زکواۃ کا نصاب، ڈھائی فی صد کی کیا دلیل ہے؟

بافقیہ

محفلین
عموماً احادیث پرست لوگ، احادیث نبوی سے قرآن حکیم کو غلط ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ہائے ہائے! آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ واللہ ! میں سراپا سپاس ہوں کہ آپ نے مجھے سمجھادیا کہ ہمارے اسلاف نے اپنی زندگیاں احادیث کی خاطر قرآن کو غلط ثابت کرنے میں فنا کردیں۔
اللہ اللہ ! آپ کی وجہ سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ جو شخص صرف و نحو کی دو کتابیں پڑھ کر قرآن کی تفسیر بتانے چلا ہے ، ہمیں اپنے تمام مفسرین کرام، محدثین عظام اور اسلاف کو پیٹھ دکھا کر اس کی بات مان لینی چاہئے۔
آپ جس زکاۃ اور ربا کے بارے میں بات کررہے ہیں افسوس کہ اس کی ابجد سے بھی آپ لا تعلق ہیں۔ غلام احمد پرویز اور اس کے چیلوں کی باتوں نے آپ کو اس قدر گم راہ کردیا ہے کہ آپ کا دل اپنے آپ سے باغی ہوگیا ہے۔
 

بافقیہ

محفلین
ریفرنس کے ساتھ ہونے والی قرآن حکیم کے دلائیل
بے اختیار ہنسی آجاتی ہے آپ کی ہر بات پر، اس لئے کوشش بسیار کے باوجود سنجیدگی قریب آنے سے مانع ہے۔
آپ جو قرآن حکیم کے دلائل کہہ رہے ہیں وہ دلائل کہاں ہیں؟ وہ تو قرآن کی آیات کریمہ کی من مانی تشریح ہے، جسے آپ اپنے عظیم دلائل سمجھ رہے ہیں۔ دلائل وہ ہوتے ہیں کہ جسے زبردستی لقمہ بنا کر پیٹ میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ تو صبح کی طرح روشن اور اظہر من الشمس ہوتی ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ آپ فورم کو اپنے ناپختہ اور عجیب و غریب خیالات سے معاف رکھیں گے۔
اگر آپ کو حقیقت میں اسلام کو شریعت کو اور کسی بھی مسئلے کے متعلق کوئی بات کرنی ہے تو گروپ میں معزز اراکین موجود ہیں پرسنل پوچھ سکتے ہیں۔ علی الاعلان لڑیوں میں نمائش خود آپ کی تنگ دامانی کا باعث ہوگی۔
 
آخری تدوین:
ب
آپ جو قرآن حکیم کے دلائل کہہ رہے ہیں وہ دلائل کہاں ہیں؟ وہ تو قرآن کی آیات کریمہ کی من مانی تشریح ہے، جسے آپ اپنے عظیم دلائل سمجھ رہے ہیں۔ دلائل وہ ہوتے ہیں کہ جسے زبردستی لقمہ بنا کر پیٹ میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ تو صبح کی طرح روشن اور اظہر من الشمس ہوتی ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ آپ فورم کو اپنے ناپختہ اور عجیب و غریب خیالات سے معاف رکھیں گے۔
اگر آپ کو حقیقت میں اسلام کو شریعت کو اور کسی بھی مسئلے کے متعلق کوئی بات کرنی ہے۔

محترم، ہافقیہ
آپ کے بلند بانگ دعوے سچ ہیں یا کھوکھلے؟ دلیل لائیے اگر آپ سچے ہیں ،

21:24 أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا انہوں نے اس کے سوا اور بھی معبود بنا رکھے ہیں کہہ دو اپنی دلیل لاؤ یہ میرے ساتھ والو ں کی کتاب اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں موجود ہیں بلکہ اکثران میں سے حق جانتے ہی نہیں اس لیے منہ پھیرے ہوئے ہیں
 

سید رافع

محفلین
مال جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت ، ٹینک، تلوار، بندوق توپ ، کوئی بھی ساز و سامان جس کی اہمیت ہو۔ اس پر 100 فی صد اللہ تعالی کا حق ہے (8:1)
2- مَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ : کسی بھی شے سے تم لوگوں کو جو بھی بڑھوتری یا اضافہ ہوا (8:41)
فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ - نمبر 2 سے ہونے والے بڑھوتری یا اضافہ کا پانچواں حصہ،(ب1)اللہ کے لئے ہے۔ (8:41)
4۔ اور (2ب)رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (ب3) قرابت داروں کے لئے اور(ب4) یتیموں اور (ب5)محتاجوں اور (6ب)مسافروں کے لئے ہے۔ (8:41)

5۔ صدقات : صدقات (زکوٰۃ) محض (1ج) غریبوں اور (2ج) محتاجوں اور (3ج) ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور(4ج) ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (5ج) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور (6ج) قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور(7ج) اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور (8ج) مسافروں پر (9:60 اور 2:177)

6: آتی المال : ﷲ کی محبت میں (اپنا) (1د) مال قرابت داروں پر اور (2د) یتیموں پر اور(3د) محتاجوں پر اور(4د) مسافروں پر اور (5د)مانگنے والوں پر اور (6د) (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے

7: زکواۃ : اس کی تعریف آپ فراہم کیجئے، اس کا ماخذ کیا ہے اور یہ کس کس کس پر خرچ کی جائیگی؟؟
8: ربا: وہ اضافہ جس کو اللہ تعالی مٹاتا ہے، جو کہ برعکس ہے اس صدقہ (2:276) یا زکواۃ (30:39) جس کو اللہ تعالی بڑھاتا ہے (2:276 اور 30:39)
9۔ اموال الناس: ایک سے زائید افراد کے اموال، چھوٹے پیمانے پر دو یا زائید لینے والوں اور دو یا زائید دینے والے ، بڑے پیمانے پر ، قوم کی دولت یا پبلک ویلتھ

مشورہ ہے کہ:

  1. گفتگو میں قرآن کا لفظ ہی استعمال کرنا بہتر ہے تاکہ غلط فہمی نہ ہو۔
  2. لفظی ترجمہ کو آسانی کے لیے ایک دفعہ بیان کر دینا کافی ہے اور پھر ساری گفتگو میں قرآن کا وہ عربی لفظ ہی استعمال کیا جائے۔
  3. یہ اس لیے کہ نہ ہی لفظی ترجمہ معتبر ہے اور نہ ہی کوئی دو لفظی انگریزی یا اردو اصطلاح۔
  4. ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے نئے الفاظ گفتگو میں بڑھتے جائیں گے امت میں اختلاف بڑھتا جائے گا۔ جبکہ قرآن کے لفظ پر امت کا اجماع ہے۔
  5. قرآن کا لفظ استعمال کرنے سے ہماری گفتگو میں برکت رہے گی۔ قرآن کا لفظ استعمال کرنے سے قرآن یاد ہو گا۔
  6. اگر گفتگو قرآن کے لفظ کے تحت ہو گی تو جلد پتہ لگ جائے گا کہ وہ لفظ قرآن میں اور کس کس جگہ کن کن معنی میں آیا ہے۔
  7. تشریح میں کسی نئے زاویے یا نئے لفظی ترجمے کو جلد قبول یا رد کیا جا سکے گا کیونکہ آپ اچھی طرح جان چکیں ہوں گے کہ قرآن اور حدیث شریف ﷺ ان الفاظ کو کس طرح استعمال کرتی ہے۔
ایک مثال سے سمجھیے۔

اگر آپ نے انفال کا لفظی اردو ترجمہ "مال غنیمت" اور گفتگو میں یہ بات سب کو معروف ہو گئی تو اب یوں کہنے میں بات سب کو سمجھ آئے گی۔ مثلاً آج انفال کس کا حق ہے؟ اگر پاکستان بھارت جنگ ہو تو انفال پر کس کا حق ہو گا؟ کیا عراق ایران جنگ میں انفال کا سوال بنتا ہے؟ اب اگر کسی کو انفال کا لفظی ترجمہ نہیں معلوم تو اسکو گنے چنے 25 سے 30 الفاظ کی لسٹ بمع لفظی ترجمے کے فراہم کر دی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ آپ ان سوالوں میں قرآن کے لفظ کو لفظی ترجمے سے بدل کر بھی مفہوم سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً آج مال غنیمت کس کا حق ہے؟ اگر پاکستان بھارت جنگ ہو تو مال غنیمت پر کس کا حق ہو گا؟ کیا عراق ایران جنگ میں مال غنیمت کا سوال بنتا ہے؟

اس کے بر عکس اگر آپ نے اسے کسی دو لفظی انگریزی الفاظ سے بدل دیا تو تین مختلف اصطلاحات میں بات سمجھانی ہو گی۔ گفتگو پیچیدہ ہو سکتی ہے اور نتیجے تک پہچنے میں دیر لگ سکتی ہے۔

مثلاً انفال کا دو لفظی انگریزی ترجمہ اگر "وار بوٹی" کر دیا تو یوں آپ ہی کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی کہے کہ:

  1. آج انفال کس کا حق ہے؟ آج مال غنیمت کس کا حق ہے؟ آج وار بوٹی کس کا حق ہے؟
  2. اگر پاکستان بھارت جنگ ہو تو انفال پر کس کا حق ہو گا؟ اگر پاکستان بھارت جنگ ہو تو مال غنیمت پر کس کا حق ہو گا؟ اگر پاکستان بھارت جنگ ہو تو وار بوٹی پر کس کا حق ہو گا؟
  3. کیا عراق ایران جنگ میں انفال کا سوال بنتا ہے؟ کیا عراق ایران جنگ میں مال غنیمت کا سوال بنتا ہے؟ کیا عراق ایران جنگ میں وار بوٹی کا سوال بنتا ہے؟

ذیل میں قرآنی لفظ- (لفظی ترجمہ) -مختصر ایک سطری تعریف اور اسکا ماخذ لکھا ہے۔ آسانی کے لیے ریفرنس کا لنک بھی ساتھ ہی دے دیا ہے۔

1-انفال۔(مال نفل)۔ انسان کی فرض ضرورت سے زائد حاصل ہونے والی شئے۔ اللہ اور اسکے رسول 100 فیصد مال نفل کے مالک ہیں۔ (8:1)
2-غَنِمْتُم۔ (مال غنیمت)۔ جنگ میں حاصل ہونے والا سامان۔ پانچ حصے کیے جائیں گے۔ چار مجاہدین کے اور ایک خمس کے لیے۔ (48:20 ، 48:19 ، 48:15 ، 4:94۔8:69 ، 8:41)
خُمُسَهُ۔(مال خمس)۔ مال غنیمت کا پانچواں حصہ۔ اس کے بھی پانچ حصہ ہوں گے۔ ایک ایک رسول، رسول کےقرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں کے لئے ہے۔ (8:41)
4-الصَّدَقٰتُ-(مال تصدیق)- مال جو انسان سچا بننے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ (58:13 ، 58:12 ، 9:104 ، 9:79 ، 9:60 ، 9:58 ، 9:103 ، 4:114 ، 2:276 ، 2:271 ، 2:264 ، 2:263 ، 2:196)
5- وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ (مال محبت)۔ مال جو انسان اللہ کی محبت میں خرچ کرتا ہے۔ (2:177)
6-الزَّكٰوةَ۔(مال پاکیزگی)۔ وہ فرض مال دینا جو انسان کو بنیادی پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ (19:31 ، 9:71 ، 9:18 ، 9:11 ، 9:5 ، 7:156 ، 5:55 ، 5:12 ، 4:162 ، 4:77، 2:277 ، 2:177 ، 2:110 ، 2:83 ، 2:43)
7: الرِّبٰو: (مال اضافہ)۔ وہ اضافی مال (یا شئے) جو کسی مال (یا شئے) کی واپسی پر دیا جائے۔ (30:39 ، 4:161 ، 3:130 ، 2:278 ، 2:276 ، 2:275)
اَمۡوَالِ النَّاسِ: (مال عوام)۔ لوگوں کے مال (یا شئے)۔ مثلاً سونا، چاندی، کرنسی، جواہرات، زمین، سامان تجارت، غلہ، پھل (30:39)

مال۔ ہر اس گھریلو یا تجارتی سامان یا زمین وجائداد جانور یا نقد سرمایہ کو کہتے ہیں جو فریاد جماعت کی ملکیت میں ہو۔
زکوۃ فرض ہے۔ (صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 7
زکوۃ نہ دینے پر قتل کرو۔ (صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 24)
خمس کا ادا کرنا ایمان میں داخل ہے۔ (صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 52)
 
آخری تدوین:
سید رافع صاحب، سب سے پہلے، آپ کا بہت شکریہ، اس معلوماتی مراسلے کے لئے آپ کے مراسلے کے دو حصے ہیں،
پہلا آپ کا مشورہ : میں اس سے سو فی صد متفق ہوں
دوسرا الفاظ کی قرانی تعاریف۔ : میں ان تعاریف پر آپ کی فراہم کردہ آیات کی روشنی میں غور کررہا ہوں، جلد جواب دوں گا۔
 

ام اویس

محفلین
قرآن کا یہ انداز ہے کہ کسی نظریے کو واضح کرنے کے لئے ، مخالف الفاظ سے کام لیتا ہے۔ اس آیت سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ زکواۃ دینے کے عمل کا مخالف عمل "ربا لینا ہے"

مزید دیکھئے کہ صدقات اور ربا کے مخالف ہونے کا تعلق
2:276 يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
مٹاتا ہے اللہ "ربا" کو
اور بڑھاتا ہے "صدقات" کو اور اللہ خوش نہیں سارے نا شکرے گنہگار سے

ان دو آیات سے یہ واضح ہے کہ "ربا" کا مخالف "صدقات" اور "زکواۃ" ہیں

ربا رکھ لینے یعنی جو رقم زکواہ یا صدقات کی مد میں بطور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ ) میں دی جانئ تھی ، نہیں دی گئی تو وہ ربا ہے؟
4:161 وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اور اس لئے کہ وہ "ربا" لے لیتے جبکہ وہ اس سے منع کیے گئے تھے اور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ) غلط طور کھا جاتے اور ان میں جو کافر ہوئے ہم نے ان کے لئے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے،

گویا "زکوۃ " یا "صدقات " کا رکھ لینا یا کھا جانا ، "ربا کھا جانا ہے" کیونکہ ربا رکھ لینا یا کھا جانات ، زکواہ یا صدقات دینے ، دونوں کا مخالف عمل ہے ، ربا رکھ لینے سے عوام کی دولت( أَمْوَالَ النَّاسِ) میں کمی آتی ہے۔
زکوة دینے کا مطلب ہے مال میں سے رقم دینا (مال دینا)
اور
ربا کا مطلب ہے مال پر اور رقم لینا (یعنی مال لینا )
واضح رہے۔۔۔۔
زکوة اور ربا میں اصل “ مال “ ہے نہ کہ زکوة یا صدقات
 

بافقیہ

محفلین
زکوة دینے کا مطلب ہے مال میں سے رقم دینا (مال دینا)
اور
ربا کا مطلب ہے مال پر اور رقم لینا (یعنی مال لینا )
واضح رہے۔۔۔۔
زکوة اور ربا میں اصل “ مال “ ہے نہ کہ زکوة یا صدقات
جی ! مگر سرور صاحب کی تو بات ہمیں سمجھ میں نہیں آتی۔ اپنی کج رویوں کو ہم پر تھوپنے چلے ہیں۔

سرور صاحب! آپ یہ بتائیں! اگر ربا کا مطلب وہ ہے جو آپ ہمیں بتارہے ہیں، جو معانی کبھی اس امت کے کسی فرد پر نہیں کھلے ، صرف آپ اور آپ کے پیشوا پر فرنگی دانشمندیوں کے زیر اثر کھلے، تو یہ جو بینکوں میں سود ، بیمہ، لون وغیرہ کی شکلیں تو آپ کی نظر میں جائز ہونی چاہئیں۔ !!!
 

سید رافع

محفلین
زکوة دینے کا مطلب ہے مال میں سے رقم دینا (مال دینا)
اور
ربا کا مطلب ہے مال پر اور رقم لینا (یعنی مال لینا )
واضح رہے۔۔۔۔
زکوة اور ربا میں اصل “ مال “ ہے نہ کہ زکوة یا صدقات

صحیح فرمایا۔ ماشاء اللہ۔ بس صحیح علم کو ظاہر کرنا ہی وقت کا سب سے اچھا مصرف ہے۔

لفظ الربا احادیث میں بار بار آیا ہے۔ جیسا کہ:

1- فقال: الذي رايته في النهر، آكل الربا ۔ انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نہر میں تم نے جس شخص کو دیکھا وہ سود کھانے والا انسان ہے۔ (صحيح البخاری - كِتَاب البیوع- حدیث 2085)
2- وآكل الربا وموكله، ولعن المصور۔ سود لینے والے اور سود دینے والے کو (سود لینے یا دینے سے) منع فرمایا اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی۔(صحيح البخاری - كِتَاب البیوع- حدیث 2086)
3- اجتنبوا السبع الموبقات۔۔۔ واكل الربا ۔سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں بچتے رہو۔۔۔سود کھانا۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الْوَصَايَا - حدیث 2766)
4- آكل ربا خائن۔ گاہکوں کو پھانسنے کے لیے قیمت بڑھانے والا سود خور کی طرح خائن ہے۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الشَّهَادَاتِ - حدیث 2675)
5- آكل ربا خائن۔ سود خوار اور خائن ہے۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الْبُيُوعِ - حدیث 2142)
6- وآكل الربا وموكله والواشمة والمستوشمة۔ اور سود لینے والے اور دینے والے، گودنے والی اور گودانے والی (پر لعنت بھیجی)۔(صحيح البخاری - كِتَاب اللِّبَاسِ- حدیث 5945)
7۔ والذي رايته في النهر آكلوا الربا ۔ (دوزخ میں) جس کو آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الْجَنَائِزِ - حدیث 1386)

☆☆☆☆☆☆☆​

بعض چیزیں "بغیر کچھ اضافہ دیے" بھی سود ہو جاتی ہیں اگر ایک ہی مجلس میں لین دین مکمل نہ ہو جائے۔ جیسے سونا، گیہوں، کھجور، جو۔

1۔ الذهب بالذهب ربا۔ سونا سونے کے بدلے میں (خریدنا) سود میں داخل ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو۔ (صحيح البخاری - كِتَاب البیوع- حدیث 2134)
2- البر بالبر ربا إلا هاء وهاء۔ گیہوں کو گیہوں کے بدلہ میں بیچنا سود ہے۔(صحيح البخاری - كِتَاب البیوع- حدیث 2170)
3- لا ربا إلا في النسيئة۔ (مذکورہ صورتوں میں) سود صرف ادھار کی صورت میں ہوتا ہے۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الْبُيُوعِ - حدیث 2179)

☆☆☆☆☆☆☆
محض خراب مال کے بدلے اگر کم مقدار کا اچھا مال بدل لیا تو یہ بھی سود ہے۔ یعنی بعض صورتوں میں کمی کا سودا بھی سود ہے۔ دوسرے فرد کے لیے یہ بہرحال اضافے کا سودا ہے۔ مثلاً زیادہ بری کھجور کے بدلے کم مقدار کی اچھی کھجور کا سودا۔ البتہ خریدنے کا ارادہ ہو تو کھجور بیچ کر عمدہ خریدیں۔

1- اوه اوه، عين الربا، عين الربا لا تفعل۔ توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر۔ (صحيح البخاری - كِتَاب البیوع- حدیث 2312)

لیکن جانوروں پر اس طرح ایک کے بدلے دو لینا سود نہیں ہوتا۔
1۔ لا ربا في الحيوان۔ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الْبُيُوعِ - حدیث 7563)


☆☆☆☆☆☆☆​

قرآن میں جو آخری آیت نازل ہوئی وہ ربا کی ہی تھی۔

1- آخر آية نزلت على النبي صلى الله عليه وسلم آية الربا۔ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ سود کی آیت تھی۔ (صحيح البخاری - كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ - حدیث 4544)
2۔ وابواب من ابواب الربا۔ میری تمنا تھی کہ رسول اللہﷺ ہم سے جدا ہونے سے پہلے ہمیں ان کا حکم بتا جاتے، دادا کا مسئلہ، کلالہ کا مسئلہ اور سود کے چند مسائل۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الْأَشْرِبَةِ - حدیث 5583 )


☆☆☆☆☆☆☆​

خاص کر جو لوگ امریکہ و یورپ میں مقیم ہیں، ان کے لیے ہدیے والےربا کی خاص ہدایت منجانب رسول اللہ ﷺ۔

1۔ قال:" إنك بارض الربا بها فاش إذا كان لك على رجل حق، فاهدى إليك حمل تبن او حمل شعير او حمل قت فلا تاخذه، فإنه ربا" ۔ فرمایا "تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔ (صحيح البخاری - كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ - حدیث 3814)


☆☆☆☆☆☆☆​

محض قسم کا اضافہ کر دینا بھی سود ہی کی شاخ ہے۔

1۔الحلف منفقة للسلعة ممحقة للبركة۔ قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے۔ (صحيح البخاری - كِتَاب الْبُيُوعِ - حدیث 3814)
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
جی ! مگر سرور صاحب کی تو بات ہمیں سمجھ میں نہیں آتی۔ اپنی کج رویوں کو ہم پر تھوپنے چلے ہیں۔

سرور صاحب! آپ یہ بتائیں! اگر ربا کا مطلب وہ ہے جو آپ ہمیں بتارہے ہیں، جو معانی کبھی اس امت کے کسی فرد پر نہیں کھلے ، صرف آپ اور آپ کے پیشوا پر فرنگی دانشمندیوں کے زیر اثر کھلے، تو یہ جو بینکوں میں سود ، بیمہ، لون وغیرہ کی شکلیں تو آپ کی نظر میں جائز ہونی چاہئیں۔ !!!

ماشاء اللہ۔ آپ نے خوب گرفت کی ہے۔ جزاک اللہ۔ آپ جیسے مخلص لوگ جب تک امت محمدیہ ﷺ کو میسر ہیں صحیح علم کو آنچ نہیں۔ ناقص مشورہ ہے کہ آپ گرفت کے ساتھ صحیح علم بھی لکھ دیں تو علم کے متلاشی لوگوں کے لیے یہ کوشش باران رحمت اور آپکے لیے صدقہ جاریہ ہو گی۔ انشاء اللہ۔

جیسا کہ آپ نے توجہ دلائی کہ احادیث مبارکہ ﷺ سے ربا کے معنیٰ امت کے ہر دور میں معلوم رہیں ہیں۔ آپ کے اس مراسلے کے توسط سے کچھ احادیث مبارکہ ﷺ ربا سے متعلق ہدیہ محفل ہیں۔ یہ صحیح مسلم سے لی گئیں ہیں۔

1- لا تبيعوا الدينار بالدينارين، ولا الدرهم بالدرهمين۔مت بیچو ایک دینار کو بدلے میں دو دینار کے اور نہ ایک درہم کو بدلے میں دو درہم کے۔ (صحيح مسلم- كِتَاب الْمُسَاقَاةِ - حدیث 4058)
2- والملح بالملح مثلا بمثل يدا بيد، فمن زاد او استزاد، فقد اربى۔نمک کو نمک کے بدلے برابر برابر، نقد پھر جو کوئی زیادہ دے یا زیادہ لے تو سود ہو گیا الا نوع بدلے۔(صحيح مسلم- كِتَاب الْمُسَاقَاةِ - حدیث 3814)
3- نهى عن بيع الثمر بالتمر، وقال: ذلك الربا۔ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا درخت پر لگی ہوئی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے سے اور فرمایا: ”یہی سود ہے"۔(صحيح مسلم- كِتَاب الْبُيُوعِ- حدیث 3887)
4- فقال: ما كان يدا بيد فلا باس به، وما كان نسيئة فهو ربا۔ میرے ایک شریک نے چاندی بیچی ادھار۔۔۔۔اگر نقدا نقد ہو تو قباحت نہیں اور جو ادھار ہو تو سود ہے۔(صحيح مسلم- كِتَاب الْمُسَاقَاةِ- حدیث 3814)
5- إنما الربا في النسيئة۔”سود ادھار میں ہے۔“۔(صحيح مسلم- كِتَاب الْمُسَاقَاةِ- حدیث 4089)
6- لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر۔(صحيح مسلم- كِتَاب الْمُسَاقَاةِ- حدیث 4092)
7- لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ۔۔۔۔۔۔ سود لکھنے والے پر اور سود کے گواہوں پر۔ (صحيح مسلم- كِتَاب الْمُسَاقَاةِ- حدیث 4093)
 

سید رافع

محفلین
محترم، ہافقیہ
آپ کے بلند بانگ دعوے سچ ہیں یا کھوکھلے؟ دلیل لائیے اگر آپ سچے ہیں ،

21:24 أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا انہوں نے اس کے سوا اور بھی معبود بنا رکھے ہیں کہہ دو اپنی دلیل لاؤ یہ میرے ساتھ والو ں کی کتاب اور مجھ سے پہلے لوگوں کی کتابیں موجود ہیں بلکہ اکثران میں سے حق جانتے ہی نہیں اس لیے منہ پھیرے ہوئے ہیں

چلیں خیر کوئی بات نہیں۔ اسلام پہلے ہی بہت مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ بنیادی ایمان کی باتیں زیر بحث آئیں گی تو لوگ حیران ہی ہوں گے۔ بہرحال کچھ ماحذ ربا احادیث رسول ﷺ سنن ابی داود سے ہدیہ ہیں۔

بعض جاہلیت کا ربا وصول کرکے ایمان لائے۔
1- كان له ربا في الجاهلية۔جاہلیت میں کچھ سود (وصول کرنا) رہ گیا تھا انہوں نے اسے بغیر وصول کئے اسلام قبول کرنا اچھا نہ سمجھا۔(سنن ابی داود- كِتَاب الْجِهَادِ- حدیث 2537)
ایک زمانے میں سب ربا کھائیں گے۔
1- لياتين على الناس زمان، لا يبقى احد إلا اكل الربا۔ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں سود کھانے سے کوئی بچ نہ سکے گا۔ (سنن ابی داود- كِتَاب الْبُيُوعِ- حدیث 3331)

اگر دو میں سے زیادہ والا سودا ختیار کیا تو وہ رباہے
1- فله اوكسهما او الربا۔ (اور دوسری ٹھکرا دی جائے گی) کیونکہ وہ سود ہو جائے گی۔ (سنن ابی داود- كِتَاب - حدیث 3461)

سفارش پر ہدیہ خالص رباہے
1- فقد اتى بابا عظيما من ابواب الربا۔سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی۔۔۔ تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا۔ (سنن ابی داود- كِتَاب الْإِجَارَةِ- حدیث 3541)

اہل کتاب ربا کھانے لگیں تو معاہدہ ختم
1- و ياكلوا الربا، قال إسماعيل: فقد اكلوا الربا۔یا سود نہ کھانے لگیں۔ اسماعیل سدی کہتے ہیں: پھر وہ سود کھانے لگے۔ (سنن ابی داود- كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ- حدیث 3041)

رسول اللہ ﷺ کا ربا کو کالعدم قرار دینا
1- الا إن كل ربا من ربا الجاهلية موضوع ۔سنو! زمانہ جاہلیت کے سارے سود کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں۔ تمہارے لیے بس تمہارا اصل مال ہے۔ (سنن ابی داود- كِتَاب الْبُيُوعِ- حدیث 3334)
 
سید رافع صاحب، آپ نے دوسرے حصے میں جو تعریفیں پیش کیں ، وہ مروجہ ہیں، آپ نے دیکھا کہ آپ کی پیش کردہ اور میری پیش کردہ الفاظ کی ان تعریفوں میں فرق ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہم فی الحال یہ فرق نظر انداز کردیتے ہیں اور اگر اجازت ہو تو پہلے آپ کی فراہم کردہ تعریفوں کی بنیاد پر ان آیات اور ان کے نتائج ایک عام آدمی ہی نہیں بلکہ ساری قوم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہافقیہ ، ام اویس اور چودھری مصطفی اس تجزیہ پر نظر رکھیں اور اگر کچھ بھی معلومات آپ کی فراہم کردہ الفاظ کی تعریفوں یا قرآن اور سنت رسول سے باہر ہوں تو نشاندہی فرمادیں۔ تاکہ اس کو درست کیا جاسکے۔

یہ تجزیہ ہم ایک سے زائید سوالات کی مدد سے کریں گے، ان سوالات کا مقصد اس سارے پراسیس کا تجزیہ ہے ناکہ کسی ایک حاضر فرد پر نکتہ چینی۔ لہذا سب نظر رکھیں۔

پہلا سوال۔ جواب آپ اپنی فراہم کردہ تعریفات کی روشنی میں دیجئے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ جمع کرنے والے اور بانٹنے والے کون ہوں گے اور کس طرح اس کو بانٹیں گے اور ان مدوں کی سورس آف انکم کیا قرار پائے گی؟

خُمُسَهُ، الصَّدَقٰتُ، وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ اور الزَّكٰوةَ۔
ان سب کو کوئی نا کوئی دیتا ہے، کوئی نا کوئی اس کو تقسیم کے لئے جمع کرتا ہے اور کسی نا کسی کو ادا کیا جاتا ہے۔ اور ان سب کا کوئی نا کوئی سورس ہوتا ہے کیا ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ کیا چاروں مد ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟ ان میں سے ہر ایک مد کس نے ادا کرنی ہے؟ اور کون جمع کرے گا اور کس کو ادا کی جائے گی۔ اور چاروں کا ذریعہ آمدنی کس طرح طے کیا جاتا ہے؟
 
آخری تدوین:
سید رافع صاحب، آپ نے دوسرے حصے میں جو تعریفیں پیش کیں ، وہ مروجہ ہیں، آپ نے دیکھا کہ آپ کی پیش کردہ اور میری پیش کردہ الفاظ کی ان تعریفوں میں فرق ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہم فی الحال یہ فرق نظر انداز کردیتے ہیں اور اگر اجازت ہو تو پہلے آپ کی فراہم کردہ تعریفوں کی بنیاد پر ان آیات اور ان کے نتائج ایک عام آدمی ہی نہیں بلکہ ساری قوم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہافقیہ ، ام اویس اور چودھری مصطفی اس تجزیہ پر نظر رکھیں اور اگر کچھ بھی معلومات آپ کی فراہم کردہ الفاظ کی تعریفوں یا قرآن اور سنت رسول سے باہر ہوں تو نشاندہی فرمادیں۔ تاکہ اس کو درست کیا جاسکے۔

یہ تجزیہ ہم ایک سے زائید سوالات کی مدد سے کریں گے، ان سوالات کا مقصد اس سارے پراسیس کا تجزیہ ہے ناکہ کسی ایک حاضر فرد پر نکتہ چینی۔ لہذا سب نظر رکھیں۔

پہلا سوال۔ جواب آپ اپنی فراہم کردہ تعریفات کی روشنی میں دیجئے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ جمع کرنے والے اور بانٹنے والے کون ہوں گے اور کس طرح اس کو بانٹیں گے اور ان مدوں کی سورس آف انکم کیا قرار پائے گی؟

خُمُسَهُ، الصَّدَقٰتُ، وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ اور الزَّكٰوةَ۔
ان سب کو کوئی نا کوئی دیتا ہے، کوئی نا کوئی اس کو تقسیم کے لئے جمع کرتا ہے اور کسی نا کسی کو ادا کیا جاتا ہے۔ اور ان سب کا کوئی نا کوئی سورس ہوتا ہے کیا ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ کیا چاروں مد ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟ ان میں سے ہر ایک مد کس نے ادا کرنی ہے؟ اور کون جمع کرے گا اور کس کو ادا کی جائے گی۔ اور چاروں کا ذریعہ آمدنی کس طرح طے کیا جاتا ہے؟
آسان سی بات ہے، آپ یہ دیکھ لیں کہ خمس، زکوۃ اور صدقات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے جمع اور خرچ کیا، پھر خلفا راشدین، صحابہ اور تابعین و فقہا نے اس بابت کیا کہا، اگر پھر اس میں اختلاف ہو تو اس میں کیونکر مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔
آپ کے کہنے کے مطابق نیا دھاگہ کھول دیا ہے۔
 
آسان سی بات ہے، آپ یہ دیکھ لیں کہ خمس، زکوۃ اور صدقات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے جمع اور خرچ کیا، پھر خلفا راشدین، صحابہ اور تابعین و فقہا نے اس بابت کیا کہا، اگر پھر اس میں اختلاف ہو تو اس میں کیونکر مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔
آپ کے کہنے کے مطابق نیا دھاگہ کھول دیا ہے۔
نئے دھاگے کا بہت شکریہ۔ میں نے دیکھ لیا ہے۔ اس پر انشاء اللہ بات ضرور کریں گے بھائی۔ اس دھاگہ میں اس سوال کے بعد ایک مزید سوال رہ گیا ہے جو میں رافع صاحب کے جواب کے بعد کروں گا، اور پھر میرا تجزیہ ،

چونکہ میرے مندرجہ بالاء سوالات کا جواب قرآن حکیم میں موجود ہے، لہذا اس ماخذ کو باہمی اتفاق سے استعمال کریں گے اور اگر رافع صاحب یا میں اس ضمن میں کسی حدیث رسول اکرم کی ضرورت محسوس کریں گے تو ضرور پیش کریں گے۔ میں شیعہ نہیں ہوں۔ لیکن اگر تابعین کی رائے ہی دیکھنی ہے تو کیا آپ یہ رائے پسند کریں گے، 110 احادیث رسول اکرم سے اس طبقہ نے خمس کے بارے میں اپنا نکتہ نظر ثابت کیا ہے، یقیناً نہیں۔ تو تابعین، سے واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اوررسول اکرم نے کیا حکم دیا ہے۔

چودھری صاحب، میں کسی کو قائیل کرنے کی کوشش نہیں کررہا۔ بلکہ تدبر کی دعوت دے رہا ہوں۔ پچھلے 1400 برس سے زکواۃ کے دو شماریاتی ماڈل ہیں، ان کا فرق آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں، اس میں خلفاء سے تابعین اور مفتیان کرام تک سب کے بیانات ایک جگہ ہیں ۔ دونوں ماڈلز کی کوئی نا کوئی بنیاد ہے۔ ہم ان دونوں ماڈلز اور ان کے نتائج پر غور کررہے ہیں، جو کہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ خالصتاً دلائیل کی بنیاد پر ہے۔ اگر آپ کے علم میں نہیں ہے تو موقع دیجے کہ سید رافع صاحب ہم سب کی معلومات میں مخلصانہ اضافہ کرسکیں۔۔ بہتر یہ ہے کہ ہم رافع صاحب کی بات ان سے ہی سنیں نا کہ اپنی طرف سے کچھ ان سے منسوب کریں۔
زکوۃ کے دونوں ماڈلز میں سے ایک ماڈل درست ہے، ایک ماڈل کچھ درست نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس ریفرنس موجود نہیں تو فرقہ وارانہ جذباتیت میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ تھوڑا سا صبر رکھئے۔ جب جب، آپ یا دوسرے، رافع صاحب کی بات سے متفق ہوں، متفق کا بٹن کلک کردیجئے۔ اور سکون رکھئے ، کوئی آپ کا ایمان خراب نہیں کرسکتا ، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔

میں دو آیات آپ کو پیش کروں گا۔
1۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اگر میں کسی کو بہکاؤں گا تو اس کا بوجھ بھی مجھ پر ہی ہوگا۔
17:15 - مَّنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً
جو کوئی راہِ ہدایت اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کے لئے ہدایت پر چلتا ہے اور جو شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس کی گمراہی کا وبال (بھی) اسی پر ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں

2۔ تم اس کی پیروی کرو جو نازل کیا گیا
7:3 اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ
طاہر القادری۔ (اے لوگو!) تم اس (قرآن) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اور اس کے غیروں میں سے (باطل حاکموں اور) دوستوں کے پیچھے مت چلو، تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو

والسلام
 
آخری تدوین:
برادران اور خواہران محترم،
لگتا ہے سید رافع صاحب مصروف ہیں۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس اپنے سابقہ سوالات کا جواب دوں۔ میں یہاں کسی فرد سے صرف اتنا چاہوں گا کہ وہ عربی ترجمے کی تصدیق کرسکیں کہ جو کچھ اردو میں کہا جارہا ہے وہی عربی میں لکھا ہے اور یہ کہ اس میں کچھ بھی من پسند تشریح نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے بہت ہوگا۔ آپ کو اس پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں بلکہ تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین
دخل در معقولات کے لیے معذرت
میں نے سنا ہے کہ غامدی صاحب بھی زکواۃ کے 20٪ ہونے کے قائل ہیں۔ ان کے دلائل بھی کہیں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
گذارش: اس لڑی میں غامدی صاحب پر تنقید شروع نہ کر دیجیے گا۔ دلائل پر بحث ضرور ہو سکتی ہے۔
 

سید رافع

محفلین
سید رافع صاحب، آپ نے دوسرے حصے میں جو تعریفیں پیش کیں ، وہ مروجہ ہیں، آپ نے دیکھا کہ آپ کی پیش کردہ اور میری پیش کردہ الفاظ کی ان تعریفوں میں فرق ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہم فی الحال یہ فرق نظر انداز کردیتے ہیں اور اگر اجازت ہو تو پہلے آپ کی فراہم کردہ تعریفوں کی بنیاد پر ان آیات اور ان کے نتائج ایک عام آدمی ہی نہیں بلکہ ساری قوم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہافقیہ ، ام اویس اور چودھری مصطفی اس تجزیہ پر نظر رکھیں اور اگر کچھ بھی معلومات آپ کی فراہم کردہ الفاظ کی تعریفوں یا قرآن اور سنت رسول سے باہر ہوں تو نشاندہی فرمادیں۔ تاکہ اس کو درست کیا جاسکے۔

یہ تجزیہ ہم ایک سے زائید سوالات کی مدد سے کریں گے، ان سوالات کا مقصد اس سارے پراسیس کا تجزیہ ہے ناکہ کسی ایک حاضر فرد پر نکتہ چینی۔ لہذا سب نظر رکھیں۔

پہلا سوال۔ جواب آپ اپنی فراہم کردہ تعریفات کی روشنی میں دیجئے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ جمع کرنے والے اور بانٹنے والے کون ہوں گے اور کس طرح اس کو بانٹیں گے اور ان مدوں کی سورس آف انکم کیا قرار پائے گی؟

خُمُسَهُ، الصَّدَقٰتُ، وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ اور الزَّكٰوةَ۔
ان سب کو کوئی نا کوئی دیتا ہے، کوئی نا کوئی اس کو تقسیم کے لئے جمع کرتا ہے اور کسی نا کسی کو ادا کیا جاتا ہے۔ اور ان سب کا کوئی نا کوئی سورس ہوتا ہے کیا ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ کیا چاروں مد ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟ ان میں سے ہر ایک مد کس نے ادا کرنی ہے؟ اور کون جمع کرے گا اور کس کو ادا کی جائے گی۔ اور چاروں کا ذریعہ آمدنی کس طرح طے کیا جاتا ہے؟

ذیل میں مال کی مختلف اقسام کا ذکر ہے کہ کون جمع و تقسیم کرے گا، انکے نصاب و مصرف کیا ہیں اور کیا مال کی یہ قسم نفل ہے یا فرض یا حرام۔

1-انفال۔(مال نفل)۔ انسان کی فرض ضرورت سے زائد حاصل ہونے والی شئے۔ اللہ اور اسکے رسول 100 فیصد مال نفل کے مالک ہیں۔ (8:1)
قسم: نفل
جمع: اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)
نصاب: دو دن سے زائدکھانا۔ (المعجم الاوسط، الحدیث:۴۸۰۹،ج۳،ص۳۴۸۔)
مصرف: کسی بھی حلال کام میں۔

ایک دن سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدارﷺ حضرتِ سیِّدُنا ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:’’اے ابو ذر! کیاتم جانتے ہو کہ تمہارے سامنے ایک سخت اوردشوار گزار گھاٹی ہے، اس کوصرف ہلکے لوگ ہی عبورکر سکیں گے؟‘‘ ایک شخص نے عرض کی:’’ یارسول اللہ تاجدارﷺ! کیا میں ہلکے بوجھ والے لوگوں میں سے ہوں یا بھاری بوجھ والوں میں سے؟‘‘ آپتاجدارﷺ نے دریافت فرمایا:’’کیا تیرے پاس آج کا کھانا ہے؟‘‘اس نے عرض کی:جی ہاں ، آپ تاجدارﷺنے ارشاد فرمایا:’’کل کا کھاناہے؟‘‘اس نے عرض کی:جی ہاں ، تو آپ تاجدارﷺ نے ارشاد فرمایا:’’کل کے بعد کا کھانا ہے؟‘‘ اس نے عرض کی : نہیں۔ توآپتاجدارﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تیرے پاس تین دن کا کھانا ہوتا تو تُو بھاری بوجھ والوں میں سے ہوتا۔‘ (المعجم الاوسط، الحدیث:۴۸۰۹،ج۳،ص۳۴۸۔)
1…البحرالزخارالمعروف بمسند البزار، مسند ابی الدردائ، الحدیث:۴۱۱۸،ج۱۰،ص۵۵۔
2…مجمع الزوائد،کتاب الزکوۃ،باب ماجاء فی السوال، الحدیث: ۳۰۴۵،ج۳،ص۲۵۹۔


2-غَنِمْتُم۔ (مال غنیمت)۔ جنگ میں حاصل ہونے والا سامان۔ پانچ حصے کیے جائیں گے۔ چار مجاہدین کے اور ایک خمس کے لیے۔ (48:20 ، 48:19 ، 48:15 ، 4:94۔8:69 ، 8:41)
قسم: فرض
جمع: سپہ سالار اور مجاہدین۔
تقسیم: امام وقت۔
نصاب: ایک تیر یا اس سے بھی کم۔
مصرف: چار مجاہدین کے اور ایک خمس کے لیے۔ (8:41)


خُمُسَهُ۔(مال خمس)۔ مال غنیمت کا پانچواں حصہ۔ اس کے بھی پانچ حصہ ہوں گے۔ ایک ایک رسول، رسول کےقرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں کے لئے ہے۔ (8:41)
قسم: فرض
جمع: سپہ سالار اور مجاہدین۔
تقسیم: امام وقت۔ (سنن ابی داود- كِتَاب قسم الفىء- حدیث 4147)
نصاب: ایک تیر یا اس سے بھی کم۔
مصرف: رسول اور انکے رشتے دار اور دیگر یتیم، محتاج و مسافر۔ (سنن ابی داود- كِتَاب قسم الفىء- حدیث 4152)


4-الصَّدَقٰتُ-(مال تصدیق)- مال جو انسان سچا بننے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ (58:13 ، 58:12 ، 9:104 ، 9:79 ، 9:60 ، 9:58 ، 9:103 ، 4:114 ، 2:276 ، 2:271 ، 2:264 ، 2:263 ، 2:196)
قسم: نفل
جمع: اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)
نصاب: ضرورت سے زائد کچھ بھی ہو۔
مصرف: صدقہ کے مصارف میں۔ (9:60)
  1. لِلۡفُقَرَآءِ (فقیر)
  2. وَالۡمَسٰكِيۡنِ (مسکین)
  3. وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا (صدقے کی وصولی پر معمور عملہ)
  4. وَالۡمُؤَلَّ۔فَةِ قُلُوۡبُهُمۡ (جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو جیسے نئے مسلم)
  5. وَفِى الرِّقَابِ (غلام آزاد کرانے میں)
  6. وَالۡغٰرِمِيۡنَ (قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں)
  7. وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (اللہ کی راہ میں)
  8. وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ (مسافروں پر )

5- وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ (مال محبت)۔ مال جو انسان اللہ کی محبت میں خرچ کرتا ہے۔ (2:177)
قسم: نفل
جمع: بہتر ہے کہ خود خرچ کرے۔ اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (9:60)
تقسیم: بہتر ہے کہ خود خرچ کرے۔ امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)
نصاب: جب بھی اللہ کی محبت میں خرچ کرنے کو دل چاہے۔
مصرف: ذیل میں درج ہیں۔ (2:177)
  1. ذَوِى الۡقُرۡبٰى (قرابت داروں پر)
  2. وَالۡيَتٰمٰى (یتیموں پر )
  3. وَالۡمَسٰكِيۡنَ (محتاجوں پر)
  4. وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ (مسافروں پر)
  5. وَالسَّآٮِٕلِيۡنَ (مانگنے والوں پر)
  6. وَفِىۡ الرِّقَابِ‌ۚ (غلاموں کی گردنوں کو آزاد کرانے میں)

6-الزَّكٰوةَ۔(مال پاکیزگی)۔ وہ فرض مال دینا جو انسان کو بنیادی پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ (19:31 ، 9:71 ، 9:18 ، 9:11 ، 9:5 ، 7:156 ، 5:55 ، 5:12 ، 4:162 ، 4:77، 2:277 ، 2:177 ، 2:110 ، 2:83 ، 2:43)
قسم: فرض
جمع: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (9:60)
نصاب: چاندی، سونا، غلہ، پھل، جانور اور دیگر کا الگ الگ نصاب ہے۔
مصرف: صدقہ کے مصارف میں۔ (9:60)
  1. لِلۡفُقَرَآءِ (فقیر)
  2. وَالۡمَسٰكِيۡنِ (مسکین)
  3. وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا (صدقے کی وصولی پر معمور عملہ)
  4. وَالۡمُؤَلَّ۔فَةِ قُلُوۡبُهُمۡ (جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو جیسے نئے مسلم)
  5. وَفِى الرِّقَابِ (غلام آزاد کرانے میں)
  6. وَالۡغٰرِمِيۡنَ (قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں)
  7. وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (اللہ کی راہ میں)
  8. وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ (مسافروں پر )

7: الرِّبٰو: (مال اضافہ)۔ وہ اضافی مال (یا شئے) جو کسی مال (یا شئے) کی واپسی پر دیا جائے۔ (30:39 ، 4:161 ، 3:130 ، 2:278 ، 2:276 ، 2:275)
قسم: حرام
جمع: حرام
تقسیم: حرام
نصاب: ایک تنکہ یا اس سے بھی کم۔ (صحيح البخاری - كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ - حدیث 3814)
مصرف: بدحواسی۔ (2:275)


اَمۡوَالِ النَّاسِ: (مال عوام)۔ لوگوں کے مال (یا شئے)۔ مثلاً سونا، چاندی، کرنسی، جواہرات، زمین، سامان تجارت، غلہ، پھل (30:39)
قسم: عوام کے ذاتی مال۔گھریلو یا تجارتی سامان یا زمین وجائداد جانور یا نقد سرمایہ جو فریاد جماعت کی ملکیت میں ہو۔
جمع: حلال ذرائع۔
تقسیم: حلال ذرائع۔
نصاب: ایک تنکہ یا اس سے بھی کم۔
مصرف: کسی بھی حلال مد میں خرچ کریں۔
 
آخری تدوین:
سید رافع صاحب، آپ کا تمام تر خلوص کے ساتھ تہہ دل سے شکریہ۔ ایک تعریف رہ گئی ہے ، اگر وہ بھی فراہم کردیجئے تو مہربانی ہوگی۔
آپ نے غنمتم کے معانی فراہم کئے ، شکریہ۔ درج ذیل کے معانی بھی فراہم کردیجئے۔ جو بھی آپ بہتر سمجھتے ہوں۔

سورۃ انفال کی آیت نمبر 41 میں درج ذیل اضافہ بیان ہوا ہے۔ جس کہ ایک طبقہ کا نکتہ نظر ہے ، جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت اور دوسرے طبقے کا نکتہ نظر ہے کہ کسی بھی شے سے ہونے والی بڑھوتری۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے اس طبقے کی ترجمانی کی ہے جو اسے جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت قرار دیتا ہے۔ آپ ہمیں سمجھائیے کہ اس جملے میں مِّن شَيْءٍ کس طور لیا جائے گا؟

2- مَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ -

میں آپ کا بہت ہی خلوص سے شکر گزار ہوں۔
 

سید رافع

محفلین
خمس رسول اللہ ﷺ اور انکے رشتے دار اور بنی ہاشم اور بنو عبد المطلب کے مسافر اور یتیم، مسکین اور مسافر کے لیے ہے
1- الخمس الذي لله وللرسول كان للنبيﷺ۔(قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لیے آیا ہے، وہ نبی اکرم ﷺاور آپ کے رشتہ داروں کے لیے تھا۔ (سنن نسائی - کتاب قسم الفىء - حدیث: 4152)

رسول اللہ ﷺ اور انکے رشتے دار اور بنی ہاشم اور بنو عبد المطلب کے مسافر اور یتیم، مسکین اور مسافر صدقہ نہیں کھاتے۔ اس لیے انکے لیے خمس ہے۔
2- لا ياكلون من الصدقة شيئا۔وہ (یعنی رسول ﷺ اور انکے رشتے دار) لوگ صدقہ و زکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے۔ (سنن نسائی - کتاب قسم الفىء - حدیث: 4152)

خمس پانچوں حصہ ہے۔ اسکے بھی پانچ حصے کیے جائیں گے۔
3- فكان للنبي صلى الله عليه وسلم خمس الخمس , ولذي قرابته خمس الخمس۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خمس کا خمس تھا۔ اور رشتہ داروں کے لیے خمس کا خمس۔ (سنن نسائی - کتاب قسم الفىء - حدیث: 4152)

نبی ﷺ کا حصہ اب امام وقت کے لیے ہے
4- وسهم النبي صلى الله عليه وسلم إلى الإمام۔نبی کا حصہ امام کے لیے ہو گا ۔ (سنن نسائی - کتاب قسم الفىء - حدیث: 4152)

خمس کا ذی القربی بنو ہاشم و بنو مطلب کے لیے ہے
5- ۔ وسهم لذي القربى وهم بنو هاشم , وبنو المطلب۔اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے۔ (سنن نسائی - کتاب قسم الفىء - حدیث: 4152)
 

سید رافع

محفلین
سید رافع صاحب، آپ کا تمام تر خلوص کے ساتھ تہہ دل سے شکریہ۔ ایک تعریف رہ گئی ہے ، اگر وہ بھی فراہم کردیجئے تو مہربانی ہوگی۔
آپ نے غنمتم کے معانی فراہم کئے ، شکریہ۔ درج ذیل کے معانی بھی فراہم کردیجئے۔ جو بھی آپ بہتر سمجھتے ہوں۔

سورۃ انفال کی آیت نمبر 41 میں درج ذیل اضافہ بیان ہوا ہے۔ جس کہ ایک طبقہ کا نکتہ نظر ہے ، جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت اور دوسرے طبقے کا نکتہ نظر ہے کہ کسی بھی شے سے ہونے والی بڑھوتری۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے اس طبقے کی ترجمانی کی ہے جو اسے جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت قرار دیتا ہے۔ آپ ہمیں سمجھائیے کہ اس جملے میں مِّن شَيْءٍ کس طور لیا جائے گا؟

2- مَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ -

میں آپ کا بہت ہی خلوص سے شکر گزار ہوں۔

غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ ۔ (8:41) کو مال غنیمت جاننے کی وجوہات یہ ہیں:
  1. یہ آیت بدر کی جنگ سے متعلق ہے۔ شیعہ اور سنی اس پرمتفق ہیں۔ اس آیت کو نوکری، بزنس، کان کنی یا ضرورت سے زائد سامان پر رکھنے کا قرینہ نہیں بنتا۔
  2. تفسیر نمونہ جو کہ شیعہ تفسیر ہے اس میں بھی آیت 8:41 کے ذیل میں یہ بتایا گیا ہے کہ مال غنیمت ہی تقسیم ہوا تھا۔ وہاں ائمہ اہل بیت (ع) کے اقوال بھی درج ہیں۔
  3. غنائم کے لفظ کا معروف معنی مال غنیمت ہی ہے۔
  4. بنو امیہ، بنو عباس کی خلافتیں کیوں اہل بیت، بنو ہاشم اور بنو مطلب کو خمس دیتے؟ تاکہ وہ ان سے جنگ کے لیے فوج بنائیں۔ اثر و رسوخ قائم کریں۔ چنانچہ جب خمس ملنا ہی بند تھا تو بعد (300 ہجری کے لگ بھگ) کے شیعہ علماءنے خمس کے معنی ہی تبدیل کر دیے اور اسکو زکوۃ کے قریب کر دیا۔ جب سنی خمس، زکوۃ اور حکومت میں سب ہی بے قرینہ کر رہے تھے تو شیعہ نے اپنے بقاء کے لیے شَيْءٍ کو قرینے سے ہٹ کر ہر ہر چیز پر لاگو کر دیا۔ آج شیعہ گھر میں موجود زائد ریفریجریٹر پر بھی خمس دیتے ہیں۔ جب اسلامی حکومت قائم ہو گی انشاء اللہ تو زکوۃ کے ساتھ خمس آل رسول ﷺ کو ملنے لگے گا۔ جب آل رسول ﷺ معاش کی تنگی سے آزاد ہوں گے تو اور وقت دے کر لوگوں کو اللہ کے بھید سے آگاہ کریں گے۔ ایک طویل عرصے سے امت مسلمہ نے خمس اہل بیت کو نہ دے کر اپنے آپ کو روحانی تنزلی کی راہ پر ڈال لیا ہے۔ ظاہر ہے اب جس کے پاس زکوۃ و خمس جاتی ہے وہ ذرائع ابلاغ استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔
  5. خمس کے شیعہ احکام سب کے سب شک پر منبی ہیں۔ ہر ہر حکم میں سال بھر کا شک بھرا تخمینہ کرنا ہوتا ہے جیسا کہ "اور وہ اس کے سال بھرکے اخراجات سے زیادہ ہوتوضروری ہے" ۔ اسلام میں ایک ذرہ کجا ایک ذرہ کے ہزارویں حصہ شک کی گنجائش نہیں۔۔ اسلام سیدھا سادھا ہے۔ مال غنیمت ملا مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ مال پر سال گزرا نصاب کے حساب سے مال تقسیم کر دیا۔ یہ نہیں ہے کہ سال بھر کا پہلے سوچیں، شاید موت آجائے، قدرتی آفت آ جائے، پھر خمس دیں۔ یہ سب شک اور گمراہی کی باتیں ہیں۔ آیت اللہ سیستانی جو کہ اس دور کے سب سے بڑے شیعہ عالم ہیں، ان کی سائٹ پر شک سے بھرے خمس کے احکامات لکھے ہیں جو کسی طور بھی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا حکم نہیں ہے۔
 
Top