غزلیات برائے تبصرہ

یکجا کلام

شہر یاراں کو سدا یونہی سجاتے رہیے
پھول گلشن میں محبت کے کھلاتے رہیے

کیا ضروری ہے کہ نفرت کریں دشمن سے یہاں
امن اور پیار سے دنیا کو سجاتے رہیے

چاہے جو کچھ ہو اندھیروں کو مٹانا ہے ضرور
اپنے خوں سے بھی چراغوں کو جلاتے رہیے

تجھ کو خالق نے عطا کی ہے جو طاقت اے دوست
دکھ سے کمزوروں کو ہر طور بچاتے رہیے

شہر یاراں کو سدا یونہی سجاتے رہیے
پھول گلشن میں محبت کے کھلاتے رہیے

کیا خبر کب کوئی اجائے صدا سن کے تری

دل کی آواز سے آواز ملاتے رہیے

روٹھے لوگوں کو منانا بھی ہے اعلی ظرفی
جانے والوں کو بہر طور بلاتے رہیے

دل کے ہر زخم کو چپ چاپ سہو سے فرخ
اپنے یاروں کو سدا دکھ سے بچاتے رہیے

سید فرخ رضا ترمذی
 
یکجا کلام

شمع امید کی اب دل میں جلاتے رہیے
صبحِ روشن کو سدا آپ بلاتے رہیے

خواب پلکوں پہ یونہی روز سجاتے رہیے
دل میں چاہت کا کوئی دیپ جلاتے رہیے

گردشِ وقت کی الجھن میں الجھنا کیسا
وقت کی چال پہ بس خود کو چلاتے رہیے

ہجر کے خوف سے آزاد کرو خود کو ذرا
پیار کے نغمے سدا ہونٹوں پر لاتے رہیے

جو میرے درد سے غافل ہیں زمانے والے
درد سہہ کر بھی انھیں آج ہنساتے رہیے

نرگس قیصر
 
یکجا کلام

قوم سوٸی ہے اسے آپ جگاتے رہیے
اس کی بگڑی ہوٸی تقدیر بناتے رہیے

اپنے محبوب کا یوں ناز اٹھاتے رہیے
روٹھ جاٸے تو اسے خوب مناتے رہیے

دل کہے جب بھی ذرا اور نیا کچھ کرلیں
*”دل کی آواز سے آواز ملاتے رہیے“*

اور رکھا ہے بھلا دنیا میں کیا اس کے سوا
خود بھی ہنسیے اور زمانے کو ہنساتے رہیے

کام جب کچھ نہ ملے آپ کو بے کاری میں
لیجے بندر کو اسے خوب نچاتے رہیے

آپ کا عیب چھپاٸے گا خدا محشر میں
اس لٸے عیبِ بشر آپ چھپاتے رہیے

راہ سے کانٹے ہٹانا بھی عبادت ہے جناب
پھرتو ہر موذی کو ہر رہ سے ہٹاتے رہیے

جب بھی حالات سے ہوجاٶں کبیدہ خاطر
دل کا دکھ درد مرے آپ مٹاتے رہیے

وقت کا جبری تقاضا ہے قرینِ حکمت
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

دینی کاموں میں رکاوٹ ہو محامد جب بھی
پڑھ کے لاحول شیاطیں کو بھگاتے رہیے

محمدعبدالمجید محامدرضوی مصباحی
 
خوشیاں سب پر ہی سدا آپ لٹاتے رہیے
راہ چلتے جو ملے اس کو ہنساتے رہیے

زندگی تیرا بھروسہ ہی نہیں ہے اب تو
روٹھے ہیں جو سبھی کو آپ مناتے رہیے

کر لیا رب کو اگر راضی ملے گی جنت
نیکیاں آپ سدا بس یوں کماتے رہیے

سوچ کے خرچ کرو رب نے دیا ہے جو کچھ
بوجھ کچھ مل کے غریبوں کا اٹھاتے رہیے

دل کی راحت ہے نمازوں کی کرو پابندی
گر کے سجدے میں سدا آنسو بہاتے رہیے

دین غالب رہے باطل کو ختم کرنا ہے
سب کو توحید کا کلمہ ہی سناتے رہیے

بے سہاروں کا سہارا کوئی تو بن جائے
آس کی شمع ہمیشہ ہی جلاتے رہیے

سیما غزل
 
یکجا کاوش
.
.

دل میں طوفان سہی نغمے سناتے رہیے
آ ہی بیٹھے ہیں تو محفل کو ہنساتے رہیے

غم کی دیوار پہ ہنستے ہوئے خوشیاں لکھکر
درد جتنے ہیں محبت سے مٹاتے رہیے

سردیاں لائی ہیں یادوں کے کٹیلے موسم
دھوپ لمحوں میں یونہی دل کو جلاتے رہیے

بھیگتی شب میں ستاروں کی الجھتی کرنیں
چاند مدھم ہو تو ارمان جگاتے رہیے

رات کے پچھلے پہر سسکیاں لیتی ہے ہوا
جانے والے نہیں آتے یہ بتاتے رہیے

روکنے سے کہاں شہزاد کوئی رکتا ہے
بوجھ یہ ہجر کے اب خود ہی اٹھاتے رہیے
شهزاد گوهیر
 
یکجا کاوش

دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے
آپ آئیں گے ہمیں یاد دلاتے رہیے

تیری تصویر کے آگے بھی یہی کہتا ہوں
دور بیٹھے ہوئے یوں ہاتھ ہلاتے رہیے

دو گھڑی اور ٹھہر جائیے اے ساقیِ دل
اپنے ہاتھوں سے ہمیں جام پلاتے رہیے

خواب آنکھوں میں سمائے ہوئے بیدار رہیں
رت جگا کرتے ہوئے رات جگاتے رہیے

وہ خدا ہے نہیں معلوم کہ کب راضی ہو
روز روتے رہیے ہاتھ اٹھاتے رہیے

کب تلک سانس چلیں گے کوئی معلوم نہیں
زندہ رہنا ہے تو پھر دیپ جلاتے رہیے

اشتر ولی
 
آپ بھی سب سے دیا ملتے ملاتے رہیے
حال دل کا یونہی بس سنتے سناتے رہیے

درد کے سر میں کوئی تال ملاتے رہیے
سانس ٹوٹے نہیں ہر تان نبھاتے رہیے

خواب کی ریت پہ کچھ نقش بناتے رہیے
نیند کی گلیوں کو ہر شام جگاتے رہیے

دیکھنا بن کے محبت کی صدا گونجے گی
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے

چاند کی چاہ میں حسرت کو ہی بینا کر کے
تارے پلکوں پہ اداسی کے گراتے رہیے

نفرتیں خوشبو کو انجان کئے رکھتی ہیں
پھول آنگن میں محبت کے اگاتے رہیے

خامشی وقت کی دہلیز پہ آبیٹھی ہے
ہاتھ باندھے رہیں اور سر کو جھکاتے رہیے

ہجر کی دھوپ میں بوجھل ہے اداسی گر تو
گدگدی کر کے ہی یادوں کو ہنساتے رہیے

مل ہی جائے گا کوئی لمحہ گزرتا ہنستا
آنکھ کو رکھ کے دریچے پہ گھماتے رہیے

دلِ صد چاک پہ لکھی ہوئی حسرت کہیئے
اپنے ماضی کا کوئی عہد دہراتے رہیے

کوئی طبلہ کوئی ڈھولک نہ ہو رسوائی کا
راگ چاہت کا یوں ملہار میں گاتے رہیے

رقص کرتے ہیں جہاں گھنگھرو بھی تنہائی کے
گیت آہوں کے وہاں تھاپ پہ گاتے رہیے

دیا جیم
 
آگ نفرت کی جہاں بڑ ھکے بجھاتے رہیے
بزمِ، الفت کی شب و روز سجاتے رہئے

دل یہ کہتا ہے کہ محبوب نے آنا ہے ضرور
نا اُمیدی ہے شرک،راہ سجاتے رہئے

آپ کو آتا ہے ہنس ہنس کے ستانے کا ہنر
ہم تڑپتے ہیں، لطفِ، آپ اٹھاتے رہئے

ہم تو نیزے پہ سر اپنا بلند رکھتے ہیں،
آپ زر کے لیئے سر ،اپنا جھکاتے رہیئے

اپنی بربادی کا احساس ہو کب رب جانے
جشن غیروں کے اشاروں پہ مناتے رہئے

مل گئیں ہیں تو نگاہیں ،،ہے ضروری یہ بھی
دل۔ کی آواز میں آواز ملاتے۔ رہیے

دال مہنگی ہے نہیں روٹی بھی سستی ممکن
اب چنا لوہے کا روزانہ چباتے رہیے ۔۔

اب ہمیں لڑنا ہے لہروں سے سہارے کے بغیر
آپ کشتی کو کنارے سے لگاتے رہیے ۔۔۔۔
مہدی شاہد سکردو
 
اپنی آنکھوں میں مرا پیار سجاتے رہئے
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہئے

دل کی تاریکی مٹی آپ کی یادوں سے مری
آئینے عرض و سما میں بھی سجاتے رہئے

نیند کو بانٹ دیا ھے حسیِن ٹکڑوں میں
آپ خوابوں میں اسی طرح سے آتے رہئے

آپ کی فکر میں اشعار ہیں شامل میرے
اپنے گیتوں میں مرے راگ ملاتے رہئے

منزلِ شوق پہ جب آ ہی گیا دل اپنا
ناز شہناز کے اب آپ اٹھاتے رہئے
شہناز حسن
 
دام فرقت کی اداسی کا لگاتے رہیے
بک نہ پائے تو ذرا مول گھٹاتے رہیے

یونہی الزام نہ اوروں پہ لگاتے رہیے
جالے قسمت پہ لگے خود بھی ہٹاتے رہیے

وقت کی تیز روی نے کئی رشتے چھینے
ساتھ چلنا ہے تو رفتار بڑھاتے رہیے

شور کرتی ہوئی دھڑکن کے سکوں کی خاطر
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے

ہائے مشکل سے چراغوں کو سکوں آیا ہے
کرکے آندھی کواشارے نہ بلاتے رہیے

کرب اندر کا اگرچین نہ لینے دے تو
دولتِ درد نگاہوں سے لٹاتے رہیے

فوزیہ عباس شاہ
 
غزل 
شہرِ خاموش میں آواز لگاتے رہئے
خوابِ غفلت سے مکینوں کو جگاتے رہئے

قافلہ تاکہ بھٹک جائے نہ جنگل میں کہیں
ظلمتِ شب میں چراغوں کو جلاتے رہئے

نور پاکیزہ خیالات سے حاصل کرکے
اپنے افکار کو پُر نور بناتے رہئے

دوستی رب کا عطا کردہ خزانہ ہے کوئی
آپ یہ دولتِ نایاب لٹاتے رہئے

آہی جائے گی نظر سامنے منزل اک دن
سچی دھن لے کے قدم اپنے بڑھاتے رہئے

اپنی آرائش و زیبائشِ ذاتی کے لیے
آئینہ خود کو شب و روز دکھاتے رہئے

ہو ہی جائے گی کبھی خفتہ منوّر بیدار
آپ کا کام جگانا ہے جگاتے رہیے
سیّدہ منوّر جہاں منوّر
 
یکجا کاوش 1
اپنی اس زیست کو خود آپ سجاتے رہیے
قبر سینے میں بھی اک آپ بناتے رہیے
لشکرے مہدی ع کا بننا ہے سپاہی جس کو
قصے حیدر ع کی شجاعت کے سناتے رہیے
نام جب بھی لیں ادب سے نبی ص کا لینا ہے
اپنے بچوں کو یہ تہذیب سکھاتے رہیے
جان بھی جائے چلی جائے یہ جانا ہی ہے
راہے حق سے نہ قدم پیچھے ہٹاتے رہیے
کبھی اللہ کی باتیں کبھی اللہ سے ہوں
ہاں نماز اور ہے قرآن پڑھاتے رہیے
انکی آواز سنیں دل میں اتاریں اسکو
دل سے آواز دیں مہدی ع کو بلاتے رہیے
قرب ہم کو بھی میسر ہو ولائے حق سے
دل لگایا ہے تو دل سے ہی لگاتے رہیے
خوف ہو رب کے غضب سے تو یقیں رحمت پر
اپنے احساس کو اس طور جگاتے رہیے
 

الف عین

لائبریرین
اے حزیں اپنی ہی پہچان کوجو بھول گیا
فاسق وفاجرہے وہ سب کو بتاتے رہئے
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج
پیار جب حد سے زیادہ ہو تو مکاں ہوتا گھر
بیچ رشتوں کی ہر دیوار گراتے رہیئے
دوسرا. ایضاً

پیار جب حد سے زیادہ ہو تو مکاں ہوتا گھر
بیچ رشتوں کی ہر دیوار گراتے رہیئے
.. بحر سے خارج
باقی بعد میں
 
اے حزیں اپنی ہی پہچان کوجو بھول گیا
فاسق وفاجرہے وہ سب کو بتاتے رہئے
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج
پیار جب حد سے زیادہ ہو تو مکاں ہوتا گھر
بیچ رشتوں کی ہر دیوار گراتے رہیئے
دوسرا. ایضاً

پیار جب حد سے زیادہ ہو تو مکاں ہوتا گھر
بیچ رشتوں کی ہر دیوار گراتے رہیئے
.. بحر سے خارج
باقی بعد میں
اوکے سر شکریہ۔۔۔
 
اے حزیں اپنی ہی پہچان کوجو بھول گیا
فاسق وفاجرہے وہ سب کو بتاتے رہئے
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج
پیار جب حد سے زیادہ ہو تو مکاں ہوتا گھر
بیچ رشتوں کی ہر دیوار گراتے رہیئے
دوسرا. ایضاً

پیار جب حد سے زیادہ ہو تو مکاں ہوتا گھر
بیچ رشتوں کی ہر دیوار گراتے رہیئے
.. بحر سے خارج
باقی بعد میں
سر جن شعراء کا کلام غلطیوں سے بالکل پاک ہے ان کی الگ سے نشاندہی کر دیجئے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
موبائل اور محض ان لائن یہ کام ممکن نہیں۔ اس کی فائل بنانی پڑے گی، اور اج کل مجھے فرصت نہیں۔ کلیات غالب میں لگا ہوں
 
Top