کورونا کو کیا رونا؟ * ڈاکٹر محمد شاہد رفیع

کورونا کو کیا رونا؟
تحریر: ڈاکٹر محمد شاہد رفیع

کورونا وائرس کا انکشاف ہوا پھر اس نے چین میں ایک وبا کی شکل اختیار کر لی پھر معلوم ہوا کہ یہ اٹلی پہنچ گیا ہے۔کچھ ہی دنوں میں برادر پڑوسی ملک ایران سے پریشان کن خبریں آنے لگیں ۔ یوں اس نے epidemic سے pandemic کی شکل اختیار کر لی۔ دنیا کا ماتھا ٹھنکا ، فلسفہ تراشوں نے مفروضوں کے گھوڑے دوڑائے،کسی نے اسے چینی سازش قرار دیا تو کسی نے امریکی ہتھ کنڈا۔ کسی نے دجال کی آمد کا پیش خیمہ باور کرایا تو کسی نے اسرائیلی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا منصوبہ اور کسی نے اسے عذاب الٰہی قرار دیا۔ ماہرین طب نے سر جوڑے، محققین نے تحقیق شروع کی، حفاظتی اشیاءتیار کرنے والے اپنے کام پر لگے تو ادیب اور شاعر بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے وہ بھی میدان میں آئے۔ممکن ہے کچھ عرصہ بعد اس موضوع پر تخلیق ہونے والے ادب کو کوئی خاص صنف سخن قرار دے دیا جائے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ‘مزاحمتی ادب’ کی طرح ایک صنف ‘ابتلائی ادب’ قرار دی جائے جس کی ایک ذیلی صنف‘ وبائی ادب’ اور اُس کی بغلی صنف ‘کورونائی ادب’ کہلائے جس کے ضمن میں ‘کورونائی ظرافتی ادب’ ہو کہ کورونا کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ کورونائی ظرافتی ادب بھی پھلتا پھولتا گیا۔
کورونا اور ظرافت کی بات پر بہت سے احباب و بزرگان کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے انسانیت مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے، کوئی کہتا ہے اللہ کے عذاب کا مذاق اڑانا اس کے غضب کو مزید بھڑکانے کا موجب ہوگا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ واقعی اللہ کا عذاب ہے یا ایک بیماری ہے۔ کورونا بیماری ہو یا عذاب اس کا محض مذاق اور ٹھٹھا بنانا کوئی دانش مندی نہیں۔البتہ اگر اسے عذاب مان بھی لیا جائے تو دیکھنا یہ چاہیے کیا کورونا کا مذاق اڑایا جا رہا ہے یا لوگوں کے رویوں کو اجاگر کیا جارہا ہے؟ اسی طرح اگر انسانیت مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے تو کیا اموات کی معطیات (ڈیٹا) بتاتے رہنا اس کی خدمت ہے یا اسے خوف، تناؤ (ٹینشن) اور پژمردگی (ڈپریشن) سے نکالنا، خواہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی، بہتر ہے؟ بعض لوگ مزاح کو خلاف تقویٰ سمجھ کر بھی ظرافت کو برا سمجھتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ہنسنے کو دین داری کے خلاف سمجھتے ہیں ، سال میں ایک دفعہ مسکراتے ہیں اور فوراً توبہ کرلیتے ہیں۔ حالاں کہ ہمارا قومی مزاج تو یہ ہے کہ حکومت کرفیو لگادے تو بھائی لوگ ‘‘کرفیو دیکھنے’’ نکل پڑتے ہیں۔خوف اور گھبراہٹ میں کمی واقع ہو تو اس کمی ہی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔ وہ خبر تو پڑھی ہوگی کہ ایک علاقے میں دو لوگ اٹلی سے آئے تو ان کا کورونا ٹیسٹ ہوا۔ ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آنے پر خوشی میں ہوائی فائرنگ کی گئی۔ اس فائرنگ کو بھی ظرافت کا رنگ دیتے ہوئے اگلے دن اس خبر میں یہ حاشیہ آرائی کی گئی کہ کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ منفی آنے پر خوشی میں ہوائی فائرنگ۔ دو افراد ہلاک دو ذخمی۔ہماری قوم ظرافت ہی میں نہیں کفایت شعاری میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ اس ضمن میں بہت سے دلائل سے آپ واقف ہیں البتہ کورونائی مثال یہ سامنے آئی ہے کہ ایک مشتبہ مریض سے ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو کورونا ٹیسٹ کروانا ہوگا۔ مریض نے مہنگی فیس سنتے ہی ڈاکٹر کے منہ پر چھینک ماری اور کہا آپ اپنا ٹیسٹ کروا لیں، آپ کا پازیٹو تو میرا بھی پازیٹو، آپ کا نیگیٹو تو میرا بھی نیگیٹو۔ ظرافت و کفایت ہی نہیں ذہانت بھی ہمارے اہل وطن پر ختم ہے۔ لاک ڈاؤن سے بے زار ہوکر ایک دوست نے دوسرے کو فون کیااور گپ شپ کرنا چاہی تو دوسرے دوست نے بتایا:
he was very busy, working on a special project “Aqua ThermalTreatment of Ceramics, Aluminium, and steel under a constrained environment”.
پہلا دوست بڑا متاثر ہوا کہ میرا دوست بہت قابل بھی ہو گیا ہے اور کوئی بڑا عہدہ بھی اسے مل گیا ہے۔بعد میں حالات و واقعات کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا
نالائق اپنی بیوی کی نگرانی میں برتن دھو رہا تھا۔
اس حقیر فقیر پُر تقصیر کے خیال میں تو خوشی اور غم، بے فکری اور گھبراہٹ ،حتیٰ کہ فعالیت اور کاہلی بھی متعدی ہوتی ہیں۔ آپ خوش مزاج لوگوں کی محفل میں بیٹھیں تو کچھ ہی دیر میں آپ بھی شاداں و فرحاں نظر آنے لگیں گے اور مایوس لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کردیں تو دنیا میں آپ کو کوئی مثبت چیز نظر نہیں آئے گی۔ کورونا ئی حالات سے متاثر ہو کر تخلیق پانے والے ظرافتی ادب پڑھ کر ہم ایسے متشاعروں نے بھی اٹکل لڑانا شروع کیا، سیدھے کلیم عاجز سے جا ٹکرائے اور ان کے ایک شعر میں تحریف کر ڈالی اور کورونا سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
دامن پہ کوئی چھینک نہ خنجر پہ کوئی ماسک۔۔۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
معاف کیجیے گا ہمیں تو یہ کوئی عالمی سطح کا بیوٹی پلان محسوس ہوتا ہے۔ پہلے کہا گیا: وائرس آیا وائرس آیا، گھر بیٹھو۔ جب کچھ عرصہ گھر بیٹھ لیے، دھوپ میں جھلسی رنگت میں کچھ نکھار آیا تو کہا گیا ماسک پہنو۔ ماسک پہننے سے چہرے ذرا اور اجلے ہوئے تو ہاتھ کی فکر ہوئی، کہ شرفاء کے ہاتھ اور منہ ہی تو نظر آتے ہیں۔ فرمان جاری ہوا کہ ہاتھ دھو، صابن سے دھو، اچھی طرح دھواور بار بار دھو۔ پھر محسوس ہوا کہ ہاتھ چہرے سے بھی زیادہ صاف ہو گئے ہیں تو اگلا حکم جاری ہوا کہ کورونا سے بچنا ہے تو پانی کھولا کر چہرے پر اس کی بھاپ لو۔ گویا مکمل بیوٹی کورس کرا دیا گیا۔ شاید اسی لیے بیوٹی پارلر بند ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے کورونا ایجاد کرنے والا شخص، اگر یہ لیب میں تیار ہوا ہے تو، وہی ہے جس کی دلہن صبح منہ دھو کر اس کے سامنے آئی تو وہ اسےپہچان نہیں سکا تھا اور بیوٹی پارلر والی کو جدید اور مہنگے اینڈریوائیڈ فون کے ڈبے میں نوکیا ۱۱۰۰ کا تحفہ دینے پہنچ گیا تھا کہ تم نے بھی میرے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔
وائرس کی بیماریوں (Viral Diseases)کے ماہرین اور ان کی سُناسُنی اب تو سب ہی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کا ابھی تک کوئی علاج مارکیٹ میں نہیں آیا، اس سےمحفوظ رہنے اور چھٹکارا پانے کا واحد طریقہ قرنطینہ (کورنٹائن)ہے۔ یہ اور بات کہ ہمارے اہل وطن ماشاءاللہ اتنے ذرخیز ذہن کے مالک ہیں کہ ایک دوست کہہ رہے تھے کہ دنیا آج تک کورونا کا علاج دریافت نہیں کر سکی، میں تو صبح سو کر اٹھا تو واٹس ایپ پر بیالیس نسخے آئے ہوئے تھے۔ اہل فہم وذکا اس عرصہ کو، جسے دفتری ملازمین کے لیے ‘‘ گھر سے کام ’’ (Work from Home) کا وقت قرار دیا گیا ہے،کورنٹائن کی صوتی مناسبت سے‘‘قرآن ٹائم’’ کا نام دیتے ہیں کہ کام کے ساتھ ساتھ، دفتر آنے جانے اور دوست احباب سے ملنے ملانے میں جو وقت صرف ہوتا تھا اسے مصرف میں لایا جائے اور قرآن اور صاحبِ قرآن کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط تر کیا جائے۔
کورونا نے ہماری توجہ خالق حقیقی کے ایک اور فرمان، ایک اور صفت کی طرف بھی مبذول کرائی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یخرج الحی من المیت و یخرج المیت من الحی۔ (وہ،اللہ، مردےمیں سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ میں سے مردے کو)
گو کہ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں لیکن تازہ ترین اور زندہ مثال کورونا کی ہے کہ ایک بے جان سا مالیکیول ہے، چل پھر نہیں سکتا، اُڑ نہیں سکتا، کہیں آجا نہیں سکتا لیکن اگر انسانی جسم میں پہنچ جائے تو اس کی حیثیت ایک جاندار جیسی ہو جاتی ہے، حرکت بھی کرتا ہے اور نشو ونما بھی پاتا ہے۔
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔
(تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤگے؟)
 
Top