ہٹ کر کسی اور ہی چیز کو زیرِ بحث بنا لیتے ہیں ۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ اصل موضوع کہیں گم ہوجاتا ہے اور بحث بے مقصد کئی جگہوں سے گھومتی ہوئی ذاتیات پر آکر ختم جاتی ہے ۔چونکہ ہمارے اکثر اختلافات مذہیی عقائد اور نظریات کے فرق کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ ( جیسا کہ یہاں بھی یہی ہوا کہ بات معاشرے سے مذہب تک آگئی اور پھر وہاں تفہیم کے لحاظ سے کئی اعتراضات اٹھائے گئے ) ۔ اس لیئے میں یہاں قرآن کے حوالے سے " ایک بحث " پر فہم کے فرق کی وجہ بیان کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔

دین کے معاملے میں‌ ہم جب کوئی بھی رائے قائم کریں تو نیک نیتی اور خلوصِ دل سے قرآن کو بنیاد بنائیں ۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس معاملے میں اللہ کی کتاب کیا کہہ رہی ہے ۔ اس کے بعد آپ کے پاس جو کچھ بھی معلومات ہیں خواہ وہ قدیم صائب کی ہوں ، خواہ وہ روایت کے اندر آئیں ہیں ۔ خواہ وہ صحابہ کرام سے پہنچیں ہیں ، خواہ وہ علماء کی آراء میں ہیں ۔ ان کو آپ قرآن سے متعلق کرکے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ یعنی ہر چیز قرآن کی روشنی میں سمجھی جائے ۔ ہمارے ہاں اس وقت صورتحال بلکل الٹ ہے ۔ ہم کیا کرتے ہیں ۔ ؟ ہم یا تو قرآن مجید کو روایت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یا پھر اپنی عقلی تفرًدات کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھیں گے ۔اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ سب قرآن کو ہی اپنا ماخذ مانتے ہیں ۔ یعنی ہم سب اس کو لکھ لیتے ہیں ، مگر اب سمجھنے کا عمل کیسے ہوگا ۔ یعنی اس کو سمجھنے میں کیا کیا جائے گا ۔ کیا آپ مخلتف چیزوں کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں گے ۔ ؟ یا قرآن کی روشنی میں آپ سب چیزوں کو سمجھیں گے ۔ جس دن ہمارے درمیان یہ بنیادی تبدیلی آجائے گی کہ آپ قرآن کو سب سے پہلے سامنے رکھیں گے اور پھر اس کے بعد کوئی حدیث آپ کے پاس آئی ہے تو اس کو بھی قرآن کی روشنی میں سمجھیں ۔ کوئی واقعہ یا کوئی روایت بیان ہوئی ہے تو اس کو بھی قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں ۔ یا مخلتف اہلِ علم نے جو کوئی آراء قائم کی ہے اسے بھی قرآن کی روشنی میں سمجھیں ۔ جب آپ ان تمام چیزوں کو قرآن کی روشنی میں سمجھیں گے تو اس کے بعد قرآن صحیح معنوں میں محور و مرکز بن جائے گا ۔ ( جو کہ عام اصطلاح میں استعمال ہوتا ہے ) ۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت سی ایسی چیزیں جو آپ غلط سمجھ رہے تھے ۔ ان کا صحیح فہم آپ پر واضع ہوجائے گا ۔ کچھ ایسی چیزیں بھی ہونگیں جنہیں قرآنِ مجید کے الفاظ اور قرآنِ مجید کا سیاق و سباق قبول نہیں کریں گے اور آپ بلکل فیصلہ کن جگہ پر کھڑے ہو کر یہ کہہ سکیں گے کہ یہ بات اس طرح تھی ۔ قرآن مجید کا تو اپنے بارے میں‌ یہ دعویٰ ہے کہ " وہ نہایت ہی واضع زبان میں نازل ہوا ہے " ۔ اصل مسئلہ کیا ہوتا ہے ۔؟ اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم قرآن کے پاس براہِ راست نہیں جاتے ۔ ہم پہلے سے کوئی آراء قائم کر لیتے ہیں ۔ کبھی وہ آراء روایت کی بنیاد پر قائم ہوتیں ہیں ۔ کبھی علماء کی آراء کی روشنی میں ہم اپنا ایک نقطہِ نظر بنا لیتے ہیں ۔ کبھی ہمارے ہاں عقلی مقدمات ہوتے ہیں ۔ جسے ہم خود بڑی چیز سمجھتے ہیں ۔ ان کو بنیاد بنا لیتے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں یہ فطرت کے قوانین ہیں ، ان کی بنیاد پر قرآن کو سمجھیں گے ۔ قرآن کے سامنے جب آپ سرِ خم تسلیم کردیتے ہیں اور پہلے اس کی بات سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے ۔ لیکن اس کی بات سمجھنے کے لیئے آپ کو اس کی زبان کو ، اس کے پس منظر کو ، اس کے سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے ۔ یہ سب قرآن مجید کے اندر موجود ہوتا ہے ۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لجیئے ۔ جب اس کی بات آپ سمجھ لیں گے تو باقی چیزوں کو سمجھنے میں‌کوئی مشکل نہیں آئے گی ۔ یعنی ترتیب میں تبدیلی آنی چاہیئے کہ ہم قرآن کی روشنی میں چیزوں کو سمجھیں ناکہ چیزوں کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں ۔
 
بہت شکریہ ظفری، ان خوبصورت خیالات کو شئیر کرنے کا۔ بحیثیت ایک طالب علم قرآن میری ذاتی کوشش بھی یہی رہی ہے کہ قرآن کو بنیاد اور محور بنایا جائے، اور اس کے بعد جب بھی علماء کی رائے ہو یا روایت ہو یا عقلی مقدمہ یا منطقی جواز ، اس کو قرآن کی روشنی میں ہی پرکھا جائے۔ اگر اس سلسلے میں‌ کوئی بھی شخص میری کسی کوتاہی کی طرف توجہ دلاتا ہے تو احسان مانتا ہوں۔
والسلام
 

خاور بلال

محفلین
کچھ عرصہ قبل موبی لنک نے ایک پیکیج لانچ کیا تھا جس کی اشتہاری مہم کا ٹائٹل تھا "رات شروع، بات شروع"۔ مجھے یقین ہے موبی لنک نے یہ پیکیج شریف خواتین و حضرات کے لیے نہیں نکالا ہوگا۔ اسی طرح کا ایک پیکیج اسلام آباد میں آنٹی شمیم نے نکالا تھا جس کا ٹائٹل تھا "رات گئی، بات گئی"۔ جدت پسند طبقوں میں اس طرح کے پیکیج بہت مقبول ہیں۔ البتہ ہمارے ہاں شریف و عزت دار گھرانے رات کو سوجایا کرتے ہیں۔

جو لوگ جنسی گھٹن کا شکار ہوتے ہیں انہیں اپنی وحشت سے نجات پانے کے لیے ایسی چٹکتی مٹکتی تہذیب درکار ہوتی ہے جو مردو زن کے آزادانہ اختلاط کو ضروری سمجھتی ہو اور حقوقِ نسواں کے نام پر ہر وہ کام کرنے کی آزادی دیتی ہو جو ان کی ہوس کی تسکین کا باعث ہو۔ یہ حضرات معاشرے کی بے راہ روی اینالائیز ہی نہیں کرنا چاہتے اور کسی کو کرنے بھی نہیں دیتے۔ یقین نہ آئے تو اسی دھاگے کو شروع سے دیکھ لیجیے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ کون لوگ ہیں جو معاشرے کی بڑھتی ہوئ اخلاقی تنزلی کو سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے اور ایسی ہر کوشش کے جواب میں "ہٹ دھرمی" کے گھسے پٹے نسخے کو آزمارہے ہیں۔ خیر سے ان کے پاس ایک "اگنور لسٹ" بھی ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے اپنی "غیرت" کو بھی انہوں نے اگنور لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔

تھرکنا بہکنا، بہک کر لپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا
یہ ہماری جدید تہذیب کا ماٹو ہے جس میں بد چلنی عیب نہی سمجھی جاتی بلکہ "گرل فرینڈ کلچر" کے ذریعے اسے ہوا دی جاتی ہے۔ مشرقی روایات اور اسلام کے فراہم کردہ ضابطہ اخلاق کو یہ "جدیدیے" دقیانوسی سمجھتے ہیں۔ اس تہذیب کو آنٹیوں اور آنٹیوں کو اس تہذیب سے بہت "الفت" ہے۔ یقین نہ آئے تو آپ کو ایسے دھاگوں کی سیر کروائ جاسکتی ہے جہاں‌ بعض "آنٹے" آنٹی شمیم کی محبت کے نشے میں پورے محلے کی گواہی جھٹلانے پر بضد تھے، چلیے چھوڑیں اس قصے میں‌ کیا رکھا ہے اصل بات تو یہ ہے کہ جدید تہذیب نے عورت سے اس کی معصومیت چھین لی ہے اور مرد کو اخلاقی آوارگی کی چاٹ لگادی ہے۔ اس دور کی ایڈورٹائزنگ ہی کو اٹھا کردیکھ لیجیے کہ اس میں‌عورت کا کیا استعمال رہ گیا ہے سوائے اس کے کہ وہ اپنے جسم کی نمائش اور آواز کے لوچ سے مردوں کی تسکین کا سامان کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے کیس میں‌اصل ذمہ دار مرد ہے۔ کیونکہ جو مرد اپنی بہن کو پاکدامن و عفت مآب دیکھنا چاہتا ہے وہی مرد دوسرے کی بہن سے تعلقات استوار کرنا اور اسے شرم و حیا کے لبادے سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسی کو تہذیب کہتے ہیں تو پھر "لفنگا پن" کسے کہا جانا چاہیے؟
دیارِ مغرب ہوس میں غلطاں
شراب ارزاں، شباب عریاں
جسے بھی دیکھو غریقِ عصیاں
ہم ایسی تہذیب کا کیا کریں گے؟​


جماعت اسلامی کے بنیادی عقائد پر یہ ایک ضرب ہے کہ خواتین معاشرہ میں مساوی سلوک، عزت و احترام و مساوی درجہ کی حقدار ہیں۔ وہ خواتین کو برقعہ میں پابند، محروم ، اور ،مرد کا محتاج دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ جو کہ قرآن کے بنیادی پیغام کے منافی ہے۔ اس کے لئے یہ کوئی بھی تاویلات پیش کرنے پر تیار ہیں۔ وجہ اس کی کیا ہے؟‌ خواتین کی بلیک مارکیٹنگ، تاکہ ان مدرسوں میں ظلم کی ‌وہ کاروائی جاری رہے جس کا تذکرہ قیصرانی اور شمشاد نے اوپر کیا ہے اور معصوم خواتین اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرسکیں۔
موصوف نے بڑی محنت سے جماعتِ اسلامی پر ایک عدد الزام "ایجاد" کیا لیکن وہ بھی غلط۔ یہ اقتباس ایک عدد "اخلاق کُش حملہ" کا درجہ رکھتا ہے جو جماعتِ اسلامی پر کیا گیا ہے ۔ سمجھ نہیں آتا جو لوگ "اخلاقیات کے باواآدم" بننے کے چکر میں‌ رہتے ہیں وہ "خواتین کی بلیک مارکیٹنگ" جیسا غیر اخلاقی الزام جماعت پر کیسے لگا سکتے ہیں۔ خرم صاحب اگر ایسی بات کہتے تو سمجھ میں‌آتا کہ انہیں تو جھوٹ کی چاٹ لگی ہوئ ہے۔ بہر حال جماعت اسلامی عام سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی اچھی خاصی افرادی قوت پر مشتمل تنظیم ہے۔ یہ کوئ خفیہ تنظیم تو ہے نہیں کہ اس کے کسی ایسے ایجنڈے سے عام افراد نابلد ہوں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق جماعتِ اسلامی کی رسائ تاحال ابھی چاند تک نہیں ہوئ اسی لیے اگر جماعت یہ کام کرتی ہے تو اسی زمین پر کرتی ہوگی۔ میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، مجھے تو ایسے کسی پروگرام کا علم نہیں جو عورتوں کے استحصال پر مبنی ہو۔ بلکہ ہمارے ہاں تو معاملہ الٹ ہے ۔ ہمارے خاندان کی عموما خواتین گریجویٹ ہیں اور انہیں اسلام کے فراہم کردہ ضابطہ اخلاق میں رہتے ہوئے ہر کام کرنے کی آزادی ہے۔ اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن حضرات کا بلڈ گروپ "حیا نیگیٹو" ہو ان سے کچھ بعید نہیں۔
 

باسم

محفلین
بھائی اتنا دور کیوں جارہے ہیں ٹیلی نور کے نئے اشتہارات دیکھے ہونگے لڑکے اور لڑکی کے کپڑوں میں صرف رنگ کا فرق ہے اور ہوسکتا ہے دونوں میاں بیوی ہوں ورنہ یوں گلے ملنے کیلیے ہاتھ نہ بڑھاتے
 

ع عائشہ

محفلین
ساری کہانی انجان کرداروں پر گھومتی ہے،کچھ لوگوں نے کہا، ایک ڈاکٹر نے کہا۔۔۔۔ ایک صاحب نے کہا ۔۔۔۔ کسی نے کہا ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن کوئی بھی حتمی منبع Reliable Source of Infornmation موجود نہیں ہے۔ عرص یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب خود کسی جرم کے ذاتی شاہد ہیں تو اس معاملے کو مناسب انتظامیہ تک پہنچائیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو بہتان تراشی سے اجتناب فرمائیں۔

ایک لیڈی ڈاکٹر جو ایک پوش علاقے میں اپنا کلینک چلاتی ہیں اور کافی سینئر ہیں جب میں نے طب سے متعلق ان حقائق کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر رضا میں انتہائ افسوس کے ساتھ تمہیں بتاتی ہوں کہ اب ہم رسوائ کی ایک ایسی راہ پر چل پڑےہیں

اس جرم کے اصل سرپرست اور مجرم یہی لوگ ہیں
دہرے بلکہ تیہرےجرم کے مرتکب ہورہے ہیں
ایک وہ خود ملوث ہیں
جرم کی اطلاع نہیں کر رہے
جرم چھپانے اور جرم کے ثبوت غائب کرنے اور ان کے عوض پیسے کمانے کا جرم
 
Top