ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔

ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا

عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا​

خبر کوئی کردے دلِ بے خبر کو
قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا

کیا زندگی نے اُنہیں بے دم آخر
جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا

وجود آدمی ہے ، تو ہے زندگی عکس!
کرے آدمی کیوں گلہ زندگی کا

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2018
 
ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا

عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا​

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا
کیا کہنے ظہیر بھائی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ بہت خوب ظہیراحمدظہیر بھائی
بہت شکریہ عبداللہ ! نوازش!
کیا کہنے ظہیر بھائی۔
ممنون ہوں تابش بھائی ، حسنِ نظر ہے آپ کا! اللہ کریم آپ کو عافیت میں رکھے ۔
جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا
آہ۔
آداب عاطف بھائی ! ذرہ نوازی ہے! توجہ کے لئے بہت بہت شکریہ!
زبردست
مقطع کتنا خوبصورت ہے. اصل زندگی ہی لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا اور درد دور کرنا ہے
بیشک ! بالکل ٹھیک کہا آپ نے فاخر بھائی ! اللہ ذوق سلامت رکھے! بہت شکریہ !
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم ظہیر بھائی !

آپ کی غزل کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کروں گا - اس تبادلہ خیال سے ہمیں آپ سے سیکھنے کو بھی ملے گا اور یوں ادبی محفل میں رونق بھی لگی رہے گی -
ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا

میرے خیال سے وطیرہ کا درست املا <وتیرہ> ہے -مگر اب وطیرہ بھی غلط العام ہو چکا ہے -ریختہ پر بھی اسی املا سے اشعار موجود ہیں-بہر حال فرہنگ آصفیہ میں اور لغت آن لائن میں وتیرہ ہی درج ہے -پھر وتیرہ رکھنا محاورہ جچ نہیں رہا -وتیرہ ہونا ،وتیرہ بنانا یا بنا لینا یا وتیرہ بنا رکھنا وغیرہ محاورے سن رکھے ہیں یہ کچھ غریب سا لگا -اس لنک پر دیکھے جا سکتے ہیں کچھ وتیرہ سے منسلک محاورے -
Urdu Lughat
عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا

<ہے> کی جگہ <جب> کیسا ہے -ویسے شعر مشکل ہے یا یوں سمجھیں مجھے ہی کچھ اشکالات ہیں -ایک تو یہ کہ موت کو عدم کہا گیا -پھر دائرے کو زندگی کہا گیا ہے اور موت سے پہلے پہلے زندگی کو نامکمّل دائرہ- مگر نامکمّل دائرہ جس سرے سے مل کر تکمیل پائے گا اسے آپ ابتدا تو کہہ سکتے ہیں عدم نہیں -کیا خیال ہے؟

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

خوب -<پھر> کچھ بھرتی سا لگا -
--------
ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا
خوب -
خبر کوئی کردے دلِ بے خبر کو
قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا

دوسرا مصرع ادائے مطلب میں کچھ کمزور محسوس ہوا -یعنی کہنا یوں چاہیے تھا کہ زندگی کو کچھ پتہ نہیں کہ قضا کب اور کہاں آئے گی آپ نے یوں کہہ دیا کہ قضا کو ہی زندگی کا پتا نہیں -

کیا زندگی نے اُنہیں بے دم آخر
جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا
کیا کہنے -

وجود آدمی ہے ، تو ہے زندگی عکس!
کرے آدمی کیوں گلہ زندگی کا

واہ -

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا

معنوی اعتبار سے تو شعر کچھ کچھ واضح ہے -منطقی اعتبار سے سوال اٹھا یا جا سکتا ہے -

ظہیر بھائی میرے خیال سے ردیف آپ سے نبھی نہیں -:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
السلام علیکم ظہیر بھائی !

آپ کی غزل کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کروں گا - اس تبادلہ خیال سے ہمیں آپ سے سیکھنے کو بھی ملے گا اور یوں ادبی محفل میں رونق بھی لگی رہے گی -
ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا

میرے خیال سے وطیرہ کا درست املا <وتیرہ> ہے -مگر اب وطیرہ بھی غلط العام ہو چکا ہے -ریختہ پر بھی اسی املا سے اشعار موجود ہیں-بہر حال فرہنگ آصفیہ میں اور لغت آن لائن میں وتیرہ ہی درج ہے -پھر وتیرہ رکھنا محاورہ جچ نہیں رہا -وتیرہ ہونا ،وتیرہ بنانا یا بنا لینا یا وتیرہ بنا رکھنا وغیرہ محاورے سن رکھے ہیں یہ کچھ غریب سا لگا -اس لنک پر دیکھے جا سکتے ہیں کچھ وتیرہ سے منسلک محاورے -
Urdu Lughat
عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا

<ہے> کی جگہ <جب> کیسا ہے -ویسے شعر مشکل ہے یا یوں سمجھیں مجھے ہی کچھ اشکالات ہیں -ایک تو یہ کہ موت کو عدم کہا گیا -پھر دائرے کو زندگی کہا گیا ہے اور موت سے پہلے پہلے زندگی کو نامکمّل دائرہ- مگر نامکمّل دائرہ جس سرے سے مل کر تکمیل پائے گا اسے آپ ابتدا تو کہہ سکتے ہیں عدم نہیں -کیا خیال ہے؟

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

خوب -<پھر> کچھ بھرتی سا لگا -
--------
ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا
خوب -
خبر کوئی کردے دلِ بے خبر کو
قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا

دوسرا مصرع ادائے مطلب میں کچھ کمزور محسوس ہوا -یعنی کہنا یوں چاہیے تھا کہ زندگی کو کچھ پتہ نہیں کہ قضا کب اور کہاں آئے گی آپ نے یوں کہہ دیا کہ قضا کو ہی زندگی کا پتا نہیں -

کیا زندگی نے اُنہیں بے دم آخر
جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا
کیا کہنے -

وجود آدمی ہے ، تو ہے زندگی عکس!
کرے آدمی کیوں گلہ زندگی کا

واہ -

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا

معنوی اعتبار سے تو شعر کچھ کچھ واضح ہے -منطقی اعتبار سے سوال اٹھا یا جا سکتا ہے -

ظہیر بھائی میرے خیال سے ردیف آپ سے نبھی نہیں -:)

بہت شکریہ! اس قدر توجہ کے لئے ممنون ہوں بھائی ۔ آپ کےتبصرے، اعتراضات اور سوالات سر آنکھوں پر ۔ میں اپنی معروضات پیش کروں گا لیکن پہلے آپ ان دو باتوں کی ذرا اور وضاحت فرمادیجئے تاکہ ان سب نکات پر ایک بار ہی گفتگو ہوجائے ۔

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا

معنوی اعتبار سے تو شعر کچھ کچھ واضح ہے -منطقی اعتبار سے سوال اٹھا یا جا سکتا ہے -

جو منطقی سوال ذہن میں آرہا ہے براہِ کرم اسے لکھ ڈالئے ۔

ظہیر بھائی میرے خیال سے ردیف آپ سے نبھی نہیں -:)

ازراہِ عنایت ان اشعار کی نشاندہی بھی کردیجئے کہ جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ ردیف نبھ نہ سکی۔ یا آپ سمجھتے ہیں کہ پوری غزل کے کسی بھی شعر میں ردیف نہ نبھ سکی ؟ یاسر بھائی اس کی وضاحت کردیجئے۔ پھر میں ان تمام نکات پر بات کرتا ہوں ۔ ان شاء اللہ۔

یاسر شاہ
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم ظہیر بھائی
منطق کے لحاظ سے پھول جتنے دامن میں آتے ہیں دامن تنگ ہوتا ہے-شاعر جب کوئی استعارہ وغیرہ یا معمول سے ہٹ کر بات کرتا ہے تو کوئی منطقی توجیہ پیش کرتا ہے -جیسے اقبال کہتا ہے <ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے> تو شاعرانہ منطقی توجیہ اس مصرع کی یہی ہے کہ نرگس کی شکل آنکھ جیسی ہوتی ہے مگر نور اس میں نہیں ہوتا -پروین شاکر جب کہتی ہے <اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی >تو منطقی توجیہ یہی ہے کہ خوشبو پھیلتی ہے اور پھیل کر اپنے پھول کی کوبکو پہچان کراتی ہے -غالب نے معمول سے ہٹ کر بات کی کہ <کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے > تو پہلے مصرع میں یہی توجیہ بیان کی کہ جذبۂ دل کی تاثیرالٹی ہے -آپ کے شعر میں بھی ذوق ایسی ہی کوئی توجیہ چاہتا ہے -

ردیف نہ نبھنے سے میری مراد یہی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے ہر شعر کے آخر میں <زندگی کا > کے التزام نے ایک کہنہ مشق و عمدہ شاعر کے لئے مشکل کھڑی کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ خلاف معمول غزل میں خاص لطف نہیں -:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا
میرے خیال سے وطیرہ کا درست املا <وتیرہ> ہے -مگر اب وطیرہ بھی غلط العام ہو چکا ہے -ریختہ پر بھی اسی املا سے اشعار موجود ہیں-بہر حال فرہنگ آصفیہ میں اور لغت آن لائن میں وتیرہ ہی درج ہے -
درست کہا ۔ میں بھی ساری عمر اسے وتیرہ ہی لکھتا آیا ہوں ۔ یہ دیکھئے میری ایک پرانی غزل کا ربط۔ لیکن اب وطیرہ کو ایک نیا طوطا سمجھئے ۔ :) میں پچھلے ایک دو سالوں سے کوشش کررہا ہوں کہ املا نامہ کی سفارشات پر عمل کروں اور متنازعہ الفاظ کو ایک معیاری املا سے لکھنے کی کوشش کروں ۔ املا کمیٹی کا کہنا ہے کہ املا کے سلسلے میں چلن یا رواج کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔ سو اب میں بھی وطیرہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں لوگ وتیرہ کو بالکل ہی بھول بھال جائیں ۔ :):):)

پھر وتیرہ رکھنا محاورہ جچ نہیں رہا -وتیرہ ہونا ،وتیرہ بنانا یا بنا لینا یا وتیرہ بنا رکھنا وغیرہ محاورے سن رکھے ہیں یہ کچھ غریب سا لگا -اس لنک پر دیکھے جا سکتے ہیں کچھ وتیرہ سے منسلک محاورے -

یاسر بھائی ، وطیرہ کے استعمال سے میں بخوبی واقف ہوں ۔ تاہم لغت کا ربط دینے کا شکریہ ۔ اس شعر میں وطیرہ بنا رکھنا ہی کا محل ہے لیکن اسے میرا عجزِ کلام سمجھئے کہ وطیرہ رکھنا نظم ہوسکا ۔ ویسے تو یہاں بات ختم ہوجاتی ہے ۔ لیکن اس کا دفاع کرنا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ زبان ایک جیتی جاگتی شے ہے ۔ وقت کے ساتھ ذرا ذرا سی بدلتی رہتی ہے ۔ زبان میں کچھ کچھ تبدیلیاں آنا ایک ناگزیر عمل ہے ۔ فرہنگ آصفیہ اب ایک سو پچیس سال اور نوراللغات سو سال کی عمروں کو پہنچیں ۔ فیروزاللغات بھی ایک سو بیس سال کی ہوگئی ۔ جو محاورے اُن وقتوں میں مروج تھے ان میں سے کچھ بدل بھی گئے ہیں اور بہت سارے نئے محاورے بھی ایجاد ہوگئے ہیں ۔ مثلاً ’’مہارت رکھنا‘‘ ایک عام سا روز مرہ ہے اور تحریر و تقریر میں بلا تکلف استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن یہ آپ کو فرہنگ اور نوراللغات اور فیروزاللغات میں نہیں ملے گا ۔ جدید لغات میں البتہ مل جائے گا ۔ سو شاعر کو اتنی سی آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ شعری ضرورت کے تحت ایک حد میں رہتے ہوئے لسانی قواعد کو مجروح کئے بغیر کسی لفظ یا محاورے کے ساتھ کھیل سکے ۔ یعنی کسی لفظ کو اُسی قبیل کے دیگر الفاظ پر قیاس کرتے ہوئے کہیں کہیں شعری ضرورت کے تحت ایک خاص انداز سے استعمال کرنا اتنا معیوب نہیں ۔ اور اسی طرح زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ ایک مشہور شعر اس وقت یاد آرہا ہے۔
پتھرو ! آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے​
اب اصل محاورہ تو خدا بنانا اور خدا بنا رکھنا ہے ۔ لیکن شعری پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔ چنانچہ محاورے سے انحراف کے باوجود یہ شعر برا نہیں ہے ۔ اپنے مفہوم کے ابلاغ میں کامیاب ہے ۔ اب اس سے زیادہ لکھوں گا تو ایک اور نئی بحث شروع ہوجائے گی ۔ اور اُس کے لئے میں کہاں سے وقت نکالوں گا ۔ :)
سو اس بات کو یہاں پر ختم کرتا ہوں کہ وطیرہ کے اس طرح استعمال کو میری عاجز کلامی سمجھئے ۔

عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا
<ہے> کی جگہ <جب> کیسا ہے -ویسے شعر مشکل ہے یا یوں سمجھیں مجھے ہی کچھ اشکالات ہیں -ایک تو یہ کہ موت کو عدم کہا گیا -پھر دائرے کو زندگی کہا گیا ہے اور موت سے پہلے پہلے زندگی کو نامکمّل دائرہ- مگر نامکمّل دائرہ جس سرے سے مل کر تکمیل پائے گا اسے آپ ابتدا تو کہہ سکتے ہیں عدم نہیں -کیا خیال ہے؟

یاسر میاں ، آپ یہاں صرف موت ہی کو عدم کیوںسمجھ رہے ہیں ۔ زندگی کے وجود میں آنے سے پہلے کا عرصہ بھی تو عدم کہلاتا ہے ۔ یعنی زندگی عدم سے وجود میں آئی اور موت کے بعد پھر عدم ہوگئی ۔ سو اس طرح زندگی اپنا سفر پورا کرکے جہاں سے چلی تھی وہیں پہنچ گئی ۔ یعنی دائرہ مکمل ہوگیا ۔ یہ تو بالکل سیدھا سا شعر ہے ۔

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

خوب -<پھر> کچھ بھرتی سا لگا -

’’پھر‘‘ واضح طور پر بھرتی کا ہے ۔ بعض اوقات شاعر کے لئے بھرتی کا لفظ رکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ مصرع کی متبادل صورت نسبتاً زیادہ قبیح ہوتی ہے ۔ یہاں پہلے مصرع کی ابتدائی صورت یہ تھی:
کھلی کی کھلی رہ گئیں دونوں آنکھیں​
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں آنکھیں کہنا خلافِ محاورہ ہے ۔ اور ایسا کہنے سے جو لفظی تصویر ذہن میں بنتی ہے وہ ناگوار بھی ہے ۔ سو اس کے مقابلے میں بھرتی کا ایک لفظ رکھنا مجھے زیادہ بہتر محسوس ہوا ۔ شعری تخلیق کے دوران شاعر کو ایسے پیچیدہ فیصلے اپنی صوابدید اور ذوق کے مطابق کرنے ہی ہوتے ہیں ۔

ر کوئی کردے دلِ بے خبر کو
قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا

دوسرا مصرع ادائے مطلب میں کچھ کمزور محسوس ہوا -یعنی کہنا یوں چاہیے تھا کہ زندگی کو کچھ پتہ نہیں کہ قضا کب اور کہاں آئے گی آپ نے یوں کہہ دیا کہ قضا کو ہی زندگی کا پتا نہیں -
یہ تبصرہ بھی باعثِ حیرت ہوا ۔ یاسر بھائی ، اس شعر کا یہ مطلب کیسے ہوگیا ؟! پتا پوچھنا ایک مستند اور عام محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تلاش کرنا (حوالے کے لئے کوئی بھی لغت دیکھ لیجئے) ۔ سو یہ کہنا کہ موت زندگی کی تلاش میں ہے ایک عام سی بات ہے ۔ میری طرح آپ نے بھی یہ بات مذہبی اور ادبی نثر میں متعدد بار پڑھی ہوگی۔ سنی ہوگی ۔ یہ پیرایہء اظہار بڑا لطیف ہے اور سننے والے پر ایک نقش چھوڑتا ہے ۔ مثال کے لئے فی الحال آپ شان الحق حقی صاحب کا یہ شعر دیکھئے کہ مشہور ماہرِ لسانیات اور لغت نویس تھے:
بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی​
سو میرے شعر کا سیدھا سا لفظی مطلب یہ ہوا کہ اے بے خبر زندگی غفلت سے باز آجا ، موت تیری تلاش میں ہے ۔ اب اگر آپ سطحی نظر سےدیکھیں گے اور کہیں گے کہ ملک الموت کو تو معلوم ہے کہ کس کی روح قبض کرنی ہے اور کہاں کرنی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ تو بہت مشکل ہوجائے گی ۔ یہ شاعرانہ اندازہے ۔ ا س طرح کا پیرایہء اظہار ہی تو شاعری کو عام تحریر سے ممتاز کرتا ہے ۔ شاعری میں عموماً لفظوں کے ( Concrete) یعنی جامد اور لغوی پہلو کے بجائے (abstract) یعنی تجریدی پہلو مراد لیا جاتا ہے ۔ اگر شاعری کو اس طرح سطحی اور منطقی انداز سے دیکھا جائے گا تو پھر اردو کے اچھے خاصے اشعار قلمزد کرنے پڑیں گے ۔ ایک مشہور شعر دیکھئے کہ جو ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگیا ہے:
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں​
اب یہاں یہ اعترض اٹھایا جاسکتا ہے کہ پتھر کے بت خود تو بھگوان نہیں بنتے بلکہ انسان انہیں بھگوان بناتے ہیں ۔ لیکن شعر کی خوبصورتی ہی اس پیرایہء اظہار میں ہے اور اسی طرح کہنے کی وجہ سے یہ شعر کم ظرف ، احسان فراموش آدمی پر منطبق ہوتا ہے ۔

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا
معنوی اعتبار سے تو شعر کچھ کچھ واضح ہے -منطقی اعتبار سے سوال اٹھا یا جا سکتا ہے -
منطق کے لحاظ سے پھول جتنے دامن میں آتے ہیں دامن تنگ ہوتا ہے-شاعر جب کوئی استعارہ وغیرہ یا معمول سے ہٹ کر بات کرتا ہے تو کوئی منطقی توجیہ پیش کرتا ہے -جیسے اقبال کہتا ہے <ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے> تو شاعرانہ منطقی توجیہ اس مصرع کی یہی ہے کہ نرگس کی شکل آنکھ جیسی ہوتی ہے مگر نور اس میں نہیں ہوتا -پروین شاکر جب کہتی ہے <اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی >تو منطقی توجیہ یہی ہے کہ خوشبو پھیلتی ہے اور پھیل کر اپنے پھول کی کوبکو پہچان کراتی ہے -غالب نے معمول سے ہٹ کر بات کی کہ <کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے > تو پہلے مصرع میں یہی توجیہ بیان کی کہ جذبۂ دل کی تاثیرالٹی ہے -آپ کے شعر میں بھی ذوق ایسی ہی کوئی توجیہ چاہتا ہے -

منطقی توجیہہ تو شعر میں موجود ہے ۔ صرف شعر فہمی کی بات ہے ۔ پھول اور دامن کے استعاروں کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ جملے دیکھئے :
۔ اُس کی زندگی کا دامن کانٹوں سے پُر تھا ۔ (یعنی اس کی زندگی میں درد و غم اور مشکلات ہی تھیں)
۔ اُس کی زندگی کے دامن میں صرف پھول ہی پھول تھے ۔( یعنی اس کی زندگی میں محبت اور خوشیاں تھیں)
یہ استعارے اردو نثر ی ادب میں عام پائے جاتے ہیں ۔ یہ شعر انہی استعاروں کےسہارے لکھا گیا ہے ۔ یعنی زندگی کے دامن میں جتنی محبتیں اور خوشیاں ڈالی جائیں گی وہ اتنا ہی کشادہ ہوگا ۔ اب تنگ دامنی اور کشادہ دامنی کا مطلب بتانے کی یہاں شاید ضرورت نہیں ہے ۔
ردیف نہ نبھنے سے میری مراد یہی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے ہر شعر کے آخر میں <زندگی کا > کے التزام نے ایک کہنہ مشق و عمدہ شاعر کے لئے مشکل کھڑی کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ خلاف معمول غزل میں خاص لطف نہیں -

آپ کا کہا سر آنکھوں پر۔ یاسر بھائی ، شعر کی پسند یا ناپسند تو اپنے اپنے ذوق کی بات ہے ۔ ہر غزل تو میر اور غالب کی بھی اچھی نہیں ۔ تو پھر میں کس کھیت کی مولی ہوں ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہماری کوئی اور غزل پسند آجائے ۔ ایک آدھ دن میں پھر ٹائپ کرنے بیٹھتا ہوں اور لگاتا ہوں کوئی اور کلام ۔ :):):)
یاسر شاہ
 

یاسر شاہ

محفلین
درست کہا ۔ میں بھی ساری عمر اسے وتیرہ ہی لکھتا آیا ہوں ۔ یہ دیکھئے میری ایک پرانی غزل کا ربط۔ لیکن اب وطیرہ کو ایک نیا طوطا سمجھئے ۔ :) میں پچھلے ایک دو سالوں سے کوشش کررہا ہوں کہ املا نامہ کی سفارشات پر عمل کروں اور متنازعہ الفاظ کو ایک معیاری املا سے لکھنے کی کوشش کروں ۔ املا کمیٹی کا کہنا ہے کہ املا کے سلسلے میں چلن یا رواج کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔ سو اب میں بھی وطیرہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں لوگ وتیرہ کو بالکل ہی بھول بھال جائیں ۔ :):):)



یاسر بھائی ، وطیرہ کے استعمال سے میں بخوبی واقف ہوں ۔ تاہم لغت کا ربط دینے کا شکریہ ۔ اس شعر میں وطیرہ بنا رکھنا ہی کا محل ہے لیکن اسے میرا عجزِ کلام سمجھئے کہ وطیرہ رکھنا نظم ہوسکا ۔ ویسے تو یہاں بات ختم ہوجاتی ہے ۔ لیکن اس کا دفاع کرنا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ زبان ایک جیتی جاگتی شے ہے ۔ وقت کے ساتھ ذرا ذرا سی بدلتی رہتی ہے ۔ زبان میں کچھ کچھ تبدیلیاں آنا ایک ناگزیر عمل ہے ۔ فرہنگ آصفیہ اب ایک سو پچیس سال اور نوراللغات سو سال کی عمروں کو پہنچیں ۔ فیروزاللغات بھی ایک سو بیس سال کی ہوگئی ۔ جو محاورے اُن وقتوں میں مروج تھے ان میں سے کچھ بدل بھی گئے ہیں اور بہت سارے نئے محاورے بھی ایجاد ہوگئے ہیں ۔ مثلاً ’’مہارت رکھنا‘‘ ایک عام سا روز مرہ ہے اور تحریر و تقریر میں بلا تکلف استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن یہ آپ کو فرہنگ اور نوراللغات اور فیروزاللغات میں نہیں ملے گا ۔ جدید لغات میں البتہ مل جائے گا ۔ سو شاعر کو اتنی سی آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ شعری ضرورت کے تحت ایک حد میں رہتے ہوئے لسانی قواعد کو مجروح کئے بغیر کسی لفظ یا محاورے کے ساتھ کھیل سکے ۔ یعنی کسی لفظ کو اُسی قبیل کے دیگر الفاظ پر قیاس کرتے ہوئے کہیں کہیں شعری ضرورت کے تحت ایک خاص انداز سے استعمال کرنا اتنا معیوب نہیں ۔ اور اسی طرح زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ ایک مشہور شعر اس وقت یاد آرہا ہے۔
پتھرو ! آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے​
اب اصل محاورہ تو خدا بنانا اور خدا بنا رکھنا ہے ۔ لیکن شعری پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا ۔ چنانچہ محاورے سے انحراف کے باوجود یہ شعر برا نہیں ہے ۔ اپنے مفہوم کے ابلاغ میں کامیاب ہے ۔ اب اس سے زیادہ لکھوں گا تو ایک اور نئی بحث شروع ہوجائے گی ۔ اور اُس کے لئے میں کہاں سے وقت نکالوں گا ۔ :)
سو اس بات کو یہاں پر ختم کرتا ہوں کہ وطیرہ کے اس طرح استعمال کو میری عاجز کلامی سمجھئے ۔



یاسر میاں ، آپ یہاں صرف موت ہی کو عدم کیوںسمجھ رہے ہیں ۔ زندگی کے وجود میں آنے سے پہلے کا عرصہ بھی تو عدم کہلاتا ہے ۔ یعنی زندگی عدم سے وجود میں آئی اور موت کے بعد پھر عدم ہوگئی ۔ سو اس طرح زندگی اپنا سفر پورا کرکے جہاں سے چلی تھی وہیں پہنچ گئی ۔ یعنی دائرہ مکمل ہوگیا ۔ یہ تو بالکل سیدھا سا شعر ہے ۔



’’پھر‘‘ واضح طور پر بھرتی کا ہے ۔ بعض اوقات شاعر کے لئے بھرتی کا لفظ رکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ مصرع کی متبادل صورت نسبتاً زیادہ قبیح ہوتی ہے ۔ یہاں پہلے مصرع کی ابتدائی صورت یہ تھی:
کھلی کی کھلی رہ گئیں دونوں آنکھیں​
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں آنکھیں کہنا خلافِ محاورہ ہے ۔ اور ایسا کہنے سے جو لفظی تصویر ذہن میں بنتی ہے وہ ناگوار بھی ہے ۔ سو اس کے مقابلے میں بھرتی کا ایک لفظ رکھنا مجھے زیادہ بہتر محسوس ہوا ۔ شعری تخلیق کے دوران شاعر کو ایسے پیچیدہ فیصلے اپنی صوابدید اور ذوق کے مطابق کرنے ہی ہوتے ہیں ۔


یہ تبصرہ بھی باعثِ حیرت ہوا ۔ یاسر بھائی ، اس شعر کا یہ مطلب کیسے ہوگیا ؟! پتا پوچھنا ایک مستند اور عام محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تلاش کرنا (حوالے کے لئے کوئی بھی لغت دیکھ لیجئے) ۔ سو یہ کہنا کہ موت زندگی کی تلاش میں ہے ایک عام سی بات ہے ۔ میری طرح آپ نے بھی یہ بات مذہبی اور ادبی نثر میں متعدد بار پڑھی ہوگی۔ سنی ہوگی ۔ یہ پیرایہء اظہار بڑا لطیف ہے اور سننے والے پر ایک نقش چھوڑتا ہے ۔ مثال کے لئے فی الحال آپ شان الحق حقی صاحب کا یہ شعر دیکھئے کہ مشہور ماہرِ لسانیات اور لغت نویس تھے:
بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی​
سو میرے شعر کا سیدھا سا لفظی مطلب یہ ہوا کہ اے بے خبر زندگی غفلت سے باز آجا ، موت تیری تلاش میں ہے ۔ اب اگر آپ سطحی نظر سےدیکھیں گے اور کہیں گے کہ ملک الموت کو تو معلوم ہے کہ کس کی روح قبض کرنی ہے اور کہاں کرنی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ تو بہت مشکل ہوجائے گی ۔ یہ شاعرانہ اندازہے ۔ ا س طرح کا پیرایہء اظہار ہی تو شاعری کو عام تحریر سے ممتاز کرتا ہے ۔ شاعری میں عموماً لفظوں کے ( Concrete) یعنی جامد اور لغوی پہلو کے بجائے (abstract) یعنی تجریدی پہلو مراد لیا جاتا ہے ۔ اگر شاعری کو اس طرح سطحی اور منطقی انداز سے دیکھا جائے گا تو پھر اردو کے اچھے خاصے اشعار قلمزد کرنے پڑیں گے ۔ ایک مشہور شعر دیکھئے کہ جو ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگیا ہے:
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں​
اب یہاں یہ اعترض اٹھایا جاسکتا ہے کہ پتھر کے بت خود تو بھگوان نہیں بنتے بلکہ انسان انہیں بھگوان بناتے ہیں ۔ لیکن شعر کی خوبصورتی ہی اس پیرایہء اظہار میں ہے اور اسی طرح کہنے کی وجہ سے یہ شعر کم ظرف ، احسان فراموش آدمی پر منطبق ہوتا ہے ۔




منطقی توجیہہ تو شعر میں موجود ہے ۔ صرف شعر فہمی کی بات ہے ۔ پھول اور دامن کے استعاروں کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ جملے دیکھئے :
۔ اُس کی زندگی کا دامن کانٹوں سے پُر تھا ۔ (یعنی اس کی زندگی میں درد و غم اور مشکلات ہی تھیں)
۔ اُس کی زندگی کے دامن میں صرف پھول ہی پھول تھے ۔( یعنی اس کی زندگی میں محبت اور خوشیاں تھیں)
یہ استعارے اردو نثر ی ادب میں عام پائے جاتے ہیں ۔ یہ شعر انہی استعاروں کےسہارے لکھا گیا ہے ۔ یعنی زندگی کے دامن میں جتنی محبتیں اور خوشیاں ڈالی جائیں گی وہ اتنا ہی کشادہ ہوگا ۔ اب تنگ دامنی اور کشادہ دامنی کا مطلب بتانے کی یہاں شاید ضرورت نہیں ہے ۔


آپ کا کہا سر آنکھوں پر۔ یاسر بھائی ، شعر کی پسند یا ناپسند تو اپنے اپنے ذوق کی بات ہے ۔ ہر غزل تو میر اور غالب کی بھی اچھی نہیں ۔ تو پھر میں کس کھیت کی مولی ہوں ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہماری کوئی اور غزل پسند آجائے ۔ ایک آدھ دن میں پھر ٹائپ کرنے بیٹھتا ہوں اور لگاتا ہوں کوئی اور کلام ۔ :):):)
یاسر شاہ
شکریہ ظہیر بھائی تفصیلی خط کا -نئی نئی باتیں پتا چل رہی ہیں جو محض خوشامد سے نہ معلوم ہوتیں - :)
 
ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔

ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا

عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا

خبر کوئی کردے دلِ بے خبر کو
قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا

کیا زندگی نے اُنہیں بے دم آخر
جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا

وجود آدمی ہے ، تو ہے زندگی عکس!
کرے آدمی کیوں گلہ زندگی کا

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2018
خوبصورت!
 

سین خے

محفلین
ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔

ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا

عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا

یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا

ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی کا

خبر کوئی کردے دلِ بے خبر کو
قضا پوچھتی ہے پتہ زندگی کا

کیا زندگی نے اُنہیں بے دم آخر
جو دم بھر رہے تھے بڑا زندگی کا

وجود آدمی ہے ، تو ہے زندگی عکس!
کرے آدمی کیوں گلہ زندگی کا

بھرے پھول جتنے ظہیؔر اُس قدر ہی
یہ دامن کشادہ ہوا زندگی کا

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2018

لاجواب :) کیا ہی خوبصورتی سے زندگی کی حقیقت واضح کی ہے۔ ہم سے شئیر کرنے کے لئے بہت شکریہ :)
 
شکریہ! محبت ہے خلیل بھائی آپ کی !
اور یہ آج کل آپ ادب و شعر کے منظرنامے سے غائب کیوں ہیں ؟! کیا کرکٹ کی لڑی میں شامل ہوگئے آپ؟:):):)
کچھ تازہ بتازہ ہونا چاہیے ۔
بس ظہیر بھائی شاید ادبی قبض کی شکایت ہے۔ بے چینی بہت ہے لیکن ایک لفظ نہیں لکھا جارہا۔

خوبصورت ترین غزلیں و نظمیں پڑھ کر دل میں بے حد پسند کرتے ہیں لیکن اپنے دل کی بات کا اظہار کیسے کریں جبکہ لفظ کھوگئے ہیں۔ بس دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بس ظہیر بھائی شاید ادبی قبض کی شکایت ہے۔ بے چینی بہت ہے لیکن ایک لفظ نہیں لکھا جارہا۔

خوبصورت ترین غزلیں و نظمیں پڑھ کر دل میں بے حد پسند کرتے ہیں لیکن اپنے دل کی بات کا اظہار کیسے کریں جبکہ لفظ کھوگئے ہیں۔ بس دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے خلیل بھائی ۔ ہر لکھاری پر کبھی کبھی ایسا قلمی بانجھ پن کا دور آتا ہےاور خود بخود چلا بھی جاتا ہے ۔ کچھ نہ کچھ کرتے رہیں ۔ انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کی طرف دھیان دے کر دیکھیں ۔ بعض اوقات اس سے بھی تحریک مل جاتی ہے ۔ یوں بھی کرسکتے ہیں کہ کچھ دن کے لئے گوشہ نشین ہوجائیں اور اخبار ٹی وی وغیرہ سے پرہیز کریں ۔ حالاتِ حاضرہ کو گولی ماریں اور کچھ دن soul searching میں گزاریں ۔
 
Top