کیا یہ اردو کرکٹ کمنٹری ہے؟

جاسم محمد

محفلین
فروری ، 2020
سید یحییٰ حسینی
کیا یہ اردو کرکٹ کمنٹری ہے؟
215366_4627548_updates.jpg

— فوٹو بشکریہ پی ایس ایل

پاکستان سوپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے لیے پی سی بی نے اردو زبان میں کھیل پر آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کا جو فیصلہ کیا، اسے ہر سطح پر سراہا گیا،البتہ دوران ٹورنامنٹ جس انداز میں اردو کمنٹری ہو رہی ہے، اس پر سب ہی کو اعتراض ہے۔

آسان الفاظ میں اگر اس تناظر میں تبصرہ کیا جائے، تو مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ اردو کمنٹری کرانے کا احسن اقدام ناقص تلفظ، بناء منصوبہ بندی اور غلط الفاظ کے چناؤ کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے دوسری بہت ساری کوتاہیوں کی طرح ایک اور بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ اردو زبان پر مکمل عبور اور مکمل طور پر درست تلفظ کے حامل کمنٹررز ہی اس تنقید سے بچا سکتے ہیں، مگر یہ کتنا ظلم ہے کہ جس ملک کی زبان “ اردو” ہے، وہاں اس زبان میں اردو کمنٹری شرمندگی اور ماسوائے ہزیمت کے سوائے کچھ نہیں۔

میں تمام لوگوں کی کمنٹری کو برا نہیں کہہ رہا مگر جب اردو کمنٹری کرنے والے کچھ نام نہاد کمنٹیٹرز دوران گفتگو انگلش میں الفاظ کی ادائیگی کرکے ساتھی کمنٹیٹرز سے اس کا مطلب دریافت کریں گے، دوران گفتگو اردو کے بجائے انگریزی الفاظ کا کثرت سے استعمال کرینگے، تو ہم کیسے اس اقدام کو احسن قرار دیں گے؟

مثلاً جب خاتون کمنٹیٹر بیٹسمین کی جانب سے چوکا لگانے پر یہ فرمائیں گی، یہ لیجیے باونڈری کے اندر ایک اور چوکا، تو پھر اس زبان سے واقفیت رکھنے والے دانتوں میں زبان کو دبانے کے سواء کیا کرسکتے ہیں؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے کمنٹیٹرز دوران گفتگو جس خوب صورت انداز میں اردو کے الفاظ کی ادائیگی سیکھ کر اور پوچھ کر کرتے ہیں، وہ ہمارے اپنوں کے لیے کسی شرمندگی سے کم نہیں ہے۔

بات تلفظ تک محدود نہیں ، اب کیا ایسے کرکٹ کمنیٹررز بوجھ نہیں لگیں گے ، جن کو چھکا، چوکا بولنے کی ادائیگی کرنا نہیں آرہی؟ اگر ہمارے کمنٹیٹرز اردو گنتی سے ہی ناواقف ہوں گے تو یہ تو سرا سر شرمندگی کا مقام ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں جرمن سفیر سے لے کر امریکی سوشل میڈیا اردو میں ٹوئیٹ کررہا ہے، وہاں اردو کرکٹ کمنیٹرری میں اپنایا گیا بھونڈا انداز دل جلا رہا ہے۔ اب تو آئی سی سی نے بھی اردو میں ٹوئیٹ شروع کردیا ہے، تو پاکستان کرکٹ بورڈ اس سارے معاملے پر کیوں اتنا غیر سنجیدہ ہے؟

ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہتے ہیں اس لیے ہمیں اس معاملے تنقید بھی دیکھنے کو مل رہی ہے اس لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار کو اختیارات کا درست استعمال کرتے ہوئے، بجائے اس تنقید اور حقائق پر غصہ کرنے کے اردو کمنٹری کو بہتر کرنے کے اقدامات کرنے چاہییں۔
 

عرفان سعید

محفلین
فروری ، 2020
سید یحییٰ حسینی
کیا یہ اردو کرکٹ کمنٹری ہے؟
215366_4627548_updates.jpg

— فوٹو بشکریہ پی ایس ایل

پاکستان سوپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے لیے پی سی بی نے اردو زبان میں کھیل پر آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کا جو فیصلہ کیا، اسے ہر سطح پر سراہا گیا،البتہ دوران ٹورنامنٹ جس انداز میں اردو کمنٹری ہو رہی ہے، اس پر سب ہی کو اعتراض ہے۔

آسان الفاظ میں اگر اس تناظر میں تبصرہ کیا جائے، تو مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ اردو کمنٹری کرانے کا احسن اقدام ناقص تلفظ، بناء منصوبہ بندی اور غلط الفاظ کے چناؤ کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے دوسری بہت ساری کوتاہیوں کی طرح ایک اور بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ اردو زبان پر مکمل عبور اور مکمل طور پر درست تلفظ کے حامل کمنٹررز ہی اس تنقید سے بچا سکتے ہیں، مگر یہ کتنا ظلم ہے کہ جس ملک کی زبان “ اردو” ہے، وہاں اس زبان میں اردو کمنٹری شرمندگی اور ماسوائے ہزیمت کے سوائے کچھ نہیں۔

میں تمام لوگوں کی کمنٹری کو برا نہیں کہہ رہا مگر جب اردو کمنٹری کرنے والے کچھ نام نہاد کمنٹیٹرز دوران گفتگو انگلش میں الفاظ کی ادائیگی کرکے ساتھی کمنٹیٹرز سے اس کا مطلب دریافت کریں گے، دوران گفتگو اردو کے بجائے انگریزی الفاظ کا کثرت سے استعمال کرینگے، تو ہم کیسے اس اقدام کو احسن قرار دیں گے؟

مثلاً جب خاتون کمنٹیٹر بیٹسمین کی جانب سے چوکا لگانے پر یہ فرمائیں گی، یہ لیجیے باونڈری کے اندر ایک اور چوکا، تو پھر اس زبان سے واقفیت رکھنے والے دانتوں میں زبان کو دبانے کے سواء کیا کرسکتے ہیں؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے کمنٹیٹرز دوران گفتگو جس خوب صورت انداز میں اردو کے الفاظ کی ادائیگی سیکھ کر اور پوچھ کر کرتے ہیں، وہ ہمارے اپنوں کے لیے کسی شرمندگی سے کم نہیں ہے۔

بات تلفظ تک محدود نہیں ، اب کیا ایسے کرکٹ کمنیٹررز بوجھ نہیں لگیں گے ، جن کو چھکا، چوکا بولنے کی ادائیگی کرنا نہیں آرہی؟ اگر ہمارے کمنٹیٹرز اردو گنتی سے ہی ناواقف ہوں گے تو یہ تو سرا سر شرمندگی کا مقام ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں جرمن سفیر سے لے کر امریکی سوشل میڈیا اردو میں ٹوئیٹ کررہا ہے، وہاں اردو کرکٹ کمنیٹرری میں اپنایا گیا بھونڈا انداز دل جلا رہا ہے۔ اب تو آئی سی سی نے بھی اردو میں ٹوئیٹ شروع کردیا ہے، تو پاکستان کرکٹ بورڈ اس سارے معاملے پر کیوں اتنا غیر سنجیدہ ہے؟

ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہتے ہیں اس لیے ہمیں اس معاملے تنقید بھی دیکھنے کو مل رہی ہے اس لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیار کو اختیارات کا درست استعمال کرتے ہوئے، بجائے اس تنقید اور حقائق پر غصہ کرنے کے اردو کمنٹری کو بہتر کرنے کے اقدامات کرنے چاہییں۔
اس کمنٹری کو تو نہیں سنا۔ لیکن کسی زمانے میں ریڈیو پر حسن جلیل کی کمنٹری سننے کا اپنا ہی لطف تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کمنٹری کو تو نہیں سنا۔ لیکن کسی زمانے میں ریڈیو پر حسن جلیل کی کمنٹری سننے کا اپنا ہی لطف تھا۔
ریڈیو پر تو بہت معیاری اردو کمنٹری ہوتی تھی اور شاید اب بھی ہوتی ہے۔ البتہ ٹی وی کا معاملہ کافی خراب ہو چکا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس کمنٹری کو تو نہیں سنا۔ لیکن کسی زمانے میں ریڈیو پر حسن جلیل کی کمنٹری سننے کا اپنا ہی لطف تھا۔
شاید دو ہزار پانچ کی بات ہے جب حسن جلیل صاحب پاکستان اور بھارت کے درمیاں ایک میچ میں کمنٹری فرمارہے تھے کہ میچ بہت زیادہ سنسنی خیز ہو گیا۔میں کراچی میں یہ کمنٹری ریڈیو ہی پر سن رہا تھا ۔ ایسے میں کمنٹری کرتے ہوئے دل کے مریضوں اور کمزور دل والے سامعین کو مشورہ دے رہے تھے کہ تھوڑی دیر کے لیے وہ حضرات ریڈیو بند کردیں۔ :)
 

عرفان سعید

محفلین
شاید دو ہزار پانچ کی بات ہے جب حسن جلیل صاحب پاکستان اور بھارت کے درمیاں ایک میچ میں کمنٹری فرمارہے تھے کہ میچ بہت زیادہ سنسنی خیز ہو گیا۔میں کراچی میں یہ کمنٹری ریڈیو ہی پر سن رہا تھا ۔ ایسے میں کمنٹری کرتے ہوئے دل کے مریضوں اور کمزور دل والے سامعین کو مشورہ دے رہے تھے کہ تھوڑی دیر کے لیے وہ حضرات ریڈیو بند کردیں۔ :)
1992 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں منیر حسین بھی میچ کے آخر میں یہ تنبیہ کرتے رہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
ایسے میں کمنٹری کرتے ہوئے دل کے مریضوں اور کمزور دل والے سامعین کو مشورہ دے رہے تھے کہ تھوڑی دیر کے لیے وہ حضرات ریڈیو بند کردیں۔
یہاں ایک افسوس ناک واقعہ یاد آگیا۔
پاکستان ویسٹ انڈیز کا ایک سنسی خیز میچ جاری تھا۔ میچ آخری بال پر برابری پر ختم ہوا۔
ہمارے محلے کے ایک گھر میں میچ دیکھتے ہوئے آخری بال پر ایک بارہ سالہ لڑکے کی حرکتِ قلب بند ہو گئی اور اس کا انتقال ہو گیا۔
غالبا 90 کی دہائی کی بات ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمارے محلے کے ایک گھر میں میچ دیکھتے ہوئے آخری بال پر ایک بارہ سالہ لڑکے کی حرکتِ قلب بند ہو گئی اور اس کا انتقال ہو گیا۔
عموما anxiety سے ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے لڑکے کے دل میں پیدائشی کوئی نقص ہو جو anxiety شدید حد تک بڑھنے پر جواب دے گیا۔
 
حسن جلیل اور منیر حسین کی تو کیا ہی بات تھی۔
خاص طور پر حسن جلیل، اور انگریزی میں افتخار احمد کی کمنٹری تو بندے کو اپنے ساتھ اٹھاتی بٹھاتی تھی۔
افتخار احمد کا تو سنا ہے کہ ساؤنڈ پروف کمرے کا بھی دروازہ کھلوا دیا کرتے تھے کہ کمنٹری کے ساتھ کراؤڈ کا شور جانا ضروری ہے۔ :)

بڑی یادیں ہیں، چھپ چھپ کر ریڈیو کمنٹری سننے کی بھی۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
یہاں ایک افسوس ناک واقعہ یاد آگیا۔
پاکستان ویسٹ انڈیز کا ایک سنسی خیز میچ جاری تھا۔ میچ آخری بال پر برابری پر ختم ہوا۔
ہمارے محلے کے ایک گھر میں میچ دیکھتے ہوئے آخری بال پر ایک بارہ سالہ لڑکے کی حرکتِ قلب بند ہو گئی اور اس کا انتقال ہو گیا۔
غالبا 90 کی دہائی کی بات ہے۔
ورلڈ کپ 1992 سے پہلے کا واقعہ ہے شاید۔ بہت افسوس ہوا یہ سُن کر۔ اس وقت کرکٹ کا نشہ آج سے کہیں بڑھ کر تھا۔
 
Top