کسی کی آبرو کو خاک میں رولا نہیں جاتا - برائے اصلاح

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ

آداب
آپ سے اصلاح و راہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔


کسی کی آبرو کو خاک میں رولا نہیں جاتا
تکبر سے اسے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا

تھکاوٹ ان کو ہوتی ہے جنہیں دامن چھڑانا ہو
محبت کے سفر میں راستہ دیکھا نہیں جاتا

یونہی دن رات رہتے ہیں مگن ہم اس کی یادوں میں
مگر بس حال اپنے دل کا بتلایا نہیں جاتا

تمھاری بےرخی نے ہم کو کتنا توڑ ڈالا ہے
محبت کا فسانہ ہم سے اب لکھا نہیں جاتا

یہ جانا دیر میں گریہ وزاری اب ہے لاحاصل
محبت کے عذابوں کو تو یوں ٹالا نہیں جاتا

تمھارا عشق لے آیا ہے ہم کو بند گلیوں میں
تمھاری راہوں تک اب کوئی بھی رستا نہیں جاتا

نہ جانے کون سا دن آئے گا وہ مان جائے گا
کوئ اس کو بتاؤ اس طرح روٹھا نہیں جاتا
 
کسی کی آبرو کو خاک میں رولا نہیں جاتا
تکبر سے اسے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا
پاؤں، بمعنی پیر کا درست تلفظ پاں+وْ ہوتا ہے، جو اس ترتیب میں وزن میں نہیں آئے گا. اس کو "پیروں تلے" کردیں.

تھکاوٹ ان کو ہوتی ہے جنہیں دامن چھڑانا ہو
محبت کے سفر میں راستہ دیکھا نہیں جاتا

یونہی دن رات رہتے ہیں مگن ہم اس کی یادوں میں
مگر بس حال اپنے دل کا بتلایا نہیں جاتا

تمھاری بےرخی نے ہم کو کتنا توڑ ڈالا ہے
محبت کا فسانہ ہم سے اب لکھا نہیں جاتا
یہ اشعار درست لگ رہے ہیں.

یہ جانا دیر میں گریہ وزاری اب ہے لاحاصل
محبت کے عذابوں کو تو یوں ٹالا نہیں جاتا
یہاں دوسرے مصرعے میں جاسکتا کہے بغیر مفہوم درست ادا نہیں ہوتا ... گویا ردیف صحیح طرح نبھائی نہیں گئی.
علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں "تو" اضافی ہے.

تمھارا عشق لے آیا ہے ہم کو بند گلیوں میں
تمھاری راہوں تک اب کوئی بھی رستا نہیں جاتا
راہوں کی واؤ کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، اس کو راہ کردیں.
رستہ ہائے خفی کے ساتھ لکھتے ہیں، ا الف سے لکھیں تو لوگ رِستا سے خلط کردیں گے :)

نہ جانے کون سا دن آئے گا وہ مان جائے گا
کوئ اس کو بتاؤ اس طرح روٹھا نہیں جاتا
کون سا دن کے بجائے کب وہ دن کا محل ہے، لیکن وزن درست رکھنے کے لئے الفاظ کی ترتیب بدلنا ہوگی.

دعاگو،
راحل.
 

صابرہ امین

لائبریرین
پاؤں، بمعنی پیر کا درست تلفظ پاں+وْ ہوتا ہے، جو اس ترتیب میں وزن میں نہیں آئے گا. اس کو "پیروں تلے" کردیں.


یہ اشعار درست لگ رہے ہیں.


یہاں دوسرے مصرعے میں جاسکتا کہے بغیر مفہوم درست ادا نہیں ہوتا ... گویا ردیف صحیح طرح نبھائی نہیں گئی.
علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں "تو" اضافی ہے.


راہوں کی واؤ کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، اس کو راہ کردیں.
رستہ ہائے خفی کے ساتھ لکھتے ہیں، ا الف سے لکھیں تو لوگ رِستا سے خلط کردیں گے :)


کون سا دن کے بجائے کب وہ دن کا محل ہے، لیکن وزن درست رکھنے کے لئے الفاظ کی ترتیب بدلنا ہوگی.

دعاگو،
راحل.
شکریہ راحل بھائی ۔ ۔ تصحیح کے بعد حاضر ہوتی ہوں ۔ ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صابرہ امین ، اچھی غزل ہے ۔ اچھے غزلیہ مضامین باندھے ہیں آپ نے ۔ قوافی البتہ درست نہیں ہیں ۔ اس غزل کے حوالے سے ایک اور نکتہ قافیہ کے بارے میں سمجھ لیجئے ۔

۱۔ غزل میں قافیہ کا تعین مطلع میں استعمال ہونے والے دو قوافی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ مثلاً مطلع میں اگر دعا اور صبا کے قوافی ہوں تو بقیہ غزل میں فضا ، قضا ، مزا ، کہا ، سُنا ، لکھا ، شفا ، ذرا وغیرہ درست قوافی ہوں گے ۔
۲۔ لیکن اگر مطلع میں دونوں قوافی "فعل" ہوں تو پھر معاملہ ذرا مختلف ہوجاتا ہے ۔
فعل کے صیغۂ امر کو فعل کا مصدر مانا جاتا ہے ۔ یعنی مصدر وہ بنیادی لفظ ہوتا ہے کہ جس کے آگے حروف کا اضافہ کرکے فعل کے دیگر صیغے بنائے جاتے ہیں۔ "لکھ" ایک مصدر ہے ۔ اس مصدر سے لکھا ، لکھی ، لکھو ، لکھتا ، لکھتی ، لکھتے ، لکھیں ، لکھوں ، لکھنا وغیرہ کے الفاظ بنائے گئے ۔ اسی طرح "چل" کے مصدر سے چلا ، چلتا ، چلتی ، چلئے ، چلو، چلیں وغیرہ بنائے گئے ہیں ۔ یہ بات نوٹ کیجئے کہ ان تمام الفاظ کی ابتدا میں "لکھ" اور "چل" مشترک ہے اور اس مصدر کے آگے زائد حروف لگا کر مختلف صیغے بنادیئے گئے ہیں ۔
۳۔ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے مصدر کو دیکھا جاتا ہے ۔ مصدر کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کہتا اور سُنتا قافیہ نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے کہ سُن اور کہہ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کہتا اور بہتا قوافی ہوسکتے ہیں کیونکہ کہہ اور بہہ ہم قافیہ ہیں ۔ اسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔
۴۔ آپ کی غزل میں مطلع کے قوافی رولا اور روندا درست نہیں ہیں ۔ کیونکہ رول اور روند ہم قافیہ نہیں ۔ لیکن مطلع میں رولا کا قافیہ اگر بولا لے آئیں تو درست ہوجائے گا ۔ اور بقیہ غزل کے لئے تولا ، گھولا ، چولا وغیرہ کے قوافی متعین ہوجائیں گے ۔
۵۔ مطلع میں قوافی کے مذکورہ بالا مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک حیلہ استعمال کیا جاتا ہےاور وہ یہ کہ مطلع میں ایک قافیہ فعل اور دوسرا قافیہ غیرفعل استعمال کرلیا جائے ۔ مثلاً آپ کے مطلع میں ایک قافیہ روندا اور دوسرا قافیہ باجا ہو تو درست ہے ۔ اور یوں بقیہ غزل میں اب وہ تمام قافیے استعمال ہو سکتے ہیں کہ جو الف پر ختم ہوتے ہوں مثلاً آیا ، بھاگا ، آدھا ، اُلٹا ، سونا ، چہرہ ، نقشہ وغیرہ ۔ ( نقشہ ، چہرہ ، حلیہ وغیرہ کے آخر میں جو ہائے مختفی ہوتی ہے اُسے الف کے برابر مانا جاتا ہے۔)

آپ کی ایک غزل پر میں نے پہلے کچھ نکات لکھے تھے ۔ ان کو بار بار دیکھئے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اپنی زبان بہتر بنائیے ۔ درست زبان ہی اچھے شعر کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ اس بارے میں اور کیا کہوں ۔
آپ نے مطلع میں محاورہ درست استعمال نہیں کیا ۔ عزت یا آبرو کو خاک میں ملایا جاتا ہے ۔ خاک میں رولا نہیں جاتا ۔ نیز یہ کہ پاؤں تلے مادی اور مرئی چیزوں کو روندا جاتا ہے ۔ آبرو کو کیسے پاؤں تلے روندا جائے گا ؟! صرف روندا استعمال کیا ہوتا تو ٹھیک تھا لیکن پاؤں تلے روندا درست نہیں ۔ اسی طرح بقیہ اشعار پر بھی نظر کیجئے اور خود دیکھئے ۔ جہاں شبہ ہو وہاں لغت سے رجوع کیجئے ۔ آپ میں شعر کہنے کی قابلیت ہے اور اچھے امکانات نظر آتے ہیں ۔ بس زبان سیکھنے میں محنت کیجئے ۔ شوق محنت اور لگن مانگتا ہے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین ، اچھی غزل ہے ۔ اچھے غزلیہ مضامین باندھے ہیں آپ نے ۔ قوافی البتہ درست نہیں ہیں ۔ اس غزل کے حوالے سے ایک اور نکتہ قافیہ کے بارے میں سمجھ لیجئے ۔

۱۔ غزل میں قافیہ کا تعین مطلع میں استعمال ہونے والے دو قوافی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ مثلاً مطلع میں اگر دعا اور صبا کے قوافی ہوں تو بقیہ غزل میں فضا ، قضا ، مزا ، کہا ، سُنا ، لکھا ، شفا ، ذرا وغیرہ درست قوافی ہوں گے ۔
۲۔ لیکن اگر مطلع میں دونوں قوافی "فعل" ہوں تو پھر معاملہ ذرا مختلف ہوجاتا ہے ۔
فعل کے صیغۂ امر کو فعل کا مصدر مانا جاتا ہے ۔ یعنی مصدر وہ بنیادی لفظ ہوتا ہے کہ جس کے آگے حروف کا اضافہ کرکے فعل کے دیگر صیغے بنائے جاتے ہیں۔ "لکھ" ایک مصدر ہے ۔ اس مصدر سے لکھا ، لکھی ، لکھو ، لکھتا ، لکھتی ، لکھتے ، لکھیں ، لکھوں ، لکھنا وغیرہ کے الفاظ بنائے گئے ۔ اسی طرح "چل" کے مصدر سے چلا ، چلتا ، چلتی ، چلئے ، چلو، چلیں وغیرہ بنائے گئے ہیں ۔ یہ بات نوٹ کیجئے کہ ان تمام الفاظ کی ابتدا میں "لکھ" اور "چل" مشترک ہے اور اس مصدر کے آگے زائد حروف لگا کر مختلف صیغے بنادیئے گئے ہیں ۔
۳۔ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے مصدر کو دیکھا جاتا ہے ۔ مصدر کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کہتا اور سُنتا قافیہ نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے کہ سُن اور کہہ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کہتا اور بہتا قوافی ہوسکتے ہیں کیونکہ کہہ اور بہہ ہم قافیہ ہیں ۔ اسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔
۴۔ آپ کی غزل میں مطلع کے قوافی رولا اور روندا درست نہیں ہیں ۔ کیونکہ رول اور روند ہم قافیہ نہیں ۔ لیکن مطلع میں رولا کا قافیہ اگر بولا لے آئیں تو درست ہوجائے گا ۔ اور بقیہ غزل کے لئے تولا ، گھولا ، چولا وغیرہ کے قوافی متعین ہوجائیں گے ۔
۵۔ مطلع میں قوافی کے مذکورہ بالا مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک حیلہ استعمال کیا جاتا ہےاور وہ یہ کہ مطلع میں ایک قافیہ فعل اور دوسرا قافیہ غیرفعل استعمال کرلیا جائے ۔ مثلاً آپ کے مطلع میں ایک قافیہ روندا اور دوسرا قافیہ باجا ہو تو درست ہے ۔ اور یوں بقیہ غزل میں اب وہ تمام قافیے استعمال ہو سکتے ہیں کہ جو الف پر ختم ہوتے ہوں مثلاً آیا ، بھاگا ، آدھا ، اُلٹا ، سونا ، چہرہ ، نقشہ وغیرہ ۔ ( نقشہ ، چہرہ ، حلیہ وغیرہ کے آخر میں جو ہائے مختفی ہوتی ہے اُسے الف کے برابر مانا جاتا ہے۔)

آپ کی ایک غزل پر میں نے پہلے کچھ نکات لکھے تھے ۔ ان کو بار بار دیکھئے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اپنی زبان بہتر بنائیے ۔ درست زبان ہی اچھے شعر کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ اس بارے میں اور کیا کہوں ۔
آپ نے مطلع میں محاورہ درست استعمال نہیں کیا ۔ عزت یا آبرو کو خاک میں ملایا جاتا ہے ۔ خاک میں رولا نہیں جاتا ۔ نیز یہ کہ پاؤں تلے مادی اور مرئی چیزوں کو روندا جاتا ہے ۔ آبرو کو کیسے پاؤں تلے روندا جائے گا ؟! صرف روندا استعمال کیا ہوتا تو ٹھیک تھا لیکن پاؤں تلے روندا درست نہیں ۔ اسی طرح بقیہ اشعار پر بھی نظر کیجئے اور خود دیکھئے ۔ جہاں شبہ ہو وہاں لغت سے رجوع کیجئے ۔ آپ میں شعر کہنے کی قابلیت ہے اور اچھے امکانات نظر آتے ہیں ۔ بس زبان سیکھنے میں محنت کیجئے ۔ شوق محنت اور لگن مانگتا ہے ۔
آداب

آپ کی رہنمائی کا بہت بہت شکریہ ۔ ۔ میں ایک ایک بات پر غوروفکر کرنے بعد ازاں تصحیح کے بعد حاضر ہوتی ہوں ۔ ۔ جزاک اللہ :)
 

الف عین

لائبریرین
قافیے کے بارے میں مَیں اتنا متشدد نہیں۔ مجھے علم عروض کی وہ بندش درست نہیں لگتی کہ مصدر فعل ہو تو قافیوں کے مصدر بھی ہم قافیہ ہوں جیسا کہ عزیزی ظہیراحمدظہیر نے لکھا ہے۔ کہنا اور لکھنا قوافی بھی مجھے قبول ہیں بشرطیکہ مطلع میں نہ ہوں اور بقیہ قوافی تمہاری غزل کی طرح محض الف مشترک والے الفاظ کے ہوں۔ یا یہ کہ کچھ قوافی فعل ہوں، کچھ نہ ہوں
 

نور وجدان

لائبریرین
الف عین سر نے وصلی قوافی کے طور پر درست قرار دیا ہے جبکہ محترمی ظہیر سر نے اصلی قوافی کی رو سے غلط قرار دیا ہے. امید ہے پچھلی پوسٹ فائدہ دے گی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پاؤں، بمعنی پیر کا درست تلفظ پاں+وْ ہوتا ہے، جو اس ترتیب میں وزن میں نہیں آئے گا. اس کو "پیروں تلے" کردیں.
راحل بھائی ، آپ کا کہنا درست ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاؤں کو متقدمین نے فاع اور فعلن دونوں کے وزن پر باندھا ہے ۔ بعد کے اساتذہ نے فاع کے وزن کو اختیار کیا اور ترجیح دی اور فعلن پر باندھنا گویا متروک ہوگیا ۔ لیکن اب جدید شعرا کے ہاں فاع اور فعلن دونوں اوزان پر ملتا ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس رواج کو چلتا رہنے دینا چاہئے ، فاع اور فعلن دونوں کی اجازت ہونی چاہئے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عروض کو سہل بنایا جائے اور عروضی بندشوں میں جہاں تک ہوسکے کشادگی پیدا کی جائے ۔ ایک اور بات یہ کہ جب پاؤں (فعل) کو متقدمین اور متاخرین دونوں نے فعلن کے وزن پر باندھا ہے تو پاؤں (اسم) کو بھی فعلن کے وزن پر باندھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ معاصر اردو میں ان دونوں کا تلفظ تقریباً ایک ہی کیا جاتا ہے سو منطقی طور پر انہیں ہم وزن بھی ہونا چاہئے ۔ اور اب تو دونوں الفاظ کا املا بھی ایک ہی ہوگیا ہے ۔ یہ میری ناقص رائے ہے اور تسہیلِ عروض کی ایک کوشش ہے ۔
فعلن کے وزن کی سند کے لئے میر کے کچھ اشعار ذیل میں لکھتا ہوں ۔
بوجھ اٹھاتا ہوں ضعف کا شاید
ہاتھ پاؤں میں زور آیا ہے

اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا

پاؤں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام
ہر گام راہِ عشق میں گویا دبی ہے آگ

کھا گیا اندوہ مجھ کو دوستانِ رفتہ کا
ڈھونڈتا ہے جی بہت پر اب انہیں پاؤں کہاں

کیونکے طے ہو دشت شوق آخر کو مانند سر شک
میرے پاؤں میں تو پہلے ہی قدم چھالے پڑے

مہندی لگی تھی تیرے پاؤں میں کیا پیارے
ہنگامِ خونِ عاشق سر پر جو تو نہ آیا

تھا صیدِ ناتواں میں ولے میرے خون سے
پاؤں میں صید بندوں کے بھر کر حنا لگی

شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے
جوں گردِ راہ سب کے پاؤں سے تو لگا رہ

گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اُٹھُ اُٹھ کر
تفاوت ہو گیا اب تو بہت پاؤں کی طاقت میں

غرور ناز سے آنکھیں نہ کھولیں اس جفا جو نے
ملا پاؤں تلے جب تک نہ چشمِ صد غزالاں کو

ترے غمزے نے جور و ظلم سے آنکھیں غزالوں کی
بیاباں میں دکھا مجنوں کو پاؤں کے تلے ملیاں

نہ چشمِ کم سے مجھ درویش کی آوارگی دیکھو
تبرک کرتے ہیں کانٹے مرے پاؤں کے چھالوں کو

دل پہ رکھتا ہوں کبھو سر سے کبھو ماروں ہوں
ہاتھ پاؤں کو نہ میں تیرے لگایا ہوتا

وہ سیر کا وادی کے مائل نہ ہوا ورنہ
آنکھوں کو غزالوں کی پاؤں تلے مل جاتا

عاشق کی چشمِ تر میں گو دبتے آویں لیکن
پاؤں کا دلبروں کے چھپتا نہیں چھپاکا

خاک ایسی عاشقی میں ٹھکرائے بھی گئے کل
پاؤں کنے سے اس کے پر میرؔ جی نہ سرکے

زنجیر تو پاؤں میں لگی رہنے ہمارے
کیا اور ہو رسوا کوئی آشفتہ سری سے

وے یاسمنِ تازہ شگفتہ میں کہاں میرؔ
پائے گئے لطف اس کے جو پاؤں کے نشاں میں

ہم عاجزوں کا کھونا مشکل نہیں ہے ایسا
کچھ چونٹیوں کو لے کر پاؤں تلے مل ڈالا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قافیے کے بارے میں مَیں اتنا متشدد نہیں۔ مجھے علم عروض کی وہ بندش درست نہیں لگتی کہ مصدر فعل ہو تو قافیوں کے مصدر بھی ہم قافیہ ہوں جیسا کہ عزیزی ظہیراحمدظہیر نے لکھا ہے۔ کہنا اور لکھنا قوافی بھی مجھے قبول ہیں بشرطیکہ مطلع میں نہ ہوں اور بقیہ قوافی تمہاری غزل کی طرح محض الف مشترک والے الفاظ کے ہوں۔ یا یہ کہ کچھ قوافی فعل ہوں، کچھ نہ ہوں
اعجاز بھائی ، بعض دفعہ آپ کا مراسلہ دیر تک سر کھجانے پر مجبور کردیتا ہے ۔ :):):)
معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ لگتا ہے آپ میرے مراسلے سے سرسری اور عجلت میں گزر گئے ۔ میں نے تو ایسی کوئی بات لکھی ہی نہیں کہ جو آپ نے مجھ سے منسوب کی: " مجھے علم عروض کی وہ بندش درست نہیں لگتی کہ مصدر فعل ہو تو قافیوں کے مصدر بھی ہم قافیہ ہوں جیسا کہ عزیزی ظہیراحمدظہیر نے لکھا ہے۔"
میرا مراسلہ پھر سے دیکھ لیجئے:
۳۔ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے مصدر کو دیکھا جاتا ہے ۔ مصدر کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کہتا اور سُنتا قافیہ نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے کہ سُن اور کہہ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کہتا اور بہتا قوافی ہوسکتے ہیں کیونکہ کہہ اور بہہ ہم قافیہ ہیں ۔ اسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔
۴۔ آپ کی غزل میں مطلع کے قوافی رولا اور روندا درست نہیں ہیں ۔ کیونکہ رول اور روند ہم قافیہ نہیں ۔ لیکن مطلع میں رولا کا قافیہ اگر بولا لے آئیں تو درست ہوجائے گا ۔ اور بقیہ غزل کے لئے تولا ، گھولا ، چولا وغیرہ کے قوافی متعین ہوجائیں گے ۔

اور اسی بات کی تائید آپ بھی کررہے ہیں کہ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت زائد الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے مصدرِ فعل یعنی اس کے صیغۂ امر کو دیکھا جائے گا ۔ یہ دیکھئے:
کہنا اور لکھنا قوافی بھی مجھے قبول ہیں بشرطیکہ مطلع میں نہ ہوں اور بقیہ قوافی تمہاری غزل کی طرح محض الف مشترک والے الفاظ کے ہوں۔
یہی بات میں نے اپنے مراسلے کے نکتہ نمبر 5 میں تفصیلاً سمجھائی ہے ۔ یہ دیکھئے:
۵۔ مطلع میں قوافی کے مذکورہ بالا مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک حیلہ استعمال کیا جاتا ہےاور وہ یہ کہ مطلع میں ایک قافیہ فعل اور دوسرا قافیہ غیرفعل استعمال کرلیا جائے ۔ مثلاً آپ کے مطلع میں ایک قافیہ روندا اور دوسرا قافیہ باجا ہو تو درست ہے ۔ اور یوں بقیہ غزل میں اب وہ تمام قافیے استعمال ہو سکتے ہیں کہ جو الف پر ختم ہوتے ہوں مثلاً آیا ، بھاگا ، آدھا ، اُلٹا ، سونا ، چہرہ ، نقشہ وغیرہ ۔ ( نقشہ ، چہرہ ، حلیہ وغیرہ کے آخر میں جو ہائے مختفی ہوتی ہے اُسے الف کے برابر مانا جاتا ہے۔)

میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ عروض کی ثقیل اور نامانوس اصطلاحات استعمال کئے بغیر بنیادی خیال یا concept مبتدیان تک پہنچادیا جائے ۔ عموماً عروض سے دور بھاگنے کی ایک وجہ یہی اصطلاحات ہیں ۔ سو ان سے پرہیز کرتا ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الف عین سر نے وصلی قوافی کے طور پر درست قرار دیا ہے جبکہ محترمی ظہیر سر نے اصلی قوافی کی رو سے غلط قرار دیا ہے. امید ہے پچھلی پوسٹ فائدہ دے گی
بیٹا ، آپ وضاحت کریں گی کہ کس بات کو الف عین نے درست قرار دیا اور کس بات کو میں نے غلط قرار دیا؟
 

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
ظہیراحمدظہیر
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ


آداب

کچھ اشعار مطلع کے طور پر لکھے ہیں ۔ ۔ آپ سے گزارش ہے کہ رہنمائی کیجیئے کہ کون سا بہتر ہو گا ۔ ۔ اس کے بعد دیگر تصحیح شدہ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کروں گی ۔ ۔



بہت محبوس رہتے ہیں کہیں نکلا نہیں جاتا
ہمارے دل سے اک آسیب کا سایہ نہیں جاتا

یا

بہت کوشش بھی کرتے ہیں اسے بھولا نہیں جاتا
ہمارے دل سے کیوں آسیب کا سایہ نہیں جاتا

یا

کہاں پر کھو گئے ہو تم، تمہیں ڈھونڈا نہیں جاتا
تمہارے دل کی نگری تک کوئی رستہ نہیں جاتا

یا


اندھیرا ہر طرف ہے گھر سے اب نکلا نہیں جاتا
تمہارے دل کی نگری تک کوئی رستہ نہیں جاتا

یا

بھلائیں کس طرح تم کو تمہیں بھولا نہیں جاتا
بھلایا، دل پہ ہے جو نقش، وہ چہرہ نہیں جاتا

یا

بھلائیں کس طرح تم کو تمہیں بھولا نہیں جاتا
ہمارے دل پہ ہے جو نقش وہ چہرہ نہیں جاتا
 
آخری تدوین:
راحل بھائی ، آپ کا کہنا درست ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاؤں کو متقدمین نے فاع اور فعلن دونوں کے وزن پر باندھا ہے ۔ بعد کے اساتذہ نے فاع کے وزن کو اختیار کیا اور ترجیح دی اور فعلن پر باندھنا گویا متروک ہوگیا ۔ لیکن اب جدید شعرا کے ہاں فاع اور فعلن دونوں اوزان پر ملتا ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس رواج کو چلتا رہنے دینا چاہئے ، فاع اور فعلن دونوں کی اجازت ہونی چاہئے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عروض کو سہل بنایا جائے اور عروضی بندشوں میں جہاں تک ہوسکے کشادگی پیدا کی جائے ۔ ایک اور بات یہ کہ جب پاؤں (فعل) کو متقدمین اور متاخرین دونوں نے فعلن کے وزن پر باندھا ہے تو پاؤں (اسم) کو بھی فعلن کے وزن پر باندھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ معاصر اردو میں ان دونوں کا تلفظ تقریباً ایک ہی کیا جاتا ہے سو منطقی طور پر انہیں ہم وزن بھی ہونا چاہئے ۔ اور اب تو دونوں الفاظ کا املا بھی ایک ہی ہوگیا ہے ۔ یہ میری ناقص رائے ہے اور تسہیلِ عروض کی ایک کوشش ہے ۔
ظہیرؔ بھائی، آداب!
سر تسلیم خم ۔۔۔ آپ کی بات عین مناسب ہے ۔۔۔ لیکن پاؤں (بمعنی پانا) اور پاؤں (بمعنی پیر) کے جدید تلفظ میں بہرحال معمولی فرق تو ہے۔ پاؤں(پانا) میں تو واؤ واضح طور پر معروف سنائی دیتی ہے جبکہ پاؤں(پیر) میں کچھ کچھ مجہول۔ دراصل میرا یہ نکتہ اٹھانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کئی مرتبہ ایسا دیکھا ہے کہ کوئی شاعر پاؤں (بمعنی پیر) کو دعاؤں، خطاؤں وغیرہ کے ساتھ قافیہ لایا تو اساتذہ نے تلفظ کی بنیاد پر ٹوک دیا۔ بس اسی لئے یہ بات کی کہ اگر مستقبل میں قافیہ کے باب میں کبھی کسی کو اس اعتراض کا سامنا ہو تو وجہ ذہن نشین رہے۔

بہرحال، ظاہر ہے کہ آپ کی بات میری رائے سے کہیں زیادہ وزن رکھتی ہے کہ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا :) آپ کے مطالعے کا ایک چوتھائی بھی ہمارے پاس ہوتا تو کیا بات تھی :)

دعاگو،
راحلؔ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بیٹا ، آپ وضاحت کریں گی کہ کس بات کو الف عین نے درست قرار دیا اور کس بات کو میں نے غلط قرار دیا؟
مصدر ہوتا کیا ہے اس بات کا علم ہی نہیں ہے اگر اس کی انگلش پتا چل سکے تو شاید پتا ہی ہوں. کچھ ان ٹرمز کی وجہ سے مراسلے کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہوئی. آپ نے مطلع کے حوالے سے قوانین میں جو بتائے اک فعل اور دوسرا جیسا باجا ... اس سے اگلے اشعار میں ایسے الفاظ جن کے آخر میں الف آتا ہے گنجائش نکل آتی ہے .. روند تو دل پر ختم ہوجاتا ہے اور روندا ہم نے الف لگا کے لفظ بنادیا ہے جبکہ باجا اک مکمل لفظ ہے. اسطرح کہتا بہنا ، بہرا مطلع میں نہیں آسکتے مگر یہ اگلے اشعار میں آسکتے ہیں ... معذرت مجھ سے غلطی ہوگئی ہے سمجھنے میں. مگر آپ دونوں اساتذہ کی گفتگو ایک ہی ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
ظہیراحمدظہیر
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ


آداب

کچھ اشعار مطلع کے طور پر لکھے ہیں ۔ ۔ آپ سے گزارش ہے کہ رہنمائی کیجیئے کہ کون سا بہتر ہو گا ۔ ۔ اس کے بعد دیگر تصحیح شدہ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کروں گی ۔ ۔



بہت محبوس رہتے ہیں کہیں نکلا نہیں جاتا
ہمارے دل سے اک آسیب کا سایہ نہیں جاتا

یا

بہت کوشش بھی کرتے ہیں اسے بھولا نہیں جاتا
ہمارے دل سے کیوں آسیب کا سایہ نہیں جاتا

یا

کہاں پر کھو گئے ہو تم، تمہیں ڈھونڈا نہیں جاتا
تمہارے دل کی نگری تک کوئی رستہ نہیں جاتا

یا


اندھیرا ہر طرف ہے گھر سے اب نکلا نہیں جاتا
تمہارے دل کی نگری تک کوئی رستہ نہیں جاتا

یا

بھلائیں کس طرح تم کو تمہیں بھولا نہیں جاتا
بھلایا، دل پہ ہے جو نقش، وہ چہرہ نہیں جاتا

یا

بھلائیں کس طرح تم کو تمہیں بھولا نہیں جاتا
ہمارے دل پہ ہے جو نقش وہ چہرہ نہیں جاتا
ان میں سے اکثر دولخت ہیں یا دونوں مصرعوں کا ربط کمزور ہے۔ کیوں ہیں وہ آپ خود معلوم کیجئے ۔ اپنے اشعار کو دشمن کی آنکھ سے دیکھئے اور کڑے سوالات کیجئے ۔ وجہ سمجھ میں آجائے گی ۔ آخری مطلع درست ہے اور مصرع مربوط ہیں ۔ لیکن دل سے چہرہ جانے کے بجائے آنکھوں یا تصور سے چہرہ نہیں جاتا زیادہ معقول اور بہتر ہوگا ۔
 
Top