کیا ہم سب قصوروار ہیں؟ دلخراش انکشاف

میری ملاقات سدرہ سے مقامی اخبار کے دفتر میں ہوئی تھی، میں اپنے صحافی دوست سے ملنے گیا تھا، اور سدرہ وہاں اپنی ایک رپورٹ کی اشاعت کے سلسلے میں آئی تھی، دونوں میں کافی زوردار بحث ہو رہی تھی، میرا دوست بضد تھا کہ سدرہ اس آرٹیکل کی اشاعت سے باز رہے، اور سدرہ بضد تھی کہ اسے شائع کیا جائے، مسئلہ کچھ ایسی نوعیت کا تھا کہ جب میں نے اس آرٹیکل کو پڑھا تو یہ اندازہ لگانا میرے لئے بھی مشکل نہیں رہا کہ یہ آرٹیکل سدرہ کے لئے کافی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ سدرہ کو سمجھایا کیسے جائے وہ ایک اصولی بات کر رہی تھی اور میں اس کے جذبہ حب الوطنی سے متاثر بھی تھا، اس کی شخصیت کی خاص بات اسکی وہ معصومیت تھی جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھی اس کا انداز گفتگو، اور جنون کی حد تک وطن پرستی نے مجھے خاصا متاثر کیا تو میں نے اپنی بات کا آغاز اسکو "بیٹا" کہہ کر کیا۔ ۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا کہ کیسا عجیب بندہ ہے جو عورت کو سب سے خوبصورت روپ میں مخاطب کر رہا ہے، بہرحال میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ۔ "میری عمر کی طرف نہ دیکھو تم ایک ایسی لڑکی ہو جو اپنے اندر ایک بھرپور اخلاقی جرات رکھتی ہے۔ اور میںتم جیسی لڑکی کو "بیٹا" کہنا بھی فخر سمجھتا ہوں، اگر تم مجھے اس قابل سمجھو تو میں اس سلسلے میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، اس نے جب رضامندی کا اظہار کیا تو میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "تم ایک اچھی سوچ کی مالک اور عملی لڑکی ہو مگر تھوڑی سی عقل سے پیدل ہو"۔ ۔ اور میرا یہ اندھا تیر نشانے پر لگا ۔ کیونکہ اب اسکی آنکھوں میں تھوڑی سے دلچسپی تھی۔ کیونکہ میں یہ پہلے ہی محسوس کر چکا تھا کہ مجھے اسکو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔ ۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تم کیا سمجھتی ہو جو تم نے لکھا ہے وہ تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ہے، یہ معاشرہ اندھا ہے، پاگل ہے، یا کچھ اور ہے ؟ اس نے کہا آپ کا مطلب کیا ہے۔ ۔ میں نے تھوڑا سا اور بے تکلف ہوتے ہوئے کہا " نا لائق لڑکی تم اچھی خاصی پاگل بھی ہو، کبھی تمہاری والدہ نے تم کو بتایا کہ تم کچھ کچھ کریک بھی ہو"۔ ۔ اس مرتبہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بڑی واضح تھی، اور یہ وہ موقع تھا جب میں اسکو اچھی طرح سمجھا سکتا تھا۔ ۔ ۔ میں نے ایک دم پینترا بدلا اور نہایت سنجیدگی سے اسکو سمجھانا شروع کیا۔ ۔
"دیکھو گڑیا رانی یہ جو تم نے ایک عدد سینئر ایس پی صاحب کو اپنا نشانہ بنایا ہے تم اسے کیا سمجھتی ہو؟ وہ کوئی شریف انسان ہے، اور کیا اسکا کسی ایسے محکمے سے تعلق ہے جہاں انصاف سب کے لئے برابر ہے۔ یا عدالت اسے سزا دیگی ۔ تم کیا سمجھتی ہو یہ انڈین فلمز کیا ہیں؟ یہ سب ہمارے معاشرے کی کہانیاں پیش کرتی ہیں، جو کچھ اس میں دکھایا جاتا ہو وہ انڈیا میں کم اور ہمارے ملک میں زیادہ ہوتا ہے۔ سارے کردار ہمارے معاشرے کے ہوتے ہیں، یہ سارے افسران ایک جیسے ہوتے ہیں، ایک کلرک سے جج تک، اور اسکول ٹیچر سے ایک صحافی تک۔ ۔ یہ سب کے سب لوگ اپنی اپنی قیمتوں پر بکتے ہیں۔ ۔ تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم غلط جگہ پر، غلط وقت پر، ایک حساس موضوع پر بحث کر رہی ہو، میری نظر میں تمہارا درجہ بلند ہے کیونکہ تم ایک اچھی لڑکی ہو، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم یہ کام بند کر دو بلکہ تمہاری بےوقوفی یہ ہے کہ تم غلط وقت پر، غلط جگہ پر صحیح کام کرنا چاہتی ہو، تمہارا یہ آرٹیکل اپنی جگہ صحیح ہے مگر ذرا یہ تو سوچو کہ اسکو کیسے لوگوں کہ توجہ دلائی جائے"۔ ۔

تو یہ میری پہلی ملاقات تھی ایک پیاری دختر پاکستان سے۔ ۔جس کا وہ آرٹیکل تو شائع نا ہوا مگر اس آرٹیکل سے وہ جو کام لینا چاہتی تھی وہ میرے مشورے سے ہو گیا، اس دن وہ بڑی خوش تھی اور مجھ پر اسکا اعتماد اتنا زیادہ بڑھا کہ اس نے ڈرتے ڈرتے مجبے کال کیا۔ "سر ایک بات کرنی ہے آپ سے"۔ ۔ میں نے کہا "ہاں تو کہو نا کیا بات ہے، کیا کوئی رشتہ وغیرہ ڈھونڈ لیا ہے تم نے میرے لئے؟ "۔ ۔ اس پر وہ بہت ہنسی اور کہا کہ "اگر آپ کل فارغ ہیں تو ہمارے ساتھ ڈنر کرینگے ہمارے گھر پر۔ "۔ ۔ ۔ میں بڑی زور سے ہنسا اورکہا کہ تم کیا پورے محلے سے میری ملاقات کروانا چاہتی ہو نالائق"۔ ۔ خیر اس معمولی نوک جھونک کے بعد میں نے فون رکھ دیا اور اپنے سارے پروگرام ملتوی کرکے اگلے دن سدرہ سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ ۔ خیر جب میں اسکے گھر بعد مغرب پہنچا تو وہ میرا انتظار کر رہی تھی۔ ۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر جب وہ واپس آتی تو ساتھ میں اس کی والدہ تھیں۔ ۔ میری حس مزاح ایکدم جاگی اور میں نے کہا "اوئے لڑکی تمہاری امی تو تمہاری سینئر ڈپلیکیٹ لگتی ہیں۔ اس بات پر دونوں خوب ہنسیں۔ ۔ بہرحال اسکی والدہ سے بات چیت پر پتہ چلا کہ وہ بھی خاصی تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ ۔ یوں رفتہ رفتہ مجھے ایک چھوٹی سے فیملی مل گئی۔ ۔ ایک سمجھدار ماں اور پیاری سے بہن۔ ۔ اور میں اس فیملی میں کچھ ایسے گھل مل گیا جیسے میرا جنم جنم کا ان سے ناطہ ہو۔ ۔ ۔

تو یہ ایک تفصیلی احوال تھا ایک ایسی لڑکی سے ملاقات کا جو اپنے معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو عملی جدوجہد سے ختم کرنا چاہتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کر لیتی ہے۔ حال ہی میں اس نے اپنے کچھ ساتھیوں کےساتھ ملکر ایک سروے کیا ہے، اور ایک ایسی تبدیلی پر اس نے بڑی محنت سے مواد جمع کیا ہےجس پر شاید ابھی کسی نے نہیں سوچا میں اس سلسلے میں ان تمام طالبعلموں کا مشکور ہوں جنہوں نے یہ کام کیا ہے خصوصا کراچی اور لاہور کے طلبہ اور طالبات کا جو اپنے معاشرے میں ہونے والی ان تندیلیوں کو سنجیدگی سے محسوس کر رہے ہیں اور عملی اقدامات کے لئے دوسروں کو اپنے ساتھ شامل بھی کررہے ہیں، گو یہ کام وہ لوگ اپنے آپ کو چھپا کر رہے ہیں مگر اس کو میں وقت کا تقاضہ سمجھتا ہوں، بہرحال وہ رپورٹ احاطہ کرتی ہے ہماری نوجوان نسل میں بڑہتی ہوئی بے راہ روی کا اور ان تمام عوامل کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو ان تمام چیزوں کی خاص وجوہات ہیں۔ ۔

"کبھی آپ لوگوں نے سوچا کہ ہم جو آج ترقی کر رہے ہیں وہ کس حد تک مثبت ہے اور کس حد تک منفی ہے، ترقی کے نام پر جو زہر ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی رگوں میں داخل کر رہے ہیں وہ ہمیں اور ہماری پروان چڑہتی ہوئی نسل کو کس حد تک تباہ و برباد کر رہا ہے اس پر شاید ابھی ہم میں سے کوئی غور نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی رنگینی کچھ ایسی ہے کہ اس نے ہمارے سب مقدس رنگوں کو اپنے اندر مدغم کر لیا ہے، آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ آج ہمارے بچے بچے کے پاس موبائل ہے، جس میں ہر منٹ کے حساب سے پیسہ ڈلتا ہے، اور کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ہماری آمدنی میں تو کوئ اضافہ نہیں ہوا بلکہ گزشتہ برسوں میں خصوصا دور مشرفی میں جو مہنگائی ہوئی ہے وہ تقریبا چار سو فیصد کی حد سے تجاوز کر گئی ہے، اور بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ انڈسٹری تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے اور کاروبار کی حالت سب کے سامنے ہے کہ آج ایک ارب پتی بھی ماہانہ بجٹ بنانے پر مجبور ہے ۔ تو یہ غریب لوگ کیسے گزارا کر رہے ہونگے۔ ۔ ہمارا پیارا پاکستان جہاں غریب آبادی کا تناسب ۲۰۰۷ کے اختتام پر ۸۱ فیصد تک ہو چکا ہے۔ وہ لوگ اپنی زندگی کی گاڑی کو کیسے کھینچ رہے ہیں یہ وہی جانتے ہونگے۔ ۔ مگر اس غربت کے باوجود ترقی کرنے کی حوس، انڈین چینلز کی بھرمار، گلیمر، اور ان تمام چیزوں کے ساتھ قدم قدم سے ملا کر چلنے کی کوشش میں ہم گناہوں کی کیسی دلدل میں گر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو شاید آگے پڑہنے سے ہو جائے فالحال میں سرف شہر کراچی سے کلیکٹ کئے ہوئے اعداد و شمار آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور جو رپورٹ میں لاہور، فیصل آباد اور حیدرآباد کی دیکھ رہا ہوں وہ کراچی سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ ۔

کراچی کی آبادی ۔ تقریبا ایک کروڑ انیس لاکھ (غیر سرکاری)
مالدار طبقہ ۔ تقریبا دس فیصد
متوسط طبقہ ۔ تقریبا اٹھارہ فیصد
غریب طبقہ ۔ تقریبا باسٹھ فیصد ( جس میں انتہائی غریب طبقہ اسی فیصد ہے)


گزشتہ پانچ سال میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فروخت ہوئے! اوسطا فی موبائل کی قیمت تین ہزار روپے رہی !


گزشتہ پانچ سال میں مختلف موبائل کنکشنز دو کروڑ اسی لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئے۔ مطلب یہ کہ کراچی میں فروخت ہونے والے سم کارڈز کی تعداد دو کروڑ اسی لاکھ ہے، جس میں سے ایکٹیو کنکشنز پچاسی فیصد ہیں، مطلب تقریبا تمام سم کارڈز وقتافوقتا استعمال ہوتے ہیں، شرط صرف بیلنس کی ہوتی ہے۔ جس سم میں بیلنس ہے وہ زیر استعمال ہے۔

چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائ حقیقی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تمام کمپنیز اپنی آمدنی کو سرکاری افسران کی سرپرستی میں چھپا کر رکھتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں چھوٹ حاصل رہے۔

ان اعداد و شمار پر ذرا غور فرمائیے کہ یہ جو روزانہ پیسہ بیلنس کی مد میں استعمال ہو رہا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے؟ بے روزگاری حد سے تجاوز کر چکی ہے، مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، ان حالات میں تو انسان ایک وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا یہ موبائل کی عیاشی کے لئے ان بچوں کو پیسہ کہاں سے مل رہا ہے،

آیئے آگے بڑہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سو فیصد حقائق پر مبنی ایک اور رپورٹ دیکھیں)

مانع حمل گولیاں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایبٹ کمپنی کے کچھ سیلز ایجنٹس اور مختلف میڈیسن کمپنیز کے کچھ اعلی عہدے داروں نے ایک سروے رپورٹ پیش کی جس کے تحت کراچی شہر میں ان گولیوں کی فروخت کا تناسب شادی شدہ جوڑوں کی نسبت غیر شادی شدہ افراد میں چار سو فیصد ہے، مطلب یہ ہے کہ فرض کریں کہ کراچی میں روزانہ میں سو شادی شدہ جوڑے ہیں اور وہ تمام بغیر کسی ناغے کے ان گولیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان تمام جوڑوں کی ضرورت ڈیڑہ سو گولیاں ہیں، اب اگر اسی شہر میں یہ گولیاں آٹھ سو کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہوں اور ان کے خریدار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہوں تو اسکا کیا مطلب ہوا ؟ ؟ ؟ ؟

لیباریٹری رپورٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی معتبر لیباریٹریز سے جب پیشاب کی تجزیاتی رپورٹ پر ٹیکنیشنز سے معلومات اکٹھی کی گئیں تو حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ لڑکیوں کے ہر دس سمپلز میں سے چار کے رزلٹس پازیٹیو ہوتے ہیں جب کہ ان کی عمر چودہ سے بائیس سال ہوتی ہیں، اور تمام ہی غیر شادی شدہ ظاہر کی جاتی ہیں۔ ۔ ۔

بیوٹی آئٹمز کی فروخت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف کراچی میں ہی نہیں پاکستان کے تمام شہروں میں یہ چیز دیکھی جا سکتی ہے کہ یہ آئٹمز زیادہ فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ وہ واحد بزنس ہے کہ جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور اس میں روزانہ اضافہ دیکھا جا سکتا ہے، ایک ایک آئٹم کی قیمت کا اندازہ آپ سب لوگوں کو اچھی طرح ہے، اس سے آگے کیا کہا جاسکتا ہے۔ ۔ ۔

ایک لیڈی ڈاکٹر جو ایک پوش علاقے میں اپنا کلینک چلاتی ہیں اور کافی سینئر ہیں جب میں نے طب سے متعلق ان حقائق کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر رضا میں انتہائ افسوس کے ساتھ تمہیں بتاتی ہوں کہ اب ہم رسوائ کی ایک ایسی راہ پر چل پڑےہیں جہاں سے واپسی بھی رسوائ کے ساتھ ہوگی جو اعداد و شمار ان طلبہ نے اکٹھا کئے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہیں حقیقت اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے، میرے پاس اوسطا پندرہ کیسز روزانہ صرف اسی مقصد سے آتے ہیں کہ حمل ضایع کرانا ہے یا میں ابھی ماں نہیں بننا چاہتی ہوں، جب ان سے کہو کہ اپنے شوہر کو ساتھ لاؤ تو بجائے شوہر کے لڑکی کی ماں آجاتی ہے، وغیرہ وغیرہ، ۔۔۔۔ بقول ڈاکٹر صاحبہ کہ وہ اب ذہنی طور پر خاصی ڈسٹرب رہتی ہیں، کیونکہ وہ ایک مشرقی عورت کی حیثیت سے جو محسوس کرتی ہیں وہ خاصا تکلیف دہ ہے اور وہ اپنی بیٹیوں کے لئے پریشان ہیں۔ ۔ ۔ ۔

یہ تو ہوا لڑکیوں کا قصہ۔ ۔ ۔ اب آجائیے نوجوانوں کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی آج ایک ایسا شہر ہے جہاں زندگی انتہائی غیر محفوظ ہے، میں اسٹریٹ کرائمز اور ڈکیتیوں کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، روزانہ موبائل چھیننے کی وارداتیں ایک ایسا معمول ہیںکہ اب لوگ ایف آتی آر درج کراتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اب لوگ ایک دوسرے کو یہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو اگر کوئی موبائل یا نقدی مانگے تو حیل و حجت نا کرنا۔ بلکہ اپنی جان کی فکر کرنا۔ ۔ ۔

جی تو اہل وطن یہی وہ نو جوان ہیں جو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں اور بعد میں کچھ سیاسی جماعتیں ان کو استعمال کرتی ہیں، کیونکہ ان بچوں کو موبائل بیلنس کے، ہوشربا ملبوسات کیلئے، اور اپنی ساتھیوں کو بیلنس شئیر کرانے کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف جرائم اور عصمت فروشی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔

آج ہم یہ باتیں تو شئیر کر رہے ہیں مگر سوچنا یہ کہ ہمارے یہ بچے کس کی وجہ سے اس راہ پر جا رہے ہیں، اس میں ہمارا قصور کتنا ہے، ان والدین کا قصور کتنا ہے، جب بچی انیتہائ بھڑکیلا میک اپ کرکےگھر سے ٹیوشن سنٹرکا کہ کر نکلتی ہے تو اس پر یہ چیک کیوں نہیں لگتا کہ سنٹر کا ٹائم کیا ہے اور دورانیہ کتنا ہے۔ ۔ ۔ یا لڑکا جب رات کو بارہ بجے گھر میں داخل ہو رہا ہے تو باپ کیوں نہیں پوچھتا کہ کہاں سے آرہے ہو،

بہرحال یہ وہ دلخراش حقائق ہیں جو ہم کو قبول کرنے ہونگے اور اس کے سدباب کے لئے محض سرکار کی طرف نہیں انفرادی طور پر سوچنا اور کوشش کرنا ہوگی۔ افسوس یہ ہے کہ جب میں پوسٹ محفل میں انٹر کرونگا تو بعض لوگ یہی کہیں گے کہ ایسا تو نہیں ہوتا محض الزامات ہیں اور غیر مصدقہ رپورٹ ہے، اس میں ایسے تمام خواتین و حضرات کو یہ پیشگی اطلاع دے دوں کہ اگر آپ اس قسم کی صورتحال کا اگر شکار نہیں ہیں تو پلیز یہ نا سمجھیں کہ پورا معاشرہ ہی ایسے چل رہا ہے، بلکہ یہ سوچیں کہ کہیں ہمارے ارد گرد بے خبری میں تو کیہں ایسا کچھ نہیں چل رہا ہے۔ ۔ ۔

میں اتنا کہونگا کہ زیادہ بے خبری اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ یونس رضا
 

شمشاد

لائبریرین
ڈاکٹر صاحب واقعی یہ سب کچھ اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ میں تو اس سے بھی زیادہ بھیانک واقعات کا شاہد ہوں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان کے لڑکیوں کے سب سے بڑے دینی مدرسے میں دینی تعلیم کے لئے داخل کئی سو لڑٌکیوں کا ایک بار بالواسطہ ٹیسٹ ہوا تھا(یعنی کسی اور بہانے سے‌)، پچھہتر فیصد لڑکیوں کے ٹیسٹ مثبت تھے۔ ان میں آٹھ سال سے زیادہ عمر کی لڑکیاں تھیں۔ ان کے مین ہول میں اکثر و بیشتر انسانی نوزائیدہ بچے اور فیٹس ملتے ہیں۔ اسی مدسرے کی لڑکیوں میں سے کئی کو دینی تعلیم مکمل ہونے پر والدین کو اطلاع دیئے بغیر "اعلٰی تعلیم" کے لئے ہمارے مقدس ملک بھیجنا جاتا ہے
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان کے لڑکیوں کے سب سے بڑے دینی مدرسے میں دینی تعلیم کے لئے داخل کئی سو لڑٌکیوں کا ایک بار بالواسطہ ٹیسٹ ہوا تھا(یعنی کسی اور بہانے سے‌)، پچھہتر فیصد لڑکیوں کے ٹیسٹ مثبت تھے۔ ان میں آٹھ سال سے زیادہ عمر کی لڑکیاں تھیں۔ ان کے مین ہول میں اکثر و بیشتر انسانی نوزائیدہ بچے اور فیٹس ملتے ہیں۔ اسی مدسرے کی لڑکیوں میں سے کئی کو دینی تعلیم مکمل ہونے پر والدین کو اطلاع دیئے بغیر "اعلٰی تعلیم" کے لئے ہمارے مقدس ملک بھیجنا جاتا ہے
استغفر اللہ۔
 
مالی معا،لات پر جس ملال کا اظہار کیا گیا ہے وہ جناب کا ذاتی ملال لگتا ہے، یہ نہ کسی پر تنقید ہے اور نہ ہی تائید ہے۔ عرض ‌یہ ہے کہ مالی معاملات میں ڈاکٹر صاحب صائب الرائے نہیں نظر آتے ، ان کو آدم اسمتھ کی 'ویلتھ آف اے نیشن' کا مطالعہ کافی افاقہ دے گا۔ نام اور لنک دونوں نیچے دئے ہیں۔

Adam Smith
An Inquiry into the Nature And Causes of the Wealth of Nations
1776
http://www.adamsmith.org/smith/won-index.htm

رہی خواتین کے بارے میں رائے تو اس پر شماریات کیا ہیں، بہت مشکل ہے کچھ کہنا، کہ شماریات جھوٹ سے بڑھ کر جھوٹ ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر ایک جذباتی و جنسی گھٹن پر مشتمل معاشرہ ہے، لہذا اس قسم کی کہانیاں عموماَ زبانی اور ذہنی چٹخارہ کے لئے روزنامہ آغاز جیسے اخبارات کا معمول رہی ہیں۔ مجھے اس کہانی میں کسی عملی فائیدے کا معمولی سے شائبہ بھی نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی مناسب احاطہ کسی مسئلہ کا اور نہ ہی ایسے کسی مسئلے کا حل موجود ہے۔

ساری کہانی انجان کرداروں پر گھومتی ہے،کچھ لوگوں نے کہا، ایک ڈاکٹر نے کہا۔۔۔۔ ایک صاحب نے کہا ۔۔۔۔ کسی نے کہا ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن کوئی بھی حتمی منبع Reliable Source of Infornmation موجود نہیں ہے۔ عرص یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب خود کسی جرم کے ذاتی شاہد ہیں تو اس معاملے کو مناسب انتظامیہ تک پہنچائیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو بہتان تراشی سے اجتناب فرمائیں۔

یہ کافی عام جواز ہے کہ خواتین و حضرات کے ملنے سے بدکاریاں پھیل جاتی ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ برائی برائی ہے اور اس کا باعث خواتیں و حضرات کا دور و قریب ہونا نہیں ہے۔

اللہ تعالی ہم کو ہر قسم کی بہتان تراشی سے منع فرماتے ہیں۔ اگر کوئی جرم سامنے ہو تو اس کو سزا کا سلسلہ شروع کیا جائے لیکن اتہام تراشی سے گریز کیا جائے، دیکھئے۔

[ayah]33:58[/ayah] اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا

اور جو لوگ رفیق و مددگار مردوں اور عورتوں پر لگائے گئے بہتان کو سن کر اس کو کھلا بہتان قرار نہیں دیتےتو اس طرح مخاطب کرتا ہے:
[ayah]24:12[/ayah] ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا (جھوٹ پر مبنی) بہتان ہے

اللہ تعالی خواتین و حضرات کو مل کر کام کرنے کی تلقین فرماتے ہیں:
[ayah]9:71[/ayah] اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

خدا خود گواہی دیتا ہے کہ مومن مرد و عورتیں، معاشرے میں اپنے کام کی بناء پر اور فلاحی مملکت کے نظام کے کام میں اس آپسی مددگاری کے باعث آخرت میں کس صورت ہوں گے۔

[ayah]57:12[/ayah] (اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے

[ayah]4:124[/ayah] اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے

اللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت، اوپر دیا گیا افسانہ ایک قسم کی افواہ سازی ہے جس میں‌حقائق موجود نہیں۔ اس کا واحد مقصد خواتین کی معاشرے میں شمولیت کی دل شکنی کرنا ہے۔ ایسا کرنا نامناسب عمل ہے۔

[ayah]3:195[/ayah] پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے

ایک فلاحی ریاست کے قیام کا تصور عورتوں اور مردوں کی مساوی شمولیت کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس مساوی شمولیت کے نتیجے میں اللہ تعالی جس معاشرے کی تخلیق فرما رہے ہیں، اس میں شامل مردوں اور عورتوں سے اس کام کے اجر کا وعد فرماتے ہیں، جو کام ان کو [AYAH] 9:71 [/AYAH] میں ‌سونپا ہے۔

[AYAH]9:72[/AYAH] اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہے

ڈاکٹر صاحب سے التماس ہے کہ وہ قرآن کو اپنے ذاتی مطالعہ کا حصہ بنائیں تاکہ اسلامی اور غیر اسلامی نظریات میں‌بآسانی فرق کرسکیں۔ ہدایت دینے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔
 
محترم فاروق سرور صاحب ! یہ میری نہیں آپ کے اپنے وطن کے دو بڑے شہروں کی دو بڑی درسگاہوں کے طلبہ اور طالبات کی رپورٹ ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مغربی مفکرین کی کتابوں کی ورق گردانی کے بجائے عملی کام کر رہے ہیں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان ظالم لوگوں میں سے ہیں جو صرف چار کتابیں پڑھ کر محترم اقبال جیسے عظیم مفکرین کو نظشے جیسے نا بالغ مفکر کا پیروکا ر کہھ ڈالتے ہیں۔ رو گیئی بات انتظامیہ کی تو میرے دوست آپ کس انتظامیہ کی بات کر رہے ہیں ذرا معاشرے میں نکل کر دیکھیں اور عام پاکستانی کی حیثیت سے ذرا اس انتظامیہ سے ملیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کا رویہ کیسا ہو گا، رہے مسٹر آدم اسمتھ یا مارشل وغیرہ تو صاحب یہ صرف کتابوں میں رہ گیا ہے ، عملی طور پر ایسا نہیں ہے، کامن سینس کی بات ہے، ایک بچہ کوئی کام نہیں کرتا ہے اور اس کا روزانہ کا خرچہ تین سو روپے ہے ، تو بس یہاں ذرا ان معیشت دان حضرات کی تھیوری اپلائی کرکے بتائیں کہ یہ انفرادی اور اجتماعی طور پر کہاں تک درست ثابت ہوتی ہیں،
رہی بات الزامات کی تو جو سامنے ہے وہ الزام نہیں ہے، اگر آپ اور میں خود برائی دیکھ کر نظر چرائیں اور اس کو کوئی اور بیان کرے پھر ہم اسکو تہمت کہیں تو بزدل تو ہم ہوئے نا ؟
قران کریم محض کو ٹیشن کے لئے نہیں ہے، یہ عمل کی بھی دعوت دیتا ہے،
سب سے اہم بات جو یاد رکھنے کی ہے، کوئی بھی کتاب ، کسی بھی موضوع پر ہو، اس کو لکھتا ایک فرد واحد ہی ہے، جب ہم اس سے انسپائر ہوتے ہیں تو وہ ایک اتھارٹی بن جاتی ہے، لیکن یاد رہے کہ وہ کتاب ایک فرد واحد کا اپنا خیال ہے، ہزاروں اتفاق کرنے والوں کی وجہ سے وہ معاشرے کی نمائندہ کتاب بن جاتی ہے، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ سارے ہی بے وقوف ہوں جو پسند کر رہے ہیں، اس کی مثال ہمارے معاشرے کے آمروں سے لی جا سکتی ہے، نفرت کا اظہار سب کرتے ہیں اور پھر الیکشن میں اسکو ہی جتوا تے ہیں، اور الزام بیرونی باتھوں پر ہوتا ہے،
ایک مثال :- میرا اسٹاک ایجنٹ جس کی سیلیری اب سترہ ہزار ہے ، اسکی اس تنخواہ میں پچھلے تین سال میں صرف چار ہزار کا اضافہ ہوا ہے، اور مہنگائ کی شرح میں چار سو فیصد، وہ اس وقت بھی ادھار طلب کرتا تھا، ہپلے اسکے اخراجات کم تھے اب زیادہ ہیں، پہلے اسکے بچے چھوٹے تھے، اب پڑے ہو گئے ہیں، سب تعلیم حاصل کررہے ہیں اسی حساب سے اخراجات بھی ہیں ، اور اخراجات محض کتابوں اور فیس کا نہیں ہوتا ہے، لباس ، خوراک، بیماری دکھی وغیرہ سب ہی شامل ہیں، اب اس کے پانچوں بچوں کے پاس موبائل ہیں، دو لڑکوں کے پاس موٹر سائیکل ہے، اور کوئ بچہ جاب نہیں کرتا ہے، ذرا موازنہ کریں کہ یہ آخراجات کی مد میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوا ہے، اور اسکی تنخواہ میں صرف چند فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ یہ باقی اخراجات اسکے اسرائیل ، امریکہ ، سویڈن وغیرہ برداشت کر رہے ہیں یا کوئ فرشتہ ؟

کچھ نا کرنے سے تنقید کرنا بہت آسان ہے سر! شکریہ ادا کریں اپنے طلبہ کا جو ہم کو ہمارے معاشرے کا عکس دکھا رہے ہیں ۔ ۔

میں مالی طور پر مضبوط حیثیت کا مالک ہو اب اگر میں اپنی حیثییت سے معاشرے کا موازنہ کرونگا تو یہ محض حماقت ہوگی، کیونکہ میرے بیشتر کام ٹیلیفون پر ہو جاتے ہیں، ان کے بارے میں سوچیں جو ہم جیسے نہیں ہیں، ہماری خرابی یہی ہے کہ ہم اپنے مسائل کو مسائل گردانتے ہیں، جب تک ہم پر مصیبت نہیں آتی اس وقت تک ہمیں سب اچھا نظر آتا ہے،

کوشش کریں کہ غریب کی آنکھ سے غریب کو دیکھیں اور دو وقت کا فاقہ کرکے بھوکے کی بھوک محسوس کریں، ویسے اسکے لئے روزے کا سہارہ نا لینا آپ کے لئے خاصا افاقہ کا باعث ہوگا، کیونکہ پھر آپ اسکو ثواب کے زمرے میں رکھ کر صبر کر لیں گے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اظہرالحق

محفلین
یار یونس صاب اتنا بھی تو سچ نہ بولیں ۔ ۔ ۔ ہاضمہ خراب ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ ویسے بھی ہمیں سب پتہ ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے اور ہم کیا کرتے ہیں مگر کیا کریں ۔ ۔ ۔ ہم سے زیادہ نیکو کار اور پرہیز گار کوئی نہیں اور ۔ ۔ ۔ سارا قصور ہی ۔ ۔ ۔ ان کا ہے جنہیں ۔۔ ہم "اپنا" کہتے ہیں ۔ ۔
 
بہت شکریہ، آپ کا رسپانس میری توقع کے خلاف نہیں۔ مناسب ریفرنس کی کمی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ خواتین کے معاملے میں کچھ لوگوں کے عقائد قرآن کی بنیادی تعلیمات سے میل نہیں کھاتے، خصوصاَ جب معاملہ عورتوں کا ہو۔ کوئی بھی شماریات یا سماجی خرابی تصوراتی خاکوں سے جنم نہیں لیتی۔ حقیقتوں اور ثبوتوں‌کی ضرورتمند ہے۔

مالیات کے معاملے میں "دولت کی روانی" کو "خرچ" کی مد میں ڈالنا، کسی بھی معاشی حساب سے درست نہیں۔ آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ مال کی اس روانی میں کونسی نیچرل ریسورس ضائع ہو رہی ہے؟ خرچ یعنی کنزمپشن اور مال کی قوم میں روانی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ آپ ان دونوں کو کنفیوز کررہے ہیں۔ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ مال کو ایک جگہ رکنے نہ دے، یہی بات ہماری کتاب میں "ینفقون" کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ [arabic] " وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ"[/arabic] ایک بہت عظیم تھیوری ہے جو قرآن بارہا پیش کرتا ہے۔ اگر آپ جدت پسن ہیں تو آپ آدم اسمتھ کی کتاب کا مطالعہ فرمائیے اور اگر آپ کا اور میرا کامن پروٹوکول اسلام ہے تو قرآن کی فراہم کردہ جدید مالی نظریات کو دیکھئے، آپ کو دولت کی روانی کا نظریہ بہتر سمجھ میں آئے گا۔ بنیادی طور پر جب لوگ فون استعمال کررہے ہیں تو اس دولت کو روان کرنے کے لئے کیا نیچرل ریسورس ضائع ہورہی ہے؟

مزید یہ کہنا کہ عورتوں کو فون میسر آ گیا ہے اس لئے نت نئی معاشرتی برائیاں‌جنم لے رہی ہیں ایک خوبصورت مذاق ہے۔ ہمارے لئے یہ امر تلخ ہے کہ ہم معاشرے میں خواتین کے مساوی کردار کو آسانی سے تسلیم کرسکیں۔ ایسا کیوں ہے ، ا س کی وجہ بچپن کے لگے انجکشنز ہیں۔ اس مد میں‌قرآن کے احکام واضح ہیں، مزید آیات پیش کرکے خوشی محسوس کروں گا، اگر ایسا درست نہیں تو استدعا ہے کہ ایک عدد آیت ایسی پیش فرمائے جو واضح طور پر عورتوں کے معاشرے میں نیک کاموں میں شمولیت کی ممانعت کرتی ہے، تاکہ میں یہ نکتہ نظر سمجھ سکوں کہ عورتوں پر معاشرے میں آزادانہ شرکت پر پابندی ہونی چاہئیے۔
 
آپ زیر نظر تحریر کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں سر جی ! ذرا غور کریں کہ ان طلبہ نے کیا بتانا چاہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہاں حصول دولت، روانی دولت، یا عورت پر تہمت کی بات نہیں کر رہے ہیں، یہ آرٹیکل بھی چند مردوں اور چودہ عورتوں نے تحریر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا مقصد صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ "ضرورت اور خواہش" کا فرق کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ضرورت خواہش میں اور خواہش حوس میں تبدیل ہو جائیں تو حاصل جواب کیا آتا ہے ۔۔۔۔ اور اس حاصل جواب کو برآمد کرنے میں جب دیگر عوامل کا کیلکیولیٹر میسر آرہا ہو تو کیا نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ دیگر عوامل کیا ہیں سب ہی جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہی بات عورت کی تو عزیزم یہاں انہوں نے عورت کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ سمجھایا کہ بھینس جب تک ایک کھوٹے سے بندھی رہے ٹھیک رہتی ہے۔۔۔ اور جب اسکی رسی کھل جائے تو باقی کھیتوں کا حال کچھ اچھا نہیں ہوتا ہے۔۔۔
خیر مزاق سے ہٹ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کو اسلام نے جو درجہ دیا ہے اس کے مطابق اس کا عملی طور پر متحرک ہونا ہی ایک اچھے معاشرے کی بنیاد ہو سکتا ہے۔ اور اسکے لیئے اسکا ہر طرح کی تعلیم حاصل کرنا بیحد ضروری ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم نے عورت کو محض مردوں کی تسکین کا ذریعہ بنا لیا ہے۔۔۔۔۔۔ غور کریں تو معاشرے کی بگاڑ میں صرف مرد اور مرد کا ہی ھاتھ نظر آئے گا۔۔۔۔ اگر ایک عورت گلوکار ہے تو اسکا استاد ایک مرد موسیقار ہے۔۔۔۔۔ اگر ایک عورت رقاصہ ہے تو اسکا ڈانس ماسٹر ایک مرد ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ ہیروئن ہے تو پروڈیوسر اور ڈائکٹر بہرحال اک مرد ہی ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس یہ ہے ایک مرد عورت کو ماں، بہن ، بیٹی، کے بجائے ساتویں روپ میں دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ہے "محبوبہ"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب وہ ایسی بن جاتی ہے تو معاشرے میں کیسا بگاڑ آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آپ آرٹیکل کو پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
 

فرخ منظور

لائبریرین
قیصرانی صاحب نے تو ایک زنانہ مدرسے کا ذکر کیا لیکن چونکہ مرد حاملہ نہیں‌ہوسکتا اس لیے مردانہ دینی مدرسوں میں‌ جو کچھ ہوتا ہے اسکا کوئی ثبوت نہیں‌مل سکتا لیکن اگر مل سکتا تو وہاں 90 فی صد پازیٹیو آتے -
 
صاحب مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ خیالات کسی اور کے ہیں اور آپ کے نہیں، اور آپ ان خیالات سے متفق بھی نہیں ہیں۔ مجھے تو یہ آرٹیکل کسی طور ضرورت اور خواہش کا فرق نظر نہیں آتا، اس میں واضح طور پر دو سوچوں کا اظہار ہے، ایک "دولت کے ضیاع " کا اور دوسرے 'ٹیلیفون اور بننا سنورنا عورتوں کے ہاتھ آجانے سے ان کے آوارہ ہوجانے کا"۔ یہی الزام آپ مردوں پر بھی تھوپ سکتے ہیںکہ ان کے ہاتھ فون آ گیا ہے اور بے راہ رو ہو گئے ہیں۔ بے راہ روی یکطرفہ نہیں ہوسکتی ، اس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر یہ صرف ضرورت اور خواہش کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے تو صاحب ہم اس میں سے ٹیلی فون پر ہونے والے مالی تخمینے الگ کردیتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہونے والی خواتیں کی بے راہ روی بھی تو اب بتائیے کیا بچتا ہے اس آرٹیکل میں۔

صاحب بنیادی بات یہ ہے کہ جو قومیں عورتوں کی تجارت کرتی رہی ہیں ، وہ خواتین کو کھونٹے سے ہی باندھنا چاہتی ہیں تاک بلیک مارکیٹنگ کی جاسکے، قراں کی یہ آیات ان قوموں کے لئے تازیانہ ہیں اور ان کی یہی کوشش رہی ہے کہ قرآن کی ان آیات کو جن میں مردوں اور عورتوں کو مل کر رفیق و مددگار کی حیثیت سے مل جل کر نیک کاموں کے کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، چھپا دی جائیں۔ اور جو لوگ صرف مردوں کی دوستی کو عیب نہیں سمجھتے وہ اس حقیقت سے منہہ چھپاتے ہیں کہ مرد اور مرد بھی بے راہ رو ہوتے ہیں۔ آپس میں‌مل جل کر تعلیم حاصل کرنا یا نیک کام کرنا، اس میں مرد و عورت کی معاشرے میں شمولیت پر کوئی پابندی نہیں۔
آخری بار درخواست کررہا ہوں کہ کم از کم ایک آئت جو عورتوں اور مردوں کو معاشرے میں‌ مناسب شمولیت کو منع کرتی ہو فراہم فرمائیں تاک بندہ "بھینس کو کھونٹے سے باندھنے" والے ان عقائد کی درستگی کو تسلیم کرسکے۔ صاحب ایک تعلیم یافتہ قوم صرف ایک تعلیم یافتہ ماں ہی پال سکتی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب فاروق سرور صاحب!‌ حالآنکہ یونس صاحب بقول ان کے ملکوں ملکوں پھرے ہیں‌لیکن انہیں‌عورتوں کے بے راہ رو ہونے کا بہت قلق ہے- لیکن جومرد بے راہ رو ہیں اسکا انہیں کوئی غم نہیں اور مجھے حیرت ہے کہ جو عورتیں بے راہ رو ہوتی ہیں‌کیا وہ ایسے مردوں کے ساتھ ہوتی ہیں جو شریف ہوں، ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا - اس لیے جتنے فی صد عورتیں بے راہ رو ہیں اتنے فی صد مرد بھی بے راہ رو ہوں گے بلکہ انکی تعدا ان عورتوں سے کہیں‌زیادہ ہے - لیکن مرد پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا - سائیں اختر حسین نے ایک نظم لکھی تھی پنجابی میں "میں اک ناتا دھوتا گھوڑا" جس میں ایک مرد اپنی بے راہ روی کا ذکر کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ میں پھر بھی پاک صاف ہی رہوں گا لیکن حرف آئےگا تو عورتوں پرکیونکہ میں آخر ایک مرد ہوں -
 
بھائی، ہم سب مجھ سمیت، بہت سے معاملات میں علم کی کمی کا شکار ہیں، اگر مل جل کر بہتر سمجھ سکیں تو ایک دوسرے پر احسان ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ایک ایسا مضمون سامنے لائے جو بنیاد بنا ان آیات کو سامنے لانے کی، جو معاشرے میں خواتین و حضرات کی مساوی عزت و احترام و درجہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ہمارے پاس خواتین و حضرات کی آپس میں مناسب رشتے داری کے لئے معاشرتی اصول اور پیمانے اتنے ملگجے ہیں کہ مناسب رشتے داری کی کوششوں کو بے راہ روی کے پیمانوں سے ناپتے ہیں۔

ہم زیادہ تر 'ایمان لانے کو' محض 'کلمہ پڑھنے کی حد" تک مانتے ہیں۔ جبکہ ایمان لانے کو "قرآن کو مکمل طور ماننا" کے معنوں میں لینا چاہئیے کہ اسلام کے بنیادی اصول قرآن ہی فراہم کرتا ہے اور سنت تفصیلات و جزئیات سے آگاہی۔ ماشاء اللہ آپ سب سمجھدار ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، کوئی وجہ نہیں کہ قرآن کو پڑھ کر سمجھ نہ سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو ہم کو اس کا علم تو ہو جائے گا کہ ہمارے ایمان کی اساس کیا ہے۔ کس بات پر کان دھریں اور کس پر نہیں۔ میں ذاتی طور پر آپ کو اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک جدید علم پر مبنی کتاب پائیں گے۔

یہاں بطور ریفرنس دی ہوئی ہر آیت سے پیشتر اس آیت کا لنک ہے جو قرآن کے 21 عدد ترجموں پر لے جاتا ہے۔ یہ اکیس عدد ترجمے اردو اور انگریزی مسلم، غیر مسلم ، جدید و قدیم مترجمین کے کئے ہوئے ہیں۔ اس سے نہ صرف سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباَ تمام مترجمین نے قرآن کے معانی کم و بیش یکساں ہی لئے ہیں۔ اللہ تعالی سورۃ القمرمیں چار بار گواہی دیتے ہیں دیکھئے [AYAH]54:17[/AYAH] اور [AYAH]54:22[/AYAH] اور [AYAH]54:32[/AYAH] اور [AYAH]54:40[/AYAH]

[ARABIC]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ[/ARABIC]

اس آیت کا ترجمہ دیکھئے
Tahir ul Qadri اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے
Yousuf Ali And We have indeed made the Qur'an easy to understand and remember: then is there any that will receive admonition? x​
Ahmed Ali اور البتہ ہم نے سمجھنے کے لیے قرآن کو آسان کر دیا ہے پھر ہے کوئی سمجھنے والا
Ahmed Raza Khan اور بیشک ہم نے آسان کیا قرآن یاد کرنے کے لیے تو ہے کوئی یاد کرنے والا،
Shabbir Ahmed اور یقینا آسان بنادیا ہے ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟

مزید 17 ترجموں کے لئے دیکھئے :
http://www.openburhan.net/ob.php?sid=54&vid=17

ان تراجم میں جارج سیل کا ترجمہ بھی ہے جواس ترجمہ کو لکھنے کے وقت غیر مسلم تھا، اور نامور مسلمانوں کے تراجم بھی ہیں۔ ان کو پڑھ کر آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ قرآن ایک آسان کتاب ہے، اگر یہ مسلم و غیر مسلم کی سمجھ میں یکساں آتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس کو نہ سمجھ سکیں۔ خاص طور پر اللہ تعالی کی اس گواہی کے بعد ۔
 
۔۔۔۔ اور مجھے حیرت ہے کہ جو عورتیں بے راہ رو ہوتی ہیں‌کیا وہ ایسے مردوں کے ساتھ ہوتی ہیں جو شریف ہوں، ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا - اس لیے جتنے فی صد عورتیں بے راہ رو ہیں اتنے فی صد مرد بھی بے راہ رو ہوں گے بلکہ انکی تعدا ان عورتوں سے کہیں‌زیادہ ہے - لیکن مرد پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا - ۔۔۔ -

سخنور آپ نے درست فرمایا۔ اس مد میں قرآن کی آیات۔ یہ ایک شخص (مرد یا عورت) پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کیا منتخب کرتا ہے۔

[ayah]24:3[/ayah] [arabic]الزَّانِي لَا يَنكِحُ إلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ[/arabic]
بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرک عورت کے نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت (بھی) سوائے بدکار مرد یا مشرک کے (کسی صالح شخص سے) نکاح نہیں کرتی، اور یہ مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا ہے

[ayah]24:26[/ayah] [arabic]الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُوْلَئِكَ مُبَرَّؤُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ[/arabic]
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے (مخصوص) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لئے ہیں، اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں، یہ (پاکیزہ لوگ) ان (تہمتوں) سے کلیتًا بری ہیں جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں، ان کے لئے (تو) بخشائش اور عزت و بزرگی والی عطا (مقدر ہو چکی) ہے۔
 
فاروق صاحب آپ ماشاءللہ موضوع کو ہائی جیک کرنے کے حوالے سے اب مثالی شہرت رکھتے ہیں ۔

ذرا آرٹیکل دوبارہ پڑھیے اور بتائیں کہ اس میں کیا صرف عورتوں کا ہی ذکر ہے یا نوجوانوں کا ذکر ہے اور براہ کرم یہ بھی بتائے گا کہ

کسی سروے میں بات رجحان کی کی جاتی ہے یا نام لے لے کر چند لوگوں کی اور اگر کی بھی جائے تو اس میں کیا فادیت ہوتی ہے۔

نیز یہ بھی بتائےگا کہ یوفون کی ایک تازہ آفر ہے رات 12 سے صبح 7 بجے تک صرف ڈھائی روپے گھنٹہ بات اس کا مقصد کس تخلیقی اور علمی کام کو فروغ دینا ہے ؟ اس پر آدم اسمتھ کے اقوال بھی ہو سکیں تو درج کر دیجیے گا اور قرآنی آیت کے ساتھ ذرا تشریح بھی کیا کیجے قرآنی آیات تو ہر طبقہ اپنے مطلب کے حساب سے نقل کر دیتا ہے یقین نہ آئے تو

کسی عامل شاہ کا اشتہار پڑھ لیجیے وہ بھی کلام الہی سے جن نکالتے ہیں۔
 
یونس رضا صاحب نے جو اعداد و شمار پیش کیے ان میں سے ایک اقتباس یہ ہے

چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائ حقیقی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تمام کمپنیز اپنی آمدنی کو سرکاری افسران کی سرپرستی میں چھپا کر رکھتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں چھوٹ حاصل رہے۔

ان اعداد و شمار پر ذرا غور فرمائیے کہ یہ جو روزانہ پیسہ بیلنس کی مد میں استعمال ہو رہا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے؟ بے روزگاری حد سے تجاوز کر چکی ہے، مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، ان حالات میں تو انسان ایک وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا یہ موبائل کی عیاشی کے لئے ان بچوں کو پیسہ کہاں سے مل رہا ہے،

کوئی عبقری آ کر مجھے یہ سمجھا دے کہ اس میں قصور وار صرف عورتیں اور لڑکیاں نکلتی ہیں اور یونس رضا صاحب نے جو سروے پیش کیا ہے اس کا نتیجہ بقول عالم فاضل فاروق سرور صاحب کے یہ کیسے نکلتا ہے

ٹیلیفون اور بننا سنورنا عورتوں کے ہاتھ آجانے سے ان کے آوارہ ہوجانے کا (‌ کیا لڑکوں اور بچوں کے خراب ہونے کا ذکر تھا نہیں یا فاروق‌ صاحب کی دوربیں نظر نے پڑھا ہی نہیں (

اور سخنور صاحب آپ بھی فاروق صاحب کی ہر بات پر لبیک کہنے سے پہلے کچھ پڑھنے کی سعی بھی کر لیا کریں صحت اور گفتگو دونوں کے لیے کافی مفید ہوگا۔

اللہ ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
 
آپ یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ اس آرٹیکل کے واضح بنیادی نکات کیا ہیں ؟
اور یہ بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ آپ کا اپنا نکتہ نظر کیا ہے؟ آُ کس بات سے متفق اور کس بات سے غیر متفق ہیں؟ تنقید کس بات پر ہے اور تائید کس بات کی ہے؟

لوگوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے اور ان کی کردار کشی کرنا بحث کرنے والے کی ذہنی کم سنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اصولوں پر اپنا نکتہ نظر پیش کیجئے۔
جماعت اسلامی کے بنیادی عقائد پر یہ ایک ضرب ہے کہ خواتین معاشرہ میں مساوی سلوک، عزت و احترام و مساوی درجہ کی حقدار ہیں۔ وہ خواتین کو برقعہ میں پابند، محروم ، اور ،مرد کا محتاج دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ جو کہ قرآن کے بنیادی پیغام کے منافی ہے۔ اس کے لئے یہ کوئی بھی تاویلات پیش کرنے پر تیار ہیں۔ وجہ اس کی کیا ہے؟‌ خواتین کی بلیک مارکیٹنگ، تاکہ ان مدرسوں میں ظلم کی ‌وہ کاروائی جاری رہے جس کا تذکرہ قیصرانی اور شمشاد نے اوپر کیا ہے اور معصوم خواتین اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرسکیں۔

اس آرٹیکل میں 'مال کی روانی ' کو 'ضیاع' سے تعبیر کیا گیا ہے اور نہایت صفائی سے ا س کا تعلق 'خواتین اور ان کی مبینہ بے راہ روی' سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں صرف میں نے ہی نوٹ‌ نہیں کی بلکہ دوسری قارئین نے بھی نوٹ کی۔ اس قسم کی اتہام تراشی اور بہتان تراشی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر آپ کسی خاتون کو یا خواتین کے کسی گروپ پر ایسا الزام دھر رہے ہیں تو اس گناہ میں شریک مرد یا مردوں کے اس گروپ کو بھی سامنے لائیے، مکمل اور حتمی ثبوت کے ساتھ۔ کہ ایسا گناہ دو فریق کے غیر ممکن ہی نہیں۔

کیوں؟
اس لئے کے ایسے غیرذمہ دارانہ آرٹیکلز سے خواتین کی کردار کشی ہوتی ہے اور خواتین کی عزت نفس میں‌کمی آتی ہے اور وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو حقیر تصور کرتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد حضرات ان کاروائیوں میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ہر شخص جو موبائیل لے کر گھوم رہا ہے یا رہی ہے، اس کو ایک خاص سانچے میں فٹ کرکے دیکھنا، نا مناسب ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یونس رضا صاحب نے جو اعداد و شمار پیش کیے ان میں سے ایک اقتباس یہ ہے



کوئی عبقری آ کر مجھے یہ سمجھا دے کہ اس میں قصور وار صرف عورتیں اور لڑکیاں نکلتی ہیں اور یونس رضا صاحب نے جو سروے پیش کیا ہے اس کا نتیجہ بقول عالم فاضل فاروق سرور صاحب کے یہ کیسے نکلتا ہے

ٹیلیفون اور بننا سنورنا عورتوں کے ہاتھ آجانے سے ان کے آوارہ ہوجانے کا (‌ کیا لڑکوں اور بچوں کے خراب ہونے کا ذکر تھا نہیں یا فاروق‌ صاحب کی دوربیں نظر نے پڑھا ہی نہیں (

اور سخنور صاحب آپ بھی فاروق صاحب کی ہر بات پر لبیک کہنے سے پہلے کچھ پڑھنے کی سعی بھی کر لیا کریں صحت اور گفتگو دونوں کے لیے کافی مفید ہوگا۔

اللہ ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
میرا خیال ہے کہ فاروق سرور خان نے یہ پوچھا تھا کہ اس سروے میں جو یہ معلومات ہیں کہ مثلاً اتنے کروڑ‌کا بیلنس استعمال ہوا، اس کا ماخذ‌کیا ہے؟ بقول پہلے پیغام کے

چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائ حقیقی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تمام کمپنیز اپنی آمدنی کو سرکاری افسران کی سرپرستی میں چھپا کر رکھتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں چھوٹ حاصل رہے۔


اس انتہائی حقیقی کے حقیقی ہونے کا کوئی حوالہ؟

کیا اس طرح‌کی معلومات کا کوئی حوالہ مانگنا موضوع کو ہائی جیک کرنا کہلاتا ہے؟ شاید محب نے اردو ڈکشنری بھی اسی طرح تیار کرائی ہوگی؟:cool:

اس طرح تو موضوع کو ہائی جیک کرنے میں محب بھائی کا بھی کوئی جواب نہیں ;)
 
میرا خیال ہے کہ فاروق سرور خان نے یہ پوچھا تھا کہ اس سروے میں جو یہ معلومات ہیں کہ مثلاً اتنے کروڑ‌کا بیلنس استعمال ہوا، اس کا ماخذ‌کیا ہے؟ بقول پہلے پیغام کے

چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائ حقیقی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تمام کمپنیز اپنی آمدنی کو سرکاری افسران کی سرپرستی میں چھپا کر رکھتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں چھوٹ حاصل رہے۔


اس انتہائی حقیقی کے حقیقی ہونے کا کوئی حوالہ؟

کیا اس طرح‌کی معلومات کا کوئی حوالہ مانگنا موضوع کو ہائی جیک کرنا کہلاتا ہے؟ شاید محب نے اردو ڈکشنری بھی اسی طرح تیار کرائی ہوگی؟:cool:

اس طرح تو موضوع کو ہائی جیک کرنے میں محب بھائی کا بھی کوئی جواب نہیں ;)


قیصرانی سروے کا ماخذ کراچی اور لاہور کے طلبہ و طالبات کو بتایا گیا ہے اور سروے میں تمام لوگوں سے نہیں بلکہ ایک منتخب تعداد سے ہی پوچھا جاتا ہے کہ تمام لوگوں سے پوچھنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا یقینا شیئر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں مقصد ڈیٹا کی درستگی کی یقین دہانی کروانا نہیں بلکہ اس سروے کے عمومی نتائج پر بحث کرنا تھا۔

تم نے سوال کیا ہے کہ
اس انتہائی حقیقی کے حقیقی ہونے کا کوئی حوالہ؟

تم جواب دو کہ اس کے غیر حقیقی ہونے کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے اور حوالہ جات فراہم نہیں کیے جا سکتے کیونکہ اس طرح کی معلومات صیغہ راز میں رکھی جاتی ہے ورنہ نہ صرف صارفین بلکہ کمپنی کی طرف سے بھی ہرجانہ کا دعوی ہو سکتا ہے۔ پاکٹل کی ڈیٹا وئیر ہاؤسنگ ہماری کمپنی کے پاس ہے اور میں اس کے سٹیٹس جانتا ہوں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں مگر میں انہیں یہاں شائع نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ڈیٹا کی رازداری کی خلاف ورزی ہوگی اسی طرح میرے دوست ٹیلی نار ، یوفون اور موبلنک کی ڈیٹا وئیر ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ میں ہیں اس لیے میں آپ دونوں سے بہت بہتر پوزیشن میں ہوں ان اعداد و شمار کی تائید کرنے میں ۔

اب آپ بتائیں کہ آپ نے صرف میری مخالفت و مخاصمت میں جو فاروق سرور صاحب کی حمایت کی ہے اس کے لیے آپ کے پاس کیا دلائل ہیں اور کیا اعداد و شمار ہیں، میں نے تو حقائق اور اعداد شمار کے حوالے بھی بتا دیے آپ کو۔

ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے شاید آپ حضرات کے علم میں نہ ہو مگر اس وقت ایک اینڈ پر بہت ہی کم ریٹ پر بات چیت ممکن ہے اور خاص طور پر رات کو اس لیے ویک اینڈ پر زیادہ آمدنی ایک صاف اور سیدھی سی بات ہے۔

فاروق سرور صاحب نے اجمل صاحب کے ایک موضوع سنت کی تعریف کو ہائی جیک کیا تھا اور وہ اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ قیصرانی آپ میری کوئی مثال دیں گے اور اردو ڈکشنری تیار کروانے کا ذکر یہاں اس طرح الزام تراشی کے ساتھ کرنے کا کیا مقصد ہے آپ کا۔ اگر بھائی تمہیں لگتا ہے کہ میں نے اردو ڈکشنری تیار نہیں کروائی تو نظامی سے پوچھ لو کہ کس نے تیار کروائی ہے اور جواب ملنے پر اگر اخلاقی جرات ہو تو یہاں بتا بھی دینا میں نظامی کو بھی یہاں تمہارے منہ پر کروا دوں گا ویسے اس طرح کے حملے شادی کے بعد سیکھے ہیں یا ہمت اب آئی ہے ۔ ;)
 
Top