واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک غزل جو پچھلے سال لکھی تھی آپ کے ذوقِ سخن کی نذر کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ یہ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔

٭٭٭​

واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا
کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا

ہونا تھا میرا واقعہ آغاز جس جگہ
قصّےکو قصّہ خواں نے وہاں سے بدل دیا

ہے شرطِ جوئے شیر وہی ، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا

اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر
کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا

بیدادِ عشق ہے کہ یہ آزارِ آگہی
سینے میں دل کو دردِ نہاں سے بدل دیا

اس بار دشتِ جاں سے یوں گزری ہوائے درد
موجِ لہوکو ریگِ رواں سے بدل دیا

آنکھوں میں شامِ ہجر کا ہر عکسِ منجمد
مل کرکسی نے اشکِ رواں سے بدل دیا

احساسِ رائگانیِ جذبِ دروں نہ پوچھ
میں نے سکوتِ غم کو فغاں سے بدل دیا

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۹​
 
آخری تدوین:
احبابِ کرام ! ایک غزل جو پچھلے سال لکھی تھی آپ کے ذوقِ سخن کی نذر کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ یہ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔

٭٭٭​

واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا
کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا

ہونا تھا میرا واقعہ آغاز جس جگہ
قصّےکو قصّہ خواں نے وہاں سے بدل دیا

ہے شرطِ جوئے شیر وہی ، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا

اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر
کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا

بیدادِ عشق ہے کہ یہ آزارِ آگہی
سینے میں دل کو دردِ نہاں سے بدل دیا

اس بار دشتِ جاں سے یوں گزری ہوائے درد
موجِ لہوکو ریگِ رواں سے بدل دیا

آنکھوں میں شامِ ہجر کا ہر عکسِ منجمد
مل کرکسی نے اشکِ رواں سے بدل دیا

احساسِ رائگانیِ جذبِ دروں نہ پوچھ
میں نے سکوتِ غم کو فغاں سے بدل دیا

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۹​
خوبصورت خوبصورت!!!

کیا بات ہے جناب بہت داد قبول فرمائیے۔ واہ وا!
 
واہ، بہت خوبصورت کلام

تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا
ظہیر بھائی یہ مصرع سمجھ نہیں آیا۔ تیشے کو کوہِ گراں سے کیسے بدلا جاسکتا ہے۔ مطلب وہ تو کھودنے کا آلہ ہے، اور کوہِ گراں کوئی آلہ نہیں۔ دوسرا یہ کہ کوہ کن کے قصے میں پہلے سے ہی ایک جانب تیشہ ہے اور دوسری جانب پہاڑ، سو "تبدیلی نظر نہیں آرہی۔":)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ، بہت خوبصورت کلام

ظہیر بھائی یہ مصرع سمجھ نہیں آیا۔ تیشے کو کوہِ گراں سے کیسے بدلا جاسکتا ہے۔ مطلب وہ تو کھودنے کا آلہ ہے، اور کوہِ گراں کوئی آلہ نہیں۔ دوسرا یہ کہ کوہ کن کے قصے میں پہلے سے ہی ایک جانب تیشہ ہے اور دوسری جانب پہاڑ، سو "تبدیلی نظر نہیں آرہی۔":)

ہے شرطِ جوئے شیر وہی ، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا
عبید بھائی ، یہ شعر عصرِ حاضرکے فرہادوں کا نوحہ ہے ۔ فرہاد کا تیشہ بدست ہونا یا تیشے کو کاندھے پر لادے پھرنا مشہور ہے اور شعری روایات میں جابجا ملتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے مصرع میں عرض کیا عشق کے تمام لوازمات اور عاشق کے رنج و محن وغیرہ بدستور اپنی جگہ ہیں پہاڑ اپنی جگہ ہے اور اس میں سے جوئے شیر لانے کی شرط اب بھی تقاضائے عشق ہے لیکن وقت کے تقاضے کچھ یوں بدلے ہیں کہ اب فرہاد کے لئے تیشہ اٹھانا گویا کوہِ گراں اٹھانے کے برابر ہے ۔ دوسرے مصرع میں"جیسے" کا لفظ کلیدی ہے اور قابلِ غور ہے ۔"جیسے" یعنی گویا کہ ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ تیشہ اور پہاڑ آپس میں بدل گئے ہیں بلکہ یہ کہ آج کے دور میں فرہاد کے لئے تیشہ اٹھانا ایسا ہے جیسے کوہِ گراں اٹھانا ۔
ظاہر ہے کہ اس شعر میں فرہاد کے قصےکی رعایات سے کام لیا گیا ہے ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاءاللہ۔۔۔ واہ۔۔ مزا آ گیا۔۔۔ شکریہ بڑے بھائی۔۔۔

اب اگلی غزل کا انتظار رہے گا۔
بہت شکریہ، نوازش احمد محمد بھائی ! اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
ہر ہفتے ایک نئے کلام کا وعدہ مجھے یاد ہے ۔ ان شاء اللہ چند روز میں ایک اور نسبتاً تازہ غزل آپ حضرات کی خدمت میں پیش کروں گا ۔
 

احمد محمد

محفلین
ہر ہفتے ایک نئے کلام کا وعدہ مجھے یاد ہے ۔ ان شاء اللہ چند روز میں ایک اور نسبتاً تازہ غزل آپ حضرات کی خدمت میں پیش کروں گا ۔
ظہیر بھائی آپ کا بہت شکریہ۔ شاد و آباد رہیں۔

اور یہ بھی فرمائیں کہ آپ کے مجموعہ کلام کی ای کتاب کا کیا بنا؟ پلیز تھوڑا وقت اسے بھی دیں۔ اس ضمن میں اگر کوئی مدد درکار ہے تو وہ بھی فرمائیں، سب محفلین اور خصوصاً میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہوگی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی آپ کا بہت شکریہ۔ شاد و آباد رہیں۔

اور یہ بھی فرمائیں کہ آپ کے مجموعہ کلام کی ای کتاب کا کیا بنا؟ پلیز تھوڑا وقت اسے بھی دیں۔ اس ضمن میں اگر کوئی مدد درکار ہے تو وہ بھی فرمائیں، سب محفلین اور خصوصاً میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہوگی۔
محمد بھائی ، ہر چیز تیار ہے سوائے پیش لفظ کے ۔ پیش لفظ ہی نہیں لکھا جارہا ۔ لیکن اب فیصلہ کرلیا ہے کہ پیش لفظ کے بجائے مختصر سا ذاتی تعارف وغیرہ لکھ کر معاملہ نبٹادیا جائے ۔ ان شاء اللہ ایک دو ہفتوں میں اعجاز بھائی کو فائنل مسودہ بھیج دوں گا ۔ پیش لفظ وغیرہ اگر مستقبل میں کبھی لکھ بھی لیا تو اُسے ای بک میں شامل کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوگا ۔ مدد کے لئے آپ کی فراخدلانہ پیشکش کا بہت شکریہ۔ محفل پر موجود دوست پہلے ہی اس سلسلے میں خاصی مدد کرچکے ہیں اور میری شاعری کے انتخاب وغیرہ کے سلسلے میں بھی تعاون کرتے رہتے ہیں ۔ محمداحمد اور تابش صدیقی صاحبان کا خصوصاً شکرگزار ہوں ۔
 

احمد محمد

محفلین
محمد بھائی ، ہر چیز تیار ہے سوائے پیش لفظ کے ۔ پیش لفظ ہی نہیں لکھا جارہا ۔ لیکن اب فیصلہ کرلیا ہے کہ پیش لفظ کے بجائے مختصر سا ذاتی تعارف وغیرہ لکھ کر معاملہ نبٹادیا جائے ۔ ان شاء اللہ ایک دو ہفتوں میں اعجاز بھائی کو فائنل مسودہ بھیج دوں گا ۔ پیش لفظ وغیرہ اگر مستقبل میں کبھی لکھ بھی لیا تو اُسے ای بک میں شامل کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوگا ۔ مدد کے لئے آپ کی فراخدلانہ پیشکش کا بہت شکریہ۔ محفل پر موجود دوست پہلے ہی اس سلسلے میں خاصی مدد کرچکے ہیں اور میری شاعری کے انتخاب وغیرہ کے سلسلے میں بھی تعاون کرتے رہتے ہیں ۔ محمداحمد اور تابش صدیقی صاحبان کا خصوصاً شکرگزار ہوں ۔
زبردست، یہ تعارف والا آئیڈیا بھی بہت اچھا ہے۔ اور ویسے بھی آپ کے کلام کے تو ہم سب پہلے سے ہی معترف ہیں تو تکنیکی اعتبار سے اب پیشِ لفظ کی ضرورت رہی بھی نہیں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک غزل جو پچھلے سال لکھی تھی آپ کے ذوقِ سخن کی نذر کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ یہ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔

٭٭٭

واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا
کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا

ہونا تھا میرا واقعہ آغاز جس جگہ
قصّےکو قصّہ خواں نے وہاں سے بدل دیا

ہے شرطِ جوئے شیر وہی ، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا

اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر
کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا

بیدادِ عشق ہے کہ یہ آزارِ آگہی
سینے میں دل کو دردِ نہاں سے بدل دیا

اس بار دشتِ جاں سے یوں گزری ہوائے درد
موجِ لہوکو ریگِ رواں سے بدل دیا

آنکھوں میں شامِ ہجر کا ہر عکسِ منجمد
مل کرکسی نے اشکِ رواں سے بدل دیا

احساسِ رائگانیِ جذبِ دروں نہ پوچھ
میں نے سکوتِ غم کو فغاں سے بدل دیا

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۹​
ظہیر بھائی! جا اسی غزل کی طرف رہا تھا کہ راستے میں یہ غزل مل گئی۔۔۔ رک گیا۔۔۔۔ ایسے دو چار اشعار کے معانی بیان کرنا ضروری لگے۔ تو کر دیے۔۔۔ بقیہ ان شاء اللہ بشرطیکہ زندگی۔۔۔

مطلب یہ تھا کہنے کا۔۔۔ کہ غزل بہت اعلی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہے شرطِ جوئے شیر وہی ، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا
عبید بھائی ، یہ شعر عصرِ حاضرکے فرہادوں کا نوحہ ہے ۔ فرہاد کا تیشہ بدست ہونا یا تیشے کو کاندھے پر لادے پھرنا مشہور ہے اور شعری روایات میں جابجا ملتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے مصرع میں عرض کیا عشق کے تمام لوازمات اور عاشق کے رنج و محن وغیرہ بدستور اپنی جگہ ہیں پہاڑ اپنی جگہ ہے اور اس میں سے جوئے شیر لانے کی شرط اب بھی تقاضائے عشق ہے لیکن وقت کے تقاضے کچھ یوں بدلے ہیں کہ اب فرہاد کے لئے تیشہ اٹھانا گویا کوہِ گراں اٹھانے کے برابر ہے ۔ دوسرے مصرع میں"جیسے" کا لفظ کلیدی ہے اور قابلِ غور ہے ۔"جیسے" یعنی گویا کہ ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ تیشہ اور پہاڑ آپس میں بدل گئے ہیں بلکہ یہ کہ آج کے دور میں فرہاد کے لئے تیشہ اٹھانا ایسا ہے جیسے کوہِ گراں اٹھانا ۔
ظاہر ہے کہ اس شعر میں فرہاد کے قصےکی رعایات سے کام لیا گیا ہے ۔
یہ تو میں نے اب دیکھا۔۔۔ آپ خود بھی غلط تفہیم کر کے لوگوں کو راہ راست سے بھٹکا رہے۔۔۔ چلیں اللہ نے کرم کیا۔۔۔ میں نے اس شعر کے درست معانی لکھ دیے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ تو میں نے اب دیکھا۔۔۔ آپ خود بھی غلط تفہیم کر کے لوگوں کو راہ راست سے بھٹکا رہے۔۔۔ چلیں اللہ نے کرم کیا۔۔۔ میں نے اس شعر کے درست معانی لکھ دیے ہیں۔
ایسا مخلص و مہربان شارح اگر میؔر کو میسر آجاتا تو آج چھ کے بجائے ان کا ایک ہی دیوان ہوتا۔ اور ان کے بعد آنے والے کئی شعرا تو شاعری سے توبہ ہی کرلیتے ۔
میٹرک کے طلبا کو بھی امتحانی پرچوں میں شعر کی تشریح سےنجات مل جاتی ، نین بھائی ۔ ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ۔۔۔۔
 
حیرت ہے کہ غزل نظر سے کیونکر رہ گئی۔ یعنی ظہیر بھائی کی غزل اور میں پوسٹ ہونے کے دو سال بعد پڑھ رہا ہوں۔
واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا
کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا

ہے شرطِ جوئے شیر وہی ، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا

اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر
کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا
آہ! کتنے ہی شناسا چہرے نگاہوں کے سامنے آ گئے۔ جو اب دنیا بھر میں بکھرے پڑے ہیں۔
بیدادِ عشق ہے کہ یہ آزارِ آگہی
سینے میں دل کو دردِ نہاں سے بدل دیا

احساسِ رائگانیِ جذبِ دروں نہ پوچھ
میں نے سکوتِ غم کو فغاں سے بدل دیا
کیا کہنے ظہیر بھائی۔ عمدہ
 
احبابِ کرام ! ایک غزل جو پچھلے سال لکھی تھی آپ کے ذوقِ سخن کی نذر کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ یہ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔

٭٭٭

واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا
کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا

ہونا تھا میرا واقعہ آغاز جس جگہ
قصّےکو قصّہ خواں نے وہاں سے بدل دیا

ہے شرطِ جوئے شیر وہی ، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہِ گراں سے بدل دیا

اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر
کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا

بیدادِ عشق ہے کہ یہ آزارِ آگہی
سینے میں دل کو دردِ نہاں سے بدل دیا

اس بار دشتِ جاں سے یوں گزری ہوائے درد
موجِ لہوکو ریگِ رواں سے بدل دیا

آنکھوں میں شامِ ہجر کا ہر عکسِ منجمد
مل کرکسی نے اشکِ رواں سے بدل دیا

احساسِ رائگانیِ جذبِ دروں نہ پوچھ
میں نے سکوتِ غم کو فغاں سے بدل دیا

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۹​
واہ ، ظہیر بھائی ، کیا کہنے ! ماشاء اللہ عمدہ غزل ہے .
 
Top