زکواۃ کا نصاب، ڈھائی فی صد کی کیا دلیل ہے؟

ایک بار پھر آپ کا تہہ دل سے شکریہ ، یہ نکات پیش کرنے کا۔
مراسلہ نمبر 57 سے میں پیش کردہ نکات کا بغور مطالعہ کی اور پوری طرح متفق ہوں کہ سنی معاشی ماڈل کا طریقہ اور تعریفیں یہی ہیں۔ آپ نے شیعہ معاشی ماڈل پر بھی روشنی ڈالی، میں آپ سے متفق ہوں کہ سنی پیروکاروں کے خیالات ، شیعہ ماڈل کے بارے میں یہی ہیں۔

یہ بھی ؤاضح ہے کہ آپ کے علم میں ہے کہ
غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ ۔
سنی طبقے کا یقین کہ جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت اور
شیعہ طبقے کا نکتہ نظر ہے کہ کسی بھی شے سے ہونے والی بڑھوتری۔

یہاں دوستوں سے التماس ہے کہ وہ رافع صاحب کے مراسلات نمبر 57 تا 60 کو دیکھیں اور اگر سنی مکتبہ فکر کے نکات میں کوئی کمی ہے تو نشاندہی فرمائیں۔

میرے اگلے اقدام، جن کا مقصد کسی طبقے کے نکتہ نظر کو غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ ان ماڈٌز کے اثرات کو سٹدی کرنا ہے۔ لہذا استدعا ہے کہ کڑی تنقیدی نظر رکھئے ، خاص طور پر آیات کے لفظی ترجمے پر، جہاں لفظی ترجمہ قابل قبول نا ہو یا غلطی ہو تو نشاندہی فرمائیے، اور جہاں ان ماڈلز کے ثابت شدہ نتائج درست ہوں، وہاں اتفاق فرمائیے :

میرے اگلے اقدام:
1۔ شیعہ نکتہ نظر کے مطابق یہ ماڈل کیا ہے
2۔ دونوں ماڈل ، مسلمان ممالک کو کس طرح کی معیشیت فراہم کرتے ہیں اور ان ماڈلز کی وجہ سے مسلمان ممالک کی معیشیتوں پر پڑنے والے اثرات، جن کی شماریاتی تصویر سامنے ہے۔
3۔ صرف اور صرف قرآن حکیم سے بننے والے ماڈل کی قرآن حکیم سے وجوہات اور جو ممالک اس قرآنی ماڈل پر کافی حد تک عمل کرتے ہیں ، ان کی معیشیت کی شماریاتی تصویر۔

یہ آئندہ 3 الگ الگ مراسلات میں ، آپ سب کی اجازت سے۔ بہادری کی استدعا ہے۔
والسلام
 
آخری تدوین:
اگر آپ سب نوٹ کیجئے تو یہ دھاگہ میں نے دو سال پہلے شروع کیا تھا۔ ان دو سالوں میں ، میں اس موضوع کا ہر ممکن مطالعہ کرتا رہا۔ سنی اور شیعہ روایات اور ان دونوں کے مکتبہ فکر کے نکتہ نظر سے بہت حد تک واقف ہوں ۔ رافع صاحب کے پیش کردہ نکات سے متفق ہوں کہ یہی سنی مکتبہ فکر کا نکتہء نظر ہے۔ آئیے پہلے قدم کے طور پر دیکھتے ہیں کہ شیعہ نکتہء نظر میں کہاں کہاں فرق ہے۔ ان دونوں ماڈلز کا اثر ان ممالک کی معیشیت پر کیا پڑا ہے؟
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی موروثی بادشاہتوں کا رواج تھا۔ کوئی دوسرا حکومتی فریم ورک اس سے پہلے صرف کچھ کتب میں پیش کیا گیا ، لیکن حقیقت میں ہر حکومت صرف موروثٰ بادشاہت ہوتی تھی۔
ویلتھ آف نیشنز نامی کتاب March 9, 1776 میں شائع ہوئی، جس میں اموال الناس، کا نظریہ پیش کیا گیا۔ پبلک ویلتھ کیا ہے، اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ لوگ چھوٹے بڑے کھیتوں یا باغوں میں اپنی دولت اگا کر کچھ بیچ دیتے تھے اور کچھ کھا جاتے تھے۔ چونکہ خوراک سے ہاتھ آئی دولت کو بآسانی لمبے عرصے کے لئے کسی ستوریج میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے، اس لئے ، لوگوں نے خوراک کو سونے ، چاندی اور اسی قسم کی دوسرے "مال" میں جمع کرنا شروع کیا۔ جب یہ دولت بڑی ہوگئی تو بادشاہوں نے مختلف ہتھکنڈوں، جنگ، لوٹ مار یا تحفظ کے نام پر سے اس دولت کو حاصل کیا اور اس دولت کو اموال الناس یا نیشنل ویلتھ یا پبلک ویلتھ قرار دینے سے صاف انکار کردیا، اور یہ دولت اپنی اولادوں یا جانشیوں کے حوالے کرنے کے اصول اور قوانین بنائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ، دو بڑے طبقے سامنے آئے، تاریخی شواہد سے صاف سامنے آتا ہے کہ ان دونوں طبقات کی یہ خواہش تھی کہ پبلک یا نیشنل ویلتھ کو جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا جو نظام اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق رسول اکرم صلعم نے قائم کیا تھا ، اس سے حاصل ہونے والی دولت موروثی ہو۔


اس کا ثبوت، ہم کو دونوں طرف کی روایات میں ملتا ہے۔ جن کو یہ دونوں طبقے ، احادیث رسول اکرم قرار دیتے ہیں۔ لیکن دونوں طبقے ایک دوسرے کی احادیث کو ناقابل قبول اور مشکوک روایات قرار دیتے ہیں۔ لہذا شیعہ مکتبہء فکر نے اپنی من پسند احادیث کی مدد سے وہ معانی اخذ کئے جو دلوت کے اس بہاؤ کو رسول اکرم صلعم کے ورثاء کی طرف زیادہ سے زیادہ کرتی تھیں، تاکہ پبلک ویلتھ ، اموال الناس کا بیشتر حصہ رسول اکرم کے ورثا کے ہاتھ آئے ۔

جبکہ سنی مکتبہء فکر نے اپنی من پسند احادیث کی مدد سے وہ معانی اخذ کئے جن کی مدد سے اس پبلک ویلتھ ، اموال الناس کا بیشتر حصہ ان کے بادشاہوں کے ہاتھ آئے۔ اور شیعہ مکتبہ فکر کی روایات کو مشکوک اور ناقابل قبول قرار دیا۔ یہ دشمنی آج بھی جاری و ساری ہے، سعودی اور ایرانی معرکوں سے کون واقف نہیں؟


ہمارا مقصد سنی اور شیعہ ماڈلز کی سٹڈی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج ہیں جو کہ ہم سب آزادانہ طور پر ڈھونڈھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ لہذا میرے بیان کو اس دونوں طبقوں کی باہمی تعلقات کے روایتی تناظر میں نا دیکھا جائے۔ بلکہ اس کو خالصتاً ایک معاشی ماڈل کے تجزئے کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے ، دوسرے الفاظ میں آپ کو تدبر کی دعوت ہے نا کہ اپنے اپنے ایمان تبدیل کرنے کی۔
 
۔1۔ شیعہ نکتہ نظر کے مطابق یہ ماڈل کیا ہے

شیعہ اور سنی مکتبہء فکر کی اصطلاحات میں فرق

سورۃ انفال شیعہ ترجمہ :
8:1 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہدیجیے:یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو

شیعہ نکتہ نظر : لفظ "انفال" بمعنی جنگی غنائم اور عمومی ثروتیں؛ اسی سورت میں مذکور ہے اور کسی بھی دوسری سورت میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے
انفال شیعہ نکتہ نظر:
انفال کے بارے میں شیعہ نکتہ نظرمزید یہاں دیکھیں:

سورۃ انفال سنی ترجمہ اور نکتہ نظر ، جناب رافع صاحب کے مراسلے سے اخذ کیا گیا:
(اے نبئ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو

1-انفال۔(مال نفل)۔ انسان کی فرض ضرورت سے زائد حاصل ہونے والی شئے۔ اللہ اور اسکے رسول 100 فیصد مال نفل کے مالک ہیں۔

اس آیت میں صرف اتنا لکھا ہے جتنا شیعہ ترجمے میں موجود ہے۔ شیعہ مکتبہء فکر نے انفال کو جنگی غنائم یعنی جنگ سے حاصل ہونے والے فائیدے، انعامات ، قراد دیا تاکہ آیت نمبر 41 میں غنم کا ترجمہ اپنے حق میں کیا جاسکے۔ سنی مکتبہء فکر نے اس کو فرض ضرورت سے زائید حاصل ہونے والا مال قرار دیا کہ صرف فرض سے زائید مال ہی اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔

دونوں طبقہ فکر انفال کو ، جنگ سے حاصل شدہ مال غنیمت قرار دیتے ہیں۔
فرق یہاں یہ ہے کہ سنی مکتبہ فکر اس کو "فرض ضرورت سے زائید حاصل ہونے والے شے قرار دیتا ہے ،
جبکہ شیعہ مکتبہ فکر اس تمام کے تمام انفال کو اللہ اور اس کے رسول کا سو فی صد حق قرار دیتا ہے۔

جہاں یہ درست ہے کہ بندہ پہلے فرض ادا کرتا ہے اور پھر نفل ادا کرتا ہے۔ کیا جب اللہ تعالی کا مال ہو تو پہلے اپنی فرض ضرورت کا رکھ کر باقی بچا کچھا، اللہ تعالی اور رسول اکرم کا حق قرار دیا جائے گا؟

شیعہ مکتبہ فکر: سارے کا سارا مال غنیمت یا انفال اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق ہے ، اس کے بعد تقسیم ان کی ہدایت سے ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں انفال حکومت کا ایک عدد ریوینیو ہیڈ یا مستند ذریعہ آمدنی ہے،۔
سنی مکتبہ فکر: پہلے لڑنے والے مجاہدین اپنی فرض ضرورت کا مال رکھ لیں گے اور باقی بچا کچھا مال حکومت اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق ہے ، اس کے بعد تقسیم ان کی ہدایت سے ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں انفال حکومت کا ایک عدد ریوینیو ہیڈ یا مستند ذریعہ آمدنی ہے۔ کیا یہ لوٹ مار پہلے پھر اللہ تعالی اور اسک کے رسول اکرم کا حق بعد میں کا فارمولا نہیں؟

غنمتم :
انما غنمتم من شئی :
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ فَأَنَّ لِلّه خُمُسَه وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّه وَ ما أَنْزَلْنا عَلی عَبْدِنا یَوْمَ الْفُرْقانِترجمہ=
شیعہ ترجمہ : اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اسکے رسول،رسول کے قرابتدار ، ایتام ،مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔

سنی ترجمہ: اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

سنی مکتبہء فکر: غنمتم کو جنگ میں ہاتھ آیا ہوا انفال ہی قرار دیتے ہیں، اس کو پانچویں حصے "خمس" کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، گویا یہ غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ ، اللہ اور اس کے رسول یا بعد میں حکومتوں کا صرف اس وقت ذریعہ آمدنی ہے جب جنگ ہو اور اس سے مال غنیمت یا انفال ہاتھ آئیں۔

شیعہ مکتبہ فکر : دونوں الفاظ کو الگ الگ سمجھتے ہیں اور اور "غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ" کو زمانہ امن میں کسی بھی منافع ، اضافہ یا بڑھوتری کو "خمس" کے لئے شمار کرتے ہیں، اس کو 6 حصوں میں شمار کرتے ہیں ۔ لیکن شیعہ مکتبہء فکر، اس "خمس" کے نصف کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ 10 فی صد ، اماموں کے لئے اور 10 فیصد سادات یعنی رسول اکرم کے خاندان کے لئے، باقی عوام ، جن کے اموال الناس سے یہ مال جمع کیا گیا، ان کا کوئی حق ، شیعہ کتب میں نہیں ملتا۔ ۔
خمس سے مربوط آیت میں صاحبان خمس کو چھ گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱.خداوند (لِلہ)، ۲.رسول خدا (لِلرّسولِ)، ۳.ذی القُربی، ۴.ایتام، ۵.مساکین، ۶.وہ لوگ جو سفر میں تنگدستی کا شکار ہو گئے ہوں(ابن سبیل)۔
سہم امام: جس میں مذکروہ بالا گروہ میں سے " خدا" و " پیامبر" اور "ذی القربی" شامل ہے، احادیث کے مطابق اسلامی حکومت کے حاکم اعلی (پیغمبر یا امام معصوم) سے مختص ہے جو "سَہم امام" کے نام سے معروف ہے۔ غیبت کبرا کے زمانے میں جامع الشرایط مجتہدین امام زمان(عج) کے نائب خاص کے عنوان سے سہم امام دریافت کرتے ہیں اور معصومین کے فرامین کے تحت مختلف دینی امور میں صرف کرتے ہیں۔
سہم سادات: خمس کے حوالے سے دوسری بحث یہ ہے کہ آیا خمس سے مربوط آیت میں یتیم، مسکین، اور ابن سبیل سے مراد ہر وہ شخس ہے جس پر یتیم، مسکین، اور ابن سبیل صدق آتا ہے یا یہ کہ اس سے مراد صرف وہ فقیر، مسکین اور ابن سبیل مراد ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے ہو؟
شیعہ مکتبہء فکر اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد صرف اور صرف پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ سے ایسے فراد ہیں جن پر یہ عناوین صدق آتے ہیں۔[14] اسی بنا پر اس حصے کو "سہم سادات" کہا جاتا ہے

گویا ، شیعہ مکتبہ فکر کے مطابق یہ منافع یا بڑھوتری اللہ اور اس کے رسول کے بعد صرف اماموں اور سادات کا حق ہے، کسی حکومت کا ذریعہ آمدنی بالکل نہیں
اور سنی مکتبہ فکر کے مطابق، یہ صرف جنگ کی صورت میں ہاتھ آیا ہوا مال ہے، لہذا امن کے دورمیں یہ کسی طور بھی حکومت کا ذریعہ آمدنی بالکل نہیں ہے


شیعہ مکتبہ فکر کا نکتہء نظر یہاں دیکھئے
سمری: سنی مکتبہ فکر اپنی احادیث کی مدد سے یہ جمع شدہ پبلک ویلتھ، اموال الناس اپنا حق سمجھتے ہیں اور شیعہ مکتبہء فکر اس دولت عوام ، پبلک ویلتھ یا اموال الناس پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس مقصد کی ہی روشنی میں یہ دونوں طبقات، 2:177، 9:60 میں عوام کے لئے پبلک ویلتھ ، اموال الناس کے استعمال کے لئے اپنی پسند کے معانی لیتے ہیں ، اور کچھ بھی اموال الناس سے لوگوں کے لئے مختص نہیں کرتے ۔

ہم کو خمس میں کسی بھی مکتبہء فکر میں حکومت کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ملتا۔

اگر یہ درست ہے کہ دونوں مکاتب فکر کسی طور، حکومت کو ان ذرائع سے آمدن کو سپورٹ نہیں کرتے ، تو متفق کلک کیجئے ، ورنہ غیر متفق ہو کر درستگی فرمائیے۔۔

آئندہ مراسلہ :
2۔ دونوں ماڈل ، مسلمان ممالک کو کس طرح کی معیشیت فراہم کرتے ہیں اور ان ماڈلز کی وجہ سے مسلمان ممالک کی معیشیتوں پر پڑنے والے اثرات، جن کی شماریاتی تصویر ہم سب کے سامنے ہے۔
 
آخری تدوین:
دخل در معقولات کی معذرت۔
آپ حکومت کو حاصل ہونی رقم کو زکوۃ، کہہ لیں، خمس کہہ لیں، غنیمت کہہ لیں اس سے اس کی مقدار اور معیشت پہ اثر میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
آپ اگر زکوۃ یا خمس کو ۲۰٪ سمجھتے تو ہمارے ملک میں زیادہ تر ٹیکس اس کے آس پاس ہی ہیں۔ سیلز ٹیکس، آمدنی کا ٹیکس کی شرح بھی اسی کے لگ بھگ ہے۔
دوسرا نقطہ اور اہم نقطہ یہ ذہن میں رکھیے کہ ٹیکس سے اکٹھی کی ہوئی حکومتی آمدنی کو قومی پیداوار کے مترادف نہ سمجھیں۔ معیشت اصل میں قومی پیداوار ہے، ٹیکس کولیکشن نہیں۔
 

بافقیہ

محفلین
آیا کہ کوئی کوئی روایت، کیا نماز میں قرآن حکیم کی آیت کی جگہ پڑھی جاسکتی ہے؟ اگر نہیں، تو جتنا میں منکر روایات ہوں، آپ بھی اتنے ہی منکر روایات ہیں۔
:laughing3::laughing:
تو آپ کیوں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ قرآن حکیم اور سنت رسول کو ایک دوسرے کے مخالف ثابت کیا جائے۔
:shameonyou:
 

بافقیہ

محفلین
کیا جب اللہ تعالی کا مال ہو تو پہلے اپنی فرض ضرورت کا رکھ کر باقی بچا کچھا، اللہ تعالی اور رسول اکرم کا حق قرار دیا جائے گا؟
الزام !!! :applause:
ہم کو خمس میں کسی بھی مکتبہء فکر میں حکومت کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ملتا۔
آپ کی پوری تحریر کا محور صرف ایک ہے کہ انسان لڑبھڑ کر حکومت کیلئے پیسہ اکھٹا کرے۔ یہ تو فرانسیسی اور انگریزی استعمار کرچکے ہیں۔ :confused3:
 
2۔ دونوں ماڈل (سنی اور شیعہ مکتبہ فکر)، مسلمان ممالک کو کس طرح کی معیشیت فراہم کرتے ہیں اور ان ماڈلز کی وجہ سے مسلمان ممالک کی معیشیتوں پر پڑنے والے اثرات، جن کی شماریاتی تصویر ہم سب کے سامنے ہے۔

دونوں ماڈلز (سنی اور شیعہ مکتبہ فکر) میں ہم کسی ایک فرد کو قصور وار نہیں ٹھیرا سکتے، اس لئے کہ دونوں طبقات، بطور ایک انسٹی ٹیوشن کام کرتے تھے۔ یہ دونوں طبقے سمجھتے تھے کہ یہ حکومت چلانے کے بہتر تر حقدار ہیں، اور ہر قسم کی آمدنی کے بہتر تر حقدار ہیں۔ لہذا ان لوگوں نے وہی احادیث نبوی پسند فرمائیں جو ان کے حق موروثیت کو ثابت کرنے میں کارآمد تھیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ مولانا تقی عثمانی یا مدنی مسجد یا ایسے ہی کسی ادارے کو قائیل کرنے کی کوشش کریں کہ وہ زکواۃ کی مد میں رقومات کے حق دار نہیں۔ آپ کوہر قسم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہم پاکستان کی سابقہ ستر سالہ آمدنی پرپہلے سنی ماڈل پر نظر ڈالتے ہیں۔ اسلئے کہ ہم پاکستان، اس کی بنیادی معیشیت اور اس کی جنگوں سے زیادہ واقف ہیں ،
سنی ماڈل سے ہونے زکواۃ، تی المال یا خمس سے ہونے والی ممکنہ آمدنی :

برادر محترم سید رافع صاحب کی فراہم کردہ تعریفات کے مطابق یہ آمدنی صفر ہوگی۔ خدانخواستہ ہم رفع صاحب کو قصور وار نہیں تھیرا رہے۔

جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال:
جمع: اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (9:60)

پاکستان بننے کے بعد سے 4 جنگیں ہوئی ہیں (1947 کشمیر، 1965 ہند و پاک، 1971 ہند و پاک ، 1999 کارگل، 2003 سیاچن)، ضیاع زیادہ ہوا ہے اور کسی بھی قسم کی آمدنی نہیں ہوئی۔

2-غَنِمْتُم۔ (مال غنیمت)۔ جنگ میں حاصل ہونے والا سامان۔ پانچ حصے کیے جائیں گے۔ چار مجاہدین کے اور ایک خمس کے لیے۔ (48:20 ، 48:19 ، 48:15 ، 4:94۔8:69 ، 8:41)
قسم: فرض
جمع: سپہ سالار اور مجاہدین۔
تقسیم: امام وقت۔
خُمُسَهُ۔(مال خمس)۔ مال غنیمت کا پانچواں حصہ۔ اس کے بھی پانچ حصہ ہوں گے۔ ایک ایک رسول، رسول کےقرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں کے لئے ہے۔ (8:41)
قسم: فرض
جمع: سپہ سالار اور مجاہدین۔
تقسیم: امام وقت۔ (سنن ابی داود- كِتَاب قسم الفىء- حدیث 4147)

یہاں بھی ان پانچ جنگوں سے حکومت پاکستان کو کچھ بھی نہیں حاصل ہوا ، کیوں کہ یا تو کشمیریوں کو لوٹ کر یہ رقم حاصل ہوتی یا پھر بنگالیوں کو لوٹ کر۔ یہ دونوں مسلمان لوگوں کے اموال ہوتے ۔ فرض کریں کہ بنگالیوں اور کشمیریوں کے اموال الناس کو جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت قرار دے بھی دیا جاتا تو بھی پاکستان کے ہاتھ کچھ نا آتا۔ اس لئے یہ اموال الناس، پبلک ویلتھ ، میں سے چار حصے مجاہدین کے لئے اور ایک حصہ خمس کے لئے جس کی لسٹ جناب رافع صاحب نے فراہم کی ہے۔

4-الصَّدَقٰتُ-(مال تصدیق)- مال جو انسان سچا بننے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ (58:13 ، 58:12 ، 9:104 ، 9:79 ، 9:60 ، 9:58 ، 9:103 ، 4:114 ، 2:276 ، 2:271 ، 2:264 ، 2:263 ، 2:196)
قسم: نفل
جمع: اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)
نصاب: ضرورت سے زائد کچھ بھی ہو۔
مصرف: صدقہ کے مصارف میں۔ (9:60)

5- وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ (مال محبت)۔ مال جو انسان اللہ کی محبت میں خرچ کرتا ہے۔ (2:177)
قسم: نفل
جمع: بہتر ہے کہ خود خرچ کرے۔ اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (9:60)
تقسیم: بہتر ہے کہ خود خرچ کرے۔ امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)

فراہم کردہ ان تعریفات کی روشنی میں -الصَّدَقٰتُ- اور وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ محض نفل ہیں۔ جو چاہے وہ ادا کرے ، جو چاہے وہ نا ادا کرے، لہذا حکومت پاکستان کی پچھلے ستر سال کی آمدنی ان مدوں میں صفر سمجھی جائی گی ۔ اس لئے کہ کسی آرگنائزڈ وصولی کے لئے یہ دونوں مدیں کسی بھی مسلمان پر زبردستی فرض نہیں کی جاسکتی ہیں۔

6-الزَّكٰوةَ۔(مال پاکیزگی)۔ وہ فرض مال دینا جو انسان کو بنیادی پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ (19:31 ، 9:71 ، 9:18 ، 9:11 ، 9:5 ، 7:156 ، 5:55 ، 5:12 ، 4:162 ، 4:77، 2:277 ، 2:177 ، 2:110 ، 2:83 ، 2:43)
قسم: فرض
جمع: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)

الزَّكٰوةَ۔ کی مد میں یہ رقومات ، امام حضرات کا حق ہیں، یہی لوگ اس کو جمع کرنے کے حقدار ہیں، یہی لوگ اس کو تقسیم کرنے کے حقدار ہیں۔ پاکستان ہی نہیں ، سارے مغلیہ دور میں ان تمام مدوں (الزَّكٰوةَ۔ آتی المال، صدقات اور خمس) صرف امام حضرات کا حق تھا، حکومت صرف اور صرف جنگ کرکے منافع حاصل کرسکتی تھی۔ یہ سب کچھ تاریخ میں رقم ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں پاکستان کو زکواۃ کی مد میں کوئی مستند آمدنی 1980 تک نہیں ہوئی۔ 1980 میں زکواۃ اور عشر آرڈینینس پاس ہوا تو الزَّكٰوةَ۔ سے کوئی آمدنی اگر ہوئی بھی تو صرف ڈھائی فی صد جس کی بنیاد ، پاکستان کی قومی بیداوار نہیں تھی بلکہ بنکوں میں رکھا ہوا پیسہ تھا۔ شیعہ مکتبہ فکر اس میں حصہ نہیں لیتا ہے اور سنی مکتبہ فکر اس میں سے صرف بنکوں میں موجود رقومات پر حکومت کو زکواۃ دیتا ہے۔ لیکن ان کے ایمان کے مطابق صرف اور صرف امام حضرات ہی اس الزَّكٰوةَ۔ کے حق دار ہیں۔

2019 میں زکواۃ کی مد میں ہونے والی ساری آمدنی صرف 7377 ملین روپے تھی ، جب کہ پاکستان کا دوسری مدوں میں ریوینیو ₨ 7,036 trillion

گویا 2019 زکواۃ سارے ریوینیو کا لگ بھگ ایک ملین واں حصہ تھی۔

جب ملک کے باشندوں سے آمدنی ہی نہیں ہوگی تو اس کے لئے پھر کہاں سے رقومات آئیں گی؟
آئی ایم ایف، قرضے، غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی رقومات کی ترسیل؟

اللہ تعالی کی آیات کی تشریح جب ہم سنی طقہ فکر کے مطابق کرتے ہیں تو پاکستان کی آمدنی غربت کی انتہائی سطحوں سے نیچے قرار پاتی ہے۔
نعوذ باللہ، نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ، کیا اللہ تعالی کی آیات اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، مسلمانوں کو معیشیت کے لئے ایک مناسب نظام فراہم کرنے میں ناکام رہے؟ یا پھر اسلامی فقہہ کے ماہرین ، معیشیت کے بارے میں ٹامک ٹوئیاں کرتے رہے کہ معاشیات، ایک سائینس، جو کہ ان کا سبجیکٹ ہی نہیں تھا۔

جب اس بارے میں قرآن حکیم ، فرقان حمید سے تدبر کیا جاتا ہے جواب یہ ملتا ہے کہ 1200 سے 1400 سال پرانے علماء کی تصنیفات دیکھئے، جن کی تصنیفات میں معیشیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں ملتا، ان کے حوالے بڑے زعم سے دئے جاتے ہیں۔

طبری اور ابن کثیر جیسے علماء اپنے وقت کے بڑے عالم تھے، آج کی معیشیات کے ماہرین نہیں تھے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جناب سید عتیق رضا یا جناب صہیب عباسی سے پوچھا جائے کہ جناب آپ نے جب اے ایم ڈی ، کے 6 پراسیسر بنایا یا آریکل اپلیکیشنز لکھی تھیں تو کیا طبری اور ابن کثیر کی تفاسیر سے استفادہ کیا؟

جی ، کیا، آپ سید عتیق رضا کو نہیں جانتے؟
تو یہاں دیکھ لیجئے۔
تو یہاں دیکھ لیجئے

اور صہیب عباسی کو یہاں دیکھ لیجئے۔
پھر ان جیسے تکنیکی ماہرین سے دریافت کیجئے کہ کیا ان تکنیکی معاملات میں ان لوگوں نے کس کس روایت اور کس کس فقہہ کے ماہر سے استفادہ کیا۔
اسی طرح ، جدید معلومات پر مبنی معیشیات کے بارے میں 1200 تا 1400 سال پرانے علماء کیسے کچھ جان سکتے تھے کہ نا تو ان کو یہ مسائیل درپیش تھے اور نا ہی اس سے تعلق رکھنے والا ڈاٹا۔

اگلا مراسلہ : قرآن حکیم کا زکواۃ کا نظام ، خالصتاً اللہ تعالی کے کلام کی مدد سے اور اس سے چلنے والی معیشیت کی مثال

47:24 - أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
طاہر القادری - کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں
 
آخری تدوین:
پاکستان میں اسلامی حکومت کب سےقائم ہے؟ :applause:
واہ صاحب، خوب پکڑا آپ نے ؟ سو مبارکباد۔

اگر تھوڑی سے وضاحت فرما دیتے تو آسانی ہوجاتی ، کہ اس اسلامی حکومت کی معشیت کون سی ہوگی؟ سنی مکتبہ ء فکر کی معاشیات، یا شیعہ مکتبہ فکر کی معاشیات؟ یا ملا ازم کی اسلامی معاشیات؟
کیونکہ اب تک کی سٹڈی کے مطابق ، تو ان میں سے کسی بھی مکتبہ فکر کے نظریات کی مدد سے ایسی حکومت کا صرف اور صرف دیوالہ نکل سکتا ہے۔ اور اس کی مثال 56 عدد اسلامی ممالک سب کے سامنے ہیں۔ جن کی دولت کی گردش ، ایسے ہی نظریات کی وجہ سے صفر ہو چکی ہے۔ بلکہ لوگوں کی زبانیں تک گنگ ہو چکی ہیں۔
 

بافقیہ

محفلین
ملا ازم کی اسلامی معاشیات؟
ملا ازم؟
اب تک کی سٹڈی کے مطابق
آپ کی اسٹڈی یا اہل مغرب کی؟
ان میں سے کسی بھی مکتبہ فکر کے نظریات کی مدد سے ایسی حکومت کا صرف اور صرف دیوالہ نکل سکتا ہے۔
یہ حکومتیں تو آپ کے امریکہ بابا کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اور اس کو دیکھ کر آپ فیصلہ کررہے ہیں۔ واہ کمال کا سینس آف ہومر:applause:
 
آپ کی اسٹڈی یا اہل مغرب کی؟
رافع صاحب نے بنیادی نکات فراہم کئے اور میں نے سٹیٹ بنک کا ڈاٹا۔ جو نکات رافع صاحب نے فراہم کئے وہ ہم نےمن و عن قبول کئے کیونکہ سنی مکتبہء فکر کا یہی ایمان ہے۔ اس میں ہم رافع صاحب کو الزام نہیں دے سکتے کہ کوئی غلطی ان کی ہے، کیونکہ اس کے پیچھے 1400 سال کی تاریخ ہے۔ اور نا ہی ان نکات پر ہم کوئی ڈسکشن کرسکتے ہیں کہ یہی سنی طبقہ فکر کا ایمان ہے۔ البتہ نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ کہ اللہ تعالی کی آیات پر جب من پسند روایات کو رسول اکرم صلعم کی احادیث ثابت کرکے اپنی من پسند تشریحات صرف اس لئے کی جاتی ہیں کہ اموال الناس ، پبلک ویلتھ ، صرف ایک ٹولے کی طرف بہتی رہے تو ملک غارت ہوجاتا ہے۔

مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ککہ جمع شدہ 20 فی صد زکواۃ کھانے کے لئے ملاء ازم کو سنت رسول کا نام دے کر انتہائی بے ایمان اور لالچ سے نظریات کو من پسند شکل دی۔ یہی ملاء ازم ہے کہ عوام کی دولت ایک خاص طبقے کی طرف بہتی رہے،

یہ ملاء ازم کا ہی پراپیگنڈا ہے ، جس نے مذہب کے نام پر عام مسلمان کی آنکھیں بند کرکے ، موجودہ حکومت کو خلاف اسلام قرار دیا تاکہ زکواۃ سے حاصل شدہ دولت ان کی طرف بہتی رہے۔ مجھے اس طبقے سے کوئی دشمنی نہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس طبقے نے آج تک اس حاصل شدہ دولت سے نا کوئی نہر تعمیر کی، نا ہی کوئی سڑک اور نا ہی کوئی بنکاری نظام اور نا ہی کوئی ڈاک خانے کا نظام اور نا ہی کوئی ترسیل کا نظام، کوئی پارک، کوئی یونیورسٹی ، کچھ بھی اس عوام کی دولت سے نہیں بنا۔ غرباء اور محتاج لوگوں کے لئے کوئی فلاحی نظام؟، صحت کے لئے کوئی شفاء خانہ؟، دفاع کے لئے کوئی فوج؟ غریبوں کے لئے ، قرضے سے نجات کا نظام؟ مسافروں کے لئے انفرا سٹرکچر؟ تعلیم کے لئے جدید یونیورسٹیز؟ فصلوں پر ٹیکس کا مربوط نظام؟ کچھ بھی تو نہیں ان کے کھاتے میں؟ تو پھر یہ زکواۃ ملا ازم کے پیرو کاروں کو دو کے نعرے کیوں لگاتے ہیں؟ کیوں ملاء ازم کے پیروکار، اس پاکستانی، اسلامی حکومت کو جو یہ سارے کام کرنے کے لئے جہد مسلسل کرتی ہے ، غیر اسلامی قرار دیتے ہیں؟ کب تک یہ ٹولہ ، عام مسلمان کی آنکھ میں دھول جھونکتا رہے گا؟

۔ امید ہے کہ یہاں دی گئی معلومات ، خاص طور پر فائنیشیل ڈاٹا ، اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن کی آیات کی من پسند تشریح نے آج 56 مسلم ممالک سے ان کی معیشیت چھین لی ہے۔ ایک دن یہی مسلمان اس طرح اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے ان کو چھو لیا ہو۔ اور ملاء ازم کی اس برین واشنگ سے نکل کر قرآن حکیم سے ہدایت حاصل کریں گے ۔ انشاء اللہ۔
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
اللہ تعالی کی آیات پر جب من پسند روایات کو رسول اکرم صلعم کی احادیث ثابت کرکے اپنی من پسند تشریحات صرف اس لئے کی جاتی ہیں کہ اموال الناس ، پبلک ویلتھ ، صرف ایک ٹولے کی طرف بہتی رہے
:laugh:
آپ کے نزدیک ملا ازم عوام کو انسانیت کی تعلیم دینا، ان کی اخلاقی ، دینی اور فکری نگرانی کرنا ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے تعلق استوار کرنا، حضورﷺ اور شریعت کی محبت ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرنا اور انہیں دنیا میں جینے کا اسلوب سکھانا ہے تو ملا ازم ہی سہی۔ ہمیں اس ملا ازم پر فخر ہے۔ اور اگر آپ کا خیال ہے کہ عوام کی زکاۃ سے فلاحی، دفاعی اور رفاہی کام کئے جائیں تو یہ خیال خام ہے ۔ آپ چاہتے ہیں جس طرح عوام کے ٹیکس سے حاصل شدہ اربوں اور کھربوں روپئے سیاست دانوں کا لقمۂ تر بن جاتا ہے اسی طرح یہ زکاۃ کی مختصر سی رقم بھی ان کا ہدیۂ پر خلوص بن جائے۔ حالانکہ زکاۃ ادا کرنے والوں کی تعداد بہ مشکل آٹھ سے دس فیصد ہے۔
حقیقت میں تو آپ یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ ؎
عقائد وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی
ازل سے ذہن انساں بستۂ اوہام ہے ساقی
تو ہمیں معاف کریں ۔ اور

اپنی ڈیڑھ انچ کی جدا مسجد
کسی ویرانے میں بنائیے گا
 

سید رافع

محفلین
شیعہ نکتہ نظر کے مطابق یہ ماڈل کیا ہے

آئیے پہلے قدم کے طور پر دیکھتے ہیں کہ شیعہ نکتہء نظر میں کہاں کہاں فرق ہے۔

اور شیعہ مکتبہ فکر کی روایات کو مشکوک اور ناقابل قبول قرار دیا۔ یہ دشمنی آج بھی جاری و ساری ہے، سعودی اور ایرانی معرکوں سے کون واقف نہیں؟

ہمارا مقصد سنی اور شیعہ ماڈلز کی سٹڈی ہے

یعہ مکتبہء فکر نے انفال کو جنگی غنائم یعنی جنگ سے حاصل ہونے والے فائیدے، انعامات ، قراد دیا تاکہ آیت نمبر 41 میں غنم کا ترجمہ اپنے حق میں کیا جاسکے۔

سنی مکتبہء فکر نے اس کو فرض ضرورت سے زائید حاصل ہونے والا مال قرار دیا کہ صرف فرض سے زائید مال ہی اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔

مال سے متعلق آیات کا صحیح شیعہ تجزیہ شیعہ تفاسیر سے ملے گا یا انکی احادیث کی کتاب سے یا انکے فقہا کے اقوال سے۔ مجھے یہ صحیح معلوم ہوا کہ قبل اس کے مال سے متعلق شیعہ احکام ماخذ کے ساتھ درج کروں، ان کتابوں کے بارے میں لکھ دوں۔

شیعہ علماء میں بھی سنی علماء کی طرح مکاتب فکر ہیں۔ ان میں خاص کر یہ معلوم ہونا اہم ہے کہ اخباری شیعہ سنی اہل حدیث کی طرح ہیں۔اسی طرح اصولی شیعہ سنی مقلدین (مثلاً حنفی) کی طرح ہیں۔ اخباری اور اصولی دونوں ہی فقہ جعفریہ یا اثنا عشریہ یا امامیہ شیعہ کہلاتے ہیں یہ کل شیعہ آبادی کا 85 فیصد ہوں گے۔ بقیہ شیعہ اسماعیلی،زیدیہ، کیسانیہ مکتب فکر کے ہیں۔ یہ تمام کتب فقہ جعفریہ کی ہیں۔

قرآن

شیعہ تفسیر قرآن بہت سی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ ان تفاسیر کو ملاحظہ کریں۔


تفسیر نمونہ

تفسیر المیزان

تفسیر القرآن

تفسیر صافی


موبائل ایپ


گوگل ایپ تفسیر نمونہ


حدیث

معتبر ترین شیعہ کتب احادیث چار ہیں۔ ان کو کُتُب اَربعہ یا اصول اربعہ کہا جاتا ہے۔


الکافی اور فروع کافی

مَن لایَحضُرُہ الفقیہ

تہذیب الاحکام

الاِستِبصار


ان کتب میں بھی سنی کتب کی طرح مال سے متعلق ابواب ہیں۔ مثلاً باب الزکوۃ۔


جیسا کہ سنی اپنی صحاح ستہ میں چھان پھٹک کر کے حدیث پر عمل کرتے ہیں اسی شیعہ علماء ان کتابوں کی چھان بین کرتے ہیں۔ کتب اربعہ کا اردو ترجمہ باآسانی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔


جیسا کہ ان کتابوں کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔


الکافی کا اردو ترجمہ اور فروع کافی کا اردو ترجمہ

مَن لایَحضُرُہ الفقیہ کا اردو ترجمہ

تہذیب الاحکام کا اردو ترجمہ

الاِستِبصار کا اردو ترجمہ


فقہا

فقہا کے احکام بہت سی جگہوں سے معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن گرینڈ آیت اللہ سیستانی اس صدی کے سب سے بڑے شیعہ فقہی ہیں اور اس ضمن میں ان کی ویب سا ئٹ سیستانی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
 
آپ کے نزدیک ملا ازم عوام کو انسانیت کی تعلیم دینا، ان کی اخلاقی ، دینی اور فکری نگرانی کرنا ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے تعلق استوار کرنا، حضورﷺ اور شریعت کی محبت ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرنا اور انہیں دنیا میں جینے کا اسلوب سکھانا ہے تو ملا ازم ہی سہی۔

کاش کے ملاء، مذہبی سیاسی بازیگری کے ساتھ ساتھ، یہ کام بھی کیا کرتے۔۔۔۔ گو کہ ہر شخص نے خود جواب دینا ہے۔ بات ہے اموال الناس کی کہ یہ ملاء اس کو کھا جاتے ہیں، کسی بھی ترقیاتی کام میں نہیں لگاتے۔ آج تک کسی اسلامی ملک میں، کوئی سڑک ، کوئی سکول، کوئی پارک، کوئی نہر، کوئی بنک، کوئی انشورنس کمپنی، کوئی فوج، کوئی ۔۔۔۔ کوئی ۔۔۔ کوئی ؟؟؟؟؟ ملا ازم کی پیداوار ہے؟
 

ام اویس

محفلین
کاش کے ملاء، مذہبی سیاسی بازیگری کے ساتھ ساتھ، یہ کام بھی کیا کرتے۔۔۔۔ گو کہ ہر شخص نے خود جواب دینا ہے۔ بات ہے اموال الناس کی کہ یہ ملاء اس کو کھا جاتے ہیں، کسی بھی ترقیاتی کام میں نہیں لگاتے۔ آج تک کسی اسلامی ملک میں، کوئی سڑک ، کوئی سکول، کوئی پارک، کوئی نہر، کوئی بنک، کوئی انشورنس کمپنی، کوئی فوج، کوئی ۔۔۔۔ کوئی ۔۔۔ کوئی ؟؟؟؟؟ ملا ازم کی پیداوار ہے؟
میرا ایک سوال ہے۔
ملوک یا ملک سے ملاء کیسے اور کس زبان کے کون سے کلیہ کے تحت بنایا گیا ہے؟


مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ککہ جمع شدہ 20 فی صد زکواۃ کھانے کے لئے ملاء ازم کو سنت رسول کا نام دے کر انتہائی بے ایمان اور لالچ سے نظریات کو من پسند شکل دی۔ یہی ملاء ازم ہے کہ عوام کی دولت ایک خاص طبقے کی طرف بہتی رہے،
دوسرا سوال یہ ہے کہ
سنی علماء تو ڈھائی فیصد زکوة پر متفق ہیں پھر عوام الناس کی کون سی دولت عوام الناس کے ایک خاص طبقے کی طرف بے دریغ بہہ رہی ہے۔

گویا 2019 زکواۃ سارے ریوینیو کا لگ بھگ ایک ملین واں حصہ تھی
یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مدارس کی تعداد کتنی ہے اور ان میں زیر تعلیم طلبہ اور اساتذہ کے اخراجات کیا کیا اور کتنے ہیں؟
 

بافقیہ

محفلین
مسلم ملک کہئے;)
کوئی سڑک ، کوئی سکول، کوئی پارک، کوئی نہر، کوئی بنک، کوئی انشورنس کمپنی، کوئی فوج، کوئی ۔۔۔۔ کوئی ۔۔۔ کوئی ؟؟؟؟؟ ملا ازم کی پیداوار ہے؟
یہ سب کام تو حکومت کے کرنے کے ہیں۔ اس میں ملاّ ، کٹھ ملّا کہاں سے آگئے۔
علاوہ ازیں آپ بھی تو عوام الناس میں آتے ہیں۔ اور آپ جیسے کروڑوں اور ۔ مگر آپ اور آپ جیسوں کے پیسے تو مدارس میں نہیں آتے! تو جاتے کہاں ہیں؟
 
آخری تدوین:
مال سے متعلق آیات کا صحیح شیعہ تجزیہ شیعہ تفاسیر سے ملے گا یا انکی احادیث کی کتاب سے یا انکے فقہا کے اقوال سے۔ مجھے یہ صحیح معلوم ہوا کہ قبل اس کے مال سے متعلق شیعہ احکام ماخذ کے ساتھ درج کروں، ان کتابوں کے بارے میں لکھ دوں۔

بہت ہی شکریہ، اگر آپ شیعہ مکتبہ فکر کا نکتہء نظر پیش کردیجئے تو اس کے بعد مجھے قرانی نکتہء نظر پیش کرنے میں روانی رہے گی۔ اور اس سوال کا جواب بھی سامنے آ جائے گا کہ "ڈھائی فی صد کی بنیاد کیا ہے؟
 
Top