انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
ایک شخص نے امام شعبی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھ لیا کہ ابلیس کی بیوی کا کیا نام تھا؟
امام شعبی نے فرمایا کہ ابلیس کے نکاح میں مَیں شریک نہیں ہو پایا تھا، اس لیے (اس کی بیوی کے) نام سے واقف نہیں-

(المراح فی المزاح، ابو البرکات بدر الدین محمد شافعی، ص69، ملخصاً)

جب علما سے سوال کرنے کا موقع میسر آئے تو فالتو سوال کر کے وقت کو ضائع نہ کیا جائے بلکہ ضروری سوال کیا جائے جس سے دین و ایمان کا کوئی فائدہ ہو۔
 

سید عمران

محفلین
دنیا کی تاریخ میں کس نے سب سے زیادہ قتل کئے ھیں ؟
1- ھٹلر .
آپ جانتے ھیں وہ کون تھا؟
وہ عیسائی تھا ، لیکن میڈیا نی کبھی اسکو عیسائی دھشت گرد نہیں کہا.
2. جوزف اسٹالن.
اس نے بیس ملین (ایک ملین -دس لاکھ کے برابر) انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ، جسمیں سے ساڑھے چودہ ملین بھوک سے مرے . کیا وہ مسلم تھا؟
3. ماوزے تنگ.
اس نے چودہ سے بیس ملین انسانوں کو مارا .
کیا وہ مسلم تھا؟
4. مسولینی .
چار لاکھ انسانوں کا قاتل ھے کیا وہ مسلم تھا؟
5. اشوکا .
اس نے کلنگا کی جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کو مارا.
کیا وہ مسلم تھا؟
6-جارج بش کی تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں صرف عراق میں پانچ لاکھ بچے مرے.
انکو میڈیا کبھی دہشت گرد نھیں کھتا .


چند اور حقائق :

1- پہلی جنگ عظیم میں 17 ملین لوگ مرے اور جنگ کا سبب غیر مسلم تھے .
2-دوسری جنگ عظیم میں 50-55 ملین لوگ مارے گئے اور سبب؟ غیرمسلم .
3-ناگاساکی پر ایٹمی حملے میں 2 لاکھ لوگ مرے اور اسکا سبب؟ غیر مسلم
4. ویتنام کی جنگ میں 500000 اموات کا سبب بھی غیر مسلم .
5-بوسنیا کی جنگ میں بھی پانچ لاکھ موتیں ھوئیں سبب. غیرمسلم .
6-عراقی جنگ میں ابتک ایک کروڑ بیس لاکھ اموات کا سبب بھی غیر مسلم.
7-افغانستان. فلسطین اور برما میں خانہ جنگی کا سبب؟غیرمسلم
8-کمبوڈیا میں تقریبا 300000 موتوں کا سبب بھی غیر مسلم .

اور سب سے اھم بات یہ کہ بڑی تباہی پھیلانے والے کسی بھی ہتھیار کے موجد مسلمان نھیں .
اور آج مبینہ دھشت گردوں کے ھاتھ میں جو ہتھیار ھیں وہ کسی "اسلامی فیکٹری " میں نھیں بنے .
 

سید عمران

محفلین
نیا فتنہ

آج کل کچھ لبرلز اور نام نہاد دانشور بڑے زور و شور سے واویلا کر رہے ہیں کہ، کعبہ کے گرد گھومنے سے پہلے کسی غریب کے گھر گھوم آؤ۔۔۔

مسجد کو قالین نہیں کسی بھوکے کو روٹی دو۔۔۔

حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے کسی نادار کی بیٹی کی رخصتی کا خرچہ اٹھاؤ۔۔۔

تبلیغ میں نکلنے سے بہتر ہے کہ کسی لاچار مریض کو دوا فراہم کر دو۔۔۔

مسجد میں سیمنٹ کی بوری دینے سے افضل ہے کہ کسی بیوہ کے گھر آٹے کی بوری دے آؤ۔۔۔

یاد رکھیں۔۔۔

دو نیک اعمال کو اس طرح تقابل میں پیش کرنا کوئی دینی خدمت یا انسانی ہمدردی نہیں بلکہ عین جہالت ہے۔
اگر تقابل ہی کرنا ہے تو دین اور دنیا کا کرو اور یوں کہو !

15 ، 20 ﻻکھ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺳﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔

50 ، 60 ﮨﺰﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ لو ﺟﺐ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔۔

ﮨﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺳﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻟﮕﻮﺍئو ﺟﺐ گرمی میں بغیر بجلی کے سونے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔

ﺑﺮﺍﻧﮉﮈ ﮐﭙﮍﮮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺧﺮﯾﺪو ﺟﺐ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﭘﮭﭩﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ۔۔

یہ کروڑوں کی گاڑیاں ، لاکھوں کے موبائل فونز اورہزاروں کے کھلونے خریدتے وقت ان دانشوروں کی ماں کیوں نہیں مرتی۔۔۔؟

آخر یہ چڑ کعبہ مسجد حج وعمرہ اور تبلیغ ہی سے کیوں ہے۔۔۔؟

ان ضروریات کا فرائض سے موازنہ کر کے فرائض سے غفلت کا درس دینے والے جب اپنی شادیوں پر عورتیں نچاتے ہیں تب ان کو کیوں یاد نہیں ہوتا کہ وہ بھی کسی کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں...
ہزاروں آرام دہ اشیاء خریدتے وقت ان کو غریب کی بن بیاہی بیٹیاں نظر کیوں نہیں آتی ہیں؟

اک بار ضرور سوچیں
کیا
انسانیت کی خاطر غیر ضروری امور ترک کرنا بہتر ہے یا کہ فرائض کا ترک؟
 

سید عمران

محفلین
‏کبڈی کے ایک عالمی چیمپیئن کی بیوی نے عدالت میں خلع کی درخواست دائر کردی۔
جج : "آپ کیوں علیحدگی چاہتی ہیں حالانکہ آپ کے شوہر تو کبڈی کے عالمی چیمپیئن ہیں؟"
خاتون : "یہی تو سارا مسلٔہ ہے ‛ گزشتہ پانچ برس سے صرف ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا ہے۔"
 

سید عمران

محفلین
*طلاقیں کیوں ہوتی ہیں ؟؟؟؟*

آج کے مسلمان چاھئے عربی ہو یا عجمی۔۔لڑکا ہو یا لڑکی۔۔پڑھے لکھیں ہو یا جہاہل۔۔شہری ہو یا دھیاتی۔امیر ہو غریب بلکہ کیا دنیادار۔۔دیندار سب ہی اس برائ یا بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔


سب سے پہلے آپ کراچی کی مثال لے لیں جہاں 2010 میں طلاق کے40410کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ۔
2015 میں صرف خلع کے 13433 سے زیادہ کیسسز نمٹائے گئے ۔

پنجاب میں 2012 میں 13299 ، 2013 میں 14243 ، 2014 میں 16942 جبکہ 2016 میں 18901 صرف خلع کے مقدمات کا فیصلہ دیا گیا ۔

چئیرمین آربیٹریشن کونسل اسلام آباد کے مطابق صرف لاہور شہر میں 2017 میں خلع کے واقعات 18901 سے بڑھ کر 20000 تک پہنچ گئے ۔

آپ کمال ملاحظہ کریں گجرانوالہ میں ماسٹرز کی طالبہ نے وین ڈرائیور کے ” چکر ” میں اپنے پڑھے لکھے ، محبت کرنے والے شوہر سے طلاق لے لی ۔
یہ میرے نہیں سیشن کورٹ گجرانوالہ کے الفاظ ہیں ۔
آپ حیران ہونگے صرف گجرانوالہ شہر میں 2005 سے 2008 تک طلاق کے 75000 مقدمات درج ہوئے ہیں ۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق محض 10 مہینوں میں 12913 خلع کے مقدمات تھے ۔ صرف ستمبر کے مہینے میں گجرانوالہ شہر میں 2385 خلع کے مقدمات آئے ۔

آپ ہماری جینے مرنے کی قسمیں کھانے والی نسل کی سچی محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ 2017 میں 5000 خلع کے کیسسز آئے جن میں سے 3000 ” لو میرجز ” تھیں ۔

پاکستان کے دوسرے بڑے اور پڑھے لکھے شہر میں روزانہ اوسط 150 طلاقیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں ۔

یہ تو دیگ کا صرف ایک دانہ ہے ۔
عرب ممالک میں طلاق و خلع کا اوسط تو کئی یورپی ممالک سے بھی گیا گذرا ہے ۔

اس سے انکار نہیں ہے کہ ان میں سے بہت سارے واقعات میں عام طور پر سسرال والوں کا لڑکی سے رویہ اور شوہر کا بیوی کو کوئی حیثیت نہ دینا بھی اصل وجوہات ہیں

لیکن آپ کسی بھی دارالافتاء چلے جائیں ہفتے کی بنیاد پر سینکڑوں خطوط ہیں جو خواتین نہیں مرد حضرات لکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہماری بیوی کو کسی اور کے ساتھ ” محبت ” ہوگئی ہے ۔ وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے ۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے یا بچہ بھی ہے ۔ بتائیں کیا کروں

ایک دارالافتا میں ایک خط آیاجس میں شوہر نے لکھا تھا کہ ” رات آنکھ کھلی تو بیوی بستر پر نہیں تھی ، بیڈروم سے باہر آیا تو صوفے پر لیٹی موبائل میں مصروف تھی ۔ اب وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے اور ہمارا ایک بچہ بھی ہے “۔

میں نے خود یہ واقعات سنے ہیں کہ شوہروں کے پیچھے عورتوں نے ان کی امانت میں خیانت کی ہے ۔

نبی مہربانﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالی کو جائز کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے “۔

ایک عالم دین نے کیا خوب فرمایا تھا ” یہ قوم اسلام پر مرنے کے لئیے تیار ہے لیکن اسلام پر جینے کے لئیے تیار نہیں ہے “۔

آپ قرآن کا مطالعہ کریں سورۃ البقرہ سے لے کر والناس تک چلے جائیں ۔ آپ کو نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ میں سے کسی ایک فرض کی تفصیلات نہیں ملینگی ۔ آپ کو یہ تک نظر نہیں آئیگا کہ نماز کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ کو ان عبادات کی تسبیحات تک نہیں پتہ چل پائینگی ۔

لیکن نکاح ، طلاق ، خلع ، شادی ، ازدواجی معاملات ، میاں بیوی کے تعلقات ، گھریلو ناچاقی ، کم یا زیادہ اختلاف کی صورت میں کرنے کے کام ۔آپ کو سارا کچھ اللہ تعالی کی اس مقدس ترین کتاب میں مل جائیگا جس کو ہم اور آپ” چوم چوم ” کر رکھتے ہیں ۔

آپ مان لیں کہ ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے ۔

یاد رکھیں اچھا اور صحت مند گھرانہ کسی اچھے مرد سے نہیں بنتا بلکہ ایک اچھی عورت کی وجہ سے بنتا ہے ۔

حضرت عمر نؓے فرمایا ” جب دین گھر کے مرد میں آتا ہے تو گویا گھر کی دہلیز تک آتا ہے لیکن اگر گھر کی عورت میں دین آتا ہے تو اس کی سات نسلوں تک دین جاتا ہے “۔

قربانی ، ایثار ، احسان ، درگذر ، معافی ، محبت اور عزت یہ اسلام اور قرآن کی ڈکشنری میں آتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ان جوڑوں کی طلاق زیادہ جلدی ہوجاتی ہے جو ” جوائنٹ فیملی ” میں نہیں رہتے ہیں ۔

مصر میں عبد الفتاح سیسی جیسا حکمران تک طلاقوں سے پریشان ہے ۔ کیونکہ مصر میں 40 فیصد شادیاں اگلے پانچ سالوں میں طلاق کی نذر ہوجاتی ہیں ۔

جنرل اتھارٹی برائے شماریات کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ہر ایک گھنٹے میں پانچ طلاقیں ہوتی ہیں ۔
جبکہ عرب نیوز کے مطابق 2016 میں 157000 شادیوں میں سے 46000 کا انجام طلاق کی صورت میں ہوا ہے ۔

خواتین کی نہ ختم ہونے والی خواہشات نے بھی معاشرے کو جہنم میں تبدیل کیا ہے ۔
الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے ۔
محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔

گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں ۔

سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے ۔

پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔شوہر شام میں گھر آتا ، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا ، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں ۔
لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں ۔
یہاں میڈم صاحبہ کا ” موڈ آف ” ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا ۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے ۔

مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا ! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں ۔ ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا ۔

لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے ۔ آپ کو سب ملے گا اور انشاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا ۔

بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں ۔
زندگی میں معافی کو عادت بنالیں ۔
خدا کے لئیے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئیے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں ۔ساری دنیا کو دکھانے کے لئیے تو خوب ” میک اپ” لیکن شوہر کے لئیے ” سر جھاڑ منہ پھاڑ ” ایسا نہ کریں ۔
خدا کو بھی محبت کے اظہار کے لئیے پانچ دفعہ آپ کی توجہ درکار ہے ۔ ہم تو پھر انسان ہیں جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں کبھی تحفے تحائف دے کر بھی کیا کریں ۔ قیامت کے دن میزان میں پہلی چیز جو تولی جائیگی وہ شوہر سے بیوی کا اور بیوی سے شوہر کا سلوک ہوگا ۔

یاد رکھیں

مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے ۔ اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہینگے تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا ۔ جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں چاہے آپ مرد ہیں یا عورت ۔

ایک مثالی گھر ایک مثالی خاندان تشکیل دیتا ہے اور ایک مثالی خاندان سے ایک صحتمند معاشرہ وجود میں آتا ہے اوریہی اسلام کی منشاء ہے ۔
 

سید عمران

محفلین
*قرآن میں جنتی اور جہنمی کی نشانیاں*

*جنتی*
1۔ وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں۔
2۔ اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔
3۔ اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں۔
4۔ اور اپنے پر ورگار سے ڈرتے ہیں۔
5۔ اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں۔
6۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا ہے۔
7۔ اور نماز قائم کی ہے۔
8۔ اور ہم نے انہیں جو رزق عطا فرمایا ہے، اس میں سے خفیہ بھی اور علانیہ بھی خرچ کیا ہے۔
9۔ اور وہ بدسلوکی کا دفاع حسن سلوک سے کرتے ہیں۔

*جہنمی*
1۔ اور (دوسری طرف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں۔
2۔ اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹ ڈالتے ہیں۔
3۔ اور زمین میں فساد مچاتے ہیں۔
(الرعد21-24)
 

سید عمران

محفلین
عجیب و غریب بیماریاں کیوں جنم لے رہی ہیں؟

Sunnan e Ibn e Maja Hadees # 4019
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ،‏‏‏‏ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ،‏‏‏‏ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ،‏‏‏‏ لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ،‏‏‏‏ حَتَّى يُعْلِنُوا،‏‏‏‏ بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ،‏‏‏‏ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا،‏‏‏‏ وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ،‏‏‏‏ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ،‏‏‏‏ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ،‏‏‏‏ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ،‏‏‏‏ وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَعَهْدَ رَسُولِهِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ،‏‏‏‏ فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، ( وہ پانچ باتیں یہ ہیں )

پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش ( فسق و فجور اور زناکاری ) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں،

دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں،

تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا،

چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے،

پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
اور سب سے اھم بات یہ کہ بڑی تباہی پھیلانے والے کسی بھی ہتھیار کے موجد مسلمان نھیں .
اور آج مبینہ دھشت گردوں کے ھاتھ میں جو ہتھیار ھیں وہ کسی "اسلامی فیکٹری " میں نھیں بنے .
جہاں بھی بنے ہوں استعمال کون کر رہا ہے؟
 

سید عمران

محفلین
آج سے کچھ سال پہلے تک مجھے یقین ہوچکا تھا کہ میں فارسی، عربی ، پشتو اور اشاروں کی زبان تو سیکھ سکتا ہوں لیکن انگریزی نہیں،لیکن اب جو حالات چل رہے ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یا تو مجھے انگریزی آگئی ہے، یا سب کو بھول گئی ہے۔کچھ بھی ہو، میری خوشی کی انتہا نہیں، اب سارے سپیلنگ بدل گئے ہیں اور دو تین لفظوں میں سما گئے ہیں۔ اب Coming لکھنا ہو تو صرف cmg سے کام چل جاتا ہے۔گرل فرینڈ GF ہوگئی ہے اور فیس بک FB بن گئی ہے۔ اب کوئی انگریزی کا لمبا لفظ لکھنا ہو تو اُس سے پہلے کے چند الفاظ لکھ کر ہی ساری بات کہی جاسکتی ہے، میں نے ساڑھے تین سال کی’’ٹیوشن بامشقت‘‘ کے بعد unfortunately کے سپیلنگ یاد کیے تھے، آج کل صرف Unfort سے کام چل جاتاہے یعنی جہاں سے مشکل سپیلنگ شروع وہیں پہ ختم۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن اب تو اس مختصر انگریزی میں بھی ایسی ایسی مشکلات آن پڑی ہیں کہ کئی دفعہ جملہ سمجھنے کے لیے استخارہ کرنا پڑتاہے۔ابھی کل مجھے ایک دوست کامیسج آیا، لکھا تھا’’U r inv in bk crmy‘‘ میں نے حیرت سے میسج کو پڑھا، اللہ جانتا ہے تین چار دفعہ مجھے شک گذرا کہ اُس نے مجھے کوئی گندی سی گالی لکھی ہے، دل مطمئن نہ ہوا تو ایسی ہی انگلش لکھنے اور سمجھنے کے ماہر ایک اور دوست سے رابطہ کیا، اُس مردِ مجاہد نے ایک سیکنڈ میں ٹرانسلیشن کردی کہ لکھا ہے You are invited in book’s ceremony۔۔۔!!!
انگریزی سے نمٹنے کا ایک اوراچھا طریقہ میرے ہمسائے شاکر صاحب نے نکالا ہے، جہاں جہاں انہیں انگریزی نہیں آتی وہاں وہ اطمینان سے اُردو ڈال لیتے ہیں۔مثلاً اگر کھانا کھاتے ہوئے اُنہیں کسی کا میسج آجائے تو جواب میں لکھ بھیجتے ہیں’’پلیز اِس ٹائم ناٹ ڈسٹرب، آئی ایم کھانا کھائینگ‘‘۔ ایک دفعہ موصوف کو فیس بک پر ایک لڑکی پسند آگئی، فوراً لکھا’’آئی وانٹ ٹو شادی وِد یو۔۔۔آر یو راضی؟‘‘۔ لڑکی کا جواب آیا’’ہاں آئی ایم راضی، بٹ پہلے ٹرائی ٹو راضی میرا پیو تے بے بے ‘‘۔آج کل یہ دونوں میاں بیوی ہیں اوراکثر اسی انگریزی میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، تاہم اب وہ درمیان میں اُردو کی بجائے پنجابی بولتے ہیں اور ایک جملہ بار باردہراتے ہیں’’ آئی سیڈ کھصماں نوں کھا ، یور سارا خاندان اِز چول‘‘۔
انگریزی کے بدلتے ہوئے رنگ صرف یہیں تک محدود نہیں، اب تو کوئی صحیح انگلش میں جملہ لکھ جائے تو اُس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگتا ہے، ماڈرن ہونے کے لیے انگریزی کا بیڑا غرق کرنا بہت ضروری ہوگیاہے ،میں تو کہتا ہوں انگریزی کی صرف ٹانگ ہی نہیں، دانت بھی توڑ دینے چاہئیں ، اِس بدبخت نے ساری زندگی ہمیں خون کے آنسو رُلایا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب انگریزی لکھنے کے لیے گرائمراورTenses بھی غیر ضروری ہوگئے ہیں۔یعنی اگر کسی کو کہنا ہو کہ ’’میں تمہارا منتظر ہوں، تم کب تک آؤ گے؟‘‘ تو بڑی آسانی سے اِسے چٹکیوں میں یوں لکھا جاسکتا ہے m wtg u cm whn?۔۔۔!!!
دنیا مختصر سے مختصر ہوتی جارہی ہے، کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ اور اب آئی پیڈ میں سما چکے ہیں، موٹے موٹے ٹی وی اب سمارٹ ایل سی ڈی کی شکل میں آگئے ہیں، ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی نے لے لی ہے،انٹرنیٹ ایک چھوٹی سی USB میں سمٹ چکا ہے

ایسے میں انگریزی کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی، اُردو کا حل تو ’’رومن اُردو‘‘ کی شکل میں بہت پہلے نکل آیا تھا، اب انگریزی کی مشکل بھی حل ہوگئی ہے۔اب جو جتنی غلط انگریزی لکھتاہے اُتنا ہی عالم فاضل خیال کیا جاتا ہے، اگر آپ کو کسی دوست کی طرف سے میسج آئے اور اُس میں That کی بجائے Dat لکھا ہو توبیہودہ سا قہقہہ لگانے کی بجائے ایک لمحے میں سمجھ جائیں کہ آپ کا دوست ایک ذہین اور دنیا دار شخص ہے جو جدید انگریزی کے تمام تر لوازمات سے واقف ہے۔میں سمجھتا تھا کہ شاید انگریزی میں اُردو اور پنجابی کا تڑکا ہمارے ہاں ہی لگایا جاتا ہے لیکن میر اخیال غلط ثابت ہوا، سعودیہ میں مقیم میرا بھانجا بتا رہا تھا کہ یہاں کے عربی بھی انگریزی کا شوق پورا کر رہے ہوں تو جہاں جہاں انگریزی آنکھیں دکھاتی ہے وہاں یہ عربی کا لفظ ڈال لیتے ہیں، مثلاًاگر انگریزی میں کہنا ہو کہ یہ میرا گھر ہے تو بڑے آرام سے کہہ جاتے ہیں ’’ھذا مائی ہوم‘‘۔

گل نوخیز اختر
 

سید عمران

محفلین
*صرف دو گھنٹے اپنے لئے نکالیں*
خلیل احمد نینی تال والا
کالم نگار روزنامہ جنگ

پندرہ سال پہلے امریکن ٹی وی پر ایک بوڑھے ترک اور اُس کی بیوی کو دکھایا گیا، بوڑھا ترک باشندہ ترکی کے ایک چھوٹے قصبے میں رہتا تھا۔ اُس کی بیوی اور بچے بھی ساتھ رہتے تھے۔ اس کی عمر 124سال اور بیوی 120سال کی تھی۔

اُس سے پوچھا کہ آپ کی اتنی لمبی عمر کا سبب کیا ہے، اس بوڑھے نے بتایا ہم نے تمام زندگی صرف دودھ، دہی، پنیر کے علاوہ کچھ نہیں کھایا اور ہماری اولادوں کی عمریں بھی 90سال سے زائد ہیں۔
سننے والوں سے رائے طلب کی کہ کتنے فیصد لوگ اس غذا پر گزارا کرنے کیلئے تیار ہیں تو کروڑوں سننے والوں میں سے کسی نے اس غذا کی ہامی نہیں بھری اور کہا ایسی لمبی زندگی کا کیا فائدہ جو صرف ڈیری فارم تک محدود ہو۔ بھلے ہم صرف 50ساٹھ سال زندہ رہیں مگر کھا کر مریں، یہ بدرجہ بہتر ہے۔
حال ہی میں نیویارک کے ایک باشندے کو ٹی وی پر دکھایا گیا اس کا 111سالہ برتھ ڈے منایا گیا وہ خود چل کر اپنے دوستوں میں آیا جن کو اُس نے اپنے گھر میں مدعو کیا ہوا تھا۔
اس نے کیک کاٹا، دوستوں نے خوب تالیاں بجائیں، اُس سے پوچھا گیا اُس کی لمبی عمر کا راز کیا ہے تو اس نے بتایا وہ ساری زندگی صرف سبزیاں، پھل، شہد، چاکلیٹ، لہسن، دار چینی اور زیتون کا تیل روزانہ بلا ناغہ استعمال کرتا رہا ہے اور صبح ایک میل واک کرکے ناشتہ کرتا ہے۔
پھر زیادہ خوش رہنے کے لئے نئے اور اچھے دوست بناتا ہے اور خوشگوار زندگی گزار رہا ہے البتہ اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کوئی دوا استعمال بھی کرتا ہے یا نہیں۔
قارئین آج سے 40سال پہلے میں سنگاپور گھومنے گیا، وہاں اُن دنوں سگریٹ اور چیونگم کے خلاف ٹی وی پر حکومت کی مہم جاری تھی۔ وہ سگریٹ پینے کے نقصانات سے آگاہ کرتے تھے اور ہر ایک ایڈورٹائزمنٹ کے بعد مختلف زاویے سے پھیپھڑوں کے سرطان سے آگاہ کرتے تھے، کافی متاثر کن انداز میں عوام کو سمجھاتے اور سگریٹ چھوڑنے کے آسان طریقوں سے آگاہ کرتے تھے۔ اتفاق سے اُن دنوں میں بھی سگریٹ پیتا تھا۔
اُس ایک ہفتے میں بار بار یہ Anti Smokingکمپین سے متاثر ہوکر میں نے سگریٹ پینا چھوڑ دیا۔ کچھ دن تکلیف ضرور ہوئی مگر پھر آہستہ آہستہ یہ بُری عادت چھوٹ گئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پہلے کھیل میں سانس جلدی پھول جاتا تھا اور واک میں بھی جلد تھکن محسوس ہوتی تھی، وہ ختم ہو گئی۔ پھر میں نے مختلف کتابوں سے خصوصی طور پر مطالعہ کے ذریعے اچھی صحت مند زندگی گزارنے کی تدابیر پڑھیں۔ ان سے میں اپنے قارئین کو آگاہ کرتا ہوں۔
سب سے زیادہ ضروری صبح کی واک ہے۔ آپ نے سوچا کہ آپ نے 24گھنٹوں میں کبھی خود اپنے لئے کتنے گھنٹے مخصوص کئے، اکثر نے کبھی نہیں سوچا ہوگا۔ آئیے آج سے ضرور سوچیں اور صرف 2 گھنٹے آپ کی زندگی کو صحت مند بنا دیں گے۔ صبح سویرے اُٹھیں اور واک کے لئے نزدیکی پارک میں چلے جائیں اگر پارک میں نہیں جانا چاہتے تو اپنے گھر میں ہی واک کریں۔
بے شک اپنے کمرے میں 1گھنٹہ واک کریں۔ پھر ایک شربت بناکر گھر کے فریج میں رکھ لیں، اس میں ایک پیالہ ادرک کا جوس، ایک پیالہ لہسن کا جوس، ایک پیالہ سیب کا سرکہ اصلی اور ایک پیالہ شہد ان چاروں کو ملا کرمکس کر لیں اور نہار منہ چار کھانے کے چمچے روزانہ استعمال کریں۔ یہ ایک ماہ سے 2ماہ کے لئے کافی ہو گا، مگر آپ نے تمام زندگی اس کو جاری رکھنا ہے، اس سے آپ کے دل کی شریانوں میں خون نہیں جمے گا۔
ناشتہ میں زیادہ سے زیادہ فروٹ، سلاد، کھجور، انجیر، نٹس، 2ابلے ہوئے انڈے، دودھ، قہوہ یا گرین ٹی کے ساتھ لیں۔ موسم کے لحاظ سے ہر فروٹ مثلاً کیلا، آڑو، سیب، ناشپتی، مالٹا، کینو، مسمی اور آم وغیرہ استعمال کریں۔ آم میں کثیر تعداد میں آئرن موجود ہوتا ہے، خون کی کمی کے لئے اور حاملہ خواتین کے لئے بہترین ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لئے آم نقصان دہ نہیں بلکہ فائدہ مند ہے۔ الغرض موسم کے لحاظ سے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال نہایت ہی مفید اور فائدہ مند ہے۔ اسی طرح دوپہر کے کھانے میں یخنی، سوپ، سلاد اور سبز سبزیاں مثلاً پھول گوبھی، بند گوبھی، پتوں والے شلجم، پالک، بھنڈی، ہرے پتے والی مولی، ساگ وغیرہ، شوربے والے سالن، مختلف دالیں، سی فوڈز، چپاتی اور آخر میں پھر فروٹ ضرور کھائیں۔
چاول کا کم سے کم استعمال کریں۔ رات کے کھانا میں ہلکی غذائیں پیٹ بھر کر کھائیں مگر کھانے سے پہلے جو ایک گھنٹہ بچا تھا، پھر واک کریں یا ورزش، کھیل جو آپ کو پسند ہو، ہر حال میں جاری رکھیں۔ قارئین جب میں سنگاپور گیا تھا تو اس وقت میرا وزن 85کلو، ہائٹ 5فٹ 10انچ تھی۔
آج میرا وزن 72 کلو ہے، میں نے 40سال میں پابندی سے آج تک یہ سب جاری رکھا ہوا ہے۔ الحمدللّٰہ کسی دوائی کی ضرورت نہیں پڑی جبکہ میرے 90فیصد ہم عمر دوست کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہیں اور دوائوں کے زیر اثر جا چکے ہیں مگر صرف 2گھنٹے اپنے لئے نہیں نکال سکتے۔
حتیٰ کہ بہت سے تو نیند کی گولی کے بغیر سو بھی نہیں سکتے۔ بہت سے دل اور گردوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اگر آپ آج سے تہیہ کر لیں کہ ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام اور جو غذا کا چارٹ اوپر لکھا ہے، پر عمل کریں، نیز فاسٹ فوڈ، پیزا اور کولڈ ڈرنک وغیرہ سے دور رہیں البتہ ہر موسم میں گھر کا بنا ہوا جوس استعمال کریں۔
(میں نے اپنے آپ کو آج تک ان سب چیزوں سے دور رکھا ہوا ہے) تو زندگی میں آپ کو فرق محسوس ہونا شروع ہو جائے گا اور آہستہ آہستہ دوائوں کی ضرورت کم ہونا شروع ہو جائے گی اور آپ صحت مند زندگی کی طرف رواں دواں ہوں گے۔
 

سید عمران

محفلین
*ذومعنی الفاظ کے چیمپئن*

سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہاں پانیزئی کررہی تھیں۔ (یہ ان دنوں کی بات ہے جب حکومت کی جانب سے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیاتھا) حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے؟ ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا ''جی! انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں.''
حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے:
''آج اخبار میں سرچار ج کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ہے، وہی اٹک گیا ہو۔ مگر وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے"
سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کے ساتھ انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے: '' میرا نام سرتاج ہے سرتاج!! !!!
یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا:
محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج (شوہر مراد ہے) کہہ سکتی ہیں؟
ڈاکٹرنورجہاں پانیزی کے ہونٹوں پر چند لمحے قفل رہا …پھر بولیں: ''نہیں میں نہیں کہہ سکتی''
حافظ حسین احمد نے کھڑے کھڑے کہا:
جب آپ ان کا درست نام لینے سے گریز کرتی ہیں اور درست نام نہیں لے سکتیں تو ہم کیسے لے سکتے ہیں؟


٭ …وسیم سجاد سینٹ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے اقبال حیدر (مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرہال کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے۔چیئرمین صاحب نے پوچھا:…اقبال حیدر کہاں ہیں؟
حافظ حسین احمد نے کہا ''پینے گئے ہیں''.
پورے ہال میں قہقہے برسنا شروع ہوئے تو اقبال حیدر فوراً داخل ہوئے، کہنے لگے: ''جناب چیئرمین! انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایا ہے''.
اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ہو چکے تھے، حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے: ''جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے؟ میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں''۔


٭ …ڈاکٹر اشرف عباسی قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر تھیں، سپیکر معراج خالد بیرونی دورے پر چلے گئے۔ اب قائم مقام سپیکر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت اشرف عباسی ہی کو کرنا تھی۔ مسئلہ صرف حافظ حسین احمد کا تھا کہ کسی طرح انہیں کنٹرول کیا جائے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حافظ حسین احمد سے میٹنگ کرلی جائے. وہ یہ سوچ کر رات ساڑھے دس بجے ایم این اے ہوسٹل چلی آئیں. کمرے میں کراچی کے ایک عالم دین سے کہنے لگیں کہ ''حافظ صاحب بہت تنگ کرتے ہیں، انہیں سمجھائیں، اجلاس کو پر سکون رہنے دیا کریں۔ تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کا معاہدہ ہوگیا کہ حافظ حسین احمد تنگ نہیں کریں گے۔ اگلے دن اجلاس شروع ہوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاہا تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے موصوف کو غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔ چند منٹوں کے توقف کے بعد وہ پھر اٹھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا پہلے والا جملہ دہرادیا۔ ایک مرتبہ پھر ایسا ہوا۔ جب چوتھی مرتبہ حافظ حسین احمد اٹھے تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے جھاڑ پلادی۔ حافظ صاحب نے کہا:
''میں رات والے معاہدے کو توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔''
یہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سپیکر کی کرسی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا شروع کردیا: نہیں، نہیں حافظ صاحب! معاہدہ برقرار رہے گا۔
تمام ممبران رات والے معاہدے پر حیرت زدہ تھے، یہ معاہدہ ممبران کیلئے معمہ بن کے رہ گیا تھا


٭… ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، اعتزاز احسن وزیر پارلیمانی امور تھے، انہیں جواب دینے تھے۔ مگر اعتزاز احسن نے ایک دم آتے ہی سپیکر سے کہا کہ: آج مجھے جلدی ہے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ وہ سوال پوچھ لیں۔
حافظ حسین احمد نے کہا کہ: وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟
اعتزازاحسن: محترمہ بے نظیر بھٹو (وزیر اعظم) مری جارہی ہیں۔
حافظ حسین احمد: کس پر؟
بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا۔حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں، ہم واک آؤٹ کریں گے، نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔
حافظ حسین احمد: کونسے الفاظ قابل اعتراض ہیں، میں نے بڑی لمبی تقریر کی ہے، مجھے کیا پتہ کہ کونسے قابل اعتراض بن گئے ہیں۔؟
معراج خالد: وہ جو قابل اعتراض ہیں.
حافظ حسین احمد: مجھے کیسے پتہ چلے گا؟
اعتزاز احسن :وہ جو انہوں نے کہا کہ کس پر…؟
حافظ حسین احمد: جناب سپیکر! میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ ہیلی کاپٹر پر جارہی ہیں تو پھر تو یہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارہی ہیں تو وزیر صاحب بعد میں اپنی گاڑی پر جاسکتے ہیں۔ میں نے یہ پوچھا کہ: وہ کس پر مری جارہی ہیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر؟''
پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ہوگئے کہنے لگے:'' نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔'' بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی تھے۔
حافظ حسین احمد: جناب سپیکر! مجھے اپنی نیت کا پتہ ہے، انہیں میری نیت کا کیسے پتہ چل گیا؟ یہ پکوڑے بیچنے والے جس عظیم خاتون کے توسط سے ممبر بن کے آئے ہیں ان کی اپنی لیڈر کے بارے میں کیسی سوچ ہے؟
 

سید عمران

محفلین
والدہ سے آخری بار بلند آواز سے بات کئے کئی برس بیت گئے ۔
تب ابا جی نے ایک جملہ کہا تھا جس کے بعد میری آواز گلے میں ہی کہیں دب گئی ۔ کہنے لگے ۔
بیٹا اگر اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہ نہ سیکھ پائے کہ بزرگوں سے بات کیسے کرنی ہے تو کل سے کالج نہ جانا ۔جو تعلیم اچھا انسان نہ بنا پائے اس کا مقصد ہی کیا ہے ۔ کمائی تو سنیارے کی دکان کے باہر گندی نالی سے کیچڑ چھاننے والا ان پڑھ بھی کئی پڑھے لکھوں سے زیادہ کر لیتا ہے ۔ اسی طرح پہلی اور آخری بار روزگار کا خوف تب ختم ہو گیا تھا جب ہم انتہائی سخت حالات کا شکار تھے ۔ چند ہزار کی ایک ملازمت کے دوران کسی نے ایسی بات کر دی جو برداشت نہ کر پایا ۔ دفتر سے ہی ابا جی کو مشورہ کے لئے فون کیا تو کہنے لگے ۔ ملازمت چھوڑنے کے لئے مجھے فون تب کرنا جب خدا پر اعتبار نہ ہو ۔ اس مالک نے رزق کا وعدہ کیا ہے نا تو پھر اس کے وعدے پر یقین بھی رکھو ۔ یا پھر اسے مالک تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو ؟ یہاں ملازمت کے لئے دل نہیں مانتا تو ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرنا ۔ میں نے فون بند کیا اور اسی وقت استعفی لکھ دیا ۔ چار دن میں بے روزگار رہا ۔ ان چار دنوں میں جتنا فکر مند رہا ابا جی اتنے ہی مطمئن نظر آئے ۔ اور پانچویں دن مجھے ایک ایسے ادارے سے فون کال آ گئی جہاں میں نے ایک سال قبل ایک دوست کے کہنے پر مذاق مذاق میں سی وی بھیجی تھی اور مجھے اب یاد تک نہ تھا ۔ تنخواہ پیکج پہلی ملازمت سے تین گنا تھا ۔ اس کے بعد سے یہی ہوتا آیا ہے ۔ جب بھی خدا کے بھروسے کسی ملازمت سے استعفی دیا ، اللہ نے پہلے سے بڑھ کر نواز دیا ۔ رب کی مہربانیوں کی طویل داستانیں ہین جن کا عینی شاہد ہوں ۔ ایک بار صورت حال یہ تھی کہ جب ابا جی اپنا گھر تعمیر کر رہے تھے تو ٹائلوں کے لئے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کم پڑ گئے ۔ ہم سب قدرے پریشان تھے تو ایک دن ابا جی کہنے لگے ۔ بیٹا میں ساری عمر حرام سے بچا ہوں اور تم سب کو بچایا ہے ، مجھ سمیت میرے خاندان کے کسی فرد نے کسی کا حق نہیں کھایا تو یہ کیسے ممکن ہے مجھے ضرورت ہو اور رب عطا نہ کرے ۔ تب عجیب سا لگا ۔ نہ کوئی وسیلہ ، نہ کہیں سے امید ۔ ابا جی کی ملازمت کے آخری ماہ تھے ۔ اچانک خبر ملی ،ابا جی کو پنجاب کا بیسٹ آفسر قرار دیا گیا ہے ۔ وزیراعلی کی جانب سے ایوارڈ کے ساتھ ساتھ کیش انعام بھی تھا ۔ اس انعام کے باوجود ابھی بھی پچاس ہزار کم تھے ۔ ابا جی کہنے لگے میں مقابلے کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا ، صرف اپنافرض ادا کرتا رہا ہوں ۔ خدا نے اس انعام کا حق دار قرار دلا کر یہ رقم دلوا دی ہے تو باقی رقم کا انتظام بھی وہی کر دے گا ، میں اس کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائوں گا۔ اسی ہفتے اگلی خبر یہ ملی کہ محکمہ کی جانب سے بھی بہترین آفیسر قرار دیتے ہوئے کیش انعام دیا جا رہا ہے ۔ ہمیں جتنی رقم کی ضرورت تھی اس سے زیادہ رقم عزت کے ساتھ آ گئی تھی ۔ اس دن سے ایمان پختہ ہو گیا ۔ ہم کسی کا حق نہ ماریں تو خدا ہمارا خیال رکھتا ہے ۔ ابا جی کی زندگی ایسے ہی معجزوں سے بھری ہوئی ہے ۔ ان بظاہر عام سی باتوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے سو اب ڈر نہیں لگتا۔ نہ کسی سے ہارنے کا ، اور نہ ہی رزق کی کمی کا ۔ میں گھر میں سب سے زیادہ نکما ہوں ۔ جب سب تہجد کے لیے اٹھتے ہیں تب سوتا ہوں لیکن رب مجھے بھی میری سوچ سے زیادہ نواز دیتا ہے
 

سید عمران

محفلین
افریقہ میں ایک ماہرِ سماجیات نے بچوں کے ساتھ ایک تجربہ کیا۔ اس نے پھلوں سے بھری ایک ٹوکری ایک درخت کے پاس رکھ دی اور بچوں سے کہا کہ دوڑ لگائیں، جو بچہ سب سے پہلے ٹوکری تک پہنچے گا سارے پھل اسی کو ملیں گے۔ جب اس نے دوڑنے کا اشارہ کیا تو بچوں نے ایک دوسرے کے ہا تھ تھام لئے اور ایک ساتھ دوڑتے ہوئے پھلوں تک پہنچے، اس کے بعد وہ ایک دائرے میں بیٹھ گئے اور پھل کھانے لگے۔ جب سائنسدان نے پوچھا کہ آپ نے مل کر دوڑنے کو کیوں چنا جبکہ ان میں سے ہر ایک سارے پھل بھی حاصل کر سکتا تھا، ان میں سے ایک بچے نے جواب دیا 'اوبنٹو' جس کا مقامی زبان میں مطلب ہے کہ کوئی اکیلا کس طرح خوش ہو سکتا ہے جبکہ باقی سارے غمگین ہوں؟ مقامی کلچر میں اوبنٹو کا مطلب ہے:
"میں اس لیے ہوں کیونکہ ہم سب ہیں"
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
حرمین شریفین کی انتظامیہ کی جانب سےایک تقریب منعقد کی گئی جس میں مسجد نبوی کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کے بارے میں مکمل وضاحت کی گئی “

تشریح وتوضیح:-
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔

روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔
اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔
ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام
اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔

مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔
بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔
یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔
1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔
اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔
مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔
اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔
میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔
حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔
یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں.
 

سید عمران

محفلین
نخالص دودھ

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
فروری 6، 2020

ایک گاؤں میں ایک دودھ والے کے پاس پانچ گائیں ہیں جو دودھ دیتی ہیں- اس دودھ کو قریبی شہر میں بیچ کر یہ گوالا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے- لیکن دودھ بہت سستا ہو گیا ہے اس لیے دودھ والے کا گذارا مشکل سے چلتا ہے- اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے یہ گوالا دودھ میں پانی ملا کر دودھ کی مقدار بڑھا دیتا ہے- گاؤں میں پینے کا پانی ملنا مشکل ہے- اس لیے گوالا آسان کام کرتا ہے- وہ دودھ میں جوہڑ کا پانی ملا کر بیچنے لگتا ہے-

اس سے اس کی آمدنی تو بڑھ جاتی ہے لیکن جوہڑ کا پانی ملانے سے دودھ گدلا ہو جاتا ہے جس سے لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے- گوالے کے پاس اس مسئلے کا بھی علاج موجود ہے- گوالا دودھ میں چاک پیس کر ملا دیتا ہے یا پلاسٹر آف پیرس گھول کر ڈال دیتا ہے- اس سے دودھ گاڑھا بھی ہو جاتا ہے اور اس کا رنگ بھی دوبارہ سفید ہو جاتا ہے

لیکن لوگ شکایت کرتے ہیں کہ دودھ بہت جلد خراب ہو جاتا ہے- جوہڑ کے پانی میں بہت سے جراثیم ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دودھ میں جلد ہی بو آنے لگتی ہے اور جوش دینے پر دودھ پھٹ جاتا ہے- گوالے کے پاس اس کا علاج بھی موجود ہے- گوالا کیمسٹ کی دکان سے formaldehyde خرید کر دودھ میں ملانے لگتا ہے- formaldehyde انسان کے لیے انتہائی خطرناک کیمیکل ہے لیکن اس سے بیکٹیریا مر جاتے ہیں اور دودھ دیر تک خراب نہیں ہوتا- یہی نہیں، formaldehyde کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے جس سے دودھ کا ذائقہ بھی بہتر ہو جاتا ہے۔

اب یہ گوالا پہلے کی نسبت دگنے پیسے بنا رہا ہے اور مزے سے زندگی گذار رہا ہے- لیکن اسے اب بھی اپنا منافع بڑھانے کی فکر ہے- گائیں چارہ بہت کھاتی ہیں اور چارہ مہنگا ہوتا جا رہا ہے- گوالا پاس ہی آٹے کی مل سے چھان بورا خرید کر اپنی گائیوں کو کھلانے لگتا ہے- آٹے کی مل کا مالک بھی خوش ہے کہ پہلے وہ یہ چھان بورا پھینک دیتا تھا، اب اسے بیچنے لگا ہے- یہ چھان بورا نمی کی وجہ سے خراب ہو چکا ہے اور اس میں بو پڑ چکی ہے- لیکن گائیوں کے پاس اسے کھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے، انہیں اپنا پیٹ بھرنا ہے- لیکن اس چھان بورے سے گائیوں کا دودھ پتلا ہوتا جا رہا ہے اور اس میں غذائیت بہت کم رہ گئی ہے-

غذائیت کی فکر تو گوالے کو نہیں ہے لیکن پتلا دودھ؟ لوگ شکایتوں کے انبار لگا دیں گے- چنانچہ گوالا دودھ میں پلاسٹر آف پیرس کی مقدار بڑھا دیتا ہے- اب تو اس کے گھر میں چاندی ہی چاندی ہے- اس کے دودھ سے لوگ بیمار ہو رہے ہیں، کئی بچے ڈائیریا اور دوسری بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں- لیکن شہر میں تعلیم کم ہے- لوگ موت کو خدا کی مرضی سمجھ کر صبر شکر کر کے بیٹھ جاتے ہیں- حکومت کو بھی عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے- گوالے اور آٹے کی مل کے مالک، دونوں مقامی پولیس اور سیاست دانوں کو بھتہ دیتے ہیں اس لیے پولیس انہیں کچھ نہیں کہتی- ڈاکٹروں کو بھی شک ہے کہ بچوں کی اموات جراثیم سے لدے دودھ کی وجہ سے ہو رہی ہے- لیکن اگر دودھ صاف ہو گیا اور بچے صحت مند ہونے لگے تو ان ڈاکٹروں کی لگی بندھی آمدنی ختم ہو جائے گی- اپنی روزی پر بھلا ڈاکٹر کیوں لات ماریں گے؟

آپ کے خیال میں یہ کہانی کس ملک کی ہے؟ پاکستان کی؟ جی نہیں- بھارت کی؟ جی نہیں- فلپائن کی؟ جی نہیں- یہ کہانی فلپائن کی بھی نہیں ہے-

یہ کہانی ہے امریکہ کی- جی ہاں امریکہ کی- لیکن آج کے امریکہ کی نہیں بلکہ انیسویں صدی کے امریکہ کی- جب امریکہ میں صحت عامہ کے حوالے سے کوئی قوانین نہیں تھے- جب امریکہ میں ہمارے ہاں کی طرح رشوت ستانی، قانون شکنی، اور ملاوٹ عام تھیں- لیکن آج امریکہ میں کوئی ایسا دودھ بیچنے کا سوچ بھی نہیں سکتا- آج دودھ کی بوتل پر (اور کھانے پینے کی ہر چیز کی پیکنگ پر) ان تمام اجزاء کی تفصیل دینا قانوناً فرض ہے جن سے وہ شے بنائی گئی ہے یا جو اجزاء اس میں شامل کیے گئے ہیں- اس کی وجہ سے امریکہ میں غذائیں عام طور پر خالص ہوتی ہیں اور ان میں جو بھی کیمیکل یا preservatives شامل ہوں ان کی تفصیل پیکنگ پر موجود ہوتی ہے-

یہ قوانین خود بخود نہیں بن گئے- اس کے لیے تعلیم یافتہ افراد کو بہت جدوجہد کرنا پڑی تھی- اپنے سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنا پڑا تھا- رشوت خور پولیس والوں اور افسروں کا اخباروں میں بھاںڈا پھوڑا گیا تھا- یونیورسٹی میں پروفیسرز اور سائنس دانوں نے اشیا میں ملاوٹ کو ثابت کیا اور اپنی ریسرچ کو شائع کیا- یوں آہستہ آہستہ عوام کو احساس ہونے لگا کہ لوگ اپنے منافع کے لیے ان کی صحت سے کھیل رہے ہیں- چنانچہ عوام نے سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا اور ان سے ایسے قوانین پاس کروائے جن سے ملاوٹ کرنا نہ صرف جرم قرار پایا بلکہ ملاوٹ کرنے والوں کو واقعی سخت سزائیں بھی دی گئیں- یوں آہستہ آہستہ ایک کلچر، ایک رویہ بن گیا کہ اب کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرنا اس قدر گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے کہ اب کوئی ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا

اس آرٹیکل کے لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم تمام تعلیم یافتہ افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے طور پر ملاوٹ کرنے والوں، جعلی دوا بنانے اور بیچنے والوں، رشوت خوروں اور قانون شکنی کرنے والوں کا بھانڈا سر عام پھوڑیں- آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسا کرنا، انیسویں صدی کی نسبت کہیں آسان ہو چکا ہے-

تو کیا آپ سب یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم نہ صرف خود خرید و فروخت میں دیانت داری سے کام لیں گے بلکہ دوسروں کو بھی دیانت داری پر مجبور کریں گے اور قانون توڑنے والوں کو ایکسپوز کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کریں گے؟ اگر ہم سب اپنی معاشری ذمہ داریاں نبھائیں تو کم از کم یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں غذاؤں میں ملاوٹ کم ہو جائے گی، جعلی ادویات کا بیچنا زیادہ مشکل ہو جائے گا، اور ہمارے بچے خالص غذا اور خالص دوائیں حاصل کر پائیں گے۔

اوریجنل آرٹیکل کا لنک:
We Owe Food Regulation to a 19th-Century Chemist Who Poisoned His Colleagues
 

عدنان عمر

محفلین
نخالص دودھ

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
فروری 6، 2020

ایک گاؤں میں ایک دودھ والے کے پاس پانچ گائیں ہیں جو دودھ دیتی ہیں- اس دودھ کو قریبی شہر میں بیچ کر یہ گوالا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے- لیکن دودھ بہت سستا ہو گیا ہے اس لیے دودھ والے کا گذارا مشکل سے چلتا ہے- اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے یہ گوالا دودھ میں پانی ملا کر دودھ کی مقدار بڑھا دیتا ہے- گاؤں میں پینے کا پانی ملنا مشکل ہے- اس لیے گوالا آسان کام کرتا ہے- وہ دودھ میں جوہڑ کا پانی ملا کر بیچنے لگتا ہے-

اس سے اس کی آمدنی تو بڑھ جاتی ہے لیکن جوہڑ کا پانی ملانے سے دودھ گدلا ہو جاتا ہے جس سے لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے- گوالے کے پاس اس مسئلے کا بھی علاج موجود ہے- گوالا دودھ میں چاک پیس کر ملا دیتا ہے یا پلاسٹر آف پیرس گھول کر ڈال دیتا ہے- اس سے دودھ گاڑھا بھی ہو جاتا ہے اور اس کا رنگ بھی دوبارہ سفید ہو جاتا ہے

لیکن لوگ شکایت کرتے ہیں کہ دودھ بہت جلد خراب ہو جاتا ہے- جوہڑ کے پانی میں بہت سے جراثیم ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دودھ میں جلد ہی بو آنے لگتی ہے اور جوش دینے پر دودھ پھٹ جاتا ہے- گوالے کے پاس اس کا علاج بھی موجود ہے- گوالا کیمسٹ کی دکان سے formaldehyde خرید کر دودھ میں ملانے لگتا ہے- formaldehyde انسان کے لیے انتہائی خطرناک کیمیکل ہے لیکن اس سے بیکٹیریا مر جاتے ہیں اور دودھ دیر تک خراب نہیں ہوتا- یہی نہیں، formaldehyde کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے جس سے دودھ کا ذائقہ بھی بہتر ہو جاتا ہے۔

اب یہ گوالا پہلے کی نسبت دگنے پیسے بنا رہا ہے اور مزے سے زندگی گذار رہا ہے- لیکن اسے اب بھی اپنا منافع بڑھانے کی فکر ہے- گائیں چارہ بہت کھاتی ہیں اور چارہ مہنگا ہوتا جا رہا ہے- گوالا پاس ہی آٹے کی مل سے چھان بورا خرید کر اپنی گائیوں کو کھلانے لگتا ہے- آٹے کی مل کا مالک بھی خوش ہے کہ پہلے وہ یہ چھان بورا پھینک دیتا تھا، اب اسے بیچنے لگا ہے- یہ چھان بورا نمی کی وجہ سے خراب ہو چکا ہے اور اس میں بو پڑ چکی ہے- لیکن گائیوں کے پاس اسے کھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے، انہیں اپنا پیٹ بھرنا ہے- لیکن اس چھان بورے سے گائیوں کا دودھ پتلا ہوتا جا رہا ہے اور اس میں غذائیت بہت کم رہ گئی ہے-

غذائیت کی فکر تو گوالے کو نہیں ہے لیکن پتلا دودھ؟ لوگ شکایتوں کے انبار لگا دیں گے- چنانچہ گوالا دودھ میں پلاسٹر آف پیرس کی مقدار بڑھا دیتا ہے- اب تو اس کے گھر میں چاندی ہی چاندی ہے- اس کے دودھ سے لوگ بیمار ہو رہے ہیں، کئی بچے ڈائیریا اور دوسری بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں- لیکن شہر میں تعلیم کم ہے- لوگ موت کو خدا کی مرضی سمجھ کر صبر شکر کر کے بیٹھ جاتے ہیں- حکومت کو بھی عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے- گوالے اور آٹے کی مل کے مالک، دونوں مقامی پولیس اور سیاست دانوں کو بھتہ دیتے ہیں اس لیے پولیس انہیں کچھ نہیں کہتی- ڈاکٹروں کو بھی شک ہے کہ بچوں کی اموات جراثیم سے لدے دودھ کی وجہ سے ہو رہی ہے- لیکن اگر دودھ صاف ہو گیا اور بچے صحت مند ہونے لگے تو ان ڈاکٹروں کی لگی بندھی آمدنی ختم ہو جائے گی- اپنی روزی پر بھلا ڈاکٹر کیوں لات ماریں گے؟

آپ کے خیال میں یہ کہانی کس ملک کی ہے؟ پاکستان کی؟ جی نہیں- بھارت کی؟ جی نہیں- فلپائن کی؟ جی نہیں- یہ کہانی فلپائن کی بھی نہیں ہے-

یہ کہانی ہے امریکہ کی- جی ہاں امریکہ کی- لیکن آج کے امریکہ کی نہیں بلکہ انیسویں صدی کے امریکہ کی- جب امریکہ میں صحت عامہ کے حوالے سے کوئی قوانین نہیں تھے- جب امریکہ میں ہمارے ہاں کی طرح رشوت ستانی، قانون شکنی، اور ملاوٹ عام تھیں- لیکن آج امریکہ میں کوئی ایسا دودھ بیچنے کا سوچ بھی نہیں سکتا- آج دودھ کی بوتل پر (اور کھانے پینے کی ہر چیز کی پیکنگ پر) ان تمام اجزاء کی تفصیل دینا قانوناً فرض ہے جن سے وہ شے بنائی گئی ہے یا جو اجزاء اس میں شامل کیے گئے ہیں- اس کی وجہ سے امریکہ میں غذائیں عام طور پر خالص ہوتی ہیں اور ان میں جو بھی کیمیکل یا preservatives شامل ہوں ان کی تفصیل پیکنگ پر موجود ہوتی ہے-

یہ قوانین خود بخود نہیں بن گئے- اس کے لیے تعلیم یافتہ افراد کو بہت جدوجہد کرنا پڑی تھی- اپنے سیاست دانوں پر دباؤ ڈالنا پڑا تھا- رشوت خور پولیس والوں اور افسروں کا اخباروں میں بھاںڈا پھوڑا گیا تھا- یونیورسٹی میں پروفیسرز اور سائنس دانوں نے اشیا میں ملاوٹ کو ثابت کیا اور اپنی ریسرچ کو شائع کیا- یوں آہستہ آہستہ عوام کو احساس ہونے لگا کہ لوگ اپنے منافع کے لیے ان کی صحت سے کھیل رہے ہیں- چنانچہ عوام نے سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا اور ان سے ایسے قوانین پاس کروائے جن سے ملاوٹ کرنا نہ صرف جرم قرار پایا بلکہ ملاوٹ کرنے والوں کو واقعی سخت سزائیں بھی دی گئیں- یوں آہستہ آہستہ ایک کلچر، ایک رویہ بن گیا کہ اب کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرنا اس قدر گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے کہ اب کوئی ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا

اس آرٹیکل کے لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم تمام تعلیم یافتہ افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے طور پر ملاوٹ کرنے والوں، جعلی دوا بنانے اور بیچنے والوں، رشوت خوروں اور قانون شکنی کرنے والوں کا بھانڈا سر عام پھوڑیں- آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسا کرنا، انیسویں صدی کی نسبت کہیں آسان ہو چکا ہے-

تو کیا آپ سب یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم نہ صرف خود خرید و فروخت میں دیانت داری سے کام لیں گے بلکہ دوسروں کو بھی دیانت داری پر مجبور کریں گے اور قانون توڑنے والوں کو ایکسپوز کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کریں گے؟ اگر ہم سب اپنی معاشری ذمہ داریاں نبھائیں تو کم از کم یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں غذاؤں میں ملاوٹ کم ہو جائے گی، جعلی ادویات کا بیچنا زیادہ مشکل ہو جائے گا، اور ہمارے بچے خالص غذا اور خالص دوائیں حاصل کر پائیں گے۔

اوریجنل آرٹیکل کا لنک:
We Owe Food Regulation to a 19th-Century Chemist Who Poisoned His Colleagues
عوامی بیداری، خود احتسابی اور سماج سدھار کے حوالے سے یہ بہترین مضمون ہے۔
ظفر عمران صاحب نے بھی اس حوالے سے ایک مختصر لیکن فکر انگیز مضمون لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
‏کمیٹی کے نل سے زیادہ پانی ٹھگنے کے لیے ایک ٹھگ نے ڈنکی پمپ لگایا، دوسروں کے نل ہوا دینے لگے۔ ایک ٹھگ کو روکنے کے بہ جائے ہم نے ٹھگی کی راہ چنی۔ باری باری، محلے محلے، شہر شہر، ہر ایک نے ڈنکی پمپ لگالیے۔ یوں سبهی کو پہلے جتنی مقدار میں پانی ملنے لگا۔
‏لیکن ڈنکی پمپ کو چلانے والی الیکٹرک موٹر نے بجلی کے بل میں اضافہ کر دیا۔
اف ... حکومت کتنی چور ہے، بل دیکھ کر ہم تلملائے.

سردیوں میں گیس کی قلت ہوئی تو ایک ٹھگ نے زیادہ گیس کھینچے کا آلہ لگا لیا۔ یہاں بهی ہم نے ٹھگ کی نقل میں گھر گھر کمپریسر نصب کر لیے۔
‏گیس وہی مدھم، لیکن گیس کے میٹر تیز چلنے سے بل بڑھے۔
اف .. حکومت کو شرم نہیں آتی، گیس ہے نہیں اور بل بڑھا دیے۔
ٹھگوں کو کیوں امید ہے، کہ ان پہ فرشتے حکمران ہوں؟
ٹھگوں کی دیوی کالی ماں ہے، جو قہر کی علامت ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ایک ہومیو ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا , جہاں مجھ سے پہلے ایک خاتون بیٹھی تھیں , ڈاکٹر نے ان سے صرف یہ پوچھا , جی بی بی فرمائیں ,
خاتون کہنے لگی , فرمانا کیا ہے , دو دن سے ہلکا سا بخار محسوس ہورہا ہے , بائیں بازو میں درد رہتا ہے , گردن کے پٹھے
کھینچے رہتے ھیں , ھاتھ اور پیر جلتے رہتے ہیں , گلے میں کانوں کے نیچے گلٹیاں سی بنی ھیں , میں نے تو کل ھی آنا تھا آپکے پاس مگر چھوٹی بیٹی کو بیٹا ھوا ھے , وہ کل سے آئ ھے , مہمان آجا رھے ھیں , کل رات اس کا شوہر بھی آگیا , گھر میں تو ساگ پکا تھا , مگر اس کے لیے مرغ تکے منگوائے تھے , میں نے بھی چار بوٹیاں چکھ لیں , بس اس وقت سے سینے میں جلن ھورھی ھے , ڈکار بھی آئے تھے , مگر صبح کچھ کھانے کو دل ھی نہیں کررھا تھا , صرف ایک آلو والا پراٹھا دھی کے ساتھ کھایا ھے , لڑکی کو پہلا بچہ ھوا ھے , کتنا خرچہ ھوجاتا ھے نا , کوئ نہیں , میری کمیٹی نکلنی ھے , اسی لیے ڈالی تھی . وہ جو آپ نے گولیاں دی تھیں نا وہ ختم ھوگئ ھیں , شربت پڑا ھے ابھی . بیٹھ کر اٹھتی ھوں تو آنکھوں آگے اندھیرا آجاتا ھے , چکر آنے لگتے ھیں , پھر میں بیٹھی ھی رہتی ھوں , مگر سوچتی ھوں اسی طرح بیٹھی رھی تو وزن ھی نا بڑھنا شروع ھوجائے , وہ ھماری ہمسائ ھے نا خورشید , بیچاری سے ھلا بھی نہیں جاتا اتنی موٹی ھوگئ ھے , میں نے اسے کہا تھا کہ آپ کے پاس آئے دوائ لینے , کہتی ھے' اسلم کو بھیجوں گی , لے آئے گا خود ھی . اس کے گھر والے کا نام ھے اسلم . ڈاکٹر صاحب میری دائیں ٹانگ میں بھی کبھی درد ھوتا ھے , اس کی بھی دوائ دے دینا . ڈاکٹر گم سم سا اسے دیکھتا رھا پھر وہ اٹھ کر دوائیوں والے کاؤنٹر کے عقب میں گیا , مجھے ایسا لگا کہ کاؤنٹر کے پیچھے جاکر ڈاکٹر صاحب نے جلدی سے دو تین گولیاں خود کھائ ھیں۔۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
*. بیکن ھاؤس کی ہسٹری ..*

کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی "سکول" کسی ریاست کو شکست دے دے؟؟

بیکن ھاؤس کا نام سب سے پہلے سوشل میڈیا پر تب گردش میں آیا جب وہاں موجود طالبات نے اپنے خون آلود پیڈز اور زیر جامے دیواروں پر چسپاں کر کے اپنی " آزادی " کا مظاہرہ کیا۔

پھر وہاں طلباء و طالبات کی مخلوط ڈانس محفلوں کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔

پھر وہاں کے پڑھائے جانے والے نصابی کتب کے سکرین شاٹس شیر ہوئیں جن میں پاکستان کے ایسے نقشے تھے جہاں مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کو بھی انڈیا کا حصہ دکھایا گیا تھا اور ان کتابوں میں ان کو " انڈین سٹیٹس" لکھا گیا تھا۔
اور یہ معاملہ کسی ایک کتاب تک محدود نہیں تھا بلکہ تقریباً تمام کلاسسز کی تمام کتابوں میں تھے جن کے خلاف سوشل میڈیا، میڈیا حتی کہ سپریم کورٹ کے احکامات بھی بے اثر ثابت ہوئے۔

بیکن ھاؤس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والے بیکن ھاؤس کے سابق ملازم ارمغان حلیم صاحب کو اس قسم کے مواد کے خلاف آواز اٹھانے زدوکوب کیا گیا اور قتل تک کی دھمکیاں ملیں۔

بیکن ھاؤس اور اس کے ذیلی ادارے " دی ایجوکیٹر " میں انڈین سرمایہ کاری کا انکشاف ہوا۔ 1996ء میں ان سکولوں میں ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے " انٹرنیشنل فائنیس گروپ " نے براہ راست کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کی۔

بیکن ھاؤس پاکستان کا سب سے مہنگا سکول ہے۔

ایک اندازے کے مطابق بیکن ھاؤس ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپیہ پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے۔

یہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمد قصوری کی بیگم نسرین قصوری کی ملکیت ہے جن کو ان کا بیٹا قاسم قصوری چلاتا ہے۔ یہ خاندان اس تعلیمی ادارے کی بدولت کھرب پتی بن چکا ہے۔

خورشید محمد قصوری وہی صاحب ہیں جس نے پندرویں آئینی ترمیم ( شریعہ بل ) کے خلاف احتجاج استعفی دیا تھا۔ ( شائد اسلام سے نفرت اس پورے خاندان کے خون میں شامل ہے )

لبرل ازم کا علمبرادار " بیکن ھاؤس ہر سال پاکستانی سوسائیٹی میں اپنے تربیت یافتہ کم از کم 4 لاکھ طلبہ گھسیڑ رہا ہے۔ یہ طلبہ پاکستان کے اعلی ترین طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاستدان، بزنسمین اور وڈیرے شامل ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرنے والے ان طلباء کی اکثریت تقریباً لادین ہے۔ وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جن کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلباء کی اکثریت کو اردو سے بھی تقریباً نابلد رکھا جاتا ہے۔ (جو اسلام کے بعد پاکستان کو جوڑے رکھنے والا دوسرا اہم ترین جز ہے۔ :) )

پاکستان کے اعلی ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے ان طلباء کی اکثریت بڑی تیزی سے پاکستان میں اہم ترین پوزیشنیں سنبھال رہی ہے۔ اسی طبقے کا ایک بڑا حصہ فوج میں بھی جارہا ہے جو ظاہر ہے وہاں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے نہیں جاتا۔

اگر بیکن ھاؤس اسی رفتار سے کام کرتا رہا تو آنے والے پانچ سے دس سالوں میں پاکستان ایک لبرل ریاست بن چکا ہوگا جس کے بعد اس کے وجود کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

مشہور زمانہ گرفتار شدہ ملعون آیاز نظامی کے الفاظ شائد آپ کو یاد ہوں کہ ۔۔

۔۔ " ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز اور لیکچررز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے"

بیکن ھاؤس نے " تعلیم " کے عنوان سے پاکستان کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کو روکنے میں میڈیا اور سپریم کورٹ دونوں ناکام نظر آرہے ہیں۔

اس " عفریت " کو اب عوام ہی زنجیر ڈال سکتے ہیں۔ یہ کام ہم سب نے ملکر کرنا ہے۔

بیکن ھاؤس کے حوالے سے جلد ہی دوبارہ نہ صرف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائیگا بلکہ محب وطن میڈیا چینلز اور حکومت وقت سے بھی اس حوالے سے کاروائی کا مطالبہ کیا جائیگا۔
 

سید عمران

محفلین
*خوشی*

ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوستوں سے ملکر، عزیز رشتہ داروں سے ملکر، نیکی کرکے، کسی کا راستہ صاف کرکے، کسی کی مدد کرکے۔ خربوزہ میٹھا نکل آیا، تربوز لال نکل آیا، آم لیک نہیں ھوا، ٹافی کھا لی، سموسے لے آئے، جلیبیاں کھا لیں، باتھ روم میں پانی گرم مل گیا، داخلہ مل گیا، پاس ھوگئے، میٹرک کرلیا،ایف اے کرلیا، بی اے کر لیا، ایم اے کرلیا، کھانا کھالیا، دعوت کرلی، شادی کرلی، عمرہ اور حج کرلیا، چھوٹا سا گھر بنا لیا، امی ابا کیلئے سوٹ لے لیا، بہن کیلئے جیولری لے لی،بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے،اولاد آگئی اولاد بڑی ھوگئی، انکی شادیاں کردیں نانے نانیاں بن گئے دادے دادیاں بن گئے سب کچھ آسان تھا اور سب خوش تھے.
پھر ھم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی، بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے، پوزیشن کیا آئے، نمبر کتنے ھیں، جی پی اے کیا ھے، لڑکا کرتا کیا ھے، گاڑی کونسی ھے، کتنے کی ھے، تنخواہ کیا ھے، کپڑے برانڈڈ چاھیئں یا پھر اس کی کاپی ھو، جھوٹ بولنا پھر اسکا دفاع کرنا، سیاست انڈسٹری بن گئی.
*ھم سے ھمارے دور ھوگئے*
شاید ھی ھمارے بچوں کو فوج کے عہدوں کا پتہ ھو پر ان کو ڈی ایچ اے کونسے شہر میں ھیں، سب پتہ ھے، گھر کتنے کنال کا ھو، پھر آرچرڈ سکیمز آگیئں، گھر اوقات سے بڑے ھوگئے، اور ھم دور دور ھوگئے، ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر قرضوں پر گاڑیاں، موٹرسائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے، سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے پھر ان کے بل بجلی کا بل، پانی کا بل، گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل، پھر بچوں کی وین، بچوں کی ٹیکسی، بچوں کا ڈرائیور، بچوں کی گاڑی، بچوں کے موبائل، بچوں کے کمپیوٹر، بچوں کے لیپ ٹاپ، بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں، جہاز، فاسٹ فوڈ، باھر کھانے، پارٹیاں،پسند کی شادیاں، دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر، جم، پارک، اس سال کہاں جائیں گے، یہ سب ھم نے اختیار کئے اور اپنی طرف سے ھم زندگی کا مزا لے رھے ھیں کیا آپ کو پتہ ھے آپ نے خوشی کو کھودیا ھے۔ جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ھے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔
*اپنی زندگی کو سادہ بنائے*
تعلق بحال کیجئے، دوست بنایئے، دعوت گھر پر کیجئے، بے شک چائے پر بلائیں، یا پھر مولی والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے، دور ھونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے، واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، لنکڈ ان، ٹی وی،خبریں، ڈرامے، میوزک، یہ سب دوری کے راستے ھیں آمنے سامنے بیٹھئیے، دل کی بات سنیئے اور سنائیے، مسکرائیے۔ یقین کیجئے خوشی بہت سستی مل جاتی ھے بلکہ مفت، اور پریشانی تو بہت مہنگی ملتی ھے جس کیلئے ھم اتنی محنت کرتے ھیں، اور پھر حاصل کرتے ھیں۔ خوشی ھرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ھے۔ کبھی نئے جوتے پہن کر بستر پر رھیئے پاوں نیچے رکھے تو جوتا گندا ھوجائے گا۔ بس محسوس کرنے کی بات ھے ،چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے ٹوٹ کر گر گیا تو کونسی قیامت آجائے گی ۔ھمسائے کی بیل تو بجائیے ملئے مسکرائیے، بس مسکراھٹ واپس آجائے گی، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے ان کو دبانے کیلئے ڈگریاں، کامیابیاں، فیکٹریوں کا ذکر ھرگز مت کیجئے۔ پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پیتے تھے، ایک سیگریٹ سے سب کش لگاتے تھے،اور چھپاتے تھے۔ کباب انڈے والا برگر جس کو بند پلستر کہتے تھے بانٹ کر کھاتے تھے۔ بل ملکر ادا کیجئے، مہنگی جگہ بلا کر کسی غریب کا استحصال مت کیجئے،
کراچی کوئٹہ چائے والے، بندر روڈ، ناظم آباد، حیدری، کیفے پیالہ، برنس روڈ، لیاقت آباد، اب بھی کراچی میں ہی ہیں، جبکہ پرانی انارکلی، جین مندر بھی وھیں لاھور میں ھی ھے، ارم کیفے، میلوڈی، آبپارہ اسلام آباد میں اسی جگہ ھیں۔ سب اپنی پرانی جگہوں پر دوستوں کو بلائیے، اور پرانے رشتہ ناموں کو جوڑیئے!
ھم نے کیا کرنا ایسےچائے خانہ کا جہاں پچاس قسم کی چائے ھے۔ آؤ وھاں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ھی چائے بنتی ھے ملائی مارکے، چینی ھلکی پتی تیز۔
*آو پھر سے خوش رھنا شروع کرتے ھیں۔*
 
Top