سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
EA97ZutXoAAk8Ty

EA97ZuuW4AAZtRg

EA97Zu0XoAAuIBU

EA97ZvEXUAMnCXT
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کے مصائب میں مریم نواز کا کردار اور مریم کا مستقبل
04/08/2019 سعدیہ کیانی


”مریم نواز بیٹی ہونے کے باوجود باپ کی مشکلات میں ساتھ کھڑی ہے“
”مشکلات بھی تو اسی نے گھڑی ہیں باپ بچارہ تو جیل بھی اسی لئے گیا کہ جو خاموش رہنے کا معاہدہ ہوا تھا وہ مریم نے اپنی سخت زبان کے استعمال سے ختم کردیا۔ ظاہر ہے دریا میں رہتے مگرمچھ سے کون لڑتا ہے؟ اب بھگتیں“۔

ایسے مکالمے میرے ساتھ ساتھ آپ سب نے بھی سنے ہوں گے۔

اس وقت سیاسی محاذ پر ن لیگ سے مراد صرف مریم نواز ہے۔ اب اگر اس پارٹی کو مریم لیگ کا نام دے دیا جائے تو حرج نہیں کیونکہ اس وقت سیاسی سرگرمیاں سوائے مریم نواز کے کوئی اور کرتا نظر نہیں آتا۔ یقینا مریم نواز کی اس مہم کو ذاتی مقاصد کے حصول کی مہم بھی کہا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ایک بیٹی بھائیوں کی طرح بھاگی نہیں بلکہ اپنے باپ کے ساتھ کھڑی اپنے اور باپ کے لئے کچھ تو کرتی نظر آرہی ہے جبکہ بھائی باپ کے مشکل وقت میں تو کیا کام آتے، ماں کے جنازے کو کندھادینے بھی نہ آئے کہ ان کی جائیداد ضبط ہو جائے گی، ان کو مال و دولت کے جانے کے ساتھ ساتھ سزا ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے۔

گزشتہ دنوں دیکھا کہ مریم نواز نے فریسٹریشن کا شکار ہوکر کچھ غلط ٹیویٹس کردیں۔ بعد میں ڈلیٹ کردینے سے مزید سبکی کا سامنا رہا۔ ایسا ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مریم نواز نے اپنے قد سے بہت اونچی دیوار پھلانگنے کی کوشش کی ہے یہ چوٹیں تو لگنی ہی تھیں۔

گو کہ میں اس وقت کسی بھی ایسے شخص کو سپورٹ نہیں کرتی جو اختیارات رکھنے کے باوجود عوام کو نظر انداز کرتا رہا یا کررہا ہے۔ ارباب اختیار نے اس ملک کے غریبوں کا بھلا کرنا ہوتا تو 72 سال میں کچھ نہ کچھ کر ہی جاتے۔ بس جو آیا اپنے خاندان اور آنے والی نسلوں کے لئے مال جمع کرگیا۔

اس میں صرف سیاستدان نہیں بلکہ وہ جنرلز بھی شمار ہیں جو وردی میں تو حب الوطنی کی قسمیں کھاتے رہے اور ”پاکستان کی قدر کرو“ کے بھاشن دیتے رہے لیکن جب ریٹائر ہوئے تو پاکستان کو بھی اپنی زندگی سے ریٹائر کرکے ایک طرف رکھ دیا اور بیرون ملک جا بسے، بچے تو ان ظالموں نے پہلے ہی سروس کے دوران باہر شفٹ کردیے۔ عالی شان گھر خرید لیا، بیرون ممالک بنکوں میں اپنا پیسہ رکھا لیکن کبھی کسی نے غدار نہ کہا۔ کیوں؟

میری نگاہ میں ہر وہ شخص ملک دشمن ہے، غدار ہے جو اس ملک کا سرمایہ کسی بھی صورت باہر لے گیا۔ جو یہاں رہتے ہوئے باہر پراپرٹی بنا لے اس کا احتساب ضروری ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ایسا ہوگا۔ کوئی نہ کوئی مائی کا لعل ضرور ان سب کا احتساب کرے گا جنہوں نے ذاتی فائدے کی خاطر ملک کو نقصان پہنچایا۔ اب خدا را مائی کے لعل کا مطلب اپنے عمران خان کو نہ لیجیے گا کہ یہ بات محض عمل سے متعلق ہے۔ لعل وہی کہلائے گا جو عملی طور پر احتساب کرے گا جو نہیں کرے گا وہ نونہال کہلائے گا جسے انگلی پکڑ کر چلایا جاتا ہے۔

مریم نواز کی جنگ میں بھائیوں کی عدم موجودگی سے مجھے دکھ ہوتا ہے کہ باپ کو بیٹوں کا سہارا چاہیے ہوتا ہے جو باپ کے بڑھاپے کا بوجھ اٹھا سکیں۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ سارا بوجھ بیٹی کے کندھوں پہ آگرا۔

آج میری دوست کے نوجوان بیٹے، جو ابھی حال ہی میں پاس آؤٹ کرکے باقاعدہ فوجی بن گیا، کو دور ٹریننگ کے لئے بھجوا دیا گیا تو اسے رخصت کرتے ہوئے دل بہت اداس ہوا اور سوچنے لگی کہ بیٹیاں رخصت کرنے سے زیادہ مشکل کام بیٹوں کو رخصت کرنا ہے خصوصا وہ بیٹے جو محاذ پہ جارہے ہوں۔

میں سوچ رہی تھی کہ بیٹیاں تو رخصت ہوکر بھی پاس ہی رہتی ہیں۔ ایک گھر سے دوسرے گھر چلی جاتی ہیں لیکن بیٹے جب گھر سے باہر جاتے ہیں تو ان کا گھر پیچھے رہ جاتا ہے اور سامنے ایک طویل سفر جو انہیں تنہا کاٹنا ہوتا ہے۔ اپنے زور بازو پہ حالات سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، مشکلات سے لڑنا پڑتا ہے۔ وہ حالات سے لڑتے لڑتے اپنے آپ بڑے ہوجاتے ہیں اور وہ بچے نہیں رہتے جنہیں گھروں سے رخصت کیا جاتا ہے۔ مجھے لگا کہ بچے جب ایک بار گھر چھوڑ دیں تو واپس نہیں پلٹتے پھر ان کی جگہ مرد واپس لوٹتے ہیں۔ اور مائیں ان مردوں میں اپنے بچے تلاش کرتی رہتی ہیں لیکن وہاں ان کے بچے کم ہی انہیں ملا کرتے ہیں۔

بس یونہی سوچتی رہی کہ ایک باپ کا سہارا بیٹا ہوتا ہے۔ لیکن نواز شریف کی بدقسمتی دیکھئے کہ ان کے بیٹے اس مشکل میں ان کا سہارا نہ بنے۔ آج کل ٹویٹر پہ نظر آتے ہیں صرف ٹویٹس کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مریم کی طرح اس لڑائی کا حصہ ہیں جبکہ ایسا نہیں۔

مریم کے اندر تکبر اور غصہ نہ ہوتا تو شاید معاملات ایسے خراب نہ ہوتے۔ نواز شریف ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ رہے اور اسی لئے بہت وقت دیا گیا کہ سرینڈر کردیں۔ نواز شریف تو شاید سرینڈر کر بھی دیتے لیکن مریم نے ایسا نہ ہونے دیا۔ یہ فرق ہوتا ہے ایک عوامی لیڈر اور امپورٹڈ لیڈر کے مابین۔ عوامی آدمی خواہ مخواہ خود کو غیر ضروری معاملات اور فسادات میں الجھاتا نہیں بلکہ وہ بچ بچا کر اپنے مقاصد کی طرف متوجہ رہتا ہے۔

مریم نے جس ماحول میں پرورش پائی وہاں ارد گرد صرف حکم ماننے والے اور سر جھکا کے تابعداری کرنے والے لوگ تھے۔ اس لیے ہر کسی کو انگلی کے اشارے پہ نچانے کی خواہش نے مریم کو بہت نقصان دیا۔ اب جو لوگ آج مریم نواز کے جلسوں کو کامیابی قرار دے کر مستقبل میں کسی نوید کا انتظار کررہے ہیں وہ اس غلط فہمی سے نکل آئیں۔ مریم نواز نے اپنے سارے پتے میز پر غلط وقتوں میں پھینکے ہیں۔ وہ ضائع گئے۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان کا سیاسی مستقبل بلیک ہول میں جاچکا ہے

26 جولائی 2017 نواز شریف کی نا اہلی سے دو روز قبل بھی میں نے یہی بات لکھی تھی کہ مریم نواز کا سیاسی مستقبل بلیک ہول میں جاچکا اور نواز شریف کو نا صرف نا اہل کردیا جائے گا بلکہ ان کو بہت طویل مقدمات کا بھی سامنا رہے گا۔

میں آج بھی اسی طرح دیکھتی ہوں کہ اگر کوئی بہت انہونی بات نہ ہوئی تو مریم نواز اور ن لیگ دونوں اب ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ اگر ابھی بھی سمجھداری کی جائے تو مسلم لیگ سے ن ہٹا کر تمام مخلص اور سینئرز کو جمع کیا جائے اور کوئی متحدہ مسلم لیگ جیسا ٹائٹل دے کر نئے سرے سے پارٹی تشکیل دی جائے جس میں میرٹ اور اخلاص کی بنیاد پر عہدے دیے جائیں۔ البتہ مریم نواز کا مستقبل اب سیاست نہیں بلکہ مقدمات ہیں۔ نیب اور عدالتوں کے چکر کاٹنے کے سوا مزید کچھ نظر نہیں آتا۔ بس ان کے چاہنے والوں کو یہ تسلی رہے گی کہ بیٹی بھائیوں کی طرح بھاگی نہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
باپ جیل میں سڑ رہا ہے۔ بہن سڑکوں پر روزانہ خوار ہو رہی ہے۔ اور یہ موٹو گینگ قوم کی لوٹی ہوئی دولت ملک سے باہر انجوائے کرتے ہوئے ٹویٹر بیانات دے رہا ہے۔
اللہ ایسی اولاد کسی دشمن کو بھی نہ دے۔ آمین
 

جاسم محمد

محفلین
عظمی بخاری سمیت ن لیگ کے 150 کارکنوں کیخلاف پولیس پرحملے کا مقدمہ درج
ویب ڈیسک ہفتہ 10 اگست 2019
1774267-pmlnworkers-1565417587-299-640x480.jpg

احتساب عدالت لاہور میں مریم نواز کی پیشی پر کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوا تھا۔ فوٹو:فائل

لاہور: پولیس نے عظمی بخاری سمیت ن لیگ کے 150 کارکنوں اور رہنماؤں کیخلاف توڑ پھوڑ اور کارسرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کرلیا۔

احتساب عدالت لاہور میں مریم نواز کی پیشی پر گزشتہ روز کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوا تھا۔ اسلام پورہ پولیس نے 8 نامزد اور 150 نامعلوم افراد کےخلاف مقدمہ درج کرلیا جس میں توڑ پھوڑ، کارسرکار میں مداخلت سمیت نقص امن کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر میں عظمی بخاری، توصیف شاہ اور مہرمحمود احمد کے نام شامل ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے سکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر تشدد کیا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔ ملزمان کے پتھراؤ سے کانسٹیبل نثار کو سر پر پتھرلگنے سے گہری چوٹ آئی۔

لیگی رہنماؤں سمیت کارکنوں کے خلاف مقدمے کا اندراج سب انسپکٹر دلشاد کی مدعیت میں کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت لاہور میں مریم نواز کی پیشی کے دوران کارکنوں اور پولیس میں جھڑپ ہوئی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جمعیت علمائے ہند کی بھارت کے ساتھ وفاداری کا عالم یہ ہے کہ باقاعدہ اعلان کرکے ہر سال پندرہ اگست کو بھارت ماتا کی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔

دوسری طرف جے یو آئی پاکستان کی لیڈرشپ ہے جس نے جشن آزادی منانا تو دور، اس کو منانے والوں پر بھی فتوے عائد کردئیے۔

ابھی پچھلے سال کی بات ہے جب الیکشن ہارنے کے بعد فضلو نے اعلان کردیا تھا کہ وہ چودہ اگست یوم سیاہ کے طور پر منائے گا۔

اسی لئے تو کافر ترقی کررہے ہیں کہ انہیں ملا بھی ملے تو وفادار۔۔۔ ہمارے پاس تو چند ایک علما کو چھوڑ کر باقی سب کرپٹ یا غدار
(منقول) باباکوڈا
67931260_2449814708419803_2560300451199188992_n.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
علیمہ خاں کی سلائی مشینیں، مریم نواز کے لندن فلیٹ اور فریال تالپور کے جعلی اکاونٹ
20/08/2019 عمران باجوہ


کرپشن کے الزامات کی بات کی جائے تو پاکستان کی سیاست سے مردانہ زنانہ تفریق ختم ہوتی جا رہی ہے تاہم علیمہ خان (وزیر اعظم عمران خان کی بڑی بہن) کا معاملہ ذرا الگ ہے کہ وہ آزاد ہیں جبکہ دوسری دونوں (مریم نواز اور فریال تالپور) ، وزیر اعظم کی سیاسی مخالف ہونے کی بنا پرالزامات ثابت نہ ہونے کے باوجود جیل میں ہیں۔ حیران کن طور پر علیمہ خان امریکہ اور دبئی میں چار فلیٹوں کی مالک ہیں جبکہ مریم نواز پر ابھی صرف الزام ہے کہ ان کے لندن میں چار فلیٹ ہیں۔ نیب اور شہزاد اکبر کو فریال تالپور کی بیرون ملک جائیدادوں کا ابھی سراغ لگانا ہے۔ یہ ہے وہ تبدیلی اور برق رفتاری، تحریک انصاف جس کا دعویٰ کر رہی ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی ثقافتی اور سماجی اخلاقیات سے واضح انحراف (پی ٹی آئی کی زبان میں یو ٹرن) ہے، اور پاکستان کے عوام نے اسے قبول نہیں کیا۔

سیاست اور سیاسی اختلافات یہاں تاریخی طور پر مردوں کے میدان رہے ہیں تاہم یہ نیا رجحان مستقبل میں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ تینوں معاملات کا الگ الگ تجزیہ کرتے ہیں :

اسی سال جنوری میں علیمہ خان کی ٹیکس ریٹرن دستاویزات انویسٹی گیٹو جرنلسٹ احمد نورانی کے ہاتھ لگیں، جس نے پتہ چلا کہ امریکہ کے یہ چاروں فلیٹ 2004 سے علیمہ خان کی ملکیت ہیں مگرٹیکس ریٹرنز میں ان کا ذکر 14 سال بعد یعنی 2018 میں کیا گیا۔ انہوں نے اس حوالے سے کوئی منی ٹریل بھی پیش نہیں کی اور نیب نے بھی اس بارے پوچھنے کی تکلیف نہیں کی۔ ان فلیٹوں کی مالیت 30 لاکھ ڈالر یا 48 کروڑ روپے ہے۔ یہ بدستور ایک معمہ ہے کہ ایک خاتون جنہوں نے 2016 میں 130794 روپے انکم ٹیکس جمع کروایا، بیرون ملک 48 کروڑ روپے کی جائیداد کیونکر بنا سکتی ہیں۔

ہماری تبدیلی ایف بی آر نے شاید انصاف کی نظر سے علیمہ خان کی ویلتھ سٹیٹمنٹ نہیں دیکھی، جس میں انہیں اپنی جائیدادوں کے حقیقی مالی وسائل پیش کرنا تھے۔ یہ واضح طور پر ایک آڈٹ کیس ہے۔ اگر موجودہ حکومت بلند اخلاقی معیار کا دعویٰ کرتی ہے تو کیا یہ مبنی بر انصاف نہ ہو گا کہ علیمہ خان صاحبہ کی دولت کے وسائل کا بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے جس کا مطالبہ شریف اور زرداری خاندان سے کیا جاتا ہے؟

اس انکشاف سے قبل نواز شریف نے علیمہ خان کے دبئی میں فلیٹوں کا ذکر کرتے ہوئے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے کا از خود نوٹس لیں۔ مختصر ٹرائل کے بعد چیف جسٹس نے واضح طور پر نیب اور جے آئی ٹی کو اس معاملے سے دور رکھتے ہوئے ایف آئی اے اور ایف بی آر کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ ان جائیدادوں کو ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہ کرنے پر وہ جرمانے کا تعین کریں۔ مگر یہ سبھی یا ان میں سے کوئی ایک فلیٹ بھی کن ذرائع آمدن سے خریدا گیا، یہ کبھی اور کہیں بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔

علیمہ خان نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دبئی والا فلیٹ 2007 میں سات کروڑ روپے میں خریدا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وہ دو کروڑ 94 لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کریں، جیسا کہ ایف بی آر نے متعین کیا۔ اس سال 25 جنوری تک انہوں نے اس کا کچھ حصہ ادا کیا، مگر جرمانے کی یہ رقم کتنی تھی؟ علیمہ خان، ایف بی آر یا سپریم کورٹ کی طرف سے اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔ فرض کریں کہ انہوں نے اگر جرمانے کی یہ رقم پوری بھی ادا کر دی ہے تو ان کے لیے، ایف بی آر کے لیے یا سپریم کورٹ کے لیے اس کا اظہار کرنے میں کیا امر مانع ہے۔

جب میڈٰیا کی جانب سے علیمہ خان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے یہ رقم کیسے کمائی؟ تو ان کا جواب تھا ”سلائی مشینوں سے۔“ کاٹ کوم سورسنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے ٹیکسٹائل کے شعبے میں علیمہ خان کا غیر معروف بائنگ/کوالٹی ہاؤس پچھلے تین سال تک اوسطاً 20 لاکھ روپے ٹیکس دیتا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس فرم کا بعد از ٹیکس منافع 60 لاکھ روپے کے لگ بھگ تھا۔ اس طرح فرم میں 50 فیصد کی حصہ دار ہونے کے ناطے علیمہ خان کی ماہانہ آمدن اڑھائی لاکھ بنتی ہے۔

ان کے لائف سٹائل کے مقابلے میں یہ معمولی آمدن ہے، چنانچہ یہ فلیٹ خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ اس کی منی ٹریل کہاں ہے؟ جیسا کہ ان کا بھائی عمران خان نواز شریف سمیت ہر ایک سے پوچھتا پھرتا ہے۔ کیوں نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور عدالتیں آمدن سے زائد اثاثوں کے اس کیس میں خاموش ہیں۔ وقتاً قوقتاً اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے منی ٹریل کے مطالبے کے سوا یہ معاملہ عملاً دم توڑ چکا ہے۔

مریم نواز شریف پر الزام ہے کہ وہ ایون فیلڈ میں چار اپارٹمنٹس کی مالک ہیں، جن کی مالیت سات ملین پاؤنڈ ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نواز شریف کے آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں اعانت جرم میں مریم کو آٹھ سال قید کی سزا سنا چکی ہے۔ مریم، نواز شریف اور کیپٹن صفدر کی یہ سزا اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دی اور بعد ازاں جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے بھی یہ معطلی برقرار رکھی۔

معاملہ جو بھی ہو یہ چار اپارٹمنٹ 1993۔ 96 کے دوران ایک ملین پاؤنڈ سے کم میں خریدے گئے تھے۔ پاکستان میں ہزاروں گھر ایسے ہیں جو اس سے زیادہ قیمتی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گئے گوشواروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا بنی گالا کا گھر چار ملین پاؤنڈ مالیت کا ہے۔ چوہدری شوگر ملز کیس میں نیب نے عید سے تین دن قبل، آٹھ اگست 2019 کو ایک بار پھر، بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے، مریم نواز کو گرفتار کر لیا۔ جس جلد بازی اور جس انداز میں یہ گرفتاری ہوئی اس سے ظاہر ہے کہ یہ سوائے انتقامی کارروائی کے کچھ اور نہیں ہے۔ اس طرح کے بیہودہ الزام میں ان کی گرفتاری کا مقصد صرف ان کی اختلافی سیاسی تحریک پر روک لگانا ہے۔

بعد ازاں شاید اس گرفتاری کو سیاسی توازن دینے کے لیے آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کو چاند رات کو پولی کلینک سے، جہاں وہ ہائی شوگر کے علاج کے لیے موجود تھیں، بے دردی و بے حسی کا مظاھرہ کرتے ہوئے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ یہ بلاول بھٹو کے لیے واضح پیغام تھا، جنہوں نے تین دن قبل مریم نواز کی گرفتاری پر وزیراعظم کو ”بے غیرت“ کا خطاب دیا تھا کہ وہ سابق صدر اور سابق وزیر اعظم کی رشتے دار خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کسی کو بھی علم نہیں ہے کہ فریال تالپور کے خلاف کیس کیا ہے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی تفصیلات خود نیب کے پاس بھی نہیں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسی انتقامی سیاست اور یک طرفہ انصاف دیکھنے میں نہیں آیا۔
 
جاسم محمد ! ہمت ہے آپ کی۔۔۔پورے پورے کالمز چسپاں کر دیتے ہیں۔:)
پورا کالم چسپاں کرنے میں تو کوئی ہمت کی بات نہیں، البتہ صبح سویرے اُٹھ کر پارٹی کا پورا اخبار (تمام کالموں تمام خبروں سمیت کاپی پیسٹ کرنا ضروری ہمت کا کام ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شہباز شریف میری پارٹی کے آدمی ہیں لیکن پھنس گئے ہیں، شیخ رشید
ویب ڈیسک جمعرات 22 اگست 2019
1785300-shaikhrasheed-1566466697-281-640x480.jpg

شہباز شریف نہ ہی اپنے خون اور نہ ہی سیاست کو بچاسکیں گے، وزیر ریلوے فوٹو:فائل

لاہور: وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ مریم نواز نے سارے خاندان کی سیاست کو تباہ و برباد کردیا اور شہباز شریف میری پارٹی کے آدمی ہیں لیکن پھنس گئے ہیں۔

وزیر ریلوے شیخ رشید نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ نے نیب قوانین میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے، بیورو کریسی کی وجہ سے کام میں مشکلات ہیں، بیورو کریٹس کام نہیں کررہے اور ڈرے ہوئے ہیں، وزیراعظم کو بھی بتا چکا ہوں کہ بیوروکریٹس کام نہیں کررہے اور ہینڈز اپ کرچکے ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف کےلئے یہ سارے کام کرتے رہے ہیں، لیکن عمران خان کی حکومت میں نہیں کررہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ مریم نواز نے ساری مصیبت اپنے سر مول لی اور سارے خاندان کی سیاست کو تباہ و برباد کردیا، جج ویڈیو اسکینڈل شریف خاندان کو مروائے گا، شہباز شریف سمجھدار اور میری پارٹی کا آدمی ہے لیکن وہ پھنس گئے ہیں، ایک طرف ان کا خون اور دوسری طرف سیاست ہے، لیکن وہ نہ ہی خون اور نہ ہی سیاست کو بچاسکیں گے۔

وزیر ریلوے نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کا زوردار مقدمہ لڑا، کوئی شملہ نہ واجپائی معاہدہ رہا ہے، بھارت سے مذاکرات کے سارے دروازے بند ہوچکے، اب عمران خان نے فیصلہ کرنا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
طاقتور ترین وزیراعظم کا مستقبل
23/08/2019 اعزاز سید



وزیراعظم عمران خان سے طاقتور شخصیات نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تبدیل کر دیں۔ بزدار کی جگہ ایسا وزیراعلیٰ لائیں جو انتظامی امورکا تجربہ بھی رکھتا ہو اور پنجاب جیسے صوبے کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی۔ وزیراعظم نے سنی ان سنی کردی۔ وزیراعلیٰ بدلنا تو کجا بلا وجہ کسی وزیر کو بھی نہ ہلایا گیا۔

مرکز میں وفاقی کابینہ کے بعض وزرا کےبارے میں شکایات آئیں تو وزیراعظم نے توقف کیے بغیر خود فیصلہ کیا کہ کسے کونساعہدہ دیا جائے۔ معیشت کے میدان میں البتہ معاونت ضرور لی گئی کیونکہ معیشت کے اہم ترین موضوع کے لیے ادارہ جاتی صلاحیت انفرادی صلاحیت پر بہرحال مقدم ہوتی ہے۔

دورہ ایران کے دوران 23 اپریل کو وزیراعظم عمران خان نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ تہران میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ، “میرے علم میں ہے کہ ایران پاکستان کے اندر کام کرنے والے بعض دہشت گرد گروپوں سے نقصان اٹھاتا رہا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے”۔ ایک سرکاری افسر کو وزیراعظم کا یہ بیان ناگوار گزرا اور اس نے وفد کے کچھ وزرا کے سامنے اس کا اظہاربھی کر دیا۔ وزیراعظم کو پتہ چلا توکچھ عرصے میں اس افسر کا بستر بھی گول کر دیا گیا اور اس کی جگہ وزیر اعظم نے اپنی پسند کا افسر تعینات کر دیا۔

اپوزیشن جماعتوں نے مل کرچیرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو ابتدا میں وزیراعظم عمران خان صادق سنجرانی کو بچانے کے لیے سنجیدہ نہ تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایک طاقتور پرزے نے انہیں بتایا کہ جناب آج اپوزیشن سنجرانی کو ہٹانے میں کامیاب ہوگئی تو کل سپیکر قومی اسمبلی اور پرسوں آپ پر وار کرے گی۔ وزیراعظم کو بات سمجھ میں آئی اور انہوں نے اشارہ دے دیا۔ نتیجے میں سنجرانی کی واضح ناکامی ایک رات میں کامیابی میں بدل دی گئی۔

پنجاب میں کامیاب جلسوں کے ذریعے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی مریم نواز کو ایک اجلاس کے دوران وزیراعظم کی طرف سے ” پھولن دیوی” کا خطاب دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ گرفتاری کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور مریم نواز کو نیب میں چوہدری شوگر ملز کیس کی روشنی میں ۸ اگست کو لاہورسے گرفتارکرلیا گیا۔ مریم نواز کو عین اس وقت گرفتار کیا گیا کہ جب وہ اپنے بچوں کے ہمراہ جیل میں قید اپنے والد میاں نوازشریف سے ملاقات کر رہی تھیں۔ بیٹی کو اپنے بچوں اور اپنے والد کے سامنے گرفتار کیا گیا۔

پاکستانی ریاست روایتی طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے بارے میں ایک مخصوص رائے کی حامل ہے۔ اس حساس معاملے پر جب کبھی کوئی غلطی ہوئی تو وقت کے حکمرانوں کو اس کے ردعمل کے طور پر گھر جانا پڑا مگر بھارت کے حوالے سے کشمیرکے بارے میں حالیہ کڑے فیصلوں نے بھی وزیراعظم کو بظاہر کسی ہزیمت کا شکار نہیں کیا۔ وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک صفحے پر نظر آئے۔

اس سارے پس منظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع بھی کر دی جس نے وزیر اعظم کو بظاہر مزید مستحکم اور طاقتور کر دیا ہے۔ اس توسیع کا اشارہ وزیراعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں بھی نظر آرہا تھا۔ امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدہ ایک اہم موڑ پر ہے جس کے باعث یہ توسیع بڑی اہم ہے لیکن اس توسیع کے ملکی داخلی صورتحال پر زیادہ اثرات مرتب ہونگے۔ اپوزیشن مایوسی کا شکار ہو گی اور حکومت کے اعتماد میں مزید اضافہ۔

کم وہ بیش دو دہائیوں پر مبنی صحافتی کیرئیر کے دوران نو وزراعظم کو دیکھنے اور ان کے مختلف اقدامات کو رپورٹ کرنے کا اتفاق ہوا۔ یقین مانیے کسی وزیراعظم کے پاس وہ اختیار تھا نہ حمایت جو موجودہ وزیراعظم عمران خان کو آج حاصل ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، وزیراعظم عمران خان مکمل طور پر بااختیار وزیراعظم ہیں۔ وہ ہرگز ڈمی نہیں لیکن انگریزی زبان کا ایک مقولہ ہے۔

Power tends to corrupt, absolute power corrupts absolutely

ترجمہ : اختیار میں بدعنوانی کی ترغیب ہوتی ہے لیکن مطلق اختیار آپ کو مکمل طور پر بدعنوان بنا دیتا ہے۔ انگریزی زبان کی یہ کہاوت اکثر معاملات میں درست ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں جب بھی کسی کے پاس بھرپور طاقت و اختیار ہوا، اسی وقت اس سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ یہی غلطیاں انگلی پکڑ کر طاقتور حکمران کو تباہی کے ایسے راستے پر چھوڑ آتی ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

اس وقت اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وزیراعظم کی احتساب پالیسی تین چار بنیادی جہتوں پر مشتمل ہے۔ مخالف سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات ڈھونڈنے میں ہمارے دوست اور وزیراعظم کے شرلک ہومز جناب بیرسٹر شہزاد اکبر دن رات کام کر رہے ہیں۔ ان مقدمات کی روشنی میں نیب گرفتاریاں عمل میں لا رہی ہے اور کچھ خدمات وزیر داخلہ جناب بریگیڈِئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ سب سےاہم یہ کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں پاک فوج وزیراعظم عمران خان کو مکمل طور پر تعاون فراہم کر رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو مذہب سے بھی گہرا لگاو ہے۔ وہ ذاتی طورپر سختی سے اپنی اہلیہ کی روحانی ہدایات کے عین مطابق کام کررہے ہیں۔ 18 ماہ سے انہوں نے کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کیا کہ جس سے انہیں ان کی اہلیہ نے روک رکھا ہو۔ حتیٰ کہ وہ اپنی سابق اہلیہ جماِئما خان سے بھی بات نہیں کرتے۔ اس وقت عمران خان ایسے وزیراعظم ہیں جو مکمل طور پر بااختیار ہیں، انہیں فوج کی مکمل مدد و معاونت دستیاب ہے اور وہ روجانی طور پر اپنی اہلیہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سب کچھ ایسا ہی چلتا رہے گا؟ اور وہ سدا با اختیار ہی رہیں گے؟

اگر تاریخ کوئی پیمانہ ہے تو ہرعروج کو زوال ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ مکمل اختیارات کے حامل وزیراعظم عمران خان رواں سال اکتوبر تک ہی طاقتور ترین رہیں گے۔ اس کے بعد ان کی طاقت کمزوری بنتی جائے گی۔ ان کے دوست بھی دشمن بنتے جائیں گے۔

وزیراعظم چاپلوسوں اور درباریوں کے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ فی الحال پکڑ لو پکڑ لو اور واہ واہ کی صداوں میں ان کے اردگرد سچ بولنے والے بھی آئے روز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ محل کی فصلیں لمبی کر لینے سے بیرونی خطرات اور اندرونی سازشیں ختم نہیں ہوتیں۔ ابتر معاشی صورتحال اور لامتناہی طاقت کے نشے میں کیے گئے فیصلوں کے باعث عدم اعتماد پیدا ہونا نوشتہ دیوار ہے کیونکہ کامیابی کے سارے دعویدار ہوتے ہیں اور ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ الزام دوسرے پر ہی عائد کیا جاتا ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع تو کر دی گئی ہے لیکن یہ توسیع وزیراعظم عمران خان کی بطور وزیراعظم پانچ سال مکمل کرنے کی ضمانت ہرگز نہیں ہے۔ وزیراعظم کے اقتدارکا استحکم معاشی استحکام اور اصلاحات سےجڑا ہوا ہے اور یہ دونوں معاملات سیاسی استحکام سے بندھے ہوئے ہیں۔ جب تک عوام کو آسودگی نہ ملے اور وہ مطمئن نہ ہوں، محلوں کی فصیلیں بلند کرنے سے اقتدار کو تحفظ نہیں مل سکتا۔

میرے خیال میں رواں سال کے آخر تک بہت سے حلقےوزیراعظم کی تبدیلی کے بارے میں اپنی سوچ لازمی تبدیل کریں گے وقت آگے پیچھے ہوسکتا ہے لیکن تاریخ کا فیصلہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔ تبدیلی روکنےکے لیے کارکردگی ہی واحد راستہ ہے جو فی الحال کہیں نظر نہیں آرہی۔ دوسرا قوی امکان تبدیلی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نئی تبدیلی لڑائی کے بعد آئے گی یا اس کے مقدر میں چپ چاپ رخصتی لکھی جائے گی۔ ہرصورت میں طاقت کا یہ کھیل عوام کے لئے دلچسپی کا سامان فراہم کرتا رہے گا۔

 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم عمران خان کا فواد چوہدری کو ترجمان مقرر کرنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1786354-fawadx-1566544418-110-640x480.jpg

فواد چوہدری بطور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی وزیراعظم کے ترجمان کے فرائض بھی انجام دیں گے، ذرائع فوٹو : فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے فواد چوہدری کو اپنا ترجمان مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنا ترجمان تبدیل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے، ذرائع کے مطابق وفاقی وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو وزیراعظم عمران خان کا ترجمان مقررکیا جائے گا، فواد چوہدری بطور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی وزیراعظم کے ترجمان کے فرائض بھی انجام دیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ترجمان ندیم افضل چن نے وزیراعظم عمران خان سے معذرت کی ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں نہیں جب کہ فواد چوہدری کو ترجمان وزیراعظم مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن آئندہ چند دنوں جاری کیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق فاٹا انتخابات مکمل ہونے کے بعد افتخار درانی بھی “سائیڈ لائن” کردیے گئے، افتخار درانی بطور معاون خصوصی وزیراعظم آفس میں دفتر میں نہیں بیٹھتے جب کہ گزشتہ کابینہ اجلاسوں میں افتخار درانی کو مدعو کیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہاں یہ سازش ہے
جاوید چوہدری جمعہ۔ء 23 اگست 2019


’’تم اب کیا کہتے ہو؟‘‘ وہ غور سے میری طرف دیکھ رہا تھا‘ میں نے سر ہلا کر کہا ’’میرا دل نہیں مانتا لیکن میں اس کے باوجود تمہارے خیالات سے اتفاق پر مجبور ہو رہا ہوں‘‘ وہ ہنسا اور کپ پرچ میں رکھ کر بولا ’’تم دو ماہ انتظار کرو‘ تمہارا دل بھی مان جائے گا‘‘ میں نے کچھ سوچا‘ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن پھر خاموش ہو گیا۔

ہم دونوں کے درمیان دو سال سے بحث چل رہی تھی‘ وہ کہتا تھا ہمارے ملک کے خلاف ایک خوف ناک سازش ہو رہی ہے‘ ہمیں تین چار ملک مل کر پھنسا رہے ہیں‘ بھارت ان میں سب سے آگے ہے‘ یہ افغانستان میں بیٹھ گیا اور اس نے وہاں سے بلوچستان میں بھی گڑ بڑ شروع کر دی اور یہ طالبان کے ساتھ مل کر کے پی کے‘ پنجاب اورسندھ میں بھی تباہی پھیلانے لگا‘ ملک میں بم دھماکے ہوئے‘انٹرنیشنل میڈیا کے مالکان یہودی ہیں اور اسٹاف بھارتی چناں چہ یہ دھماکے پوری دنیا کے میڈیا میں بڑھا چڑھا کر دکھائے گئے۔

دنیا کے ذہن میں پاکستان کا منفی امیج پیدا ہو گیا‘ سرمایہ کار‘ سیاح اور خریدار پاکستان سے بھاگ گئے‘ سفارت خانوں میں بھی عملہ کم ہو گیا‘ پھر افغانستان میں امریکی فوجیوں اور افغان تنصیبات پر حملے کیے گئے اور الزام پاکستان پر لگا دیا گیا‘ امریکا اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں‘ پھر مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان میں دہشتگردی کی وارداتیں ہوئیں اور بھارتی سرکار نے ’’یہ پاکستان سے ہو رہا ہے‘‘ اور ’’یہ لوگ ذمے دار ہیں‘‘ کا واویلا کر کے دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ لیں‘ پاکستان کے لیے حالات مشکل ہو گئے‘ ہم نے پالیسی تبدیل کی اور دور کے بھائی کے بجائے ہمسائے کے چچا کو راضی کرنا شروع کر دیا‘ آصف علی زرداری نے روس کو ساتھ ملایا اور نواز شریف سی پیک کے ذریعے چین کو پاکستان لے آئے‘ ہمیں دو بڑی لائف لائنز مل گئیں لیکن پھر ملک کے اندر سے بار بار ایسی حرکتیں کی گئیں۔

جن کے نتیجے میں روس اور چین دونوں کا دل ٹوٹ گیا‘ سی پیک پر بھی کام بند ہو چکا ہے‘ اورنج لائن ٹرین منصوبے سمیت چین کے تمام پراجیکٹس بھی رک چکے ہیں‘ دس برسوں میں تھوڑی بہت غیر ملکی سرمایہ کاری ہو رہی تھی وہ بھی بند ہو گئی‘ ملک اٹھا کر ناتجربہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا اور ناتجربہ کاروں نے ملک کی ہر چیز منجمد کر دی‘ ملک کے اندر تین معاشی سیکٹر چل رہے تھے‘ رئیل اسٹیٹ‘ موبائل فون اور پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز‘ یہ تینوں مل کر جیسے تیسے معیشت کا پہیا چلا رہے تھے لیکن پھر یہ بھی ’’سلو ڈاؤن‘‘ کرا دیے گئے‘ فیکٹریوں کو سسکنے پر مجبور کر دیا گیا‘ اسٹاک ایکسچینج کا جنازہ نکال دیا گیا اور تجارت اور کاروبار کو تالے لگا دیے گئے‘ ٹیکس اور شفافیت کا نام لے کر ہر چلتی چیز بند کر دی گئی‘ صرف جنگ کی کسر بچی تھی۔

یہ کسر بھی اب پوری ہوتی نظر آ رہی ہے اور یہ سب سازش کا حصہ ہے‘ عالمی طاقتیں ملک کو گھسیٹ کر 1971ء کی پوزیشن پر لے آئی ہیں‘ ہم اگر تاریخ پڑھیں تو امریکی صدر رچرڈ نکسن1971ء میں جنرل یحییٰ خان کو ساتویں بحری بیڑے کا لارا دیتے رہے تھے‘ ہم انکل سام کی راہ دیکھتے رہ گئے اور ملک ٹوٹ گیا‘ ہمیں اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کا لولی پاپ دے کر جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا‘ وہ ماضی میں بار بار کہتا تھا ’’ہم سازش کا شکار ہو رہے ہیں‘‘ لیکن میں نہیں مانتا تھا‘نئی حکومت آئی‘حکومت کے ہر قدم کے بعد میری عقل سمجھاتی رہی یہ بازی ٹھیک نہیں بیٹھ رہی مگر دل کہتا تھا یہ لوگ نیک نیت ہیں‘ یہ ملک کو تباہ نہیں ہونے دیں گے لیکن حکومت کے ایک سال بعد ہم جہاں پہنچ چکے ہیں یہ حالات نارمل نہیں ہیں‘ ہم تیس سال پیچھے جا چکے ہیں‘ ہم کھجور میں اٹکے ہوئے ہیں بس شاخیں ہلنے کی دیر ہے اور ہم دھڑام سے نیچے ہوں گے۔

یہ کل پھر آ گیا اور مجھ سے پوچھا ’’تم اب کیا کہتے ہو‘‘ میں نے جواب دیا ’’میرا دل اب بھی نہیں مان رہا‘‘ وہ دیر تک ہنستا رہا‘ مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا یہ بات غلط نہیں کر رہا‘ ہمیں آئی ایم ایف نے صرف چھ بلین ڈالر کے لیے جس طرح ذلیل کیا‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں جس طرح بڑھائی گئیں‘ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جس طرح اجنبیت کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں‘ احتساب کے نام پر جو کیا گیا‘ ڈالر کے ساتھ جو ہوا اور جس طرح ملک کو ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ میں ڈال دیا اور ہمیں بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے جو شرائط دی گئیں یہ تمام چیزیں نارمل نہیں ہیں‘ آپ صرف ایف اے ٹی ایف کو لے لیجیے‘ ملک میں باہر سے جتنی رقوم آ رہی تھیں‘ یہ اب بین الاقوامی اداروں کی نظر میں ہیں۔

ہمیں جس دن کسی ملک سے غلطی سے بھی غلط رقم آ گئی ہم پھنس جائیں گے‘ نریندر مودی نے جان بوجھ کر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا اور آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر دیا‘ مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب سے خراب تر کیے جا رہے ہیں‘ یہ سیدھا سادا پھندا ہے‘ ہم اگر کشمیر کی صورت حال پر خاموش رہتے ہیں تو 70 سال سے قربانیاں دینے والے کشمیری ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور ہم اگر اپنے کشمیری بھائیوں کی عملی مدد کرتے ہیں‘ اگر آزاد کشمیر کے شہری اسلحہ لے کر مقبوضہ کشمیر پہنچ جاتے ہیں یا پھر بھارت میں دہشتگردی کی کوئی بھی واردات ہو جاتی ہے تو ہمیں ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ میں ڈال دے گی اور بلیک لسٹ کا سیدھا سادا مطلب ہو گا ڈالر پندرہ سو روپے کے برابر ہو جائے‘ پٹرول سمیت تمام درآمدات بند ہو جائیں‘ فلائٹ رک جائیں‘ سودے منسوخ ہو جائیں اوراوورسیز پاکستانیز بھی اپنی رقم ملک میں نہ بھجوا سکیں۔

ہم بری طرح دیوالیہ ہو جائیں‘ نریندر مودی ہم سے یہ غلطی بھی کرانا چاہتا ہے اور یہ ہمیں سلامتی کونسل میں بھی پھنسانا چاہتا ہے‘آپ سلامتی کونسل کی ہیت دیکھ لیں ‘سلامتی کونسل کے پانچ ممبر مستقل ہیں اور 10 عارضی‘ مستقل ملکوں میں امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ چین اور فرانس شامل ہیں جب کہ دس غیر مستقل ملکوں میں بیلجیم‘ کوٹے ڈی آئیوری (آئیوری کوسٹ)‘ ڈومینکن ری پبلک‘ ایکوا ٹوریل گنی‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ کویت‘ پیرو‘ پولینڈ اور ساؤتھ افریقہ ہیں‘ ان پندرہ ملکوں میں صرف دو مسلمان ہیں‘ کویت اور انڈونیشیا‘باقی تمام ممالک چھوٹے بھی ہیں اور امریکا اور فرانس کے زیر اثر بھی‘ سلامتی کونسل کے 16 اگست کے بند کمرے کے اجلاس میں انڈونیشیا اور کویت دونوں نے ہماری مدد نہیں کی‘ کویت کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں۔

کویت نے 2011ء سے پاکستانیوں کے ویزے بند کر رکھے ہیں جب کہ یہ 15 ملک بھارت کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں‘ بھارت اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 142بلین ڈالر‘ روس کے ساتھ ساڑھے آٹھ بلین ڈالر‘ چین کے ساتھ100 بلین ڈالر‘ برطانیہ کے ساتھ25 بلین ڈالر اور فرانس کے ساتھ 12ارب ڈالر ہے‘ یہ فرانس سے 60 بلین ڈالر کے رافیل طیارے بھی خرید رہا ہے‘ بھارت نے سلامتی کونسل کے غیر مستقل ملکوں کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔

ہم نے بے شک 16 اگست کو سلامتی کونسل میں پہلا مرحلہ عبور کر لیا‘ سلامتی کونسل نے کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ ماننے سے انکار کر دیا‘ چین اور روس نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا اور ہم نے پہلی دہلیز پار کر لی لیکن اس سے آگے کا سفر آسان نہیں کیوں کہ ہمارے سامنے اب دو سوال منہ کھول کر کھڑے ہیں‘ کیا ہم سلامتی کونسل میں اپنی قرار داد منظور کرا سکیں گے اور کیا اقوام متحدہ کشمیر کا مسئلہ حل کرا سکے گی؟ یہ دونوں کام آسان نہیں ہیں‘ کوئی معجزہ ہی ہو گا جس کے ذریعے ہم ریچھ کے کھچار سے شہد نکال لائیں چناں چہ مجھے خطرہ ہے ہم سلامتی کونسل کی دلدل میں دھنس کر رہ جائیں گے‘ دنیا کے پانچ بڑے ریچھ ہماری قرارداد کو قبول کر کے ہمیں خوش کر دیں گے اور یہ قرارداد کسی ریک میں رکھ کر بھارت کو بھی بغلیں بجانے کا موقع دے دیا جائے گا اور بس۔

وہ اب بھی کہہ رہا تھا ’’یہ حالات نارمل نہیں ہیں‘ ہمیں افغانستان میں بھی پھنسا دیا گیا‘ ہمیں بلوچستان میں بھی الجھا دیا گیا‘ ہماری بھارتی سرحد کو بھی گرم کر دیا گیا‘ ہمارے فاٹا میں بھی سیاسی بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں‘ مقبوضہ کشمیر کا تنور بھی دہکا دیا گیا‘ ہماری معیشت کا بیڑہ بھی غرق کر دیا گیا‘ ہمارے لیے مہنگائی‘ بیروزگاری اور گورننس کے مسائل بھی پیدا کر دیے گئے‘ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بھی جنگ چھیڑ دی گئی‘ الیکشن اور حکومت کو بھی متنازع بنا دیا گیا‘ ہمیں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے دروازے پر بھی جھکا دیا گیا اور آخر میں ہمیں اب جنگ کی طرف بھی دھکیلا جارہا ہے۔

یہ تمام حالات منہ سے بول رہے ہیں ہم ٹریپ ہو گئے ہیں‘ ہم کسی عالمی سازش کا رزق بھی بن رہے ہیں اور ہم ان جانے میں اس سازش کا اہم مہرہ بھی ہو چکے ہیں‘‘ وہ رکا اور بولا ’’مجھے خطرہ ہے آج نہیں تو کل عوام بے شمار سوال اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ پوچھیں گے ہم اگر اتنے ذہین تھے تو ہم نے وقت سے پہلے طوفان کا اندازہ کیوں نہیں کیا اور اپوزیشن اگر کرپٹ تھی تو ہم نے ان کرپٹ لوگوں سے کتنا مال مسروقہ برآمد کیا‘ وہ اربوں روپے کہاں ہیں جو یہ لوگ لوٹ کر کھا گئے تھے؟ یہ سوال آج اتنے خطرناک نظر نہیں آ رہے جتنے یہ کل خطرناک ہوں گے۔

ہم اگر کل تک زندہ رہے تو‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ مجھے پہلی بار اس کی بات میں مکمل وزن محسوس ہوا‘ ہم واقعی سازش کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ کوئی چھوٹی سازش نہیں‘ یہ پورے خطے کا جغرافیہ بدلنے کی سازش ہے اور ہمارے لوگ اس سازش کا حصہ ہیں‘ اس کا کہنا تھا ’’آپ بڑے سائز کا کاغذ لو‘ اس پر ملک کا نقشہ بناؤ‘ اندرونی اور بیرونی حالات کو توپوں کی شکل دو اور یہ توپیں مختلف جگہوں پر لگا دو‘ تمہیں ہر چیز سمجھ آ جائے گی‘ تمہیں اس سیناریو میں صرف دو چیزوں کی کمی نظر آئے گی‘ بیرونی جارحیت یا اندرونی خانہ جنگی اور بس‘ اﷲ کرم کرے‘ ہم اگر اندر سے لڑ پڑے یا پھر باہر سے جنگ آ گئی‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں بھی چپ ہو گیا‘ ہم دونوں منہ سے بری بات نہیں نکالنا چاہتے تھے۔
 
Top