آپ کے علاقے میں ٹماٹروں کی قیمت؟

جاسم محمد

محفلین
درست !!! اس زمانے میں پرائس کنٹرول میکنزم کو لاگو کرنا اتنا مشکل نہیں ، کوئی بھی پروسیجر سے ہٹ کر کام کرے اس کی رپورٹنگ اور ایسکلیشن متعلقہ حُکام تک پہنچنے میں وقت نہیں لگتا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے کرپشن کا بھی ایک نچلے درجے کا میکنزم (بطور سسٹم) متوازی طور پر کارفرما ہوتا ہے جو آپس کی لین دین اور اونچ نیچ کو ہینڈل کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک عنصر خلاف ورزی کرے تو گرفت میں لانا آسان ہوتا ہے لیکن جب یہ عناصر مکنزم ور سسٹم بنا کے کام کرتے ہیں تو اس کی کمر توڑنا حکومت کی اصل ذمہ داری ہونی چاہیئے یہ عوام کے بس کی بات نہیں ۔جرمانے اور سزاؤں کے لاگو کیے جانے پر ہی اس کا سب سے زیادہ انحصار ہے ۔ شاید اس کے لیے میرے خیال میں نئی قانون سازی کی ضرورت تو نہیں ہو گی البتہ قوانین کو ہر سطح پر لاگو کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔
پاکستان جیسے ملک میں حکومت اور گورننس ایک ناممکن کام ہے۔ اس کا اندازہ کپتان کو ۲۲ سال اقتدار کی جد و جہد کرنے کے بعد پہلے سال وزیر اعظم بن کر ہوا۔ اگر وہ پچھلے پانچ سال کے پی کے میں کوئی وزارت رکھ لیتے تو آج برطانیہ میں بیٹھ کر اپنی سابقہ اہلیہ اور بچوں کے ساتھ توبہ استغفار کر رہے ہوتے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پاکستان جیسے ملک میں حکومت اور گورننس ایک ناممکن کام ہے۔ اس کا اندازہ کپتان کو ۲۲ سال اقتدار کی جد و جہد کرنے کے بعد پہلے سال وزیر اعظم بن کر ہوا۔ اگر وہ پچھلے پانچ سال کے پی کے میں کوئی وزارت رکھ لیتے تو آج برطانیہ میں بیٹھ کر اپنی سابقہ اہلیہ اور بچوں کے ساتھ توبہ استغفار کر رہے ہوتے۔
لیکن آپ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ کپتان (اپنی دانست میں) اسی ناممکن کو ممکن بنانے کا نام لے کر آیا ہے ۔ :)
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ کے یہاں قوت خرید کے حساب سے ٹماٹر مہنگے ہیں یا نہیں؟
یہاں تو بہت زیادہ غریب مزدور عوام بھی بستی ہے ان کے لیے یہ زیادہ ہیں ۔ ویسے عموما تین چار کے حساب سے ملتے ہیں ۔ البتہ کبھی کبھی ہی زیادہ ہو جاتے ہیں جیسے آج کل اور عید الاضحی وغیرہ پر پندرہ ،اٹھارہ وغیرہ۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
خیر اکنامکس سے میرا تعلق تو نہیں ہے۔ 'ہوم اکنامکس' سے ضرور ہے۔ ہماری زوجہ نے گھر کا خرچ اور بجٹ بھی ہم پر ڈال رکھا ہے۔ :)

اوپر زیک کے اعداد و شمار سے بھی ثابت ہوا اور میں بھی اپنے تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ میرے ماہانہ اور سالانہ بجٹ میں سب سے زیادہ حصہ 'کچن' کے اخراجات کا ہے اور اس کے بعد بچوں کی پڑھائی اور یوٹیلیٹی بلز۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں خوراک اور تعلیم دونوں ہی کافی مہنگی ہیں۔

اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک وجہ ہے، جس کی وجہ سے کھیتوں میں کنکریٹ کے جنگل اگ آئے ہیں۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے، آبادی بڑھنے کی وجہ سے کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو وہیں ان کے رہنے کی وجہ سے قابل کاشت زمین میں کمی ہو جاتی ہے۔

پھر پاکستان میں فی ایکٹر پیداوار بھی دنیا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

سبزیوں کی قیمت میں اضافے کا فائدہ اگر ہمارے کسان بھائیوں کو ہو رہا ہوتا تو شاید اس مہنگائی کا احساس کم ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مہنگائی کا فائدہ کسان کو نہیں بلکہ 'مڈل مین' کو ہوتا ہے جو کسانوں سے تو "ٹکہ ٹنڈ" (کوڑیوں کے بھاؤ) خریدتے ہیں لیکن مارکیٹ میں اپنے من مرضی کا ریٹ نکالتے ہیں۔

اور اس کے بعد اہم حصہ حکومت کا ہے جنہوں نے قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ حکومتی مشینری والے اپنی دیہاڑی لگاتے ہیں، مثال کے طور پر، بجائے قیمت کو کنٹرول کرنے کے وہ کہتے ہیں کہ ہر دکاندار، ہر ٹھیلے والے، ہر ریڑھی والے کے پاس سرکاری ریٹ لسٹ ہونی چاہیئے۔ اور یہ ان کے پاس ہوتی ہے۔ اس میں دیہاڑی کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ریٹ لسٹ فوٹو کاپی کے اوپر وہ اپنی سرکاری مہر لگاتے ہیں اور اس مہر کا "ہدیہ" دس بیس تیس روپے ہوتا ہے جو ان کی اپنی جیب میں جاتا ہے، روزانہ ہزاروں ٹھپے لگتے ہیں اور یوں پرائس کنڑول والوں کی دیہاڑی بھی لگتی ہے۔

ویسے کراچی میں آج تک ہم نے کبھی کسی ٹھیلے والے کے پاس ریٹ لسٹ نہیں دیکھی۔

سر محمد خلیل الرحمٰن آپ نے کبھی دیکھی ہے؟

یہاں ٹھیلے والے اپنی ہی چلاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی حرکتوں کو دیکھ کر غنڈہ گردی کا لفظ استعمال کرنے کا دل کرتا ہے۔ رمضان آتے ہی یہ گاجر، بند گوبھی اور شملہ مرچ کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ چائینیز سبزیاں ہیں مانگ بہت ہے تو ہمیں منڈی سے ہی مہنگی مل رہی ہیں۔ یہی حال پھلوں کا ہوتا ہے۔ ابھی اسٹرابیری کا سیزن آئے گا۔ یہ سڑا کر پھینک دیتے ہیں لیکن سستی نہیں کرتے ہیں۔ ابھی جولائی میں ایک ٹھیلے والے سے لیچی کی قیمت پوچھی، چھ سو روپے کلو!

اب تو شکر ہے کہ امتیاز اور چیز اپ سے کچھ سستی سبزی مل جاتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ویک اینڈ پر پورے ہفتے کی سبزی چیز اپ یا امتیاز سے لے آئیں۔ ٹھیلے والوں کے مقابلے میں بہت کم قیمت میں سبزی مل جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی خزانہ سے ڈالر مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر کی قیمت کو ۱۰۰ روپے کے آس پاس رکھا ہوا تھا۔ جس سے قوم میں یہ تاثر گیا کہ ملکی معیشت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ مصنوعی معیشت اور عارضی طور پر مہنگائی میں کمی کا غبارہ ایک نہ ایک دن تو پھٹنا ہی تھا۔
جب نئی حکومت نے آکر یہ پالیسی ختم کی اور ڈالر اپنی اصل قیمت پر واپس آیا تو پوری قوم کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ جیسے کسی نشئی کا نشہ ختم ہونے پر حقیقی دنیا میں جھٹکے سے واپسی ہوتی ہے۔ ویسے ہی پاکستانی قوم سستے ڈالر کا نشہ ختم ہونے پر حقیقی معیشت میں واپس آ چکی ہے۔ اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر عمران خان کو گالیاں بھی نکال رہی ہے کہ ہم سے سستے ڈالر کا نشہ کیوں چھڑوایا۔ وہ سستے ڈالر کا نشہ دینے والے بھگوڑے ڈاکٹر اسحاق ڈار کو واپس بلواؤ۔ حکومت نے قوم کی فریاد پر انٹرپول سے رابطہ کیا ہے۔ لیکن وہ بھگوڑا ڈاکٹر اب ملک واپس آنے کو تیار نہیں۔ کہتا ہے میرا سستا نشہ ختم ہو گیا ہے:)

پچھلے دس سال میں ڈالر ۶۰ روپے سے ۱۲۰ روپے تک گیا۔ کوئی ہائپر انفلیشن نہیں ہوئی۔ ایک سال میں ۱۲۰ روپے سے ۱۵۵ روپے ہوگیا اور نیچے آرہا ہے۔ تو ہائپر انفلیشن ہو گئی؟ یہ معاشی سائنس سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب کم از کم حکومت ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کیلئے مارکیٹ میں ڈالر قومی خزانہ سے لے کر نہیں پھینک رہی۔
اس وقت جو قیمت ہے وہ حقیقی ہے مصنوعی نہیں۔

ان تمام حقائق سے آگہی کے بعد ہی آپ نے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا۔ اب ذرا تبدیلی کا حال بھی سُن لیں۔ تبدیلی حکومت نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ۵۰ ہزار سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط رکھی تو وہ ہڑتال پر نکل گئے۔ مجبوراً حکومت کو انہیں تین ماہ کی ایکسٹینشن دینا پڑی۔ اب حکومت سوچ رہی ہے کہ جی ایس ٹی کی بجائے مغرب کی طرح وی اے ٹی ٹیکس نافذ کر دیا جائے۔ اور یوں تاجر کی بجائے صارف سے براہ راست ٹیکس لیا جائے۔ یہ سب کیسے ہوگا کچھ پتا نہیں۔
اب آجائیں ایف بی آر کا حال۔ حکومت جانتی ہے کہ آدھے سے زیادہ ٹیکس سرکاری خزانہ میں جانے کی بجائے ٹیکس افسران کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے ٹیکس فائلنگ سے لیکر ٹیکس وصولی تک کا سارا نظام آن لائن کیا جانا ہے تاکہ درمیان سے ٹیکس چور ٹیکس افسران نکل جائیں۔ جس دن حکومت نے یہ تجویز ٹیکس افسران کے سامنے رکھی تو اس دن سے وہ حکومتی میٹنگز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
یعنی ایک طرف عام عوام ہے جو ۷۰ سالہ نظام سے تنگ آئی ہوئی ہے اور تبدیلی چاہتی ہے۔ دوسری طرف چھوٹا سا مافیا ہے جو اس کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ نظام کو چھیڑا جائے۔ ابھی یہ صرف جنگ کا آغاز ہے۔ ابھی بہت دور تک جانا ہے۔

جاسم بھائی خان صاحب کی تاجروں کو ٹیکس سرکل میں لانے کی کاوش قابل تعریف ہے لیکن جس مہنگائی کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے۔

آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔ ایک سال پہلے بلڈ پریشر کی ایک بہت عام دوا norvasc کا ایک اسٹرپ 50 60 روپے کا ہوا کرتا تھا۔ اب اس کی قیمت 200 روپے ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہمارا حشر کیا ہو رہا ہوگا۔

مہنگائی ہوئی ہے اور بہت زیادہ ہوئی ہے۔ معیشیت بہتر ہو رہی ہوگی لیکن ایک عام آدمی کا بہت برا حال ہے۔ اس وقت غریب طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے۔ مزدور طبقے کا اتنا برا حال ہو چکا ہے کہ یہ بیچارے ایک وقت کا کھانا بمشکل افورڈ کر رہے ہیں۔

غریب طبقے کا تو گزارا ہی دال سبزی بھی ہوتا تھا اور اب سبزی بھی قابل رسائی نہیں رہی ہے۔ پیاز کبھی پاکستان میں مہنگی نہیں ہوئی۔ 85 روپے کلو ہے۔ یہ غریب طبقہ کھائے تو کیا کھائے؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔ ایک سال پہلے بلڈ پریشر کی ایک بہت عام دوا norvasc کا ایک اسٹرپ 50 60 روپے کا ہوا کرتا تھا۔ اب اس کی قیمت 200 روپے ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ ہمارا حشر کیا ہو رہا ہوگا۔
Currency depreciations affect inflation similarly, except that they raise the domestic price of all imported goods, not just oil. Depreciations are needed to fix balance-of-payments problems which can arise due to unsustainable spending booms (as in the aftermath of the mid-2000s, as well as 2014-17); adverse terms of trade shocks (like oil price rises); or weakening global demand for Pakistani goods and services (as occurred during the 2008 global financial crisis)
Inflation in Pakistan: multiple causes - Newspaper - DAWN.COM
حکومت سنبھالنے کے بعد کپتان کو 12 ارب ڈالر قرضہ کی قسط واپس کرنی تھی۔ جبکہ کل ذخائر صرف 8 ارب ڈالر کے ملے تھے۔ پچھلی حکومت نے قرضے تو ٹھیک ٹھاک لے لئے لیکن ان کی واپسی کیلئے آمدن کا کوئی انتظام نہ کیا۔ جسکی وجہ سے ڈالر بچانے کیلئے روپے کی قدر کو 33 فیصد گرانا پڑا۔ اور جس کے بعد ملک میں شدید مہنگائی کا بحران پیدا ہوا۔
web-whatsapp-com-e8ad852c-1ab5-4370-b341-6d3ad71f2f5f.jpg
 
ٓٓٓٓٓٓٓٓپاکستان میں زراعت سے پیداوار پر ٓکوئی ٹیکس نہیں۔ جب کہ پاکستانی آئین میں یہ شق موجود ہے کہ قوانیں قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم مسلمان کو زراعت پر ٹیکس کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے

اللہ کا حق کھیتی کٹنے کے دن ہی ادا کردیا جائے۔
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
ترجمہ : اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کئے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

اللہ کا یہ حق کتنا ہے؟ فائیدہ کا پانچواں حصہ، یعنی زراعت پر 20 فی صد ٹیکس ، قرآن سے ثابت۔ یا تو آئین سے "قراں و سنت کے مطابق" کی شق ہٹائی جائے یا پھر زراعت پر اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق 20 فی صد ٹیکس لگایا جائے۔ یہاں تو اپنی ذاتی خواہشات کی پیروی ہورہی ہے۔

8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى
ترجمہ : اور جان لو کہ تمہیں جس شے سے بھی بڑھوتری، (فائیدہ) ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ الله اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اگر تمہیں الله پر یقین ہے اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتاری جس دن دونوں جماعتیں ملیں اور الله ہر چیز پر قادر ہے

اللہ کے حق کی اس وصول شدہ رقم (صدقات) کو کہاں خرچ کیا جائے؟

9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ : بیشک صدقات (زکوٰۃ) غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

1۔ فلاحی امور، غریبوں کے لئے
2۔ حکومت کے ملازمین کے لئے
3۔ ٹیکس (زکواۃ ) وصول کرنے والے کارکنان کو
4۔ اللہ کے احکامات سے الفت یعنی تعلیم
5۔ غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے،
6۔ مفاد عامہ کے لئے عوام کے قرضوں کی آدائیگی
7۔ نظریاتی مملکت کے دفاع پر
8۔ مسافروں پر یعنی سفر کرنے کے لئے شاہراہوں یا انفرا سٹرکچر کی تعمیر پر۔

راہی صاحب کو چاہئے کہ ان نکات پر پیٹیشن فائیل کریں :)

جب تک ٹیکس نہیں لیا جائے گا، تب تک قرضے ہی لینے پڑیں گے۔ پاکستان تقریباً 40 بلین ڈالر کا زراعت پر ٹیکس معاف کردیتا ہے۔ جب کہ یہی ٹیکس پاکستان کی ضرورت ہے۔

صرف اور صرف دولت کی گردش بڑھانے سے ہی قوت خرید میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
زراعت پر بچایا ہوا ٹیکس کہاں استعمال ہوتا ہے

دولت کی گردش یا دولت کی بوچھاڑ


فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ کیا زراعت پر ٹیکس ہونا چاہئے، جس سے دولت کی گردش میں اضافہ ہو اور انفراسٹرکچر بنے یا پھر اس زرعی پیداوار کی دولت کو اس طرح ناچنے والیوں پر ضائع کرنا چاہئے؟

آخری ویڈیو میں چھوٹے چھوٹے بچے ، ناچنے والیوں پر روپے نچھاور کررہے ہیں۔ یہ وہ اسلام اور دین ہے جو ہم اپنی آئیندہ آنے والی نسلوں کو سکھا رہے ہیں۔
 

سین خے

محفلین
73،3 ٓ سینٹ کا پاؤنڈ ٹیکس سمیت ، یعنی 1،62 سینٹ کا کلو۔ ہیوسٹن ، ٹیکساس میں یعنی 258 روپے ٓکا کلو۔

آہا یعنی زیک بھائی کی اسٹیٹ سے کم قیمت ٹیکساس میں ہے۔

برلن جرمنی میں قریباً1.5€ فی کلو۔
یعنی قریباً 256روپے فی کلو۔

تو یہ سستے ہیں آپ کے یہاں یا مہنگے؟
 
Top