غزل: نشانِ گلشن کی جستجو میں نسیمِ خانہ خراب گم ہے ٭ نعیم صدیقی

نشانِ گلشن کی جستجو میں نسیمِ خانہ خراب گم ہے
کہیں ہے بلبل نہ کوئی قمری کہ سرو گم ہے، گلاب گم ہے

تمہارے اس چہرۂ کتابی کی روشنی میں کئی شبوں تک
کتابِ الفت کو ہم نے دیکھا، وفا کا پہلا ہی باب گم ہے

یہ انتظارِ سحر کہاں تک، بناؤ تم اپنے چاند سورج
ستارے بجھ بجھ کے گر چکے ہیں مدار سے آفتاب گم ہے

اگرچہ ساقی غنی ہے دل کا، مگر جو تشنہ تھے تشنہ تر ہیں
شراب کے دور چل رہے ہیں، مگر وہ کیفِ شراب گم ہے

تری وفا پر، تری جفا پر، ترے کرم پر، ترے ستم پر
سوال ہیں بے شمار دل میں، سوال ہیں اور جواب گم ہے

میں ذرے ذرے کو دیکھتا ہوں، کہیں تو کوئی دھڑکتا دل ہو
جو دل بناتی تھی آب و گِل سے، وہ روحِ پُر اضطراب گم ہے

سنا ہے صحرا سے آ کے لیلیٰ تلاش کرتی ہے بستیوں میں
کہاں پہ کھویا وہ قیسِ عامر؟ کہاں وہ عشقِ خراب گم ہے؟

بہم کیے ہم نے کفر و ایماں، ملا دیے ہم نے زہد و عصیاں
عجیب ہے یہ مقامِ عرفاں، ثواب گم ہے، عذاب گم ہے

حضورِ رحمت میں لائے مجرم، مگر فرشتوں نے معذرت کی
رقم تھے جس میں گناہ اس کے، وہ ساری فرد حساب گم ہے

٭٭٭
نعیم صدیقی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہم کیے ہم نے کفر و ایماں، ملا دیے ہم نے زہد و عصیاں
عجیب ہے یہ مقامِ عرفاں، ثواب گم ہے، عذاب گم ہے

واہ ! کیا بات ہے ! حقیقت ہے!
 

فاخر رضا

محفلین
یہ انتظارِ سحر کہاں تک، بناؤ تم اپنے چاند سورج
ستارے بجھ بجھ کے گر چکے ہیں مدار سے آفتاب گم ہے

سنا ہے صحرا سے آ کے لیلیٰ تلاش کرتی ہے بستیوں میں
کہاں پہ کھویا وہ قیسِ عامر؟ کہاں وہ عشقِ خراب گم ہے؟

حضورِ رحمت میں لائے مجرم، مگر فرشتوں نے معذرت کی
رقم تھے جس میں گناہ اس کے، وہ ساری فرد حساب گم ہے

کیا بات ہے
 
Top