سید عمران

محفلین
صبح کے آٹھ بجے تھے۔ ہم خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ نجانے فون کی گھنٹی کب سے بج رہی تھی۔ آہستہ آہستہ دماغ جاگنا شروع ہوا۔ کانوں میں گھنٹی کی آواز آنے لگی۔ مگر بستر چھوڑنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ تنگ آکر نیم وا آنکھوں سے بستر چھوڑا، آدھے سوتے آدھے جاگتے ٹیلی فون تک پہنچے۔ ریسیور اٹھایا ۔ کسی کی آواز سنائی دی :
’ ’ہیلو۔‘‘
’’جی، ہیلو۔‘‘
فون پر گڑیا تھی۔ ہماری آواز سنتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی:
’’امی کا انتقال ہوگیا !!!‘‘
’’ہیں۔ کیا کہا؟؟؟‘‘ ہم نے بوکھلا کر تیز آواز میں پوچھا۔ ساری نیند اڑ گئی۔ ہمیں پریشان دیکھ کر وہ زور زور سے رونے لگی۔ ہچکی بندھ گئی۔ کچھ بولا نہیں گیا۔ اور ریسیور رکھ دیا۔
ہم وہیں کرسی پر بیٹھ گئے۔ دماغ سائیں سائیں کرنے لگا ۔ تصور میں نعمت خالہ کا بھاری بھرکم ہاتھ گھوم گیا۔ اف اتنا بھاری جنازہ کیسے اٹھائیں گے۔ ہمیں اپنی پڑگئی۔ لاحول ولا قوۃ۔ ہم نے سر جھٹک کر اس بے ہودہ خیال کو ہٹایا۔ اب دو فکریں تھیں۔ ایک یہ کہ کزنز پر کیا گزر ر ہی ہوگی۔ دوسری یہ کہ نانی اور اماں کو کیسے بتائیں۔ نانی اس بڑھاپے میں جوان بیٹی کا صدمہ کیسے برداشت کریں گی۔
نیند کا خمار اتر چکا تھا۔ تھوڑے حواس بحال ہوئے تو خیال آیا ناشتہ کرلینا چاہیے۔ ورنہ پھر کھانے پینے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس کمینے خیال کو فوراً عملی جامہ پہنایا۔ جلدی سے ناشتہ تیار کیا، اطمینان سے کھایا اور اماں کو جگانے ان کے بیڈ روم پہنچ گئے۔ یوں بے وقت اٹھائے جانے پر اماں کے تفتیشی مراحل بھی طے کرنے تھے۔ اماں کو اٹھا کر ان کے لیے ناشتہ بنایا۔ جب وہ ڈائننگ ٹیبل پر آئیں تو ناشتہ تیار تھا۔ یہ شاید پہلا موقع تھا جو اماں کے لیے ناشتہ تیار تھا۔ وہ تشویشی نگاہوں سے گھورنے لگیں:
’’ میرے پاس فضول فرمائشوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ اماں سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے ناگواری سے بولیں۔
’’ہمیں پیسے نہیں چاہئیں۔‘‘
’’ اس لیپا پوتی کی ضرورت کیا پیش آگئی؟ کہیں مٹر گشتی کا پروگرام بنالیا؟‘‘ اماں ہمارے سیر سپاٹوں سے تنگ تھیں۔
’’ہم کہیں نہیں جارہے۔‘‘
’’پھر یہ سارا گھڑاک کیوں پھیلایا؟‘‘ اماں کا اشارہ بے تحاشہ پھیلے ہوئے کچن کی طرف تھا۔ مجال ہے جو ہماری بے لوث خدمت سے خوش ہوجائیں۔
اماں نے ناشتہ کرلیا تو ہم نے جی کڑا کرکے بتانا شروع کیا:
’’گڑیا کا فون تھا۔ نعمت خالہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔‘‘ ہمارا ارادہ تھا آہستہ آہستہ بتائیں۔ ایک دم شاک دینا مناسب نہیں۔
’’اس کو کیا ہوا۔ بالکل ہٹی کٹی ہے۔ بلکہ آج تو قدسیہ آپا کے جانے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’اب بھول جائیں وہاں جانے کو۔‘‘
’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔‘‘ مجال ہے جو اماں کبھی صدمہ جیسی کیفیت سے دوچار ہوجائیں۔اماں کے مضبوط اعصاب دیکھ کر ہم نے مزید ڈرامہ بازی بند کردی اور سب کچھ صاف صاف بتادیا۔
’’تمہیں یقین ہے فون پر گڑیا ہی تھی؟‘‘ اماں کا شک ہمارا یقین ڈگمگانے لگا۔
’’رو رہی تھی۔ پر آواز اسی کی لگی۔‘‘
’’ہائے۔ امی جان کو کیسے بتائیں گے۔‘‘ اماں کو نعمت خالہ سے زیادہ نانی کی فکر لگ گئی۔
’’فون ملاؤں نانی کو۔‘‘ ہم نے پھرتی دکھانی چاہی مگر روک دیا گیا۔
’’ٹھہرو۔ پہلے نعمت خالہ کے فون کرکے تفصیل پوچھو۔ انہیں کیا ہو گیا تھا۔ انتقال کی وجہ کیا بنی؟‘‘
ہم نے دھڑکتے دل اور لرزتے ہاتھوں سے فون ملایا۔ بھاری بھرکم جنازے کا بوجھ اٹھانے کا خوف پھر تصور میں آدھمکا۔ ہم نے سر جھٹک دیا۔ جلد ہی دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا۔
’’ہیلو۔‘‘ آواز نعمت خالہ کی تھی۔ ہمیں ایک زور دار چکر آیا۔ کانوں پر یقین کرنا مشکل تھا۔
’’ہیں، آپ مری نہیں ؟‘‘ حیرت اور صدمہ ہمارے حواس پر غالب تھا۔
’’کیا بکواس ہے۔‘‘ نعمت خالہ غصہ سے چیخیں۔
اماں نے ریسیور چھین لیا۔
’’ہائیں، تم زندہ ہو؟‘‘ اماں کی حیرت بھی بجا تھی۔ ہماری خبر کی رو سے نعمت خالہ کو زندہ نہیں بچنا چاہیے تھا۔ ہم نے کان ریسیور سے لگادئیے۔
’’ باجی، تم لوگ ہوش و حواس میں تو ہو۔ کیوں صبح صبح مجھے مارنے پر تل گئے۔‘‘ اماں کے ہوش و حواس پہلے نہیں تو اب ضرور گم تھے۔ نعمت خالہ کو کیا جواب دیتیں۔ فوراً فون رکھ دیا۔
’’بدتمیز، کس کو مار دیا۔‘‘ اماں سر پکڑے بیٹھی تھیں۔
ادھر نعمت خالہ بھی بے چین تھیں۔ کوئی انہیں اجتماعی طور پر مار دے اور وہ مطمئن بیٹھی رہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ فوراً فون گھمایا۔ اماں نے اٹھالیا۔ چھوٹتے ہی کہا:
’’برا نہ ماننا۔ صبح ہی صبح کسی کا فون آیا تھا کہ امی کا انتقال ہوگیا ۔ آواز گڑیا کی لگی اسی لیے تم پر شک گیا۔‘‘
نعمت خالہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولیں :
’’بھابھی کی امی بیمار تھیں کہیں وہی نہ ہوں۔‘‘
اماں نے جھٹ چھوٹی ممانی کے گھر فون گھمایا۔ انہوں نے ہی اٹھایا۔ رو رہی تھیں۔ اماں سمجھ گئیں یہی جائے وقوعہ ہے۔ انہیں تسلی دی۔ آنے کا وعدہ کیا۔ اور ہمیں صرف گھورنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ماں ہونے کے کئی ناجائز فوائد بھی حاصل کیے۔ہم آئندہ کئی روز اپنی چوٹیں سہلاتے رہے۔ابھی تو نعمت خالہ سے بھی دو دو ہاتھ ہونے باقی ہیں۔

ہمارے تصور میں ان کا بھاری بھرکم ہاتھ گھومنے لگا!!!
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
صبح کے آٹھ بجے تھے۔ ہم خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ نجانے فون کی گھنٹی کب سے بج رہی تھی۔ آہستہ آہستہ دماغ جاگنا شروع ہوا۔ کانوں میں گھنٹی کی آواز آنے لگی۔ مگر بستر چھوڑنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ تنگ آکر نیم وا آنکھوں سے بستر چھوڑا، آدھے سوتے آدھے جاگتے ٹیلی فون تک پہنچے۔ ریسیور اٹھایا ۔ کسی کی آواز سنائی دی :
’ ’ہیلو۔‘‘
’’جی، ہیلو۔‘‘
فون پر گڑیا تھی۔ ہماری آواز سنتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی:
’’امی کا انتقال ہوگیا !!!‘‘
’’ہیں۔ کیا کہا؟؟؟‘‘ ہم نے بوکھلا کر تیز آواز میں پوچھا۔ ساری نیند اڑ گئی۔ ہمیں پریشان دیکھ کر وہ زور زور سے رونے لگی۔ ہچکی بندھ گئی۔ کچھ بولا نہیں گیا۔ اور ریسیور رکھ دیا۔
ہم وہیں کرسی پر بیٹھ گئے۔ دماغ سائیں سائیں کرنے لگا ۔ تصور میں نعمت خالہ کا بھاری بھرکم ہاتھ گھوم گیا۔ اف اتنا بھاری جنازہ کیسے اٹھائیں گے۔ ہمیں اپنی پڑگئی۔ لاحول ولا قوۃ۔ ہم نے سر جھٹک کر اس بے ہودہ خیال کو ہٹایا۔ اب دو فکریں تھیں۔ ایک یہ کہ کزنز پر کیا گزر ر ہی ہوگی۔ دوسری یہ کہ نانی اور اماں کو کیسے بتائیں۔ نانی اس بڑھاپے میں جوان بیٹی کا صدمہ کیسے برداشت کریں گی۔
نیند کا خمار اتر چکا تھا۔ تھوڑے حواس بحال ہوئے تو خیال آیا ناشتہ کرلینا چاہیے۔ ورنہ پھر کھانے پینے کا موقع نہیں ملے گا۔ اس کمینے خیال کو فوراً عملی جامہ پہنایا۔ جلدی سے ناشتہ تیار کیا، اطمینان سے کھایا اور اماں کو جگانے ان کے بیڈ روم پہنچ گئے۔ یوں بے وقت اٹھائے جانے پر اماں کے تفتیشی مراحل بھی طے کرنے تھے۔ اماں کو اٹھا کر ان کے لیے ناشتہ بنایا۔ جب وہ ڈائننگ ٹیبل پر آئیں تو ناشتہ تیار تھا۔ یہ شاید پہلا موقع تھا جو اماں کے لیے ناشتہ تیار تھا۔ وہ تشویشی نگاہوں سے گھورنے لگیں:
’’ میرے پاس فضول فرمائشوں کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ اماں سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے ناگواری سے بولیں۔
’’ہمیں پیسے نہیں چاہئیں۔‘‘
’’ اس لیپا پوتی کی ضرورت کیا پیش آگئی؟ کہیں مٹر گشتی کا پروگرام بنالیا؟‘‘ اماں ہمارے سیر سپاٹوں سے تنگ تھیں۔
’’ہم کہیں نہیں جارہے۔‘‘
’’پھر یہ سارا گھڑاک کیوں پھیلایا؟‘‘ اماں کا اشارہ بے تحاشہ پھیلے ہوئے کچن کی طرف تھا۔ مجال ہے جو ہماری بے لوث خدمت سے خوش ہوجائیں۔
اماں نے ناشتہ کرلیا تو ہم نے جی کڑا کرکے بتانا شروع کیا:
’’گڑیا کا فون تھا۔ نعمت خالہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔‘‘ ہمارا ارادہ تھا آہستہ آہستہ بتائیں۔ ایک دم شاک دینا مناسب نہیں۔
’’اس کو کیا ہوا۔ بالکل ہٹی کٹی ہے۔ بلکہ آج تو قدسیہ آپا کے جانے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’اب بھول جائیں وہاں جانے کو۔‘‘
’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا۔‘‘ مجال ہے جو اماں کبھی صدمہ جیسی کیفیت سے دوچار ہوجائیں۔اماں کے مضبوط اعصاب دیکھ کر ہم نے مزید ڈرامہ بازی بند کردی اور سب کچھ صاف صاف بتادیا۔
’’تمہیں یقین ہے فون پر گڑیا ہی تھی؟‘‘ اماں کا شک ہمارا یقین ڈگمگانے لگا۔
’’رو رہی تھی۔ پر آواز اسی کی لگی۔‘‘
’’ہائے۔ امی جان کو کیسے بتائیں گے۔‘‘ اماں کو نعمت خالہ سے زیادہ نانی کی فکر لگ گئی۔
’’فون ملاؤں نانی کو۔‘‘ ہم نے پھرتی دکھانی چاہی مگر روک دیا گیا۔
’’ٹھہرو۔ پہلے نعمت خالہ کے فون کرکے تفصیل پوچھو۔ انہیں کیا ہو گیا تھا۔ انتقال کی وجہ کیا بنی؟‘‘
ہم نے دھڑکتے دل اور لرزتے ہاتھوں سے فون ملایا۔ بھاری بھرکم جنازے کا بوجھ اٹھانے کا خوف پھر تصور میں آدھمکا۔ ہم نے سر جھٹک دیا۔ جلد ہی دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا۔
’’ہیلو۔‘‘ آواز نعمت خالہ کی تھی۔ ہمیں ایک زور دار چکر آیا۔ کانوں پر یقین کرنا مشکل تھا۔
’’ہیں، آپ مری نہیں ؟‘‘ حیرت اور صدمہ ہمارے حواس پر غالب تھا۔
’’کیا بکواس ہے۔‘‘ نعمت خالہ غصہ سے چیخیں۔
اماں نے ریسیور چھین لیا۔
’’ہائیں، تم زندہ ہو؟‘‘ اماں کی حیرت بھی بجا تھی۔ ہماری خبر کی رو سے نعمت خالہ کو زندہ نہیں بچنا چاہیے تھا۔ ہم نے کان ریسیور سے لگادئیے۔
’’ باجی، تم لوگ ہوش و حواس میں تو ہو۔ کیوں صبح صبح مجھے مارنے پر تل گئے۔‘‘ اماں کے ہوش و حواس پہلے نہیں تو اب ضرور گم تھے۔ نعمت خالہ کو کیا جواب دیتیں۔ فوراً فون رکھ دیا۔
’’بدتمیز، کس کو مار دیا۔‘‘ اماں سر پکڑے بیٹھی تھیں۔
ادھر نعمت خالہ بھی بے چین تھیں۔ کوئی انہیں اجتماعی طور پر مار دے اور وہ مطمئن بیٹھی رہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ فوراً فون گھمایا۔ اماں نے اٹھالیا۔ چھوٹتے ہی کہا:
’’برا نہ ماننا۔ صبح ہی صبح کسی کا فون آیا تھا کہ امی کا انتقال ہوگیا ۔ آواز گڑیا کی لگی اسی لیے تم پر شک گیا۔‘‘
نعمت خالہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولیں :
’’بھابھی کی امی بیمار تھیں کہیں وہی نہ ہوں۔‘‘
اماں نے جھٹ چھوٹی ممانی کے گھر فون گھمایا۔ انہوں نے ہی اٹھایا۔ رو رہی تھیں۔ اماں سمجھ گئیں یہی جائے وقوعہ ہے۔ انہیں تسلی دی۔ آنے کا وعدہ کیا۔ اور ہمیں صرف گھورنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ماں ہونے کے کئی ناجائز فوائد بھی حاصل کیے۔ہم آئندہ کئی روز اپنی چوٹیں سہلاتے رہے۔ابھی تو نعمت خالہ سے بھی دو دو ہاتھ ہونے باقی ہیں۔

ہمارے تصور میں ان کا بھاری بھرکم ہاتھ گھومنے لگا!!!
آپ کے خاندان میں بچوں کے حقوق کا خوب جنازہ نکالا جاتا ہے
 
Top